الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کئے جاتے ہیں۔ براہ کرم ان منتخب مضامین سے استفادہ کی صورت میں ’’الفضل انٹرنیشنل‘‘ کے اس کالم کا حوالہ ضرور دیں۔
حضرت مسیح موعودؑ کے خلاف امیر حبیب اللہ کی ناکام سازش
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ یکم جون 2012ء میں مکرم ڈاکٹر مرزا سلطان احمد صاحب کے قلم سے ایک تحقیقی مضمون شامل اشاعت ہے جس میں حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحبؓ کی شہادت کے بعد حضرت مسیح موعودؑ کے خلاف بنائی جانے والی ایک سازش کو بے نقاب کیا گیا ہے۔
جب افغانستان اور ہندوستان کے درمیان حد بندی یعنی ڈیورنڈ لائن کے تعیّن کے لئے حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب افغانستان کی سرحد پر تشریف لائے تو اس موقع پر ٹل کے مقام پر کسی شخص نے آپ کو حضرت مسیح موعودؑ کی کچھ کتب دیں۔ آپ یہ کتب لے کر اپنے گاؤں سید گاہ (خوست) تشریف لائے اور اپنے شاگردوں میں اس بات پر بہت خوشی کا اظہار کیا اور کہا کہ ہمیں اسی کا انتظار تھا۔ اس مجلس میں حضرت مولوی عبدالرحمٰن صاحب بھی موجود تھے جنہوںنے قادیان جاکرتحقیق کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ چنانچہ حضرت صاحبزادہ صاحب نے اُن کو قادیان بھجوایا۔ وہ حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں قادیان حاضر ہوئے اور بیعت کی۔ حضرت مسیح موعودؑ نے 1897ء میں ’’انجام آتھم‘‘ شائع کی اور اس میں شامل 313 صحابہ کے اسماء میں حضرت مولوی عبد الرحمٰن صاحبؓ کا نام بھی درج فرمایا۔ وہ دو یا تین مرتبہ قادیان آئے۔
حضرت مولوی صاحبؓ افغانستان کے امیر عبدالرحمٰن کی حکومت میں ملازم تھے۔ امیر کے پاس اِن کی شکایت کی گئی تو امیر عبدالرحمٰن نے اِن کی گرفتاری کا حکم گورنر خوست کو دیا۔ اس پرآپؓ چھپ گئے۔ پھر آپؓ کے اموال کی ضبطی اور آپؓ کے اہل و عیال کو کابل بھجوانے کا حکم دیا گیا۔ اس پر عملدرآمد ہوا تو آپؓ خود کابل جاکر امیر کے پاس پیش ہوگئے۔ امیر نے آپؓ سے غیر علاقہ میں جانے کا سبب پوچھا تو آپؓ نے فرمایا کہ سرکار کی خدمت کے لئے قادیان گیا تھا اور جس شخص نے مسیحیت کا دعویٰ کیا ہے اس کی کتابیں اپنے ساتھ لایا ہوں۔ امیر نے آپؓ سے کتابیں لے لیں اور آپؓ کو جیل بھجوادیا۔ اور پھر جیل میں ہی ڈیڑھ دو ماہ بعد منہ پر تکیہ رکھ کر سانس بند کر کے 20 جون 1901ء کو آپؓ کو شہید کردیا گیا۔
اس کے بعد یہ خبریں ملیں کہ حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحبؓ کے بارے میں بھی مخالفانہ رپورٹیں امیر عبد الرحمٰن کے پاس کی گئی ہیں تو حضرت صاحبزادہ صاحب کچھ لوگوں کے مشورے پر کابل میں امیر عبدالرحمٰن کے دربار میں چلے گئے۔ امیر آپ کو دیکھ کر بہت خوش ہوا اور آپ سے کہا کہ آپ کے متعلق کچھ رپورٹیں آئی تھیں لیکن مَیں نے انہیں نظرانداز کر دیا اور میں آپ کے آنے سے بہت خوش ہوا ہوں۔ پھر لوگوں کے مشورہ کے مطابق آپؓ امیر سے اجازت لے کر کابل میں ہی رہنے لگے۔
اُس وقت تک امیر عبد الرحمٰن کی گاؤٹ کی بیماری اتنی بڑھ چکی تھی کہ وہ چلنے پھرنے سے بھی معذور تھا اور کمرے میں بھی ملازم ہی اُسے اُ ٹھا کے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے کر جاتے۔ 1901ء کے موسم بہار میں اُسے فالج کا حملہ ہوا تھا جس کے بعد بسااوقات اُس کا ذہن بھی صحیح طرح کام نہیں کرتا تھا اور اس ذہنی حالت کی وجہ سے قریبی مصاحب اپنے من مانے فیصلے بھی کرا لیتے تھے۔ حضرت مولوی عبدالرحمٰن صاحبؓ کی شہادت کا واقعہ بھی اسی دَور کا ہے۔ آخری دنوں میں امیر عبدالرحمٰن کی ٹانگوں میں گینگرین ہوگئی تھی جس کے تعفّن کی وجہ سے قریب کھڑا ہونا دو بھر تھا۔ امیر کی اس آخری بیماری میں اُس کی خواہش کے مطابق حضرت صاحبزادہ صاحبؓ اُس سے ملنے اکثر بالا باغ میں اس کے محل جاتے تھے۔ ایک دن جب آپؓ اس سے مل کر آئے تو فرمایا: امیر سخت بیمار ہے، اچھا ہے چلا ہی جائے اس طرح لوگ اس کے مظالم سے محفوظ ہو جائیں گے۔
یکم اکتوبر کو آپؓ محل میں گئے اور فوراً باہر آگئے اور سید احمد نور صاحب کو فرمایا کہ امیر فوت ہو گیا ہے۔ اس وقت امیر کی موت کی خبر کو جانشینی پر تنازع کے ڈر سے خفیہ رکھا گیا تھا۔ جب بالا باغ میں امیر حبیب اللہ کی جانشینی کا اعلان کیا گیا تو رواج کے مطابق وہاں پر موجود عمائدین نے حبیب اللہ کی بیعت کی۔ جب حضرت صاحبزادہ صاحبؓ کو بیعت کے لئے بلایا گیا تو آپ نے فرمایا میں اس شرط پر بیعت کروں گا کہ آپ اقرار کریں کہ آپ شریعت کے خلاف کچھ نہیں کریں گے۔ جب حبیب اللہ نے اس بات کا اقرار کیا تو آپ نے بیعت کی۔ اس کے بعد آپؓ نے امیر حبیب اللہ کو شاہی دستار باندھی۔ جب دو تین بَل رہ گئے تو قاضی القضاۃ نے عرض کی باقی میرے لئے رہنے دیں تاکہ میں بھی برکت حاصل کروں۔ چنانچہ باقی دستار اُس نے باندھی۔ پھر دربار ِ عام میں امیر حبیب اللہ کی تاجپوشی اُس کے بھائی سردار نصراللہ نے 3؍ اکتوبر کوکی۔
اُس وقت قادیان میں یہ منظر تھا کہ گو کہ خطبہ الہامیہ 1901ء میں پڑھا گیا تھا مگر اُن دنوں حضرت مسیح موعودؑ اس کے حاشیہ کی تصنیف میں مصروف تھے۔ ابھی حضرت مولوی عبدالرحمٰن صاحبؓ کی شہادت کی اطلاع قادیان نہیں پہنچی تھی کہ 30ستمبر کی رات کو تقریباً 12بجے حضرت امّاں جانؓ نے ایک رؤیا د یکھی اور حضرت مسیح موعودؑ سے بیان کی۔ جب آپؑ نے اس پر توجہ فرمائی تو آپؑ کو القاء ہوا کہ ہزار سالہ موت کے بعد اب جو احیاء ہوا ہے اس میں انسانی ہاتھ کا دخل نہیں ہے۔ جیسے خدانے مسیح کو بِن باپ پیدا کیا تھا یہاں مسیح موعود کو بلاواسطہ کسی استاد یا مُرشد روحانی کے زندگی عطا فرمائی۔
پھر جب آپ نے توجہ فرمائی تو ذرا سی غنودگی کے بعد الہام ہوا: ’’فری میسن مسلّط نہیں کئے جائیں گے کہ اس کو ہلاک کریں‘‘۔
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ فری میسن کے متعلق میرے دل میں گزرا کہ جن کے ارادے مخفی ہوں۔ پھر آپؑ فرماتے ہیں غرض یہ کیسی لطیف بات ہے کہ خداتعالیٰ نے اس میں عظیم الشان بشارت اور پیشگوئی رکھ دی۔ لوگ ہمارے قتل کے ارادے کریں گے مگر خداتعالیٰ ان کو ہم پر مسلّط نہیں کرے گا۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ جب حضرت مسیح موعودؑ کو فری میسن کے بارہ میں مذکورہ الہام ہوا تو اس کے چوبیس گھنٹے کے اندر اندر وہ شخص افغانستان کا فرمانروا بن گیا جس نے بعد میں احمدیت کی مخالفت میں انتہائی اقدامات اٹھانے تھے ۔ اور فری میسن تنظیم میں بھی شمولیت اختیار کرنی تھی۔
یہ حقیقت بھی قابل ذکر ہے کہ اس الہام سے کچھ ماہ قبل جنوری 1901ء میں ملکہ وکٹوریہ کا انتقال ہوتا ہے اور ان کی جگہ ایڈورڈ ہفتم تخت نشین ہوتے ہیں۔ ایڈورڈ ہفتم فری میسن تنظیم کے سرگرم رکن تھے اور ان کی زندگی میں چند سنجیدہ چیزوں میں سے ایک اُن کی فری میسن تنظیم سے وابستگی تھی۔ اپنی تخت نشینی تک وہ انگلستان کی یونائیٹڈ گرینڈ لاج کے گرینڈ ماسٹر رہے تھے۔ جب انہوں نے ولی عہد کی حیثیت سے ہندوستان کا دورہ کیا تھا تو امرتسر آکر مقامی عیسائیوں کی ایک بڑی تقریب میں شرکت کی تھی۔ یہ تقریب رابرٹ کلارک کے گھر پر منعقد ہوئی تھی۔ ہنری مارٹن کلارک جس نے بعد میں حضرت مسیح موعودؑ پر اقدامِ قتل کا جھوٹا مقدمہ کیا تھا وہ اسی رابرٹ کلارک کا لَے پالک تھا۔ اس موقعہ پر جن لوگوں نے ولی عہد کو ایڈریس پیش کیا تھا ان میں ایک عبداللہ آتھم بھی تھا۔
اگرچہ امیر حبیب اللہ کے حکم سے حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحبؓ کو جولائی 1903ء میں سنگسار کیا گیا لیکن فری میسن کے بارہ میں ہونے والے الہام کے الفاظ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس گروہ کے خفیہ بدارادے حضرت مسیح موعودؑ کی جان پر حملہ کرنے کے بارہ میں بھی ہوں گے لیکن اللہ تعالیٰ ان کو ناکام کر دے گا۔
حضرت سید ناظر حسین صاحبؓ ساکن کالو وال ضلع سیالکوٹ نے اگست 1903ء میں قادیان جا کر بیعت کی۔ اُس وقت تک حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحبؓ کی شہادت کی خبر قادیان پہنچ چکی تھی اور یہ بات مشہور تھی کہ امیر حبیب اللہ نے حضرت مسیح موعودؑ کو قتل کرانے کے لئے بعض آدمی بھجوائے ہیں اور آپؑ کی ہدایت پر احتیاطاً دو آدمی رات کو پہرے کے لئے ڈیوڑھی پر سوتے تھے۔ خود ناظر حسین صاحبؓ نے بھی ایک دن یہ ڈیوٹی دی تھی۔
برٹش لائبریری میں موجود ہندوستان کی حکومت کے ہوم ڈیپارٹمنٹ کے 1904ء کے ریکارڈ میں درج ہے کہ حضرت صاحبزادہ صاحبؓ کی عظیم قربانی کے بعد کسی وقت امیر حبیب اللہ نے ہندوستان کی برطانوی حکومت کو درخواست کی تھی کہ حکومت حضرت مسیح موعودؑ کے خلاف قانونی قدم اُ ٹھائے کیونکہ آپؑ نے اپنے ایک پیروکار کے سنگسار ہونے پر امیر حبیب اللہ کے خلاف ’’اخبار عام‘‘ میں ایک ہتک آمیز مضمون شائع کرایا ہے۔ چنانچہ اپریل 1904ء میں ہندوستان کی حکومت کے ہوم ڈیپارٹمنٹ نے اس درخواست پر غور بھی کیا تھا کہ آیا حضرت مسیح موعودؑ کے خلاف اس ضمن میں کوئی قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے یا نہیں۔
لیکن حقائق کئی پہلوؤں سے بہت حیران کن ہیں کیونکہ جماعتی ریکارڈ کے مطابق اس وقت اس موضوع پر حضرت مسیح موعودؑ کا کوئی مضمون اخبار عام میں شائع نہیں ہوا تھا۔ اور حضرت مسیح موعودؑ نے اس بارے میں ’تذکرۃ الشہادتین‘ تصنیف فرمائی تھی لیکن اس کتاب میں یا اِس موضوع پر ’الحکم‘ میں چھپنے والے مضمون میں کسی بھی پہلو سے امیر حبیب اللہ کے بارے میں کوئی ایسا لفظ نہیں تھا جس پر قانونی چارہ جوئی کا کوئی بھی امکان ہو۔ زیادہ سے زیادہ امیر حبیب اللہ کے بارہ میں ’’اور ایک ذرّہ خدا تعالیٰ کا خوف نہ کیا‘‘ کے الفاظ استعمال کئے گئے تھے۔
اُس وقت یہ حقائق سب کے علم میں تھے کہ امیر حبیب اللہ نے محض عقائد کی بِنا پر حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کو سنگسار کرایا تھا اور جماعت احمدیہ کی طرف سے جو بھی تحریر اس کے بعد سامنے آئی وہ اس کے ردّعمل کے طور پر تھی۔ ایک طرف تو ایک شخص کو اس ظالمانہ طور پر قتل کرایا جاتا ہے اور پھر نازک مزاجی کا یہ عالم ہے کہ اگر اس پر کوئی کچھ لکھ دے تو قانونی چارہ جوئی کا خیال دماغ پر سوار ہو۔ اور یہ بات مزید حیرت میں ڈالتی ہے کہ اس وقت حکومت کے ایک حصے نے اس درخواست پر غور بھی شروع کر دیا تھا کہ حضرت مسیح موعودؑ کے خلاف کوئی کارروائی ہو سکتی ہے کہ نہیں۔ تاہم یہ سب کارروائی خفیہ کی جا رہی تھی۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ امیر حبیب اللہ اور ان سے قبل امیر عبد الرحمٰن بھی برطانوی حکومت سے باقاعدہ سالانہ وظیفہ لیتے رہے تھے لیکن جن دنوں حضرت صاحبزادہ صاحبؓ کو سنگسار کیا گیا تو اُس وقت امیر حبیب اللہ اور ہندوستان کی برطانوی حکومت کے تعلقات میں بظاہر کشیدگی تھی۔ یہ معلوم نہیں کہ صاحبزادہ صاحبؓ کی شہادت اور اپریل 1904ء کے درمیان کب امیر حبیب اللہ نے ہندوستان کی حکومت سے درخواست کی کہ حضرت مسیح موعودؑ کے خلاف کارروائی کی جائے لیکن جب اپریل 1904ء میں اس درخواست پر غور ہوا ہے تو اس کے بعد بڑی تیزی سے امیر حبیب اللہ اور برطانوی حکومت کے درمیان گرمجوشی اور دوستی بڑھنے لگی۔
امیر حبیب اللہ کی برطانوی حکومت کے ساتھ تناؤ کی وجہ یہ تھی کہ امیر حبیب اللہ کا نظریہ یہ تھا کہ اُس کے والد امیر عبدالرحمٰن کے ساتھ ہندوستان کی برطانوی حکومت کا جو دوستی کا معاہدہ تھا اور جس کے تحت امیر عبدالرحمن برطانوی حکومت سے وظیفہ بھی پاتا تھا، وہ بدستور قائم ہے کیونکہ وہ دو حکومتوں کے درمیان معاہدہ تھا۔ جبکہ ہندوستان کے وائسرائے کرزن کا خیال تھا کہ وہ معاہدہ امیر عبد الرحمٰن کی ذات سے تھا اور نئے امیر کے ساتھ نیا معاہدہ کیا جائے گا۔ اس غرض کے لئے لارڈ کرزن نے امیر حبیب اللہ کو ہندوستان آنے کی دعوت دی۔ لیکن امیر اُس وقت افغانستان چھوڑنے پر آمادہ نہیں تھے۔
چنانچہ یہ بات اَور زیادہ حیرت میں ڈالتی ہے کہ اس پس منظر میں امیر حبیب اللہ ہندوستان کی حکومت سے یہ لایعنی فرمائش کریں کہ ایک احمدی کو سنگسار کرانے پر اُس کے خلاف مضمون لکھنے کے خلاف انگریز حکومت قانونی کارروائی کرے۔ یہ تو صرف اس صورت میں ممکن تھا کہ ہندوستان کی حکومت کے کچھ عناصر امیر کو یہ تأثر دے رہے ہوں کہ اگر وہ اس قسم کا خط لکھ دے تو اس پر غور کیا جائے گا۔
یہ معمہ بھی حل طلب ہے کہ صاحبزادہ صاحبؓ کی شہادت جولائی 1903ء میں ہوئی تھی اور اکتوبر 1903ء میں ’’تذکرۃ الشہادتین‘‘ شائع ہو چکی تھی۔ لیکن حضرت مسیح موعودؑ کے خلاف امیر حبیب اللہ نے جو درخواست کی تھی اُس پر غور اپریل 1904ء میں کیوں ہوا۔ اپریل 1904ء میں کیا ہندوستان کی حکومت میں کوئی تبدیلی آئی تھی جس وجہ سے اس بات پر غور شروع کیا گیا ہو۔
دراصل اپریل 1904ء میں لارڈ کرزن کچھ ماہ کی رخصت پر واپس برطانیہ گئے تھے اور اُن کی جگہ پر Oliver Villiers Russell (2nd Baron Ampthill) نے قائم مقام وائسرائے کی حیثیت سے کام شروع کیا تھا اور وہ اس منصب پر دسمبر 1904ء تک کام کرتے رہے۔ وہ اصل میں صوبہ مدراس کے گورنر تھے۔ Eton اور آکسفورڈ میں تعلیم پائی۔ 1900ء میں مدراس کے گورنر بنے۔ اُن کی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو یہ تھا کہ وہ آکسفورڈ کے زمانہ طالب علمی میں ہی فری میسن تنظیم کے رُکن بن چکے تھے اور آپ نے اس تنظیم میں نمایاں ترقی کی۔ گورنرشپ کے دوران 1901ء سے 1906ء تک فری میسن مدراس کے گرینڈ ماسٹر تھے۔ بعد میں انگلستان میںPro Grand Master کے منصب پر کام کرتے رہے۔ وہ اپریل 1904ء سے دسمبر 1904ء تک قائمقام وائسرائے رہے اور اس عرصہ میں افغانستان کے ساتھ کشیدگی کم کرنے کی خاص کوشش کی گئی۔ اسی دَور میں امیر حبیب اللہ نے برطانوی حکومت سے دوستی قائم رکھنے کی خاطر سیستان میں حدبندی کے لئے برطانوی ثالثی کو قبول کیا تھا۔ نیز قائم مقام وائسرائے نے نومبر 1904ء میں اپنے خاص سفیر Dane کو کابل بھجوایا تھا۔ اس خاص سفیر نے امیر حبیب اللہ سے مذاکرات کا آغاز کیا اور جلد ہی دوستی کی فضا اتنی بڑھ گئی کہ امیر حبیب اللہ نے یہ ہونّق قسم کی پیشکش بھی کرڈالی کہ افغانستان اور برطانیہ مل کر افغانستان کی زمین استعمال کرکے روس پر حملہ کر دیں۔ 14دسمبر کو برطانوی سفیر کے ساتھ امیر حبیب اللہ نے ایک خاص دربار منعقد کیا۔ امیر حبیب اللہ نے کچھ مشترکہ منصوبوں کی پیشکش بھی کی۔ لیکن جب ہندوستان میں امیر حبیب اللہ کی تجاویز کو زیر ِ غور لانے کا مرحلہ آیا تو لارڈکرزن واپس آ کر پھر وائسرائے کا منصب سنبھال چکے تھے۔ انہوں نے یہ کہہ کر امیدوں پر پانی پھیر دیا کہ اس سفیر کے کابل جانے کا مقصد یہ تفاصیل طے کرنا نہیں تھا۔ جب امیر حبیب اللہ ہندوستان کے دورہ پر آئیں گے تو اُن کی تجاویز پر غور کیا جائے گا۔
1905ء میں ہی حالات نے ایک اور رُخ اختیار کیا جب لارڈ کرزن اور ہندوستان کی افواج کے کمانڈر انچیف کچنر کے درمیان شدید اختلافات پیدا ہوئے۔ جب مرکزی حکومت نے مکمل طور پر لارڈ کرزن کی رائے تسلیم نہیں کی تو لارڈ کرزن مستعفی ہوگئے۔ کچنر (Kitchner) صرف ہندوستان کی افواج کے کمانڈر انچیف ہی نہیں تھے بلکہ فری میسن تنظیم کے نمایاں رکن بھی تھے اور پنجاب کے گرینڈ ماسٹر تھے۔
پھر لارڈ منٹو کو ہندوستان کا وائسرائے مقرر کیا گیا جو کینیڈا کے گورنر رہ چکے تھے اور وہ بھی فری میسن تنظیم کے رکن تھے۔ لارڈ منٹو کے ابتدائی چند ماہ میں ہی یعنی اوائل 1906ء میں، امیر حبیب اللہ نے ہندوستان کا دورہ کیا۔ سرحد پران کا استقبال Macmohan نے کیا جو کہ خود فری میسن تنظیم کے رکن تھے اور اُن کے بقول امیر حبیب اللہ نے اُن سے بار بار فری میسن تنظیم کا رُکن بنائے جانے کے لئے اصرار کیا۔ اس سے پہلے بھی امیر حبیب اللہ اس تنظیم کے بارے میں کافی علم رکھتے تھے اور بعض فری میسن احباب سے ملاقات کر چکے تھے اور اُن کے مداح تھے۔ چنانچہ کچنر نے جو پنجاب کی فری میسن کے گرینڈ ماسٹر تھے، امیر حبیب اللہ کو فری میسن بنانے کی اجازت ڈیوک آف کوناٹ (Duke of Connaught) سے حاصل کی جو اپنے بھائی ایڈورڈ ہفتم کے بادشاہ بننے کے بعد انگلستان کی فری میسن یونائٹڈ گرینڈ لاج کے گرینڈ ماسٹر تھے۔ چنانچہ امیر حبیب اللہ کو 2فروری 1907ء کو خفیہ طور پر فری میسن تنظیم کا رکن بنایا گیا۔ (امیر حبیب اللہ کے انگریز حکومت سے تعلقات اور فری میسن بننے کی تفصیلات کے لئے درج ذیل کتاب انٹرنیٹ پر ملاحظہ کریںAn Account of Entry of H.M. Habibullah Khan into Freemasonry – 1907 by Macmohan)
1919ء میں امیر حبیب اللہ اپنے انجام کو پہنچا اور اس کو قتل کر دیا گیا اور حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحبؓ کے خلاف سازش کرنے والے تمام کردار اپنے بدانجام کو پہنچے۔
پس اگرچہ اُس وقت حکومت کی طرف سے عملاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف کوئی کارروائی شروع نہیں ہونے پائی تھی لیکن یہ حقائق اس وقت جماعت احمدیہ کے علم میں نہیں تھے کہ امیرحبیب اللہ کی خواہش ہے کہ انگریز حکومت کے تعاون سے حضرت مسیح موعودؑ کے خلاف سازش کی جائے لیکن اللہ تعالیٰ کے علم میں تو تھے۔ ہندوستان کی حکومت کی سطح پر یہ غور اپریل 1904ء میں کیا گیا تھااور ظاہر ہے کہ امیر حبیب اللہ کی درخواست اور اس پر ابتدائی کارروائی اس سے قبل ہوئی تھی۔ جب ہم اس وقت حضرت مسیح موعودؑ کے الہامات کا جائزہ لیتے ہیں تو مندرجہ ذیل الہامات مارچ، اپریل 1904ء میں ہوئے تھے۔
* 27مارچ1904ء کو حضرت مسیح موعودؑ کو الہام ہوا: ’’بادشاہ وقت پر جو تیر چلاوے۔ اسی تیر سے وہ آپ مارا جاوے۔‘‘
* 31مارچ 1904ء کی رؤیا ہے: خواب میں دیکھا کہ میں آگ کے پاس کھڑا ہوں اور دامن میرا آگ میں پڑگیا مگر آگ اس کو چھو بھی نہیں گئی۔بعد اس کے الہام ہوا: ’’خدا کا فضل۔ خدا کی رحمت‘‘۔
* 12 ؍اپریل کو الہام ہوا :
اَجَرتُ مِنَ النَّار
(ترجمہ: میں نے آگ سے بچا لیا)۔
ژ 28؍اپریل 1904ء کو فارسی کا یہ الہام ہوا:
’’امن است در مکان ِ محبت سرائے ما‘‘۔
(ترجمہ: ہمارا مکان جو ہماری محبت سرائے ہے اس میں ہر طرح سے امن ہے۔)
یہ الہامات ظاہر کر رہے تھے کہ دشمن خواہ کتنا ہی بااثر کیوں نہ ہو، کتنی ہی گہری سازش کیوں نہ کر لے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حفاظت اللہ تعالیٰ خود کرے گا اور دشمن بالآخر ناکام و نامراد ہو گا۔