ایک کامیاب علمی دنگل
’’غلامِ رسول‘‘ اور ’’غلامِ مسیح‘‘ کے مابین ایک کامیاب علمی دنگل
بیسویں صدی کے متحدہ ہندوستان میں جبکہ مسیحیت کے علمبرداروں کی یلغار کے سامنے مسلمان اپنے آپ کو بے دست و پا سمجھ رہے تھے۔ عروس البلاس لاہور میں ایک دلچسپ معرکہ ہوا جس میں حضرت مسیح محمدی علیہ السلام کے غلام حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ نے اسلام سے مُرتد ہونے والے ایک تیز و طرار پادری غلام مسیح کو ایسا لاجواب کیا کہ مسلمانوں کے دل باغ باغ ہوگئے۔ اس معرکہ کی روئداد حضرت مولانا راجیکی صاحبؓ یوں بیان فرماتے ہیں:
1909ء میں خاکسار حضرت خلیفۃالمسیح الاوّل رضی اللہ عنہ و اَرْضاہ کے ارشاد کے ماتحت لاہور میں مقیم تھا۔ ان دنوں لاہور میں گاہے گاہے مختلف مذاہب کی طرف سے جلسے کئے جاتے جن میں اشتہارات کے ذریعہ دیگر اہلِ مذاہب کو بلایا جاتا۔ دوسرے اسلامی فرقوں کے علماء میں سے تو بہت کم اس طرف توجہ کرتے۔ لیکن ہم احمدی جب بھی عیسائیوں یا آریوں کی طرف سے دعوت دی جاتی ان جلسوں اور مناظروں میں شمولیت اختیار کرتے۔ 1909ءمیں مَیں ابھی نیا نیا لاہور پہنچا تھا کہ عیسائیوں کی طرف سے ایک بڑا پوسٹر شائع کیا گیا جس میں ایک مُرتد عیسائی غلام مسیح (اس کا پہلا نام غلام محمدؐ تھا) نے مسلمانوں کو بحث کے لئے چیلنج دیا تھا اور لکھا تھا کہ وہ قرآن کریم کے ذریعہ حضرت مسیح علیہ السلام کی فضیلت تمام انبیاء پر ثابت کرے گا۔ اور مسلمانوں کو بھی بتایا جائے گا کہ وہ غلام محمدؐ سے غلام مسیح کیسے بنا۔
اس جلسہ کا انتظام نیلاگنبد کے پاس ایک بہت بڑے ہال میں کیا گیا تھا۔ اس کی بہت بڑے پیمانے پر تشہیر کی گئی اور مسلمانوں کو چیلنج دیا گیا کہ اگر ان کا کوئی عالم ہمارے پادری صاحب کی تقریر کے بعد اُس کے فضیلتِ مسیح پر دیئے ہوئے دلائل کا جواب دینا چاہے تو اُسے اجازت ہوگی۔ چنانچہ اس مذہبی دنگل کو دیکھنے کے لئے مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد بھی اپنے علماء کو لے کر پہنچی ہوئی تھی۔ ان علماء میں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری جیسے جُبّہ پوش مولویوں کے علاوہ مولوی محمد ابراہیم صاحب وکیل لاہور اور دیگر نامور علماء اہل اسلام بھی تھے۔ اس لیکچر کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کی صدارت لاہور کے بڑے بشپ نے کی جس کے ساتھ دیگر بہت سے انگریز پادری بھی دائیں بائیں کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ گویا دجّال کا سارا لشکر اپنے زعم باطل میں اسلام پر کاری ضرب لگنے کا نظارہ دیکھنے کے لئے بنفسِ نفیس وہاں موجود تھا۔
پادری غلام مسیح نے تقریر شروع کرنے سے پہلے اس امر کی وضاحت کی کہ وہ فضیلتِ مسیحؑ از رُوئے قرآن ثابت کرے گا۔ لہٰذا جو علماء اسلام اس کے دلائل کی تردید میں کچھ کہنا چاہیں ان کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ اپنے دلائل بھی قرآن کریم میں سے دیں۔ اس کے علاوہ ان کی کوئی دلیل قابلِ قبول نہ ہوگی۔ پادری مذکور نے فضیلتِ مسیحؑ از روئے قرآن کے ثبوت میں جو دلائل دیئے ان کا خلاصہ حسب ذیل ہے:
(1) مسیح ؑکے سوا کوئی اور نبی بِن باپ پیدا نہیں ہوا۔ یہ فضیلت صرف مسیحؑ کو حاصل ہے۔ بیشک آدم کی پیدائش بھی بِن باپ ہوئی مگر عَصیٰ آدَمُ رَبَّہٗ فَغَوٰی کے رُو سے وہ گنہگار اور گمراہ ثابت ہوتے ہیں۔ لہٰذا اُن کا مقابلہ معصوم مسیحؑ سے نہیں کیا جاسکتا۔
(2) مسیحؑ کی رُوح القدس سے تائید کی گئی جو کسی اور نبی کے متعلق ثابت نہیں۔
(3) مسیح کو قرآن میں غُلَامًا زَکِیّا کہا گیا ہے۔ یعنی پاک اور زکی بچہ۔ یہ خصوصیت بھی کسی اَور نبی کے حق میں بیان نہیں کی گئی۔
(4) تمام انبیاء میں سے صرف مسیحؑ کی والدہ کا نام قرآن کریم میں مذکور ہے۔ اَور کسی نبی کی والدہ کا ذکر قرآن میں نہیں۔
(5) مسیحؑ کو اللہ تعالیٰ نے خود توریت، انجیل، کتاب اور حکمت سکھائی (اس تعلق میں پادری غلام مسیح کا اشارہ سورۃ آل عمران کی آیت 49 کی طرف تھا جہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَيُعَلِّمُہُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَالتَّوْرَاۃَ وَالْإِنْجِيْلَ۔)
(6) مسیحؑ کو قرآن کریم میں کلمۃاللہ کا خطاب دیا گیا ہے۔ یہ خطاب بھی مسیحؑ کے سوا کسی اَور نبی کو نہیں دیا گیا۔
پادری موصوف کی اس تقریر کا جواب دینے کے لئے جو علماءِ اسلام سٹیج پر آئے انہوں نے اپنے دلائل قرآن کریم سے دینے کی بجائے توریت اور انجیل کی عبارات پڑھ پڑھ کر اپنا وقت ختم کیا۔ چنانچہ ان کی ہر تقریر کے بعد پادری غلام مسیح اُٹھ کر کہہ دیتا کہ میری مطلوبہ شرط کے مطابق جواب نہیں آیا چونکہ قرآن سے مسیحؑ کی فضیلت سب انبیاء پر ثابت ہوتی ہے لہٰذا اس کی تردید بھی قرآن ہی سے ہونی چاہئے۔ اِن علماء کا ایسا نہ کرسکنا بتاتا ہے کہ ان کے پاس میرے دلائل کا کوئی توڑ نہیں۔ چنانچہ اس نے بار بار اُٹھ کر علماءِ اسلام کی اِس کمزوری کو واضح کیا اور اپنے دلائل کی برتری ثابت کی جس سے اہلِ اسلام کی بہت خفّت ہوئی۔ اِدھر عیسائی تھے کہ فخر اور خوشی سے پھولے نہ سما رہے تھے۔
حضرت مولانا غلام رسول راجیکیؓ صاحب جو اس جلسہ میں بعض دیگر احمدی احباب کے ہمراہ سٹیج کے قریب ہی بیٹھے تھے (آپ کی عمر اس وقت بمشکل انتیس تیس سال کی ہوگی۔ یعنی آپ عمر کے لحاظ سے مذکورہ بالا علماء میں سب سے چھوٹے تھے۔ ) یہ سب کچھ سُن اور دیکھ رہے تھے کہ اچانک صاحبِ صدر نے ان کا نام پکارا۔ آپ حیران ہوئے کہ میرا نام کس نے پیش کیا ہے۔ مگر فرماتے ہیں کہ میرے مکرم دوست ملک خدابخش صاحب (مرحوم و مغفور) نے جو قریب ہی بیٹھے تھے میرا نام خود ہی لکھ کر بھجوادیا تھا۔ اب جونہی آپ خدا کا نام لے کر اُٹھے تو ایک عجیب منظر دیکھنے میں آیا۔ ایک تو آپ عمر کے لحاظ سے دیگر سب علماء سے چھوٹے تھے۔ دوسرے آپ نہ جُبّہ پوش تھے۔ نہ کسی اَور قسم کا فاخرہ لباس زیب تن رکھتے تھے۔ لہٰذا انہیں سٹیج کی طرف آتا دیکھ کر مسلمانوں کے اندر زبردست بے چینی پیدا ہوئی۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں:
’’جونہی مَیں سٹیج کی طرف بڑھا تو بہت سے غیراحمدی علماء میرے اردگرد گھیرا ڈال کر کھڑے ہوگئے اور میری وضع اور لباس کی سادگی دیکھ کر مجھے حقارت سے کہنے لگے کہ تم نے سٹیج پر جاکر کیا بولنا ہے۔ اپنا وقت ہمیں دے دو۔ مَیں نے عرض کیا کہ دوسرے علماء جو اَب تک بولتے رہے ہیں وہ آپ کے بڑے بھائی اور آپ سے بڑھ کر تھے۔ انہوں نے کیا کرلیا ہے جو آپ کرسکیں گے۔ جس وقت اِن علماء کے ساتھ میری تکرار ہو رہی تھی تو صاحب صدر نے خیال کیا کہ اس شخص کا بولنا ہمارے لئے اَور بھی مفید ہوگا۔ چنانچہ اس نے اونچی آواز سے دوبارہ میرا نام پکارا۔ اور سٹیج پر بلالیا۔
مَیں جب سٹیج پر کھڑا ہوا تو میری وضع اور لباس دیکھ کر لوگوں نے مجھے جُبّہ پوش علماء کے مقابل پر بہت ہی حقیر خیال کیا اور سمجھا کہ اس آخری تقریر سے اسلام کی اور بھی رسوائی ہوگی اور بہت سے مسلمان مُرتد ہو جائیں گے۔‘‘
مگر خدا کو یہی منظور تھا کہ اس موقع پر اس کے مامور کے ایک غلام کے ذریعے اسلام کی برتری ظاہر ہو اور مسیحیت کے علمبرداروں کا منہ کالا ہو۔ چنانچہ آپ نے سٹیج پر پہنچتے ہی پہلے بلند آواز سے کلمۂ شہادت پڑھا اور پھر پادری غلام مسیح کی ایک ایک دلیل کو لے کر جواب دینے لگے۔ آپ کا جواب اتنا مدلّل، مضبوط اور دندان شکن تھا کہ جونہی آپ ایک دلیل ختم کرتے ہال جس میں اکثریت مسلمانوں کی تھی خوشی کے نعروں سے گونج اُٹھتا۔ آپ کی تقریر کا خلاصہ حسبِ ذیل ہے۔ آپ نے فرمایا:
پہلی دلیل پادری غلام مسیح نے فضیلتِ مسیحؑ کے سلسلہ میں یہ پیش کی ہے کہ وہ بغیر باپ پیدا ہوئے۔ اس کے جواب میں عرض ہے کہ
اوّل: قرآن کریم نے بغیر باپ پیدائش کو کہیں بھی وجہ فضیلت قرار نہیں دیا۔ اگر ہے تو قرآن کریم سے اس کا ثبوت پیش کیا جائے۔
دوم: جو امر باعثِ فضیلت ہوتا ہے وہ مقامِ مذمّت نہیں ہوسکتا۔ مگر قرآن کریم بتاتا ہے کہ حضرت مریم کو اس کی وجہ سے موردِ سبّ و شتم ٹھہرایا گیا جیسا کہ فرماتا ہے وَعَلیٰ مَرْیَمَ بُہْتَاناً عَظِیْماً۔ پس یہ کیا فضیلت ہوئی کہ پیدا ہوتے ہی ماں بیٹا دونوں لوگوں کے نزدیک باعث مذمّت بن گئے۔
سوم: حضرت مسیحؑ کو بِن باپ پیدا ہونے میں حضرت آدم علیہ السلام کا مثیل قرار دیا گیا ہے۔ جیسا کہ فرمایا: اِنَّ مَثَلَ عِیْسیٰ عِنْدَاللّٰہِ کَمَثَلِ آدَم۔ اس مماثلت میں حضرت آدمؑ کا پلّہ بھاری نکلتا ہے کیونکہ ایک تو وہ بغیر ماں اور باپ پیدا ہوئے (یعنی خَلق کئے گئے) دوسرے ان پر اس وجہ سے کوئی الزام نہیں لگا۔
چہارم: پادری صاحب کا یہ کہنا کہ حضرت آدمؑ فَعَصیٰ آدَمُ رَبَّہٗ فَغَویٰ کے رُو سے گنہگار اور گمراہ ٹھہرے، اس لئے غلط ہے کہ قرآن کریم نے ہی دوسرے مقام پر فرمایا ہے فَنَسِیَ وَلَمْ نَجِدْلَہٗ عَزْماً یعنی حضرت آدمؑ سے بھول ہوئی۔ اس میں ان کا ارادہ شامل نہیں تھا۔ دوسرے ان کی شان یہ ہے کہ ان کے بارے میں قرآن کریم میں لکھا ہے کہ فرشتوں کو کہا گیا انہیں سجدہ کرو اور انہوں نے سجدہ کیا۔ لیکن مسیحؑ معصوم ہوکر بھی اس علوِّمرتبت کو نہ پہنچ سکا۔ بلکہ انجیل کی رُو سے شیطان چالیس دن تک ان کے پیچھے پڑا رہا کہ وہ اسے سجدہ کریں۔ پس پادری صاحب خود موازنہ کرلیں کہ وہ ہستی افضل ہے جسے فرشتے سجدہ کریں یا وہ جس کو شیطان کہے کہ مجھے سجدہ کر۔
دوسرے قرآن کریم کی رُو سے مسیحؑ آدمؑ کا مثیل ہے اس لئے اگر آدم گنہگار ہے تو مسیحؑ بھی گنہگار ہے۔
دوسری دلیل پادری صاحب نے یہ دی ہے کہ مسیحؑ کی روح القدس سے تائید کی گئی جو کسی اور نبی کے متعلق ثابت نہیں۔ جواباً عرض ہے کہ:
اوّل: حضرت مسیحؑ کو تو روح القدس کی تائید حاصل ہوئی جو ایک فرشتہ تھا۔ مگر حضرت آدمؑ کے اندر تو خود اللہ کی رُوح پھونکی گئی۔ جیسا کہ فرمایا: فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِی فَقَعُوْا لَہٗ سَاجِدِیْن۔ یعنی جب مَیں اسے بنالوںاور اس کے اندر اپنی روح پھونک دوں تو تم سب اسے سجدہ کرتے ہوئے گر جاؤ۔ گویا ان کے اندر خدا کی رُوح پھونکے جانے کی وجہ سے فرشتوں کو حکم ہوا کہ ان کو سجدہ کریںا ور سجدہ کرنے کے معنی اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ سارے کے سارے آپ کی تائید پر کمربستہ ہوجائیں۔ غرض حضرت مسیحؑ کو تو صرف ایک فرشتہ کی تائید حاصل تھی مگر حضرت آدمؑ کو سب فرشتوں کی۔ اس اعتبار سے حضرت آدمؑ حضرت مسیحؑ سے افضل ٹھہرے۔
دوم: اگر روح القدس (جو ایک فرشتہ ہے) کی تائید حاصل ہونا باعث فضیلت ہے تو پادری صاحب صحابۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کیا کہیں گے جن کے متعلق قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ انہیں روح مِنَ اللہ کی تائید حاصل تھی۔ جیسا کہ آیت اُوْلٰئِکَ کَتَبَ فِیْ قُلُوْبِھِمُ الْاِیْمَانَ وَاَیَّدَھُمْ بِرُوْحٍ مِّنْہُ سے ظاہر ہے۔ پھر وہ وجہ فضیلت جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین کو حاصل ہے خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا صاحبِ فضیلت ہونا بدرجۂ اَولیٰ ثابت کرتی ہے کیونکہ تابع کو جو کمال حاصل ہوتا ہے وہ متبوع کے کمال کی بدولت ہی ہوتا ہے۔
تیسری دلیل پادری صاحب نے حضرت مسیحؑ کی وجہ فضیلت کی یہ بیان کی ہے کہ انہیں قرآن کریم میں غُلَامًا زَکِیًّا یعنی ’’پاک لڑکا‘‘ ہونے کا خطاب دیا گیا ہے۔ اس کے مقابل پر ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’مُزَکِّیْ‘‘ کہا گیا ہے یعنی ’پاک کرنے والا‘ جیسا کہ قرآن کریم میں مختلف مقامات پر آپؐ کے بارے میں یُزَکِّیْھِمْ (وہ پاک کرتا ہے) کے الفاظ آئے ہیں۔
اب پادری صاحب خود دیکھ لیں کہ وہ افضل ہوتا ہے جو خود پاک ہو یا وہ جس کی صحبت اور قوت قدسیہ سے دوسرے لوگ پاک اور مطہر بنیں۔ آگے فرمایا کہ دراصل حضرت مسیحؑ کے بارے میں ’’زکی‘‘ کا لفظ خاص طور پر اس لئے آیا ہے کہ حضرت مریم پر حضرت مسیحؑ کی پیدائش کے بارے میں جو الزام عائد کیا گیا تھا۔ (عَلیٰ مَرْیَمَ بُہْتَانًا عَظِیْمًا) اِس الزام کی تردید ضروری تھی۔ ورنہ ہر نبی بچپن میں اور جوانی میں زکی اور پاک ہوتا ہے۔
چوتھی دلیل حضرت مسیحؑ کی فضیلت کی پادری صاحب کے نزدیک یہ ہے کہ آپ کی والدہ کا نام قرآن کریم میں مذکور ہے۔ اگر پادری صاحب کے اس معیار کو تسلیم کیا جائے تو کیا وہ سارے لوگ اور دشمنانِ انبیاء جن کے نام قرآن کریم میں آتے ہیں وہ سارے کے سارے فضیلت مآب سمجھے جائیں گے۔
دوسرے قرآن کریم کا ایک مقصد اُن قصص اور واقعات کی حقیقت بیان کرنا ہے جن کے بارے میں صُحُفِ سابقہ میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ چونکہ حضرت مریمؑ اور ابن مریمؑ کے بارے میں یہود اور نصاریٰ میں بہت اختلاف پائے جاتے ہیں اس لئے ان کا نام لے کر اصل حقیقت واضح کی گئی۔ دوسرے انبیاء کی اُمّہات کا نام لینے کی اس لئے ضرورت نہ تھی کہ ان کے بارے میں اس قسم کا کوئی اختلاف نہیں۔
پانچویں دلیل مسیحؑ کی فضیلت کے حق میں پادری صاحب نے یہ پیش کی ہے کہ انہیں قرآن کریم کے رُو سے کتاب اور حکمت یعنی توریت اور انجیل سکھائی گئی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ:
اوّل:حضرت مسیحؑ کو جو تعلیم اور حکمت سکھائی گئی وہ مختص القوم اور مختص الزمان تھی کیونکہ قرآن کریم کے نزدیک آپ صرف بنی اسرائیل کے لئے نبی بناکر بھیجے گئے تھے (جیسا کہ فرمایا وَرَسُوْلًا اِلیٰ بَنِیْ اِسْرَائِیْل) مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو تعلیم دی گئی یعنی قرآن مجید وہ عالمگیر تھی کیونکہ آپؐ ’’رحمۃللعالمین‘‘ تھے۔ پس وہ نبی جسے ایک جامع اور عالمگیر تعلیم سکھائی گئی اس سے زیادہ افضل ٹھہرا جسے صرف ایک قوم کی طرف بھیجا گیا۔
دوم: حضرت مسیحؑ کے بارے میں تو یہ آتا ہے کہ انہیں کتاب (توریت) اور حکمت سکھائی گئی۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں قرآن کریم فرماتا ہے کہ وہ کتاب اور حکمت دوسروں کو سکھانے والے تھے۔ جیسا کہ فرمایا: وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ۔ ظاہر ہے کہ سکھانے والا یعنی (مُعلِّم) سیکھنے والے کی نسبت زیادہ بہتر اور افضل ہوتا ہے۔
چھٹی دلیل فضیلت مسیحؑ کی پادری صاحب نے یہ دی کہ انہیں قرآن کریم میں کلمۃاللہ کہا گیا ہے۔ اگر مسیحؑ کو کلمۃاللہ ہونے کی وجہ سے کوئی خصوصیت حاصل ہے تو ان کی اس خصوصیت میں کائنات کا ہر ذرّہ شریک ہے کیونکہ فرمایا: لَوْ کَان الْبَحْرُ مِدَادَاً لِّکَلِمَاتِ رَبِّیْ۔ غرض قرآن کریم کے نزدیک کائنات کی ہر شَے کلمۃاللہ ہے۔ پس یہ کوئی وجہ فضیلت نہیں۔
آپ کے ہر جواب پر ہال تحسین و آفرین کے نعروں سے پہلے ہی گونج رہا تھا۔ اب جونہی آپ اپنی تقریر ختم کرکے سٹیج سے اتر کر باہر آئے تو پچاس ساٹھ جوشیلے مسلمان نوجوانوں نے آپ کو کندھوں پر اٹھالیا۔ اور باربار جزاکم اللہ، جزاکم اللہ کہنے لگے۔ جب لوگوں کو معلوم ہوا کہ آپ احمدی ہیں تو سب کہنے لگے کہ آخر احمدی بھی تو ہمارے بھائی ہیں۔ ان کے جوابات نے تو آج اسلام کی لاج رکھ لی اور مسلمانوں کا بول بالا ہوا۔
پادری غلام مسیح اسلام کے اس جری پہلوان کے جواب میں تردیداً تو کچھ نہ کہہ سکا۔ صرف اتنا کہا کہ اس مُجیب نے اَور رنگ میں جوابات دیئے ہیں۔ گویا خدا نے اس مُرتد کو بالکل لاجواب کردیا۔ اور خدا کا الہام بڑے جلال سے پورا ہوا کہ:
’’میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نُور اور اپنے دلائل اور نشانات کے رُو سے سب کا منہ بند کردیں گے۔‘‘
(ملخص از ’حیات قدسی‘ حصہ چہارم صفحہ 39 تا 46 )
(ماخوذ از کتاب ’درویشانِ احمدیت۔
مصنّفہ مولانا فضل الٰہی صاحب انوری (مرحوم))