خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ یکم ؍جون 2018ء

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ حضرت عُکاشہ بن مِحْصَن، حضرت خارجہ بن زید، حضرت زیاد بن لبید، حضرت مُعَطِّبْ بن عُبَید، حضرت خالد بن بُکَیْر رضوان اللہ علیہم کے اوصاف حسنہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت، اخلاص و وفا، دینی خدمات اور عظیم الشان قربانیوں کا دلگداز تذکرہ

مکرم اسماعیل مالاگالاصاحب مبلغ یوگنڈا کی وفات۔ مرحوم کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب

خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ یکم جون 2018ء بمطابق یکم احسان 1397 ہجری شمسی بمقام مسجدبیت الفتوح،مورڈن،لندن، یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی حضرت عکاشہؓ بن مِحصن تھے۔ حضرت عکاشہؓ بن محصن کا شمار کبار صحابہ میں ہوتا ہے۔ آپ بدر کے موقع پر گھوڑے پر سوار ہو کر شامل ہوئے۔ اس دن آپ کی تلوار ٹوٹ گئی۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ایک لکڑی دی تو وہ آپ کے ہاتھ میں گویا نہایت تیز اور صاف لوہے کی تلوار بن گئی اور آپ اسی سے لڑے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے فتح عطا فرمائی۔ پھر اسی تلوار کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تمام غزوات میں شامل ہوئے اور یہ لکڑی کی تلوار وفات تک آپ کے پاس ہی تھی۔ اس تلوار کا نام عون تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بشارت دی تھی کہ تم جنت میں بغیر حساب کے داخل ہو گے۔

(اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 64-65عکاشہ بن محصن مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1996ء)

غزوہ بدر کے موقع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ عرب کا بہترین شہسوار ہمارے ساتھ شامل ہے۔ صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ وہ کون شخص ہے؟ فرمایا عکاشہ بن محصن۔

(سیرت ابن ہشام صفحہ 435 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2001ء)

حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ نے فرمایا کہ میری امّت سے ایک گروہ جنت میں داخل ہو گا۔ وہ ستّر ہزار ہوں گے اور ان کے چہرے چودہویں رات کے چاند کی طرح روشن ہوں گے۔ حضرت ابوہریرۃؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عکاشہ بن محصن اپنی چادر اٹھاتے ہوئے کھڑے ہوئے اور عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اللہ سے دعا کریں کہ مجھے بھی ان میں سے بنا دے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ! اسے بھی ان میں شامل کر دے۔ پھر انصار میں سے ایک آدمی کھڑا ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سے دعا کریں کہ مجھے بھی ان میں سے بنا دے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سَبَقَکَ بِھَا عُکَاشَہ۔ کہ عکاشہ اس بارے میں تجھ پر سبقت لے گیا ہے۔

(صحیح مسلم کتاب الایمان باب الدلیل علیٰ دخول طوائف من المسلمین الجنۃ بغیر حساب ولا عذاب حدیث 369)

اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے اپنی سیرت کی کتاب میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے لکھا ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں ذکر ہواکہ میری اُمّت میں سے ستّر ہزار لوگ بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے۔ یعنی وہ ایسے روحانی مرتبہ پر فائز ہوں گے کہ ان کے لئے خدائی فضل و کرم اس قدر جوش میں ہو گا کہ ان کے حساب کتاب کی ضرورت نہیں ہو گی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ ان لوگوں کے چہرے قیامت کے دن اس طرح چمکتے ہوں گے جس طرح چودہویں رات کا چاند آسمان پر چمکتا ہے۔ اس پر حضرت عکاشہؓ نے عرض کیا کہ میرے لئے بھی دعا کریں اور آپ نے دعا کی کہ ان کو بھی ان میں شامل کر دے۔ اس پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے بڑے خوبصورت رنگ میں اس کی تفسیربیان کی ہے اور تجزیہ کیا ہے۔ آپ لکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس کا یہ ایک بظاہر چھوٹا سا واقعہ اپنے اندر بہت سے معارف کا خزانہ رکھتا ہے۔ کیونکہ اوّل تو اس سے یہ علم حاصل ہوتا ہے کہ اُمّت محمدیہ پر اللہ تعالیٰ کا اس درجہ فضل و کرم ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا روحانی فیض اس کمال کو پہنچا ہوا ہے کہ آپ کی اُمّت میں سے ستّر ہزار آدمی ایسا ہو گا جو اپنے نمایاں روحانی مقام اور خدا کے خاص فضل و کرم کی وجہ سے گویا قیامت کے دن حساب و کتاب کی پریشانی سے بالا سمجھا جائے گا۔( ستّر ہزار سے یہ بھی مراد لی جاتی ہے کہ ایک بڑی تعداد ہو گی۔) دوسرے اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کے دربار میں ایسا قرب حاصل ہے کہ آپ کی روحانی توجہ پر خدا تعالیٰ نے فوراً بذریعہ کشف یا القاء آپ کو یہ علم دے دیا کہ عُکاشہ بھی اس ستّر ہزار کے گروہ میں شامل ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ عُکاشہ پہلے اس گروہ میں شامل نہ ہو مگر آپ کی دعا کے نتیجہ میں خدا نے اسے یہ شرف عطا کر دیا ہو۔ تیسرے اس واقعہ سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا اس درجہ ادب ملحوظ تھا اور آپ اپنی اُمّت میں جدوجہد کے عمل کو اس درجہ ترقی دینا چاہتے تھے کہ جب عُکاشہ کے بعد ایک دوسرے شخص نے آپ سے اسی قسم کی دعا کی درخواست کی تو آپ نے اس اَخَص روحانی مقام کے پیش نظر جو اس پاک گروہ کو حاصل ہے مزید انفرادی دعا سے انکار کر دیااور مسلمانوں کو تقویٰ اور ایمان اور عمل صالح میں ترقی کرنے کی طرف توجہ دلائی۔ اور یہ بتایا کہ اگر اس طرف توجہ رہے گی تو تمہیں مقام مل سکتا ہے۔ چوتھے اس سے آپ کے اعلیٰ اخلاق پر( یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ اخلاق پر) بھی غیر معمولی روشنی پڑتی ہے۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار ایسے رنگ میں نہیں کیا جس سے سوال کرنے والے انصاری کی دل شکنی ہو بلکہ ایک نہایت لطیف رنگ میں اس بات کو ٹال دیا۔‘‘

(ماخوذ از سیرت خاتم النبیین از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ صفحہ 667 تا 668 )

حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عُکاشہ کو مختلف سرایا میں ،جنگوں میں جو فوجیں بھیجی جاتی تھیں ان میں امیر بنا کر بھیجا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ربیع الاول چھ ہجری میں حضرت عُکاشہ کو چالیس مسلمانوں کا افسر بنا کر قبیلہ بنی اسد کے مقابلے پر روانہ فرمایا۔ یہ قبیلہ ایک چشمہ کے قریب ڈیرہ ڈالے پڑا تھا جس کا نام غمر تھا جو مدینہ سے مکہ کی سمت میں چند دن کے فاصلے پر تھا۔ عُکاشہ کی پارٹی جلدی جلدی سفر کر کے قریب پہنچی تا کہ انہیں شرارت سے روکا جائے تو معلوم ہوا کہ قبیلے کے لوگ مسلمانوں کی خبر پا کر اِدھر اُدھر منتشر ہو گئے تھے۔ اس پر عُکاشہ اور ان کے ساتھی مدینہ کی طرف واپس لوٹ آئے اور کوئی لڑائی نہیں ہوئی۔‘‘

(ماخوذ از سیرت خاتم النبیین از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ صفحہ 666)

یعنی جو الزام لگایا جاتا ہے کہ ان لوگوں کو یا مسلمانوں کو جنگوں کا خاص شوق تھا ۔لیکن ان لوگوں نے ان سے بلا وجہ کی جنگ ہونے کی بھی کوشش نہیں کی۔

حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر سورۃ النصر نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلالؓ کو اذان دینے کا حکم دیا۔ نماز کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا جسے سن کر لوگ بہت روئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا :اے لوگو میں کیسا نبی ہوں؟ اس پر ان لوگوں نے کہا اللہ آپ کو جزا دے۔ آپ سب سے بہترین نبی ہیں۔ آپ ہمارے لئے رحیم باپ کی طرح اور شفیق اور نصیحت کرنے والے بھائی کی طرح ہیں۔ آپ نے ہم تک اللہ کے پیغام پہنچائے اور اس کی وحی پہنچائی اور حکمت اور اچھی نصیحت سے ہمیں اپنے رب کے راستے کی طرف بلایا۔ پس اللہ آپ کو بہترین جزا دے جو وہ اپنے انبیاء کو دیتا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے مسلمانوں کے گروہ! مَیں تمہیں اللہ کی اور تم پر اپنے حق کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ اگر کسی پر میری طرف سے کوئی ظلم یا زیادتی ہوئی ہو تو وہ کھڑا ہو اور میرے سے بدلہ لے۔ مگر کوئی کھڑا نہ ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری بار قسم دے کر کہا مگر کوئی کھڑا نہ ہوا۔ آپ نے تیسری بار پھر فرمایا کہ اے مسلمانوں کے گروہ! مَیں تمہیں اللہ اور تم پر اپنے حق کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ اگر کسی پر میری طرف سے کوئی ظلم یا زیادتی ہوئی ہو تو وہ اٹھے اور قیامت کے دن کے بدلہ سے پہلے میرے سے بدلہ لے۔ اس پر لوگوں میں سے ایک بوڑھے شخص کھڑے ہوئے جن کا نام عُکاشہ تھا۔ آپ مسلمانوں میں سے ہوتے ہوئے آگے آئے یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رُوبرو کھڑے ہو گئے اور عرض کی۔یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میرے ماں باپ آپ پر قربان۔ اگر آپ نے بار بار قسم نہ دی ہوتی تو میں ہرگز کھڑا نہ ہوتا۔ حضرت عکاشہ کہنے لگے۔ میں آپ کے ساتھ ایک غزوہ میں تھا جس سے واپسی پر میری اونٹنی آپ کی اونٹنی کے قریب آ گئی تو میں اپنی سواری سے اتر کر آپ کے قریب آیا تا کہ آپ کے پاؤں کو بوسہ دوں۔ مگر آپ نے اپنی چھڑی ماری جو میرے پہلو میں لگی۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ چھڑی آپ نے اونٹنی کو ماری تھی یا مجھے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کے جلال کی قسم کہ خدا کا رسول جان بوجھ کر تجھے نہیں مار سکتا۔ پھر آپ نے حضرت بلالؓ کو مخاطب کر کے فرمایا اے بلال! فاطمہؓ کی طرف جاؤ۔( حضرت فاطمہؓ کے گھر میں) اور اس سے وہ چھڑی لے آؤ۔ حضرت بلالؓ گئے اور حضرت فاطمہؓ سے عرض کی کہ اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی! مجھے چھڑی دے دیں۔ اس پر حضرت فاطمہؓ نے کہا اے بلال! میرے والد اس چھڑی کے ساتھ کیا کریں گے؟ کیا یہ جنگ کے دن کی بجائے حج کا دن نہیں۔ اس پر حضرت بلالؓ نے کہا کہ اے فاطمہ آپ اپنے باپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کتنی بے خبر ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو الوداع کہہ رہے ہیں اور دنیا چھوڑ کر جا رہے ہیں اور اپنا بدلہ دے رہے ہیں۔ اس پر حضرت فاطمہ نے حیرانگی سے پوچھا اے بلال! کس کا دل کرے گا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بدلہ لے۔ پھر حضرت فاطمہ نے کہا کہ اے بلال !حسن اور حسین سے کہو کہ وہ اس شخص کے سامنے کھڑے ہو جائیں کہ وہ ان دونوں سے بدلہ لے لے اور وہ اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بدلہ نہ لینے دیں۔ پس حضرت بلال مسجد آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھڑی پکڑا دی اور آپ نے وہ چھڑی عُکاشہ کو پکڑائی۔ جب حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ نے یہ منظر دیکھا تو وہ دونوں کھڑے ہو گئے اور کہا اے عکاشہ !ہم تمہارے سامنے کھڑے ہیں ۔ہم سے بدلہ لے لو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ نہ کہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں سے فرمایا: اے ابوبکر اور عمر رک جاؤ۔ اللہ تم دونوں کے مقام کو جانتا ہے۔ اس کے بعد حضرت علیؓ کھڑے ہوئے اور کہا اے عکاشہ! میں نے اپنی ساری زندگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گزاری ہے اور میرا دل گوارا نہیں کرتا کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مارو۔ پس یہ میرا جسم ہے میرے سے بدلہ لے لو اور بیشک مجھے سو بار مارو مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بدلہ نہ لو۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے علی بیٹھ جاؤ۔ اللہ تمہاری نیت اور مقام کو جانتا ہے۔ اس کے بعد حضرت حسن اور حسین کھڑے ہوئے اور کہا اے عکاشہ! ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے ہیں اور ہم سے بدلہ لینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بدلہ لینے کے جیسا ہی ہے۔ آپؐ نے ان دونوں سے فرمایا: اے میرے پیارو! بیٹھ جاؤ۔ اس کے بعد آپؐ نے فرمایا اے عکاشہ مارو۔ حضرت عکاشہ نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب آپؐ نے مجھے مارا تھا تو اس وقت میرے پیٹ پر کپڑا نہیں تھا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیٹ پر سے کپڑا اٹھایا۔ اس پر مسلمان دیوانہ وار رونے لگ گئے اور کہنے لگے کیا عکاشہ واقعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مارے گا؟ مگر جب حضرت عُکاشہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بدن کی سفیدی دیکھی تو دیوانہ وار لپک کر آگے بڑھے اور آپ کے بدن کو چُومنے لگے اور عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کس کا دل گوارا کر سکتا ہے کہ وہ آپ سے بدلہ لے۔ اس پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یا بدلہ لینا ہے یا معاف کرنا ہے۔ اس پر حضرت عُکاشہ نے عرض کی یا رسول اللہ! میں نے معاف کیا اس امید پر کہ اللہ قیامت کے دن مجھے معاف فرما دے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ جو جنت میں میرا ساتھی دیکھنا چاہتا ہے وہ اس بوڑھے شخص کو دیکھ لے۔ پس مسلمان اٹھے اور حضرت عُکاشہ کا ماتھا چومنے لگے اور ان کو مبارکباد دینے لگے کہ تو نے بہت بلند مقام اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کو پا لیا۔‘‘(مجمع الزوائد جلد 8 صفحہ 429 تا 431 کتاب علامات النبوۃ حدیث 14253 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2001ء) یہ تھے حضرت عکاشہ کہ انہوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھا کر کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنی واپسی کی خبریں سنا رہے ہیں اور اب پتہ نہیں کبھی موقع ملتا ہے کہ نہیں ملتا۔ انہوں نے کہا کہ زندگی میں یہ موقع ہے کہ آپ کے جسم کو نہ صرف چوموں بلکہ بوسہ دوں۔

حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ کی خلافت میں حضرت خالد بن ولید کے ساتھ حضرت عُکاشہ مرتدّین کی سرکوبی کے لئے روانہ ہوئے۔ عیسیٰ بن عُمَیْلہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت خالد بن ولید لوگوں کے مقابلے پر روانہ ہوتے وقت اگر اذان سنتے تو حملہ نہ کرتے اور اگر اذان نہ سنتے تو حملہ کردیتے ۔ جب آپ رضی اللہ عنہ اس قوم کی طرف پہنچے جو بُزَ اخَہ مقام پر تھی تو آپ نے حضرت عُکاشہ بن محصن اور حضرت ثابت بن اَقْرَم کو مخبر بنا کر بھیجا کہ دشمن کی خبرلائیں۔ وہ دونوں گھوڑوں پر سوار تھے۔ حضرت عکاشہ کے گھوڑے کا نام الرَّزَام تھا اور حضرت ثابت کے گھوڑے کا نام اَلْمُحَبَّر۔ ان دونوں کا سامنا طُلیحہ اور اس کے بھائی سلمہ سے ہوا جو مسلمانوں کی مخبری کرنے کے لئے لشکر سے آگے آئے ہوئے تھے۔ طُلیحہ کا سامنا حضرت عکاشہ سے ہوا اور سلمہ کا سامنا حضرت ثابت سے ہوا اور ان دونوں بھائیوں نے ان دونوں اصحاب کو شہید کر دیا۔ ابو واقداللَّیثی بیان کرتے ہیں کہ ہم دو سو سوار لشکر کے آگے آگے چلنے والے تھے ہم ان مقتولوں، حضرت ثابت اور حضرت عکاشہ کے پاس کھڑے رہے یہانتک کہ حضرت خالد آئے اور ان کے حکم سے ہم نے حضرت ثابت اور حضرت عکاشہ کو ان کے خون آلودکپڑوں میں ہی دفن کر دیا۔ یہ واقعہ 12ہجری کا ہے۔‘‘ اس طرح ان کی شہادت ہوئی۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 245 ثابت بن اقرم مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء)

حضرت خَارِجہ بن زید آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی تھے۔ حضرت خارجہ بن زید کا تعلق خزرج کے خاندان اَغَرّسے تھا۔ حضرت خارجہ کی بیٹی حضرت حَبِیبہ بنت خارجہ حضرت ابوبکر صدیق کی اہلیہ تھیں جن کے بطن سے حضرت ابوبکر صدیق کی صاحبزادی حضرت اُمّ کلثوم پیدا ہوئیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خارجہ بن زید اور حضرت ابوبکر صدیق کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی۔ رئیس قبیلہ تھے اور ان کو کبار صحابہ میں شامل کیا جاتا تھا۔ انہوں نے عقبہ میں بیعت کی تھی۔‘‘(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 271 ومن بنی الحارث … خارجہ بن زید مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء)
ہجرت مدینہ کے بعد حضرت ابو بکر صدیق نے حضرت خارجہ بن زید کے گھر قیام کیا تھا۔

(اسدالغابہ جلد 1 صفحہ 640 خارجہ بن زید مطبوعہ دار الفکر بیروت لبنان 2003ء)

یہ غزوہ بدر میں شریک ہوئے۔ حضرت خارجہ نے غزوۂ اُحد میں بڑی بہادری اور جوانمردی سے لڑتے ہوئے شہادت کا رتبہ پایا۔ نیزوں کی زد میں آ گئے اور آپ کو تیرہ سے زائد زخم لگے۔ آپ زخموں سے نڈھال پڑے تھے کہ پاس سے صفوان بن اُمّیہ گزرا۔ اس نے انہیں پہچان کر حملہ کر کے شہید کر دیا۔ پھر ان کا مُثلہ بھی کیا اور کہا کہ یہ ان لوگوں میں سے ہے جنہوں نے بدر میں ابوعلی کو قتل کیا تھا یعنی میرے باپ اُمیّہ بن خلف کو ۔ اب مجھے موقع ملا ہے کہ ان اصحاب محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) میں سے بہترین لوگوں کو قتل کروں اور اپنا دل ٹھنڈا کروں۔ اس نے حضرت ابن قوقل، حضرت خارجہ بن زید اور حضرت اوس بن ارقم کو شہید کیا۔ حضرت خارجہ اور حضرت سعد بن ربیع جو کہ آپ کے چچا زاد بھائی تھے ان دونوں کو ایک ہی قبر میں دفن کیا گیا۔‘‘ (الاستیعاب جلد 2 صفحہ 3-4 خارجہ بن زیدؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2002ء)
روایت ہے کہ اُحد کے دن حضرت عباس بن عُبادۃ اونچی آواز سے کہہ رہے تھے کہ اے مسلمانوں کے گروہ !اللہ اور اپنے نبی سے جڑے رہو۔ جو مصیبت تمہیں پہنچی ہے یہ اپنے نبی کی نافرمانی سے پہنچی ہے۔ وہ تمہیں مدد کا وعدہ دیتا تھا لیکن تم نے صبر نہیں کیا۔ پھر حضرت عباس بن عُبادۃ نے اپنا خَود اور اپنی زرہ اتاری اور حضرت خارجہ بن زید سے پوچھا کہ کیا آپ کو اس کی ضرورت ہے؟ خارجہ نے کہا نہیں جس چیز کی تمہیں آرزو ہے وہی میں بھی چاہتا ہوں۔ پھر وہ سب دشمن سے بِھڑ گئے۔ عباس بن عُبادۃ کہتے تھے کہ ہمارے دیکھتے ہوئے اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گزند پہنچا، کوئی تکلیف پہنچی تو ہمارا اپنے رب کے حضور کیا عذر ہو گا؟ اور حضرت خارجہ یہ کہتے تھے کہ اپنے رب کے حضور ہمارے پاس نہ تو کوئی عذر ہو گا اور نہ ہی کوئی دلیل ۔ حضرت عباس بن عبادۃ کو سفیان بن عبدِ شمس سَلَمی نے شہید کیا اور خارجہ بن زید کو تیروں کی وجہ سے جسم پر دس سے زائد زخم لگے۔‘‘

(کتاب المغازی الواقدی جلد 1 صفحہ 227-228 باب غزوہ احد مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2004ء)

’’غزوہ احد کے دن حضرت مالک بن دُخْشُم، حضرت خارجہ بن زید کے پاس سے گزرے۔ حضرت خارجہ زخموں سے چُور بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کو تیرہ کے قریب مہلک زخم آئے تھے۔ حضرت مالک نے ان سے کہا کیا آپ کو معلوم نہیں کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہید کر دئیے گئے ہیں؟ حضرت خارجہ نے کہا کہ اگر آپ کو شہید کر دیا گیا ہے تو یقیناً اللہ زندہ ہے اور وہ نہیں مرے گا۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پیغام پہنچا دیا۔ تم بھی اپنے دین کے لئے قتال کرو۔ ‘‘

(کتاب المغازی الواقدی جلد 1 صفحہ 243 باب غزوہ احد مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2004ء)

’’حضرت خارجہ کے دو بچے تھے جن میں سے ایک حضرت زید بن خارجہ تھے جنہوں نے حضرت عثمان کے زمانہ خلافت میں وفات پائی۔ حضرت خارجہ بن زید کی دوسری اولاد حضرت حبیبہ بنت خارجہ تھیں۔ ان کی شادی حضرت ابوبکر صدیق سے ہوئی تھی۔ حضرت ابوبکر صدیق کی جب وفات ہوئی تو ان کی اہلیہ حضرت حبیبہ امید سے تھیں۔ ابوبکر نے فرمایا تھا کہ مجھے ان کے ہاں بیٹی کی توقع ہے۔ چنانچہ ان کے ہاں بیٹی پیدا ہوئیں۔

(اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 640-641 خارجہ بن زید مطبوعہ دار الفکر بیروت 2003ء)

پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی حضرت زیاد بن لبید تھے۔ ان کی والدہ کا نام عمرہ بنت عبید بن مطروف تھا۔ حضرت زیاد کا ایک بیٹا عبداللہ تھا۔ عقبہ ثانیہ میں ستّر اصحاب کے ساتھ آپ حاضر ہوئے اور اسلام قبول کیا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد جب مدینہ واپس آئے تو انہوں نے آتے ہی اپنے قبیلہ بنو بَیَاضہ کے بت توڑ دئیے جو بتوں کی پوجا کیا کرتے تھے۔ پھر آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مکہ چلے گئے اور وہیں مقیم رہے یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو آپ نے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت کی۔ اس لئے حضرت زیاد کو مہاجر انصاری کہا جاتا ہے۔ مہاجر بھی ہوئے اور انصاری بھی تھے۔ حضرت زیاد غزوۂ بدر، اُحد، خندق اور تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرکاب تھے۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 302 زیاد بن لبید مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء)

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ پہنچے اور قبیلہ بنو بیاضہ کے محلہ سے گزرے تو حضرت زیاد نے اَھْلًا وَ سَھْلًا کہا اور قیام کے لئے اپنا مکان پیش کیا تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری اونٹنی کو آزاد چھوڑ دو یہ خود منزل تلاش کر لے گی۔

محرم نو ہجری میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ و زکوۃ وصول کرنے کے لئے الگ الگ محصلین مقرر فرمائے تو حضرت زیاد کو حضر موت کے علاقے کا محصّل مقرر فرمایا۔ حضرت عمر کے دَور تک آپ اسی خدمت پر مامور رہے۔ اس منصب سے سبکدوش ہونے کے بعد آپ نے کوفہ میں سکونت اختیار کر لی اور وہیں اکتالیس ہجری میں وفات پائی۔‘‘

(سرورِ کائنات کے پچاس صحابہ از طالب الہاشمی صفحہ 557تا 559 مطبوعہ میٹرو پرنٹرز لاہور 1985ء)

تاریخ میں ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق کے دَورخلافت میں جب فتنہ ارتداد نے زور پکڑا اور زکوۃ دینے سے انکار کر دیا تو اشعث بن قیس الکندی نے بھی ارتداد اختیار کیا۔ حضرت زیاد کو اس کی سرکوبی کے لئے مقرر کیا گیا۔ جب آپ نے اس پر حملہ کیا تو اس نے قلعہ نَحِیْر میں پناہ لے لی۔ حضرت زیاد نے اس کا نہایت سختی سے محاصرہ کیا یہاں تک کہ وہ تنگ آ گیا اور اس نے پیغام بھیجا کہ مجھے اور نو اور آدمیوں کو امان دے دیں تو قلعہ کا دروازہ کھول دوں گا۔ حضرت زیاد نے کہا معاہدہ لکھ کر لے آؤ مَیں اس پر مہر ثبت کر دوں گا۔ اس کے بعد انہوں نے دروازہ کھولا۔ بعد میں جب معاہدہ دیکھا گیا تو باقی نو آدمیوں کے نام تو لکھے ہوئے تھے مگر اشعث اپنا نام لکھنا بھول گیا تھا۔ چنانچہ اسے دوسرے قیدیوں کے ساتھ مدینہ منورہ بھجوا دیا گیا۔

(امتاع الاسماع جلد 14 صفحہ 254-255 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1996ء)

پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی حضرت مُعَطِّبْ بن عُبَیْد تھے۔ آپ کی کوئی اولاد نہیں تھی آپ کے بھتیجے اُسَیْر بن عُروۃ آپ کے وارث ہوئے۔ حضرت مُعَطِّبْ بن عُبَیْد غزوۂ بدر اور اُحد میں شریک ہوئے اورانہوں نےیوم الرجیع میں شہادت پائی ۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 240 ومن حلفاء بنی ظفر مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1996ء)

رجیع کا جو واقعہ ہے کہ اس میں دس مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا تھا۔ اس واقعہ کے بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی لکھا ہے کہ’’ یہ دن مسلمانوں کے لئے سخت خطرے کے دن تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو چاروں طرف سے متوحّش خبریں آ رہی تھیں۔ لیکن سب سے زیادہ خطرہ آپ کو قریش مکہ کی وجہ سے تھا جو جنگ اُحد کی وجہ سے بہت دلیر اور شوخ ہو رہے تھے۔ اس خطرے کو محسوس کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہ صفر چار ہجری میں اپنے دس صحابیوں کی ایک پارٹی تیار کی اور ان پر عاصم بن ثابت کو امیر مقرر فرمایا اور ان کو یہ حکم دیاکہ خفیہ خفیہ مکہ کے قریب جا کر قریش کے حالات دریافت کریں اور ان کی کارروائیوں اور ارادوں سے آپ کو اطلاع دیں لیکن ابھی یہ پارٹی روانہ نہیں ہوئی تھی کہ قبائل عَضَل اور قَارَہ کے چند لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہمارے قبائل میں بہت سے آدمی اسلام کی طرف مائل ہیں۔ آپ چند آدمی ہمارے ساتھ روانہ فرمائیں جو ہمیں مسلمان بنائیں اور اسلام کی تعلیم دیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ خواہش معلوم کر کے وہی پارٹی جو خبر رسانی کے لئے تیار کی گئی تھی ان کے ساتھ روانہ فرما دی۔ لیکن دراصل جیسا کہ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ لوگ جھوٹے تھے اور بنو لِحْیَان کی انگیخت پر مدینہ میں آئے تھے جنہوں نے اپنے رئیس سفیان بن خالد کے قتل کا بدلہ لینے کے لئے یہ چال چلی تھی کہ اس بہانے سے مسلمان مدینہ سے نکلیں تو ان پر حملہ کر دیا جائے اور بنولِحْیَان نے اس خدمت کے معاوضہ میں عَضَل اور قَارَہ کے لوگوں کے لئے بہت سے اونٹ انعام کے طور پر مقرر کئے تھے۔ جب عَضَل اور قَارَہ کے یہ غدار لوگ عسفان اور مکہ کے درمیان پہنچے تو انہوں نے بنولِحْیَان کو خفیہ خفیہ اطلاع بھجوا دی کہ مسلمان ہمارے ساتھ آ رہے ہیں تم آ جاؤ۔ جس پر قبیلہ بنو لِحْیَان کے دو سو نوجوان جن میں سے ایک سو تیر انداز تھے مسلمانوں کے تعاقب میں نکل کھڑے ہوئے اور مقام رجیع میں (رجیع ایک جگہ ہے) ان کو آ پکڑا۔ دس آدمی دو سو سپاہیوں کا کیا مقابلہ کر سکتے تھے۔ لیکن مسلمانوں کو ہتھیار ڈالنے کی تعلیم تو نہیں دی گئی۔ اگر ایسے حالات پیدا ہو جائیں جو تمہیں گھیر لیا جائےتو پھر یہی حکم ہے کہ جنگ کرو ۔ فورًا یہ صحابی ایک قریب کے ٹیلے پر چڑھ کر مقابلے کے واسطے تیار ہو گئے۔ کفار نے جن کے نزدیک دھوکہ دینا کوئی معیوب فعل نہیں تھا ان کو آواز دی کہ تم پہاڑی پر سے نیچے اتر آؤ ہم تم سے پختہ عہد کرتے ہیں کہ تمہیں قتل نہیں کریں گے۔ عاصم رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ ہمیں تمہارے عہدوپیمان پر کوئی اعتبار نہیں ہے۔ ہم تمہاری اس ذمہ داری پر نہیں اتر سکتے اور پھر آسمان کی طرف منہ اٹھا کر کہا کہ اے خدا تُو ہماری حالت دیکھ رہا ہے۔ اپنے رسول کو ہماری اس حالت سے اطلاع پہنچا دے۔ غرض عاصم اور ان کے ساتھیوں نے مقابلہ کیا اور لڑتے لڑتے شہید ہو گئے۔ جب سات صحابہ مارے گئے اور صرف خُبَیب بن عَدی اور زَید بن دَثِنَہ اور ایک اور صحابی باقی رہ گئے تو کفار نے جن کی اصل خواہش ان لوگوں کو زندہ پکڑنے کی تھی پھر آواز دے کر کہا کہ اب بھی نیچے اتر آؤ ہم وعدہ کرتے ہیں کہ تمہیں تکلیف نہیں پہنچائیں گے۔ اب کی دفعہ یہ سادہ لوح مسلمان ان کے پھندے میں آکر نیچے اتر آئے مگر نیچے اترتے ہی کفار نے ان کو اپنی تیر کمانوں کی تندیوں سے جکڑ کر باندھ لیا اور اس پر خُبیب اور زید کے ساتھی سے جن کا نام تاریخ میں عبداللہ بن طارق مذکور ہوا ہے صبر نہ ہو سکا اور انہوں نے پکار کر کہا کہ یہ تمہاری پہلی بدعہدی ہے اور نامعلوم تم آگے چل کر کیا کرو گے۔ عبداللہ نے ان کے ساتھ چلنے سے انکار کر دیا جس پر کفار تھوڑی دور تک عبداللہ کو گھسیٹتے ہوئے، زدو کوب کرتے ہوئے لے گئے اور پھر انہیں قتل کر کے وہیں پھینک دیا اور چونکہ ان کا انتقام پورا ہو چکا تھا وہ قریش کو خوش کرنے کے لئے نیز روپے کی لالچ میں خُبیب اور زید کو ساتھ لے کر مکہ کی طرف روانہ ہو گئے اور وہاں پہنچ کر انہیں قریش کے ہاتھ فروخت کر دیا۔ چنانچہ خُبیب کو تو حارث بن عابر بن نوفل کے لڑکوں نے خرید لیا کیونکہ خُبیب نے بدر کی جنگ میں حارث کو قتل کیا تھا اور زید کو صَفْوان بن اُمیّہ نے خرید لیا۔ اور یہ بھی پھر آخر میں شہید کر دئیے گئے تھے۔

(سیرت خاتم النبیین از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 513-514)

پھر بدری صحابہ میں ایک ذکر حضرت خالد بن بُکَیْر کا ہے۔ حضرت خالد بن بُکَیْر حضرت عاقل حضرت عامر ،حضرت ایاس نے اکٹھے دارارقم میں اسلام قبول کیا تھا اور ان چاروں بھائیوںنے دارارقم میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خالد بن بُکَیْر اور حضرت زید بن دَثِنَہ کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی۔ آپ غزوۂ بدر اور غزوۂ اُحد میں موجود تھے اور رجیع کا واقعہ جو پہلے بیان ہوا ہے جہاں دھوکے سے دس مسلمانوں کومارا گیا تھاوہاں آپ بھی شہید ہوئے۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 297 عاقل بن ابی البکیرؓ، خالد بن ابی البکیرؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بدر سے پہلے ایک سریہ عبداللہ بن جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قیادت میں قریش کے قافلہ کے لئے روانہ فرمایا اس میں حضرت خالد بن بُکَیْربھی شامل تھے۔ آپ صفر 4ہجری کو 34سال کی عمر میں جنگ رجیع میں عاصم بن ثابت اور مَرْثَد بن ابی مَرْثَد غَنَوِی کے ساتھ قبائل عَضَل و قَارَہ کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔

(اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 647 خالد بن بکیرؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)

اس بارہ میںابن اسحاق کہتے ہیں کہ جب قبیلہ عَضَل اور قَارَہ کے لوگ ان صحابہ کو لے کر مقام رجیع میں پہنچے جو قبیلہ ھُذَیل کے ایک چشمہ کا نام ہے۔ رجیع جو جگہ ہے یہ جو قبیلہ ھُذَیل کے ایک چشمہ کا نام ہے اور حجاز کے کنارے پر واقعہ ہے تو ان لوگوں نے اصحاب کے ساتھ غداری کی۔ یعنی جو لوگ لے کر گئے تھے انہوں نے صحابہ کے ساتھ غداری کی۔ دھوکہ دیا اور قبیلہ ھُذَیل کو ان کے خلاف بھڑکا دیا۔ صحابہ اس وقت اپنے خیمہ میں ہی تھے کہ انہوں نے دیکھا کہ چاروں طرف سے لوگ تلواریں لئے چلے آ رہے ہیں۔ یہ بھی دلیرانہ جنگ کے لئے تیار ہو گئے۔ ان لوگوں نے( یعنی کافروں نے) کہا واللہ! ہم تم کو قتل نہیں کریں گے ۔ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ تم کو پکڑ کر مکہ والوں کے پاس لے جائیںگے اور ان سے تمہارے معاوضہ میں کچھ لے لیں گے۔ حضرت مَرْثَد بن ابی مَرْثَد رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عاصم بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت خالد بن بُکَیْر نے کہا کہ خدا کی قسم! ہم مشرک کے عہد میں داخل نہیں ہوتے۔ آخر یہ تینوں اس قدر لڑے کہ شہید ہو گئے۔‘‘

(سیرت ابن ہشام صفحہ 591-592 ذکر یوم الرجیع فی سنۃ ثلاث مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2001ء)

حضرت حسانؓ بن ثابت نے ان لوگوں کے بارے میں اپنے ایک شعر میں کہا ہے کہ

اَلَا لَیْتَنی فِیْھَا شَھِدْتُ ابْنَ طَارِقٍ
وَزَیْدًا وَمَا تُغْنِی الْاَمَانِی وَمَرْثَدَا
فَدَافَعْتُ عَنْ حِبِّی خُبَیْبٍ وَ عَاصِمٍ
وَکَانَ شِفَاءً لَوْ تَدَارَکْتُ خَالِدَا

(اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 647 خالد بن بکیرؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)

کہ کاش میں اس( واقعہ رجیع) میں ابن طارق اور زید اور مَرثَد کے ساتھ ہوتا۔ اگرچہ آرزوئیں کچھ کام نہیں آتیں۔ تو میں اپنے دوست خُبیب اور عاصم کو بچاتا اور اگر میں خالد کو پا لیتا تو وہ بھی بچ جاتا۔

تو یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے دین کی حفاظت کے لئے، اپنے ایمان کی حفاظت کے لئے قربانیاں دیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بنے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی ایک تصنیف میں تحریر فرماتے ہیں کہ

’’اس خدائے محسن کا شکر ہے جو احسان کرنے والا اور غموں کو دُور کرنے والا ہے اور اس کے رسول پر درود اور سلام جو اِنس اور جن کا امام اور پاک دل اور بہشت کی طرف کھینچنے والا ہے۔ اور اس کے ان اصحاب پر سلام جو ایمان کے چشموں کی طرف پیاسے کی طرح دوڑے اور گمراہی کی اندھیری راتوں میں علمی اور عملی کمال سے روشن کئے گئے۔‘‘(نور الحق حصہ دوم، روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 188)
پھر ایک جگہ آپ صحابہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’جو دن کے میدانوں کے شیر اور راتوں کے راہب ہیں اور دین کے ستارے ہیں۔( راتوں کے راہب ہونے کا مطلب ہے راتوں میں کہ عبادت کرنے والے۔ اور دین کے ستارے ہیں۔) خدا کی خوشنودی ان سب کے شامل حال ہے۔‘‘

(نجم الہدیٰ، روحانی خزائن جلد 14 صفحہ17)

اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنی علمی اور عملی حالتوں کو بہتر کرنے اور راتوں کی عبادتوں کے معیار بلند کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

جمعہ کے بعد میں ایک جنازہ غائب پڑھاؤں گا جو مکرم اسماعیل مالا گالا صاحب مبلغ یوگنڈا کاہے۔یہ 25؍مئی کو نماز جمعہ سے قبل دل کی تکلیف کی وجہ سے ان کو دل کا حملہ ہوا۔اور اپنے خالق حقیقی سے جا ملے64 سال ان کی عمر تھی ۔اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ اسماعیل مالا گالا صاحب 1954ء میں مکونو ڈسٹرکٹ یوگنڈا میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد اور والدہ دونوں عیسائی تھے لہٰذا یہ خود بھی پیدائشی طور پر عیسائی تھے۔ مالا گالا صاحب ایک احمدی دوست حاجی شعیب نصیرا صاحب کے برادر نسبتی تھے اس لئے ان کا حاجی شعیب صاحب کے گھر آنا جانا تھا۔ حاجی شعیب صاحب کے ذریعہ ہی اسلام میں دلچسپی پیدا ہوئی۔ ایک لمبا عرصہ سوال و جواب کا سلسلہ چلتا رہا۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ ان پر اسلام کی سچائی روشن ہونا شروع ہوئی اور آخر 1978ء میں یہ بیعت کر کے اسلام احمدیت میں داخل ہو گئے۔ جب انہوں نے اسلام قبول کر لیا تو حاجی شعیب نصیرا صاحب سے ذکر کیا کہ میری بچپن سے یہ خواہش تھی کہ میں عیسائی پادری بنوں۔ اب چونکہ میں نے اسلام قبول کر لیا ہے تو کیا مَیں اسلام کی خدمت کر سکتا ہوں؟ اس پر انہیں بتایا گیا کہ آپ اسلام کی خدمت کے لئے اپنی زندگی وقف کر سکتے ہیں۔ اس وقت محمد علی کائرے صاحب (جو اس وقت یوگنڈا کے امیر جماعت ہیں) پاکستان سے جامعہ احمدیہ کی تعلیم مکمل کر کے یوگنڈا پہنچے تھے۔ چنانچہ انہوں نے 1980ء میں مالا گالا صاحب کو دیگر پانچ خدام کے ساتھ پاکستان بھجوا دیا۔ موصوف دسمبر 1980ء میں جامعہ احمدیہ ربوہ میں فصلِ خاص میں داخل ہوئے اور یکم مارچ 1988ء کو تعلیم مکمل کی۔ جامعہ کے عرصہ تعلیم کے حوالے سے اس وقت جامعہ کے پرنسپل سید میر محمود احمد ناصر صاحب نے اپنے ریمارکس میں ان کے بارے میں لکھا کہ’’ علمی لحاظ سے کمزور ہیں لیکن اچھے متعاون اور اطاعت گزار طالبعلم رہے۔ منکسر المزاج اور عبادت گزار تھے۔ بزرگوں سے ملاقات اور انہیں دعا کا کہنا ان کا شعار تھا۔‘‘ موصوف نے نہایت محنت کے ساتھ جامعہ احمدیہ میں تعلیم حاصل کی اور 1984ء میں جب حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ کو پاکستان سے ہجرت کرنا پڑی تو اس وقت مخصوص حالات میں بڑی خوش اسلوبی اور بہادری سے یہ بھی ڈیوٹیاں دینے والوں میں شامل تھے۔ موجودہ پرنسپل مبشر ایاز صاحب ان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ’’ ہم جامعہ میں اکٹھے رہے۔ بہت ہی نیک طبیعت تھی۔ خاموش طبع تھے۔ جامعہ کے ان طلباء میں ان کا شمار ہوتا تھا جنہیں عبادت اور ریاضت کا خاص شوق تھا۔ اطاعت گزاری ان کا خاص اور قابل ذکر وصف تھا۔ کہتے ہیں کہ مجھے نقیب اور زعیم ہونے کی وجہ سے ان سے کئی بار واسطہ پڑا۔ بہت ہی عاجز مزاج اور مطیع اور فرمانبردار پایا۔ فٹبال کے بڑے شوقین تھے۔ ٹیم کے ایک اھم ممبر سمجھے جاتے تھے اور خاص طور پر ان کو شامل کیا جاتا تھا۔‘‘ جامعہ کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ان کا باقاعدہ تقرر یوگنڈا میں بطور مبلغ 1988ء میں ہوا جہاں انہوں نے کئی جماعتوں میں بطور مبلغ کام کیا۔ 2007ء میں موصوف دو یوگنڈن مبلغین کے ساتھ پاکستان بھی گئے جہاں انہیں لوگنڈا زبان میں قرآن کریم کے ترجمہ کی نظر ثانی کا کام مکمل کرنے کی توفیق ملی اور تین ماہ کے اندر انہوں نے یہ کام مکمل کر لیا۔ جامعہ میں تو شاید علمی لحاظ سے کمزور ہوں گے لیکن بعد میں علمی لحاظ سے بھی بڑے آگے نکلے ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنا علم بہت بڑھایا، اضافہ کیا۔ مرحوم کو تبلیغ کا بڑا شوق تھا اور ان کی تبلیغ سے بڑی تعداد نے احمدیت قبول کی۔ سائیکل پر ہی بہت لمبے لمبے تبلیغی سفر کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ وہ تبلیغ کے لئے نکلے ہوئے تھے کہ پیچھے سے ان کی بیوی کی وفات ہو گئی۔ رابطہ کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ اور جب تبلیغی سفر سے واپس آئے تو پتہ چلا کہ بیوی فوت ہو گئی ہے اور اس کی تدفین بھی ہو چکی ہے۔ ساری زندگی نہایت سادگی کے ساتھ خدمت دین میں مصروف رہتے ہوئے گزاری۔ بہت نرم دل، ہمدرد اور شفیق انسان تھے۔ غریبوں اور مسکینوں کا بہت خیال رکھتے تھے۔ خلافت کے بہت شیدائی تھے۔ خلیفہ وقت کا ہر حکم ماننا ضروری سمجھتے تھے۔ عموماً سارے افریقن ہی لیکن افریقن مبلغین خاص طور پر واقفین زندگی میں نے دیکھا ہےکہ خلافت کے ساتھ ان کا خاص تعلق ہے۔

امیر صاحب یوگنڈا محمد علی کائرے صاحب لکھتے ہیں کہ مرحوم ایک مثالی مربی تھے۔ نہایت نیک دل اور دعوت الی اللہ کرنے والے اور دین کی خدمت بجا لانے والے انسان تھے۔ بہت سی مشکلات کے باوجود کبھی شکوہ نہ کیا بلکہ ہر ہر طرح سے خدمت دین میں لگے رہے۔ پہلی بیوی کی وفات کے بعد انہوں نے دوسری شادی کی اور کچھ عرصہ بعد تیسری شادی بھی کی۔ ان کی ایک بیوی لکھتی ہیں کہ میں نے انہیں ساری زندگی بہت ہی پیار کرنے والا، نرم دل اور ہر حال میں پُرسکون اور خدا کا شکر بجا لانے والا انسان پایا۔ ان کی بیٹی بیان کرتی ہیں کہ ہمارے والد بہت شفیق اور بردبار انسان تھے۔ ہمیشہ ہماری ضرورتوں کا خیال رکھتے اور دین پر عمل پیرا رہنے کا درس دیتے رہے۔ مرحوم نے اپنے پسماندگان میں دو بیویاں اور نو بچے چھوڑے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت کرے۔ ان کے ساتھ مغفرت کا سلوک فرمائے اور ان کی نسلوں کو بھی ہمیشہ جماعت اور خلافت سے وابستہ رکھے۔

٭…٭…٭

اگلے خطبہ جمعہ کے لیے…

گزشتہ خطبہ جمعہ کے لیے…

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button