خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 17؍اگست2018ء

بدری صحابہ حضرت عامر بن ربیعہؓ، حضرت حَرَام بن مِلْحَانؓ، حضرت سعد بن خولہؓ، حضرت اَبُو الْہَیْثمْ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ذکرِ خیر

آج بھی دشمن کے ہاتھ کو روکنے کے لئے دعاؤں کے ذریعہ ہی اللہ تعالیٰ کی مدد مانگنے کی ضرور ت ہے۔
اللہ تعالیٰ ہی ہے جو اِن لوگوںکی پکڑ کے سامان کرے اور ہمارے لئے بھی آسانیاں پیدا فرمائے۔

مکرم صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب ابن حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی وفات۔

اسی طرح مکرمہ سیدہ نسیم اختر صاحبہ اہلیہ محمد یوسف صاحب آف آنبہ نوریہ ضلع شیخوپورہ (پاکستان) کی وفات۔ مرحومین کا ذکر ِخیر اور نماز جنازہ غائب۔

خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 17؍ اگست 2018ء بمطابق17؍ظہور 1397 ہجری شمسی بمقام مسجدبیت الفتوح،مورڈن،لندن، یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔

آج بھی میں چند بدری صحابہ کا ذکر کروں گا ان میں سے پہلے ہیں حضرت عامر بن ربیعہ۔ ان کا خاندان حضرت عمر کے والد خطاب کا حلیف تھا جنہوں نے حضرت عامر کو متبنّٰی بنایا ہوا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ پہلے عامر بن خطاب کے نام سے مشہور تھے لیکن جب قرآن کریم نے ہر ایک کو اپنے اصلی آباء کی طرف انتساب کا حکم دیا تو اس کے بعد عامر بن خطاب کے بجائے اپنے نسبی والد ربیعہ کی نسبت سے عامر بن ربیعہ پکارے جانے لگے۔

یہاں ان لوگوں کے لئے اس بات کی وضاحت ہو گئی ہے جو اپنے رشتہ داروں کے، عزیزوں کے بچے adopt کرتے ہیں اور بڑے ہونے تک ان کو یہی نہیں پتہ ہوتا کہ ان کا اصل والد کون ہے اور شناختی کارڈ وغیرہ سرکاری کاغذات وغیرہ پر بھی اصل والد کے نام کے بجائے اس والد کا نام ہوتا ہے جس نے ان کو adopt کیا ہوتا ہے۔ اور پھر بعد میں اس وجہ سے بعض مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ پھر لوگ خطوط لکھتے ہیں کہ اس طرح کر دیا جائے، اس طرح کر دیا جائے۔ اس لئے ہمیشہ قرآنی حکم کے مطابق عمل کرنا چاہئے سوائے ان بچوں کے جو اداروں کی طرف سے ملتے ہیں یا لئے جاتے ہیں، adopt کئے جاتے ہیں اور ان کے والدین کے بارے میں بتایا نہیں جاتا۔ بہرحال اس وضاحت کے بعد آگے ان کے بارے میں بیان کرتا ہوں۔

یہ جو بیان ہوا تھا کہ ان کے حلیف تھے اس حلیفانہ تعلق کے باعث حضرت عمر اور حضرت عامر میں آخر وقت تک دوستانہ تعلقات قائم رہے۔ یہ بالکل ابتداء میں ایمان لے آئے تھے۔ جب ایمان لائے اس وقت تک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابھی دارِاَرقم میں پناہ گزین نہیں ہوئے تھے۔(سیر الصحابہ جلد 2صفحہ 333 مطبوعہ دار الاشاعت کراچی) حضرت عامر اپنی بیوی لیلی بنت ابی حَثْمَہ کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے۔ پھر اس کے بعد مکہ لوٹ آئے۔ وہاں سے اپنی بیوی کے ساتھ مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے۔ حضرت عامر بن ربیعہ کی اہلیہ کو سب سے پہلے مدینہ ہجرت کرنے والی عورت کا اعزاز حاصل ہے۔ آپ بدر اور تمام غزوات میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ آپ کی وفات 32 ہجری میں ہوئی۔ آپ قبیلہ عَنْزسے تھے۔
حضرت عامرؓ بیان کرتے ہیں کہ انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کوئی شخص تم میں سے جنازہ کو دیکھے اور اس کے ساتھ جانا نہ چاہے تو چاہئے کہ کھڑا ہو جائے یہاں تک کہ وہ جنازہ اسے پیچھے چھوڑ دے یا رکھ دیا جائے۔

عبداللہ بن عامر اپنے والد حضرت عامرؓ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ ایک رات نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوئے۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ لوگ حضرت عثمان کی بابت اختلاف کر رہے تھے۔ اس وقت فتنہ کا آغاز ہو گیا تھا اور حضرت عثمان پر طعن کرتے تھے تو کہتے ہیں کہ نماز کے بعد وہ سو گئے تو خواب میں انہوں نے دیکھا کہ انہیں کہا گیا کہ اٹھ اور اللہ سے دعا مانگ کہ تجھے اس فتنہ سے نجات دے جس سے اس نے اپنے نیک بندوں کو نجات دی ہے۔ چنانچہ حضرت عامر بن ربیعہ اٹھے اور انہوں نے نماز پڑھی اور بعد اس کے اسی حوالے سے دعا مانگی۔ چنانچہ اس کے بعد وہ بیمار ہو گئے اور پھر وہ خود گھر سے نہیں نکلے۔ ان کا جنازہ ہی نکلا۔(اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 118-119عامر بن ربیعہ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے فتنہ سے بچنے کی یہ صورت بنائی۔

حضرت عامر بن ربیعہ کرتے ہیں کہ میں طواف کے دوران رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جوتی کا تسمہ ٹوٹ گیا۔ میں نے عرض کی یا رسول اللہ مجھے دیں میں ٹھیک کر دیتا ہوں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ ترجیح دینا ہے اور میں ترجیح دئیے جانے کو پسند نہیں کرتا۔(شرح زرقانی جلد 6 صفحہ 49 الفضل الثانی فیما اکرمہ اللہ تعالیٰ بہ من الاخلاق الزکیۃ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1996ء)اس حد تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس بات پر particular تھے کہ اپنے کام خود کرنے ہیں۔

ایک شخص حضرت عامر بن ربیعہ کا مہمان بنا انہوں نے اس کی خوب خاطر تواضع کی اور اکرام کیا اور ان کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سفارش کی بات کی۔ وہ آدمی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے حضرت عامر کے پاس آیا اور کہا میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ایسی وادی بطور جاگیر مانگی تھی کہ پورے عرب میں اس سے اچھی وادی نہیں ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وہ عطا فرما دی ہے۔ اب میں چاہتا ہوں کہ اس وادی کا ایک ٹکڑہ آپ کو دے دوں جو آپ کی زندگی میں آپ کا ہو اور آپ کے بعد آپ کی اولاد کے لئے ہو۔ حضرت عامر نے کہا کہ مجھے تمہارے اس ٹکڑے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ آج ایک ایسی سورت نازل ہوئی ہے جس نے ہمیں دنیا ہی بھلا دی ہے اور وہ یہ ہے کہ اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُھُمْ وَھُمْ فِیْ غَفْلَۃٍ مُعْرِضُوْنَ(الانبیاء2:)۔(حیاۃ الصحابہ از محمد یوسف الکاندھلوی جلد 2 صفحہ 523 باب انفاق الصحابہ فی سبیل اللہ مطبوعہ موسسۃ الرسالۃ ناشرون 1999ء)کہ لوگوں کے لئے ان کا حساب قریب آ گیا ہے اور وہ باوجود اس کے غفلت کی حالت میں منہ پھیرے ہوئے ہیں۔

خدا تعالیٰ کے خوف اور خشیت کی یہ حالت تھی ان چمکتے ہوئے ستاروں کی۔ اور یہی وہ لوگ تھے جو حقیقی طور پر دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے تھے۔

حضرت عامر بن ربیعہ سے روایت ہے کہ زید بن عمرو نے کہا میں نے اپنی قوم کی مخالفت کی۔ ملّت ابراہیمی کی اتباع کی۔ مجھے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ایک نبی کے ظہور کا انتظار تھا جن کا اسم گرامی احمد ہو گا۔ لیکن یوں لگتا ہے کہ میں انہیں پا نہ سکوں گا۔ میں ان پر ایمان لاتا ہوں ان کی تصدیق کرتا ہوں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ نبی ہیں۔ اگر تمہیں ان کا عہد نصیب ہو جائے تو میرا سلام پیش کرنا۔ میں تمہیں ان کی ایسی علامات بتاتا ہوں کہ وہ تمہارے لئے مخفی نہیں رہیں گے۔ وہ نہ طویل قامت ہیں، نہ ہی پست قامت۔ ان کے بال نہ کثیر ہوں گے، نہ قلیل۔ ان کی آنکھوں میں سرخی ہر وقت رہے گی۔ ان کے کندھوں کے مابین مہر نبوت ہو گی۔ ان کا نام احمد ہو گا۔ یہ شہر مکّہ ان کی جائے ولادت اور بیعت کی جگہ ہو گی۔ پھر ان کی قوم انہیں یہاں سے نکال دے گی۔ وہ ان کے پیغام کو ناپسند کرے گی۔ پھر وہ یثرب کی طرف ہجرت کریں گے۔ پھر ان کا امر غالب آ جائے گا۔ ان کی وجہ سے دھوکہ میں نہ پڑنا۔ میں نے دین ابراہیمی کی تلاش میں سارے شہر چھان مارے ہیں۔ میں نے یہودیوں، عیسائیوں اور آتش پرستوں سب سے پوچھا ہے۔ انہوں نے بتایا ہے کہ یہ دین تمہارے پیچھے ہے۔ انہوں نے مجھے وہی علامات بتائیں جو میں نے تمہیں بتائی ہیں۔ انہوں نے بتایا ان کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ۔

حضرت عامر نے کہا جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو مَیں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زید کے بارے میں بتایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے اسے جنت میں دیکھا ہے وہ اپنا دامن گھسیٹ رہا تھا۔

(سبل الہدیٰ والرشاد جلد اوّل صفحہ 116 فیما اخبربہ الاحبار والرھبان … الخ مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1993ء)

یہ جو روایت ہےکہ نبی نہیں آئے گا۔ اس سے یہ بھی مراد نہیں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمّتی نبی کی جو پیشگوئی کی تھی وہ غلط ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ہی آخری شرعی نبی ہیں اور کوئی نئی شریعت نہیں آئے گی اور جو بھی آنے والا آئے گا آپ کی غلامی میں ہی آئے گا۔ یہی ہمیں احادیث سے اور قرآن کریم سے بھی پتہ لگتا ہے۔

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عامر کی حضرت یزید بن مُنْذَر سے مؤاخات قائم فرمائی تھی۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 296 ومن حلفائ بنی عدی مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)حضرت عامر بن ربیعہؓ نے حضرت عثمانؓ کی شہادت کے چند دن بعد وفات پائی۔

(اسد الغابہ جلد 3صفحہ 119 عامر بن ربیعہ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)

دوسرے صحابی ہیں حضرت حَرَام بن مِلْحَان۔ حضرت حرام بن ملحان کا تعلق انصار کے قبیلہ بنو عدی بن نجار سے تھا۔ آپ کے والد ملحان کا نام مالک بن خالد تھا۔ حضرت حرام بن ملحان کی والدہ کا نام مُلَیْکَہ بنت مالک تھا۔ آپ کی ایک بہن حضرت اُمّ سُلیم تھیں جو حضرت ابوطلحہ انصاری کی اہلیہ اور حضرت انس بن مالک کی والدہ تھیں۔ آپ کی دوسری بہن حضرت اُمّ حرام حضرت عُبَادَۃ بن صامِت کی اہلیہ تھیں۔ حضرت حرام بن ملحان حضرت انس کے ماموں تھے اور غزوہ بدر اور اُحد میں شریک تھے اور بئر معونہ کے دن شہید ہوئے تھے۔ حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ کچھ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور کہا کہ ہمارے ساتھ ایسے آدمیوں کو بھیجئے جو ہمیں قرآن و سنت کی تعلیم دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کے ستّر صحابہ ان کے ساتھ بھیج دئیے جو قرآن کے قاری تھے۔ یہ کہتے ہیں کہ ان میں میرے ماموں حرام بھی تھے۔ یہ لوگ قرآن کریم پڑھتے تھے۔ رات کو باہم درس دیتے اور علم سیکھتے۔ دن کو پانی لا کر مسجد میں رکھتے۔ جنگل سے لکڑیاں چنتے اور بیچ کر اہل صفّہ اور فقراء کے لئے غلّہ خریدتے۔(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 390 حرام بن ملحان مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)، (الاصابہ جلد 8صفحہ 375-376 ام حرام بنت ملحان، جلد 8 صفحہ408-409 ام سلیم بنت ملحان مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء) حضرت حرام بن ملحان کے بئر معونہ کے واقعہ کا کچھ بیان میں چند مہینہ پہلے خطبہ میں کر چکا ہوں۔ بئر معونہ کا باقی واقعہ ایک دو اور جگہ بھی بیان ہو چکا ہے۔ اس بارے میں بخاری کی بعض روایات ہیں جو پیش کرتا ہوں جو پہلے بیان نہیں ہوئیں۔

حضرت انسؓ بن مالک سے مروی ہے کہ جب حضرت حرام بن ملحان کو بئر معونہ والے دن نیزہ مارا گیا تو انہوں نے اپنا خون اپنے ہاتھ میں لیا اور اپنے منہ اور اپنے سر پر چھڑکا اور اس کے بعد کہا فُزْتُ بِرَبِّ الْکَعْبَۃِ۔ کعبہ کے رب کی قسم! میں نے مراد پا لی۔

(صحیح البخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الرجیع و رعل حدیث 4092)

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رِعل، ذَکْوَان، عُصَیَّہ اور بَنُو لَحْیَان قبائل کے کچھ لوگ آئے اور کہا کہ ہم مسلمان ہو گئے ہیں اور انہوں نے آپ سے اپنی قوم کے مقابلہ کے لئے مدد مانگی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی ستّر انصار صحابہ سے مدد کی۔ حضرت انس کہتے تھے کہ ہم انہیں قاری کہا کرتے تھے۔ دن کو وہ لکڑیاں لاتے اور رات کو نمازیں پڑھتے۔ وہ لوگ انہیں لے گئے۔ جب بئر معونہ پر پہنچے تو انہوں نے ان سے غداری کی اور انہیں مار ڈالا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک مہینہ تک اور بعض روایات میں چالیس دن تک نماز میں کھڑے ہو کر رِعل اور ذَکوان اور بنو لَحیان کے لئے بددعا کرتے رہے۔

(صحیح البخاری کتاب الجہاد و السیر باب العون بالمدد حدیث 3064، باب من ینکب او یطعن فی سبیل اللہ حدیث 2801)

حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ جب قاری لوگ شہید کئے گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہینہ بھر کھڑے ہو عاجزی سے دعا کی۔ اور بخاری کی دوسری روایت ہے کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا کہ آپ نے کبھی اس سے بڑھ کر غم کیا ہو۔ (صحیح البخاری کتاب الجنائز باب من جلس عند المصیبۃ … الخ حدیث 1300)پھر ایک روایت یہ ہے حضرت انسؓ سے ہی مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رکوع کے بعد کھڑے ہو کر ایک مہینے تک بنو سُلَیم کے چند قبیلوں کے خلاف دعا کرتے رہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ نے قاریوں میں سے چالیس یا ستّر آدمیوں کو بعض مشرک لوگوں کے پاس بھیجا تو یہ قبائل آڑے آئے اور ان کو مار ڈالا حالانکہ ان کے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان معاہدہ تھا۔ پھر اس میں بھی وہی بیان ہے کہ میں نے آپ کو کبھی نہیں دیکھا کہ کسی پر اتنا غم کیا ہو جتنا کہ آپ نے ان قاریوں پر غم کیا۔

(صحیح البخاری کتاب الجزیۃ باب دعا الامام علی من نکث عھداً حدیث 3170)

پھر ایک حوالہ ہے ابن ھشام کی سیرت کا۔ جَبَّار بن سَلْمٰی جو عَمرو بن طُفَیل کے ساتھ اس موقع پر موجود تھے بعد میں یہ مسلمان ہو گئے تھے۔ یہ کہتے ہیں کہ میرے اسلام قبول کرنے کی یہ وجہ ہوئی کہ میں نے ایک شخص کے دونوں کندھوں کے درمیان نیزہ مارا۔ میں نے دیکھا کہ نیزے کی اَنّی اس کے سینہ کے پار ہو گئی۔ پھر میں نے اس شخص کو یہ کہتے سنا۔ فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَۃ۔ یعنی کعبہ کے رب کی قسم! میں نے اپنی مراد کو پا لیا۔ اس پر میں نے اپنے آپ سے کہا کہ یہ کیسے کامیاب ہو گیا۔ کیا میں نے اس شخص کو شہید نہیں کر دیا۔ جبار کہتے ہیں کہ میں نے بعد میں ان کے اس قول کے متعلق پوچھا تو لوگوں نے بتایا کہ اس کا مطلب شہادت پر فائز ہونا تھا۔ جبار کہتے ہیں کہ میں نے کہا وہ یقیناً خدا کے نزدیک کامیاب ہو گیا۔

(السیرۃ النبویہ لابن ہشام صفحہ 603حدیث بئر معونہ فی صفر سنۃ اربع مطبوعہ دار الکتب العلمیہ لبنان 2001ء)

دو تین صحابہ کے بارے میں اسی طرح کے واقعات ملتے ہیں۔ ملتے جلتے الفاظ ملتے ہیں۔ یہ وہ لوگ تھے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنا اصل مقصد سمجھتے تھے اور دنیاوی کامیابیاں ان کا اصل مقصد نہیں تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے بھی ان کی اسی نیت کی وجہ سے ان کے بارے میں اعلان کیا کہ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوا۔
بئر معونہ کے موقع پر شہادت کے وقت صحابہ نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی تھی کہ اَللّٰھُمَّ بَلِّغْ عَنَّا نَبِیَّنَا اَنَّا قَدْ لَقِیْنَاکَ فَرَضِیْنَا عَنْکَ وَرَضِیْتَ عَنَّا۔ کہ اے اللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمارے حالات سے آگاہ فرما دے کہ ہم تجھ سے جا ملے ہیں اور ہم تجھ سے اور تُو ہم سے راضی ہے۔ حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ ساتھی اللہ سے جا ملے ہیں اور اللہ ان سے راضی ہے۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 267 حرام بن ملحان مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1996ء)

حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اس واقعہ کے بارے میں بھی بیان کرتے ہیں کہ واقعات بئر معونہ اور رجیع سے قبائل عرب کے اس انتہائی درجہ کے بغض و عداوت کا پتہ چلتا ہے جو وہ اسلام اور متبعین اسلام کے متعلق اپنے دلوں میں رکھتے تھے۔ حتی کہ ان لوگوںکو اسلام کے خلاف ذلیل ترین قسم کے جھوٹ اور دغا اور فریب سے بھی کوئی پرہیز نہیں تھا اور مسلمان باوجود اپنی کمال ہوشیاری اور بیدار مغزی کے بعض اوقات اپنی مومنانہ حسن ظنی میں ان کے دام کا شکار ہو جاتے تھے۔ حفاظ قرآن، نماز گزار، تہجد خواں مسجد کے ایک کونے میں بیٹھ کر اللہ کا نام لینے والے اور پھر غریب مفلس فاقوں کے مارے ہوئے یہ وہ لوگ تھے جن کو ان ظالموں نے دین سیکھنے کے بہانے سے اپنے وطن میں بلایا اور پھر جب مہمان کی حیثیت میں وہ ان کے وطن میں پہنچے تو ان کو نہایت بے رحمی کے ساتھ تَہ تیغ کر دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان واقعات کا جتنا بھی صدمہ ہوتا کم تھا۔ مگر اس وقت آپ نے رجیع اور بئر معونہ کے خونی قاتلوں کے خلاف کوئی جنگی کارروائی نہیں فرمائی۔( صدمہ ضرور ہوا لیکن ان کے خلاف جنگی کارروائی کوئی نہیں ہوئی )۔ البتہ اس خبر کے آنے کی تاریخ سے لے کر برابر تیس دن تک آپ نے ہر روز صبح کی نماز کے قیام میں نہایت گریہ و زاری کے ساتھ قبائل رِعل اور ذَکوان اور عُصَیَّہ اور بنو لَحیان کا نام لے لے کر خدا تعالیٰ کے حضور یہ دعا کی کہ اے میرے آقا! تُو ہماری حالت پر رحم فرما اور دشمنان اسلام کے ہاتھ کو روک جو تیرے دین کو مٹانے کے لئے اس بے رحمی اور سنگدلی کے ساتھ بے گناہ مسلمانوں کا خون بہا رہے ہیں‘‘۔

(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ ایم اے صفحہ 520-521)

پس آج بھی دشمن کے ہاتھ کو روکنے کے لئے دعاؤں کے ذریعہ ہی اللہ تعالیٰ کی مدد مانگنے کی ضرور ت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو ان لوگوںکی پکڑ کے سامان کرے اور ہمارے لئے بھی آسانیاں پیدا فرمائے۔

حضرت سعدؓ بن خولہ ایک صحابی تھے اور بعض کے نزدیک آپ ابن ابی رُھْم بن عبدالْعُزّٰی عامِرِی کے آزاد کردہ غلام تھے۔ آپ اسلام لائے اور سابقین میں آپ کا شمار ہوتا ہے۔ آپ حبشہ کی طرف دوسری مرتبہ ہجرت کرنے والوں میں شامل تھے۔ حضرت سعد بن خولہ نے جب مکہ سے مدینہ ہجرت کی تو آپ نے حضرت کُلْثُوم بن ھِدم کے ہاں قیام کیا۔ ابن اسحاق موسیٰ بن عُقْبہ نے آپ کا ذکر اہل بدر میں کیا ہے۔ حضرت سعد بن خولہ جب غزوہ بدر میں شامل ہوئے تو اس وقت آپ کی عمر 25 برس تھی۔ آپ غزوہ اُحد، غزوہ خندق اور صلح حدیبیہ میں شامل تھے۔ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت سُبَیْعَہ اَسْلَمِیَّہ کے شوہر تھے۔ آپ کی وفات حجۃ الوداع کے موقع پر ہوئی۔ آپ کی وفات کے کچھ عرصہ بعد آپ کے بچہ کی پیدائش ہوئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی اہلیہ سے فرمایا کہ تم اب اس پیدائش کے بعد جس سے چاہو نکاح کر سکتی ہو۔ آپ کے حجۃ الوداع کے موقع پر فوت ہونے کے بارے میں سوائے طبری کے کسی نے اختلاف نہیں کیا۔ ان کے نزدیک ان کی وفات پہلے ہوئی تھی۔(اسد الغابہ جلد 2صفحہ 209-210 سعد بن خولہ مطبوعہ دار الفکر بیروت 2003ء)،(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 217 سعد بن خولہ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1996ء)
پھر ایک صحابی ہیں حضرت اَبُو الْہَیْثَمْ۔ حضرت ابوالہیثم بن التَّیِّھَان انصاری کا اصل نام مالک تھا لیکن اپنی کنیت ابوالہیثم سے مشہور ہوئے۔ آپ کی والدہ لیلی بنتعَتِیک قبیلہ بَلِّی سے تھیں۔ اکثر محققین کے نزدیک آپ قبیلہ اوس کی شاخ بَلِّی سے ہیں جو بَنُو عَبْدُالْاَشْہَلْ کے حلیف تھے۔(الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 7صفحہ 365 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء)،(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 341 ابو الہثیم بن التَّیِّھَان مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)،(سیر الصحابہ جلد 3 صفحہ 215 ابو الہثیم بنالتَّیِّھَان مطبوعہ دار الاشاعت کراچی2004ء) محمد بن عمر کہتے ہیںکہ حضرت ابوالہیثم رضی اللہ تعالیٰ عنہ جاہلیت کے زمانے میں بھی بتوںکی پرستش سے بیزار تھے اور انہیں برا بھلا کہتے تھے۔ حضرت اسعد بن زُرَارَہ اور حضرت ابوالہیثم توحید کے قائل تھے۔ یہ دونوں ابتدائی انصاری ہیں جنہوں نے مکہ میں اسلام قبول کیا۔(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 341 ابو الہثیم بنالتَّیِّھان مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء) بعض کے نزدیک بیعت عقبہ اولیٰ سے قبل جب حضرت اسعد بن زُرَارہ چھ آدمیوںکے ساتھ مکہ سے مسلمان ہو کر مدینہ آئے تو حضرت ابوالہیثم کو اسلام کی دعوت دی۔ چونکہ آپ پہلے ہی دین ِفطرت کی تلاش میں تھے آپ نے فوراً اسلام قبول کر لیا۔ پھر بیعت عقبہ اولیٰ کے وقت جو بارہ آدمیوںکا وفد مکہ گیا تو اس وفد میں آپ شامل تھے۔ مکہ پہنچ کر آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی۔

(سیر الصحابہ جلد 3 صفحہ 215 ابو الہثیم بن التَّیِّھَان مطبوعہ دار الاشاعت کراچی2004ء)

سیرت خاتم النبیین میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اس بارے میں تحریر کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں سے الگ ہو کر ایک گھاٹی میں ان سے ملے۔ انہوں نے یثرب کے حالات سے اطلاع دی اور اب کی دفعہ سب نے باقاعدہ آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ یہ بیعت مدینہ میں اسلام کے قیام کا بنیادی پتھر تھی۔ چونکہ اب تک جہاد بالسیف فرض نہیں ہوا تھا اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے صرف ان الفاظ میں بیعت لی جن میںآپ جہاد فرض ہونے کے بعد عورتوں سے بیعت لیا کرتے تھے۔ یعنی یہ کہ ہم خدا کو ایک جانیں گے۔ شرک نہیںکریں گے۔ چوری نہیں کریں گے۔ زنا کے مرتکب نہیںہوں گے۔ قتل سے باز رہیں گے۔ کسی پر بہتان نہیں باندھیں گے اور ہر نیک کام میں آپ کی اطاعت کریں گے۔ بیعت کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم صدق و ثبات کے ساتھ اس عہد پر قائم رہے تو تمہیں جنت نصیب ہو گی اور اگر کمزوری دکھائی تو پھر تمہارا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے وہ جس طرح چاہے گا کرے گا۔ یہ بیعت تاریخ میں بیعت عقبہ اولیٰ کے نام سے مشہور ہے کیونکہ وہ جگہ جہاں بیعت لی گئی تھی عقبہ کہلاتی ہے جو مکہ اور منٰی کے درمیان واقعہ ہے۔ عقبہ کے لفظی معنی (لکھے ہیں کہ)’’ بلند پہاڑی رستے کے ہیں۔‘‘(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ ایم اے صفحہ 224-225) حضرت ابوالہیثم ان چھ افراد میں شامل تھے جنہوں نے اپنی قوم میں سے سب سے پہلے مکہ جا کر اسلام قبول کیا اور پھر مدینہ واپس آ کر اسلام کی اشاعت کی۔ ان کے بارے میںایک روایت یہ بھی ملتی ہے کہ آپ سب سے پہلے انصاری ہیں جو مکہ جا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے۔ آپ بیعت عقبہ اولیٰ میں شامل ہوئے اور تمام محققین کا اس پر اتفاق ہے کہ بیعت عقبہ ثانیہ میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ستر انصار میں سے بارہ نقباء منتخب فرمائے تو آپ بھی ان نُقَبَاء میں سے ایک تھے۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 341-342 ابو الہیثم بنالتَّیِّھان مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء) نقباء نقیب کی جمع ہے جس کا مطلب ہے کہ جو علم اور صلاحیت رکھنے والے لوگ تھے انہیں ان کا سردار یا لیڈر یا نگران مقرر کیا تھا۔

ایک حدیث میں روایت ہے کہ بیعتِ عقبہ کے دوران حضرت ابوالہیثم نے عرض کیا یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے اور بعض دیگر قبائل کے درمیان باہمی مدد کے کچھ معاہدے ہیں۔ جب ہم اسلام قبول کر لیں گے اور بیعت کر کے آپ ہی کے ہو جائیں گے تو ان معاہدوں کا معاملہ جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرمائیں گے ویسا ہی ہو گا۔( ابوالہیثم اس موقع پرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ )اس موقع پر میں آپ کی خدمت میں ایک گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ اے اللہ کے رسول! اب ہمارا تعلق آپ سے قائم ہو رہا ہے جب اللہ تعالیٰ آپ کی نصرت فرمائے اور آپ کی قوم پر آپ کو غلبہ نصیب ہو تو اس وقت آپ ہمیں چھوڑ کر واپس اپنی قوم میں نہ چلے جائیں اور ہمیں داغِ مفارقت نہ دیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر مسکرائے اور فرمایا اب تمہارا خون میرا خون ہو چکا ہے۔ اب میں تم میں سے ہوں اور تم مجھ میں سے ہو۔ جو تم سے جنگ کرے گا وہ مجھ سے جنگ کرے گا اور جو تم سے صلح کرے گا وہ مجھ سے صلح کرے گا۔(مسند احمد بن حنبل جلد 5 صفحہ 427 حدیث 15891 مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت مکہ کے بعد حضرت عثمان بن مَظْعُون اور حضرت ابوالہیثم انصاری کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی۔

(الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 7صفحہ 365 ابن الہیثم بنالتَّیِّھان مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء)
حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری شخص کے پاس گئے اور آپ کے ساتھ آپ کے ایک ساتھی بھی تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اگر تمہارے پاس پانی ہو یا آج رات مشک میں رہا ہو تو پلاؤ ورنہ ہم یہیں سے منہ لگا کر پانی پی لیں گے۔ وہاں پانی بہہ رہا تھا۔ وہ شخص اپنے باغ میں پانی لگا رہا تھا۔ اس شخص نے کہا یا رسول اللہ! میرے پاس رات کا پانی ہے آپ جھونپڑی کی طرف چلئے۔ وہ شخص یعنی حضرت ابوالہیثم آپ اور آپ کے ساتھی دونوں کو لے گیا اور ایک پیالے میں پانی ڈالا۔ پھر اس پر گھر کی بکری کا دودھ دھویا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ مشروب پیا پھر اس شخص نے بھی پیا جو آپ کے ساتھ تھا۔ یہ بخاری کی روایت ہے۔

(صحیح البخاری کتاب الاشربہ باب شرب اللبن بالماء حدیث 5613)

اسی طرح ایک روایت ہے حضرت جابر بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو الہیثم بن التَّیِّھان نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کھانا تیار کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کو دعوت دی۔ جب سب کھانا کھا چکے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا۔ اپنے بھائی کو بدلہ بھی دو۔ صحابہ نے کہا یا رسول اللہ! ہم اس کا کیا بدلہ دیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کوئی شخص کسی کے گھر میں جا کر کھانا کھائے اور پانی پئے تو اس کے لئے دعا کرے۔ یہ اس کے لئے اس کھانے کا بدلہ ہے۔(سنن ابو داؤد کتاب الاطعمۃ باب فی الدعاء لرب الطعام اذا اکل عندہ حدیث 3853) یہ ہیں اعلیٰ اخلاق جو ہر مسلمان کے لئے ضروری ہیں۔

حضرت ابوہریرۃؓ بیان کرتے ہیںکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے وقت میںگھر سے باہر نکلے جب عام طور پر کوئی باہر نہیں نکلتا اور نہ کوئی کسی سے ملتا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حضرت ابوبکر آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ اے ابوبکر تجھے کیا چیز لے آئی؟( یعنی گھر سے باہر آئے) تو انہوں نے عرض کیا کہ مَیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے لئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کو دیکھنے اور اس کو سلامتی بھیجنے کے لئے نکلا ہوں۔ تھوڑی دیر تک حضرت عمر بھی آ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ اے عمر تجھے کیا چیز لے آئی؟ عمر نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے بھوک لے آئی ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے بھی کچھ بھوک لگی ہوئی ہے۔ پھر آپ سب لوگ حضرت ابوالہیثم انصاری کے گھر کی طرف چل پڑے۔ ان کے پاس کافی بکریاں اور کھجور کے درخت تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو گھر پرنہ پایا۔ آپ نے ابوالہیثم کی بیوی سے کہا کہ تیرا خاوند کہاںہے؟ اس نے عرض کیا کہ وہ ہمارے لئے میٹھا پانی لینے گئے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد حضرت ابوالہیثم بھی مشک اٹھائے ہوئے آ گئے۔ انہوں نے مشک ایک طرف رکھ دی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لپٹ گئے اور اپنی جان و مال وارنے لگے۔ میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہوں۔ حضرت ابوالہیثم آپ تینوں کو لے کر اپنے باغ کی طرف گئے اور ایک چادر بچھا دی۔ پھر جلدی سے باغ کی طرف گئے اور کھجور کا پورا خوشہ ہی کاٹ کر لے آئے جس پر کچے پکے ڈوکے بھی تھے اور پکی ہوئی کھجوریں بھی تھیں۔ اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے ابوالہیثم! تم پکی ہوئی کھجوریں یا ڈوکے چن کر کیوں نہیں لائے بجائے جو سارا پورا bunch ہے وہ لے آئے ہو۔ تو عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے چاہا آپ اپنی پسند کے مطابق پکی کھجوریں یا ڈوکے خود چن کر کھا لیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر اور حضرت عمر نے کھجوریں کھائیں اور پانی پیا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خدا کی قسم! یہ وہ نعمتیں ہیں جن کے بارے میں تم قیامت کے دن پوچھے جاؤ گے۔ یعنی ٹھنڈا سایہ اور ٹھنڈا پانی اور تازہ کھجوریں۔ پھر حضرت ابوالہیثم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کھانے کا انتظام کرنے اٹھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دودھ دینے والی بکری کو ذبح نہ کرنا۔ اس پر انہوں نے ایک بکری کا بچہ ذبح کیا اور اسے لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے اور سب نے اسے کھایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تمہارا کوئی خادم بھی ہے؟ تو حضرت ابوالہیثم نے عرض کیا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب ہمارے پاس کوئی جنگی قیدی آئے تو ہمارے پاس آنا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو قیدی آئے تو حضرت ابوالہیثم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان دونوں میں سے ایک کو پسند کر لو۔ حضرت ابوالہیثم کہنے لگے یا رسول اللہ! آپ ہی میرے لئے انتخاب فرما دیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس سے مشورہ لیا جاتا ہے وہ امین ہوتا ہے۔( یہ بات بھی خاص طور پہ ہر ایک کے لئے نوٹ کرنے والی ہے کہ جس سے مشورہ لیا جاتا ہے وہ امین ہوتا ہے اس لئے ہمیشہ اچھا مشورہ دینا چاہئے۔) پھر آپ نے فرمایا کہ یہ خادم لے لو کیونکہ میں نے اسے عبادت کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ اور جو خوبی اس خادم کی بیان فرمائی وہ یہ ہے کہ عبادت کرتا ہے۔ اللہ کو یاد کرنے والا ہے۔ اس کے دل میں نیکی ہے۔ اس کے ساتھ پھر فرمایا کہ اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔ حضرت ابوالہیثم اپنی بیوی کے پاس لوٹے اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت کے بارے میں بتایا تو وہ کہنے لگیں کہ تم اس نصیحت کا حق پوری طرح ادا نہیں کر سکو گے جو تمہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے یہی کہ نیک سلوک کرنا۔ اب عورت ذات ہے اور پھر نوکر بھی کوئی نہیں۔ کام کرنے والا جو ملا ہے اس کے بارے میں یہ دیکھیں معیار، مومنانہ شان۔ ان کی اہلیہ ان کو یہ کہنے لگی کہ حق تو تبھی پورا ہو گا کہ تم اس کو آزاد کر دو۔ جو تمہیں ملازم ملا ہے اس کو آزاد کر دو۔ اس پر حضرت ابوالہیثم نے اس کو آزاد کر دیا۔(سنن الترمذی کتاب الزھد باب ما جاء فی معیشۃ اصحاب النبیﷺ حدیث 2369) یہ شان تھی ان صحابہ کی۔

حضرت ابوالہیثم غزوہ بدر، اُحد، خندق اور دیگر تمام غزوات میںبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرکاب تھے۔ غزوہ موتہ میں حضرت عبداللہ بن رواحہ کی شہادت کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوالہیثم کو خیبر میں کھجوروں کے پھل کا اندازہ کرنے کے لئے بھی بھجوایا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب حضرت ابوبکر نے آپ کو کھجوروںکے اندازے کے لئے بھجوانا چاہا تو انہوںنے جانے سے معذرت کر دی۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تو کھجوروں کے اندازے کے لئے جایا کرتے تھے۔ اس پر حضرت ابوالہیثمؓ نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کھجوروں کا اندازہ کیا کرتا تھا جب میں اندازے کر کے واپس آتا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے لئے دعا فرماتے تھے۔ اس وقت ان کو وہ خیال آ گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں لیتا تھا اور ایک جذباتی کیفیت تھی۔ یہ سن کر حضرت ابوبکرؓ نے انہیں نہ بھجوایا۔(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 342 ابو الہثیم مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء) تو یہ ایک جذباتی کیفیت تھی جو انہوں نے بیان کی ورنہ یہ لوگ وہ تھے جو ہمیشہ اطاعت کرنے والے تھے۔ نافرمانی کرنے والے نہیں تھے۔ اگر حضرت ابوبکرؓ پھر بھی حکم دیتے تو یہ ہو نہیں سکتا تھا کہ وہ تعمیل نہ کرتے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ کا آپ کو دوبارہ نہ کہنا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کو بھی ان کی اس جذباتی کیفیت کا خیال آ گیا اور سمجھ گئے۔ اس لئے حکم نہیں دیا۔ پھر جب حضرت عمر نے خبیر کے یہود کو جلا وطن کیا تو حضرت عمرؓ نے ان کی طرف ایسے افراد کو بھیجا جو ان کی زمین کی قیمت لگائیں۔ حضرت عمرؓ نے ان کی طرف حضرت ابوالہیثمؓ اور حضرت فروہؓ بن عمرو اور حضرت زیدؓ بن ثابت کو بھیجا۔ انہوں نے اہل خیبر کی کھجوروں اور زمین کی قیمت لگائی۔ حضرت عمرؓ نے اہلِ خیبر کو ان کی نصف قیمت دے دی جو کہ پچاس ہزار درہم سے زیادہ تھی۔(کتاب المغازی للواقدی جلد دوم باب شان فدک صفحہ 165 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2004ء) یہاں اب دیکھیں کہ وہ اس جگہ چلے گئے۔ وہ جذباتی کیفیت نہیں تھی۔ اب عرصہ گزر گیا تھا اس لئے ان کو کوئی روک نہیں کوئی ایسا امر مانع نہیں تھا۔

السلام علیکم کہنے کے متعلق بھی ایک روایت ان سے ملتی ہے۔ حضرت ابوالہیثمؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو السلام علیکم کہتا ہے اسے دس نیکیاں ملتی ہیں۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہنے والے کو بیس نیکیاں ملتی ہیں۔ اور السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہٗ کہنے والے کو تیس نیکیاں ملتی ہیں۔(الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 7صفحہ 366 ابو الہیثم بن التیہان مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء) حضرت ابوالہیثمؓ کے زمانہ وفات کی بابت مختلف رائے پائی جاتی ہیں۔ بعض کے نزدیک آپ کی وفات حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ہوئی تھی۔ بعض کے نزدیک آپ کی وفات بیس یا اکیس ہجری میں ہوئی تھی اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ نے جنگ صِفِین سینتیس ہجری میں حضرت علی کی طرف سے لڑتے ہوئے شہادت پائی‘‘۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 342 ابو الہیثم مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)،(اسد الغابہ جلد 5صفحہ 13 ابو الہیثم مالک بن التیہان مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)

تو یہ تھے وہ صحابہ جنہوں نے ہمارے لئے اُسوہ کو قائم کیا اور ہمیں بہت ساری باتوں کے متعلق آگاہی بھی دی۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرماتا چلا جائے۔

جمعہ اور نماز کے بعد میں دو جنازے غائب بھی پڑھاؤں گا۔ یہ پہلا جنازہ مکرم صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب کا ہے جو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے بیٹے تھے۔ 14؍اگست کو 94 سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی ہے۔اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ان کا دل کا آپریشن 2000ء میں امریکہ میں ہوا تھا اس کے بعد وہاں فالج کا حملہ ہوا۔ اس کے بعد تقریباً صاحب فراش ہی رہے۔ 18؍جولائی 1924ء کو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور مکرمہ سرور سلطان بیگم صاحبہ بنت حضرت غلام حسن صاحب پشاوری کے ہاں قادیان میں ان کی پیدائش ہوئی۔ ابتدائی تعلیم قادیان میں حاصل کی اور تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان سے میٹرک پاس کیا۔ پھر 1949ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم۔اے ہسٹری اعلیٰ نمبروں میںپاس کیا۔ ان کے پاس ہونے پر جب لوگوں نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مبارکبادیں تو علاوہ اور شکرگزاری کے الفاظ کے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے یہ بھی لکھا کہ دراصل مومنوں کی جماعت اپنی خوشی اور غمی کے موقعوں پر ایک دوسرے کے سہارے پر قائم ہو تی ہے اور ایک دوسرے کے سہارے سے راحت اور تسکین اور مضبوطی حاصل کرتی ہے کہ یہی جماعت کے نظریے کا مرکزی نکتہ ہے۔ پھر لکھتے ہیں کہ مگر میں دوستوں سے درخواست کروں گا کہ اس خوشی کی شرکت کے علاوہ یہ بھی دعا کریں کہ جہاں اللہ تعالیٰ نے عزیز مجید احمد کو علم کا ظاہری معیار پورا کرنے کی توفیق دی ہے اسی طرح اسے حقیقی علم سے بھی نوازے اور پھر اس علم پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا کرے کیونکہ یہی ہماری زندگیوں کا اصل مقصد اور منتہا ہے۔

(مضامین بشیر۔ جلد 2 صفحہ 605)

مرزا مجید احمد صاحب نے 7؍مئی 1944ء کو اپنی زندگی خدمت دین کے لئے وقف کر دی اور ساتھ تعلیم بھی جاری رکھی۔ دسمبر 1949ء میں جامعۃ المبشرین میں داخل ہوئے اور جولائی 1954ء میں جامعہ پاس کیا۔ ان کا نکاح 28؍دسمبر 1950ء کو جلسہ سالانہ کے تیسرے دن صاحبزادی قدسیہ بیگم صاحبہ بنت حضرت نواب عبداللہ خان صاحب اور حضرت نواب امۃ الحفیظ بیگم صاحبہ کے ساتھ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے پڑھا۔ ان کی اولاد میںان کی ایک بڑی بیٹی ہیں نصرت جہاں صاحبہ جو مرزا نصیر احمد طارق جو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے پوتے ہیں ان کی اہلیہ ہیں۔ پھر ان کے بیٹے ہیں مرزا محمود احمد۔ پھر ان کی ایک بیٹی درثمین ہے جو میر محموداحمد صاحب کی بہو ہیں۔ پھر ان کے بیٹے تھے مرزا غلام قادر صاحب شہید اور ان کی اہلیہ ہیں امۃ الناصر جو سید میر داؤد احمد صاحب کی بیٹی ہیں۔ پھران کی ایک پانچویں بیٹی فائزہ صاحبہ ہیںجو سید مدثر احمد صاحب کی بیوی ہیں اور یہ بھی واقف زندگی ہیں۔

جولائی 1954ء میں مکرم صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب نے شاہد کی ڈگری حاصل کی۔ ان کا پہلا تقرر 20؍ ستمبر 1954ء کو تعلیم الاسلام کالج ربوہ میں ہوا۔ 4؍نومبر 1956ء کو تحریک جدید کے تحت غانا کے شہر کماسی میں بطور پرنسپل سکول بھجوایا گیا۔ 24؍دسمبر 1963ء کو پاکستان واپس آئے۔ پھر اپریل 1964ء میں تعلیم الاسلام کالج میں دوبارہ تقرری ہوئی۔ پھر جب تعلیم الاسلام کالج بھٹو صاحب کے زمانے میں نیشنلائز ہوا تو اپریل 1975ء میں آپ نے نیشنلائزیشن کے بعد وہاں سے استعفیٰ دے دیا اور انجمن میں رپورٹ کر دی کہ میں واقف زندگی ہوں۔ 3؍جولائی 1975ء کو آپ کا تقرر بطور نائب ناظر تعلیم ہوا۔ 1976ء میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الثالث امریکہ اور یورپ کے ممالک کے دورے پر تشریف لے گئے تو مرزا مجید احمد صاحب بطور پرائیویٹ سیکرٹری حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کے ساتھ تھے۔ 1978ء میں آپ کو نائب ناظر اعلیٰ مقرر کیا گیا اور 1984ء میں یہاں سے پھر ریٹائرڈ ہوئے۔ ان کے داماد سید مدثر احمد کہتے ہیں کہ انہوں نے سیرۃ المہدی کا کچھ حصّہ انگریزی میں ترجمہ کیا۔ اور الفضل میں باقاعدہ مضامین لکھتے تھے۔ علمی آدمی تھے۔ یہ مضامین کتابی صورت میں ’’نقطۂ نظر‘‘ کے نام سے چھاپے گئے ہیں۔ پڑھنے لکھنے کا بہت شوق تھا۔ میںنے بھی ان کو دیکھا ہے کہ اکثر وقت لائبریری میں مطالعہ کرنے میں گزارتے تھے ۔ ان کی بہو مرزا غلام قادر شہید کی بیوہ امۃ الناصر لکھتی ہیںکہ بہت پیار کرنے والے، اعلیٰ ظرف کے مالک تھے۔ بچوں سے بہت پیار کرنے والے مخلص اور کھلے دل کے انسان تھے۔ یہ ان کی بڑی خوبی تھی کہ ہر عمر کے لوگوں میں ایڈجسٹ کر جاتے تھے اور ایک دوست کی طرح ان سے سلوک کرتے تھے۔ بچوں سے بھی بڑوں سے بھی نوجوانوں سے بھی۔ یہ لکھتی ہیں کہ’’ اپنے بیٹے مرزا غلام قادر شہید کی شہادت پر بہت صبر کا نمونہ دکھایا اور کہتی ہیں کہ شہادت کے بعد مرزا مجید احمد صاحب اور آپ کی اہلیہ بہت زیادہ قادر شہید کے بچوں کا خیال رکھتے۔ پھر بیماری کا بڑا لمبا عرصہ تھا اور بہت صبر اور ہمت کے ساتھ انہوںنے گزارا۔ غصہ والی طبیعت نہیں تھی۔ جس کسی سے بھی تعلق رکھا بہت مخلص ہو کر رکھا۔ اسی طرح ملازموں کا بھی خیال رکھنے والے تھے‘‘۔ ان کے داماد مرزا نصیر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ’’ مرزا مجید احمد صاحب صائب الرائے تھے اور بڑی واضح رائے رکھتے تھے۔ یہ نہیں کہ جو رائے چل پڑی ہے اسی میں ہاں کر دی بلکہ جو صحیح ہوتا تھا اس کے مطابق اپنی رائے کا اظہار کرتے تھے‘‘۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور ان کے بچوں کو بھی ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق دے اور ہمیشہ خلافت اور جماعت سے وابستہ رکھے۔

دوسرا جنازہ مکرمہ سیدہ نسیم اختر صاحبہ کا ہے جو محمد یوسف صاحب، آنبہ نوریہ ضلع شیخوپورہ کی اہلیہ تھیں۔ ان کی 27؍جولائی 2018ء کو وفات ہوئی۔اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی حضرت ولی محمد صاحب کی پوتی اور قاضی دین محمد صاحب کی بیٹی تھیں۔ پارٹیشن کے بعد آپ کے والد آپ کے خاندان کو لے کر قادیان سے ہجرت کر کے ربوہ منتقل ہو گئے۔ شادی کے بعد گاؤں آنبہ نوریہ میں زندگی گزاری۔ اس دوران مختلف جماعتی عہدوں پر خدمت کی توفیق پائی۔ اٹھارہ سال مقامی مجلس کی صدر لجنہ بھی رہیں۔ صوم و صلوۃ کی پابند۔ تہجد گزار تھیں۔ غریب پرور تھیں۔ ہمسایوں سے حسن سلوک کرنے والی سادہ اور منکسر المزاج تھیں۔ بڑی مخلص خاتون تھیں۔ قرآن کریم کی باقاعدہ تلاوت کرنے والی اور ترجمہ سے بھی پڑھنے والی تھیں۔ غور کرنے کی عادت تھی اور پھر اس پر عمل کرنے کی بھی کوشش کرتی تھیں۔ بچوں کو قرآن کریم پڑھایا کرتی تھیں اور کثیر تعداد میں احمدی اور غیر احمدی بچوں نے آپ سے قرآن کریم پڑھا۔ ان کے ایک بیٹے مالی مغربی افریقہ میں مبلغ ہیں۔ مالی میں ان کی تقرری ہوئی تو مغربی افریقہ میں ایبولہ بیماری پھیلی ہوئی تھی۔ کسی غیر از جماعت نے ان سے کہا کہ آپ کو چاہئے کہ اپنے بیٹے کو ان حالات میں وہاں نہ بھجوائیں۔وہاں تو بڑی وبا پھیلی ہوئی ہے۔ انہوں نے فوراً جواب دیا کہ میں نے اپنے دونوں بیٹے(دو بیٹے ان کے واقف زندگی ہیں، مربی ہیں) خدا کی راہ میں بہت دعاؤں کے بعد وقف کئے ہیں اور وقف کے بعد اب یہ اللہ تعالیٰ کے ہیں۔ اب مجھے اس بات کی پرواہ نہیں کہ خدا تعالیٰ ان سے کہاں اور کیسی خدمت لیتا ہے۔ مجھے تو اس بات پر ہی بہت فخر ہے کہ خدا تعالیٰ نے میرے بچوںکو اپنی خدمت کی توفیق دی۔ اپنے بچوں کو بھی یہی نصیحت کرتی تھیں کہ خدا تعالیٰ نے اگر آپ کو خدمت کا موقع دیا ہے تو ہمیشہ اللہ تعالیٰ اور اپنے وقف سے وفا کرنا۔ مرحومہ موصیہ تھیں۔ ان کے بیٹے ناصر احمد ناصر صاحب مبلغ سلسلہ مالی میں اور انصر محمود صاحب مربی سلسلہ پاکستان میں ہیں۔ یہ جو مالی میں ان کے بیٹے ہیں ان کے جنازے میں بھی شریک نہیں ہو سکے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے اور مرحومہ کے درجات بلند فرمائے اور ان کی نیکیاں ان کی نسلوں میں جاری فرمائے۔

اگلے خطبہ جمعہ کے لیے…

گزشتہ خطبہ جمعہ کے لیے…

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button