خلفاءِ کرام کا عزم و استقامت
حق و صداقت پر قائم رہنے کے لئےعزم، ثابت قدمی،استقامت اور مستقل مزاجی بنیادی اوصاف ہیں۔ یہی خصوصیت انسان کو عظمت کی اس بلندی پر فائز کردیتی ہے جہاں کوئی لالچ یا کوئی خوف اسے صراط مستقیم سے ہٹا نہیں سکتا۔عزم کا مطلب ہوتا ہے کہ کسی چیز کا ارادہ کرنا اور استقامت کا مطلب یہ ہے کہ کوئی چیز ایسی حالت میں بھی کھڑی رہے کہ جب اس کے کھڑے رہنے کی راہ میں رکاوٹیں ہوں اور اس پر ہر طرف سے مصائب کے پہاڑ گرائےجا رہے ہوں۔
سید الانبیاء،ہمارے آقا ومولیٰ آنحضرتﷺ کی ذات اقدس میں ہر خُلق اور اعلیٰ صفت اپنے کمال کو پہنچ گئی اور آپ ﷺنے یہ تمام اعلیٰ اقدار اورمکارم اخلاق اپنے صحابہ کے اندر بھی قائم فرما ئے،جن میں خلفاء راشدین سر فہرست ہیں۔اسی لئے رسول اللہ ﷺفرمایا۔ عَلَيْكُمْ بِسّنَّتِيْ وُسُنَّة الْخُلَفَاء الرَّاشِدِيْنَ الْمَهْدِيّيْنَ۔خلفاء راشدین ،ہر میدان میں ہر دوسرے نبی کے تابعین سے آگے بڑھ گئے اور یہ رسول کریمﷺ کی قوت قدسیہ کا ایک زبردست اعجازہے۔
اگر ہم خلفاء راشدین کی سیرت کامطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ عزم و استقامت خلفاء راشدین کا ایک نمایا ں وصف تھا۔
حضرت ابو بکرؓکے عزم و استقامت کی پختگی کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ جب رسول کریم ﷺ مرض الموت سے بیمار ہوئے تو آپ نے اپنی وفات سے کچھ دن پہلے ایک لشکر رومی حکومت کے مقابلہ کے لئے تیار فرمایا ۔ اور حضرت اسامہ بن زید ؓ کو اس کا سردار مقرر فرمایا ۔ ابھی یہ لشکر روانہ نہیں ہوا تھا کہ رسول کریم ﷺ اپنے رفیق اعلیٰ کے حضور حاضر ہوگئے ۔ اور سوائے مکہ ، مدینہ اور طائف کے سارے عرب میں بغاو ت کا طوفان امڈآیا۔ اس وقت بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ نے مل کر مشورہ کیا کہ اس نازک موقع پر اسامہ ؓکا لشکر باہر بھیجنا مناسب نہیں کیونکہ ادھر سار اعرب مخالف ہے ، اُدھر عیسائیوں کی مضبوط حکومت سے لڑائی شروع کر دی گئی تو نتیجہ یہ ہو گا کہ اسلامی حکومت کا شیرازہ بکھر جائے گا۔اور مدینہ میں صرف بچے اور بوڑھے رہ جائیں گے اور مسلمان عورتوں کی حفاظت نہیں ہو سکے گی ۔ ان صحابہ نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ سے درخواست کی کہ اے امیر المومنین! ہم آپ سے التجا کرتے ہیں کہ اس وقت اسامہ کے لشکر کو روک لیں ۔ اور عرب کے باغیوں کا قلع قمع کر لیا جائے ۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو خطرہ ہے کہ دشمن مدینہ میں گھس کر شعائر اللہ کی بے حرمتی اور مسلمانوں کی عصمتوں اور اموال کو نقصان پہنچائے گا ۔
اس وقت حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے ان صحابہ کی بات سن کریہ جواب دیا کہ ’’کیا ابو قحافہ کا بیٹا خلافت کے مقام پر فائز ہونے کے بعد پہلا کام یہ کرے کہ محمد رسول اللہ ﷺ نے جو آخری مہم تیار کی تھی اسے روک دے ؟ پھر فرمایا : خدا کی قسم ! اگر کفار مدینہ کو فتح کر لیں اور مدینہ کی گلیوں میں مسلمان عورتوں کی لاشیں کتے گھسیٹتے پھریں ، تب بھی میں اس لشکر کو نہیں روکوں گا جسے محمد رسول اللہ ﷺ نے روانہ کرنے کے لئے تیار فرمایا تھا ۔ یہ لشکر جائے گا اور ضرور جائے گا ۔
اسی طرح ہمیں اسلام کے دوسرے خلیفہ حضرت عمر ؓ کی شخصیت اور کردار میں بھی یہ پہلو نمایاں نظر آتا ہے۔ آپؓ کے دور خلافت میں بے شمار فتوحات ہوئیں ۔ اسلامی سلطنت کو وسعت حاصل ہوئی۔ آپؓ نے اندرونی اور بیرونی تمام محاذوں پر امت مسلمہ کی رہنمائی فرمائی۔ اسلامی احکامات کو نافذ فرمایا اور ایک ایسی اسلامی فلاحی ریاست قائم فرمائی جس کی مثال آج تک جدید دنیا کی فلاحی ریاستوں میں دی جاتی ہے۔
حضرت عثمان ؓ کا دور خلافت فتنہ پردار اور مفسدین سے خالی نہیں تھا۔مفسدین کی حتی الوسع کوشش تھی کہ وہ کسی نہ کسی طرح حضرت عثمان ؓکو خلافت سے دست بردار ہونے پر مجبور کردیں مگر ذو النورین کی عزم و استقامت ملاحظہ فرمائیں کہ آپؓ نے صاف طور پر اس امر سے انکار کر دیا اور تا حیات اس بات پر ثابت قدم رہے کہ ’’جو قمیص مجھے خداتعالیٰ نے پہنائی ہے میں اسے ہر گز نہیں اتاروں گا ۔اور نہ امت محمد ﷺ کو بے یار و مدد گار چھوڑ سکتا ہوں کہ جس کا جو چاہے دوسرے پر ظلم کرے۔‘‘
(انوارالعلوم جلد 4صفہ 279)
آپ ؓ تمام مفسدین کو سمجھاتے رہے کہ وہ اپنی بد عملیوں سے باز آجائیں ، مگر افسوس کہ خلافت اور حکومت کے لالچ نے ان کو اندھا کر دیا تھا۔ ان تمام حالات نے حضرت عثمان ؓ کے عزم و استقامت میں ذرہ بھر بھی تزلزل نہیں آنے دیا اور آپؓ چٹان کی طرح اپنے موقف پر قائم رہے اور ان سے صَرف نظر کرتے رہے مگر یہ ان کی بد بختی اور شقاوت تھی کہ انہوں نے حضرت عثمان ؓ پر قاتلانہ حملہ کر دیا اور آپؓ کو شہید کردیا۔
حضرت عثمان ؓ کے بعد اسلام کا عَلَم اس اسد اللہ کے سپرد ہواجس کے ہاتھ سے خیبرفتح ہوا تھا۔ اللہ کے اس شیر نے نو عمری میں عزم کرتے ہوئے آپ ﷺ کی خدمت میں یہ عرض کیا کہ ’’گو میں عمر میں سب سے چھوٹا ہوں اور میری آنکھیں بھی دکھتی ہیں،میری ٹانگیں پتلی ہیں مگر اس کے باوجود میں آپ کا معین و مددگار بنوں گا۔‘‘
حضرت علیؓ نے آنحضرت ﷺ کے معین و مددگار کا جو عزم و عہد باندھا تھا اس کو اپنی آخری سانس تک خوب نبھایا۔
حضرت مسیح موعودؑ کی وفات پر جہاں آپ کی جدائی کا غم تھاوہاں جماعت کے مستقبل کے بارے میں بھی فکر دامنگیر ہونا ایک فطرتی بات تھی۔ دوسری جانب مخالفین بھی خوشیاں منارہے تھے کہ اب جماعت کا شیرازہ بکھر جائےگا۔ اس طرح کے حالات میں خدا تعالیٰ کی ذات پرکامل توکل کرتے ہوئے حضرت مولاناحکیم نورالدین صاحب ؓ نے اللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق جماعت کی باگ ڈور تھامی اور خداتعالیٰ کے عطا کردہ عزم و استقامت کی بدولت جماعت کی بنیادوں کو دعاؤں اور تنظیم سازی کے ذریعے مضبوط سے مضبوط ترفرمایا۔
افسوس کہ آپ ؓ کے دورِ خلافت کے ابتدا میں ہی مفسدین نےمقام خلافت اور خلیفہ وقت کی ذات پر اعتراضات کرنے شروع کردئیے اور خلیفہ وقت کو معزول کرنے کی کوششیں شروع کردیں۔ مگر ان مشکلات کی گھڑی میں بھی آپ ؓنے ثابت کر دکھایا کہ خلیفہ خدا بناتا ہے اور جو عزم آپ نے باندھا تھا کہ جماعت کو آگے لے کر چلیں گے اس کو آخری دم تک پورا کیا ۔
آپؓ فرماتے ہیں:
’’خدا نے جس کام پر مجھے مقرر کیا ہے۔ مَیں بڑے زور سے خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اب میں اس کرتے کو ہرگز نہیں اتار سکتا۔ اگر سارا جہان بھی اور تم بھی میرے مخالف ہو جاؤ تو میں تمہاری بالکل پرواہ نہیں کرتا اور نہ کروں گا۔‘‘
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے دور خلافت کے ابتدائی ایام سے ہی جو لوگ پہلے ڈھکے چھپےالفاظ میں خلافت پر اعتراضات کرتے تھے وہ کھل کر سامنے آگئے۔ انہوںنے اپنی ڈگریوں،اپنی قابلیتوں،اپنے مال و اسباب،اپنے تعلقات اور اپنے وسیع تجربہ کو بنیاد بنا کر کہا کہ ہم جماعت کو سنبھالیں گے اور آگے بڑھائیں گے۔ اور خلیفۃ المسیح الثانی کے بارے میں کہاکہ یہ تو کل کا بچہ ہے۔یہ کیا جماعت کی نگہبانی کرے گا۔خلافت کے منکرین یہ بھول گئے تھے کہ یہ وہی موعود پسر ہے جس نے نو عمری میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نعش مبارک کے سرہانے کھڑا ہو کر ،اﷲ تعالیٰ سے یہ عہد باندھا تھا کہ اے میرے ربّ! اگر ساری جماعت بھی اِس ابتلاکی وجہ سے کسی فتنہ میں پڑ جائے تب بھی میں اکیلا اس پیغام کو جو تُونے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ذریعہ بھیجا ہے دنیا کے کناروں تک پہنچانے کی کوشش کروں گا اور اس وقت تک چین نہیں لوں گا جب تک کہ مَیں ساری دنیا تک احمدیت کی آواز نہ پہنچا دوں۔
آپؓ نے اپنے بے مثال عزم و استقامت سے اپنے عہد کو پورا کیا جس کی نظیر نہیں ملتی۔اورآپ ؓ کے بابرکت باون سالہ دورمیں خدا تعالیٰ کی غیر معمولی نصرتوں کے ایسے عجیب در عجیب نشانات ظاہر ہوئے کہ دنیا ورطۂ حیرت میں پڑ گئی اورسخت سےسخت دشمن کو بھی یہ تسلیم کئے بغیر چارہ نہ رہا کہ اس زمانہ میں سلسلہ عالیہ احمدیہ نے غیر معمولی ترقی کی ہے اور یہ کہ امام جماعت احمدیہ بے نظیر صلاحیتوںکےمالک ہیں۔ خواہ اندرونی فتنے ہوں، بیرونی فتنے ہوں، غیر مبایعین کا فتنہ ہو یا احراری جماعت کا فتنہ ہو۔ ہندوؤں کی سازشیں ہوں یا مولویوں کے جتھے ہوں یا سیاسی چالیں ہوں مگر آپ رضی اللہ عنہ کے پائے استقلال میں ذرا سی جنبش نہ آئی اوریہ الٰہی قافلہ آپ کی سیادت میں خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ اپنی منزل کی جانب بدستور بڑھتا چلا گیا۔
حضرت مصلح موعود خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جماعت احرار نے یہ دعویٰ کیا کہ ’’ ہم قادیان کی بستی کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے ‘‘۔ انہوں نے سر توڑ کوشش کی کہ قادیان والوں کو ختم کرد یا جائے ۔ ان کی ان کوششوں کو دیکھتے ہوئے حضورؓ نے اعلان کیا کہ ’’ تم قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی بات کرتے ہو ، میں تمہارے پاؤں تلے سے زمین نکلتی دیکھتا ہوں ‘‘ اور تحریک جدیدکے اجراء کا اعلان کیا ۔ احرار جنہوں نے قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا دعویٰ کیا تھا،خدا تعالیٰ نے ان کو ان کی تمام کوششوں میں ناکام کردیا اور قادیان سے اٹھنے والی آواز کو ساری دنیا میں پھیلا دیا ۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے بھی اسی راستہ پر اپنا سفر جاری رکھا۔ آپ کی اہلیہ محترمہ سیدہ طاہرہ صدیقہ ناصر صاحبہ بیان کرتی ہیں۔
’’1974ء کے دور ابتلا میں آپ نے جماعت کی کشتی کو جس خوبصورتی ،حوصلے اور حکمت عملی سے ابتلا کے پُر خطر راستہ سے گزارا مستقبل کا مؤرخ ہمیشہ اسے فخر کے ساتھ دہرائے گا۔ اس دوران آپ کا ایک وہ روپ تھا جو افراد جماعت اور اہل دنیا نے دیکھا۔ بشاشت، حوصلہ، قوت برداشت،عزم،استقلال،جرأت بے مثال،توکل علی اللہ اور غیر متزلزل ایمان۔‘‘
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کے عہد میں جب ایک فرعون نے ہر قسم کی تدابیر کیں کہ کسی طرح میں اس سلسلہ کو نیست و نابود کردوں ۔ تو وہ خدا جس نے پہلے بھی موسیٰ کو بچایا تھا آج بھی زندہ تھا اور اپنے بندہ کے حالات سے خوب باخبر تھا۔حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے فرمایا:
’’ یادرکھوجماعت احمدیہ کا ایک مولیٰ ہے، زمین و آسمان کا خدا ہمارا مولیٰ ہے، لیکن میں تمہیں بتاتا ہوں کہ تمہارا کوئی مولیٰ نہیں ،خدا کی قسم جب ہمارا مولیٰ ہماری مدد کو آئے گا تو کوئی تمہاری مدد نہیں کرے گا۔خدا کی تقدیر جب تمہیں ٹکڑے ٹکڑے کرے گی تو تمہارے نام ونشان مٹا دیے جائیں گے۔ہمیشہ دنیا تمہیں ذلت او ررسوائی کے ساتھ یا دکرے گی ۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 24 دسمبر 1984 )
آخر جب مخالفت انتہا کو پہنچ گئی اور بد بخت اپنی شرارتوں میں بڑھتا چلا گیا تو خدا کی تقدیر جوش میں آئی اوراس رنگ میں اس کے ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے کہ نہ آسمان نے اسے قبول کیااور نہ زمین نے ۔اور آج تک اس کا نام ذلّت و رسوائی سے یا د کیا جاتا ہے اور کیا جاتا رہے گا ۔
خلفاء مسیح موعود ؑ کا عزم و استقامت کا یہ سفر آج بھی اسی شان سے جاری ہے۔ جب خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو 26 ستمبر 2015ء کے روز یہ اطلاع ملی کہ بیت الفتوح میں آگ لگ گئی ہے اور یہ تجویز پیش کی گئی کہ اگر راہ ھدیٰ کے براہ راست پروگرام کو نشر کرنے کی بجائے اس مرتبہ گزشتہ پروگرام کو ہی مکرر نشر کر دیا جائے۔ اس پر حضورانور نے فرمایا ’’اس طرح کے واقعات سے جماعتوں کے کام نہیں رک جاتے۔ ‘‘
(الفضل انٹرنیشنل،13 جنوری 2017)
آج خلافت خامسہ کے مبارک عہد میں بھی حضرت خلیفۃ المسیح کی اولو العزم قیادت میں معاندین و مخالفین کی تمام کوششوں کے باوجود احمدیت کا قافلہ شاہراہ غلبہ اسلام پر تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ الحمد للہ۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جامعہ احمدیہ یُوکے کے طلباء سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’کسی دنیاوی چیز پر نظر رکھنے کی بجائے اس عہد پرہمیشہ نظر رکھیں جو آپ نے خداتعالیٰ سے کیا ہے کہ ہم حضرت مسیح موعود ؑ کے مشن کو دنیا میں ہر جگہ پہنچائیں گے اور اپنی عملی حالتوں سے اپنے تربیت کے کام کو بھی اپنی انتہا تک پہنچانے کی کوشش کریں گے۔‘‘(خطاب حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بیان فرمودہ 13 دسمبر 2014ء بروز ہفتہ بمقام Haslemere، جامعہ یوکے)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلفاء کو عطا ہونے والے عزم و استقامت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’حضرت عائشہؓ کا قول ہے کہ بباعث چند در چند فتنوں اور بغاوت اعراب اور کھڑے ہونے والے جھوٹے پیغمبروں کے میرے باپ پر جبکہ وہ خلیفہ رسول اللہ ﷺ مقرر کیا گیا وہ مصیبتیں پڑیں اور وہ غم دل پر نازل ہوئے کہ اگر وہ غم کسی پہاڑ پر پڑتے تو وہ بھی گر پڑتا اور پاش پاش ہوجاتا اور زمین سے ہموار ہوجاتا۔ مگر چونکہ خدا کا یہ قانون قدرت ہے کہ جب خدا کے رسول کا کوئی خلیفہ اس کی موت کے بعد مقرر ہوتاہے تو شجاعت اور ہمت اور استقلال اور فراست اور دل قوی ہونے کی روح اس میں پھونکی جاتی ہے۔ جیسا کہ یشوع کی کتاب باب اول آیت6میں حضرت یشوع کو اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ مضبوط ہواور دلاوری کر ۔یعنی موسیٰ ؑ تو مر گیا اب تو مضبوط ہوجا۔ یہی حکم قضاء و قدر کے رنگ میں نہ شرعی رنگ میں حضرت ابوبکرؓ کے دل پر بھی نازل ہوا تھا۔‘‘
(روحانی خزائن جلد نمبر17صفحہ186۔تحفہ گولڑویہ،صفحہ58)
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں خلفاء کرام کے عزم و استقامت کے ان پاک نمونوں کو اپنی زندگیوں میں جاری کر نے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم خلافت سے کامل طور پر وابستہ رہتے ہوئے مومنانہ عزم کے ساتھ دین اسلام کو ساری دنیا میں پھیلانے اور غالب کرنے کے لئے اپنے فرائض کو ادا کرنے والے ہوں۔ آمین۔
٭…٭…٭