منظوم کلام
شہر در شہر اُگ رہے ہیں عتاب
شہر در شہر اُگ رہے ہیں عتاب
آگ برسا رہے ہیں اہلِ کتاب
اہلِ ظلمت ہی کر رہے ہیں سوال
اہلِ ظلمت ہی دے رہے ہیں جواب
عہدِ نو کا نظامِ نو لے کر
آسماں سے اتر رہے ہیں شہاب
جس کا پیغام بس محبت ہو
ہے کوئی ایسی بھی تمہاری کتاب؟
نشأة ثانیہ کے شوق میں تم
نشأة اُولی کر رہے ہو خراب
خواب جو سو برس پرانا ہے
اس کی تعبیر ہیں یہ سارے عذاب
ایک ربوہ کہ ہے چناب نگر
باقی تو ہر طرف ہے آگ جناب