خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 08؍جون 2018ء
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں بطور حق کے ان لوگوں کو جو تقویٰ پر چلنے والے ہیں، جو زکوۃ دینے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے احکامات پر ان کا حق ادا کرتے ہوئے اور یقین کے ساتھ عمل کرنے والے ہیں، اللہ تعالیٰ کی آیات پر مکمل ایمان رکھنے والے ہیں، ضرور اپنی رحمت کی چادر میں لپیٹوں گا۔ پس مومن کو اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے، تقویٰ پر چلنے اور ایمان میں کامل ہونے کی بھرپور کوشش کرنی چاہئے
جب رمضان میں انسان روزے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر پہلے سے زیادہ عمل کرے، اپنی عبادتوں کو بڑھائے، اپنے تقویٰ میں ترقی کرے تو پھر انسان اللہ تعالیٰ کی رحمت کی چادر میں پہلے سے بڑھ کر آ گیا
اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جذب کرنے کا ذریعہ توبہ اور استغفار ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کے حوالہ سے توبہ اور استغفار کی حقیقت اور اس کی اہمیت اور اس کے ثمرات و برکات کا تذکرہ
اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں آنے کے لئے، اس کی مدد و نصرت کے لئے، اس کا رحم حاصل کرنے کے لئے کوشش، استغفار اور دعا ضروری ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک دفعہ جماعت کو اس طرف توجہ دلائی تھی کہ ہماری جماعت کو یہ دعا بکثرت پڑھنی چاہئے کہ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔(البقرۃ202:) پس اس طرف ہمیں بھی توجہ دینی چاہئے تا کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت میں لے کر ہمیں ہر قسم کی دنیاوی اور اُخروی آگ سے بچائے رکھے۔
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 08؍ جون 2018ء بمطابق08؍احسان 1397 ہجری شمسی بمقام مسجدبیت الفتوح،مورڈن،لندن، یوکے
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔
وَاکْتُبْ لَنَا فِیْ ھٰذِہِ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ اِنَّا ھُدْنَآ اِلَیْکَ۔ قَالَ عَذَابِیْٓ اُصِیْبُ بِہٖ مَنْ اَشَآءُ وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْءٍ۔ فَسَاَکْتُبُھَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَالَّذِیْنَ ھُمْ بِاٰیٰتِنَا یُؤْمِنُوْنَ۔ (الاعراف157:)
اس آیت کا ترجمہ ہے: اور ہمارے لئے اس دنیا میں بھی حسنہ لکھ دے اور آخرت میں بھی۔ یقیناً ہم تیری طرف توبہ کرتے ہوئے آ گئے ہیں۔ اس نے کہا میرا عذاب وہ ہے کہ جس پر میں چاہوں اس پر میں وارد کر دیتا ہوں اور میری رحمت وہ ہے کہ ہر چیز پر حاوی ہے۔ پس میں اس رحمت کو ان لوگوں کے لئے واجب کر دوں گا جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور زکوۃ دیتے ہیںا ور جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے اپنے بندوں پر عجیب احسان ہیں جیسا کہ اس آیت سے ظاہر ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری رحمت ہر چیز پر حاوی ہے۔ رحمت کا مطلب ہے نرم ہونا، مہربان ہونا، رحم کا ابھرنا۔ یعنی اللہ تعالیٰ کا بندوں سے نرمی اور صَرفِ نظر کا سلوک ہے جس کی کوئی انتہا نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر مہربانی کا سلوک ہے جس کی کوئی انتہا نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا رحم کا جذبہ اور یہ سلوک اتنا بڑھا ہوا ہے کہ جو ہر چیز پر حاوی ہے۔ اس کی رحمت میں رحمانیت اور رحیمیت شامل ہیں۔ یہ اس کی رحمانیت ہے کہ بن مانگے بھی بیشمار چیزیں دنیا میں انسان کے لئے پیدا کی ہیں۔ اور رحیمیت کا پھر وہ اللہ تعالیٰ کے حق ادا کرنے والوں اس کے احکام پر عمل کرنے والوں اس کے آگے جھک کر مانگنے والوں پر اظہار کرتا ہے۔ تو یہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بندوں کو عذاب دینا میری غرض نہیں ہے۔ بعضوں کو بڑی غلط فہمی ہوتی ہے کہ انسان کو اگر عذاب دینا ہے، سزا دینی ہے تو پیدا کیوں کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری غرض یہ نہیں ہے۔ ہاں وہ لوگ میرے عذاب اور سزا کے مورد بنتے ہیں جو اپنے غلط عملوں کی انتہا کو پہنچے ہوئے ہیں۔ لیکن میرا یہ عذاب بھی عارضی چیز ہے اور اصلاح اور احساس کے لئے ہے۔ حتی کہ ایک وقت آئے گا کہ دوزخ والے بھی میری وسیع رحمت سے حصہ لیں گے اور ان کا عذاب بھی ختم ہو جائے گا۔ دوزخ کی سزا بھی ان کے غلط عملوں کی وجہ سے ملے گی اور پھر وہ ایک اصلاح کا ذریعہ بن جائے گی۔ تو اگر دیکھا جائے تو یہ سزا بھی اصلاح ہے۔ یہ سزا کا دور جو ہے یہ بھی ایک لحاظ سے رحمت ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ جزا سزا کے دن کا مالک بھی ہے۔ اس لئے وہ بظاہر ہمیں گناہگار نظر آنے والے لوگوں کو اپنی رحمت اور بخشش کی چادر میں لپیٹ کر بغیر سزا کے جانے دے سکتا ہے۔ لیکن اس نے ہمیں نیکیوں کے راستوں پر چلنے کی ترغیب دلاتے ہوئے یہ ضرور فرما دیا کہ میری رحمت ہر چیز پر حاوی ہے اور ان پر میں ضرور اپنی رحمت کروں گا جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں جو زکوۃ دیتے ہیں اور ان لوگوں پر جو میرے نشانوں پر ایمان لاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی آیات پر ایمان لاتے ہیں۔
پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں بطور حق کے ان لوگوں کو جو تقویٰ پر چلنے والے ہیں، جو زکوۃ دینے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے احکامات پر ان کا حق ادا کرتے ہوئے اور یقین کے ساتھ عمل کرنے والے ہیں، اللہ تعالیٰ کی آیات پر مکمل ایمان رکھنے والے ہیں، ضرور اپنی رحمت کی چادر میں لپیٹوں گا۔
پھر ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اِنَّ رَحْمَتَ اللہِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ۔ (الاعراف57:) کہ اللہ کی رحمت یقیناً محسنوں کے قریب ہے۔ محسن وہ ہیں جو تمام شرائط کے ساتھ اپنے کام کو پورا کرتے ہیں۔ پس جو تقویٰ کے تقاضوں کو پورا کرنے والا ہے، اللہ تعالیٰ کے احکامات کو بجا لانے والا ہے، اللہ تعالیٰ کے نشانات پر مکمل ایمان رکھنے والا ہے، اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنے والا ہے تو ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ کی رحمت پہنچے گی۔ پس ایک انسان کو اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے، تقویٰ پر چلنے اور ایمان میں کامل ہونے کی بھرپور کوشش کرنی چاہئے تبھی وہ مومن کہلا سکتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے اس اعلان سے فیض پانے کی کوشش کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کے احکامات پر ان کا حق ادا کرتے ہوئے عمل کرنے والوں کے قریب ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے تو اپنے پر فرض کر لیا ہے، ان کے لئے لکھ دیا ہے کہ اگر تم یہ کرو گے تو میری رحمت کی وسعت تمہیں اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ کتنا رحیم و کریم ہے ہمارا خدا۔ ہم تو اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں۔ بندہ کس طرح اپنے مالک پر کوئی حق جتا سکتا ہے۔ لیکن وہ زمین و آسمان کا مالک کہتا ہے کہ اگر تم تقویٰ پر چلو گے، میرے احکامات پر عمل کرتے ہوئے میرے نشانوں پر ایمان لاؤ گے تو میری رحمت کے یقیناً حقدار بن جاؤ گے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے پہلی چیز تقویٰ بیان فرمائی ہے اور اصل میں اگر تقویٰ کا صحیح اِدراک ہو جائے تو باقی نیکیاں اور ایمان میں کامل ہونا اس کے اندر ہی آ جاتا ہے۔ اس بارے میں ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :
’’انسان کی تمام روحانی خوبصورتی تقویٰ کی تمام باریک راہوں پر قدم مارنا ہے۔ تقویٰ کی باریک راہیں روحانی خوبصورتی کے لطیف نقوش اور خوشنما خط و خال ہیں اور ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کی امانتوں اور ایمانی عَہدوں کی حتی الوسع رعایت کرنا (یعنی انہیں صحیح طرح بجا لانا) اور سر سے پیر تک جتنے قویٰ اور اعضاء ہیں (انسان کے جتنے بھی اعضاء ہیں۔ انسان کے قویٰ ہیں۔ طاقتیں ہیں) جن میں ظاہری طور پر آنکھیں اور کان اور ہاتھ اور پیر اور دوسرے اعضاء ہیں اور باطنی طور پر دل اور دوسری قوتیں اور اخلاق ہیں ان کو جہاں تک طاقت ہو ٹھیک ٹھیک محل ضرورت پر استعمال کرنا‘‘ (صحیح طرح ان کا استعمال کرنا جو اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے احکامات ہیں ان کے مطابق ادا کرنا ان کا حق ادا کرنا) ’’اور ناجائز مواضع سے روکنا اور ان کے پوشیدہ حملوں سے متنبہ رہنا۔‘‘ (غلط استعمال سے اس کو روکنا اور شیطان جن اعضاء کے ذریعہ، جن طاقتوں کے ذریعہ سے پوشیدہ حملے کرواتا ہے اس لئے اس سے ہوشیار رہنا یہ انسان کا کام ہے۔ تبھی وہ صحیح تقویٰ پر چل سکتاہے۔ تبھی وہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کی ادائیگی صحیح طرح کر سکتا ہے۔) فرمایا ’’اور اسی کے مقابل پر حقوق عباد کا بھی لحاظ رکھنا یہ وہ طریق ہے کہ انسان کی تمام روحانی خوبصورتی اس سے وابستہ ہے اور خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں تقویٰ کو لباس کے نام سے موسوم کیا ہے۔ چنانچہ لباس التقویٰ قرآن شریف کا لفظ ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ روحانی خوبصورتی اور روحانی زینت تقویٰ سے ہی پیدا ہوتی ہے اور تقویٰ یہ ہے کہ انسان خدا کی تمام امانتوں اور ایمانی عہد اور ایسا ہی مخلوق کی تمام امانتوں اور عہد کی حتی الوسع رعایت رکھے۔ یعنی ان کے دقیق در دقیق پہلوؤں پر تا بہ مقدور کاربند ہو جائے۔‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 209-210)
اس کی جو باریک سے باریک باتیں ہیں اس پر بھی جتنی حد تک انسان کی طاقت ہے، جس حد تک قدرت رکھتا ہے اس کی پابندی کرے ان پر عمل کرے۔
پس اس معیا رکو انسان حاصل کر لے تو یہ ہے جہاں اللہ تعالیٰ کی رحمت اپنے بندے پر بطور حق کے فرض ہو جاتی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ خود اپنے پر یہ فرض کر لیتا ہے۔ اور جیسا کہ میں نے کہا کہ بندے کا کیا مقام ہے کہ بطور حق اللہ تعالیٰ سے کچھ لے سکے۔
یہ دن جن میں سے ہم گزر رہے ہیں یہ رمضان کے دن ہیں۔ اس کا آخری ہفتہ اب رہ گیا ہے جس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیںا ور شیطان کو جکڑ دیا جاتا ہے۔
(صحیح مسلم کتاب الصیام باب فضل شھر رمضان حدیث 2495)
اس سے بھی مومن ہی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ وہی فائدہ اٹھائے گا جو صحیح طرح ایمان لانے والا ہے، اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے والا ہے۔ شیطان کے چیلے تو ان دنوں میں بھی اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتے۔ دنیا میں بے تحاشا بیہودگیاں، بے حیائیاں روزمرہ کا معمول ہیں۔ رمضان میں کوئی ختم نہیں ہو گئیں۔ پس یہ خوشخبری مومنوں کے لئے ہے اور یہ تقویٰ پر چلنے والوں کے لئے ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے حصہ لینے والوں کے لئے ہے کہ تمہارے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت پہلے سے بھی بڑھ کر وسیع کر دی ہے۔ پس اس سے فائدہ اٹھاؤ اور اللہ تعالیٰ کے حق ادا کرنے کی کوشش کرو۔ اس کے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کرو۔ اس حق کی ادائیگی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ایک موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص ایمان کے تقاضے اور ثواب کی نیت سے رمضان کی راتوں میں اٹھ کر نماز پڑھتا ہے اس کے گزشتہ گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔ سب پرانے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔
(صحیح البخاری کتاب الایمان باب صوم رمضان احتسابا من الایمان حدیث 38)
اللہ تعالیٰ کی رحمت کی وسعت کے اظہار کا ایک اور نظارہ کہ تم ایک کوشش کرتے ہو میںکئی گنا بڑھ کر تمہیں دے دیتا ہوں۔ کس کس طرح سے اس کی رحمانیت اور رحمیت اور رحمت کا اظہار ہو رہا ہے۔ پس خوش قسمت ہیں وہ جو ان دنوں سے فائدہ اٹھانے والے ہیں۔ پھر یہ بھی اس کی دین ہے کہ ان آخری دنوں میں لیلۃالقدر کی تلاش کی طرف بھی ہمیں توجہ دلائی ہے تا کہ ہم قبولیت دعا کے پہلے سے بڑھ کر نظارے دیکھیں۔ یہ بھی کوئی ہمارا حق تو نہیں۔ یہ بھی اس کی عطا ہے تا کہ بندوں کو اپنے قریب تر کرنے کی طرف ترغیب دے اور یہ بھی اس کی رحمت کی وسعت ہے۔
پھر ایک حدیث میں ہے کہ رمضان کا ابتدائی عشرہ رحمت ہے اس کا درمیانی عشرہ مغفرت ہے اور اس کا آخری عشرہ آگ سے نجات ہے۔
(کنز العمال جلد 8 صفحہ 463 حدیث 23668 مطبوعہ موسسۃ الرسالۃ بیروت 1985ء)
جب رمضان میں انسان روزے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر پہلے سے زیادہ عمل کرے، اپنی عبادتوں کو بڑھائے، اپنے تقویٰ میں ترقی کرے تو پھر انسان اللہ تعالیٰ کی رحمت کی چادر میں پہلے سے بڑھ کر آ گیا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب بندہ میری خاطر روزہ رکھتا ہے۔ ان دنوں میں میری خاطر بعض جائز باتوں کے کرنے سے بھی رکتا ہے تو پھر ایسے روزہ دار کی جزا مَیں خود بن جاتا ہوں۔
(صحیح البخاری کتاب الصوم باب ھل یقول انی صائم اذا شُتم حدیث 1904)
جب اللہ تعالیٰ خود جزا بن گیا تو مغفرت کے سامان ہو گئے اور جب مغفرت کے سامان ہو گئے اور اللہ تعالیٰ نے مغفرت اور بخشش اور توبہ قبول کر لی تو پھر آگ سے بھی انسان کی نجات ہو گئی۔ آگ سے بھی بچ گیا۔ اس دنیا کی آگ سے بھی اور آخرت، اگلے جہان کی آگ سے بھی۔ مگر شرط یہی ہے کہ خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کی خاطر روزہ رکھنا ہے اور عمل بھی کرنے ہیں اور پھر یہ عمل مستقل زندگی کا حصہ بن کر اللہ تعالیٰ کی رحمت میں مستقل لپیٹے رکھنے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی رحمت صرف رمضان کے پہلے عشرہ کے لئے نہیں۔ پہلے سے دوسرے عشرے میں بھی داخل ہو رہی ہے اور تیسرے عشرے میں بھی داخل ہو رہی ہے اور مستقل انسان کے ساتھ ہے جب تک اس کے عمل تقویٰ پر چلتے ہوئے اور ایمان میں مضبوطی کے ساتھ سرانجام دئیے جاتے رہیں گے۔ اسی طرح اس کی مغفرت صرف درمیانی دس دن کے لئے نہیں ہے بلکہ رمضان کے آخر تک اور اس سے بھی آگے تک انسان کے ساتھ ہے اور جب تک انسان کی زندگی ہے اس کے ساتھ ہے اور اللہ تعالیٰ کی سزا سے بچانے والی ہے۔ اسی طرح آگ سے بھی صرف انسان ان دس دنوں میں نہیں بچ رہا بلکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت مانگتے ہوئے جو رمضان سے بھی گزر جائے گا تو وہ اس کے بعد بھی آگ سے دُور رہے گا۔ ورنہ اگر رمضان کے بعد پھر وہی دنیا داری کے غالب آنے اور تقویٰ سے دوری اور اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عدم توجہ اور ایمان کی کمزوری اور اللہ تعالیٰ کے نشانات کی ہم نے پرواہ نہ کرنا ہے تو پھر ایسا ہی ہے جیسے اپنے لئے انسان ایک محفوظ حصار بناتا ہے، ایک محفوظ مورچہ بناتا ہے اور پھر خود ہی اس کو ضائع کر دے اور توڑ دے۔ پس یہ رمضان تو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے حصہ لینے کے لئے اور پہلے سے بڑھ کر حصہ لینے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک ذریعہ بنایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے قرب حاصل کرنے کا ایک ذریعہ اللہ تعالیٰ نے بنایا ہے۔ ورنہ نہ ہی اللہ تعالیٰ کی رحمت چند دنوں تک محدود ہے، نہ اس کی مغفرت چند دنوں تک محدود ہے، نہ اس کی مغفرت کی قبولیت کی وجہ سے آگ سے نجات چند دنوں کے لئے یا کچھ عرصے کے لئے محدود ہے۔
پس اس بات پر ہمیں ہمیشہ غور کرتے رہنا چاہئے۔ اس زمانے میں قدم قدم پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہماری رہنمائی فرمائی ہے کہ ہم کس طرح اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کر سکتے ہیں اور اس کی حقیقت کیا ہے؟ کس طرح ہم اللہ تعالیٰ کی رحمت سے حصہ لینے والے بن سکتے ہیں اور کس طرح اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی رحمت میں لپیٹنے کے سامان کرتا ہے یا ہمارے ایک عمل کو کس طرح بڑھ کر نوازتا ہے۔ کس طرح مغفرت کے سامان کرتا ہے اور کس طرح ہمیں مغفرت کے لئے کوشش کرنی چاہئے تا کہ اس کی رحمت مستقل ہمارے ہمارے شامل حال رہے۔ اس کے لئے میں آپ کے بعض اقتباسات بھی پیش کروں گا اور وضاحت بھی کروںگا۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس آیات کی وضاحت فرماتے ہوئے جو میں نے تلاوت کی ہے فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’مَیں جس کو چاہتا ہوں عذاب پہنچاتا ہوں اور میری رحمت نے ہر چیز پر احاطہ کر رکھا ہے۔ سو میں ان کے لئے جو ہریک طرح کے شرک اور کفر اور فواحش سے پرہیز کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور نیز ان کے لئے جو ہماری نشانیوں پر ایمان کامل لاتے ہیں اپنی رحمت لکھوں گا۔‘‘
(براہین احمدیہ حصہ چہارم، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 564)
یہاں آپ نے تقویٰ کی وضاحت تین الفاظ میں فرمائی کہ شرک سے پرہیز کرنا، کفر سے بچنا اور فواحش سے پرہیز کرنا ۔ آجکل قدم قدم پر فواحش کے سامان ہیں۔ ٹی وی پہ انٹرنیٹ پہ اور میڈیا میں بیہودگیاں اور لغویات کے سامان ہیں۔ پس جو بھی ان کے بیہودہ اور لغو پروگرام ہیں ان سے بچنا بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جذب کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ رمضان میں ان دنوں میں روزے رکھنے کے لئے جلدی بھی اٹھنا پڑتا ہے اور رات کو دوسری مصروفیات بھی ہیں اس لئے بہت سے لوگ ہیں جو شاید ان دنوں میں ان چیزوں کو اتنا نہیں دیکھتے یا ان لغویات میں نہیں پڑے ہوئے یا اس سے بچے ہوئے ہیں۔ اس سے مستقل بچنا یہ ضروری ہے۔ یہ چیزیں آجکل خاص طور پر نوجوانوں کو بلکہ اکثر شکایتیں آتی ہیں کہ بڑوں کو بھی، ان کے ذہنوںکو زہر آلود کر رہی ہیں اخلاق بھی خراب ہو رہے ہیں اور یہ لوگ ایمان سے بھی دور جا رہے ہیں۔ پس ہر احمدی کو اس طرف توجہ کرتے ہوئے بھر پور کوشش کرنی چاہئے اور ان چیزوں کا بھی صحیح، مناسب اور محتاط استعمال کرنا چاہئے۔
پھر ایک جگہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :’’اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ رحمت عام اور وسیع ہے اور غضب یعنی عدل بعد کسی خصوصیت کے پیدا ہوتی ہے۔ یعنی یہ صفت قانون الٰہی سے تجاوز کرنے کے بعد اپنا حق پیدا کرتی ہے ۔‘‘
(جنگ مقدس، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 207)
پس جب اللہ تعالیٰ کسی کو سزا دیتاہے تو اس لئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے قانون سے باہر نکلتا ہے اور جیسا کہ ذکر ہو چکا یہ سزا بھی اصلاح کے لئے ہوتی ہے اور پھر آخر میں اللہ تعالیٰ کی رحمت غالب آ جاتی ہے۔ بہرحال واضح ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر کسی پر اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہوتا ہے تو وہ اس وجہ سے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے قانون سے باہر نکلنے کی انتہا کر دی ہے اور پھر باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کو وسیع کیا ہوا ہے پھر بھی وہ اس کے غضب کی زد میں آ جاتے ہیں۔
پھر اس کی مزید وضاحت فرماتے ہوئے ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’ وعید میں دراصل کوئی وعدہ نہیں ہوتا۔ صرف اس قدر ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدّوسیت کی وجہ سے تقاضا فرماتا ہے کہ شخصِ مجرم کو سزا دے۔ … پھر جب شخصِ مجرم توبہ اور استغفار اور تضرع اور زاری سے اس تقاضا کا حق پورا کر دیتا ہے تو رحمت الٰہی کا تقاضا غضب کے تقاضا پر سبقت لے جاتا ہے اور اس غضب کو اپنے اندر محجوب و مستور کر دیتا ہے۔ یہی معنی ہیں اس آیت کےکہ عَذَابِیْٓ اُصِیْبُ بِہٖ مَنْ اَشَآءُ وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْءٍ(الاعراف157:)۔ یعنی رَحْمَتِیْ سَبَقَتْ غَضَبِیْ۔ ‘‘
(تحفہ غزنویہ، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 537)
یعنی میری رحمت میرے غضب پر سبقت لے گئی۔ جب انسان توبہ کر رہا ہے، استغفار کر رہا ہے، تضرع کر رہا ہے، دعائیں مانگ رہا ہے اور جب اس کا یہ تقاضا پورا کر دیتا ہے، جو اس کا حق ہے وہ پورا کر دیتا ہے تو پھر آپ نے فرمایا کہ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر سزا دینا کوئی فرض نہیں کیا ہوا۔ بلکہ اس نے جو فرض کیا تو وہ ایسے لوگوں پر رحمت فرض کی ہے۔ پھر اس کی رحمت جو ہے اس کے غضب کے تقاضے پر غالب آ جاتی ہے اور غضب جو ہے وہ غائب ہو جاتا ہے اور پردوں میں چھپ جاتا ہے۔
پھر آپ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جذب کرنے کا ذریعہ توبہ اور استغفار ہے۔ اور استغفار کی حقیقت کیا ہے۔ اس کے معنی کیا ہیں۔ اس بارے میں آپ بیان فرماتے ہیں کہ:
’’ استغفار کے حقیقی اور اصلی معنی یہ ہیں کہ خدا سے درخواست کرنا کہ بشریت کی کوئی کمزوری ظاہر نہ ہو اور خدا فطرت کو اپنی طاقت کا سہارا دے اور اپنی حمایت اور نصرت کے حلقہ کے اندر لے لے‘‘۔
استغفار کس لئے ہے کہ انسان ہے کمزور ہے تو کوئی کمزوری جو انسان کے اندر ہے وہ ظاہر نہ ہو اور جو انسانی فطرت ہے وہ اس کو اللہ تعالیٰ اپنی طاقت سے سہارا دے اور گناہ سرزد ہونے سے بچائے۔ غلطیاں سرزد ہونے سے بچائے۔ فرمایا کہ) ’’یہ لفظ غَفَر سے لیا گیا ہے جو ڈھانکنے کو کہتے ہیں۔ سو اس کے یہ معنی ہیں کہ خدا اپنی قوت کے ساتھ شخصِ مُسْتَغْفِر کی فطرتی کمزوری کو ڈھانک لے۔‘‘ (یعنی جو استغفار کرنے والا شخص ہے اس کی جو فطرتی کمزوری ہے، انسان کی فطرت میں بہت کمزوریاں ہوتی ہیں، ان کو ڈھانک لے۔ وہ ظاہر نہ ہوں۔ اور ان کمزوریوں کی وجہ سے اس سے گناہ سرزد نہ ہوں۔) ’’لیکن بعد اس کے عام لوگوں کے لئے اس لفظ کے معنی اور بھی وسیع کئے گئے اور یہ بھی مراد لیا گیا کہ خدا گناہ کو جو صادر ہو چکا ہے ڈھانک لے۔‘‘ (یعنی جو انسان گناہ کر چکا ہے اس کو بھی ڈھانک لے۔ اس کے بد اثرات سے بچائے۔ اس کی وجہ سے جو سزا ملنی ہے اس سے بچائے۔) ’’لیکن اصل اور حقیقی معنی یہی ہیں کہ خدا اپنی خدائی کی طاقت کے ساتھ مُستغفِر کو جو استغفار کرتا ہے فطرتی کمزوری سے بچاوے اور اپنی طاقت سے طاقت بخشے اور اپنے علم سے علم عطا کرے اور اپنی روشنی سے روشنی دے کیونکہ خدا انسان کو پیدا کر کے اس سے الگ نہیں ہوا بلکہ وہ جیسا کہ انسان کا خالق ہے اور اس کے تمام قویٰ اندرونی اور بیرونی کا پیدا کرنے والا ہے ویسا ہی وہ انسان کا قیّوم بھی ہے۔ یعنی جو کچھ بنایا ہے اس کو خاص اپنے سہارے سے محفوظ رکھنے والا ہے۔ پس جب کہ خدا کا نام قیّوم بھی ہے یعنی اپنے سہارے سے مخلوق کو قائم رکھنے والا اس لئے انسان کے لئے لازم ہے کہ جیسا کہ وہ خدا کی خالقیت سے پیدا ہوا ہے ایسا ہی وہ اپنی پیدائش کے نقش کو خدا کی قیّومیت کے ذریعہ سے بگڑنے سے بچاوے۔ ‘‘
(عصمتِ انبیاءؑ، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 671)
اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کر کے چھوڑ نہیں دیا۔ وہ قیوم بھی ہے۔ پس انسان کی جو پیدائش ہے وہ قانون قدرت کے تابع ہے۔ بیشک انسان کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے، پیدائش اُسی کے اِذن ہوتی ہے لیکن قانون قدرت کے تابع انسانی کوشش اور ذریعہ اور جو قانون اللہ تعالیٰ نے پیدائش کا بنایا ہے اس سے گزرنا پڑتا ہے، یہ ضروری ہے۔ پس فرمایا کہ پیدائش میں انسان کی جو کوشش ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ نتیجہ پیدا کرتا ہے۔ اس لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر چلنے کے لئے، اس پر عمل کرنے کے لئے اس کی جو صفت قیّومیت ہے اس کا بھی تمہارے سے اظہار ہونا چاہئے۔ اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اس کے حکموں پر چلنے کے لئے اس سے دعا اور استغفار کی طرف توجہ رہنی چاہئے تا کہ اللہ تعالیٰ اس صفت قیومیت کو استعمال میں لاتے ہوئے پھر وہ طاقت بھی بخشے جس سے انسان اس کے حکموں پر چلنے والا بنا رہے۔
پھر مزید وضاحت فرماتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ:’’ پس انسان کے لئے یہ ایک طبعی ضرورت تھی جس کے لئے استغفار کی ہدایت ہے۔ اسی کی طرف قرآن شریف میں یہ اشارہ فرمایا گیا ہے کہ
اَللہُ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْم۔ … سو وہ خدا خالق بھی ہے اور قیّوم بھی اور جب انسان پیدا ہو گیا تو خالقیت کا کام تو پورا ہو گیا مگر قیّومیت کا کام ہمیشہ کے لئے ہے۔‘‘ (انسان پیدا ہوگیا تو خالقیت کا کام جو اللہ تعالیٰ کی صفت ہے وہ پوری ہو گئی لیکن قیّومیت کا کام جب تک انسان کی زندگی ہے اس وقت تک اس کے ساتھ ہے) ’’ اسی لئے دائمی استغفار کی ضرورت پیش آئی‘‘۔ (ہمیشہ اس قیومیت کی صفت کو حاصل کرنے کے لئے مستقل استغفار کرنے کی ضرورت ہے۔) ’’غرض خدا کی ہر ایک صفت کے لئے ایک فیض ہے۔ پس استغفار صفت قیّومیت کا فیض حاصل کرنے کے لئے‘‘ (ہے)۔ (اللہ تعالیٰ کی صفت قیومیت سے فیض حاصل کرنا ہے تو استغفار کرو تا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو قویٰ دئیے ہیں، جو صلاحیتیں دی ہیں، جو طاقتیں دی ہیں ان کو اللہ تعالیٰ اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی توفیق بھی عطا فرمائے۔ فرمایا کہ اسی کی طرف ’’اشارہ سورۃ فاتحہ کی اس آیت میں ہے اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔ یعنی ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی اس بات کی مدد چاہتے ہیں کہ تیری قیّومیت اور ربوبیت ہمیں مدد دے اور ہمیں ٹھوکر سے بچاوے تا ایسا نہ ہو کہ کمزوری ظہور میں آوے اور ہم عبادت نہ کر سکیں۔‘‘
(عصمتِ انبیاء ؑ، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 672)
پس یہ وہ بنیادی نقطہ ہے جو ہر وقت ہمارے سامنے رہنا چاہئے۔ صرف یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ میری رحمت نے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ اس لئے جو چاہے کرلو۔ بعد میں اللہ تعالیٰ سے رحمت اور بخشش مانگ لینا۔ یہ صحیح نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے رحمت ان کے لئے اپنے اوپر فرض کی ہے جو اس کی طرف آتے ہیں۔ اس کے احکامات کے پابند ہیں۔ اس سے مغفرت طلب کرتے ہیں۔
پھر استغفار کے مضمون کو مزید کھولتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ:’’ بعض آدمی ایسے ہیں کہ ان کو گناہ کی خبر ہوتی ہے اور بعض ایسے کہ ان کو گناہ کی خبر بھی نہیں ہوتی۔‘‘ (گناہ کرلیا۔ پتہ ہی نہیں لگتا۔ بے حس ہوچکے ہوتے ہیں۔ یا غلطی سے گناہ سرزد ہو جاتا ہے۔ پتہ نہیں لگتا کہ گناہ کیا ہے۔) ’’اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لئے استغفار کا التزام کرایا ہے کہ انسان ہر ایک گناہ کے لئے خواہ وہ ظاہر کا ہو، خواہ باطن کا، خواہ اسے علم ہو یا نہ ہو اور ہاتھ اور پاؤں اور زبان اور ناک اور کان اور آنکھ اور سب قسم کے گناہوں سے استغفار کرتا رہے‘‘۔ (جسم کے جتنے اعضاء ہیں کسی سے بھی ایسا گناہ سرزد نہ ہو۔ استغفار کرتے رہو۔ فرمایا کہ)’’ آجکل آدم علیہ السلام کی دعا پڑھنی چاہئے رَبَّنَا ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ (الاعراف24:) یہ دعا اوّل ہی قبول ہو چکی ہے۔‘‘ (اللہ تعالیٰ میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا۔ اگر تُو نے ہمیں نہ بخشا، ہم پر رحم نہ کیا تو پھر ہم خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔ آپ نے فرمایا کہ یہ دعا اوّل سے قبول ہو چکی ہے۔) ’’غفلت سے زندگی بسر مت کرو۔ جو شخص غفلت سے زندگی نہیں گزارتا ہرگز امید نہیں کہ وہ کسی فوق الطاقت بَلا میں مبتلا ہو۔ کوئی بَلا بغیر اِذن کے نہیں آتی۔‘‘ فرمایا کہ ’’جیسے مجھے یہ دعا الہام ہوئی رَبِّ کُلُّ شَیْءٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ۔‘‘
(ملفوظات جلد 4 صفحہ 275-276۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں آنے کے لئے اس کی مدد و نصرت کے لئے اس کا رحم حاصل کرنے کے لئے کوشش، استغفار اور دعا ضروری ہے۔
استغفار اور توبہ ہم دو لفظ استعمال کرتے ہیں۔ اس کے فرق کو واضح کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ:
’’استغفار اور توبہ دو چیزیں ہیں۔ ایک وجہ سے استغفار کو توبہ پر تقدّم ہے۔‘‘ (یعنی اس کو فوقیت ہے کیونکہ وہ پہلے ہے۔ توبہ سے پہلے استغفار ہے) ’’کیونکہ استغفار مدد اور قوت ہے جو خدا سے حاصل کی جاتی ہے۔‘‘ (گناہوں سے بچنے کے لئے استغفار کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ سے مدد اور طاقت حاصل کی جاتی ہے تاکہ انسان گناہوں سے بچے) ’’اور توبہ اپنے قدموں پر کھڑا ہونا ہے۔‘‘ (یعنی بچنے کے بعد پھر مستقل مزاجی سے اس پر قائم رہنا۔ اپنے گناہوں سے بچنے کے لئے جو استغفار کی ہے، اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی ہے اس پر قائم رہنے کے لئے توبہ ہے۔ تو یہ دعا ہے۔ توبہ اس لئے ہے کہ اے اللہ جو مغفرت کی دعا ہم نے کی ہے ہمیں اس پر قائم بھی رکھ۔ آگ سے نجات دی ہے تو یہ مستقل نجات ہو۔ ہمارا کوئی فعل یا جو بھی اس میں کوششیں ہم نے کی ہیں یہ ساری کوششیں تجھے ناراض کرنے والی نہ بن جائیں کہ ہم پھر واپس اسی جگہ آ جائیں۔ اس کے لئے توبہ ہے۔ یعنی گناہوں سے معافی مانگنے کے لئے توبہ ہے۔ وَاَتُوْبُ اِلَیْہ کہا تو اس لئے کہ ہمیں اب پھر اس پر قائم بھی رکھ کہ ہم اپنے گناہوں سے بچیں بھی رہیں۔ تیری مغفرت کو ہمیشہ حاصل کرنے والے بھی رہیں اور آگ سے ہمیں ہمیشہ کے لئے نجات بھی ملتی رہے۔) فرمایا کہ’’عادت اللہ یہی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ سے مدد چاہے گا تو خدا تعالیٰ ایک قوت دے دے گا اور پھر اس قوت کے بعد انسان اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جاوے گا اور نیکیوں کے کرنے کے لئے اس میں ایک قوت پیدا ہو جاوے گی جس کا نام تُوْبُوْا اِلَیْہِ ہے۔‘‘ فرمایا کہ’’ توبہ کی توفیق استغفار کے بعد ملتی ہے۔ اگر استغفار نہ ہو تو یقیناً یاد رکھو کہ توبہ کی قوت مر جاتی ہے۔ پھر اگر اس طرح پر استغفار کرو گے اور پھر توبہ کرو گے تو نتیجہ یہ ہو گا یُمَتِّعْکُمْ مَتَاعًا حَسَنًا اِلٰی اَجَلٍ مُّسَمّٰی۔‘‘ (کہ تمہیں ایک مقررہ مدت تک اللہ تعالیٰ بہترین سامان عطا کرے گا۔) فرمایا کہ’’ سنّت اللہ اسی طرح پر جاری ہے کہ اگر استغفار اور توبہ کرو گے تو اپنے مراتب پا لو گے۔ ہر ایک حِس کے لئے ایک دائرہ ہے جس میں وہ مدارج ترقی کو حاصل کرتا ہے۔ ہر ایک آدمی نبی، رسول، صدیق، شہید نہیں ہو سکتا۔‘‘ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 68-69۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان) لیکن جو بھی کسی کے مدارج مقرر کئے گئے ہیں، جس جس حد تک کسی نے پہنچنا ہے ان کو حاصل کرنے کے لئے کوشش کرنی پڑے گی اور وہ استغفار اور توبہ کے ذریعہ سے ہو گی۔
پھر توبہ کی مزید وضاحت فرماتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ:
’’ واضح ہو کہ توبہ لغت عرب میں رجوع کرنے کو کہتے ہیں۔ اسی وجہ سے قرآن شریف میں خدا تعالیٰ کا نام بھی توّاب ہے یعنی بہت رجوع کرنے والا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جب انسان گناہوں سے دست بردار ہو کر صدق دل سے خدا کی طرف رجوع کرتا ہے تو خدا تعالیٰ اس سے بڑھ کر اس کی طرف رجوع کرتا ہے۔ اور یہ امر سراسر قانون قدرت کے مطابق ہے۔ کیونکہ جبکہ خدا تعالیٰ نے نوع انسان کی فطرت میںیہ بات رکھی ہے کہ جب ایک انسان سچے دل سے دوسرے انسان کی طرف رجوع کرتا ہے تو اس کا دل بھی اس کے لئے نرم ہو جاتا ہے۔ تو پھر عقل کیونکر اس بات کو قبول کر سکتی ہے کہ بندہ تو سچے دل سے خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرے مگر خدا اس کی طرف رجوع نہ کرے۔ بلکہ خدا جس کی ذات نہایت کریم و رحیم واقع ہوئی ہے وہ بندہ سے بہت زیادہ اس کی طرف رجوع کرتا ہے۔ اسی لئے قرآن شریف میں خدا تعالیٰ کا نام … تَوَّاب ہے۔ یعنی بہت رجوع کرنے والا۔ سو بندے کا رجوع تو پشیمانی اور ندامت اور تذلّل اور انکسار کے ساتھ ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کا رجوع رحمت اور مغفرت کے ساتھ۔ اگر رحمت خدا تعالیٰ کی صفات میں سے نہ ہو تو کوئی مخلصی نہیں پا سکتا‘‘۔ فرمایا کہ’’ افسوس! کہ ان لوگوں نے خدا تعالیٰ کی صفات پر غور نہیں کی اور تمام مدار اپنے فعل اور عمل پر رکھا ہے‘‘ (جو سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنے عمل سے ہی سب کچھ حاصل کر لینا ہے) ’’مگر وہ خدا جس نے بغیر کسی کے عمل کے ہزاروں نعمتیں انسان کے لئے زمین پر پیدا کیں۔ کیا اس کا یہ خُلق ہو سکتا ہے کہ انسان ضعیف البنیان جب اپنی غفلت سے متنبہ ہو کر اس کی طرف رجوع کرے اور رجوع بھی ایسا کرے کہ گویا مر جاوے اور پہلا ناپاک چولہ اپنے بدن پر سے اتار دے اور اس کی آتشِ محبت میں جل جائے تو پھر بھی خدا اس کی طرف رحمت کے ساتھ توجہ نہ کرے۔ کیا اِس کا نام خدا کا قانون قدرت ہے ؟‘‘۔
(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 133-134)
آپ ان لوگوں کو جواب دے رہے ہیں جو کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ رحمت کرتے ہوئے رجوع نہیں کرتا۔ بیشک انسان دعا کرتے ہوئے، استغفار کرتے ہوئے اپنی حالت مردہ کی طرح بنا لے گویا کہ وہ مر گیا ہے اور اپنا جو پہلا ناپاک چولہ ہے، جو لباس ہے بدن سے اتار دے۔ اپنے آپ کو پاک کرلے۔ اللہ تعالیٰ کی محبت کی آگ میں جلنے لگ جائے تب بھی اللہ تعالیٰ رحم سے رجوع نہیں کرے گا؟ یہ ان لوگوں کا نظریہ ہو سکتا ہے۔ فرمایا کہ ایسے لوگ جو ہیں یہ جھوٹ بولتے ہیں لَعْنَۃُ اللہ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ۔ آپ نے فرمایا کہ یہ ہرگز نہیں ہو سکتا کہ بندہ تو اپنا حق ادا کر دے اور خدا تعالیٰ کچھ بھی عطا نہ کرے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے مقام کے ہی خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس اعلان کے خلاف ہے کہ میری رحمت بڑی وسیع ہے۔ یہ اس کے قانون کے خلاف ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا اس کی وسیع رحمت ہونے کے اعلان کے خلاف ہے۔ لیکن انسان نے جو فرض پورا کرنا ہے وہ بھی یہ ہے کہ ایسی کوشش کرے کہ گویا مر جاوے اور پہلا ناپاک لباس جو ہے، انسان کا گناہوں کا لباس اس کو اپنے بدن سے اتار دے اور اس کی محبت کی آگ میں جل جائے۔ آپ نے فرمایا یہ چیزیں ہوں گی اور یہ باتیں بڑی غور طلب ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ بھی ایسا رجوع کرتا ہے کہ انسان اس کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔
پس یہ ہے وہ مغفرت کی طلب کا معیار جو اللہ تعالیٰ کی رحمت کا بندے کو حقدار بنا دیتی ہے۔ وہ حق جس کی ادائیگی خود اللہ تعالیٰ نے اپنے پر فرض کر لی ہے۔ آپ نے سچی اور حقیقی توبہ کی شرائط بھی بیان فرمائیں کہ یہ حاصل کرنے کے لئے انسان کو کیا اور کس طرح کوشش کرنی چاہئے۔
آپ نے فرمایا کہ سچی توبہ کے لئے تین شرطیں ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اپنے دماغ کو ان تمام باتوں سے پاک کرو جن سے فاسد خیالات پیدا ہوتے ہیں اور یہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک ان برائیوں کی کریہہ اور خوفناک شکل اپنے ذہن میں پیدا نہیں کرو گے۔ اگر ان کی طرف توجہ رہے گی، اگر ان کے خلاف ذہن میں ایک مکروہ شکل نہیں بناؤ گے تو پھر ان سے بچنا بڑا مشکل ہے۔ پہلی چیز تو یہی ہے کہ اس کو اپنے دماغ سے نکالنا پڑے گا۔ کوشش کر کے ان چیزوں سے نفرت کے جذبات پیدا کرنے ہوں گے۔ دوسری بات یہ ہے کہ کوئی بھی غلط کام کرنے یا برائی کی طرف توجہ جانے پر ندامت اور پشیمانی ہونی چاہئے۔ انسان کے دماغ میں جب خیال آئے تو فوراً شرمندگی اور پشیمانی کا خیال ہونا چاہئے۔ یہ خیال دل میں ہو کہ یہ برائیاں اور لذات جن کی طرف میں جا رہا ہوں یہ عارضی ہیں اور میری زندگی برباد کرنے والی ہیں اور ایک وقت آ کے یہ چیزیں ختم ہو جانی ہیں۔ عارضی لذت ہے۔ گویا اپنے کانشنس کی بات سننی ہے۔ انسان کا ضمیر اسے بتا رہا ہے، اس کا کانشنس بتاتا ہے، ہر حال میں بتاتا ہے کہ یہ بری چیز ہے یا اچھی چیز ہے۔ جب اس طرح کی سوچ کریں گے اور ضمیر کی آواز سنیں گے تو آہستہ آہستہ برائی سے بھی آپ نے فرمایا کہ بچ جاؤ گے۔ اور تیسری بات یہ ہے کہ عزم ہو، پکا ارادہ ہو کہ میں نے ان برائیوں کے قریب بھی نہیں جانا اور پھر اس پر قائم رہنے کے لئے مکمل قوت ارادی بھی ہو اور دعا بھی ہو تو پھر یہ برائیاں ختم ہو جائیں گی اور ان کی جگہ پھر نیکیاں لینی شروع کر دیں گی۔ آپ نے جو فرمایا کہ ناپاک چولہ اتارنا ہو گا۔ اس کا یہی مطلب ہے کہ ایک بھرپور کوشش کرو اور اس پر قائم رہو۔ قوت ارادی سے قائم رہو تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کے حقدار بنو گے۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد اوّل صفحہ 138-139۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
استغفار اور توبہ سے آگ سے بچنے کی وضاحت فرماتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:
’’ توبہ انسان کے واسطے کوئی زائد یابے فائدہ چیز نہیں ہے اور اس کا اثر صرف قیامت پر ہی منحصر نہیں بلکہ اس سے انسان کی دنیا و دین دونوں سنور جاتے ہیں اور اسے اس جہان میں اور آنے والے جہان دونوں میں آرام اور خوشحالی نصیب ہوتی ہے۔ دیکھو قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔ اے ہمارے رب! ہمیں اس دنیا میں بھی آرام اور آسائش کے سامان عطا فرما اور آنے والے جہان میں بھی آرام اور راحت عطا فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔ دیکھو در اصل رَبَّنَآ کے لفظ میں توبہ ہی کی طرف ایک باریک اشارہ ہے کیونکہ رَبَّنَآ کا لفظ چاہتا ہے کہ بعض اور ربّوں کو جو اس نے پہلے بنائے ہوئے تھے ان سے بیزار ہو کر اس ربّ کی طرف آیا ہے اور یہ لفظ حقیقی درد اور گداز کے سوا انسان کے دل سے نکل ہی نہیں سکتا‘‘۔ (جب انسان رَبَّنَآ کہتا ہے تو وہ صرف اپنے منہ سے نہیں کہتا۔ جب دعا دل سے نکلتی ہے تو رَبَّنَآ کہے گا ہی اس وقت جب دل سے نکلے گا۔ بعض لوگ ظاہری طور پر بھی کہتے ہیں لیکن حقیقت اس دعا کی وہی ہے جب دل سے نکلے۔ فرمایا کہ) ’’رَبّ کہتے ہیں بتدریج کمال کو پہنچانے والے اور پرورش کرنے والے کو۔ اصل میں انسان نے بہت سے ارباب بنائے ہوئے ہوتےہیں۔ اپنے حیلوں اور دغا بازیوںپر اسے پورا بھروسہ ہوتا ہے تو وہی اس کے ربّ ہوتے ہیں۔ اگر اسے اپنے علم کایا قوت بازو کا گھمنڈ ہے تو وہی اس کے ربّ ہیں۔ اگر اسے اپنے حسن یا مال و دولت پر فخر ہے تو وہی اس کا ربّ ہے۔ غرض اس طرح کے ہزاروں اسباب اس کے ساتھ لگے ہوئے ہیں۔ جب تک ان سب کو ترک کر کے ان سے بیزار ہوکر اس واحد لاشریک سچے اور حقیقی رب کے آگے سر نیاز نہ جھکائے اور رَبَّنَآ کی پُردرد اور دل کو پگھلانے والی آوازوں سے اس کے آستانے پر نہ گرے تب تک وہ حقیقی ربّ کو نہیں سمجھا۔ پس جب ایسی دلسوزی اور جاں گدازی سے اس کے حضور اپنے گناہوں کا اقرار کر کے توبہ کرتا اور اسے مخاطب کرتا ہے کہ رَبَّنَآ یعنی اصلی اور حقیقی رب تو تُو ہی تھا مگر ہم اپنی غلطی سے دوسری جگہ بہکتے پھرتے رہے۔ اب میں نے ان جھوٹے بتوں اور باطل معبودوں کو ترک کر دیا ہے اور صدق دل سے تیری ربوبیت کا اقرار کرتا ہوں تیرے آستانے پر آتا ہوں۔ غرض بجز اس کے خدا کو اپنا رب بنانا مشکل ہے۔ جب تک انسان کے دل سے دوسرے رب اور ان کی قدر و منزلت و عظمت و وقار نکل نہ جاوے تب تک حقیقی رب اور اس کی ربوبیت کا ٹھیکہ نہیں اٹھاتا۔ بعض لوگوں نے جھوٹ ہی کو اپنا رب بنایا ہواہوتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ہمارا جھوٹ کے بِدُوں گزارہ مشکل ہے۔ بعض چوری و راہزنی اور فریب دہی ہی کو اپنا رب بنائے ہوئے ہیں۔ ان کا اعتقاد ہے کہ اس راہ کے سوا ان کے واسطے کوئی رزق کی راہ نہیں ہے۔ سو ان کے ارباب وہ چیزیں ہیں۔‘‘ فرمایا کہ ’’غرض ایسے لوگ جن کو اپنی ہی حیلہ بازیوں پر اعتماد اور بھروسہ ہوتا ہے ان کو خدا سے استعانت اور دعا کرنے کی کیا حاجت؟ دعا کی حاجت تو اسی کو ہوتی ہے جس کے سارے راہ بند ہوں اور کوئی راہ سوائے اس در کے نہ ہو۔اسی کے دل سے دعا نکلتی ہے۔ غرض رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً ایسی دعا کرنا صرف انہیں لوگوں کا کام ہے جو خدا ہی کو اپنا رب جان چکے ہیں اور ان کو یقین ہے کہ ان کے رب کے سامنے اور سارے اربابِ باطلہ ہیچ ہیں۔‘‘ فرمایا کہ’’ آگ سے مراد صرف وہی آگ نہیں جو قیامت کو ہو گی بلکہ دنیا میں بھی جو شخص ایک لمبی عمر پاتا ہے وہ دیکھ لیتا ہے کہ دنیا میں بھی ہزاروں طرح کی آگ ہے۔ تجربہ کار جانتے ہیں کہ قسم قسم کی آگ دنیا میں موجود ہے۔ طرح طرح کے عذاب، خوف، حُزن، فقر و فاقے، امراض، ناکامیاں، ذلّت و ادبار کے اندیشے، ہزاروں قسم کے دکھ، اولاد، بیوی وغیرہ کے متعلق تکالیف اور رشتہ داروں کے ساتھ معاملات میں الجھن۔ غرض یہ سب آگ ہیں۔ تو مومن دعا کرتا ہے کہ ساری قسم کی آگوں سے ہمیں بچا۔ جب ہم نے تیرا دامن پکڑا ہے تو ان سب عوارض سے جو انسانی زندگی کو تلخ کرنے والے ہیں اور انسان کے لئے بمنزلہ آگ ہیں بچائے رکھ۔ ‘‘
(ملفوظات جلد 5 صفحہ 187 تا 190۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک دفعہ جماعت کو اس طرف توجہ دلائی تھی کہ ہماری جماعت کو یہ دعا بکثرت پڑھنی چاہئے کہ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔
(البقرۃ202:)‘‘(ماخوذ از ملفوظات جلد اوّل صفحہ9۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس اس طرف ہمیں بھی توجہ دینی چاہئے تا کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت میں لے کر ہمیں ہر قسم کی دنیاوی اور اُخروی آگ سے بچائے رکھے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’قرآن شریف میں جو خدا نے یہ فرمایا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اے بندو! مجھ سے ناامید مت ہو۔ مَیں رحیم و کریم اور ستار و غفّار ہوں اور سب سے زیادہ تم پر رحم کرنے والا ہوں اور اس طرح کوئی بھی تم پر رحم نہیں کرے گا جو مَیں کرتا ہوں۔ اپنے باپوں سے زیادہ میرے ساتھ محبت کرو کہ درحقیقت میں محبت میں ان سے زیادہ ہوں۔ اگر تم میری طرف آؤ تو مَیں سارے گناہ بخش دوں گا۔ اور اگر تم توبہ کرو تو میں قبول کروں گا اور اگر تم میری طرف آہستہ قدم سے بھی آؤ گے تو میں دوڑ کر آؤں گا۔ جو شخص مجھے ڈھونڈے گا وہ مجھے پائے گا اور جو شخص میری طرف رجوع کرے گا وہ میرے دروازے کو کھلا پائے گا۔ میں توبہ کرنے والے کے گناہ بخشتا ہوں خواہ پہاڑوں سے زیادہ گناہ ہوں۔ میرا رحم تم پر بہت زیادہ ہے اور غضب کم ہے کیونکہ تم میری مخلوق ہو۔ میں نے تمہیں پیدا کیا اس لئے میرا رحم تم سب پر محیط ہے۔ ‘‘
(چشمہ معرفت۔ روحانی خزائن جلد 23صفحہ 56)
اللہ تعالیٰ ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف خالص ہو کر جانے والا بنائے۔ ہم اس کا تقویٰ حاصل کرنے والے ہوں۔ اپنے ایمان اور یقین میں بڑھنے والے ہوں تا کہ ہمیشہ اس کی رحمت سے حصہ لیتے رہیں۔ کبھی ایسا وقت نہ آئے کہ جب ہم اس کی رحمت سے محروم ہوں اور اپنے بد اعمال کی وجہ سے اس کی سزا کے مورد بنیں۔ اللہ تعالیٰ کے رحم کی نظر ہمیشہ ہم پر پڑتی رہے۔
٭…٭…٭