خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 07؍ دسمبر 2018ء
(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔
آج جن صحابہ کا ذکر ہو گا ان میں پہلا نام حضرت عبیدؓ بن زید انصاری کا ہے۔ ان کا تعلق قبیلہ بنو عجلان سے تھا اور غزوۂ بدراور اُحد میں انہوں نے شرکت کی۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 448 عبید بن زیدؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
حضرت مُعَاذ بن رِفَاعَہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ مَیں اپنے بھائی حضرت خَلّاد بن رافع کے ہمراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک لاغر سے اونٹ پر سوار ہو کر بدر کی طرف نکلا۔ ہمارے ساتھ عُبید بن زید بھی تھے۔ یہاں تک کہ ہم بَرید مقام پر پہنچے جو رَوْحَاء کے مقام سے پیچھے ہے تو ہمارا اونٹ بیٹھ گیا۔ پہلے بھی یہ کچھ واقعہ اس دوسرے صحابی کے واقعہ میں بیان ہو چکا ہے۔ تو کہتے ہیں ہمارا اونٹ بیٹھ گیا۔ مَیں نے دعا کی کہ اے اللہ تیری خاطر نذر مانتے ہیں کہ اگر ہم مدینہ پہنچ جائیں تو ہم اس کو قربان کر دیں گے۔ کہتے ہیں ہم اسی حال میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ہمارے پاس سے ہوا۔ آپؐ نے ہم سے پوچھا کہ تم دونوں کو کیا ہوا ہے؟ ہم نے ساری بات بتائی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس رکے۔ آپؐ نے وضو فرمایا اور پس خوردہ پانی میں لعابِ دہن ڈالا۔ پھر آپؐ کے حکم سے ہم نے اونٹ کا منہ کھول دیا۔ آپؐ نے اونٹ کے منہ میں کچھ پانی ڈالا پھر اس کے سر پر، اس کی گردن پر، اس کے شانے پر، اس کی کوہان پر، اس کی پیٹھ پر اور کچھ پانی اس کی دُم پر ڈالا۔ پھر آپؐ نے دعا کی کہ اے اللہ! رافع اور خَلّاد کو اس پر سوار کر کے لے جا۔ پھر یہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو تشریف لے گئے۔ ہم بھی چلنے کے لئے کھڑے ہو گئے اور چل پڑے یہاں تک کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مَنْصَفْ کے مقام کے شروع میں پا لیا۔ وہاں پہنچ گئے اور اُن سے مل گئے۔ ہمارا اونٹ قافلے میںسب سے آگے تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دیکھا تو مسکرا دئیے۔ ہم چلتے رہے یہاں تک کہ بدر کے مقام پر پہنچ گئے اور بدر سے واپسی پر بھی کہتے ہیں کہ جب ہم مُصَلّٰی کے مقام پر پہنچے تو ہمارا اونٹ بیٹھ گیا اور پھر میرے بھائی نے اس کو ذبح کر دیا اور اس کا گوشت صدقہ کر دیا۔ تو اس میں ان کے ساتھ حضرت عبید بن زید بھی شامل تھے۔
(اسد الغابہ جلد دوم صفحہ 181 معاذ بن رفاعہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2002ء)
(امتاع الاسماع جلد اوّل صفحہ 93 باب خبر العیر الذی برک دار الکتب العلمیہ بیروت 1999ء)
(کتاب المغازی للواقدی جلد اول صفحہ 39 بدر القتال مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2013ء)
حضرت زَاھِر بن حَرَام الاشْجَعِیؓ ایک صحابی تھے۔ یہ بھی بدری صحابی ہیں۔ ان کا تعلق اَشْجَعْ قبیلہ سے تھا۔ غزوۂ بدر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ شامل ہوئے۔ حضرت انسؓ بن مالک سے روایت ہے کہ بادیہ نشینوں میں یعنی گاؤں کے رہنے والے جو تھے ان میں ایک آدمی تھا جن کا نام زَاھِرؓ تھا۔ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دیہات کی سوغاتیں ساتھ لایا کرتے تھے اور جب وہ جانے لگتے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کو کافی مال و متاع دے کر روانہ فرماتے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ اِنَّ زَاھِرًا بَادِیَتُنَا وَ نَحْنُ حَاضِرُوْہُ کہ زَاھِر ؓہمارے بادیہ نشین دوست ہیں اور ہم ان کے شہری دوست ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان سے محبت رکھتے تھے۔ حضرت زاھرؓ معمولی شکل و صورت کے مالک تھے۔ ایک دن ایسا ہوا کہ حضرت زاھرؓ بازار میں اپنا کچھ سامان فروخت کر رہے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور پیچھے سے انہیں اپنے سینے سے لگا لیا۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیچھے سے آ کر ان کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیا۔ حضرت زاھرؓ حضور کو دیکھ نہیں پا رہے تھے۔ انہوں نے پوچھا کون ہے؟ مجھے چھوڑ دو! لیکن جب انہوں نے مڑ کر دیکھا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان لیا۔ جب حضرت زاھرؓ نے آپؐ کو پہچان لیا، ذرا سا مڑ کے دیکھا تو جھلک نظر آ گئی ہو گی۔ پہچاننے کا یہ مطلب ہے کہ ذرا سا مڑکے دیکھا تو احساس ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں تو اپنی کمر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سینۂ مبارک سے ملنے لگے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مزاحاً کہنا شروع کر دیا کہ کون اس غلام کو خریدے گا۔ حضرت زاھرؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ تب تو آپؐ مجھے گھاٹے کا سودا پائیں گے۔ مجھے کس نے خریدنا ہے؟ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اللہ کے نزدیک تم گھاٹے کا سودا نہیں ہو۔ یا فرمایا کہ اللہ کے حضور تم بہت قیمتی ہو۔
(اسدالغابہ جلد نمبر 2 صفحہ 98)
(استیعاب جلد 2 صفحہ 509 زاھر بن حرامؓ دار الجیل بیروت 1992ء)
(الشمائل المحمدیہ للترمذی صفحہ 143 باب ما جاء فی صفۃ مزاح رسول اللہ ﷺ احیاء التراث العربی بیروت)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دلداری کا یہی واقعہ ایک جگہ بیان فرمایا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’اسی طرح ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بازار میں تشریف لے جا رہے تھے کہ آپ نے دیکھا کہ ایک غریب صحابی جو اتفاقی طور پر بد صورت بھی تھے سخت گرمی کے موسم میں اسباب اٹھا رہے ہیں اور ان کا تمام جسم پسینہ اور گردوغبار سے اٹا ہوا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموشی سے ان کے پیچھے چلے گئے اور جس طرح بچے کھیل میں چوری چھپے دوسرے کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر کہتے ہیں اور پھر چاہتے ہیں کہ وہ اندازہ سے بتائے کہ کس نے اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھا ہے اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی سے اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دئے۔ اس نے آپ کے ملائم ہاتھوںکو ٹٹول کر سمجھ لیا کہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں تو محبت کے جوش میں اس نے اپنا پسینہ سے بھرا ہوا جسم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لباس کے ساتھ ملنا شروع کر دیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسکراتے رہے اور آخر آپ نے فرمایا۔ میرے پاس ایک غلام ہے کیا اس کا کوئی خریدار ہے؟ اس نے کہا یا رسول اللہ! میرا خریدار دنیا میں کون ہو سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا ایسا مت کہو۔ خدا کے حضور تمہاری بڑی قیمت ہے۔‘‘
(سیر روحانی صفحہ 489 مطبوعہ قادیان 2005ء)
بس عجیب قسم کی محبتوں کے فیض پائے ان لوگوں نے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا کہ اِنَّ لِکُلِّ حَاضِرَۃٍ بَادِیَۃٌ وَبَادِیَۃُ اٰلِ مُحَمَّدٍ زَاھِرُبْنُ الْحَرَام یعنی ہر شہری کا کوئی نہ کوئی دیہاتی تعلق دار ہوتا ہے اور آل محمد کے دیہاتی تعلق دار زاھر بن حرام ہیں۔ زاھر بن حرام بعد میں کوفہ منتقل ہو گئے تھے۔
(استیعاب جلد دوم صفحہ 509 زاھر بن الحرامؓ مطبوعہ دار الجیل بیروت 1992ء)
اگلے صحابی جن کا ذکر ہے ان کا نام حضرت زید بن خطاب ہے۔ آپ حضرت عمرؓ کے بڑے بھائی تھے اور حضرت عمرؓ کے اسلام قبول کرنے سے قبل اسلام لے آئے تھے۔ یہ ابتدائی ہجرت کرنے والوں میں سے بھی تھے۔ غزوۂ بدر میں، احد میں، خندق میں، حدیبیہ میں اور بیعت رضوان سمیت غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی مؤاخات حضرت مَعْن بن عَدِی کے ساتھ کروائی تھی۔ یہ دونوں اصحاب جنگِ یمامہ میں شہید ہوئے۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 288 زید بن الخطابؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
(استیعاب جلد دوم صفحہ 550زید بن الخطاب ؓ مطبوعہ دار الجیل بیروت 1992ء)
غزوۂ احد کے دن حضرت عمرؓ نے حضرت زیدؓکو اللہ کی قسم دے کر فرمایا (حضرت زیدؓ حضرت عمرؓ کے بڑے بھائی تھے، ان کو کہا) کہ میری زرہ پہن لو۔حضرت زیدؓ نے کچھ دیر کے لئے زرہ پہن لی۔ جنگ کے وقت پھر اتار دی۔ حضرت عمرؓ نے زرہ اتارنے کی وجہ پوچھی تو حضرت زیدؓ نے جواب دیا کہ میں بھی اسی شہادت کا خواہش مند ہوں جس کی آپ کو تمنا ہے اور دونوں نے زرہ کو چھوڑ دیا۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 289 زید بن الخطابؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
حضرت زید بن خطاب سے روایت ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے غلاموں کا خیال رکھو۔ اپنے غلاموں کا خیال رکھو۔ انہیں اسی میں سے کھلاؤ جو تم کھاتے ہو اور انہیں وہی پہناؤ جو تم خود پہنتے ہو۔ اور اگر ان سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے جس پر تم ان کو معاف نہ کرنا چاہو تو اے اللہ کے بندو! انہیں بیچ دیا کرو اور انہیں سزا نہ دیا کرو۔ جنگ یمامہ میں جب مسلمانوں کے پاؤں اکھڑے تو حضرت زید بن خطاب بلند آواز میں پکارنے لگے، یہ دعا کرنے لگے کہ اے اللہ! میں تجھ سے اپنے ساتھیوں کے بھاگ جانے پر معذرت کرتا ہوں اور مسیلمہ کذّاب اور مُحَکَّمْ بن طُفَیل نے جو کام کیا ہے اس سے تیرے حضور اپنی براءت ظاہر کرتا ہوں۔ پھر آپؓ جھنڈے کو مضبوطی سے پکڑ کر دشمن کی صفوں میں آگے بڑھ کر اپنی تلوارکے جوہر دکھانے لگے یہاں تک کہ آپؓ شہید ہو گئے۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 288 زید بن الخطابؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
جب حضرت زیدؓ شہید ہو گئے تو حضرت عمرؓ نے فرما یا اللہ زید پر رحم کرے۔ میرا بھائی دو نیکیوں میںمجھ پر سبقت لے گیا یعنی اسلام قبول کرنے میں بھی مجھ سے پہلے اس نے اسلام قبول کیا اور شہید بھی مجھ سے پہلے ہو گیا۔
(الاصابہ فی تمیزالصحابہ الابن حجر عسقلانی جلد4 صفحہ500 ذکر زید بن الخطّاب)
ایک روایت میں ہے کہ حضرت عمرؓ نے مُتَمِّمْؓ بن نُوَیْرَۃ کو اپنے بھائی مالکؓ بن نُوَیْرَۃ کی یاد میں مرثیہ کہتے سنا تو حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اگر میں بھی تمہاری طرح اچھے شعر کہتا ہوتا تو میں اپنے بھائی زیدؓ کی یاد میں ایسے ہی شعر کہتا جیسے تم نے اپنے بھائی کے لئے کہے ہیں تو مُتَمِّمْؓ بن نُوَیْرَۃ نے کہا کہ اگر میرا بھائی بھی اسی طرح دنیا سے گیا ہوتا جیسے آپ کا بھائی گیا تو مَیں کبھی اس پر غمگین نہ ہوتا۔ اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ آج تک کبھی کسی نے مجھ سے ایسی تعزیت نہیں کی جیسی تم نے کی۔
(استیعاب جلد دوم صفحہ 553زید بن الخطاب ؓ مطبوعہ دار الجیل بیروت 1992ء)
اس واقعہ کی ایک اور تفصیلی روایت بھی ملتی ہے کہ حضرت عمرؓ نے حضرت مُتَمِّمْؓ بن نُوَیْرَۃ سے فرمایا کہ تمہیں اپنے بھائی کا کس قدر سخت رنج ہے۔ انہوں نے اپنی ایک آنکھ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ میری یہ آنکھ اسی غم میں ضائع ہوئی ہے۔ مَیںا پنی صحیح آنکھ کے ساتھ اس قدر رویا کہ ضائع ہونے والی آنکھ نے بھی آنسو بہانے میں اس کی مدد کی ہے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ یہ ایسا شدید رنج ہے کہ کسی نے اپنے ہلاک ہونے والے کے لئے اتنے شدید غم کا اظہار نہ کیا ہو گا۔ پھر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اللہ زید بن خطاب پر رحمت کرے۔ اگر میں شعر کہنے کی طاقت رکھتا تو میں بھی ضرور حضرت زیدؓ پر اسی طرح روتا جس طرح تم اپنے بھائی پر روتے ہو۔ حضرت مُتَمِّمْؓ نے کہا کہ اے امیر المومنین! اگر میرا بھائی جنگِ یمامہ میں اسی طرح شہید ہوتا جس طرح آپ کے بھائی شہید ہوئے ہیں تو مَیں کبھی اس پر نہ روتا۔ یہ بات حضرت عمرؓ کے دل کو لگی اور اپنے بھائی کی طرف سے آپ کو تسلی ہو گئی۔ حضرت عمرؓ کو اپنے بھائی کی جدائی کا بہت غم تھا۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ جب بادِ صبا چلتی ہے تو میرے پاس زیدؓ کی خوشبو لاتی ہے۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 289 زید بن الخطابؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
مسیلمہ کذّاب کے ساتھیوں میں سے رَجَّال بن عُنْفُوَۃ حضرت زَیدِ بِن خَطَّاب ہی کے ہاتھوں سے مارا گیا۔ ایک روایت میں رَجَّال بن عُنْفُوَۃ کا نام نَہَار بھی آیا ہے۔ یہ وہ شخص تھا جس نے اسلام قبول کیا۔ ہجرت کی اور قرآن کا قاری تھا۔ پھر مسیلمہ کے ساتھ شامل ہو گیا۔ (اس لئے ہمیشہ انجام بخیر ہونے کی دعا مانگنی چاہئے۔) اور اسے کہا کہ مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ انہوں نے تمہیں نبوت میں شریک کر لیا ہے۔ یہ بَنُوحَنِیْفَہ کے لئے سب سے بڑا فتنہ تھا۔ حضرت ابوہریرۃؓ سے مروی ہے کہ مَیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک وفد کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ ہمارے ساتھ رَجَّال بن عُنْفُوَۃبھی تھا۔ آپؐ نے فرمایا کہ تم میں ایک شخص ہے جس کی داڑھ اُحد پہاڑ کے برابر آگ میں ہو گی یعنی کہ وہ آگ میں ہو گا۔ وہ ایک قوم کو گمراہ کرے گا۔ پھر میں اور رَجَّال بن عُنْفُوَۃ باقی بچے۔ میں ہمیشہ اس بارے میں ڈرتا تھا یہاں تک کہ رَجَّال بن عُنْفُوَۃ مُسَیْلِمَہ کذاب کے ساتھ نکلا اور اس نے اس کی نبوت کی گواہی دی۔ یہ رَجَّال بن عُنْفُوَۃ جنگِ یمامہ میں قتل ہوا اورحضرت زیدِ بِن خَطّاب نے اسے قتل کیا۔
(استیعاب جلد دوم صفحہ 551-552 زید بن الخطابؓ مطبوعہ دار الجیل بیروت )
حضرت زیدِ بِن خَطّاب کو ابو مریم الحنفی نے شہید کیا تھا۔ حضرت عمرؓ نے ایک دفعہ ابومریم سے جب اس نے اسلام قبول کر لیا تھا کہا کہ کیا تم نے زیدؓ کو شہید کیا تھا۔ اس نے حضرت عمرؓ سے کہا کہ اے امیر المومنین! اللہ تعالیٰ نے حضرت زیدؓ کو میرے ہاتھوں عزت بخشی اور مجھے ان کے ہاتھوں رسوا نہیں کیا۔ حضرت عمرؓ نے ابومریم سے فرمایا کہ تمہاری رائے میں اس روز جنگ یمامہ میں مسلمانوں نے تمہارے کتنے آدمیوں کو قتل کیا تھا۔ ابومریم نے کہا کہ چودہ سو یا کچھ زائد ۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ بِئْسَ الْقَتْلٰی۔ کہ یہ کیا ہی برے مقتولین ہیں۔ ابومریم نے کہا کہ تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے مجھے باقی رکھا یہاں تک کہ میں نے اس دین کی طرف رجوع کیا جو اس نے اپنے نبی اور مسلمانوں کے لئے پسند فرمایا۔ حضرت عمرؓ، ابومریم کی اس بات سے بہت خوش ہوئے۔ ابو مریم بعد میں بصرہ کے قاضی بھی بنے۔
(الاستیعاب فی معرفۃالاصحاب۔ جلد نمبر 2 صفحہ 121 ذکر زید بن الخطاب۔ دارالکتب العلمیہ بیروت 2002ء)
(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 288-289 زید بن الخطابؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
اگلے جن صحابی کا ذکر ہے ان کا نام ہے حضرت عُبَادہؓ بن خَشْخَاشْ ہے۔ حضرت عُبَادہؓ بن خَشْخَاشْ کا نام واقدی نے عَبْدَہ بن حَسْحَاسْ بیان کیا ہے جبکہ ابنِ مَنْدَہ نے آپ کا نام عُبَادہؓ بن خَشْخَاشْ عَنْبَرِی بیان کیا ہے۔ بہرحال ان کا تعلق قبیلہ بَلِّی سے تھا۔ حضرت مُجَذَّرْ بن ذِیَاد کے چچا زاد بھائی تھے اور ان کی والدہ کی طر ف سے بھی بھائی تھے۔ آپ بَنُو سَالِم کے حلیف تھے۔
(اسدالغابہ جلد نمبر 3 صفحہ 53 عُبَادہؓ بن خَشْخَاش)
حضرت عُبَادہؓ بن خَشْخَاشْ غزوۂ بدر میں شریک تھے۔ آپؓ نے قیس بن سائِب کو غزوۂ بدر میں قید کیا تھا۔ حضرت عُبَادہؓ بن خَشْخَاشْ غزوۂ احد کے دن شہید ہوئے اور آپؓ کو حضرت نُعمان بن مالک اور حضرت مُجَذَّرْ بن ذِیَاد کے ساتھ ایک قبر میں دفن کیا گیا۔
(اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 157 عبادہ بن الخشخاشؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)
(اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 513 عبدہ بن الحسحاسؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)
اگلے صحابی جن کا ذکر ہو گا۔ ان کا نام حضرت عبداللہ بن جَدّ ہے۔ ان کے والد کا نام جدّ بن قیس تھا۔ ان کی کنیت ابووَہْب تھی۔ ان کا تعلق قبیلہ بنو سلَمہ سے تھا جو انصار کا ایک قبیلہ تھا۔ حضرت معاذ بن جبل والدہ کی طرف سے آپؓ کے بھائی تھے۔ حضرت عبداللہ بن جدّ غزوۂ بدر اور غزوۂ احد میں شریک ہوئے۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 430 عبد اللہ بن الجدؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
(اسد الغابہ جلد 3 صفحہ 196 عبد اللہ بن الجدؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)
غزوۂ تبوک کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن جدّ کے والد ابووہب سے کہا کہ ابووہب کیا تم اس سال ہمارے ساتھ جنگ کے لئے نکلو گے؟ ابووہب نے کہا کہ آپؐ مجھے اجازت دیں اور فتنہ میں مبتلا نہ کریں۔ مَیں نہیں جا سکتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جو اس نے بہانہ کیا، عجیب بہانہ ہے کہ میری قوم جانتی ہے کہ مَیں عورتوں کا بہت دلدادہ ہوں۔ اگر میں بنو اصفر یعنی رومیوں کی عورتوں کو دیکھوں گا تو اپنے اوپر قابو نہیں رکھ سکوں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے اعراض کرتے ہوئے اسے اجازت دے دی۔ ٹھیک ہے، بہانہ بنا رہے ہو، چھٹی دے دی، نہ جاؤ۔ حضرت عبداللہ بن جدّ کو یہ پتہ لگا تو اپنے والد کے پاس آئے، اور ان سے کہا کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کا کیوں انکار کیا ہے؟ اللہ کی قسم آپ تو بنو سلمہ میں سب سے زیادہ مالدار ہیں اور آج موقع ہے کہ اس میں حصہ لیں۔ نہ آپ خود غزوہ کے لئے نکلتے ہیں نہ ہی کسی کو سواری مہیا کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اے میرے بیٹے! اب یہاں بیٹے کے سامنے ایک اور بہانہ ہے اور وہی حقیقت ہے کہ میرے بیٹے میں کیوں اس گرمی اور تنگی کے موسم میں بنو اصفر کی طرف نکلوں۔ اللہ کی قسم میں تو خُربیٰ (جہاں بنوسلمہ کے گھر تھے) میں موجود اپنے گھر میں بھی ان کے خوف سے اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھتا۔ رومیوں کا بڑا خوف تھا، ڈر تھا۔ یہ بزدل آدمی تھے۔ تو کیا میں ان کے خلاف جاؤں اور ان کے خلاف جنگ میں شامل ہوں۔ اے بیٹے اللہ کی قسم! میں تو گردش زمانہ سے خوب آگاہ ہوں۔ مجھے پتہ ہے حالات کیا ہوتے ہیں، آج کچھ ہیں کل کچھ ہیں۔ ان کی یہ باتیں سن کر حضرت عبداللہ اپنے والد سے سختی سے پیش آئے اور کہا کہ اللہ کی قسم آپ میں تو نفاق پایا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ ضرور آپ کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن میں نازل کرے گا جسے سب پڑھ لیں گے، اللہ تعالیٰ ظاہر کر دے گا کہ آپ منافقین میں سے ہیں۔ حضرت عبداللہ کے والد نے اس پر اپنا جوتا اتار کر ان کے منہ پر مارا۔ عبداللہ وہاں سے چلے گئے اور اپنے والد سے بات نہیں کی۔
(کتاب المغازی للواقدی جلد دوم صفحہ381 غزوۂ تبوک دار الکتب بیروت 2004ء)
(وفاء الوفاء جلد 4 صفحہ 67 مطبوعہ المکتبۃ الحقانیہ پشاور)
جَدّ بن قیس جو حضرت عبداللہ کے والد تھے، ایک جگہ اُسُد الغابہ میں لکھا ہے کہ ان کے بارے میں نفاق کا گمان کیا گیا ہے۔ یہ حدیبیہ میں شریک تھے مگر جب لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی تو اس وقت یہ بیعت میں بھی شامل نہیں ہوئے۔ اور کہا جاتا ہے کہ بعد میں انہوں نے توبہ کر لی تھی اور ان کی وفات حضرت عثمانؓ کے زمانہ خلافت میں ہوئی۔
(اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 521 جد بن قیسؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)
اگلے جن صحابی کا ذکر ہے یہ حضرت حارث بن اوس بن معاذ ہیں۔ آپؓ قبیلہ اوس کے سردار حضرت سعد بن معاذ کے بھتیجے تھے۔ غزوۂ بدر اور احد میں شریک ہوئے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اٹھائیس سال کی عمر میں غزوۂ احد میں شہید ہوئے لیکن بعض دوسری روایات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آپؓ غزوۂ احد میں شہید نہیں ہوئے چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں غزوۂ خندق کے موقع پر لوگوں کے قدموں کی پیروی کرتے ہوئے نکلی۔ میں نے اپنے پیچھے سے زمین کی آہٹ سنی۔ پلٹ کر دیکھا تو حضرت سعد بن معاذ تھے اور آپ کا بھتیجا حارث بن اوس بھی ہمراہ تھا جو اپنی ڈھال اٹھائے ہوئے تھا۔ یہ روایت اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ آپ احد کے بعد بھی زندہ رہے۔
(اسد الغابہ جلد 1 صفحہ 589 حارث بن اوس بن معاذؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)
(مسند احمد بن حنبل جلد 8 صفحہ 256 حدیث عائشہؓ مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء)
حضرت حارثؓ کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ آپؓ ان لوگوں میںشامل تھے جنہوں نے کعب بن اشرف کو قتل کیا تھا اور اس حملے کے دوران آپ کے پاؤں پر زخم لگا اور خون بہنے لگا۔ صحابہ آپ کو اٹھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے تھے۔
(صحیح بخاری کتاب المغازی باب قتل کعب بن الاشرف۔ حدیث نمبر 4037)
(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 334 وابن اخیھما الحارث بن اوسؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
کعب بن اشرف وہ شخص تھا جو مدینہ کے سرداروں میں سے تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معاہدے میں شامل تھا لیکن معاہدہ کرکے بعد میں اس نے فتنہ پھیلانے کی کوشش کی اور اس کے قتل کا حکم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا۔ بہرحال اس موقع پر ان کے زخمی ہونے کا جو واقعہ ہے اس کی شرح عمدۃالقاری میں مزید تفصیل یہ ہے کہ محمد بن مسلمہ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ جب کعب بن اشرف پر حملہ کیا اور اس کو قتل کر دیا تو ان کے ایک ساتھی حضرت حارث بن اوس کو تلوار کی نوک لگی اور وہ زخمی ہو گئے، اپنے ساتھیوں کی تلوار کی نوک سے زخمی ہوئے تھے۔ چنانچہ آپؓ کے ساتھی انہیں اٹھا کر تیزی سے مدینہ پہنچے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حارث بن اوس کے زخم پر اپنا لعاب لگایا اور اس کے بعد انہیں تکلیف نہیں ہوئی۔
(عمدۃ القاری جلد 17 صفحہ 179 کتاب المغازی باب قتل کعب بن الاشرف مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2001ء)
کعب بن اشرف کا قتل کیوں کیا گیا، اس کی تھوڑی سی تفصیل ایک موقع پر پہلے بھی مَیں نے بیان کی تھی۔ مزید تفصیل جو حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے لکھی ہے وہ بیان کرتا ہوں۔ بعض باتیں وہی ہیں کہ کعب گو مذہباً یہودی تھا، لیکن دراصل یہودی النسل نہ تھا، بلکہ عرب تھا۔ اس کا باپ اشرف بنونَبْھان کا ایک ہوشیار اور چلتا پُرزہ آدمی تھا جس نے مدینہ میں آ کر بنو نضیر کے ساتھ تعلقات پیدا کئے پھر ان کا حلیف بن گیا۔ آخر اس نے اتنا اقتدار اور رسوخ پیدا کر لیا کہ قبیلہ بنو نضیر کے بڑے رئیس ابو رافع بن ابی الحُقَیق نے اپنی لڑکی اس کو رشتہ میں دے دی۔ اسی لڑکی کے بطن سے کعب پیدا ہوا جس نے بڑے ہو کر اپنے باپ سے بھی بڑھ کر رتبہ حاصل کیا حتٰی کہ بالآخر اسے یہ حیثیت حاصل ہو گئی کہ تمام عرب کے یہودی اسے اپنا سردار سمجھنے لگ گئے۔ کعب ایک وجیہہ اور شکیل شخص ہونے کے علاوہ قادر الکلام بھی تھا۔ بہت اچھی تقریر کر لیا کرتا تھا، بہت اچھا بولتا تھا۔ اور شاعر بھی تھا اور انتہائی دولت مند آدمی بھی تھا اور اپنی قوم کے علماء اور دوسرے ذی اثر لوگوں کو اپنی مالی فیاضی سے اپنے ہاتھ کے نیچے رکھتا تھا۔ مگر اخلاقی نقطۂ نگاہ سے وہ ایک نہایت گندے اخلاق کا آدمی تھا۔ خفیہ چالوں اور ریشہ دوانیوں کے فن میں اسے کمال حاصل تھا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مدینہ میں ہجرت کی تو کعب بن اشرف نے دوسرے یہودیوں کے ساتھ مل کر اس معاہدے میں شرکت اختیار کی۔ یہ لمبی تفصیل انہوں نے لکھی ہوئی ہے۔ میں بعض جگہ سے کچھ مختصر بیان کروں گا۔ بہرحال اس معاہدے میں شرکت کی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور یہود کے درمیان باہمی دوستی اور امن اور امان اور مشترکہ دفاع کے متعلق تحریر کیا گیا تھا۔ مگر اندر ہی اندر کعب کے دل میں بغض اور عداوت کی آگ سلگنے لگی۔ معاہدے میں شامل تو وہ ہو گیا لیکن دل میں اس کے فتور تھا، نفاق تھا اور دشمنی تھی، کینہ اور بغض تھا اور اس کی وجہ سے اس کی آگ میں وہ جل رہا تھا اور اس بغض اور کینہ کی وجہ سے اس نے خفیہ چالوں اور مخفی ساز باز سے اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت شروع کر دی۔ چنانچہ لکھا ہے کہ کعب ہر سال یہودی علماء و مشائخ کو بہت سی خیرات دیا کرتا تھا لیکن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے بعد یہ لوگ اپنے سالانہ وظائف لینے کے لئے اس کے پاس گئے تو اس نے باتوں باتوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا اور ان سے کہا کہ اپنی مذہبی کتابوں کی بنا پر تمہاری کیا رائے ہے کہ یہ شخص سچا ہے کہ نہیں؟ انہوں نے کہا کہ بظاہر تو یہ وہی نبی معلوم ہوتا ہے جس کا ہمیں وعدہ دیا گیا ہے ۔ اس جواب پر کعب جو بغض اور کینہ رکھتا تھا بگڑ گیا اور ان کو بڑا سخت برا بھلا کہا اور جو خیرات انہیں دیا کرتا تھا، جو وظیفہ لگایا ہوا تھا وہ نہ دیا۔ یہودی علماء کی جب روزی بند ہو گئی تو پھر یہ کچھ عرصہ کے بعد دوبارہ کعب کے پاس گئے اور کہا کہ ہمیں علامات کے سمجھنے میں غلطی لگ گئی تھی۔ ہم نے غور کیا ہے، اصل میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم وہ نبی نہیں ہیں جن کا وعدہ دیا گیا تھا۔ بہرحال اس جواب سے کعب کا مطلب تو حل ہو گیا اور اس نے خوش ہو کر ان کو خیرات کر دی، اُن کا بھی مطلب حل ہو گیا۔ تو بہرحال یہ تو ایک مذہبی مخالفت تھی، حضرت میاں بشیر احمد صاحبؓ نے صحیح لکھا ہے کہ مذہبی مخالفت تھی اور یہ مذہبی مخالفت کوئی ایسی قابل اعتراض بات نہیں ہے کہ جس پر کوئی انتہائی قدم اٹھایا جائے یا کعب کو زیر الزام سمجھا جائے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ اس کے بعد کعب کی مخالفت زیادہ خطرناک صورت اختیار کر گئی اور آخر جنگ بدر کے بعد تو اس نے ایسا رویہ اختیار کیا جو سخت مفسدانہ اور فتنہ انگیز تھا اور مسلمانوں کے لئے نہایت خطرناک حالات پیدا ہو گئے تھے۔ پہلے تو کعب یہ سمجھتا تھا کہ مسلمان کا ایمان کا جوش یہ عارضی چیز ہے اور ختم ہو جائے گا اور وہ واپس اپنے مذہب کی طرف آ جائیں گے لیکن جب جنگ بدر میں غیرمعمولی فتح نصیب ہوئی اور قریش کے اکثر سردار مارے گئے تو پھر اس کو فکر پیدا ہوئی اور پھر اس نے اپنی پوری کوشش اسلام کے مٹانے اور تباہ و برباد کرنے میں صرف کرنے کا تہیہ کیا۔ اس کے دلی بغض و حسد کاسب سے پہلا اظہار بدر کے موقع پر ہی ہوا جب لوگوں نے آ کر کہا کہ مکہ کے کفار پر ہماری فتح ہوئی ہے تو اس نے بڑا کہا کہ یہ سب جھوٹ ہے اور یہ غلط خبر ہے۔ لیکن بہرحال جیسا کہ ذکر ہوا ہے کہ یہ خبر سچی ثابت ہونے کے بعد اس کا غیض و غضب اَور زیادہ بھڑک اٹھا۔ اس کے بعد جب جنگ بدر کی فتح کے بعد مسلمان واپس آ گئے تو اس نے مکہ کا سفر کیا اور وہاں جا کر مکہ والوں کو اپنی چرب زبانی، اپنی باتوں اور اپنی تقریروں اور شعروں کے ذریعہ سے قریش کے دلوں کی سلگتی ہوئی آگ جو مسلمانوں کے خلاف تھی اس کو اَور تیز کیا اور بھڑکانے کی کوشش کی اور ان کے دل میں مسلمانوں کے خون کی نہ بجھنے والی پیاس پیدا کر دی۔ اور ان کے سینے جذبات اور انتقام سے سخت بھر دئیے۔ جب کعب کی اشتعال انگیزی سے ان کے احساسات میں ایک انتہائی درجہ کی تیزی پیدا ہو گئی، بجلی پیدا ہو گئی تو اس نے ان کو خانہ کعبہ کے صحن میں لے جا کر کعبہ کے پردے ان کے ہاتھ میں دے دئیے اور ان سے قسمیں لیں کہ جب تک اسلام اور بانیٔ اسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا سے ملیا میٹ نہ کر دیں اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ کہتے ہیں کہ اس کی ان باتوں سے مکہ میں آتش فشاں کی سی کیفیت پیدا ہو گئی۔ پھر اس نے دوسرے قبائل کا رخ کیا اور ہر قوم میں جا کے مسلمانوں کے خلاف لوگوں کو بھڑکایا اور مسلمان خواتین پر بھی تشبیب کی یعنی اپنے جوش دلانے والے اشعار میں نہایت گندے اور فحش طریق پر مسلمان خواتین کا ذکر کیا حتٰی کہ خاندان نبوت کی مستورات کو بھی ان اوباشانہ اشعار کا نشانہ بنایا اور اپنے شعروں کا بڑا چرچا کروایا۔ آخر اس نے انتہا یہ کی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی سازش کی اور آپؐ کو کسی دعوت وغیرہ کے بہانے سے اپنے مکان پر بلا کر چند نوجوان یہودیوں سے آپؐ کو قتل کروانے کا منصوبہ بنایا۔ مگر خدا تعالیٰ کے فضل سے وقت پر اطلاع ہو گئی اور یہ سازش کامیاب نہیں ہوئی۔
جب نوبت یہاں تک آگئی اور کعب کے خلاف عہد شکنی، بغاوت، تحریک جنگ، فتنہ پردازی، فحش گوئی اور سازش قتل کے الزامات پایۂ ثبوت کو پہنچ گئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اس بین الاقوام معاہدہ کی رو سے جو آپؐ کے مدینہ میں تشریف لانے کے بعد مدینہ کے لوگوں میں ہوا تھا، مدینہ کی جمہوری سلطنت قائم ہوئی تھی اور آپؐ اس کے صدر اور حاکمِ اعلیٰ بنے تھے۔ آپؐ نے یہ فیصلہ فرمایا کہ کعب بن اشرف اپنی کارروائیوں کی وجہ سے واجب القتل ہے اور اپنے صحابیوں کو ارشاد فرمایا کہ اسے قتل کر دیا جائے۔ لیکن چونکہ اس وقت کعب کی فتنہ انگیزیوں کی وجہ سے مدینہ کی فضا ایسی ہو رہی تھی کہ اگر اس کے خلاف باضابطہ طور پر اعلان کر کے اسے قتل کیا جاتا تو خطرہ تھا کہ مدینہ میں خانہ جنگی نہ شروع ہو جائے اور پھر پتہ نہیں کتنا کشت و خون ہو اور اس وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جنگ اور فتنے اور فساد اور کشت و خون کو روکنے کے لئے یہ فیصلہ کیا کہ خاموش طریقے سے اس کا قتل کیا جائے اور اس کے لئے آپؐ نے یہ ڈیوٹی قبیلہ اَوس کے ایک مخلص صحابی محمد بن مسلمہ کے سپرد فرمائی اور انہیں یہ بھی تاکید فرمائی کہ جو بھی طریق اختیار کریں قبیلہ اَوس کے رئیس سعد بن معاذ کے مشورہ سے اس پر عمل کریں۔ تو محمد بن مسلمہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ خاموشی سے قتل کرنے کے لئے تو کوئی بات عذر وغیرہ بنانا پڑے گا جس کی مدد سے کعب کو اس کے گھر سے نکال کر قتل کیا جاسکے تو آپؐ نے فرمایا اچھا، (ٹھیک ہے۔ جو بھی تم نے طریق اختیار کرنا ہے کرو۔) چنانچہ محمد بن مسلمہ نے سعد بن معاذ کے مشورہ سے ابونائلہ اور دو تین اور صحابیوں کو اپنے ساتھ لیا اور کعب کے مکان پر پہنچے اور ان سے کہا کہ ہمارے صاحب یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے صدقہ مانگا ہے۔ آجکل ہم تنگ حال ہیں تم ہمیں کچھ قرض دے سکتے ہو؟ یہ سن کے وہ بڑا خوش ہوا اور کہنے لگا کہ وہ دن دور نہیں کہ جب تم اس شخص سے بیزار ہو جاؤ گے اور اسے چھوڑ دو گے۔ تو محمد نے جواب دیا کہ خیر ہم تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اختیار کر چکے ہیں، اور اب ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ اس سلسلہ کا انجام کیا ہوتا ہے۔ مگر تم بتاؤ کہ قرض دو گے کہ نہیں ؟ کعب نے کہا ہاں میں دے دوں گا مگر کچھ چیز رہن رکھو۔ انہوں نے کہا کیا چیز ؟تواس بدبخت نے پہلی بات یہ کہی کہ اپنی عورتیں میرے پاس رہن رکھ دو۔ ان کو غصّہ تو بہت آیا کہ تمہارے جیسے آدمی کے پاس ہم اپنی عورتیں رکھ دیں۔ اس نے کہا اچھا پھر بیٹے دے دو۔ انہوں نے کہا یہ بھی ممکن نہیں ہے۔ ہم سارے عرب کا طعن اپنے سر پر نہیں لے سکتے۔ اگر تم مہربانی کرو تو اپنے ہتھیار تمہارے پاس رہن رکھ دیتے ہیں۔ تو کعب اس پر راضی ہو گیا۔ محمد بن مسلمہ اور اس کے ساتھی رات کو آنے کا وعدہ دے کر واپس چلے گئے اور جب رات ہوئی تو یہ لوگ کھلے طور پر اپنے ہتھیار لے کر آئے۔ اس کو بلایا، گھر سے باہر لے کر آئے، اس پر قابو پا لیا اور پھر انہوں نے اس کو قتل کر دیا۔ جب قتل کیا تو اس وقت حضرت حارث کا جو ذکر آ رہا ہے وہ زخمی ہو گئے تھے، ان کو اپنے لوگوں کی تلوار لگ گئی تھی۔ اور پھر جب اس کو قتل کر دیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اس قتل کی اطلاع دی۔
جب صبح اس کے قتل کی خبر مشہور ہوئی تو شہر میں بڑی سنسنی پھیل گئی۔ سب یہودی جوش میں آگئے۔ دوسرے دن یعنی اگلے دن صبح یہودیوں کا ایک وفد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور شکایت کی کہ ہمارا سردار کعب بن اشرف اس طرح قتل کر دیا گیا ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سن کر فرمایا، انکار نہیں کیا نہ یہ کہا کہ اچھا مجھے نہیں پتہ، کوئی ایسی بات نہیں ہوئی۔ آپؐ نے فرمایا کہ تمہیں معلوم ہے کہ کعب کس کس جرم کا مرتکب ہوا ہے۔ پھر آپؐ نے اجمالاً ان کو کعب کی عہد شکنی، تحریک جنگ، فتنہ انگیزی، فحش گوئی، سازش قتل وغیرہ کی کارروائیاں یاد دلائیں جس پر یہ لوگ ڈر کر خاموش ہو گئے۔ تب ان کا جوش ٹھنڈا ہوگیا۔ ان کو پتہ لگ گیا کہ ہاں بات تو حقیقت ہے اور یہی اس کی سزا ہونی چاہئے تھی۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ تمہیں چاہئے کہ کم از کم آئندہ کے لئے امن اور تعاون کا معاہدہ کرو اور عداوت اور فتنہ و فساد کا بیج نہ بوؤ۔ چنانچہ یہود کی رضا مندی کے ساتھ آئندہ کے لئے ایک نیا معاہدہ لکھا گیا اور یہود نے مسلمانوں کے ساتھ امن و امان کے ساتھ رہنے اور فتنہ و فساد کے طریقوں سے بچنے کا از سر نَو وعدہ کیا اور یہ عہد نامہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سپردگی میں دے دیا گیا۔ تاریخ میں کسی بھی جگہ مذکور نہیں کہ اس کے بعد یہودیوں نے کبھی کعب بن اشرف کے قتل کا ذکر کر کے مسلمانوں پر الزام عائد کیا ہو کیونکہ ان کے دل محسوس کرتے تھے کہ کعب اپنی مستحق سزا کو پہنچا ہے۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ مغربی مؤرخین بعد میں یہ اعتراض کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ناجائز قتل کروایا اور یہ غلط چیز تھی۔ تو وہ لکھتے ہیں کہ یہ ناجائز قتل نہیں تھا۔ کیونکہ کعب بن اشرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ باقاعدہ امن کا معاہدہ کر چکا تھا اور مسلمانوں کے خلاف کارروائی کرنا تو درکنار رہا اس نے اس بات کا عہد کیا تھا کہ وہ ہر بیرونی دشمن کے خلاف مسلمانوں کی مدد کرے گا اور مسلمانوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھے گا۔ اس نے اس معاہدے کی رو سے یہ بھی تسلیم کیا تھا کہ جو رنگ مدینہ میں جمہوری سلطنت کا قائم کیا گیا ہے اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صدر ہوں گے اور ہر قسم کے تنازعات وغیرہ میں آپؐ کا فیصلہ سب کے لئے واجب القبول ہو گا۔ چنانچہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ تاریخ سے ثابت ہے کہ اسی معاہدے کے ماتحت یہودی لوگ اپنے مقدمات وغیرہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرتے تھے اور آپؐ ان میں احکام جاری فرماتے تھے۔ اب ان حالات کے ہوتے ہوئے کعب نے تمام عہد و پیمان کو بالائے طاق رکھا، پیچھے کر دیا، چھوڑ دیا۔ مسلمانوں سے بلکہ حق یہ ہے کہ حکومت وقت سے غداری کی۔ یہاں مسلمانوں سے غداری کا سوال نہیں اس نے حکومت وقت سے غداری کی کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سربراہ حکومت تھے اور مدینہ میں فتنہ و فساد کا بیج بویا اور ملک میں جنگ کی آگ مشتعل کرنے کی کوشش کی اور مسلمانوں کے خلاف قبائل عرب کو خطرناک طور پر ابھارا اور مسلمانوں کی عورتوں پر اپنے جوش دلانے والے اشعار میں تشبیب بھی کہی۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے منصوبے کئے۔ یہ سب کچھ ایسی حالت میں کیا کہ مسلمان پہلے سے ہی جو چاروں طرف سے مصائب میں گرفتار تھے ان کے لئے سخت مشکل حالات پیدا کر دئیے اور ان حالات میں کعب کا جرم بلکہ بہت سے جرموں کا مجموعہ ایسا نہ تھا کہ اس کے خلاف کوئی تعزیری قدم نہ اٹھایا جائے۔ چنانچہ یہ قدم اٹھایا گیا اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ آجکل مہذب کہلانے والے ممالک میں بغاوت اور عہد شکنی اور اشتعال جنگ اور سازش قتل کے جرموں میں مجرموں کو قتل کی سزا دی جاتی ہے پھر اعتراض کس چیز کا۔
اور پھر دوسرا سوال قتل کے طریق کا ہے کہ اس کو خاموشی سے کیوں رات کو مارا گیا؟ تو اس کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ یاد رکھنا چاہئے کہ عرب میں اس وقت کوئی باقاعدہ سلطنت نہیں تھی۔ ایک سربراہ تو مقرر کر لیا تھا، لیکن صرف اسی کا فیصلہ نہیں ہوتا تھا بلکہ اگر اپنے اپنے فیصلے کرنا چاہے تو ہر شخص اور ہر قبیلہ آزاد اور خود مختار بھی تھا۔ مجموعی طور پر مشترکہ فیصلے ہوتے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے تھے اور اگر اپنے طور پر قبیلوںنے کرنے ہوتے تو وہ بھی ہوتے تھے۔ تو ایسی صورت میں وہ کون سی عدالت تھی جہاں کعب کے خلاف مقدمہ دائر کر کے باقاعدہ قتل کا حکم حاصل کیا جاتا۔ کیا یہود کے پاس شکایت کی جاتی جن کا وہ سردار تھا اور جو خود مسلمانوں سے غداری کر چکے تھے، آئے دن فتنے کھڑے کرتے رہتے تھے؟ اس لئے یہ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ یہود کے پاس جایا جاتا۔ قبائل سُلَیم اور غطفان سے دادرسی چاہی جاتی جو گزشتہ چند ماہ میں تین چار دفعہ مدینہ پر چھاپہ مارنے کی تیاری کر چکے تھے؟ وہ بھی ان کے قبیلے تھے تو ظاہر ہے کہ ان سے بھی کوئی انصاف نہیں ملنا تھا۔ پھر آپ لکھتے ہیں کہ اس وقت کی حالت پر غور کرو اور پھر سوچو کہ مسلمانوں کے لئے سوائے اس کے وہ کون سا راستہ کھلا تھا کہ جب ایک شخص کی اشتعال انگیزی اور تحریک جنگ اور فتنہ پردازی اور سازش قتل کی وجہ سے اس کی زندگی کو اپنے لئے اور ملک کے امن کے لئے خطرہ پاتے ہوئے خود حفاظتی کے خیال سے موقع پا کر اسے قتل کر دیتے کیونکہ یہ بہت بہتر ہے کہ ایک شریر اور مفسد آدمی قتل ہو جاوے بجائے اس کے کہ بہت سے پُرامن شہریوںکی جان خطرے میں پڑے اور ملک کا امن برباد ہو۔ اللہ تعالیٰ بھی یہی فرماتا ہے کہ فتنہ جو ہے وہ قتل سے بڑا ہے۔
بہرحال اس معاہدے کی رو سے جو ہجرت کے بعد مسلمانوں اور یہود کے درمیان ہوا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک معمولی شہری کی حیثیت حاصل نہیں تھی بلکہ آپؐ اس جمہوری سلطنت کے صدر قرار پائے تھے جو مدینہ میں قائم ہوئی تھی اور آپؐ کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ جملہ تنازعات اور امور سیاسی میں جو فیصلہ مناسب خیال کریں صادر فرمائیں۔ پس اگر آپؐ نے ملک کے امن کے مفاد میں کعب کی فتنہ پردازی کی وجہ سے اسے واجب القتل قرار دیا تو یہ کوئی ایسی بات نہیں تھی اس لئے تیرہ سو سال کے بعد اسلام پر اعتراض کرنے والوں کا یہ اعتراض جو ہے بالکل بودا ہے کیونکہ اس وقت تو یہودیوں نے آپؐ کی بات سن کے اس پہ کوئی اعتراض نہیںکیا اور کبھی بھی اعتراض نہیں کیا۔
(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ صفحہ 467 تا 473)
تو یہ تھی اس کی حالت اور بہرحال یہ ذکر ہوا تھا حضرت حارث بن اوس بن معاذؓکا کہ یہ بھی اس قتل میں شامل تھے، اس ٹیم میں جو اس کے قتل کے لئے بھیجی گئی تھی اور جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر یا اسلام پر شدت پسندی کے الزامات لگتے ہیں وہ سب الزامات بھی غلط تھے۔ وہ اس بات کا حق دار تھا کہ اس کو سزا دی جاتی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سربراہ حکومت کی حیثیت سے اسے سزاد ی۔ آج انہی کے واقعات پہ ختم کرتا ہوں۔
اللہ تعالیٰ ہمیشہ اسلام کو بھی ان فتنوں سے محفوظ رکھے۔ آجکل مسلمانوں کی یہی حالت ہے کہ بجائے اس کے کہ ان پرانی باتوں سے تاریخ سے سبق لیں خود فتنوں میں پڑے ہوئے ہیں اور خود فتنوں کی وجہ بن رہے ہیں حکومتوں کے اندر بھی اور مسلمان حکومتیں بھی۔ اللہ تعالیٰ اسلام کو ان فتنوں سے بچائے اور اس زمانے میں اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے ہادی کو جو اسلام کی احیائے نو کے لئے آیا ہے ماننے کی توفیق عطا فرمائے۔