گوہر نایاب

مَسیحِ پاک تھے جلوہ فروز اِک روز مَحفِل میں
کہ تھا اک عالَم کَیف و سُرور و سوز مَحفِل میں

نِظامُ الدّین نامی اِک فِدائی پاس بیٹھے تھے
نِگاہِ لُطف کی دِل میں لگا کر آس بیٹھے تھے

بظَاہِر غُربت و بے چارگی تھی اُن کے دَامن میں
مگر تسکین اَفزا رَوشنی تھی دِل کے آنگن میں 

جلیلُ الْقدر پَروانے قَریبِ شمع آتے تھے
نِظامُ الدّین رَفتہ رَفتہ پیچھے ہٹتے جاتے تھے

یہاں تک ہٹتے ہٹتے جُوتیوں کے پاس جا پہُنچے
زَہے قِسمت نِگاہِ لُطف کے لَمحات آ پہُنچے

مَسیحا کی نِگہ تھی تک رَہی مدّھم نَظارے کو
طعام آیا پکارا کِس مَحبّت سے پیارے کو

نِظامُ الدّین آؤ کھائیں کھانا آج ہم مِل کر
کریں کچھ دیرباتیں پیار کی دونوں بَہم مِل کر

زُبانِ رَمز سے سَمجھا دِئے آداب مَحفِل کے
بَسا ہیں بے نَوا بھی گوہرِ نایاب محفل کے

عبد السّلام اسلامؔ

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button