خلافت خامسہ کے مبارک دَورکے ابتدائی پندرہ سال(قسط نمبر6)
جماعت احمدیہ مُسلمہ عالمگیر کی خدمت دین وخدمت انسانیت کے مختلف میدانوں میں عظیم الشان اورروزافزوں ترقیات اورالٰہی نصرت وتائید کے روشن نشانات سے معمور
(چندجھلکیاں اعدادوشمار کے آئینہ میں )
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی بابرکت تحریکات
خلفائے وقت نے ہمیشہ روحانی غذا کے طالبوں کو جن تحریکات کی صورت اپنی حفاظت میں لیا ان میں خدائی ہاتھ کارفرمانظرآتاہے۔مناسب ِحال،موافق زمانہ، تحریکات سے جہاں خلفائے وقت نے جماعت کو نورِہدایت بخشا وہیں احباب جماعت نے بھی بقدر استعداد اس نور سے حصّہ پایا۔
خلیفہ کے لبوں سے جو گل و جوہر بکھرتے ہیں
بڑے انمول موتی ہیں یہ دولت ہم سنبھالیں گے
جب خلفاء کے دل میں اللہ تعالیٰ اپنے کسی منشاء کے تحت کسی خاص کام کے لئے جوش پیداکرتاہے تو وہ اس کام کی تحریک اپنے پیروکاروں کو کرتے ہیں۔ اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس تحریک کے نتیجہ میں حاصل ہونے والے عظیم الشان ثمرات اس بات کی فعلی شہادت بن جاتے ہیں کہ یہ سب نظام اللہ تعالیٰ کی خاص تائیدونصرت سے جاری ہے۔
حضور انور کے ابتدائی 15سال میں کی جانے والی تحریکات
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپریل 2003ء میں مسند خلافت پر متمکن ہوئے اور 2018ء میں اس عہد مبارک کے 15 سال مکمل ہوچکے ہیں۔ اس عرصہ میں حضور انور نے بھی جماعت کی علمی و عملی ترقی کے لیے بہت سی بابرکت سکیموں کا اعلان فرمایا ہے۔یوں تو حضور انور کا ہر خطبہ جمعہ، ہر تقریر، ہر تحریر، ہر پیغام اور ہر ہدایت ہی ایک تحریک کا رنگ رکھتی ہے لیکن وہ امور جن پر حضور انور نے خصوصیت سے زور دیا، بار بار ہدایات دیں، مختلف اداروں کو ذمہ دار ٹھہرایا ان کو تحریکات کی صورت میں پیش کیا جارہا ہے۔
خدمت خلق کی تحریکات
٭خدمت خلق کی عمومی تحریک
احباب جماعت کو خدمت خلق کی تحریک کرتے ہوئے حضورانور نے فرمایا:
’’جماعتی سطح پر یہ خدمتِ انسانیت حسب توفیق ہورہی ہے۔ مخلصین جماعت کو خدمت خلق کی غرض سے اللہ تعالیٰ توفیق دیتا ہے، وہ بڑی بڑی رقوم بھی دیتے ہیں جن سے خدمت انسانیت کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے افریقہ میں بھی اور ربوہ اور قادیان میں بھی واقفین ڈاکٹر اور اساتذہ خدمت بجا لا رہے ہیں۔ لیکن مَیں ہر احمدی ڈاکٹر، ہر احمدی ٹیچر اور ہر احمدی وکیل اور ہر وہ احمدی جو اپنے پیشے کے لحاظ سے کسی بھی رنگ میں خدمت انسانیت کر سکتا ہے، غریبوں اور ضرورتمندوں کے کام آسکتا ہے، ان سے یہ کہتا ہوں کہ وہ ضرور غریبوں اور ضرورت مندوں کے کام آنے کی کوشش کریں۔ تو اللہ تعالیٰ آپ کے اموال و نفوس میں پہلے سے بڑھ کر برکت عطا فرمائے گا انشاء اللہ۔ اگر آپ سب اس نیت سے یہ خدمت سرانجام دے رہے ہوں کہ ہم نے زمانے کے امام کے ساتھ ایک عہد بیعت باندھا ہے جس کوپورا کرنا ہم پر فرض ہے تو پھر دیکھیں کہ انشاء اللہ تعالیٰ، اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور برکتوں کی کس قدر بارش ہوتی ہے جس کو آپ سنبھال بھی نہیں سکیں گے‘‘۔)خطبہ جمعہ فرمودہ 12ستمبر 2003ء بحوالہ الفضل انٹرنیشنل 07نومبر2003ء صفحہ8)
٭احمدی ڈاکٹرز کو وقف کی تحریک
سید ناحضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ 17 اکتوبر 2003 ء میں فرمایا:
’’جلسے پر میں نے ڈاکٹروں کو توجہ دلائی تھی کہ ہمارے افریقہ کے ہسپتالوں کے لئے ڈاکٹر مستقل یا عارضی وقف کریں ۔اب تواللہ تعالیٰ کے فضل سے حالات بہت بہتر ہیں ۔وہ دقتیں اورمشکلات بھی نہیں رہیں جو شروع کے واقفین کوپیش آئیں اوراکثر جگہ توبہت بہتر حالات ہیں اورتمام سہولیات میسر ہیں ۔اوراگر کچھ تھوڑی بہت مشکلات ہوں بھی تواس عہد کو سامنے رکھیں کہ محض لِلہ اپنی خداداد طاقتوں سے بنی نوع کوفائدہ پہنچائوں گا۔آگے آئیں اورمسیح الزمان سے باندھے ہوئے اس عہد کو پورا کریں اوران کی دعائوں کے وارث بنیں‘‘ ۔
( الفضل انٹرنیشنل12؍دسمبر2003 ء صفحہ5)
سید ناحضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 15 دسمبر2006 ء میں افریقہ میں ڈاکٹروں کی ضرورت کاذکر کرتے ہوئے فرمایا:
’’جماعت کے ہسپتال ہیں پاکستان میں بھی ربوہ میںبھی اورافریقہ میں بھی۔وہاں ڈاکٹروں کی ضرورت ہوتی ہے ۔ان کو گوکہ تنخواہ بھی مل رہی ہوتی ہے ایک حصہ بھی مل رہا ہوتا ہے لیکن شاید باہر سے کم ہو ۔توبہرحال خدمت خلق کے جذبے کے تحت ڈاکٹروں کوبھی اپنے آپ کو وقف کرنا چاہئے۔چاہے 3 سال کے لئے کریں، چاہے 5 سال کے لئے کریں ۔یا ساری زندگی کے لئے کریں۔ لیکن وقف کرکے آگے آناچاہئے اوریہی چیزیںہیں جوان کوپھر اللہ تعالیٰ کاقرب عطا کریں گی اوران پر اتنے فضل ہوں گے جواللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت ان پر جلوہ گر ہوگی‘‘۔
( الفضل انٹرنیشنل05 جنوری 2007 ء صفحہ6)
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس اید ہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ سالانہ یوکے 2008ء کے موقع پر اپنے دوسرے روز کے خطاب میں احمدی سپیشلسٹ ڈاکٹر صاحبان کو مجلس نصرت جہاں کے تحت اپنی خدمات وقف کرنے کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا:
’’مَیں ڈاکٹر صاحبان کو پیغام بھی پہنچانا چاہتا ہوں بلکہ تحریک کرنا چاہتا ہوں کہ جو سپیشلسٹ ڈاکٹرز ہیں ان کی نصرت جہاں کے ہسپتالوں میں ضرورت ہے اور مختلف ممالک سے مطالبہ آتا رہتا ہے۔ اگر امریکہ ، برطانیہ، پاکستان یا دوسری جگہوں سے ڈاکٹر اس کام میں شامل ہوں، چاہے وہ عارضی وقف کے لئے جائیں، چند دن وقف کریں، ایک ماہ کے لئے یا چند ہفتے کے لئے، اس سے بھی بڑا فائدہ ہوتا ہے۔تو اس لحاظ سے بھی سپیشلسٹ ڈاکٹرز جو ہیں وہ اپنے اپنے کوائف اگرمرکز کو بھجوائیں تو اس کے مطابق ان کا پروگرام بنایا جا سکتا ہے‘‘۔
( الفضل انٹرنیشنل 12ستمبر2014ء صفحہ 2)
احمدیہ میڈیکل ایسوسی ایشن یوکے کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے 19مئی2007ء کو حضور انور نے نور ہسپتال قادیان اور فضل عمر ربوہ کے لئے ڈاکٹروں کو خدمت کی تحریک فرمائی۔
(الفضل انٹرنیشنل 15جون2007ء)
٭عیادت مریضان کی تحریک
حضورانور نے فرمایا:
’’مریضوں کی عیادت کرنا بھی خداتعالیٰ کے قرب کو پانے کا ہی ایک ذریعہ ہے۔ ہمیں اس طرف توجہ دینی چاہئے خاص طور پر جو ذیلی تنظیمیں ہیں ان کو میں ہمیشہ کہتا ہوں۔ خدمت خلق کے جو اُن کے شعبے ہیں لجنہ کے، خدام کے، انصار کے ایسے پروگرام بنایا کریں کہ مریضوں کی عیادت کیا کریں، ہسپتالوں میں جایا کریں۔ اپنوں اور غیروں کی سب کی عیادت کرنی چاہئے اس میں کوئی حرج نہیں، بلکہ یہ بھی ایک سنت کے مطابق ہے۔ اور ہمیشہ اس کوشش میں رہنا چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے قرب پانے کے ذریعے ہم اختیار کریں۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ15؍ا پریل 2005ء بحوالہ الفضل انٹرنیشنل29؍اپریل2005ءصفحہ 8)
٭طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ کے لیے تحریک
حضورانور نے اپنے خطبہ جمعہ3جون2005ءمیں ارشاد فرمایا:
’’میں آج ایک تحریک کرنا چاہتا ہوں خاص طور پر جماعت کے ڈاکٹرز کو اور دوسرے احباب بھی عموماً، اگر شامل ہونا چاہیں تو حسب توفیق شامل ہو سکتے ہیں، جن کو توفیق ہو، گنجائش ہو۔ یہ طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ کے لئے مالی قربانی کی تحریک ہے… میں احمدی ڈاکٹروں سے خصوصاً کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ لوگوں پر بڑا فضل فرمایا ہے اور خاص طور پر امریکہ اور یورپ کے جو ڈاکٹر صاحبان ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں بھی بعض ایسے ڈاکٹرز ہیں جو مالی لحاظ سے بہت اچھی حالت میں ہیں۔ اگر آپ لوگ خدا کی رضا حاصل کرنے اور غریب انسانیت کی خدمت کے لئے اس ہارٹ انسٹیٹیوٹ کو مکمل کرنے میں حصہ لیں تو یقیناً آپ ان لوگوں میں شامل ہوں گے جن کو خدا بے انتہا نوازتا ہے اور ان کے اس فعل کا اجر اس کے وعدوں کے مطابق خدا کے پاس بے انتہا ہے۔ کوشش کریں کہ جو وعدے کریں انہیں جلد پورا بھی کریں۔ اس ادارے کو مکمل کرنے کی میری بھی شدید خواہش ہے۔ کیونکہ میرے وقت میں شروع ہوا اور انشاء اللہ تعالیٰ، اللہ تعالیٰ سے اُمید ہے وہ خواہش پوری کرے گا جیسا کہ وہ ہمیشہ کرتا آیا ہے ۔اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو یہ موقع دے رہا ہے کہ اس نیک کام میں، اس کارخیر میں حصہ لیں اور شامل ہوجائیں اور اس علاقے کے بیمار اور دکھی لوگوں کی دعائیں لیں۔ آج کل دل کی بیماریاں بھی زیادہ ہیں۔ ہر ایک کو علم ہے کہ ہر جگہ بے انتہاء ہو گئی ہیں اور پھر علاج بھی اتنا مہنگا ہے کہ غریب آدمی تو افورڈ(Afford) کر ہی نہیں سکتا ۔ایک غریب آدمی تو علاج کروا ہی نہیں سکتا۔ پس غریبوں کی دعائیں لینے کا ایک بہترین موقع ہے جو اللہ تعالیٰ آپ کو دے رہا ہے اس سے فائدہ اُٹھائیں…۔
جہاں تک انسٹیٹیوٹ کے لئے ڈاکٹرز کا تعلق ہے، ہمارے امریکہ کے ایک ڈاکٹر نے مستقل وقف کیا ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ وہ جلد ربوہ پہنچ جائیں گے۔ دوسرے یہاں بھی بعض نوجوان واقفین زندگی ڈاکٹرز تعلیم حاصل کر رہے ہیں جو اپنی تعلیم مکمل ہونے پر وہاں چلے جائیں گے۔ اور پاکستان میں بھی بعض نوجوان ہیں جنہوں نے وقف کیا ہے، ٹریننگ لے رہے ہیں۔ اور اسی طرح ڈاکٹر نوری صاحب کی سرپرستی میں انشاء اللہ یہ ادارہ چلتا رہے گا۔ اللہ تعالیٰ ان کی عمر اور صحت میں بھی برکت ڈالے اور پھر یہ ادارہ مکمل ہونے کے بعد مَیں دوسرے سپیشلسٹ ڈاکٹروں سے بھی کہوں گا کہ وہ بھی وقف عارضی کر کے یہاں آیا کریں۔ اللہ تعالیٰ، انشاء اللہ ان کی قربانیوں کے بدلے ضرور دے گا، اجر ضرور دے گا۔ اور دعا کرتے رہیں اللہ تعالیٰ اس ادارے کو بہت کامیاب ادارہ بنائے‘‘۔ (خطبہ جمعہ 3جون 2005ء الفضل انٹرنیشنل 7 جون 2005ء صفحہ7-8)
٭احمدی انجینئرز اور آرکیٹیکٹس کو خدمت کی تحریک
حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے مورخہ 9 مئی 2004ء کو انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف احمدی آرکیٹکٹس اینڈ انجینئرز کے یورپین چیپٹر کے پہلے سمپوزیم میں افریقہ میں خدمت کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا:
’’جماعت ان ممالک میں مختلف مقاصد کے لئے عمارات تعمیر کر رہی ہے ۔مثلاً مساجد ، مشن ہائوسز ، سکولز، ہسپتال وغیرہ۔ اس کے لئے بھی سول انجنیئر اور آرکیٹیکٹس کو ان ممالک میں خدمت کی غرض سے جاناچاہئے۔ مجھے معلوم ہے کہ آ پ میں سے اکثر سفر کے تمام اخراجات آسانی سے خود برداشت کرسکتے ہیں۔ اور بعض ممالک میں تو ہمارے پاس کوئی انجنیئر یا آرکیٹیکٹ بھی نہیں ہیں جو ہمیں یہ مشورہ دے سکیں کہ کس قسم کی عمارتیں ہمیں بنانی چاہئیں جس سے ہمارا خرچہ بھی کم ہو اور عمار ت بھی بہتر ہو۔‘‘
حضور ایدہ اللہ نے فرمایاکہ مجھے امید ہے کہ آ پ میں سے کچھ انجنیئرز اورآرکیٹیکٹس اپنے آ پ کو پیش کرتے ہوئے وقف عارضی کے تحت ان ملکوں میں جائیں گے اور ہمیں یہ مشورہ دیں گے کہ ہم کس طرح کم خرچ پر یہ عمارات بناسکتے ہیں جوکہ کم خرچ کے ساتھ ساتھ خوبصورت بھی نظر آئیں ۔ (الفضل انٹرنیشنل 4جون2004ء صفحہ11)
٭یتامیٰ کی خبر گیری کے فنڈ میں حصہ لینے کی تحریک
حضورانور نے فرمایا:
’’ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں یتیموں کی خبر گیری کا نظام ہے، پاکستان میں بھی ایک کمیٹی بنی ہوئی ہے جو باقاعدہ جائزہ لے کر ان کی تعلیم کا ،ان کے رہن سہن کا مکمل خیال رکھتی ہے اور اسی طرح دوسرے ممالک میں بھی، خاص طور پر افریقن ممالک میں بھی اللہ کے فضل سے کوشش کی جاتی ہے کہ ان کی ضروریات پوری کی جائیں۔ اس کے لئے یتامیٰ کی خبر گیری کے لئے ایک فنڈ ہے، اس میں بھی احباب جماعت کو دل کھول کر مدد کرنی چاہئے تاکہ زیادہ سے زیادہ یتیموں کی ضروریات پوری کی جا سکیں۔ ‘‘
(الفضل انٹرنیشنل 22جون تا 28جون 2007ء)
٭یتامیٰ کی خدمت کی تحریک
’’اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں یتامیٰ کی خبر گیری کا بڑا اچھا انتظام موجود ہے ۔مرکزی طور پر بھی انتظام جاری ہے گو اس کا نام یکصدیتامٰی کی تحریک ہے لیکن ا س کے تحت سینکڑوں یتامٰی بالغ ہو کرپڑھائی مکمل کر کے کام پر لگ جانے تک ان کو پوری طرح سنبھالا گیا۔اسی طرح لڑکیوں کی شادیوں تک کے اخراجات پورے کئے جاتے رہے اور کئے جارہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت اس میں دل کھول کر امداد کرتی ہے اور زیادہ تر جماعت کے جو مخیراحباب ہیں وہی اس میں رقم دیتے ہیں۔الحمدللہ، جزاک اللہ ، ان سب کا شکریہ۔
ا ب میں باقی دنیا کے ممالک کے امراء کو بھی کہتا ہوں کہ اپنے ملک میں ایسے احمدی یتامٰی کی تعداد کا جائزہ لیں جو مالی لحاظ سے کمزور ہیں ، پڑھائی نہ کرسکتے ہوں، کھانے پینے کے اخراجات مشکل ہوں اور پھر مجھے بتائیں۔ خاص طور پر ا فریقن ممالک میں ، اسی طرح بنگلہ دیش ہے، ہندوستان ہے ، ا س طرف کافی کمی ہے اورتوجہ دینے کی ضرورت ہے ۔تو باقاعدہ ایک سکیم بناکر اس کام کو شروع کریں اور اپنے اپنے ملکوں میں یتامیٰ کو سنبھالیں۔ مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ جماعت میں مالی لحاظ سے مضبوط حضرات اس نیک کام میں حصہ لیں گے اور انشاءاللہ تعالیٰ ہمیں ان کے سنبھالنے میں جو اخراجات ہوں گے ان میں کوئی کمی نہیں پیش آئے گی۔ لیکن امراء جماعت یہ کوشش کریں کہ یہ جائزے اور تمام تفاصیل زیادہ سے زیادہ تین ماہ تک مکمل ہو جائیں اور اس کے بعد مجھے بھجوائیں ۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو توفیق دے اور ہمیں توفیق دے کہ ہم یتامیٰ کا جو حق ہے وہ ادا کرسکیں‘‘۔
(خطبہ جمعہ23جنوری2004ء بحوالہ الفضل انٹرنیشنل 26مارچ2004ء ص9)
٭غریب بچیوں کی شادی کے لیے امداد کی تحریک
حضورانور نے خطبہ جمعہ3جون2005ءمیں فرمایا:
’’جو لوگ باہر کے ملکوں میں ہیں اپنے بچوں کی شادیوں پر بے شمار خرچ کرتے ہیں۔ اگر ساتھ ہی پاکستان، ہندوستان یا دوسرے غریب ممالک میں غریب بچوں کی شادیوں کے لئے کوئی رقم مخصوص کر دیا کریں تو جہاں وہ ایک گھر کی خوشیوںکا سامان کر رہے ہوں گے وہاں یہ ایک ایسا صدقہ جاریہ ہو گا جو ان کے بچوں کی خوشیوں کی بھی ضمانت ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نیکیوں کوضائع نہیں کرتا۔ پھر بعض صاحب حیثیت لوگوںمیں بے تحاشا نمود و نمائش اور خرچ کرنے کا شوق ہوتا ہے۔ شادیوں پر بے شمار خرچ کر رہے ہوتے ہیں۔ کئی کئی قسم کے کھانے پک رہے ہوتے ہیںجو اکثر ضائع ہو جاتے ہیں۔ یہاں سے جب خاص طور پر پاکستان میں جا کر شادیاں کرتے ہیں اگر سادگی سے شادی کریں اور بچت سے کسی غریب کی شادی کے لئے رقم دیں تو وہ اللہ کی رضا حاصل کر رہے ہوں گے‘‘۔
(خطبہ جمعہ3جون2005ء بحوالہ الفضل انٹرنیشنل 17جون2005ء ص7)
٭آذاد کشمیر کے زلزلہ زدگان کے لئے مدد کی تحریک
8اکتوبر2005ء کو پاکستان میں شدید زلزلہ آیا۔ ان کی امداد کی تحریک کرتے ہوئے حضور انور نے فرمایا:
’’گو کہ اس زلزلے کے بعد سے فوری طور پر ہی افراد جماعت بھی اور جماعت احمدیہ پاکستان بھی اپنے ہم وطنوں کی، جہاں تک ہمارے وسائل ہیں، مصیبت زدوں کی مدد کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ لیکن مَیں پھر بھی ہر پاکستانی احمدی سے یہ کہتا ہوں، ان کو یہ توجہ دلانی چاہتا ہوںکہ اِن حالات میں جبکہ لاکھوںافراد بے گھر ہوچکے ہیں، کھلے آسمان تلے پڑے ہوئے ہیں،حتی المقدور ان کی مدد کریں ۔جو پاکستانی احمدی باہر کے ملکوںمیں ہیں، ان کو بھی بڑھ چڑھ کر ان لوگوں کی بحالی اور ریلیف (Relief) کے کام میں حکومت پاکستان کی مدد کرنی چاہئے۔ وہاں کی ایمبیسیوں نے جہاں جہاں بھی فنڈ کھولے ہوئے ہیں اور جہاں ہیومینیٹی فرسٹ (Humanity First)نہیں ہے، ان ایمبیسیز میں جاکر مدد دے سکتے ہیں‘‘۔
(خطبہ جمعہ 14؍اکتوبر 2005ء بحوالہ الفضل انٹرنیشنل 4نومبر2005ء ص6)
٭بیوت الحمد سکیم میں شرکت کی تحریک
حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے خطبہ عید الفطر 13اکتوبر2007ء میں بیوت الحمد سکیم کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:
’’پھر بیوت الحمد سکیم ہےیہ بھی حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے شروع فرمائی تھی جس سے شروع میں ربوہ میں 100 گھر بناکر غریب،ضرورتمندوںکو دینے تھے۔ تو اللہ کے فضل سے یہ مکمل ہوگئی۔اس کے علاوہ بھی مختلف جگہوں پر لوگوں کے گھروں میں ان کو بڑھانے میں یاگنجائش کےمطابق کمرے بنانے کے لئے مدد دی گئی، قادیان میں بھی بیوت الحمد کے تحت گھر بنائے گئے ہیں پھر پاکستان میں اور مختلف ملکوں میں جیسا کہ مَیں نے کہا مکان بھی بنا کر دئیے گئے ہیں۔مختلف جگہوں پر بھی مدد دی گئی ہے تو یہ بھی ایک ایسی جائز اور انتہائی ضرورت ہے جس کی طرف احمدیوںکو توجہ دینی چاہیے۔ اپنے غریب بھائیوں کی ضرورت پوری کرنے کے لئےکئی احمدی جب اللہ کے فضل سے اپنے گھر بناتے ہیں تو اس تحریک میں حصہ لیتے ہیںبعض نے اپنا بڑا قیمتی گھر بنایا تو بیوت الحمد کے ایک مکمل گھر کا خرچہ بھی ادا کیا۔ اگر تمام دنیا کے احمدیوں کے گھر خریدنے یا بنانے پر کچھ نہ کچھ اس مد میں دینے کی طرف توجہ پیدا ہوجائے تو کئی ضرورتمند غریب بھائیوں کا بھلا ہو سکتا ہے‘‘۔
(خطبہ عید الفطر فرمودہ13؍اکتوبر 2007ء بحوالہ الفضل انٹرنیشنل6؍مئی 2016ء صفحہ 15)
٭امداد مریضان کی تحریک
حضورانور نے فرمایا:
’’امداد مریضان کی ایک مد ہے اس میں پاکستان میں تو باقاعدہ طریقہ اور نظام رائج ہے جس کے تحت مریضوں کو جوہسپتال میں آنے والے ہیںعلاج سے مدد کی جاتی ہے۔ قادیان میں بھی اور اس کے علاوہ دنیا میں بھی رائج ہے۔ لیکن باقاعدہ قادیان اور ربوہ میں زیادہ ہے۔ دوائیاں اور علاج اب اتنی مہنگی ہوگئی ہیں کہ غریب آدمی کی پہنچ سے یہ معاملہ بہت دور ہو چکا ہے۔بعض علاج اس لئے نہیں کرواتے کہ پیسے نہیں ہوتے۔ تو باوجود خواہش کے بعض دفعہ محدود وسائل کی وجہ سے ایسے مریضوں کی پوری طرح مدد نہیں کی جاسکتی۔ایسے احباب جو مالی حالت میں بہتر ہیں،وہ جن کو خود یا جن کے مریضوں کو اللہ تعالی نے اپنے فضل سے شفاء دی ہے،مریضوں کی شفایابی پر اپنی حیثیت کے مطابق اگر مریضوں کے لئے مدد کیا کریں تو ضرورت مند مریضوں کی جو بہت بڑی تعدادہے ان کی مدد ہو سکتی ہے۔بچوں کی پیدائش کے مرحلے سے عورتیں گزرتی ہیں،بڑا تکلیف دہ مرحلہ ہوتا ہے۔اس شکرانے کے طور پر مریضوں کی مدد کا خیال آنا چاہیے،صرف مٹھائیاں کھانا کھلانا ہی کام نہ ہو‘‘
(خطبہ عید الفطر 13؍اکتوبر 2007ء بحوالہ الفضل انٹرنیشنل 6؍مئی 2016ء صفحہ 15)
٭ہیومینیٹی فرسٹ کو کارکردگی بہتر کرنے کی تحریک
حضورانور نے فرمایا:
’’ہیومینیٹی فرسٹ ایک ایسا ادارہ ہے جو باقاعدہ رجسٹرڈ ہے۔ اور اس کی مرکزی انتظامیہ لندن میں ہے۔ لندن سے باقاعدہ مینیج(Manage)کیا جاتا ہے۔ افریقہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے مرکزی ادارہ ہے مختلف ممالک نے اس میں بہت کام کیا ہے۔ جرمنی کے علاوہ۔ جرمنی میں یہ اس طرح فعّال نہیں ہے ۔ فعّال اس لئے نہیں ہے کہ بعض معاملات میں انہوں نے زیادہ آزاد ہونے کی کوشش کی ہے۔ اس لئے میں یہاں امیر صاحب کو اس کا نگران اعلیٰ بناتا ہوں اور وہ اب اپنی نگرانی میں اس کو ری آرگنائز(Re-organize) کریں اور چیئرمین اور تین ممبران کمیٹی بنائیں اور پھر جس طرح باقی ممالک میں انسانیت کی خدمت کررہے ہیں یہ بھی کریں، لیکن مرکزی ہدایت کے مطابق۔ کیونکہ مرکزی رپورٹ کے مطابق بھی یہاں کی ہیومینیٹی فرسٹ کی انتظامیہ کا تعاون اچھا نہیں تھا۔ بار بار توجہ دلانے پر اب بہتری آئی ہے لیکن مکمل نہیں۔ تو یہ بھی اطاعت کی کمی ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ خلیفہ وقت سے براہ راست رابطہ ہو جائے تو باقی نظام سے جو مرضی سلوک کرو کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ غلط تأثر ہے۔ ذہنوں سے نکال دیں۔ اگر کوئی دقّت اور مشکل ہو کسی انتظام کو چلانے میں تو آپ خلیفۂ وقت کو بھی خط لکھ سکتے ہیں۔ لیکن بہر حال متعلقہ امیر کو اس کی کاپی جانی چاہئے۔ لیکن براہ راست کسی قسم کا خود قدم اٹھانے کی اجازت نہیں ہے‘‘۔
(خطبہ جمعہ27اگست2004ء بحوالہ الفضل انٹرنیشنل 10ستمبر2004ء ص8)
٭سیدنا بلال فنڈ کے بارہ تحریک
حضور انور نے خطبہ جمعہ11جون2010ء میں فرمایا:
’’مجھ سے بعض جماعتوں کی طرف سے بھی پوچھا جا رہا ہے کہ شہداء فنڈ میں لوگ کچھ دینا چاہتے ہیں تو یہ رقم کس مد میں دینی ہے؟ اسی طرح بعض دوست مشورے بھی بھجوا رہے ہیں کہ شہداء کے لئے کوئی فنڈ قائم ہونا چاہئے۔ یہ ان کی لاعلمی ہے۔ شہداء کے لئے فنڈ تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے خلافتِ رابعہ سے قائم ہے جو’’ سیدنا بلالؓ فنڈ‘‘ کے نام سے ہے اور مَیں بھی اپنے اس دور میں ایک عید کے موقع پر اور خطبوں میں دو دفعہ بڑی واضح طور پراس کی تحریک کر چکا ہوں۔ اس فنڈ سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے شہداء کی فیملیوں کا خیال رکھا جاتا ہے، جن جن کو ضرورت ہو ان کی ضروریات پوری کی جاتی ہیں اور اگر اس فنڈ میں کوئی گنجائش نہ بھی ہو تب بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ ان کا حق ہے اور جماعت کا فرض ہے کہ ان کا خیال رکھے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیشہ ہم ان کا خیال رکھتے رہیں گے۔ تو بہرحال’’سیدنا بلالؓ فنڈ‘‘ قائم ہے جو لوگ شہداء کی فیملیوں کے لئے کچھ دینا چاہتے ہوں اس میں دے سکتے ہیں۔‘‘
( الفضل انٹرنیشنل 21جولائی2010ء ص5)
وقف جدید کے متعلق تحریکات
٭شاملین میں اضافہ کرنے کی تحریک
حضور انور نے اپنے خطبہ جمعہ7جنوری2005ء میں فرمایا:
’’وقف جدید کے ضمن میں احمدی مائوں سے مَیں یہ کہتا ہوں کہ آپ لوگوں میں یہ قربانی کی عادت اس طرح بڑھ بڑھ کر اپنے زیور پیش کرنا آپ کے بڑوں کی نیک تربیت کی وجہ سے ہے۔ اور سوائے استثناء کے اِلّا ماشاء اللہ، جن گھروں میں مالی قربانی کا ذکر اور عادت ہو ان کے بچے بھی عموماً قربانیوں میں آگے بڑھنے والے ہوتے ہیں۔ اس لئے احمدی مائیں اپنے بچوں کو چندے کی عادت ڈالنے کے لئے وقف جدید میں شامل کریں۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے پاکستان میں بچوں کے ذمہ وقف جدید کیا تھا۔ اور اُس وقت سے وہاں بچے خاص شوق کے ساتھ یہ چندہ دیتے ہیں۔ اگر باقی دنیا کے ممالک بھی اطفال الاحمدیہ اور ناصرات الاحمدیہ کو خاص طورپر اس طرف متوجہ کریں تو شامل ہونے والوں کی تعداد کے ساتھ ساتھ چندے میں بھی اضافہ ہو گا۔ اور سب سے بڑا مقصد جو قربانی کا جذبہ دل میں پیدا کرنا ہے وہ حاصل ہو گا۔ انشاءاللہ۔ اگر مائیں اور ذیلی تنظیمیں مل کر کوشش کریں اور صحیح طریق پرکوشش ہو تو اس تعداد میں (جو موجودہ تعداد ہے)آسانی سے دنیا میں 6لاکھ کا اضافہ ہو سکتا ہے، بغیرکسی دقت کے۔ اور یہ تعداد آسانی سے 10لاکھ تک پہنچائی جا سکتی ہے۔ کیونکہ موجودہ تعداد 4لاکھ کے قریب ہے‘‘۔
(الفضل انٹرنیشنل21جنوری2005ء ص7 )
٭دفتر اطفال میں اضافہ کرنے کی تحریک
حضور انور نے اپنے خطبہ جمعہ12جنوری2007ء میں فرمایا:
’’جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ایمانی حالت کی بہتری کے لئے بھی قربانی کی ضرورت ہے۔ تو اپنے بچوں میں بھی اس قربانی کی عادت ڈالیں تاکہ جب وہ بڑے ہوں تو ان کی خواہشات کی جو ترجیحات ہیں ان میں اللہ کی خاطر مالی قربانی سب سے اوّل نمبر پر ہو۔ اس سے ایک تو شاملین کی تعداد میں بھی اضافہ ہو گا اور جوعفو کے معیار ہیںوہ ترجیحات بدل جانے سے بدل جائیں گے۔ جو لوگ بچوں کو بھی جب جیب خرچ دیتے ہیں تو ان کو اس میں سے چندہ دینے کی عادت ڈالیں۔ عیدی وغیرہ میںسے چندہ دینے کی عادت ڈالیں، ان مغربی ممالک میں مَیں نے اندازہ لگایا ہے جیسا کہ پہلے بھی مَیں کہہ چکا ہوں کہ بازار سے کھانا برگر وغیرہ جو ہیں اور بڑے شوق سے کھائے جاتے ہیں اور جو مزے کے لئے کھائے جاتے ہیں، ضرورت نہیں ہے۔ اگر مہینے میں صرف دو دفعہ یہ بچا کر وقف جدید کے بچوں کے چندے میں دیں تو اسی سے وصولی میں 25سے 30فیصد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔
تو وقف جدید کو جس طرح حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے پاکستان میں بچوں کے سپرد کیا تھا ۔ مَیں بھی شاید پہلے کہہ چکا ہوں ،نہیں تو اب یہ اعلان کرتا ہوں کہ باہر کی دنیا بھی اپنے بچوں کے سپرد وقف جدید کی تحریک کرے اور اس کی ان کو عادت ڈالے تو بچوں کی بہت بڑی تعداد ہے جو انشاء اللہ تعالیٰ بہت بڑے خرچ پورے کر لے گی اور یہ کوئی بوجھ نہیں ہو گا۔ جب آپ چھوٹی چھوٹی چیزوں میں سے بچت کرنے کی ان کو عادت ڈالیں گے اسی طرح بڑے بھی کریں اور اگر یہ ہو جائے تو ہندوستان کے اخراجات اور کچھ حد تک افریقہ کے اخراجات بھی پورے کئے جا سکتے ہیں‘‘۔
(الفضل انٹرنیشنل2فروری2007ء ص8)
٭10لاکھ شاملین کی تحریک
حضور انور نے خطبہ جمعہ 7جنوری2005ء میں فرمایا:
’’ اگر کوشش کی جائے تو بچوں کے ذریعے سے ہی میرے خیال میں معمولی کوشش سے پوری دنیا میں 6 لاکھ کی تعداد کا اضافہ کیا جا سکتا ہے تاکہ کم از کم وقف جدید میں 10لاکھ افراد تو شامل ہوں۔ تحریک جدید کی طرح نئے آنے والوں کو بھی اس میں شامل کریں۔ بچوںکو شامل کریں، خاص طور پر بھارت اور افریقہ کے ممالک میں کافی گنجائش ہے۔ اللہ تعالیٰ توفیق دے۔ ویسے تو میںسمجھتا ہوں اگر کوشش کی جائے تو ایک کروڑ کی تعداد ہو سکتی ہے ۔ لیکن بہرحال پہلے قدم پر آپ اتنی کوشش بھی کر لیں تو بہت ہے۔ کیونکہ1957ء میں جب حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ تحریک شروع کی تھی تو جماعت کی اس تعداد کو دیکھتے ہوئے یہ خواہش فرمائی تھی کہ ایک لاکھ چندہ دہند ہوں۔ تو اِس وقت کوائف تو میرے پاس نہیں ہیں کہ پاکستان میں کتنے شامل ہوئے لیکن یہ تحریک صرف پاکستان کے لئے تھی اور وہاں سے آپؓ ایک لاکھ مانگ رہے تھے تو اب تو پوری دنیا میں حاوی ہے‘‘۔
(الفضل انٹرنیشنل21جنوری2005ء ص9)
ادائیگی زکوٰۃ کی تحریک
حضور انور ایدہ اللہ نے خطبہ جمعہ28مئی2004ء میں فرمایا:
’’ایک اہم چندہ جس کی طرف میں توجہ دلانی چاہتا ہوں وہ زکوٰۃ ہے۔ زکوٰۃ کا بھی ایک نصاب ہے اور معین شرح ہے عموماً اس طرف توجہ کم ہوتی ہے۔ زمینداروں کے لئے بھی جو کسی قسم کا ٹیکس نہیں دے رہے ہوتے ان پر زکوٰۃ واجب ہے اسی طرح جنہوں نے جانوروں وغیرہ بھیڑ، بکریاں، گائے وغیرہ پالی ہوتی ہیں ان پر بھی ایک معین تعداد سے زائد ہونے پر یا ایک معین تعداد ہونے پر زکوٰۃ ہے پھر بنک میں یا کہیں بھی جو ایک معین رقم سال بھر پڑی رہے اس پر بھی زکوٰۃ ہوتی ہے پھر عورتوں کے زیوروں پر زکوٰۃ ہے اب ہر عورت کے پاس کچھ نہ کچھ زیور ضرور ہوتا ہے اور بعض عورتیں بلکہ اکثر عورتیں جو خانہ دار خاتون ہیں جن کی کوئی کمائی نہیں ہوتی وہ لازمی چندہ جات دیتیں ، دوسری تحریکات میں حصہ لے لیتی ہیں لیکن اگر ان کے پاس زیور ہے، اس کی بھی شرح کے لحاظ سے مختلف فقہاء نے بحث کی ہوئی ہے۔ باون تولے چاندی تک کا زیور ہے یا اس کی قیمت کے برابر اگر سونے کا زیور ہے تو اس پر زکوٰۃ فرض ہے، اور اڑھائی فی صد اس کے حساب سے زکوٰۃ دینی چاہئے اس کی قیمت کے لحاظ سے۔ اس لئے اس طرف بھی عورتوں کو خاص طور پر توجہ دینی چاہئے اور زکوٰۃ ادا کیا کریں بعض جگہ یہ بھی ہے کہ کسی غریب کو پہننے کے لئے زیور دے دیا جائے تو اس پر زکوٰۃ نہیں ہوتی لیکن آج کل اتنی ہمت کم لوگ کرتے ہیں کسی کو دیں کہ پتہ نہیں اس کا کیا حشر ہو اس لئے چاہئے کہ جو بھی زیور ہے، چاہے خود مستقل پہنتے ہیں یا عارضی طور پر کسی غریب کو پہننے کے لئے دیتے ہیں احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ اس پر زکوٰۃ ادا کر دیا کریں‘‘۔
(الفضل انٹرنیشنل 11جون2004ء ص7)
……………………(باقی آئندہ)