حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سفر سیالکوٹ کے دوران پُر معارف و پُر تاثیر’’لیکچر سیالکوٹ‘‘
جماعت سیالکوٹ کی درخواست پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے مورخہ 27؍اکتوبر 1904ء کوسیالکوٹ کا سفر فرمایا ۔صبح 4بجے حضور قادیان سے پالکی میں روانہ ہوئے۔نصف راستہ پالکی میں طے کر لینے کے بعدپا پیادہ سفر اختیار فرمایا ۔بٹالہ اسٹیشن سے سیالکوٹ تک بذریعہ ٹرین سفر فرمایا۔ امرتسر، اٹاری ، میاں میر ، لاہور ، گوجرانوالہ اور وزیر آباد سے ہوتے ہوئے گاڑی شام چھ بجے کے بعدسیالکوٹ پہنچی اور حضور نے ورود مسعود فرمایا۔ ہر اسٹیشن پر حضرت مسیح موعودؑ کے استقبال کے لئے کثیر تعداد میں احباب جماعت موجود تھے۔ حضور کے قیام کے لئے حضرت حکیم حسام الدین کا ایوان تجویز ہو ا اور حضور وہیں فروکش ہوئے۔ یہ وہی محلہ تھا جس میں حضور گمنامی کی حالت میں چالیس بر س پہلے زمانہ ملازمت کے دوران قیام پذیر رہے تھے۔ حضور کے اس تاریخی سفر کے موقع پر جماعتسیالکوٹ نے حضور کی زیارت کی غرض سے آنے والے مہمانوں کی آمد کا اندازہ کر کے بڑے وسیع پیمانے پر مہمان نوازی کا انتظام کر رکھا تھا ۔ حضور اور حضور کے مہمانوں کی تواضع ، دل جوئی اور آرام میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ انہوں نے اپنے گھر مہمانوں کے لئے خالی کر دئیے۔ حضور کے تشریف لاتے ہی مہمانوں کی کثرت بڑھتی گئی۔
مورخہ 28؍اکتوبر1904ء کو جمعہ تھا۔ اس دن لوگ نہایت کثرت سے اس مسجد(اب مسجد مبارک کہلاتی ہے جس کو بعض شرپسند عناصر نے مورخہ23، 24 مئی کی درمیا نی شب کو شہید کر دیا ۔)میں جو حضور کی فرودگاہ سے ملی ہوئی تھی ۔ وقت مقررہ سے پہلے ہی جمع ہو گئے۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے جمعہ پڑھایا ۔ نماز جمعہ کے بعد بہت سے اصحاب نے بیعت کی ۔بیعت کے بعد حضور نے ایک پُرتاثیر تقریر فرمائی ۔ حضور نے پہلے 31؍اکتوبر کو واپسی کا ارادہ فرمایا ۔ حضور کے اس ارادہ کو احباب نے بہت محسوس کیا اور حضور کی خدمت میں اس ارادہ کے التواء کے لئے عرض کیا ۔جس پر حضور نے اپنا ارادہ 3نومبر تک ملتوی فرما دیا۔ 2نومبر کو تجویز ہوئی کہ حضور کی طرف سے دین اسلام پر ایک پبلک لیکچر دیا جاوے۔ حضور نے 31؍اکتوبر کی دوپہر کے بعد لیکچر لکھا اور 2نومبر کو یہ لیکچر چھپ بھی گیا ۔ اس طرح لیکچر کی تیاری میں صرف ایک ہی دن صرف ہوا۔
لیکچر کا مقام سرائے مہاراجہ صاحب بہادر منتخب ہوا۔یکم نومبر کی شام کو لیکچر گاہ میں شامیانوں کا انتظام کیا گیا۔اور دریوں کا فرش بچھایا گیا اور کرسیاں رکھی گئیں ۔ الغرض لیکچر گاہ راتوں رات تمام ضروری سامان سے آراستہ کر دی گئی۔ لوگوں کو جگہ نہ ملنے کا اس قدر خیال تھا کہ بہت سے لوگ رات ہی کو وہاں سوئے اور اکثر علی الصبح اُٹھ کر فجر کی نماز سے بھی پہلے وہاں جا پہنچے۔
حضور کا جلوس بڑی شان سے گزرتا ہوا بالآخر لیکچر گاہ تک پہنچا۔ جہاں شہر کے ہر مذہب و ملت کے لوگ ہزاروں کی تعداد میں حضور کے لئے چشم براہ تھے۔ حضورجب جلسہ گاہ میں داخل ہوئے تو ہر شخص اس کوشش میں تھا کہ میں ایسی جگہ بیٹھوں جہاں سے خدا تعالیٰ کے اس برگزیدہ مامور کو دیکھ سکوں۔ حضور کا نورانی اور خدا نما چہرہ سامعین کو خصوصیت سے اپنی طرف متوجہ کر رہا تھا۔ حضور کے ساتھ ہی ایک کرسی پر حضرت حکیم الامت مولانا نور الدین صاحب اور دوسری طرف حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی تشریف فرما تھے۔ چاروں طرف خاموشی طاری تھی۔ جناب مسٹر فضل حسین صاحب بیرسٹر ایٹ لاء نے جلسہ کی صدارت کے لئے حضرت مولوی حکیم نور الدین صاحب کا نام پیش کیا جو متفق طور پر منظور ہوا اور حضرت مولوی نور الدین صاحب کی صدارت میںجلسہ کی کارروائی کا آغاز ہوا۔ ابتدا میں آپ نے نہایت بصیرت افروز خطاب فرمایا ۔ آپ کی اس افتتاحی تقریر کے بعد حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں قرآن کریم کی چند آیات تلاوت کیں۔ پھر حضور کے مطبوعہ لیکچر کو پڑھنا شروع کیا۔ حضرت مسیح موعودؑ کی اس روح پرور تقریرکے بعد حضرت مولوی نور الدین صاحب نے اختتامی خطاب فرمایا ۔ جس کے بعد جلسہ ختم ہو گیا۔
چونکہ 3نومبر کوحضور کی تاریخ روانگی مقرر تھی اس لئے بیعت کرنے والوں میں جوش ارادت انتہا کو پہنچ گیا اور وہ کثرت سے بیعت میں شامل ہوئے۔ دوسرے دن حضرت مسیح موعودؑ کی قادیان کی طر ف روانگی تھی ۔
حضور کے لیکچر سیالکوٹ کا خلاصہ
حضور نے اپنے معرکہ آرا ء لیکچر میں تمہید کے بعد نہایت اچھوتے رنگ میں اپنے وجود کو اسلام کی صداقت کے ثبوت میں پیش فرمایا اور اس ضمن میں پہلی مرتبہ مجمع عام میں کرشن ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے اعلان فرمایا کہ میرا اس زمانہ میں خداتعالیٰ کی طرف سے آنا محض مسلمانوں کی اصلاح ہی کے لئے نہیں ہے بلکہ مسلمانوں اور ہندوئوں اور عیسائیوں تینوں قوموں کی اصلاح منظور ہے۔ فرمایا وہ خدا جو زمین و آسمان کا خدا ہے اس نے یہ میرے پر ظاہر کیا ہے اور نہ ایک دفعہ بلکہ کئی دفعہ مجھے بتلایا ہے کہ تُو ہندوئوں کے لئے کرشن اور مسلمانوں کے لئے اور عیسائیوں کے لئے مسیح موعود ہے۔ لیکچر کے آخر میں حضور نے فرمایا مجھے اس زمین سے ایسی ہی محبت ہے جیسا کہ قادیان سے ۔ کیونکہ میں اپنے اوائل زمانہ کی عمر میں سے ایک حصہ اس میں گزار چکا ہوں اور اس شہر کی گلیوں میں بہت سا پھر چکا ہوں ۔ میرے اُس زمانہ کے دوست اور مخلص اس شہر میں ایک بزرگ ہیں یعنی حکیم حسام الدین صاحب جن کو اُس وقت بھی مجھ سے محبت رہی ہے وہ شہادت دے سکتے ہیں کہ وہ کیسا زمانہ تھا اور کیسی گمنامی کے گڑھے میں میرا وجود تھا۔ اب میں آپ لوگوں سے پوچھتا ہوں کہ ایسے زمانہ میں ایسی عظیم الشان پیشگوئی کرنا کہ ایک گمنام کا آخر کار یہ عروج ہو گا کہ لاکھوں لوگ اس کے تابع اور مرید ہو جائیں گے اور فوج در فوج لوگ بیعت کریں گے ۔ فرمایا اس قدر لوگوں کی کثرت ہو گی کہ قریب ہو گاکہ وہ لوگ تھکا دیں ۔ کیا یہ انسان کے اختیار میں ہے اور کیا ایسی پیشگوئی کوئی مکّار کر سکتا ہے کہ چوبیس سال پہلے تنہائی اور بے کسی کے زمانہ میں اس عروج اور مرجع خلائق ہونے کی خبر دے۔