احمدیوں پر ہونے والے مظالم(1982ء تا 2003ء ) مختصر جائزہ (قسط نمبر 3۔ آخری)
احمدیہ مسجد مردان کا انہدام
اگست 1986ء کو مردان (پاکستان) میں عید کے دن جب افرادِ جماعت مرد و زن اور بچے عید پڑھ کر فارغ ہوئے ہی تھے۔ پیشتر اس کے کہ ان میں سے کوئی مسجد سے باہر جاتا بعض مسلمان کہلانے والے جنونی ملّاں حکومت کی سرپرستی میں، حکومت کے نمائندوں، ان کے افسران اور پولیس کے ساتھ دو تین سو کی تعداد میں مسجد پر حملہ آور ہوئے۔ پولیس نے اندر داخل ہو کر یہ اعلان کیا کہ وہ جماعت کے چار سرکردہ دوستوں کو گرفتار کریں گے۔ جب ان کو گرفتار کرنے کی کوشش کی گئی تو تمام موجو د احمدی مردوں، عورتوں اور بچوں نے یہ اصرار کیا کہ ان کو تم اگر قید کرو گے تو ہم سب کو قید کر کے لے جانا پڑے گا۔ چنانچہ ان سب کو پولیس نے اپنی حراست میں لے کر ویگن بھر کر حوالات میں داخل کرنا شروع کیا اور جب مسجد خالی ہو گئی تو پھر ان تمام حملہ آوروں نے پولیس کی معیّت میں اور اس کی حفاظت میں مسجد پر ہلّہ بول دیا اور مسجد کو شہید کرنا شروع کر دیا۔منہدم کرنے سے پہلے انہوں نے مسجد کے قالین، پنکھے اور دیگر قیمتی اشیاء کو سمیٹا اور جس کے ہاتھ میں جو چیز آئی وہ لے اڑا۔ ان حملہ آوروں کا یہ حال تھا کہ جب وہ مسجد پر ہلّہ بولتے تھے اور اسے مسمار کرتے تھے تو نعرہ ہائے تکبیر بھی بلند کرتے تھے اور ’لَبَّیْک اَللّٰھُمَّ لَبَّیْک‘ کہتے تھے کہ اے اللہ! ہم تیری آواز پر لبّیک کہتے ہوئے تیری عبادتگاہوں کو مسمار کر رہے ہیں۔کونسا اللہ ہے جس کو مخاطب کر کے وہ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْک کہتے تھے! یقیناً وہ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ تو نہیں جو غیروں کی عبادتگاہوں کی بھی حفاظت کی تعلیم دیتا ہے، وہ خدا جو عیسائیوں کے معابد کی حفاظت کی بھی تعلیم دیتا ہے، وہ خدا جس نے تمام دنیا کے معابد کی حفاظت کی تعلیم دی بلکہ مسلمانوں کو ان کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ ان ظالموں نے جنہوں نے اللہ کے نام پر اور اسلام کے نام پر مسجد کو شہید کرنا شروع کیا انہوں نے مسجد احمدیہ سے جتنے قرآن کریم کے نسخے نکلے ان کو پھاڑ کر وہاں گندی نالیوں میں پھینکا، ان کو پاؤں تلے روندا اور بعض بدبختوں نے اس پر پیشاب کیا اور ساتھ نعرہ ہائے تکبیر بلند کر رہے تھے۔
(ماخوذ از خطبہ جمعہ فرمودہ 22؍ اگست و 29؍ اگست 1986ء)
ننکانہ صاحب ، اور چک نمبر563گ ب
مؤرخہ 12؍ اپریل1989ء کو ضلع شیخوپورہ کے علاقہ ننکانہ صاحب اور چک نمبر563گ ب میں ’عالمی تحریک تحفظ ختمِ نبوت ‘ کی زیرِ سرپرستی مخالفین کے ایک جلوس نے احمدیوں کے گھروں پر حملہ کیا۔ ان کو لوٹا، ان کو آگیں لگائیں۔ HRCP(ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان) کی رپورٹ کے مطابق اس واقعہ کی تفصیل کچھ اس طرح سے ہے کہ مؤرخہ11؍اپریل کی شام ننکانہ صاحب کی ایک مسجد سے اعلان ہونا شروع ہوئے کہ چک نمبر 563گ ب میں احمدیوںنے قرآن شریف کو (نعوذ باللہ ) جلا دیا ہے اس لئے کل ہڑتال ہو گی اور احتجاجًا جلوس نکالا جائے گا۔ جماعتِ احمدیہ کے نمائندگان نے معاملے کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے اپنے علاقہ کے ایس ایچ او، ڈی ایس پی اور اے سی کو اطلاع کرنے کی کوشش کی اور بمشکل ان تک پیغام پہنچانے میں کامیاب ہوئے۔ اگلے دن جب دوبارہ اے سی سے رابطہ کیا گیا تو اس نے انہیں یقین دلایا کہ حکومت نے کسی بھی قسم کے بدمزگی سے بچنے کے لئے اور امن و امان کو یقینی بنانے کے لئے مناسب انتظام کر لئے ہیں۔ ڈی ایس پی نے بھی ایسی ہی یقین دہانی کروائی اور کہا کہ ضلعی ہیڈ کوارٹر شیخوپورہ سے مزید پولیس کی نفری بلوا لی گئی ہے۔ اس پر احمدیوں کو کسی قدر تسلی ہوئی۔ اس کے باوجود ستم گروں نے جلوس نکالا اور بد زبانی کرتے ہوئے انتظامیہ کی طرف سے کسی بھی قسم کی مداخلت کے بغیر دندناتے ہوئے انتہائی منظّم طور پر کئی گھنٹوں تک احمدیوں کے گھروں پر حملہ آور رہے۔ ان کو لوٹا ، انہیں منہدم کرنے کی کوشش کی اور بقیہ ماندہ سامان کو آگ لگا دی۔ یہ بات توجہ طلب ہے کہ ننکانہ صاحب میں احمدیوں کے گھر شہر کے مختلف حصوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ حملہ آوروں کے مختلف گروپس نے بیک وقت مختلف علاقوں میں واقع احمدی گھروں پر حملے کئے جس سے معلوم ہوتا تھا کہ یہ سب کچھ باقاعدہ پلاننگ سے ہو رہا تھا۔ ان لوگوں نے گھروں کو آگ لگانے کے لئے سیاہ رنگ کا کیمیکل بھی استعمال کیا۔ننکانہ صاحب میں جلاؤ گھیراؤ کے بعد یہ جلوس کچھ ہی فاصلے پر موجود گاؤں چک نمبر563گ ب کی طرف روانہ ہوا جہاں پر احمدیہ مسجد اور کچھ گھروں کو نقصان پہنچایا گیا۔ ان بد نصیبوں نے احمدیوں کے گھروں اور مسجد میں موجود کئی قرآن کریم اور تفاسیرقرآن کے نسخوں کو نذرِ آتش کر دیا۔ اور کسی بھی قسم کے الزام سے بچنے کے لئے ان جلے ہوئے نسخوں کو کنویں میں ڈال دیا۔
مجموعی طور پر ان واقعات میں 28؍ احمدی گھروں کو نقصان پہنچایا گیا۔یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس موقعہ پر احمدیوں کو کسی بھی قسم کا جانی نقصان نہ اٹھانا پڑا۔
اس واقعہ میں انتظامیہ مکمل طور پر بلوائیوں کی سرپرستی کرتی رہی۔ اطلاعات کے مطابق ڈی ایس پی اسلم لودھی پولیس کی سرکردگی میں خود عوام کوساتھ لے کر آگیں لگوا رہے تھے۔ دوسری طرف اے سی صاحب بھی اسی شغل میں مصروف تھے اور بعض دفعہ وہ خود سامان نکال کر پکڑاتے تھے کہ یہ چیز رہ گئی ہے اس کو بھی ڈھیری میں ڈالواور آگ لگاؤ۔ جہاں تک ننکانہ صاحب کی جماعت کا تعلق ہے انہوں نے اپنے عظیم کردار سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کا سر بلند کیا۔ اور کوئی بھاگ کر کہیں نہیں گیا۔ اپنے جلے ہوئے مکانوں میں اپنے بچوں کو لے کر وہیں بیٹھ رہے اور کلّیۃً دشمن کی اس کوشش کو ردّ کر دیا کہ وہ جماعت کی بزدلی دیکھیں۔
(ماخوذ از خطبہ جمعہ فرمودہ 14 ؍اپریل 1989ء)
قرآن کریم میں سورۃ البروج میں بعض خدا کے پاک بندوں کا ذکر کیا گیا ہے کہ جب انہوں نے رَبُّنَا اللہ کا دعویٰ بلند کیا تو بعض ظالموںنے ان کو گڑھوں میں اتارا یا ان کے اموال اورسامانوں کو اکٹھا کیااور آگیں لگائیں اور تماشے دیکھے اور وہ اس بات کے گواہ تھے اور دیکھ رہے تھے اور مزے اڑا رہے تھے۔ ننکانہ صاحب میں بھی ایسا ہی واقعہ گزرا۔ پولیس اور حکومت کے افسران اپنے سامنے احمدی گھروں کو جلوا رہے تھے اور پھر تماشے دیکھ رہے تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 14؍ اپریل 1989ء میں اس امر کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
’’…قرآن کریم نے جو نقشے پرانی قوموں کے کھینچے ہیں اور پرانے متقیوں کے کھینچے ہیں ہم بھی وہ خوش نصیب ہیں جن پر وہ نقشے اطلاق پا رہے ہیں اور ننکانہ صاحب کی جماعت وہ خوش نصیب جماعت ہے جو اس صدی کی پہلی جماعت ہے۔ چک نمبر 563 اور 565 کو بھی شامل کر لیں جو آئندہ صدی کے لئے جماعت کے عزم کا نشان بن گئے ہیں۔ کوئی دنیا کی آگ ان کو مغلوب نہیں کر سکتی۔‘‘
(ماخوذ از خطبات طاہر جلد 8۔ خطبہ جمعہ فرمودہ 14؍ اپریل 1989ء)
چک سکندر
اس افسوسناک واقعہ کے چند ماہ بعد گجرات میں اسی کہانی کو دہرایا گیا۔ چک سکندر ضلع گجرات کی تحصیل کھاریاں کا ایک گاؤں ہے۔ پانچ سو گھرانوں پر مشتمل اس گاؤں میں قریباسوا سَو گھر احمدیوں کے ہیں۔ مسلک اور عقیدہ کے اختلاف کے باوجود گزشتہ ایک سَو سال سے یہاں کے باشندوں کے باہمی تعلقات انتہائی خوشگوار تھے، حتیٰ کہ احمدیوں اور غیر احمدیوں کی مسجد بھی مشترک تھی، لیکن جب ضیاء دورمیں آمریت نے ملک میں صوبائی، لسانی اور فرقہ وارانہ عصبیتوں کو ہوا دی اور بطور خاص احمدیوں کی کردار کشی کے لئے سرکاری سطح پر ایک منظم مہم چلائی تو مولویوں کے ایک مخصوص گروہ نے شَہ پا کر ملک کی پُر امن فضا کو مکدّر کر دیا۔ اس گاؤں میں پہلے مشترکہ عبادت گاہ سے احمدیوں کو بے دخل کیا گیا۔ جب احمدیوں نے اپنی زمین پر عبادت گاہ کی تعمیر شروع کی تو عدالت سے حکم امتناعی حاصل کر کے اس کی تعمیر رکوا دی گئی۔
1989ء میں جماعتِ احمدیہ کی صد سالہ جوبلی کے بعد سے وہاں حالات کی کشیدگی میں اضافہ ہوا اور احمدیوں کو شدید تنگ کیا جا رہا تھا۔ احمدیوں کے مکانوں پر حملے کئے گئے، دروازے توڑے اور جلائے گے۔ ایک گھر کی چھت اکھیڑی گئی۔ ایذا رسانی اور مخالفت کی اس کیفیت کو احمدی نہایت صبر سے برداشت کرتے رہے۔ ضلعی انتظامیہ اور پولیس کو بار بار بتایا گیا کہ گاؤں کا امن برباد ہو چکا ہے۔ احمدیوں کا مالی نقصان بھی ہو چکا ہے اور ان کی جانیں بھی خطرے میں ہیں، لیکن پولیس نے ایک آدھ بار گاؤں کا چکر لگا کر واپس جانے کے سوا کوئی اقدام نہیں کیا۔
آخر 16؍ جولائی 1989ء کو ایک سوچی سمجھی سکیم کے تحت مذہب کے چند علمبرداروں نےقتل وغارت گری کا مظاہرہ کرتے ہوئے احمدیوں پر وہ انسانیت سوز مظالم ڈھائے جن کے بیان سے قلم لرزتا ہے۔ سب سے پہلے گاؤں کے راستوں کی ناکہ بندی کی گئی اور پھر منظّم طریق پر احمدی گھروں کو آگ لگانی شروع کی گئی۔ مال و اسباب لوٹا گیا اور مخالفین نے اپنے گھروں کی چھتوں سے احمدیوں پر فائرنگ شروع کر دی۔ اسی اثناء میں پولیس پہنچ گئی۔ پولیس نے احمدیوں کو اپنا دفاع کرنے سے روک دیا۔ ان کو اپنے لائسنس یافتہ ہتھیار جمع کرانے کو کہا گیا۔ ایک احمدی نذیر احمد ساقی کو، جو اپنے مکان کی چھت پر تھے، پولیس نے نیچے بلایا۔ جب وہ نیچے آئے تو پولیس کی موجودگی میں ایک مخالف نے ان پر فائر کر کے ان کو شہید کر دیا۔ اس دوران مخالفین احمدی گھروں کو آگ لگاتے رہے۔ اس سانحہ میں ایک سو سے زائد احمدی گھر جلائے گئے۔ اور کوشش کی گئی کہ احمدیوں کو ان کے گھروں کے اندر زندہ جلا دیاجائے۔ آگ سے بچ کر اور انگاروں پر سے گذرتے ہوئے جو احمدی باہر آ رہے تھے ان پر فائر کھول دیا گیا۔ چنانچہ محمد رفیق ولد خان محمد صاحب اور ایک بچی عزیزہ نبیلہ بنت مشتاق احمد صاحب اس ظالمانہ کارروائی میں جاں بحق ہو گئے۔ بہت سی خواتین، بچے اور ماسٹر عبدالرزاق ولد مولوی عبدالمالک جیسے معمّر بزرگ شدید زخمی ہوئے۔ شقاوتِ قلبی کی انتہایہ تھی کہ احمدیوں کے اَسّی (80)کے قریب مویشی بھی ہلاک کر کے جلتی آگ میں جھونک دیے گئے۔
قابل ذکر امر یہ ہے کہ ایس پی، ڈی آئی جی اور ڈی سی، پولیس کی بھاری جمعیت کے ساتھ اس خونی ڈرامہ کے شروع ہی میں گاؤں پہنچ گئے تھے اور یہ ساری قتل و غارت گری، لوٹ مار اور بھیانک مظالم ان کی موجودگی میں جاری رہے۔ اور پھر ظالموں کو تو کچھ نہ کہا گیا الٹا مظلوم احمدیوں کے سترہ افرادکو ایک غیر احمدی شخص احمد علی کے قتل کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ یہ شخص احمدیوں کے گھروں پر کیے جانے والے حملوں کے دوران حملہ آوروں کی ہی گولی کا نشانہ بن گیا تھا۔باقی احمدیوں کو ہراساں کر کے گاؤں سے نکال دیا گیا۔جب احمدیوں نے اپنے مقتولین کو اپنی ملکیتی زمین میں واقع قبرستان میں دفن کرنا چاہا تو اس کی بھی اجازت نہیں دی گئی، بلکہ پولیس زبردستی ان لاشوں کو ربوہ چھوڑ گئی۔
احمدیوںپر اس قیامت صغریٰ کو بپا کرنے کے بعد کافی عرصہ تک گاؤں کے گرد پولیس کا محاصرہ رہا۔ کسی احمدی کو اندر جانے کی اجازت نہ تھی۔ جو احمدی گاؤںمیں محصور رہے ان کے بارے میں کوئی اطلاع باہر نہیں جانے دی جاتی تھی۔ انتظامیہ سے ہر سطح پر درخواست کی گئی کہ احمدیوں کو دوبارہ ان کے گھروں میں جانے کی اجازت دی جائے یا کم از کم اتنی اجازت دی جائے کہ کوئی ذمہ دار احمدی پولیس کے ساتھ جا کر محصور احمدیوں کی خبر لے، لیکن کافی عرصہ تک ہر سطح پر ٹال مٹول سے کام لیا گیا۔ دوسری طرف قومی اخبارات میں انتہائی دیدہ دلیری سے مذہبی اجارہ داروں کے بیانات شائع کئے گئے کہ کسی احمدی کو چک سکندر میں واپس جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور بڑے فخر سے یہ خبریں چھاپی گئیں کہ چک سکندر کے محصور قادیانیوں نے اسلام قبول کر لیا ہے۔ گاؤں میں بانیٔ جماعت احمدیہ اور احمدیوں کے خلاف نمایاں طور پر دل آزار بینر آویزاں کیے گئے۔ بعد ازاں احمدیوں کے گھروں سے لوٹا گیا سامان نیلام کر دیا گیا اور احمدیوں کو الٹی میٹم دیا گیا کہ وہ اپنے عقائدسے توبہ کرلیں بصورتِ دیگر انہیں قتل کر دیا جائے گا۔
قومی اخبارات وحشت و بربریت کے اس مظاہرہ پر خاموش رہے۔ حقوق انسانی کے علمبردار ان مظلوموں کے حق میں آواز بلند کرنے سے گھبراتے رہے۔ پاکستان کا وہ آئین جو بلا امتیاز تمام شہریوں کے جان و مال اور عزتوں کی حفاظت کا ضامن ہے، حرکت میں آنے سے قاصر رہا۔
اس واقعہ کے بعد علاقہ میں حکومت نے صوبائی یا وفاقی سطح پر چک سکندر کے مظلومین کے لئے نہ کوئی امدادی کیمپ کھولا، نہ زخمیوں کو طبی امداد دی، نہ ان کی داد رسی کے لئے کسی وزیر نے کوئی بیان دیا۔
(بحوالہ www.thepersecution.org )
اس واقعہ کے بعد ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے ایک کمیٹی تشکیل دی جس نے فریقین کے ساتھ ساتھ انتظامیہ کے ساتھ رابطہ کر کے ایک رپورٹ تشکیل دی۔ یہ مختصر مگر جامع رپورٹ شائع شدہ ہے۔ اس کے آخر میں جو نتائج اخذ کئے گئے ہیں وہ ذیل میں درج کیے جاتے ہیں:
’’جائے حادثہ پر موجود شواہداور اس واقعہ سے متعلق اخذ کیے جانے والے قرائن کی روشنی میں کمیٹی درج ذیل نتائج تک پہنچی ہے:
1۔ مؤرخہ16؍ جولائی 1989ء کو احمدیوں کے خلاف ہونے والے فسادات نفرت انگیز فرقہ وارانہ جذبات کو ابھارنے کے باعث ہوئے۔ایک شخص جس نے ان فسادات میں اپنا شامل ہونا تسلیم کیا ’محمد عامر‘ ہے۔ اس کی حرکات و سکنات کا نوٹس انتظامیہ کو قبل از وقت لے لینا چاہئے تھا۔
2۔ وہاں سے اکٹھے کئے جانے والے قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ احمدیوں کے خلاف فرقہ وارانہ فسادات کی رَو چلانے اور ان فسادات کے دوران مؤرخہ16؍ جولائی 1989ء کو احمدیوں پر حملے کرنے میں منظم اینٹی احمدیہ تنظیمیں سرگرمِ عمل تھیں۔
3۔ اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ مؤرخہ 16؍ جولائی 1989ء کو ہونے والے واقعہ کے بعد احمدیوں کوجائے وقوع سے زبردستی نکال لے جانے اور ان کے زخمیوں کے ساتھ کئے جانے والے سلوک میں انتظامیہ نے احمدیوں کے خلاف دوسرے فریق کی بے جا طرفداری سے کام لیا۔
4۔ کمیٹی کا یہ خیال ہے کہ اگر احمدیوںکو ان کی حفاظت کے لئے جائے وقوع سے نکال لے جانا مقصود تھا تو ان کا وہاں سے نکالا جانا عارضی نوعیت کا ہونا چاہیے تھا نیز ان کے عارضی قیام کے لئے مناسب انتظامات کئے جانے چاہیے تھے۔ یہ انتظامیہ کا فرض تھا کہ اس گاؤں میں احمدیوں کے محفوظ قیام کو ممکن بناتی اور ان کی جان و مال کو جو بھی خطرات درپیش تھے ان کا سدّ ِ باب کرتی۔
انتظامیہ اس لحاظ سے اپنے فرائض کو سرانجام دینے میں بری طرح سے ناکام رہی۔
5۔ اس واقعہ کے رونما ہونے کے بعد اس واقعہ کی باقاعدہ تحقیق و تفتیش قطعًا عمل میں نہیں لائی گئی اور اس واقعہ سے تعلق رکھنے والی کوئی بھی سرکاری رپورٹ موجود نہیں ہے۔
6۔ جن لوگوں نے احمدیوں کے جان و مال پر حملہ کیا ان لوگوں کے خلاف کارروائی نہ کرنے کا کوئی جواز نظر نہیں آتا۔ ‘‘
(HRCP Report on Chak Sikandar Arson & Violence against Minorities July 1989 by Human Rights Commission of Pakistan P. 16-17)
یہ سارا ظلم پاکستان کی پنجاب پولیس نے کروایا۔ اس وقت وہاں جو آئی جی پولیس تھے وہ وہی تھے جن کی زیرِ نگرانی 1974ء میں سرگودھا میں احمدیوں کے گھر جلائے گئے تھے۔ سارے ضلع کی انتظامیہ اس خبیثانہ اور ظالمانہ فعل میں پوری طرح ملوّث اور ذمہ دار تھی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 21؍ جولائی 1989ء میں چک سکندر کے اس واقعہ کا تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
’’… احمدی شہداء کا خون ضائع ہونے والا نہیں ہے۔ اس کے ایک ایک قطرے کا ظالموں سے حساب لیا جائے گا اور اس کا ایک ایک قطرہ جماعت احمدیہ کے لئے نئی بہاریں لے کر آئے گا اور نئے چمن کھلائے گا اور نئی بستیوں کی آبیاری کرے گااور تما م دنیا میں جماعت احمدیہ کے نشوونما کے لئے یہ قطرہ باران رحمت کے قطروںسے بڑھ کر ثابت ہوگا۔‘‘
اسی طرح آپؒ نے فرمایا:
’’ ان شہادتوںکا جو اَب ہوئی ہیں اوران واقعات کا مجھے کوئی شبہ نہیں کہ حضرت صاحبزادہ عبد الطیف صاحب ؓ شہید کی شہادت سے ایک گہرا تعلق ہے اور بہت سے امور اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ یہ واقعہ اتفاقی نہیں ہے ۔ اس لئے افغانستان کے سو سال جس عذاب میں گزرے ہیں اس شہادت کے بعد اس سے پاکستان کو سبق لینا چاہئے۔ اگر پاکستان نے اس بات سے سبق نہ لیا تو جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے اس کی ترقی کو کوئی دنیا کی طاقت روک نہیں سکتی۔ جب سے پاکستان نے مخالفت شروع کی ہوئی ہے جماعت اگر چل رہی تھی تو تیزی سے دوڑ رہی ہے ، اگر دوڑ رہی تھی تو اڑتی چلی جا رہی ہے۔ کوئی دنیا کا ایسا ملک نہیں جہاں جماعت احمدیہ خدا تعالیٰ کے فضل سے پہلے سے بیسیوں گنا زیادہ تیز رفتار کے ساتھ آگے نہیں بڑھ رہی۔ اس لئے جماعت کی تقدیر تو آسمان پر لکھی ہوئی ہے ۔ تمہارے ذلیل اور رسوا ہاتھ آسمان پر لکھی ہوئی تقدیر کو مٹا نہیں سکتے۔ تمہاری رسوائی کی تقدیر اس زمین پر بھی لکھی جائے گی اور اگر تم اپنے ظلم اور سفاکی سے باز نہ آئے تو تمہیں خدا کی تقدیر عبرت کا نشان بنا دے گی اور تم ماضی کا حصہ بن جائو گے، مستقبل میں آگے بڑھنے والی قوموں میں شمار نہیں کئے جائو گے۔ ‘‘
(خطباتِ طاہر جلد 8 صفحہ 497-498۔ خطبہ جمعہ فرمودہ 21؍ جولائی 1989ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی زبانِ مبارک سے نکلے ہوئے یہ الفاظ کس شان کے ساتھ پورے ہوئے اور جماعت احمدیہ بیسیوں گنا تیز رفتار ی سے شاہراہِ غلبہ اسلام احمدیت پر آگے بڑھتی چلی جا رہی ہے اور دوسری طرف پاکستان میں معاندین احمدیت مُلّاں اور ان کی سرپرست حکومتیں ذلّت و رسوائی کا شکار ہیں۔ یہ ایسی کھلی حقیقتیں ہیں جن سے کوئی شَپَّرہ چشم ہی انکار کر سکتا ہے۔
سانحہ گھٹیالیاں۔30؍اکتوبر2000ء
ضلع سیالکوٹ میں واقع گھٹیالیاں کا گاؤں جماعتِ احمدیہ میں اس وجہ سے بھی مشہور ہے کیونکہ ربوہ کے بعد اسی قصبے میں جماعتِ احمدیہ کے زیرِ اہتمام تعلیم الاسلام ہائی سکول اور تعلیم الاسلام کالج قائم ہوا جن میں سے تعلیم الاسلام سکول آج بھی قائم ہے۔ اس قصبے کی تین ہزار آبادی میں دو تہائی غیر از جماعت افرادہیں۔ اس قصبے میں دو احمدی مساجد ہیں، ایک شمال میں اور دوسری شرقی سمت ہے۔ شرقی سمت کی مسجد قصبے کے شرقی کونے میں واقع ہے جس کے قریب ہی پسرور جانے والی سڑک گزرتی ہے۔ مؤرخہ30؍اکتوبر2000ء کی صبح نماز فجر پانچ بج کر پچیس منٹ پر ادا کی گئی۔ امام الصلوٰۃ کے فرائض مکرم مشتاق احمد صاحب انجام دیتے تھے جو اس مجلس کے زعیم انصار اللہ اور جماعت کے سیکرٹری امورِ عامہ بھی تھے۔ نماز کے بعد انہوں نے تفسیر صغیر سے سورۃ فاتحہ کا درس دیا جو معمول سے قدرے طویل ہو گیا۔ درس ختم ہونے کے بعد ایک نوجوان خادم محمد اسلم نے ان سے قرآن کریم لیا اور ان کے دائیں ہاتھ بیٹھ کر تلاوت کرنے ہی لگا تھا کہ مسجد میں قیامت برپا ہو گئی۔
گھٹیالیاں سے پسرور جانے والی سڑک پر ایک سلیٹی رنگ کی کار آ کر رکی جس میں دو افراد بیٹھے رہے اور باقی دو جنہوں نے چادریں لپیٹی ہوئی تھیں اور منہ پر نقاب ڈالے ہوئے تھے مسجد میں داخل ہوئے۔ ادھر درس ختم ہونے کے بعد تین افراد باہر نکلے، سب سے آگے عباس علی صاحب تھے جو ایک مضبوط اور تنومند35؍ سالہ نوجوان تھے۔ کلاشنکوفوں سے مسلح دو افراد نے جومسجد کے صحن سے آگے آ کر دروازے تک پہنچ چکے تھے اندر سے نکلنے والے تینوں افراد کو واپس مسجد میں جانے کو کہا۔ عباس علی صاحب بڑی جرأت اور دلیری سے آگے والے شخص سے الجھ پڑے اور اس کی گن پر ہاتھ ڈال دیا اور ڈپٹ کر کہا ’’تم کون ہو تم باہر نکلو‘‘۔ اسی لمحے دوسرے مسلح شخص نے کلاشنکوف عباس علی صاحب کے جسم سے لگا کر پورا برسٹ ان کے پیٹ میں اتار دیا اور اندر سے آنے والے دوسرے نوجوان کو بٹ مار کر اندر گرا دیا اور تیسرے نوجوان تسنیم عرف مٹھو کو بھی دھکیل دیا۔ اس نے اندر آتے ہی دروازہ بند کرنے کی کوشش کی اور ایک دروازے کی کنڈی لگا دی مگر دوسرا دروازہ بند نہ کر سکا۔ مسجد کے اندر بعض لوگ ابھی بیٹھے تھے اور بعض کھڑے تھے۔ مشتاق صاحب نے جو محراب میں بیٹھے تھے جب ایک نوجوان کو اندر کی طرف گرتے دیکھا تو وہ فورًا اٹھ کھڑے ہوئے اور اس کے ساتھ ہی مسلح شخص کی کلاشنکوف سے گولیاں چلنے لگیں۔ اس نے نیم دائرہ بنا کر ساری مسجد کے اندر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ فائرنگ سے نکلنے والا دھواں اور جسموں سے نکلنے والا لہو ہر طرف پھیل گیا۔دونوں مسلح افراد نے چند لمحوں میں اپنی کارروائی ختم کی اور باہر نکل گئے۔ باہر نکل کر انہوں نے ہوائی فائر کیا تا کہ کوئی ان کے پیچھے نہ آ سکے۔ پھر وہ بھاگ کر گاڑی میں بیٹھے اور سلیٹی رنگ کی کار پسرور کی طرف فرار ہو گئی۔
مسجد کے اندر لوگ ایک دوسرے پر گرے پڑے تھے۔ جن کو زیادہ گولیاں لگی تھیں وہ جان کنی کی کیفیت میں تھے۔ حملہ آور کے سامنے مسجد کا ستون اور اس کے پیچھے محراب تھی جس میں مشتاق صاحب کھڑے تھے۔ جب ان کو یہ احساس ہوا کہ وہ زندہ سلامت ہیں مگر بہت سے احباب شدید زخمی ہیں تو ان کے سینے سے اللہ اکبر کی آواز بلند ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی جو لوگ زندہ بچ گئے تھے انہوں نےاللہ اکبر کے فلک شگاف نعرے لگانے شروع کر دیئے۔ مشتاق صاحب نے لوٹے میں پانی لا کر زخمیوں کو پلانا شروع کیا۔ قصبے کے دیگر لوگ بھی جمع ہو گئے۔ اس واقعہ میں 4؍ افراد شہید جبکہ 6؍ افراد شدید زخمی ہوئے۔ شہداء میں محترم غلام محمد صاحب ولد علی محمد صاحب (عمر 68؍ سال)، محترم عطاء اللہ صاحب ولد مولا بخش صاحب (عمر 65؍ سال)، محترم عباس علی صاحب ولد فیض احمد صاحب (عمر35؍سال) اور محترم افتخار احمد صاحب ولد چوہدری محمد صادق صاحب(عمر35؍ سال) شامل ہیں۔
حکومتِ پاکستان کی شر انگیزی اور پشت پناہی کے نتیجہ میں پاکستان سے باہر کے ممالک میں بھی احمدیہ مساجد؍مشن ہاؤسز اور جماعتی املاک کو نقصان پہنچانے کی مذموم کارروائیاں کی گئیں۔ چنانچہ کسی نامعلوم شخص نے 8؍ اگست 1987ء کو صبح 4؍ بجے مسجد احمدیہ ہالینڈ میں داخل ہو کر پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی جس سے مسجد کا قالین، دیواروں پر لکھی ہوئی قرآنی آیات، کھڑکیوں، دروازے اور چھت کو نقصان پہنچا۔ مسجد سے ملحقہ دفتر میں فرنیچر، جماعتی ریکارڈ، اور ایک قرآن مجید کا نسخہ بھی نذرِ آتش ہو گئے۔
ہالینڈ ریڈیو کے مطابق ایک غیر احمدی مسلمان نے اس واقعہ کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے پولیس کو اپنے بیان میں کہا کہ احمدی اِسلام کی غلط تصویر پیش کرتے ہیں۔
1986ء میں بھی ایک شخص نے مسجد کی کھڑکیاں وغیرہ توڑ دی تھیں اور نقصان پہنچایا تھا۔
اس کے علاوہ بلغاریہ، مصر، جرمنی، انڈیا، انڈونیشیا، قازاقستان، قرغزستان، ملیشیا، فلسطین، سعودی عرب، سنگاپور، تھائی لینڈ، ہالینڈ، ناروے، بنگلہ دیش اور یُو کے میں بھی احمدیوں کے خلاف ظلم و زیادتی کے بعض واقعات منظرِ عام پر آئے۔
بنگلہ دیش
پاکستان میں مخالفت کی اس آگ کو معاندینِ احمدیت نے جن دیگر ممالک میں بھی منتقل کرنا شروع کر دیا بنگلہ دیش بھی ان ممالک میں سے ایک ملک ہے۔ اس میں منظم طور پر جب احمدیوں کی مخالفت کا شوشہ چھوڑا گیا اور حکومت سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا جائے تو اس ملک کے بعض عقلمند سیاسی لیڈرز نے پاکستان سے سبق سیکھتے ہوئے انٹرنیشنل ختمِ نبوّت موومنٹ کے مطالبات کو ماننے سے انکار کر دیا۔ تاہم اس کے باوجود بنگلہ دیش کے شہروں اور گاؤں ساتکھیرہ (Sathkira) (سُندربن)، ناٹور (Natore)، براہمن بڑیا(Brahmanbaria)، بھادوگڑھ (Bhadugarh) کھلنا، جمال پور، چٹاگانگ، ناصر آباد، طاہر آباد، شری شاباڑی، کھڑم پور، دیبوگرام، کروڑا، گھٹورااور ڈھاکہ(Dhaka) وغیرہ میں احمدیہ مساجد اور احمدی گھروں پر حملے کئے گئے۔ کئی گھر جلادیئے گئے، مسجدوں کو بھی جلایا گیا۔ بعض جگہوں پر احمدیہ مساجد پر مخالفین نے زبردستی ناجائز قبضہ کر لیا۔ اسی طرح انہیں پتھراؤ اورایک جگہ بموں سے نقصان پہنچایا گیا۔ان فسادات میں سات احمدی شہیدجبکہ متعدد احمدی زخمی ہوئے۔
جماعتہائے احمدیہ بنگلہ دیش نے جس صبر و استقامت کے ساتھ ان مظالم کو برداشت کیا اور ایمانی جرأت اور ہمت اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 12؍ فروری 1993ء میں جماعت احمدیہ بنگلہ دیش کے سالانہ جلسے کے اختتام پر اُن سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا:
’’بنگلہ دیش بہت ہی بڑے ابتلا میں سے بلکہ بار بار ابتلاؤں میں سے گزر ا ہے اور ان پر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ باوجود اس کے کہ جماعت چھوٹی اور دیکھنے میں کمزور ہے مگر ایمان اور ہمت اور استقلال اور بہادری میں اور ثابت قدمی میں دنیا کی کسی جماعت سے پیچھے نہیں بلکہ اکثر جماعتوں سے آگے قرار دیا جا سکتا ہے۔ اتنے بڑے بڑے بوچھ، اس حیرت انگیز طریق پر جماعت نے اٹھائے اور ہمت سے مسکراتے ہوئے بغیر خوف کے اظہار کے بڑے بڑے خوفوں سے گزر گئے اور بڑے بڑے نقصانات کے رونے نہیں روئے اور اللہ کی حمد کے گیت گاتے ہوئے اس بات پر شکر کرتے ہوئے کہ خدا نے ہمیں توفیق بخشی اور استقامت عطا فرمائی وہ جماعت آگے سے آگے بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اور ہر ابتلاء کا فوری نتیجہ خدا کے غیر معمولی فضلوں کی صورت میں ان پر نازل ہو رہا ہے اور ہر وہ کوشش جو ان کو کمزور بنانے کی کی جا رہی ہے وہ ان کو پہلے سے بہت زیادہ طاقتور بنا کر نکالتی ہے۔ یہ تو خدا کا ایک عمومی سلوک ہے جو سب الٰہی جماعتوں سے ہوا کرتا ہے۔ لیکن جیسے کہتے ہیں جتنا گُڑ ڈالو گے اتنا ہی میٹھا ہو گا۔ تو وہ ماشاء اللہ اپنی قربانیوں میں گُڑ بہت ڈالتےہیں اور ویسے بھی ان کو میٹھے کی بہت عادت ہے اس لئے یہ گُڑ والا محاورہ ان پر خاص صادق آتا ہے۔… مگر قربانیوں کا جہاں تک تعلق ہے ان میں جتنا میٹھا ڈالیں اچھا ہے کیونکہ وہ میٹھا تو منظور ہی منظور ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل کے ساتھ آپ کی قربانیوں کو بہت جلد جلد پھل عطا کرتا ہے۔ …‘‘
حضورؒ نے فرمایا:
’’جماعت احمدیہ کا سورۂ صف کے ساتھ ایک گہرا تعلق ہے اور جماعت احمدیہ بنگلہ دیش جس شان کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو ادا کر رہی ہے اور جس اخلاص کے ساتھ ثابت قدمی سے ابتلاؤں کو برداشت کر رہی ہے اور نیکیوں میں آگے بڑھ رہی ہے اس وجہ سے میں نے انہی آیات کو آج اُن کے جلسہ کے لئے موضوع بنایا تا کہ ان کو پتا لگے کہ قرآن کریم میں ان کا ذکر موجود ہے بظاہر کہنے کو تو یہاں یہ ذکر نہیں کہ 4۔ بخشی بازار ڈھاکہ میں یہ ہو گا یا برہم بڑیہ میں فلاں بات ہو گی لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ قرآن کریم نے جو نقشے کھینچے ہیں کہ خدا کی خاطر کیا کیا تکلیفیں اٹھائی جاتی ہیں وہ یہاں موجود ہیں اور اس کی جزا جو دی جاتی ہے وہ بھی ذکر ہے فرمایا تُجَاھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ جو کچھ بھی مصیبتیں تم پر ٹوٹیں جو مظالم تم پر توڑے جائیں تم ثابت قدمی کے ساتھ اپنے اموال کی قربانی بھی پیش کرتے چلے جاتے ہواور جانوں کی قربانی بھی پیش کرتے چلے جاتے ہو۔ چنانچہ وہاں جس قسم کے ہولناک حالات پیدا کئے گئے ہیں، برہمن بڑیہ میں مثلًا اور 4۔ بخشی بازار ڈھاکہ میں ان حالات کے نتیجہ میں بڑے بڑے بہادروں کا بھی پتّہ پانی ہو سکتا تھا اور بڑے بڑے دلیر کہلانے والے بھی خوفزدہ ہو سکتے تھے۔ لیکن چھوٹے بچے کیا اور مرد کیا اور بڑے کیا سب نے صبر کا اور استقامت کا ایسا عظیم نمونہ دکھایا ہے۔ اس دلیری کے ساتھ ان خوفوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جھجکے بغیر اپنے آپ کو پیش کر دیا ہے اور ظالموں نے ان کو اس طرح پیٹا ہے جس طرح کسی مٹی کے ڈھیر پر سوٹے برسائے جا رہے ہوں اور اُف تک نہیں کی۔ چیخیں نہیں ماریں، شور نہیں مچایا، منتیں نہیں کیں اور کسی قسم کی بھی کمزوری کا اظہار نہیں کیا۔ ان میں جو بوڑھے تھے وہ بھی تقریبًا جاں بلب ہو گئے اور جوان اور بچے جو تھے وہ بھی بُری طرح پیٹے گئے۔ بہت دردناک طریق پر اُن کو مارا گیا یہاں تک کہ بعض دیکھنے والے غیر احمدیوں نے جب دیکھا تو بعد میں تعجب کا اظہار کیا کہ بچ کس طرح گئے۔ کیونکہ جس حال میں وہ چھوڑ کر گئے تھے بظاہر بچنے کی کوئی صورت نہیں تھی۔ لیکن بنگلہ دیش کی جماعت کی جو خوبی مَیں بیان کر رہا ہوں وہ ان کی بہادری ہے۔ ذرّہ بھر بھی انہوں نے وحشت نہیں دکھائی۔ خوف کا اظہار نہیں کیا اور اللہ کے فضل سے بڑی محبت اور پیار کے ساتھ خدا کی خاطر ان دکھوں کو برداشت کیا۔ ان کے سامنے لمبے عرصہ کی قربانیوں کا پھل جو بخشی بازار کی عمارت کی صورت میں تھا اور اس میں مختلف قسم کا قیمتی فرنیچر بھی سجا ہوا تھا مختلف کمرے تھے، رہائش کی مختلف جگہیں بھی تھیں، مسجد بہت خوبصورت سجائی گئی تھی۔ بہت خرچ کیا گیا تھا ان سب چیزوں کو اپنے سامنے آگ لگتے، جلتے، برباد ہوتے ہوئے بظاہر دیکھا لیکن قطعًا واویلا نہیں کیا اور بعد میں بھی جو خط مجھے وہاں سے ملے ہیں ان سے پتا چلتا ہے کہ خدا نے اپنے فضل سے اس جماعت کو غیر معمولی طور پر اخلاص اور استقامت عطا فرمائی ہے اور یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ غیر معمولی طور پر بنگال کی جماعت نے خدا کی راہ میں ثابت قدمی دکھائی ہے۔
ایک احمدی خاتون کے متعلق مثلًا مجھے خط ملا کہ جب اُن کو خبر ملی۔ اُن کا کوئی عزیز رشتہ دار کوئی تعلق والا نہیں تھا اور جب اُن کو پتا چلا کہ کتنے خوفناک حالات ہیں اور کس بُری طرح مارا پیٹا جا رہا ہے اور تقریبًا ذبح کرکے لوگ چھوڑ گئے ہیں تو اُن کا پہلا ردّ عمل یہ تھا کہ بغیر کسی سے بات کئے فورًا رکشہ پکڑا اور کہا کہ میں کیوں محروم رہوں، میں وہاں پہنچوں گی اور میں بھی دفاع میں حصہ لوں گی۔ چنانچہ جب وہ پہنچی ہیں تو وہاں سب ہنگامہ ختم ہو چکا تھا اور پہنچ کر انہوں نے وہاں لوگوں کو دیکھا۔ کچھ زخمی تھے اور کچھ دوسرے۔ انہوں نے کہا کہ کہاں ہیں وہ لوگ جو مار رہے تھے۔ میں بھی تو اسی لئے آئی تھی، تو اُن کو بتایا گیا کہ یہ سب معاملہ تو ختم ہو چکا ہے۔ اب تو زخمی ہسپتال جا رہے ہیں۔ جو آگیں تھیں وہ کچھ ٹھنڈی ہو گئی ہیں اور کچھ ٹھنڈی کی جا رہی ہیں…۔
تو بنگالی احمدیوں کا ذکر خیر اور اُن کی استقامت کا اور اخلاص کا ذکرِ خیر تاریخ احمدیت میں ہمیشہ کے لئے سنہری لفظوں سے محفوظ ہونا چاہئے…۔
پس اہلِ بنگال اور بنگال کی جماعتوں کو یہ خوشخبری ہے کہ جو کچھ ہوا ہے اُس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کے فضل مختلف صورتوں میں ظاہر ہوں گے، آخرت سے تعلق رکھنے والے فضل بھی نازل ہوں گے اور دنیا سے تعلق رکھنے والے فضل بھی نازل ہوں گے اور مَیں سمجھتا ہوں کہ اس خوشخبری میں صرف بنگال کے احمدی ہی نہیں بلکہ بنگال کے عوام الناس بھی عمومًا داخل ہیں۔ اس لئے کہ بنگالی مزاج میں ایک ایسی شرافت پائی جاتی ہے جو مذہبی جنون رکھنے والی قوموں میں عمومًا نہیں پائی جاتی۔ مذہبی جنونی تو وہاں موجودہیں لیکن بنگال کا مزاج عدل والا مزاج ہے اور عقل کے لحاظ سے میں نے بنگالی کا دماغ دیکھا ہے کہ ہمارے پنجابیوں کی نسبت روز مرّہ معاملات میں سیاست میں مسائل کو سمجھنے میں بہت زیادہ روشن ہے۔ وجہ یہ نہیں ہے کہ اُن کے دماغ کی قسم اچھی ہے بلکہ وجہ یہ ہے کہ اُن میں انصاف پایا جاتا ہے اور سب سے زیادہ پاگل کرنے والی چیز بے انصافی ہے۔ اس لئے پنجاب میں ویسے دماغ بہت اچھے ہیں وہ جب دنیا کے علوم میں تتبع کرتےہیں، جستجو کرتے ہیں تو بڑی بڑی ترقیاں پاجاتے ہیں۔ سیاست کے ایچ پیچ میں بھی خوب جوہر دکھاتے ہیں لیکن گہری عقل اور تقویٰ کی روشنی عدل کے بغیر نصیب نہیں ہوا کرتی۔ وہاں عدل کم ہے اور اسی نے ساری مصیبت ڈالی ہوئی ہے۔ اگر پاکستان کو عدل نصیب ہو جائے تو پاکستانی قوم دنیا کی کسی قوم سے پیچھے نہیں بلکہ مَیں سمجھتا ہوں کہ صفِ اوّل کی قوموں میں غیرمعمولی چمکنے والی قوم بن سکتی ہے۔ مگر بہر حال بنگلہ دیش کی جو خاص خوبی مجھے دکھائی دیتی ہے وہ یہ ہے کہ ان میں عدل پایا جاتا ہے۔ پنجابی کے مقابل پر بہت زیادہ عدل مزاج لوگ ہیں۔
پس ساری قوم نے بڑا ہی عمدہ ردِّ عمل دکھایا ہے۔ اتنی کھلم کھلا اور اتنی زور کے ساتھ جماعت احمدیہ کی تائید ہوئی ہے اور اکثریت کے رہنما ہونے کے دعویدار علماء کو مجرم گردانا گیا ہے اور کھلم کھلا کہا گیا ہے کہ تم دھوکے باز ہو، تم نے ظلم کیا ہے۔۔ تم نے قرآن کی بے عزتی کی، تم نے اسلام کی بے عزتی کی، تمہیں کوئی حق نہیں تھا۔ جب بابری مسجد والا واقعہ ہوا ہے تو بعض اخباروں نے بڑے سخت ادارئیے لکھے ہیں کہ اے ملّاں! تو بابری مسجد کو روتا ہے۔ 4۔ بخشی بازار میں جماعت احمدیہ کی مسجد کے ساتھ کل تو نے کیا کیا تھا؟ تجھے حق کیا ہے کہ کسی اور مسجد کی بربادی پر کسی قسم کا احتجاج کرے؟ تو ساری قوم نے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ قیامِ عدل کا جو نمونہ دکھایا ہے اُس سے میرا دل بنگلہ دیش کے لئے بہت راضی ہے اور مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ اس قوم پر فضل فرمائے گا۔ اور جہاں جماعت پر فضل فرمائے گا بنگالیوں پر بالعموم بھی فضل فرمائے گا۔ خدا کرے کہ ان کی سیاست اُن کو عدل پر قائم رہنے دے۔ …
اے اہلِ بنگالہ! مَیں تمہیں مبارکباد دیتا ہوں۔ تم نے جس طرح میرے دل کو راضی کیا میری دعا ہے کہ اس سے اَن گنت زیادہ خدا کا دل تم سے راضی ہو اور خدا تعالیٰ جب کسی کو نصیب ہو جائے تو اُسے دنیا بھی عطا ہو گئی اور آخرت بھی ہو گئی۔ آمین‘‘
(خطباتِ طاہر جلد 12 صفحہ 120 تا136، خطبہ جمعہ فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ مورخہ 12؍ فروری 1993ء)
شہداء دورِ خلافتِ رابعہ
تاریخ انبیاء اس بات پر شاہد ہے کہ بسا اوقات خدا کے مامورین و مرسلین پر ایمان لانے والوں کو ان کے معاندین و مکذّبین کی طرف سے اس قدر شدید مخالفتوں اور اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا کہ انہیں اپنے خون دے کر اور اپنی جانیں قربان کر کے اپنے ایمان کی صداقت پر گواہی دینی پڑی۔ اس پہلو سے سیّد المرسلین، خاتم النبیین حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی قربانیوں اور شہادتوں کی تاریخ نہایت ارفع اور روشن اور دلگداز تاریخ ہے۔
اسی سنت انبیاء کے مطابق اس زمانہ میں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام کامل اور عاشق صادق اور آپ کے موعود مہدی و مسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متبعین کو بھی سخت اذیتوں اور ابتلاؤں سے گزرنا پڑا۔ چنانچہ بانیٔ جماعت احمدیہ حضرت اقدس مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کی حیاتِ مبارکہ میں ہی شہادتوں کی بنیاد بھی پڑی۔ حضور علیہ السلام نے افغانستان سے تعلق رکھنے والے دو جلیل القدر صحابہ حضرت مولوی عبدالرحمٰن صاحب اور حضرت سیّد عبداللطیف صاحب شہید کا ذکر اپنی تصنیف ’’تذکرۃ الشہادتین‘‘ میں بڑے ہی دلگداز انداز میں فرمایا۔ ہر دو شہدائے کرام کے واقعات ِ ہائلہ پڑھ کر انسان لرز جاتا ہے کہ انہیں کس بیدردی کے ساتھ شہید کیا گیا۔ دوسری طرف ان شہداء کی غیر معمولی استقامت و ثابت قدمی انسان کو ورطۂ حیرت میں ڈالتی ہے۔ سلسلہ احمدیہ میں ان ابتدائی شہادتوں کی تفصیل جاننے کے لئے ’تذکرۃ الشہادتین‘ کا مطالعہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔
حضور علیہ السلام نے ان شہداء کے ذکر میں ایک مقام پر فرمایا:
’’…ایسے لوگ اکسیر احمر کے حکم میں ہیں جو صدق دل سے ایمان اور حق کے لئے جان بھی فداکرتے ہیں اور زن و فرزند کی کچھ بھی پرواہ نہیں کرتے۔ اے عبداللطیف تیرے پر ہزاروں رحمتیں کہ تُو نے میری زندگی میں ہی اپنے صدق کا نمونہ دکھایا اور جو لوگ میری جماعت میں میری موت کے بعد رہیں گے مَیں نہیں جانتا کہ وہ کیا کام کریں گے۔‘‘
(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 60)
یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد خلافت احمدیہ کے مختلف ادوار میں بھی متعدد شہداء نے اپنے بزرگ اسلاف کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اپنی جانوں کی قربانیاں دیں اور اسی طرح صدق و وفا کے شاندار نمونے دکھائے۔ خلافت رابعہ کے عہد میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مذکورہ بالا ارشاد کو بیان کرنے کے بعد اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 23؍ اپریل 1999ء میں فرمایا:
’’جماعت کی طرف سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی روح کو میں کامل یقین سے یہ پیغام دے سکتا ہوں۔ اے ہمارے آقا! تیرے بعد تیری جماعت انہی راستوں پر چلی ہے اور انشاء اللہ ہمیشہ چلتی رہے گی جو رستے صاحبزادہ عبداللطیف شہید نے ہمارے لئے بنائے تھے۔ گو ان سے نسبت کوئی نہیں مگر غلامانہ ہم انہیں راستوں پر چل رہے ہیں۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 23؍ اپریل 1999ء۔ خطباتِ طاہر بابت شہداء صفحہ 25)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے 1999ء میں ’شہدائے احمدیت‘ کے تذکرہ پر مشتمل خطبات کا ایک سلسلہ شروع فرمایا۔ جو بعد میں ’شہدائے احمدیت‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہوئے۔ یہ کتاب جماعت کی ویب سائیٹ پر موجود ہے اور مومنین کے ایمان و اخلاص اور جذبۂ قربانی کو بڑھانے کا موجب ہے۔
اس مختصر تمہید کے بعد ذیل میں عہدِ خلافتِ رابعہ میں شہادت کا اعزاز پانے والوں کی فہرست درج کی جاتی ہے۔ (ان شہادتوں کی تفصیلات کے لئے ملاحظہ ہو کتاب ’’شہدائے احمدیت‘‘)۔ یہ کتاب حسب ذیل لنک پر ملاحظہ کی جاسکتی ہے:
[www.alislam.org/urdu/pdf/Shuhda-e-Ahmadiyyat-Aaghaz-ta-Khilafat-4.pdf]۔
ان شہداء میں پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا کے مختلف ممالک میں شہادت پانے والے شامل ہیں۔ ان میں مرد بھی ہیں، عورتیں بھی ہیں اور بچے بھی۔ ع خدا رحمت کُنَد ایں عاشقانِ پاک طینت را
نمبر شمار | تاریخ | اسماء شہدائے کرام | مقام |
1 | 16؍ اپریل 1983ء | ماسٹر عبد الحکیم ابڑوشہید | وارہ لاڑکانہ |
2 | 8؍ اگست 1983ء | ڈاکٹر مظفر احمد شہید | امریکہ |
3 | 8؍ ستمبر 1983ء | شیخ ناصر احمد شہید | اوکاڑہ |
4 | 10؍ اپریل 1984ء | چوہدری عبدالحمید شہید | محراب پور (سندھ) |
5 | یکم مئی 1984ء | قریشی عبدالرحمان شہید | سکھر (سندھ) |
6 | 16؍ جون 1984ء | ڈاکٹر عبدالقادر شہید | فیصل آباد |
7 | 15؍ مارچ 1985ء | ڈاکٹر انعام الرحمٰن شہید | سکھر |
8 | 7؍ اپریل 1985ء | چوہدری عبد الرزاق شہید | بھریا روڈ |
9 | 9؍ جون 1985ء | ڈاکٹر عقیل بن عبدالقادر شہید | حیدر آباد |
10 | 29؍ جولائی 1985ء | محمود احمد اٹھوال شہید | پنوںعاقل |
11 | 10؍ اگست 1985ء | قریشی محمد اسلم شہید (مربی سلسلہ) | ٹرینیڈاڈ |
12 | 18؍ اپریل 1986ء | مرزا منور بیگ شہید | لاہور |
13 | 11؍ مئی 1986ء | سید قمر الحق شہید | سکھر |
14 | 11؍ مئی 1986ء | راؤ خالد سلیمان شہید | کراچی |
15 | 9؍ جون 1986ء | رخسانہ طارق شہید | مردان |
16 | 9؍ جولائی 1986ء | بابو عبدالغفار شہید | حیدر آباد |
17 | 25؍ فروری 1987ء | غلام ظہیر احمد شہید | سوہاوہ ، جہلم |
18 | 14؍ مئی 1989ء | ڈاکٹر منور احمد شہید | سکرنڈ (سندھ) |
19 | 16؍ جولائی 1989ء | نذیر احمد ساقی شہید | چک سکندر۔ گجرات |
20 | 16؍ جولائی 1989ء | رفیق احمد ثاقب شہید | چک سکندر ۔ گجرات |
21 | 16؍ جولائی 1989ء | نبیلہ شہید | چک سکندر۔ گجرات |
22 | اگست 1989ء | ڈاکٹر عبدالقدیر جدران شہید | قاضی احمد۔ نواب شاہ |
23 | 28؍ ستمبر 1989ء | ڈاکٹر عبدالقدوس جدران | قاضی احمد۔ نواب شاہ |
24 | 17؍ جنوری 1990ء | قاضی بشیر احمد کھوکھر شہید | شیخوپورہ |
25 | 30؍ جون 1990ء | مبشر احمد شہید | تیما پور۔ کرناٹک۔ بھارت |
26 | 17؍ نومبر 1990ء | نصیر احمد علوی شہید | دوڑ۔ نواب شاہ |
27 | 16؍ دسمبر 1992ء | محمد اشرف شہید | جلہن۔ گوجرانوالہ |
28 | 5؍ فروری 1994ء | احمد نصر اللہ شہید | لاہور |
29 | 5؍ فروری 1994ء | رانا ریاض احمد شہید | لاہور |
30 | 30؍ اگست 1994ء | وسیم احمد بٹ شہید | فیصل آباد |
31 | 30؍ اگست 1994ء | حفیظ احمد بٹ شہید | فیصل آباد |
32 | 10؍ اکتوبر 1994ء | ڈاکٹر نسیم احمد بابر شہید | اسلام آباد |
33 | 28؍ اکتوبر 1994ء | عبدالرحمان باجوہ شہید | کراچی |
34 | 30؍ اکتوبر 1994ء | دلشاد حسین کھچی شہید | لاڑکانہ |
35 | 10؍ نومبر 1994ء | سلیم احمد پال شہید | کراچی |
36 | 19؍ دسمبر 1994ء | انور حسین ابڑو شہید | لاڑکانہ |
37 | 9؍ اپریل 1995ء | ریاض احمد شہید | شب قدر۔ مردان |
38 | 3؍مئی 1995ء | مبارک احمد شرما شہید | شکار پور۔ سندھ |
39 | 8؍ نومبر 1996ء | محمد صادق شہید | حافظ آباد |
40 | 19؍ جون 1997ء | چوہدری عتیق احمد باجوہ شہید | وہاڑی |
41 | 26؍ اکتوبر 1997ء | ڈاکٹر نذیر احمد ڈھونیکی شہید | گوجرانوالہ |
42 | 12؍ دسمبر 1997ء | مظفر احمد شرما ایڈووکیٹ شہید | شکارپور |
43 | 8؍ فروری 1998ء | میاں محمد اکبر اقبال شہید | یوگنڈا |
44 | 7؍ جولائی 1998ء | محمد ایوب اعظم شہید | واہ کینٹ |
45 | 4؍ اگست 1998ء | ملک نصیر احمد شہید | وہاڑی |
46 | 10؍ اکتوبر 1998ء | ماسٹر نذیر احمد بگھیو شہید | نواب شاہ |
47 | 30؍ اکتوبر 1998ء | چوہدری عبدالرشید شریف شہید | لاہور |
48 | یکم دسمبر 1998ء | ملک اعجاز احمد شہید | وزیر آباد۔ گوجرانوالہ |
49 | 14؍ اپریل 1999ء | مرزا غلام قادر احمد شہید | ربوہ |
50 | 9؍ مئی 1999ء | مبارکہ بیگم شہید (اہلیہ عمر سلیم بٹ صاحب) | چونڈہ۔ سیالکوٹ |
51 | 8؍ اکتوبر1999ء | نور الدین احمد شہید | کھلنا ۔ بنگلہ دیش |
52 | 8؍ اکتوبر1999ء | محمد جہانگیر حسین شہید | کھلنا ۔ بنگلہ دیش |
53 | 8؍ اکتوبر1999ء | محمد اکبر حسین شہید | کھلنا ۔ بنگلہ دیش |
54 | 8؍ اکتوبر1999ء | سبحان علی موڑل شہید | کھلنا ۔ بنگلہ دیش |
55 | 8؍ اکتوبر1999ء | محمد محبّ اللہ شہید | کھلنا ۔ بنگلہ دیش |
56 | 8؍ اکتوبر1999ء | ڈاکٹر عبدالماجد شہید | کھلنا ۔ بنگلہ دیش |
57 | 8؍ اکتوبر1999ء | ممتاز الدین احمد شہید | کھلنا ۔ بنگلہ دیش |
58 | 18؍ جنوری 2000ء | ڈاکٹر شمس الحق طیّب شہید | فیصل آباد |
59 | 15؍ اپریل 2000ء | مولانا عبدالرحیم شہید | لدھیانہ۔ بھارت |
60 | 8؍ جون 2000ء | چوہدری عبداللطیف اٹھوال شہید | چک بہوڑو۔ شیخوپورہ |
61 | 30؍ اکتوبر 2000ء | افتخار احمد شہید | گھٹیالیاں ۔ سیالکوٹ |
62 | 30؍ اکتوبر 2000ء | شہزاد احمد شہید۔ (عمر 16؍ سال) | گھٹیالیاں ۔ سیالکوٹ |
63 | 30؍ اکتوبر 2000ء | عطاء اللہ شہید | گھٹیالیاں ۔ سیالکوٹ |
64 | 30؍ اکتوبر 2000ء | غلام محمد شہید | گھٹیالیاں ۔ سیالکوٹ |
65 | 30؍ اکتوبر 2000ء | عباس علی شہید | گھٹیالیاں ۔ سیالکوٹ |
66 | 10؍ نومبر 2000ء | ماسٹر ناصر احمد شہید | تخت ہزارہ ۔ سرگودھا |
67 | 10؍ نومبر 2000ء | مبار ک احمد شہید۔ (عمر 15؍ سال) | تخت ہزارہ ۔ سرگودھا |
68 | 10؍ نومبر 2000ء | نذیر احمد رائے پوری شہید۔ (والد) | تخت ہزارہ ۔ سرگودھا |
69 | 10؍ نومبر 2000ء | عارف محمود شہید۔ (بیٹا) | تخت ہزارہ ۔ سرگودھا |
70 | 10؍ نومبر 2000ء | مدثر احمد شہید | تخت ہزارہ ۔ سرگودھا |
71 | 22؍ جون 2001ء | پاپو حسن شہید | انڈونیشیا |
72 | 28؍ جولائی 2001ء | شیخ نذیر احمد شہید | فیصل آباد |
73 | 13؍ ستمبر 2001ء | نور احمد چوہدری شہید۔ (والد) | سدہ والا نیواں۔ نارووال |
74 | 13؍ ستمبر 2001ء | طاہر احمد شہید۔ (بیٹا) | سدہ والا نیواں۔ نارووال |
75 | 10؍ جنوری 2002ء | غلام مصطفیٰ محسن شہید | پیر محل۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ |
76 | یکم ستمبر 2002ء | مقصود احمد شہید | فیصل آباد |
77 | 14؍ نومبر 2002ء | عبدالوحید شہید | فیصل آباد |
78 | 15؍ نومبر 2002ء | ڈاکٹر رشید احمد شہید | رحیم یار خان |
79 | 25؍ فروری 2003ء | میاں اقبال احمد ایڈووکیٹ شہید | راجن پور |