سیالکوٹ (پاکستان) میں سرکاری انتظامیہ کی سرکردگی اور سرپرستی میں احمدیہ مسجد مبارک اور تاریخی مکان کے انہدام کا سانحہ
جیسا کہ احباب جماعت کو علم ہے کہ سیالکوٹ کے کشمیری محلہ کے کوچہ میر حسام الدین میں واقع جماعت احمدیہ کی مسجد اور تاریخی اہمیت کے حامل مکان کو ماہ مئی میں شرپسند عناصرنے سرکاری انتظامیہ کی مدد سے منہدم کردیاتھا۔
تفصیلات کے مطابق رمضان المبارک کے مقدس مہینہ میں مورخہ 23 اور 24 مئی 2018ء کی درمیانی رات کو تقریباً پونے گیارہ بجے تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن (TMA) کے 30 سے 35 افراد سیالکوٹ شہر میں مکان حضرت میر حسام الدین صاحب آئے اور سیالکوٹ کی انتظامیہ DPO،DCOاور اس علاقہ کے چیئرمین TMA کی زیرنگرانی اور زیرسرپرستی اس مکان کو گرانا شروع کر دیا۔ اس دوران 600 سے زائد شرپسند افراد نعرے لگاتے ہوئے موقع پر پہنچ گئے اور انہوں نے پہلے اس مکان کے قریب واقع احمدیہ مسجد جس کا نام مسجد مبارک ہے، کو مسمار کیا۔ یہ ہنگامہ آرائی صبح 3 بجے تک جاری رہی، کسی نے ان کو روکنے کی کوشش نہیں کی۔سرکاری انتظامیہ کی زیرنگرانی عبادت گاہ کے تقدس کو پامال کیا، ہتھوڑوں سے میناروں کو چکنا چُور کیا، قرآن کریم کے نسخوں کو نکال کر پھاڑ دیا، جو ہاتھ میں آیا تہس نہس کر دیا۔ اللہ کے مقدس نام کو زمین بوس کر دیا۔ دیواریں گرادیں۔ ساتھ موجود 100 سالہ قدیم تاریخی مکان کو بھی بہت زیادہ نقصان پہنچایا۔ ظلم یہ ہے کہ یہ سب کریہہ کارروائی اور قانون شکنی، قانون کے رکھوالوں کی مدد، نگرانی اور زیرسرپرستی کی گئی۔ صرف اتنا ہی نہیں یہ سب نفرت انگیز اور ناپاک ترین امور سرانجام دینے کے بعد ایک سرکردہ مولوی نے مسجد مبارک کے سامنے کھڑے ہو کر صحافیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں تمام غیّور مسلمانوں کو مبارکباد دیتا ہوں اور سیالکوٹ کی انتظامیہ، ڈی پی او، ڈی سی او، اس علاقہ کے چیئرمین اور TMA کے عملہ کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کیا اور خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ انہوں نے یہ بہت بڑا عظیم کام سرانجام دیا ہے اور آخر پر یہ بھی دھمکی دے کر کہا کہ یہ مینار میں نے خود گرائے ہیں میرے اگر کسی کارکن پر کسی نے مقدمہ قائم کیا تو ہم اس پورے شہر کو بند کر دیں گے۔
اس واقعہ کا پس منظر کچھ اس طرح ہے کہ سیالکوٹ شہر کے کشمیری محلہ میں ایک حصہ کوچہ میر حسام الدین کے نام سے جانا جاتا ہے، یہاں کی ایک گلی بھی اسی نام سے مشہور ہے۔ یہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے جلیل القدر صحابی اور قدیمی دوست حضرت میر حسام الدین صاحب کا ایک 100 سال پرانا تاریخی اہمیت کا حامل مکان موجود ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ اس مکان میں کئی مرتبہ قیام پذیر رہے اور برکت بخشی۔ بعض روایات کے مطابق لیکچر سیالکوٹ بھی حضرت مسیح موعودؑ نے وہاں ہی فرمایا۔ کیونکہ یہ مکان بہت پُرانا ہے اس لئے جماعت نے اس کی مرمت اور تزئین و آرائش کا کام کچھ عرصہ سے شروع کرایا ہوا تھا اور اس تزئین و آرائش (Renovation) کی باقاعدہ حکومت سے اجازت بھی حاصل کی گئی تھی۔ TMA میں باقاعدہ درخواست دے کر اس کی Sanction کرائی گئی اور اجازت نامہ حاصل کیا گیا۔ بلکہ قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے جماعت نے ڈبل سٹوری نقشے کی فیس تک جمع کرادی تھی۔ اس Sanction Letter پر ’’تعمیر مکان ڈبل سٹوری‘‘ باقاعدہ لکھا گیا تھا۔ لیکن انہوں نے جماعت کو ایک سٹوری کا نقشہ دیا کہ قانونی طور پر اس علاقہ میں ڈبل سٹوری مکان نہیں بن سکتا۔ حالانکہ اس مکان کے اردگرد سارے ڈبل سٹوری مکان ہیں اور کسی کے پاس منظورشدہ نقشہ بھی نہیں ہے۔ کیونکہ یہ خاص اہمیت کا حامل مکان تھا اور ملاں کو ایسے موقع پر کوئی نہ کوئی ایشو چاہئے ہوتا ہے۔ اس لئے یہ ایشو کھڑا کردیا گیا کہ یہ عجائب گھر بن رہا ہے۔ ان کو باور کرایا گیا کہ یہ عجائب گھر نہیں بلکہ ایک مکان ہے اور ہماری ملکیت میں ہے۔ اس کو انہی بنیادوں پر قائم رکھتے ہوئے Renovation یعنی تزئین کرائی جارہی ہے اور اس کے لئے جماعت نے باقاعدہ منظوری بھی حاصل کی ہوئی ہے۔ بدقسمتی سے ملاں کا اس ملک میں پریشر زیادہ ہونے کی وجہ سے TMA نے اس مکان کو سیل کر دیا اور کہا کہ آپ نے ڈبل سٹوری مکان بنایا ہے۔ اسی وجہ سے چند دن پہلے یہ مکان سیل کیا گیا تھا اور ایک نوٹس بھی بھجوایا کہ جماعت ڈبل سٹوری مکان کی مرمت اور تزئین نہیں کرسکتی۔ حالانکہ جماعت سے ڈبل سٹوری کی فیس بھی لے لی گئی تھی اور Sanction کی گئی تھی۔
کیونکہ سرکاری اہلکاروں کے دل میں چور اور نیت خراب تھی اس لئے دن کو آنے کی بجائے رات گیارہ بجے کے قریب TMA کے اہلکار اپنے ساتھ کچھ مزدور لے کر اور ساتھ ہتھوڑے، گینتیاں، کسیاں وغیرہ لے کر وہاں پہنچ گئے۔ وہ سرکاری ڈیوٹی انجام دینے کے لئے رات کے اندھیرے میں آئے۔ جونہی انہوں نے گرانے کا کام شروع کیا تو اچانک ایک مشتعل شرپسندوں پر مشتمل مجمع وہاں آدھمکا۔ رات گئے سات آٹھ سو مشتعل افراد کا ہجوم کا اس طرح آنا ایک باقاعدہ پلاننگ کا حصہ تھا۔ سرکاری اہلکاروں اور مشتعل شرپسند افراد نے شب خون مارتے ہوئے ایک ساتھ مل کرجماعتی املاک کو گرانے کی کارروائی شروع کر دی۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے ایک ملّاں نے اپنی تقریر میں یہ اقدام کرنے کا الٹی میٹم بھی دیا تھا۔ اس طرح پاکستانی ملاؤں نے احمدیہ مسجد کو مسمار کرکے ہندوؤں کے ساتھ مطابقت و مماثلت اختیار کی اور ہندو مسلم بھائی بھائی ہونے کا ثبوت دیا۔ کیونکہ 6 دسمبر 1992ء میں انتہاپسند ہندوؤں نے بابری مسجد کو ایودھیا انڈیا میں مسمار کرکے شہید کر دیا تھا۔
………………………
24 مئی 2018ء کو ہونے والے سینیٹ اجلاس میں پیپلز پارٹی کی سینیٹر قرۃ العین مری نے چیئرمین سینیٹ کو مخاطب کرکے سانحہ سیالکوٹ کے حوالے سے غم و غصہ کا اظہار کیا اور بھرپور انداز میں مذمت کی۔ انہوں نے کہا جناب چیئرمین! آج میں سینیٹ کے اجلاس میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ مجھے یہ کہتے ہوئے بہت شرم محسوس ہورہی ہے کہ بدقسمتی سے ہم جناح کے اولین مقصد (Vision) کوپورا کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں۔ سیالکوٹ میں احمدیوں کی عبادت گاہ کے ساتھ ہم نے جو Allow کیا ہے۔ ہم سب کے سر اس پر شرم سے جھک گئے ہیں۔ انہوں نے کہا: بات یہ نہیں ہے کہ آپ انہیں مسلمان سمجھتے ہیں یا نہیں سمجھتے۔ اگر آپ ان کو مسلمان نہیں سمجھتے تو آپ کو انہیں زیادہ حفاظت دینی چاہئے۔ کیونکہ یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اقلیتوں کی حفاظت کریں اور اگر آپ مسلمان سمجھتے ہیں تو یہ ٹھیک ہے۔ لیکن یہاں یہ بحث نہیں ہے بلکہ بحث تو یہ ہے کہ ہم نے لوگوں کو اس بات کی اجازت دی ہے کہ وہ احمدیوں کی عبادت گاہ کو تباہ کر دیں اور پھر وہاں کچھ لوگ تھے جو اس کو Celebrate کر رہے تھے، جشن منا رہے تھے۔ یہ جناح کا خواب نہیں ہے، یہ جناح کا پاکستان نہیں ہے۔ میں اس کی مذمت کرتی ہوں۔
(رپورٹ:ایف شمسؔ)
٭…٭…٭