خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 07 ستمبر 2018ء
الحمد للہ آج سے جماعت احمدیہ جرمنی کا جلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے اور ہمیں اللہ تعالیٰ ایک اور جلسہ سالانہ میں شمولیت کی توفیق عطا فرما رہا ہے۔
جلسہ سالانہ کا مقصد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان فرماتے ہوئے یہ فرمایا ہے کہ یہ جلسہ کوئی دنیاوی میلہ نہیں ہے اور نہ ہی یہاں جمع ہونا کسی دنیاوی مقصد اور تعداد دکھانے کے لئے ہے یا دنیا پر کوئی دنیاوی اثر ڈالنے کے لئے ہے۔ بلکہ یہاں آنے والوں کو، یہاں جمع ہونے والوں کو خالصۃً لِلہ جمع ہونا چاہئے تا کہ جہاں اپنی علمی اور روحانی پیاس بجھانے والے ہوں، اپنے علم اور روحانیت میں اضافہ کرنے والے ہوں، وہاں اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق کے بارے میں علم حاصل کرنے والے اور ان حقوق کو ادا کرنے کی کوشش کرنے والے ہوں۔
جلسہ سالانہ کے میزبانوں اور کارکنان اور اسی طرح جلسہ میں شامل ہونے والے مہمانوں کے لئے قرآن و حدیث اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ارشادات کے حوالہ سے نہایت اہم نصائح
ہر کارکن بھی اور ہر احمدی بھی جو جلسہ میں شامل ہو رہا ہے اسلام کی خوبصورت تعلیم کا عملی نمونہ دکھا کر تبلیغ کا ذریعہ بنتا ہے، خوبصورت تعلیم دکھانے کا ذریعہ بنتا ہے۔ پس اس لحاظ سے آپ سب شامل ہونے والے بھی اور ڈیوٹی دینے والے بھی ایک خاموش تبلیغ کر رہے ہوتے ہیں۔
صرف جلسہ میں شامل ہوکر آپ مہمان نہیں بن جاتے۔ اگر آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم پر عمل نہیں کر رہے، آپ کی باتوں پر عمل نہیں کر رہے، آپ کے جلسہ کے مقصد کو پورا نہیں کر رہے تو آپ ہزار بار کہتے رہیں کہ ہم جلسہ پر آئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمان ہیں، آپ مہمان نہیں ہیں۔ کیونکہ آپ کے عمل ثابت کر رہے ہیں کہ آپ کی وہ حرکتیں نہیں ہیں۔
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بر موقع جلسہ سالانہ جرمنیفرمودہ مورخہ 07؍ ستمبر 2018ء بمطابق07؍تبوک 1397 ہجری شمسی
بمقامDM Arena کالسروئے (Karlsruhe)،جرمنی
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔
الحمد للہ آج سے جماعت احمدیہ جرمنی کا جلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے اور ہمیں اللہ تعالیٰ ایک اور جلسہ سالانہ میں شمولیت کی توفیق عطا فرما رہا ہے۔
جلسہ سالانہ کیا ہے؟ ہم سالوں سے سنتے آ رہے ہیں بلکہ جب سے کہ جلسہ سالانہ کے انعقاد کا آغاز ہوا، ہے سوا سو سال سے زیادہ عرصہ پہلے سے یہی سنتے آ رہے ہیں کہ جلسہ سالانہ کا مقصد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرماتے ہوئے یہ فرمایا ہے کہ یہ جلسہ کوئی دنیاوی میلہ نہیں ہے اور نہ ہی یہاں جمع ہونا کسی دنیاوی مقصد اور تعداد دکھانے کے لئے ہے یا دنیا پر کوئی دنیاوی اثر ڈالنے کے لئے ہے۔(ماخوذ از شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 395) بلکہ یہاں آنے والوں کو، یہاں جمع ہونے والوں کو خالصۃً لِلہ جمع ہونا چاہئے تا کہ جہاں اپنی علمی اور روحانی پیاس بجھانے والے ہوں، اپنے علم اور روحانیت میں اضافہ کرنے والے ہوں، وہاں اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق کے بارے میں علم حاصل کرنے والے اور ان حقوق کو ادا کرنے کی کوشش کرنے والے ہوں۔
لیکن مجھے یہ کہتے ہوئے افسوس ہے کہ یہاں بعض لوگ جلسہ میں شامل ہونے کے لئے آتے تو ہیں لیکن حاصل کچھ نہیں کرتے سوائے اس کے کہ کچھ دوستوں کو مل لیا اور کچھ شغل کی باتیں ہو گئیں۔ ایسے لوگ پھر مسائل بھی کھڑے کرتے ہیں۔ بعض نوجوانوں اور بچوں کے لئے ٹھوکر کا باعث بھی بنتے ہیں۔ بعض بڑی کریہہ قسم کی حرکتیں بھی کر لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہمیں کوئی نہیں دیکھ رہا۔ ہمیشہ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ ہمیشہ اور ہر وقت دیکھ رہا ہے۔
پس سب سے پہلی بات جو مَیں آج کہنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ ہر ایک کو ذہن میں یہ بات اچھی طرح راسخ کر لینی چاہئے کہ یہ جلسہ خالصۃً روحانی جلسہ ہے۔ اس کا انعقاد اس لئے کیا جاتا ہے تا کہ ہم تقویٰ میں بڑھیں اور خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کریں اور اس میں ترقی کریں۔ بعض غیر مہمانوں کے سامنے تو پردہ پوشی ہو جاتی ہے۔ ان کے سامنے کچھ احتیاط بھی ہو جاتی ہے اور کچھ اللہ تعالیٰ بھی پردہ پوشی فرماتا ہے کہ چند ایک کے غلط رویّوں اور حرکات سے جماعت کی بدنامی نہ ہو۔تو بہرحال جیسا کہ مَیں نے کہا آج پہلی بات جس کی طرف میں توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ جلسہ کا مقصد کیا ہے؟ تو وہ مقصد یہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ تقویٰ پیدا ہو۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جلسہ کے مدّعا اور مقصد کو بیان فرماتے ہوئے شامل ہونے والوں کے لئے فرمایا کہ’’ اُن کے اندر خدا تعالیٰ کا خوف پیدا ہو اور وہ زُہداور تقویٰ اور خدا ترسی اور پرہیز گاری اور نرم دلی اور باہم محبت اور مؤاخات میں دُوسروں کے لئے ایک نمونہ بن جائیں اور انکسار اور تواضع اور راستبازی اُن میں پیدا ہو‘‘۔
(شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 394)
پھر آپ نے جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ’ ’تقویٰ اختیار کرو۔ تقویٰ ہر چیز کی جڑ ہے۔ تقویٰ کے معنی ہیں ہر ایک باریک در باریک رگِ گُناہ سے بچنا۔‘‘ فرمایا’’ تقویٰ اس کو کہتے ہیں کہ جس امر میں بدی کا شُبہ بھی ہو۔ اس سے بھی کنارہ کرے۔‘‘(ملفوظات جلد2 صفحہ321۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان) اس سے بھی بچو۔
اب ہر ایک اپنا جائزہ لے تو خود ہی اپنا محاسبہ ہو جائے گا کہ کیا اس تعریف کے مطابق ہم باریک در باریک گناہ سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں؟ا ور جس بات میں برائی کا شبہ بھی ہو اس سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں؟ اس بات کا پھر ہر کوئی اگر محاسبہ کرے اور اس بات پر عمل کرنے والا ہو، محاسبہ کرنے کے بعد یہ دیکھے کہ واقعی ہم عمل کرنے والے ہیں اور اس کے مطابق عمل کرنے والے ہوں تو تب ہمیں سمجھنا چاہئے کہ ہم نے جلسہ پہ آنے کے مقصد کو پورا کر دیا یا پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ورنہ تقریریں سننا اور وقتی جوش دکھانا اور نعرے لگانا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ بعض نعرے لگا رہے ہوتے ہیں اور ان کے چہروں کے تاثرات اور ہنسی سے یہ پتہ لگ رہا ہوتا ہے کہ کوئی دلی جوش نہیں ہے بلکہ صرف نعرہ برائے نعرہ لگ رہا ہے۔ پہلے تو یہ تاثرات اور حرکات چُھپ جاتی تھیں لیکن اب کیمرے کی آنکھ بغیر پتہ لگے بغیر کسی کے علم میں لائے ان کی حالتوں کے بارے میں بتا دیتی ہے اور پھر یہ مستقل محفوظ ہو جاتی ہے۔ پہلے تو یہ پروگرام صرف ایم ٹی اے پر ہی ہوتے تھے۔ اب سوشل میڈیا پر بھی ہوتے ہیں وہاں بھی شکلیں نظر آ جاتی ہیں۔ نظر آ رہا ہوتا ہے کہ کس کے چہرے پر کیسا تاثر ہے۔
پھر ایک اور معیار انسان کی اندرونی حالت اور تقویٰ کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان فرمایا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ’’ تقویٰ کا اثر اسی دُنیا میں متقی پر شروع ہو جاتا ہے۔یہ صرف اُدھار نہیں، نقد ہے۔‘‘ فرمایا کہ’’ بلکہ جس طرح زہر کا اثر اور تریاق کا اثر فورًابدن پر ہوتا ہے۔‘‘ زہر انسان پی لے یا کوئی دوائی کھا لے اس کا اثر انسان پر ظاہر ہونا شروع ہو جاتا ہے بلکہ فوری بعض دفعہ ہو جاتا ہے۔ فرمایا کہ’’ اسی طرح تقویٰ کا اثر بھی ہوتا ہے۔‘‘(ملفوظات جلد2 صفحہ324۔ ایڈیشن1985ء مطبوعہ انگلستان) تو یہ معیار آپ نے بیان فرمایا۔ پس یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ انسان تقویٰ پر چلنے والا ہو اور اس کا اثر ظاہر نہ ہو رہا ہو۔ تقویٰ پر چلنے والا کبھی برائی کے قریب جا ہی نہیں سکتا۔ اس کے خیالات بھی پاک ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ پس اس لحاظ سے ہر کوئی اپنا جائزہ خود لے سکتا ہے۔
آپ نے ایک موقع پر فرمایا :’’مَیں یہ سب باتیں بار بار اس لئے کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے جو اس جماعت کو بنانا چاہا ہے تو اس سے یہی غرض رکھی ہے کہ وہ حقیقی معرفت جو دنیا میں گُم ہو چکی ہے…‘‘ اللہ تعالیٰ کی معرفت رہی نہیں دنیا میں گم ہو گئی دنیا کی چیزوں نے غلبہ پا لیا اللہ تعالیٰ کی طرف رجحان کم ہو گیا۔ نعرہ یا عہد تو دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا ہے لیکن بہت سارے ایسے مواقع آ جاتے ہیں کہ دنیا مقدم ہو جاتی ہے اور دین پیچھے چلا جاتا ہے فرمایا’’ اور وہ حقیقی تقویٰ و طہارت جو اس زمانہ میں پائی نہیں جاتی۔ اسے دوبارہ قائم کرے۔‘‘ (ملفوظات جلد7صفحہ277-278۔ ایڈیشن1985ء مطبوعہ انگلستان)مقصد کیا ہے جماعت کا؟ کہ وہ تقویٰ اور طہارت جو اس دنیا میں پائی نہیں جاتی اسے دوبارہ قائم کرے۔ پس جو اللہ تعالیٰ کی منشائ کے مطابق تقویٰ اور طہارت کو قائم کرنے کی کوشش کرے گا وہی کامیاب ہو گا۔ وہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نظر میں حقیقی احمدی ہے اور وہی اس جلسہ کے مقصد کو پورا کرنے والا ہے۔
جن دوسری دو باتوں کی طرف آج مَیں توجہ دلانا چاہتا ہوں ان پر عمل بھی اسی صورت میں ہو گا اور ہو سکتا ہے جب دلوں میں خوفِ خدا ہو اور تقویٰ ہو اور جلسے پہ آنے کے مقصد کو پورا کرنے کی خواہش ہو۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جلسہ کے مقصد کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ہر شامل ہونے والے میں کیا خصوصیات پیدا ہونی چاہئیں۔ یعنی خدا تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنے کے بعد اس میں نرم دلی بھی پیدا ہو۔ ایک دوسرے کے لئے دل نرم ہوں۔ آپس کی محبت ہو۔ بھائی چارہ ہو۔ عاجزی ہو۔ انکساری ہو اور سچائی کے اعلیٰ معیار قائم ہوں۔
جلسہ میں شامل ہونے والوں کے دو طبقے ہیں یا دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ یہاں ہمارے جلسہ میں شامل ہونے والے نہیں کہنا چاہئے بلکہ جلسہ کا جو انتظام ہے ایک اس کے تحت ایک طبقہ ہے اور ایک وہ لوگ جو شامل ہونے کے لئے آ رہے ہیں۔ بہرحال یہ دو قسم کے لوگ ہیں اور ان دونوں قسموں کے لوگوں میں یہ خصوصیات پیدا ہونی ضروری ہیں۔ نہ ہی وہ ان باتوں سے بری ہو سکتے ہیں جو ڈیوٹیاں دے رہے ہیں، خدمت کر رہے ہیں کارکنان ہیں۔ نہ وہ جو شامل ہونے والے ہیں۔ دونوں کو ان معیاروں پر اپنے آپ کو پرکھنا ہو گا۔ جو میزبان ہیں ان کو بھی اور جو مہمان ہیں ان کو بھی۔ ان دونوں میں تقویٰ ہو گا تو یہ خصوصیات پیدا ہوں گی۔ پس اس حوالے سے دونوں کو مَیں ان کی ذمہ داریوں اور فرائض کی طرف کچھ توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ اگر دونوں میں یہ خصوصیات پیدا ہو جائیں تو جلسہ کا ماحول بھی خوشگوار ہو گا اور جلسہ پر آنے کا مقصد بھی پورا ہو گا۔ ڈیوٹی دینے والے یہ سمجھ سکتے ہیں کہ ہم نے ڈیوٹیاں دیں ہم رضاکار ہیں تو ہم نے کوئی بہت بڑا مقصد حاصل کر لیا یا اللہ کو راضی کر لیا۔ ہاں راضی کر لیا اللہ تعالیٰ کو اگر ان باتوں پر عمل بھی ساتھ ساتھ کیا۔ نہ ہی شامل ہونے والے یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم بڑی دُور کا سفر طے کر کے آئے ہیں تو ہم نے اللہ تعالیٰ کو راضی کر لیا۔ ہاں راضی اس صورت میں کر لیا جب اللہ تعالیٰ کی معرفت پیدا ہو اور حقوق العباد کی طرف توجہ پیدا ہو۔
سب سے پہلے مَیں کارکنان یا میزبانوں کو توجہ دلاؤں گا کہ اپنے اندر یہ خصوصیات خاص طور پر پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ اپنے جذبات کو کنٹرول رکھیں۔ ہر حال میں مہمان کا خیال رکھناہے۔ نرم زبان استعمال کرنی ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا۔ عہدیداروں کو اور کارکنوں کا سب سے زیادہ پہلا فرض بنتا ہے کہ نرم زبان استعمال کریں۔عہدیداروں اور کارکنوں کا سب سے پہلا فرض بنتا ہے کہ عاجزی دکھائیں۔ ہر حال میں مہمان کا خیال رکھنا ہے۔ عہدیداروںکو بھی، کارکنان کو بھی نرم زبان استعمال کرنی ہے۔
پھر کارکنان کے آپس کے تعلق ہیں اس میں بھی محبت اور اخلاص اور بھائی چارہ ہونا چاہئے مہمانوں کے لئے بھی اور آپس کے تعلقات میں بھی۔ عہدیدار اور ماتحت کام کرتے ہوئے ایک دوسرے کی بات پر غصہ میں آ گئے تو مہمانوں پر اور خاص طور پر غیر مہمانوں پر جو یہ سنتے ہیں کہ احمدیوں کے جلسہ میں سب آپس میں محبت اور پیار سے رہتے ہیں اور کسی قسم کے غصہ کا اظہار نہیں کرتے یا نہیں ہوتا، جب اس قسم کی باتوں کو دیکھیں گے فسادوں کو دیکھیں گے یا کہیں بھی دو اشخاص کو اونچا بولتا ہوا دیکھیں گے تو ان پر غلط اثر ہو گا۔ کارکنوں کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ جب اپنے آپ کو چند دن کی خدمت کے لئے پیش کر دیا اور خدمت بھی وہ جو بڑا اعلیٰ مقام رکھتی ہے، جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمانوں کی خدمت ہے اس میں اپنے رویّے پھر ایسے رکھیں کہ نہ کسی مہمان کو تکلیف پہنچے، نہ ایک دوسرے کو جو کارکن ہیں ایک دوسرے سے تکلیف پہنچے۔ جلسہ کی تربیت کا یہ حصہ ہے کہ افسروں نے بھی اور ماتحتوں نے بھی اپنے جذبات کو قابو میں رکھنا ہے۔ پارکنگ ہے، ٹریفک کنٹرول سے لے کر کھانا پکانے اور صفائی کرنے والے کارکنان تک ان سب کو اپنے اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ ان دنوں میں کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا۔(البقرۃ84:)یعنی لوگوں سے نرمی سے بات کیا کرو۔ یہ بات اللہ تعالیٰ نے اخلاق کے معیار قائم کرنے کے لئے بتائی ہے۔ یہ ایک عمومی ہدایت ہے۔ ایک مومن سے ہر وقت ہی اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ ہونا چاہئے۔ لیکن ان خاص حالات میں جبکہ آپ نے اپنے آپ کو جلسہ کے مہمانوں کی خدمت کے لئے پیش کیاہے، وہ مہمان جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمان ہیں، وہ مہمان جو اپنی علمی اور عملی اور روحانی حالتوں کے بہتر کرنے کے لئے یہاں آئے ہیں ان کی عملی تربیت تو کارکنان اپنے رویّے سے بھی کر سکتے ہیں اور کریں گے۔ پس اس لحاظ سے آپ لوگ جو کام کرنے والے ہیں دوہرے ثواب کے مستحق ہو رہے ہیں۔ ایک تو جلسہ کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کر کے اور دوسرے اپنے اچھے اخلاق سے دوسروں کی تربیت کر کے۔ دوسروں کو بھی احساس دلا کر کہ جلسہ پر ہر آنے والا اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرنے والا ہونا چاہئے۔ اگر کسی نے غلط رنگ میں یا سختی سے بات کر دی اور غلط بات کرنے والا جب یہ دیکھے گا کہ کارکن اس کا جواب نرمی سے اور عمدہ اخلاق سے دے رہے ہیں تو یہ عملی نمونہ خود بخود دوسرے کو اس کی غلطی کا احساس دلا کر عملی تربیت کرنے والا ہو گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میزان میں حُسنِ خلق سے زیادہ وزن رکھنے والی کوئی چیز نہیں ہے۔ (سنن ابی داؤد کتاب الادب باب فی حسن الخلق حدیث 4799) وزن کرو، تکڑی میں تولو تو اعلیٰ اخلاق جو ہیں ان کا وزن سب سے زیادہ ہو گا کیونکہ اعلیٰ اخلاق ہی ہیں جو دنیا کے فسادوں کو ختم کرنے و الے ہیں۔ اعلیٰ اخلاق ہی ہیں جو پھر اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرنے کی طرف بھی لے جاتے ہیں۔ بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ بعض حالات میں حقوق العباد حقوق اللہ سے بڑھ جاتے ہیں۔(ماخوذ از ملفوظات جلد 10 صفحہ 290۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان) گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اعلیٰ اخلاق جو ہیں ان کی وجہ سے جذبات پر کنٹرول ہو گا صبر کا مظاہرہ ہو گا دوسرے کی غلط بات کا بھی نرمی سے جواب دینے کا حوصلہ پیدا ہو گا۔ انسان کے بہت سے دوسرے گناہ ہیں یہی اعلیٰ اخلاق پھر ان گناہوں کی معافی کا ذریعہ بھی بن جاتے ہیں۔
پس پہلی بات ہر کارکن کو اپنے پلے باندھ کر اس پر عمل کرنے والی جو ہے وہ یہی ہے کہ اس کے اخلاق اعلیٰ ہوں۔ پس دیکھیں کہ کتنا سستا سودا ہے۔ اللہ تعالیٰ کس طرح ان لوگوں کو خاص طور پر نواز رہا ہے جو اس کی خاطر صرف اپنی زبان بند رکھتے ہیںا ور چہرے پر مسکراہٹ رکھتے ہیں۔ اگر کوئی کہے کہ ڈیوٹی کے بوجھ کی وجہ سے یا فلاں شخص کے انتہائی غلط رویّے کی وجہ سے، کسی شخص کے انتہائی غلط رویّے کی وجہ سے مجھے بھی غصہ آ گیا تو ہمیں ہمیشہ اپنے آقا و مولا اور مطاع حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھنا چاہئے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ تمہارے لئے اُسوۂ حسنہ ہیں۔ کون سی تکلیف تھی جو آپ کو نہیں پہنچی۔ کون سی پریشانی تھی جو آپ کو نہیں ہوئی یا جن کی وجوہات آپ کے لئے پیدا نہیں کی گئیں۔ انسان کے تصور میں جتنے بھی کوئی سخت حالات اور پریشانیاں اور تکلیفیں ہو سکتی ہیںان سب سے زیادہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان پریشانیوں اور تکلیفوں سے گزرے ہیں اور برداشت کی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود صحابہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کسی کو تبسّم فرمانے والا نہیں دیکھا۔(سنن الترمذی ابواب المناقب باب قول ابن جزء ما رایت احداً اکثر تبسماً… الخ حدیث 3641)ہم نے آپ سے زیادہ کسی کو مسکرانے والا نہیں دیکھا۔ مسکراہٹ ہر وقت آپ کے چہرہ مبارک پر ہوتی تھی۔ یہ ہے نمونہ ہمارے آقا و مطاع حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا۔
پھر آپؐ نے یہ بھی فرمایا اوریہ بات فرما کر ہمیں ہوشیار کیا کہ جو شخص نرمی سے محروم کیا گیا۔ وہ خیر سے بھی محروم کیا گیا۔(سنن الترمذی ابواب البر والصلۃ باب ما جاء فی الرفق حدیث 2013) اگر تمہارے اندر نرمی نہیں تو پھر تم خیر سے بھی محروم ہو گئے۔ یہ کارکنوں کے لئے بھی ہے۔ لوگوں کے لئے بھی ہے۔ بہت سارے لوگ آپس میں ایک دوسرے سے الجھ پڑتے ہیں پھر ہر خیر سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ آپ کو سال کے بعد جو موقع عطا فرما رہا ہے اس میںہر ایک کو اور خاص طور پر کارکنان کو حسن خلق کے معیار، اپنی نرمی کے معیار، اپنے چہروں پر مسکراہٹوں کے اظہار پہلے سے بڑھ کر کرنے چاہئیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو مہمانوں سے حسن خلق کے اظہار کے لئے ہمیں نصیحت فرمائی ہے اسے بھی ہر کارکن کو اپنے پیش نظر رکھنا چاہئے۔ آپ نے فرمایا کہ :
’’مہمان کا دل مثل آئینہ کے نازک ہوتا ہے اور ذرا سی ٹھیس لگنے سے ٹوٹ جاتا ہے‘‘۔
( ملفوظات جلد 5 صفحہ 406۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھر مہمانوں کی خدمت کرنے والوں کو عمومی ہدایت دیتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ ’’دیکھو بہت سے مہمان آئے ہوئے ہیں ان میں سے بعض کو تم شناخت کرتے ہو بعض کو نہیں۔ اس لئے مناسب یہ ہے کہ سب کو واجب الاکرام جان کر تواضع کرو۔‘‘
( ملفوظات جلد 6صفحہ 226۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس مہمانوں کی مہمان نوازی میں کسی قسم کی تخصیص نہیں ہونی چاہئے۔ یہ نہ ہو کہ جاننے والوں کے ساتھ بہتر سلوک ہو رہا ہو اور جن کو نہیں جانتے ان کا صحیح خیال نہ رکھا جا رہا ہو یا ان سے رُوکھے طریقے سے مل رہے ہوں۔
اس دفعہ یہاں افریقہ سے اور بہت سے دوسرے ممالک سے بھی کافی تعداد میں مہمان آئے ہیں۔ پہلے تو ایسٹ یورپ کے اور یورپ کے علاقے کے آتے تھے، ہر آنے والے کو خوشگوار اور اچھی یادیں جلسہ سالانہ جرمنی اور یہاں کے مہمان نوازی کرنے والوں کی لے کر جانا چاہئے اور یہ آپ لوگوں کا جو کام کرنے والے ہیں ان کے رویّوں پر منحصر ہے ۔ پس اس لحاظ سے بھی اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور پھر خاص طور پر جو غیر از جماعت مہمان آتے ہیں ان کے لئے ہر کارکن بھی اور ہر احمدی بھی جو جلسہ میں شامل ہو رہا ہے اسلام کی خوبصورت تعلیم کا عملی نمونہ دکھا کر تبلیغ کا ذریعہ بنتا ہے، خوبصورت تعلیم دکھانے کا ذریعہ بنتا ہے۔ پس اس لحاظ سے آپ سب شامل ہونے والے بھی اور ڈیوٹی دینے والے بھی ایک خاموش تبلیغ کر رہے ہوتے ہیں۔
ہر شعبہ کے کارکن کو یاد رکھنا چاہئے کہ اس کا شعبہ اہم ہے۔ جیسا مَیں نے کہا کہ ٹریفک کنٹرول کا کام ہے یا پارکنگ کا شعبہ ہے۔ رجسٹریشن اور سکیننگ کا شعبہ ہے یا کھانا پکانے کا یا کھانا کھلانے کا شعبہ ہے۔ صفائی اور نظافت کا شعبہ ہے یا ڈسپلن قائم کرنے کا شعبہ ہے۔ ہر شعبہ صرف مہمانوں کی خدمت ہی نہیں کر رہا ہوتا بلکہ خاموش تبلیغ بھی کر رہا ہوتا ہے ۔ پس اپنی ڈیوٹیوں کی اس اہمیت کو بھی سمجھیں۔ ڈسپلن میں بھی ضروری نہیں ہوتا کہ چہرے پر سختی طاری کریں تو تب ہی اثر ہو گا۔ عورتوں میں خاص طور پر یُوکے کے جلسہ میں بچیاں ڈسپلن قائم کرتی رہی ہیں اور مسکراتے چہروں کے ساتھ قائم کرتی ہیں۔ کسی نے مجھے بتایا کہ فلاں بچی جو لجنہ میں شامل ہو گئی ہے وہ بھی ہمیں شرمندہ کر دیتی تھی کہ جب بھی بات کرنے لگو یا عورتیں بیٹھ کے آپس میں ایک دوسرے سے بات کرنے لگیں تو مسکراتے چہرے کے ساتھ خاموش رہنے کا کارڈ لے کر آگے کر دیتی تھی۔ منہ سے کچھ نہیں بولنا۔ اگر تو سلجھے ہوئے لوگ ہیں تو یقیناً وہ ڈیوٹی والوں کے توجہ دلانے سے خاموش ہو جائیں گے۔ اور اگر جاہل اور بدخلق ہیں اور خاموش نہیں ہوں گے یا پھر بعض ایسے بدخُلق بھی ہوتے ہیں جو یہ کہہ کر ڈیوٹی والے کا منہ بند کرا دیتے ہیں کہ ہمیں پتہ ہے کہ اب خاموش ہونا ہے۔ پھر ایسے لوگوں کو خاص طور پر عورتوںکو، ان نوجوان لڑکیوں کو، کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اپنی انچارج کو کہہ دیں وہ خود ان کو سمجھا دیں گی۔ لیکن لڑکیوں کا کام نہیں ہے کہ بڑی عمر کی عورتوں سے الجھیں خواہ وہ کسی جگہ بھی ہوں۔
اسی طرح پر خاص طور پر کھانے کی جگہ پر خیال رکھیں کہ اگر کوئی بے وقت بھی آ جاتا ہے اور اس کی مجبوری ہے بیمار ہے یا بچہ رو رہا ہے، اس کو ضرورت ہے تو جس حد تک ان کی مدد ہو سکتی ہے وہ کرنی ہے۔ اگر نہیں کر سکتی تو خاموشی سے خوش اخلاقی سے اور خوشی سے جواب دیں۔ اگر کوئی سخت الفاظ استعمال بھی کر لیتا ہے تو خاموش ہو جائیں۔
اسی طرح مَردوں اور عورتوں کے غسل خانوں میں جو صفائی کا انتظام ہے وہاں بھی خیال رکھنا چاہئے۔
ان باتوں کی طرف مَیں نے کل کارکنان کو ہدایات دیتے ہوئے بھی توجہ دلائی تھی۔ ڈیوٹی احسن رنگ میں اور اس معیار کے مطابق دینے کے لئے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام چاہتے ہیں یہ ضروری ہے کہ عاجزی اور انکساری پیدا ہو۔ دل میں دوسروں کے لئے محبت پیدا ہو، اس کے جذبات ہوں اور اگر یہ ہو گا تو آپ کی ڈیوٹیاں بھی اللہ تعالیٰ کی خاطر ہوں گی۔
اسی طرح آنے والے مہمانوں کو بھی یاد رکھنا چاہئے۔ شروع میں بھی مَیں ان کو کہہ چکا ہوں کہ آپ کایہاں آنے کا مقصد یہ ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنا ہے اور اس کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے ہیں اور پھر اس کے بندوں کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ کرنی ہے۔ آنے والے مہمانوں کو ہمیشہ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اس جلسہ میں اس لئے شامل ہو رہے ہیں جیسا کہ مَیں ذکر کر آیا ہوں کہ دلوں میں تقویٰ پیدا کرنا ہے۔ اپنی علمی، عملی اور روحانی حالت کو بہتر کرنا ہے۔ پس اگر یہ مقصد سامنے ہو گا تو کسی قسم کی رنجش اور شکایت دوسروں سے اور خاص طور پر کام کرنے والوں سے، کارکنان سے پیدا ہی نہیں ہو گی۔ یہ ڈیوٹی دینے والے بہت سے ایسے ہیں جو نوجوان ہیں، سکولوں میں پڑھ رہے ہیں، کالج یونیورسٹیوں میں پڑھ رہے ہیں۔ بعض لوگ ایسے ہیں جو اچھے شعبوں میں کام کرنے والے ہیں۔ یہ ڈیوٹی صرف اس لئے دے رہے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمان آ رہے ہیں۔ پس آپ جو شامل ہونے والے ہیں ان کو بھی اپنے آپ کو اس معیار پر لانے کی ضرورت ہے جو آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمان ہونے کا اہل بنانے والے ہوں۔ صرف جلسہ میں شامل ہوکر آپ مہمان نہیں بن جاتے۔
اگر آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم پر عمل نہیں کر رہے، آپ کی باتوں پر عمل نہیں کر رہے، آپ کے جلسہ کے مقصد کو پورا نہیں کر رہے تو آپ ہزار بار کہتے رہیں کہ ہم جلسہ پر آئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمان ہیں، آپ مہمان نہیں ہیں۔ کیونکہ آپ کے عمل ثابت کر رہے ہیں کہ آپ کی وہ حرکتیں نہیں ہیں۔
پس شامل ہونے والے بھی اپنے آپ کو ان باتوں سے بری الذمہ نہ سمجھیں۔ آپ کو بھی اپنے رویّے ٹھیک کرنے ہوںگے اور یہ کام کرنے والے جو ہیں اُن سے تعاون کریں۔ بیشک یہ لوگ آپ کی خدمت پر مامور ہیں لیکن آپ کی طرف سے بھی اچھے اخلاق کا مظاہرہ ہونا چاہئے۔ یہ نوجوان جو ایک جذبہ کے تحت خدمت کے لئے آتے ہیں ان سے مہمانوں کو بھی حسنِ سلوک کرنا چاہئے۔ اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرنا چاہئے تا کہ ان میں خدمت کا شوق اور جذبہ جو ہے وہ مزید ابھرے اور قائم رہے۔ یہ نہیں کہ مہمانوں کے رویّوں کی وجہ سے آئندہ سال وہ ڈیوٹیوں سے بھاگنا شروع ہو جائیں۔
پھر جرمنی کے رہنے والے مہمانوں کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ وہ ایک لحاظ سے مہمان ہیں اور ایک لحاظ سے میزبان بھی ہیں۔ جو جرمنی سے باہر سے آنے و الے ان کی خاطر انہیں قربانی دینی چاہئے کیونکہ جو جرمنی میں نہیں رہتے اور باہر سے آ کر جلسہ میں شامل ہو رہے ہیں وہ اب مہمان بن گئے اور یہاں کے رہنے والے میزبان بن گئے۔ پس ان کی خاطر آپ لوگوں کو قربانی دینی چاہئے۔ بیٹھنے کے لئے جگہ دینی ہے، کھانا کھانے کے وقت اگر جگہ کی تنگی ہے وہاں جگہ دینی ہے یا اور کسی قسم کی مدد کی ضرورت ہے تو آپ سب کا فرض ہے کہ ان کی مدد کریں۔ زبان وغیرہ کے مسئلہ کی وجہ سے بعض دفعہ مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ جہاں بھی ضرورت ہو مدد کریں۔ یہ صرف ڈیوٹی دینے والوں کا کام نہیں ہے کہ مدد کریں بلکہ یہاں کے رہنے والے ہر احمدی کا فرض ہے کہ ان کی مدد کریں اور یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشاد کے مطابق آپس کی محبت اور بھائی چارے کا اظہار ہے۔
اسی طرح غیر از جماعت مہمان جو آئے ہوئے ہیں ان کو بھی جیسا کہ مَیں نے کہا ہر احمدی کو اپنا نیک نمونہ دکھانا چاہئے ۔آپ سب کے نمونے دیکھ کر ہی غیروںکو اسلامی معاشرے کے خوبصورت نظارے نظر آئیں گے۔ جہاں ہر احمدی عاجزی نرمی آپس کی محبت اور بھائی چارے کی مثال قائم کر رہا ہوگا وہ نظارے لوگوں کو نظر آئیں گے۔ پس مردوں اور عورتوں دونوں کو اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہئے۔
کھانے کے بارے میں اگر کہیں کوئی کمی بیشی ہو جائے تو برداشت کرنا چاہئے۔ اصل غذا جس کے لئے آپ لوگ یہاں آئے ہیں روحانی اور علمی غذا ہے۔ پس اسے حاصل کرنے کی کوشش کریں یہ ضروری ہے۔ اسی طرح بازاروں میں بھی اس وقت جائیں جب اس کا وقت ہو۔میرا خیال ہے عموماً شعبہ تربیت جو ہے وہ بازار تو کھولتا ہی اس وقت ہے جب جلسہ کا سیشن نہ چل رہا ہو۔ لیکن بعض دفعہ لوگ زور دیتے ہیں کہ نہیں ہم نے جانا ہے ہمیں بھوک لگی ہے۔ ان کے انتظام کے لئے پہلے مَیں کئی دفعہ کہہ چکا ہوں شعبہ مہمان نوازی کو انتظام رکھنا چاہئے۔ پھر عورتوں کا بازار ہے اس میں بھی اور مردوں کے بازار میں بھی جلسہ کے تقدّس اور ماحول کو ملحوظ رکھیں۔ یہ نہیں ہے کہ صرف جلسہ گاہ میں بیٹھ کر ہی جلسہ کا تقدّس ہو۔ اس سارے پریمیسز(Premises) میں آ گئے، اس علاقے میں آ گئے جہاں ٹینٹ لگے ہوئے ہیں کیمپ لگے ہوئے ہیں مارکیاں لگی ہوئی ہیں یا ہال ہیں یہ سب جلسہ کی جگہ ہے یہاں بھی آپ لوگوں کو جلسہ کے تقدس کو قائم رکھنا چاہئے۔ قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا کا جو قرآن کریم کا حکم ہے، جو مَیں نے پہلے بتایا، یہ صرف کارکنوں کے لئے نہیں ہے بلکہ ہر مسلمان کے لئے ہے اور خاص طور پر ہر احمدی کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے۔
میں نے کارکنوں کو تو کہا ہے کہ اچھے اخلاق کا مظاہرہ کریں۔اور کسی قسم کی بدخلقی نہ دکھائیں کل بھی کہا اور آج بھی کہا لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ ان کے صبر کو آپ لوگ آزماتے رہیں اور ایسے حالات پیدا کریں جس سے بدمزگی کے حالات پیدا ہو جائیں۔ جہاں جہاں جس شعبہ کا متعلقہ کارکن بھی آپ سے کسی بات کا مطالبہ کرے یا ہدایت کرے اعلیٰ خلق کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کی بات کو مانیں اور تعاون کریں۔ پس قرآنی حکم کہ اچھے اخلاق سے پیش آئیں ہر شامل ہونے والے کے لئے یہ قرآنی حکم ہے۔
جلسہ کے اوقات میں جب پروگرام ہو رہے ہوں تو سوائے اس کے کہ کسی مجبوری سے اٹھ کر جانا پڑے جلسہ کی کارروائی سنیں۔ ہر تقریر میں ہر احمدی کے لئے کوئی نہ کوئی ایسی بات ہوتی ہے جو اس کی زندگی بہتر کرنے کے کام آ سکتی ہے۔
اسی طرح جلسہ کے دوران بھی اور چلتے پھرتے بھی ان دنوں میں ذکر الٰہی درود اور استغفار پڑھتے رہیں کہ یہ دعائیں اور ذکر الٰہی اور درود ہر ایک کے ذاتی حالات کی بہتری کا بھی ذریعہ ہے اور جماعتی حالات کی بہتری کا بھی ذریعہ ہے اور اُمّت مسلمہ جس دَور سے گزر رہی ہے اس کے لئے بھی بہتر حالات کے لئے دعا کریں۔
اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ درود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر پڑھا جاتا ہے۔ صرف نماز میں ہی شاید کروڑوں مسلمان درود پڑھتے ہیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ سب سے زیادہ حالات دینی لحاظ سے بھی اور روحانی لحاظ سے بھی، دنیاوی لحاظ سے بھی، مسلمانوں کے بدتر ہیں۔ اس لئے کہ یہ درود صرف رسماً پڑھے جاتے ہیں۔ نمازیں وہ نمازیں ہیں جو ہلاکت کا باعث ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق ایسی نمازوں کو پھر اللہ تعالیٰ نماز پڑھنے والوں کے منہ پر مارتا ہے۔ پس ایسے میں خالص ہو کر اخلاص کے ساتھ اور وفا کے ساتھ اور اپنی حالتوں میں تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے اپنے دل میں خدا تعالیٰ کا تقویٰ پیدا کرتے ہوئے احمدیوں پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجیں اور اسلام کی ترقی کے لئے دعا کریں۔ ان ملکوں میں آ کر صرف اپنی دنیاوی خواہشات کو پورا کرنے والا نہ بن جائیں بلکہ ایک پاک تبدیلی اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ درود کے علاوہ ذکر الٰہی سے اپنی زبانوں کو تر رکھیں۔ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس جلسہ کے مقصد کو پورا کرنے والا اور اس کی برکات سے ہمیں حصہ لینے والا بنائے۔ یہ سفر جو نیک مقصد کے لئے ہے اس کا فیض ہمیںہمیشہ پہنچتا رہے اور ہماری نسلوں میں بھی تقویٰ پیدا ہو۔ اور ہر وہ بات جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے اس سے ہم بچنے والے ہوں اور ہماری اولادیں اور نسلیں بھی ان سے بچنے والی ہوں۔ ہمارے مال میں برکت ہو اور ہم یا ہماری نسلیں مال کمانے کا ایسا ذریعہ نہ اپنائیں جو اللہ تعالیٰ کی نظر میں ناپسندیدہ اور غلط ہو اور یا پھر حرام مال کے زُمرہ میں آتا ہو۔ عورتیںاپنے بچوںاورخاوندوںکےلئے دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ انہیں دین پر قائم رکھے۔ اللہ تعالیٰ ہر ایسے ابتلا سے بچا کر رکھے جس سے دین ضائع ہونے کا خطرہ ہو۔ ہمیشہ صراط مستقیم پر چلنے والے ہوں۔ ذکر الٰہی اور چلتے پھرتے دعاؤں کے ساتھ اس بات کا بھی خاص خیال رکھیں کہ ان دنوں میں خاص طور پر اور عموماً بعد میں بھی نماز باجماعت کی پابندی ہو اور خاص طور پر یہاں رہنے والے فجر کی نماز میں ضرور شامل ہوا کریں بلکہ یہاں تہجد کا بھی انتظام ہوتا ہے اس کے لئے بھی ضرور جاگیں اور شامل ہوں۔ اسی طرح کارکنان ڈیوٹی کے اوقات میں اگر نماز باجماعت نہیں پڑھ سکتے تو ڈیوٹی کے فوراً بعد نماز باجماعت کا اہتمام کریں یا وقت ایسے رکھیں کہ اپنی اپنی جگہوں پر ڈیوٹی سے پہلے نماز باجماعت پڑھ لیں۔
اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اپنی رضا کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں شامل ہونے کی روح کو سمجھتے ہوئے اس کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ یہ روح کیا ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں ہی بیان کر دیتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں کہ :
’’جب تک ہماری جماعت تقویٰ اختیار نہ کرے نجات نہیں پا سکتی۔ خدا تعالیٰ اپنی حفاظت میں نہ لے گا۔‘‘
(ملفوظات جلد 5 صفحہ 458۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھرآپ فرماتے ہیں’’ گھروں کو ذکر الٰہی سے معمور کرو۔ صدقہ و خیرات دو۔ گناہوں سے بچو تا اللہ تعالیٰ رحم کرے‘‘۔
(ملفوظات جلد 5 صفحہ 459۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خواہش کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے والے ہوں۔ جلسہ کے فیوض سے فیض حاصل کرنے والے ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعائیں جو آپ نے جلسہ میں شامل ہونے والوں کے لئے کی ہیں ان سے حصہ پانے والے ہوں اور اِن دنوں میں بھی حصہ پانے والے ہوں اور بعد میں بھی ہم ان کے وارث بنتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ نیکیوں کی توفیق عطا فرماتا رہے ۔
ایک انتظامی بات جو پہلے مَیں نے نہیں کی تھی اب وہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ سیکیورٹی کے لحاظ سے بھی اپنے دائیں بائیں ہمیشہ ہر ایک کو نظر رکھنی چاہئے۔ شامل ہونے والوں کو بھی ڈیوٹی والوںکو بھی ۔ جو عملہ بھی اس کام کے لئے متعین ہے ان سے مکمل تعاون کریں ۔ اگر کوئی چیز دیکھیں تو فوری طور پر ان کو اطلاع دیں۔ اللہ تعالیٰ ہر شامل ہونے والے کو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور کسی قسم کا ایسا واقعہ نہ ہو جو کسی قسم کا کسی کو نقصان پہنچانے والا ہو۔
٭…٭…٭