رمضان المبارک روحانی موسم بہار کی آمد اور استفادہ کے طریق
(سید شمشاد احمد ناصر۔ مبلغ سلسلہ امریکہ )
رمضان المبارک کی عظمت و شان
اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان سے ہم ایک بارپھر رمضان المبارک کے مقدس اور بابرکت مہینے میںداخل ہو رہے ہیں۔ ہمارے پیارے آقا سرور کائنات آنحضرت ﷺ نے اس مہینہ کی عظمت وشان کے بارہ میں ارشاد فرمایا
’’اے لوگو! تم پر ایک بڑی عظمت اور شان والا مہینہ سایہ کرنے والا ہے۔ یہ ایسا برکتوں والا مہینہ ہے جس میں ایک ایسی رات بھی آتی ہے جو ثواب و فضیلت کے لحاظ سے، ہزار مہینوں سے بھی بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے روزے فرض کئے ہیں اور اس کی رات کی عبادت کو نفل ٹھہرایا ہے…۔
آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ ’’یہ مہینہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے۔ اور یہ ہمدردی و غمخواری کا مہینہ ہے۔ اور ایسا مہینہ ہے جس میں مومن کا رزق بڑھایا جاتا ہے۔ آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا یہ ایسا مہینہ ہے جس کی ابتدا نزول رحمت ہے اور جس کا درمیانی حصہ مغفرت کا وقت ہے اور جس کا آخر آگ سے نجات پانے کا ذریعہ ہے۔ ‘‘
بخاری و مسلم کتاب الصوم میں اس بابرکت اور مقدس مہینہ کے بارے میں یہ روایت بھی حضرت ابوہریرہؓ سے ملتی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا
’’جب رمضان کا مہینہ آتا ہے، آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیطانوں کو جکڑ دیا جاتا ہے۔
آسمانوں اور جنت کے دروازوں کے کھلنے کے یہ معنی ہیں کہ مومنوں کو ایسے نیک اعمال بجا لانے کی توفیق ملتی ہے جو ان کو جنت میں لے جاتے ہیں۔ اور اس طرح جہنم کے دروازے بند ہونے سے مراد یہ ہے کہ مومن رمضان المبارک کے ایام میں اپنے آپ کو گناہوں اور خدا کی ناراضگی کے کاموں سے بچانے کی تگ و دو اور جدوجہد میں لگے رہتے ہیں اور وہ ہر قسم کے گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے شخص پر جہنم کے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔
رمضان میں جو شیطان کو جکڑ دیا جاتا ہے کے معنی بھی یہی ہیں کہ مومن شیطان کی باتوں اور اس کے بہکاوے میں نہیں آتے بلکہ ہر ممکن یہی کوشش اُن کی ہوتی ہے کہ بس ان کا رب ان سے راضی ہو جائے۔
ترمذی کی حدیث میں ایک روایت یوں بھی ہے کہ جب رمضان کی پہلی رات آتی ہے تو ایک اعلان کرنے والا اعلان کرتا ہے کہ اے بھلائی کے چاہنے والے آ اور آگے بڑھ اور اے برائی کے چاہنے والے! رُک جا! اور اللہ کے لئے بہت سے لوگ آگ سے آزاد کئے جاتے ہیں اور رمضان کی ہر ایک رات کو ایسا ہی ہوتا ہے۔‘‘
رمضان کی برکت کے ضمن میں یہ حدیث بھی آتی ہے کہ ’’جب رمضان سلامتی سے گزر جائے تو سمجھوکہ سارا سال سلامت ہے۔‘‘
( دار قطنی بحوالہ جامع الصغیر ۔تحفۃ الصیام صفحہ35)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ’’رمضان کی آمد اور استقبال کی تیاریاں جنت میں رمضان کے بعد سے لے کر اس کے دوبارہ آنے تک پورا سال ہوتی رہتی ہیں۔ اور جنت خوب سجائی جاتی ہے۔‘‘ (تحفۃ الصیام صفحہ35)
2۔ رمضان میں نماز باجماعت
ہر شخص کو حتی الوسع کوشش کرنی چاہئے کہ وہ رمضان المبارک میں اپنی ساری نمازیں باجماعت ہی پڑھے کیونکہ نماز باجماعت کا اکیلی نماز سے سے کہیں زیادہ ثواب ہے۔ قرآن کریم میں بھی جہاں بھی نماز کا حکم آیا ہے نماز باجماعت کا ہی حکم ہے۔ بغیر جماعت کے نماز صرف اور صرف مجبوری کے ماتحت ہے۔ ’’پس جو کوئی شخص بیماری یا شہر سے باہر ہونے یا نسیان کے ماتحت یا دوسرے مسلمان کے موجود نہ ہونے کے عذر کے سوا نماز باجماعت کو ترک کرتا ہے خواہ وہ گھر پر نماز پڑھ بھی لے تو اس کی نماز نہ ہوگی اور وہ نماز کا تارک سمجھا جائے گا۔‘‘
(تفسیر کبیر جلد اول صفحہ106)
اللہ تعالیٰ انسان کی نیت کے مطابق اسے بدلہ دیتا ہے اس لئے ہمیشہ نیت نماز باجماعت کی کی جائے اور پھر اس کے لئے پوری پوری کوشش بھی کی جائے۔ اگر وہ نماز باجماعت میں کوشش کے باوجود شامل نہ ہو سکا تو اللہ کے حضور وہ نماز باجماعت ہی ادا کرنے والا ہے۔ اگر مسجد نہیں جا سکا تو اپنے گھر ہی میں بچوں کے ساتھ مل کر نماز باجماعت ادا کرلے۔ لیکن یہ نہیں کہ مسجد جا سکتا تھا اور پھر بھی سستی کی اور گھر پر پڑھ لی ایسا کرنا درست نہیں ہوتا۔ایک نابینا صحابی کے بارے میں آپ نے کئی مرتبہ سنا ہو گا کہ اُس نے آپ ﷺ سے اجازت چاہی کہ مدینہ کی گلیوں میں کنکر اور پتھریلی زمین ہے اور مجھے پھر مسجد لانے والا بھی کوئی نہیں ہے اس لئے گھر پر نماز پڑھنے کی اجازت مرحمت فرمائیں۔ آپؐ نے فرمایا ٹھیک ہے۔ جب وہ جانے لگا تو آپ نے اسے پوچھا کہ کیا تمہیں اذان کی آواز آتی ہے۔ وہ کہنے لگا جی یا رسول اللہ! اذان کی آواز تو سنتا ہوں تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر مسجد میں آؤ اور نماز باجماعت ادا کرو۔
(ریاض الصالحین حدیث1066)
اب دیکھ لیں آپ ﷺ نے نماز باجماعت کی اہمیت کے پیش نظرجس کے عذر بھی بظاہر معقول نظر آرہے تھے گھر پر نماز پڑھنے کی اجازت نہ دی۔
ایک حدیث میں یہ بھی آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو شخص چالیس روز تک نماز باجماعت پڑھے اور پہلی تکبیر میں شامل ہو تو اس کے لئے دو قسم کی براء تیں لکھی جاتی ہیں ایک آگ سے براءت اور ایک نفاق سے براءت۔‘‘ (منتخب احادیث صفحہ53)
کنز العمال میں ایک حدیث سے نماز باجماعت کی برکات میں سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مَنْ صَلّٰی مِنْ اَوَّلِ شَہْرِ رَمَضَانَ اِلٰی آخِرِہٖ فِیْ جَمَاعَۃٍ فَقَدْ اَخَذَ بِحَظٍّ مِّنْ لَیْلَۃِ الْقَدَرِ ۔ (منتخب احادیث صفحہ153)
’’جس نے ماہ رمضان کے شروع سے آخر تک تمام نمازیں باجماعت ادا کیں تو اس نے لیلۃ القدر کا بہت بڑا حصہ پالیا۔‘‘
امریکہ اور یورپین ممالک میں مسلمان ممالک کی طرح مساجد نزدیک نزدیک تو نہیں ہیں ، فاصلے اور دوری پر ہیں جس کی وجہ سے بعض اوقات مساجد میں نماز باجماعت کے لئے آنا مشکل ضرور ہو جاتا ہے اگرچہ ناممکن نہیں۔ آنحضرت ﷺ نے اس بارہ میں بھی ارشاد فرمایا ہے کہ ’’نماز باجماعت کے لئے دور سے آنے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور بہت بڑا ثواب ہے اور وہ شخص جو امام کا انتظار یعنی نماز باجماعت کے انتظار میں وقت گزارتا ہے اسے بھی بہت ثواب ملتا ہے اس شخص کی نسبت جو بس نماز گھر پر پڑھے اور سو جائے۔‘‘
(ریاض الصالحین حدیث1057)
نماز باجماعت کے حوالہ سے بہت ساری احادیث ہیں۔ ہر حدیث ہی ایک ذوق شوق اور ترغیب و تحریص دلا رہی ہے کہ نماز باجماعت کو کسی رنگ میں بھی ترک نہیں کرنا چاہئے۔ ایک حدیث میں یہ بھی آتا ہے کہ
’’جو شخص گھر سے اچھی طرح وضو کر کے مسجد کی طرف آئے سوائے نماز باجماعت کے اور کوئی چیز اسے باہر نہ لے جانی والی ہو تو جو قدم بھی وہ اٹھائے گا اس کے ذریعہ اس کے درجات بلند ہوتے جائیں گے، اس کی خطائیں اس سے گرا دی جائیں گی یعنی جھڑ جائیں گی۔ جب تک وہ نماز کی حالت میں ہے فرشتے اس پر رحمت کی دعائیں بھیجتے رہتے ہیں کہ اے اللہ! اس پر برکات نازل فرما۔ اے اللہ! اس پر رحم نازل فرما۔‘‘
(ریاض الصالحین حدیث1065)
پس رمضان میں نماز باجماعت کے لئے ہر طرح کی تکلیف اٹھا کر خاص کوشش کی جائے، خود بھی پڑھیں اپنے بچوں اور فیملیز کو بھی نماز باجماعت کی ترغیب اور یاددہانی کراتے جائیں کیونکہ آنحضرت ﷺ کو خداتعالیٰ کی طرف سے یہی ارشاد ہوا تھا
وَاْمُرْ اَہْلَکَ بِالصَّلٰوۃِ وَاصْطَبِرْ عَلَیْھَا
(133)
اور تو اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دے اور لگاتار کہتا چلا جا۔
اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بارے میں قرآن شریف میں یوں آتا ہے
وَکَانَ یَاْمُرُ اَہْلَہٗ بِالصَّلٰوۃِ (56)
اور وہ اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم کیا کرتا تھا۔
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں
’’پس نماز باجماعت کی عادت ڈالو اور اپنے بچوں کو بھی اس کا پابند بناؤ۔ کیونکہ بچوں کے اخلاق و عادات کی درستی اور اصلاح کے لئے میرے نزدیک سب سے زیادہ ضروری امر نماز باجماعت ہی ہے۔‘‘
(تفسیر کبیر جلد نہم صفحہ651)
پس رمضان میں نماز باجماعت کی کوشش کریں۔ بچوں اور فیملیز کو اپنے ساتھ لائیں۔ اور اس ماہ میں نماز باجماعت کی ٹریننگ سارا سال کام آئے گی۔ انشاء اللہ
3۔رمضان میں تلاوت قرآن کریم
رمضان المبارک کا قرآن کریم کے ساتھ بھی بہت گہرا تعلق ہے یہ بابرکت مہینہ ان ایام کی یاد دلاتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے پیارے نبی ہادی کامل حضرت خاتم النبیین ﷺ پر قرآن شریف نازل فرمایا۔ قرآن کریم کی سورۃ البقرۃ میں یہ اس طرح بیان ہوا ہے شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ کہ رمضان کا مہینہ ہی تھا جس میں قرآن کریم اتارا گیا۔
اس لئے رمضان المبارک میں جس قدر بھی ممکن ہو سکے تلاوت قرآن کریم بھی کرنی چاہئے۔ حضرت عبداللہ ؓ بن عمرو سے روایت ہے کہ رسول خدا ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن روزے اور قرآن بندے کے لئے شفاعت کریں گے۔ روزہ کہے گا اے میرے رب! میں نے اس شخص کو دن کے وقت کھانے پینے سے روکا۔ (اور یہ رک گیا) پس میری سفارش اس کے حق میں قبول فرما۔ اور قرآن کہے گا کہ اے میرے رب میں نے اس شخص کو رات کو سونے سے روک دیا تھا۔ (یہ راتوں کو اٹھ کر قرآن پڑھتا تھا۔ یا تہجد میں تلاوت کرتا تھا) پس اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما۔ پس ان دونوں کی یہ سفارش قبول کی جائے گی۔
رمضان المبارک کے دنوں میں مساجد میں درس القرآن کا بھی اہتمام ہوتا ہے۔ اس میں بھی ہر ممکن کوشش کرکے شامل ہونا چاہئے کیونکہ احادیث میں یہ بھی آتا ہے کہ جہاں قرآن پڑھنے کا بہت ثواب ہے اسی طرح قرآن سننے کا بھی بہت بڑا ثواب ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے
وَاِذَا قُرِیَٔ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ ۔ (الاعراف 205:)
یعنی جب قرآن پڑھا جاوے تو اسے کان لگا کر سنو اور چپ رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
آنحضرت ﷺ کی سنت بھی ہے آپؐ نے ایک دفعہ حضرت ابن مسعودؓ سے فرمایا کہ مجھے قرآن سناؤ۔ انہوں نے عرض کی یا رسول اللہ! مَیں قرآن پڑھ کر سناؤں؟ حالانکہ آپ پر تو قرآن کریم نازل ہوا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں یہ پسند کرتا ہوں کہ دوسرے سے بھی قرآن سنوں۔‘‘ (ریاض الصالحین حدیث نمبر1008)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے
جو لوگ خداتعالیٰ کے گھروں میں سے کسی گھر میں (یعنی مسجد میں) اللہ تعالیٰ کی کتاب یعنی قرآن مجید پڑھتے ہیں تلاوت کرتے ہیں۔ آپس میں ایک دوسرے کو پڑھاتے یعنی درس دیتے ہیں ایسے لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی سکینت نازل ہوتی ہے۔ خداتعالیٰ کی رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے اور خداتعالیٰ کے فرشتے انہیں اپنے پروں کے نیچے گھیر لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ایسے بندوں کا ان کے سامنے ذکر کرتے ہیں جو خداکے حضور حاضر ہوتے ہیں۔‘‘ (ریاض الصالحین حدیث 1023)
پس خود بھی قرآن پڑھیں۔ گھر والوں کو بھی قرآن پڑھنے کی ترغیب دیں اور مساجد میں درسوں میں بھی بچوں اور فیملیز کے ساتھ وقت پر تشریف لا کر مندرجہ بالا حدیث میں جن برکات کا ذکر ہے ان سے فائدہ اٹھائیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی سکینت، اس کی رحمت، اور فرشتوں کی معیت سے! کیوں کہ ’’اَلْخَیْرُ کُلُّہٗ فِی الْقُرْآنِ‘‘ (کشتی نوح)
تمام بھلائیاں قرآن کریم میں ہی ہیں
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مزید فرمایا
’’سب کتابیں چھوڑ دو اور رات دن کتاب الٰہی کو پڑھو۔ بڑا بے ایمان ہے وہ شخص جو قرآن کریم کی طرف التفات نہ کرے اور دوسری کتابوں پر ہی رات دن جھکا رہے… اس وقت قرآن کریم کا حربہ ہاتھ میں لو تو تمہاری فتح ہے۔‘‘ (الحکم 17اکتوبر1900ء)
4۔رمضان کا روزہ بغیر کسی شرعی عذر کے ترک نہ کریں
دین اسلام کے پانچ ارکان ہیں اور ان میں سے ایک روزہ ہے۔ روزہ ہر مسلمان بالغ و عاقل مرد و عورت پر فرض ہے، اور روزوں کی فرضیت مدینہ میں سن دو ہجری میں ہوئی۔ اگرچہ اسلام سے قبل مختلف مذاہب میں روزے کے احکامات موجود تھے مگر ’’روزہ کی عبادت‘‘ کامل شکل میں پہلی دفعہ مسلمانوں ہی میں رائج ہوئی ہے۔ اور قرآن کریم میں روزوں کی غرض و غایت ’’لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ‘‘ کے الفاظ میں بیان ہوئی ہے تاکہ انسان روحانی اور اخلاقی گراوٹوں اور کمزوریوں سے بچ سکے۔ آنحضرت ﷺ نے بھی فرمایا ہے کہ ’’روزے ڈھال ہیں۔ پس روزہ کی حالت میں نہ کوئی شہوانی بات کرے۔ نہ جہالت اور نادانی کرے۔ اور اگر کوئی اس سے لڑائی جھگڑا کرے تو وہ کہے کہ میں روزہ دار ہوں۔ میں روزہ دار ہوں۔‘‘
(بخاری کتاب الصوم)
پس ہر ممکن کوشش کرکے اللہ تعالیٰ کے احکامات کو بجا لانا چاہئے خواہ انسان اس میں کتنی ہی مشکلات سمجھے۔ انسان اگر تھوڑا سا بھی غور کرے تو یہ سب احکامات دراصل اس کے فائدہ ہی کے لئے ہیں۔ آج کل لوگ غذاؤں کے کھانے میں بہت سے پرہیزوں سے کام لیتے ہیںکہ یہ نہیں کھانا، وہ نہیں کھانا اس سے صحت پر برا اثر پڑتا ہے اور سائنس نے بھی اس بات کی تصدیق کر دی ہے کہ کم کھانے یا فاقہ کرنے سے انسان بہت سی بیماریوں سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے 1500 سال پہلے اس بات کی خبر دے دی تھی کہ ’’صُوْمُوْا تَصِحُّوْا‘‘ تم روزے رکھا کرو صحت مند رہو گے۔‘‘ (تحفۃ الصیام صفحہ42)
آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے
مَنْ اَفْطَرَ یَوْمًا مِنْ شَھْرِ رَمَضَانَ مِنْ غَیْرِ رَخْصَۃٍ وَلَا مَرَضٍ فَلَا یَقْضِیْہِ صِیَامُ الدَّھْر کُلِّہٖ وَلَوْ صَامَ الدَّھْرَ
(مسند دارمی بحوالہ تحفۃ الصیام صفحہ89)
یعنی جس نے بغیر کسی عذر کے رمضان کا ایک روزہ بھی عمداً ترک کیا تو بعد میں اگر ساری عمر بھی اس روزہ کے بدلے، وہ روزے رکھے تب بھی اس کا بدلہ نہ چکا سکے گا۔ لیکن مریض، مسافر، چھوٹے بچے، بوڑھے جو روزہ کی استطاعت ہی نہیں رکھتے، حاملہ خواتین اور دودھ پلانے والیوں کو رخصت بھی اسلام نے دی اور بیماری اور سفر کے ختم ہونے پر وہ گنتی کے ایام پورے کر لیں۔
5۔رمضان ، قیام اللیل… تراویح
رمضان المبارک میں ہر نیکی کا بہت ثواب ہے اس لئے خصوصیت سے رمضان میں قیام اللیل یعنی نماز تہجد پڑھنے کی بھی کوشش کرنی چاہئے۔ یہ وہ وقت ہے جس کے بارہ میں احادیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر رات قریبی آسمان تک نزول فرماتا ہے جب رات کا تیسرا حصہ باقی رہ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کون ہے جو مجھے پکارے تو میں اس کو جواب دوں، کون ہے جو مجھ سے مانگے تو میں اس کو دوں، کون ہے جو مجھ سے بخشش طلب کرے تو میں اس کو بخش دوں۔ (ترمذی کتاب الدعوات)
رسول خدا ﷺ کی سنت بھی یہی تھی کہ آپ نصف شب کے بعد نماز تہجد ادا فرماتے یہ ایک زائد نفلی نیکی اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو مرحمت فرمائی ہے۔ ’’وَمِنَ اللَّیْلِ فَتَھَجَّدْ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ‘‘۔ (بنی اسرائیل)
آپ کا یہی دستور تھا۔ اس کے علاوہ اُمّت میں رمضان المبارک میں خصوصیت کے ساتھ نماز تراویح کا بھی اہتمام ہوتا ہے۔ جس میں شامل ہو کر انسان قرآن کریم بھی سنتا ہے۔
اصل نماز تہجد ہی ہے۔ جو لوگ رات کو نماز تراویح ادا کرتے ہیں پھر بھی انہیں چاہئے کہ وہ نماز تہجد پڑھنے کی کوشش کریں خواہ دو نفل ہی کیوں نہ پڑھیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ رمضان کی راتوں میں عبادت کی سنت میں نے تمہارے لئے قائم کر دی ہے۔ بخاری کتاب الایمان میں یہ روایت بھی مذکور ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جو شخص ماہ رمضان میں ایمان کی حالت میں اور ثواب کی خاطر عبادت کرتا ہے تو اس کے تمام پچھلے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔
بہرحال نماز تہجد رتبے اور ثواب میں بالا اور افضل ہے، حضور ﷺ اور آپ کے اصحاب رضی اللہ عنہم کی بھاری تعداد باقاعدہ نماز تہجد ادا کرتی تھی۔ قرآن کریم نے ان کی تعریف یوںبیان فرمائی ہے
تَتَجَافٰی جُنُوْبُھُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ خَوْفًا وَ طَمَعًا۔ کہ راتوں کو جب لوگ نیند کے خمار میں ہوتے ہیں تو یہ لوگ (صحابہ کرامؓ) بستروں سے الگ ہو کر اپنے خدا کے سامنے سربسجود اور راز و نیاز میں مصروف ہوتے ہیں۔ اور یہ لوگ خوف اور امید کے ساتھ اپنے رب کو پکارتے ہیں۔ حضرت حکیم الامت الحاج مولانا نورالدین صاحبؓ سے ایک شخص نے نماز تراویح کی نسبت سوال کیا تو آپ نے فرمایا
’’میرے خیال میں ماہ رمضان میں ایک تو روزوں کا حکم ہے دوسرے حسبِ طاقت دوسروں کو کھانا کھلانے کا، تیسرے تدارس قرآن کا، چوتھے قیام رمضان کا۔ یعنی نماز میں معمول سے زیادہ کوشش کرنا۔صحابہ میں تین طریقے قیام رمضان کے رائج تھے، بعض تو بیس رکعتیں باجماعت پڑھتے تھے، بعض آٹھ رکعتیں اور بعض صرف تہجد گھر میں پڑھ لیتے تھے۔ اس پر نووارد نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ سے تو نماز تراویح کا پڑھنا تین چار دن سے زیادہ ثابت نہیں ہوتا اس لئے بعض لوگ اسے بدعت عمریؓ کہتے ہیں۔ حضرت حکیم الامت نے فرمایا خواہ آنحضرت ﷺ نے صرف ایک دن ہی نماز تراویح پڑھی ہو اول سنّت تو ہو گئی۔ دوم نہ کرنے سے سنت تو نہیں ٹوٹتی۔‘‘ (تحفۃ الصیام صفحہ100-101)
دنیا کے حالات تیزی سے بدل رہے ہیں۔ تیسری جنگ عظیم کے بادل منڈلا رہے ہیں، مسلمان ممالک کے حالت بدترسے بدتر ہوتے چلے جارہے ہیں اور انہیں ابھی تک ہوش نہیں آرہی۔ پہلے تو یہ ہوتا تھا کہ مسلمانوں اور کافروں میں جنگ ہوتی تھی اسلام کے دفاع کے لئے۔ اب مسلمان مسلمان کو قتل کر رہا ہے، ایک دوسرے کے خون کے پیاسے مسلمان ہو گئے ہیں اور بڑی بے رحمی و بے دردی سے قتل عام کیا جارہا ہے۔ ان حالات میں انہیں ہماری دعائیں ہی بچا سکتی ہیں۔ بلکہ دنیا جس تباہی کی طرف جارہی ہے دعائیں ہی انہیں بچا ئیں گی ورنہ کوئی اور ذریعہ باقی نہیں بچا۔ مسلمانوں نے خود اپنی ہلاکتوں کے سامان کر لئے ہیں غیروں سے مل کر مسلمانوں کے قتل اور خونریزی کی جارہی ہے۔ اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے اور بلاؤں سے سب کو بچائے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ کہ خدا کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالتیں نہ بدلیں۔
(باقی آئندہ)
روزنامہ الفضل لنڈن عظیم الشان نعمتوں سے ایک عظیم نعمت ہے ۔۔۔۔۔اس کی قدر پاکستان جیسے ممالک سے پوچھیں۔اللہ تعالیٰ اس کو دن دگنی رات چوگنی ترقی سے نوازے اور تمام کارکنان کی کوششوں اور کاوشوں میں برکت ڈالے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس نعمت کی قدر کرنے اور خلافت جیسی عظیم الشان بابرکت آسمانی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھنے اور اس کے ساتھ جڑے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین