مجلس انصار اللہ یوکے کے سالانہ اجتماع کے موقع پر امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا اختتامی خطاب
فرمودہ30؍ستمبر 2018ء بروز اتوار بمقام کنگزلے، کنٹری مارکیٹ (Country Market، Kingsley)
َٔشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔
صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ۔ (الذَّاریات57:)
اور میں نے جن و انس کو پیدا نہیں کیا مگر اس غرض سے کہ وہ میری عبادت کریں۔
یہ اس آیت کا ترجمہ ہے جو میں نے تلاوت کی۔ گزشتہ ہفتے خدام الاحمدیہ کا اجتماع تھا۔ اس سال ان کے اجتماع کا theme ’صلوٰۃ‘ تھا بلکہ سارا سال ہی انہوں نے اس بات کے حصول کو اپنا ٹارگٹ مقرر کیا اور کوشش کی کہ خدام میں نمازوں کی طرف توجہ پیدا ہو۔ میں نے اپنی اختتامی تقریر میں ان کو اسی طرف توجہ دلائی تھی کہ یہ ایک سال کا ٹارگٹ نہیں ہے بلکہ انسانی زندگی کا مقصد حیات ہی یہ ہے اور یہ مقصد اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے مقرر کیا ہے۔ پس اس لحاظ سے میں آج انصار اللہ کو بھی اسی طرف توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ یہ ایک ایسا مقصد ہے، زندگی کا ایک ایسا مقصد ہے جسے حاصل کئے بغیر کوئی مسلمان مسلمان ہونے کا حق ادا نہیں کر سکتا۔ لیکن جس طرح اور جس توجہ کے ساتھ اس طرف توجہ دینی چاہئے بدقسمتی سے اس کی جماعت کے ہر طبقے اور عمر کے لوگوںمیں بھی کمی ہے، اور انصاراللہ کی عمر کے لوگوں میں سے بہت سے ایسے ہیں جو اس اہم فریضے اور مقصد حیات کی اہمیت کو نہیں سمجھتے۔ اور جو توجہ ہونی چاہئے تھی وہ توجہ نہیں ہے۔ انصار اللہ کی عمر میں آ کر تو خاص طور پر اس طرف توجہ ہونی چاہئے۔ جوانی میں اگر احساس نہ بھی پیدا ہو، گو کہ جوانی میں بھی اللہ تعالیٰ کی عبادت کا احساس ایک احمدی میں پیدا ہونا چاہئے اور مومن کی یہ شان ہے اور اگر یہ احساس پیدا نہیں ہوتا تو مومن کی شان کے خلاف ہے اور اسے ایمان سے باہر نکالتا ہے۔ لیکن بڑی عمر میں، چالیس سال کی عمر کے بعد تو یہ احساس بہت بڑھ جانا چاہئے کہ ہر آنے والا دن ہماری عمر میں اضافہ نہیں کر رہا بلکہ ہماری عمر کو کم کر رہا ہے۔ جو وقت اللہ تعالیٰ نے دے دیا ہے اسے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے استعمال کریں، اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے صرف کریں جو اللہ تعالیٰ نے ہماری زندگی کا مقصد بتایا ہے۔
میرے خیال میں گزشتہ اجتماع انصار اللہ جس میں مَیں شامل ہوا تھا اس میں بھی مَیں نے انصار اللہ کو نمازوں کی طرف توجہ دلائی تھی لیکن شاید چند دن یا کچھ تھوڑے عرصہ کے لئے کچھ حد تک اس پر توجہ دی گئی ہو لیکن بعد میں میرے خیال میں دنیاوی مصروفیات اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ مقصد حیات پر حاوی ہو گئیں۔ اسی طرح اکثر خطبات میں بھی میں اس طرف توجہ دلاتا رہتا ہوں لیکن چند دنوں میں ہی اس بات کو بھول جاتے ہیں اور مسجدوں کی آبادیوں میں فرق پڑنا شروع ہو جاتا ہے۔ وہ رونق مسجد کی نہیں رہتی جس کی ایک احمدی مسجد سے توقع کی جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بےشمار جگہ نماز قائم کرنے کا حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے شروع میں ہی ہدایت پانے والے اور حقیقی مومنوں کے لئے یُقِیْمُوْنَ الصَّلوٰۃَ کے الفاظ استعمال فرمائے یعنی نمازوں کو قائم کرنے والے۔ اگر ہم یُقِیْمُوْنَ الصَّلوٰۃَ کے الفاظ کی لغات کے لحاظ سے کچھ وضاحت کریں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ نماز کو باجماعت ادا کرنے والے۔ نماز کو اس کی شرائط کے مطابق اور وقت پر ادا کرنے والے۔ ایک دوسرے کو نماز کی تلقین کرنے والے تا کہ مسجدیں بارونق ہوں۔ نمازوں کی خواہش اور محبت دلوں میں پیدا کرنے والے۔ نمازوں کی ادائیگی میں باقاعدگی اور پابندی کرنے والے۔ نماز کی حفاظت کرنے والے۔ اسے گرنے سے بچانے والے۔ اپنی توجہ نماز کی طرف رکھنے والے۔
نماز پڑھتے ہوئے بعض دوسرے خیالات کی طرف توجہ ہو جاتی ہے تو انسان پھر اللہ تعالیٰ کی پناہ میںآتے ہوئے دعا کرتا ہے اور ان خیالات کو اور جھٹکتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتا ہے تا کہ نماز کی حفاظت ہو۔ تو بہرحال جب اللہ تعالیٰ نے ہدایت پانے والے مومنوں کو نمازوں کے قیام کی ہدایت فرمائی تو اس قیام کا مقصد یہ ہے کہ نہ صرف اپنی نمازوں کی پابندی کرنی ہے، ان کی حفاظت کرنی ہے، خود مسجدوں کو آباد کرنا ہے بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی مسجد میں لانے کی کوشش کرنی ہے اور آپس میں مل جل کر ایک دوسرے میں ایسی روح پھونکنی ہے جس سے نمازوں کی طرف توجہ بڑھے اور مومنوں کی وہ جماعت قائم ہو جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ مومن جو ہیں ان کی معراج نماز ہے۔
پس انصار اللہ کی یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ اس بات کی اہمیت کو سمجھیں۔ اقامۃ الصلوٰۃ کا حق ادا کرنے والے بنیں۔ اپنے بچوںکو، اپنے گھر والوں کو نمازوں کی طرف توجہ دلائیں۔ انصار اللہ کی عمر کے لوگوں میں سے جو اپنی متعلقہ مجالس کے عہدیدار بھی ہیں اگر وہ خود اس طرف توجہ کریں کہ انہوں نے قیام نماز کا حق ادا کرنا ہے، ہر سطح پر جو عہدیدار ہیں، اور اپنے بچوں کو بھی اس کی تلقین کرتے ہوئے مسجدوں میں لانے کی کوشش کرنی ہے اور اپنے احمدی ہمسایوں کو بھی نماز میں آتے جاتے اس طرف توجہ دلاتے رہنا ہے تو ہم دیکھیں گے کہ ہماری مسجدیں حقیقت میں بارونق مسجدیں بن جائیں گی۔ اور اگر تمام انصار اس کی طرف توجہ کریں تو ایک انقلاب پیدا ہو سکتا ہے۔ پس اس طرف توجہ کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔
یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے یہ انسان کے، ایک مومن کے اس مقصد پیدائش کی طرف توجہ دلاتی ہے کہ عبادتوں کے حق ادا کرو۔ اور عبادت کا حق اسی وقت ادا ہو گا جب اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق اس کی عبادت کی جائے گی۔ یَعْبُدُوْنَ کا لفظ عَبْدسے نکلا ہے اور اس کا مطلب ہے کہ عبادت کا حق ادا کرنے والے اور کامل اطاعت کرنے والے۔ پس عبد ہونے کا حق ادا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کرنا ہے اور اس کے حکموں کی کامل اطاعت کرنا ضروری ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس بات کی وضاحت فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عبودیت اور ربوبیت میں ایک گہرا تعلق رکھا ہے اور اس تعلق اور رشتہ کو قائم کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے نماز بنائی ہے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 6 صفحہ 371) پس اس رشتہ کو قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس بات کو ہم میں سے ہر ایک کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اگر نماز کے حق ادا نہیں کر رہے تو عبد ہونے کا بھی حق ادا نہیں کر رہے۔ اگر نماز اس کے تمام لوازمات کے ساتھ ادا کرنے کی، اپنے لئے یا اپنی اولاد کے لئے فکر نہیں ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کو ربّ کہنے کا دعویٰ بھی صرف منہ کی باتیں ہیں۔ پس ہمیں بہت فکر سے اپنی نمازوں کی فکر ہونی چاہئے تا کہ ہم عبد ہونے کا بھی حق ادا کرنے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا بھی صحیح ادراک حاصل کرنے والے ہوں۔ ہمیں اپنے مقصد پیدائش کی طرف توجہ دلاتے ہوئے اس آیت کی وضاحت فرماتے ہوئے ایک جگہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ
’’میں نے جنّ اور انسان کو اسی لئے پیدا کیا ہے کہ وہ مجھے پہچانیں اور میری پرستش کریں۔ پس اس آیت کی رُو سے اصل مدّعا انسان کی زندگی کا خدا تعالیٰ کی پرستش اور خدا تعالیٰ کی معرفت اور خدا تعالیٰ کے لئے ہو جانا ہے۔‘‘ فرماتے ہیں کہ ’’…یہ تو ظاہر ہے کہ انسان کو تو یہ مرتبہ حاصل نہیں ہے کہ اپنی زندگی کا مدّعا اپنے اختیار سے آپ مقرّر کرے کیونکہ انسان نہ اپنی مرضی سے آتا ہے اور نہ اپنی مرضی سے واپس جائے گا۔ بلکہ وہ ایک مخلوق ہے اور جس نے پیدا کیا اور تمام حیوانات کی نسبت عمدہ اور اعلیٰ قویٰ اس کو عنایت کئے اسی نے اس کی زندگی کا ایک مدّعا ٹھہرا رکھا ہے۔‘‘ انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے تو ساتھ ہی ایک مقصد بھی بنایا ہے۔ یہ نہیں کہ باقی جانوروں کی طرح پھرتے رہو ،کھاؤ پیو سوؤ اور ختم ہو گیا قصہ ۔یا دنیا کما لی اور بہت ہو گیا۔ فرماتے ہیں ’’خواہ کوئی انسان اس مدّعا کو سمجھے یا نہ سمجھے مگر انسان کی پیدائش کا مدّعا بلاشبہ خدا کی پرستش اور خدا تعالیٰ کی معرفت اور خدا تعالیٰ میں فانی ہو جانا ہی ہے۔‘‘ (اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 414) خدا میں فانی انسان اسی وقت ہو سکے گا، خدا کی معرفت اسی وقت پیدا ہو گی جب ہر وقت اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کو سامنے رکھتے ہوئے اس کی عبادت کا حق ادا کرنے کی کوشش کرنے والا ہو گا۔
پھر ایک موقع پر اس کی مزید وضاحت فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :
’’چونکہ انسان فطرتاً خدا ہی کے لئے پیدا ہوا جیسا کہ فرمایا
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ۔ (الذاریات57:)
اس لئے خداتعالیٰ نے اس کی فطرت ہی میں اپنے لئے کچھ نہ کچھ رکھا ہوا ہے اور مخفی در مخفی اسباب سے اسے اپنے لئے بنایا ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی معرفت پیدا کرنے کی انسان کو صلاحیت دی ہوئی ہے۔ یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کہہ دیا کہ میری معرفت حاصل کرو اور صلاحیت نہیں ہے۔ صلاحیت ہے۔ انسان خود اپنی کمزوریوں کی وجہ سے ان صلاحیتوں کو یا دوسری ترجیحات کی وجہ سے ان صلاحیتوں کو ضائع کر دیتا ہے۔ فرماتےہیں :
’’اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے تمہاری پیدائش کی اصل غرض یہ رکھی ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو مگر جو لوگ اپنی اس اصلی اور فطری غرض کو چھوڑ کر حیوانوں کی طرح زندگی کی غرض صرف کھانا پینا اور سو رہنا سمجھتے ہیں وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے دور جا پڑتے ہیں۔ اور خدا تعالیٰ کی ذمّہ داری ان کے لئے نہیں رہتی۔‘‘ وہ اللہ تعالیٰ کا حق ادا نہیں کرتے اس لئے اللہ تعالیٰ بھی اپنے فضل سے انہیں حصہ نہیں دیتا۔ ’’وہ زندگی جو ذمہ داری کی ہے یہی ہے کہ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ۔ (الذاریات 57:) پر ایمان لا کر زندگی کا پہلو بدل لے۔‘‘ یعنی اس بات پر عمل کرو تا کہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو اور قرب حاصل کرکے اس کے فضلوں کو حاصل کرنے والے بن جاؤ۔ زندگی جو جانوروں کی طرح بسر ہورہی ہے یا بغیر عبادتوںکے زندگی بسر ہو رہی ہے اس کو بدل کر پرستش والی زندگی اللہ تعالیٰ کی عبادت والی زندگی اختیار کرو۔ تمہارا ایک عابد ہونے کا پہلو نمایاں ہو جائے، اللہ تعالیٰ کے حقیقی عبد بننے کا پہلو نمایاں ہو جائے۔ فرمایا کہ ’’موت کا اعتبار نہیں… تم اس بات کو سمجھ لو کہ تمہارے پیدا کرنے سے خدا تعالیٰ کی غرض یہ ہے کہ تم اُس کی عبادت کرو اور اُس کے لئے بن جاؤ۔ دنیا تمہاری مقصود بالذّات نہ ہو۔‘‘ فرماتے ہیں ’’مَیں اس لئے بار بار اس امر کو بیان کرتا ہوں کہ میرے نزدیک یہی ایک بات ہے جس کے لئے انسان آیا ہے۔‘‘ فرماتے ہیں ’’…میرے نزدیک یہی ایک بات ہے جس کے لئے انسان آیا ہے اور یہی بات ہے جس سے وہ دُور پڑا ہو اہے۔‘‘ فرماتے ہیں ’’مَیں یہ نہیں کہتا کہ تم دنیا کے کاروبار چھوڑ دو۔ بیوی بچوں سے الگ ہو کر کسی جنگل میں یا پہاڑ میں جا بیٹھو۔ اسلام اس کو جائز نہیں رکھتا اور رہبانیت اسلام کا منشاء نہیں ہے۔‘‘ اسلام قطعاً یہ نہیں کہتا کہ دنیا کو چھوڑ دو اور جنگلوں میں جا کر بیٹھ جاؤ۔ نہیں۔ فرمایا ’’اسلام تو انسان کو چُست، ہوشیار اور مستعد بنانا چاہتا ہے۔ اس لئے مَیں تو کہتا ہوں کہ تم اپنے کاروبار کو جدوجہد سے کرو …‘‘ اپنے کاروبار جو ہیں، جس کی جو دنیاوی ذمہ داریاں ہیں ان کے لئے کوشش کرو اور پوری کوشش کرو۔ اور اس کو بھی انتہا تک پہنچانے کی کوشش کرو۔ ان میں ترقی کرو۔ یہ بھی تو مسیح موعود علیہ السلام کے ماننے والوں کی نشانی ہے کہ وہ دنیاوی معاملات میں بھی ترقی کریں گے۔ یہ نہیں کہ مانگنے والے ہاتھ ہی رہیں، کام کرنے کی طرف توجہ نہ ہو، محنت کرنے کی طرف توجہ نہ ہو اور ہر وقت یہی ہو کہ ہماری مدد کی جائے۔ یہ نہیں۔ جو بھی کام ہے انسان کو، ایک حقیقی مومن کو اپنے دنیاوی کاموں کے لئے بھی پوری کوشش کرنی چاہئے۔ فرماتے ہیں کہ ’’حدیث میں آیا ہے کہ جس کے پاس زمین ہو اور وہ اس کا تردّد نہ کرے…‘‘ اس میں محنت نہ کرے، اس کو صحیح طرح استعمال نہ کرے ’’…تو اس سے مؤاخذہ ہو گا۔‘‘ اس سے بھی جواب طلبی ہو گی کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں دنیاوی سامان دئیے تھے تا کہ اس سے تمہارے اندر بہتری پیدا ہو، تمہارے ہاں کشائش پیدا ہو۔ تم اپنے بیوی بچوں کے حق ادا کرنے والے بنو۔ تم جماعت کے حق ادا کرنے والے بنو۔ اگر تم نے اس جائیداد کا صحیح استعمال نہیں کیا، جو کاروبار تھے ان کو صحیح طرح نہیں چلایا ،جو محنت جس کی توقع کی جاتی ہے وہ صحیح طرح نہیں کی تو تب بھی اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ تمہیں میں نے دنیاوی سازو سامان، یہ سب کچھ دیا تھا ،تم نے کیوں ان سے فائدہ نہیں اٹھایا؟
پس فرماتے ہیں ’’پس اگر کوئی اس سے یہ مراد لے کہ دنیا کے کاروبار سے الگ ہو جائے وہ غلطی کرتا ہے۔ نہیں‘‘، فرمایا ’’نہیں اصل بات یہ ہے کہ یہ سب کاروبار جو تم کرتے ہو اس میں دیکھ لو کہ خدا تعالیٰ کی رضاء مقصود ہو۔ اور اُس کے ارادے سے باہر نکل کر اپنی اغراض و جذبات کو مقدم نہ کرو۔‘‘ (ملفوظات جلد 1 صفحہ 181 تا 184) ہاں دنیاوی کاروبار بھی کرنے ہیں اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حق ادا کرنے کے جب وقت آتے ہیں، اس کی عبادت کرنے کے جب وقت آتے ہیں، نمازوں کے اوقات جب آتے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کی رضا اس وقت یہ ہے کہ اس کی عبادت کرو اور جب وہ عبادت کر لو، وقت پر نمازیں پڑھ لو اور ان کا حق ادا کرتے ہوئے پڑھ لو تو پھر دنیاوی کاموں میں مصروف ہو جاؤ کیونکہ یہ بھی کرنا اللہ تعالیٰ کا ہی حکم ہے۔ پس عبد بننے کے لئے ضروری ہے کہ اس کی رضا مقصود ہو۔ عبادت بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہو اور حکموں پر چلتے ہوئے جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے، اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلنا بھی اس کو، انسان کو اللہ تعالیٰ کا کامل عبد بناتا ہے جس کے لئے ہر انسان کو، ہر مومن کو کوشش کرنی چاہئے۔
پھر ایک موقع پر اس بارے میں بیان فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مزید فرماتے ہیں کہ ’’جو اس اصل غرض کو مدّنظر نہیں رکھتا اور رات دن دنیا کے حصول کی فکر میں ڈوبا ہوا ہے کہ فلاں زمین خرید لوں، فلاں مکان بنالوں، فلاں جائیداد پر قبضہ ہو جاوے تو ایسے شخص سے سوائے اس کے کہ خدا تعالیٰ کچھ دن مہلت دے کر واپس بلا لے اور کیا سلوک کیا جاوے۔‘‘ جو نیکیاں کرنے کا اجر ہے، جو ثواب ہے جو اللہ تعالیٰ کے ہاں جا کے ملنا ہے وہ تو نہیں پھر ملے گا۔ وہ تو دنیا میں ہی ڈوبا ہوا ہے۔ دنیا کماؤ ،دنیا کے لئے تردّد کرو، دنیا کے لئے کوشش کرو ،لیکن اس کے مطابق اور اس حد تک جس حد تک اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔
فرماتے ہیں کہ ’’انسان کے دل میں خدا (تعالیٰ) کے قرب کے حصول کا ایک درد ہونا چاہئے۔ جس کی وجہ سے اس کے نزدیک وہ قابل قدر شَے ہو جائے گا…‘‘ خدا کے حصول کا ایک درد ہونا چاہئے کہ ہم نے خدا تعالیٰ کو حاصل کرنا ہے۔ جب یہ ہو گا تو فرمایا کہ اس وجہ سے پھر انسان ایک قابل قدر شے ہو جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کی نظر میں بھی قابل قدر ہو جائے گا اور دنیا میں بھی وہ قابل قدر ہو گا۔ ’’اگر یہ درد اس کے دل میں نہیں ہے اور صرف دنیا اور اس کے مافیہا کا ہی درد ہے تو آخر تھوڑی سی مہلت پا کر وہ ہلاک ہو جاوے گا۔‘‘
(ملفوظات جلد 7 صفحہ 289)
پس اس مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش ہمیں کرنی چاہئے نہ کہ دنیا داروں کی طرح زندگی گزاریں جو خدا تعالیٰ کو بھول جاتے ہیں۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے جو عبادت کا طریق سکھایا ہے وہ کیا ہے؟ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کس طرح اس بارے میں ہمیں یہ طریق اختیار کرنے کے بارے میں فرمایا ہے اور کیا فرمایا ہے؟ آپؑ کے بعض ارشادات میں پیش کرتا ہوں جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ صحیح عبد بننے کا طریق کیا ہے اور عبد بننے کے لئے کیا چیز ضروری ہے۔ اور جو ہم دیکھتے ہیں تو اس سے یہی پتہ چلتا ہے کہ نماز ہی صحیح عبد بننے کی طرف ہمیں لے جاتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ
’’ایک مرتبہ میں نے خیال کیا کہ صلوٰۃ میں اور دعا میں کیا فرق ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ اَلصَّلوٰۃُ ھِیَ الدُّعَاءُ۔ اَلصَّلوٰۃُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ یعنی نماز ہی دعا ہے نماز عبادت کا مغز ہے۔‘‘ فرماتے ہیں ’’جب انسان کی دعا محض دنیوی امور کے لئے ہو تو اس کا نام صلوٰۃ نہیں۔‘‘ نماز پڑھ رہے ہیں اور صرف اس لئے پڑھ رہے ہیں کہ دنیا ہی مانگنی ہے۔ سارا دن کمائی بھی دنیا کے لئے کرتے رہے، کوشش بھی دنیا کے لئے کرتے رہے ،اللہ تعالیٰ کے پاس آئے تو وہاں بھی صرف دنیا ہی مانگتے رہے تو فرماتے ہیں کہ اس کا نام پھر صلوٰۃ نہیں ہے۔ ’’لیکن جب انسان خدا کو ملنا چاہتا ہے اور اس کی رضا کو مدّنظر رکھتا ہے اور ادب،انکسار، تواضع اور نہایت محویت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور میں کھڑا ہو کر اس کی رضا کا طالب ہوتا ہے۔ تب وہ صلوٰۃ میں ہوتا ہے۔‘‘ فرمایا کہ ’’اصل حقیقت دعا کی وہ ہے جس کے ذریعہ سے خدا اور انسان کے درمیان رابطہ تعلق بڑھے۔‘‘ خدا اور انسان کے درمیان تعلق اور رابطہ بڑھے یہ اصل صلوٰۃ ہے، یہ دعا ہے۔ فرمایا کہ ’’یہی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ ہوتی ہے اور انسان کو نامعقول باتوں سے ہٹاتی ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ نماز جو ہے وہ اس کوفحشاءسے اور منکر سے ہٹاتی ہے۔ تو تبھی ہٹائے گی جب یہ سوچ ہو گی، اس سوچ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑا ہو گا۔
فرمایا کہ ’’اصل بات یہی ہے کہ انسان رضائے الٰہی کو حاصل کرے۔ اس کے بعد روا ہے کہ انسان اپنی دنیوی ضروریات کے واسطے بھی دعا کرے۔‘‘ پہلے رضائے الٰہی، اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرو ۔نیکیاں کرنے کی توفیق مانگو ۔اُس سے اُس کے حکموں پر چلنے کی توفیق مانگو۔ اُس سے، خدا سے خدا کو مانگو پھر دنیاوی ضروریات کے لئے بھی دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ان میں بھی برکت ڈالے تو دنیاوی کاموں میں برکت پڑے گی اور مقصد بھی پورا ہو جائے گا۔ فرمایا کہ ’’یہ اس واسطے روا رکھا گیا ہے کہ دنیوی مشکلات بعض دفعہ دینی معاملات میں حارج ہو جاتے ہیں۔‘‘ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ دنیاوی مشکلات میں پڑتے ہیں تو دینی معاملات میں بھی حارج ہو جاتے ہیں کہ ایمان کمزور ہوتا ہے۔ فرمایا ’’خاص کر خامی اور کج پنے کے زمانے میں یہ امور ٹھوکر کا موجب بن جاتے ہیں۔ صلوٰۃ کا لفظ پرسوز معنے پر دلالت کرتا ہے۔‘‘ مزید اس کے بارے میں آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’صلوٰۃ کا لفظ پرسوز معنے پر دلالت کرتا ہے جیسے آگ سے سوزش پیدا ہوتی ہے…‘‘ آگ سے سوزش پیدا ہوتی ہے، گرم آگ پہ ہاتھ رکھے یا اس کی گرمی بھی محسوس ہو جائے، قریب لے جاؤ ہاتھ کو یا کوئی بھی جسم کا حصہ تو وہاں سوزش پیدا ہو جائے گی تو فرمایا کہ صلوٰۃ بھی یہی چیز ہے کہ اس سے سوزش پیدا ہونی چاہئے۔ فرمایا کہ ’’ویسی ہی گدازش دعا میں پیدا ہونی چاہئے۔ جب ایسی حالت کو پہنچ جائے جیسے موت کی حالت ہوتی ہے تب اس کا نام صلوٰۃ ہوتا ہے۔ ‘‘ (ملفوظات جلد 7 صفحہ 367-368)
پس ایسی نمازیں ہیں جن کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہم سے توقع رکھتے ہیں۔ اور جب ایسی گدازش والی اور پرسوز نمازیں ہوں گی تو پھر یہ شکوہ نہیں ہو گا کہ اللہ تعالیٰ ہماری سنتا نہیں ہے ہم نے بہت دعائیں کیں۔ فلاں مقصد کے لئے دعائیں کیں۔ مقصد صرف دنیاوی ہے تو پھر وہ حالت پیدا نہیں ہوگی جس حالت میں اللہ تعالیٰ بندے کی سنتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں بہت سے ایسے ہیں جن کی نمازوں میں گدازش ہے۔ ان کی نمازوں سے ان میں سوزش پیدا ہوتی ہے۔ ان کو نمازوں میں سرور اور مزہ آتا ہے۔ اور انہیں کوئی شکوہ نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ ہماری سنتا نہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہوتے ہیں۔ کبھی ان کا سرور کم نہیں ہوتا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آنے کے بعد عبادتوں میں سرور آنے اور مزہ آنے کا ذکر تو بہت سے نئے آنے والے بھی اب کرنے لگ گئے ہیں جن کو بیعت میںآئے کچھ عرصہ ہی ہوا ہے۔ چنانچہ بینن سے ہی وہاں کے لوکل مشنری لکھتے ہیں کہ میرے ریجن کے ایک نومبائع احمدی ادریس صاحب ہیں۔ احمدیت قبول کرنے سے پہلے مسلمان ہی تھے۔ ادریس صاحب نے پانچ ماہ قبل احمدیت قبول کی۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ احمدیت قبول کرنے سے پہلے میں مسلمان تھا۔ نمازیں بھی پڑھتا تھا بلکہ تہجد بھی پڑھا کرتا تھا لیکن نمازوں میں مجھے سرور اور لذت نہیں ملتی تھی۔ وہ گدازش پیدا نہیں ہوتی تھی، وہ سوزش پیدا نہیں ہوتی تھی لیکن جب سے میں احمدی ہوا ہوں بالکل کایا پلٹ گئی ہے۔ نمازوں میں سرور اور لذت پاتا ہوں۔ اب میری نمازوں کا مزہ ہی اور ہو گیا ہے ۔
پس جب اللہ تعالیٰ کی معرفت انسان کو ملتی ہے اور دعاؤں میں درد پیدا ہوتا ہے تو پھر سرور بھی آتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس سوزش اور گدازش والی نمازوں کی حالت کو پیدا کرنے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ
’’جس طرح بہت دھوپ کے ساتھ آسمان پر بادل جمع ہو جاتے ہیں اور بارش کا وقت آ جاتا ہے ایسا ہی انسان کی دعائیں ایک حرارت ایمانی پیدا کرتی ہیں اور پھر کام بن جاتا ہے۔‘‘ فرمایا ’’نماز وہ ہے جس میں سوزش اور گدازش کے ساتھ اور آداب کے ساتھ انسان خدا تعالیٰ کے حضور میں کھڑا ہوتا ہے۔‘‘ عاجزی ہوتی ہے، ایک حرارت پیدا ہوتی ہے۔ ایک درد پیدا ہوتا ہے اور پھر جو نماز کے آداب ہیں یا عاجزی کی انتہا، اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو رہے ہیں۔ جب خدا تعالیٰ کے حضور کھڑا ہوتا ہے تو پھر ایک حقیقی حالت نماز کی پیدا ہوتی ہے۔ فرمایا کہ ’’جب انسان بندہ ہو کر لاپرواہی کرتا ہے تو خدا کی ذات بھی غنی ہے۔ ہر ایک امت اس وقت تک قائم رہتی ہے جب تک اس میں توجہ الی اللہ قائم رہتی ہے۔ ایمان کی جڑ بھی نماز ہے۔‘‘ فرمایا ’’ایمان کی جڑ بھی نماز ہے۔ بعض بیوقوف کہتے ہیں کہ خدا کو ہماری نمازوں کی کیا حاجت ہے؟‘‘ فرمایا کہ ’’اے نادانو! خدا کو حاجت نہیں مگر تم کو حاجت ہے کہ خدا تعالیٰ تمہاری طرف توجہ کرے۔‘‘ فرماتے ہیں ’’خدا کی توجہ سے بگڑے ہوئے کام سب درست ہو جاتے ہیں۔ نماز ہزاروں خطاؤں کو دور کر دیتی ہے اور ذریعہ حصول قرب الٰہی ہے۔‘‘(ملفوظات جلد 7 صفحہ 378)
پس اللہ تعالیٰ کو ہماری ضرورت نہیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے کہا تو اس لئے کہا کہ ہم پر اس نے احسان کیا ہے کہ ہم اس کے قریب ہوں گے تو دین بھی پائیں گے اور دنیا بھی پائیں گے۔ بہت سے نمازیوں کی ظاہری حالت کا نقشہ کھینچتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک موقع پر فرمایا کہ
’’بہت ہیں کہ زبان سے تو خدا تعالیٰ کا اقرار کرتے ہیں لیکن اگر ٹٹول کر دیکھو تو معلوم ہو گا کہ ان کے اندر دہریت ہے۔ کیونکہ دنیا کے کاموں میں جب مصروف ہوتے ہیں تو خدا تعالیٰ کے قہر اور اس کی عظمت کو بالکل بھول جاتے ہیں۔ اس لئے یہ بات بہت ضرور ی ہے کہ تم لوگ دعا کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے معرفت طلب کرو۔‘‘ اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنی ہے تو وہ بھی دعا کے ذریعہ سے مانگو۔’’بغیر اس کے یقین کامل ہرگز حاصل نہیں ہو سکتا۔ وہ اس وقت حاصل ہو گا جبکہ یہ علم ہو کہ اللہ تعالیٰ سے قطع تعلق کرنے میں ایک موت ہے۔‘‘ یقین کامل اس وقت حاصل ہو گا، معرفت اس وقت حاصل ہو گی جب یہ خوف ہو کہ کہیں اللہ تعالیٰ سے جب میں نے تعلق کاٹا، اس کے حق ادا نہ کئے، اس کے حکموں پر نہ چلا، اس کا صحیح عبد بننے کی کوشش نہ کی تو میری موت ہے۔یہی حقیقی موت ہے۔ جب یہ احساس پیدا ہوگا تب پھر معرفت کے لئے پرسوز دعائیں بھی ہوں گی۔
فرماتے ہیں ’’گناہ سے بچنے کے لئے جہاں دعا کرو وہاں ساتھ ہی تدابیر کے سلسلہ کو ہاتھ سے نہ چھوڑو۔‘‘ صرف دعا سے گناہ سے نہیں بچا جاتا، تدبیریں بھی ضروری ہیں۔ ’’اور تمام محفلیں اور مجلسیں جن میں شامل ہونے سے گناہ کی تحریک ہوتی ہے ان کو ترک کرو۔‘‘ ایک طرف تو انسان دعائیں مانگ رہا ہو کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنی معرفت عطا کر اور اس میں مَیں ترقی کروں اور تیرا صحیح عبد بنوں۔ دوسری طرف مجلسیں ایسی ہیں جن میں گناہ کی تحریک ہو رہی ہے۔ ٹی وی پر بیٹھے ہوئے ہیں، غلط قسم کی فلمیں دیکھ رہے ہیں۔عورتوں کی طرف سے، بچوں کی طرف سے انصاراللہ کی عمر کے لوگوں کی رپورٹیں مجھے آتی ہیں کہ غلط پروگرام دیکھ رہے ہیں یا بعض مجالس میں بیٹھے ہیں، گپیں مار رہے ہیں، اس قسم کے اعتراضات کر رہے ہیں۔ بعض لوگ نظام پہ اعتراض کر رہے ہیں۔ ایک دوسرے کی چغلیاں کر رہے ہیں۔ تو یہ ساری مجالس جو ہیں اگر ان میں بیٹھنا نہیں چھوڑو گے تو معرفت بھی حاصل نہیں ہو گی۔
فرماتے ہیں کہ ’’مجلسیں جن میں شامل ہونے سے گناہ کی تحریک ہوتی ہے ان کو ترک کرو اور ساتھ ہی ساتھ دعا بھی کرتے رہو …‘‘یہ ترک بھی کرو اور دعا بھی کرتے رہو کہ معرفت اللہ تعالیٰ عطا فرمائے ’’اور خوب جان لو کہ ان آفات سے جو قضاء و قدر کی طرف سے انسان کے ساتھ پیدا ہوتی ہیں جب تک خدا تعالیٰ کی مدد ساتھ نہ ہو ہرگز رہائی نہیں ہوتی۔‘‘ فرمایا ’’نماز جو کہ پانچ وقت ادا کی جاتی ہے…‘‘ایک دو تین نمازیں نہیں، پانچ وقت نماز ادا کی جاتی ہے ’’اس میں بھی یہی اشارہ ہے کہ اگر وہ نفسانی جذبات اور خیالات سے اسے محفوظ نہ رکھے گا تب تک وہ سچی نماز ہرگز نہ ہو گی۔‘‘ نماز میں بھی، پانچوں وقت نمازمیں کوشش کرنی ہے کہ نفسانی جذبات اور خیالات سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا ہے تا کہ حقیقی نماز ہو۔ فرماتے ہیں کہ ’’نماز کے معنے ٹکریں مار لینے اور رسم اور عادت کے طور پر ادا کرنے کے ہرگز نہیں۔ نماز وہ شے ہے جسے دل بھی محسوس کرے کہ روح پگھل کر خوفناک حالت میں آستانۂ الوہیت پر گر پڑے۔‘‘ ایسے دل میں احساس پیدا ہو، سوز پیدا ہو، گدازش پیدا ہو، جذبات پیدا ہوں، رقت پیدا ہو کہ اس حالت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور گر پڑو۔ فرمایا کہ ’’جہاں تک طاقت ہے وہاں تک رقت کے پیدا کرنے کی کوشش کرے اور تضرّع سے دعا مانگے کہ شوخی اور گناہ جو اندر نفس میں ہیں وہ دور ہوں۔‘‘ یہ بھی دعا مانگو کہ اللہ تعالیٰ میرے اندر اتنی کمزوریاں، اتنی شوخیاں ہیں، نفس کے گناہ ہیں ان کو بھی دور فرما اور اپنی معرفت عطا فرما۔ مجھے حقیقی عبد بنا۔ فرمایا کہ ’’اسی قسم کی نماز بابرکت ہوتی ہے۔ اور اگر وہ اس پر استقامت اختیار کرے گا تو دیکھے گا کہ رات کو یا دن کو ایک نور اس کے قلب پر گرا ہے اور نفس امّارہ کی شوخی کم ہو گئی ہے۔ جیسے اژدھا میں ایک سمّ قاتل ہے۔ اسی طرح نفس امّارہ میں بھی سمّ قاتل ہوتا ہے اور جس نے اسے پیدا کیا اسی کے پاس اس کا علاج ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 7 صفحہ 123)
پس نفس تو بار بار برائی کی طرف بلاتا ہے، برائی پر مجبور کرتا ہے اس لئے اس کو قتل کرنے کے لئے، اس کو مارنے کے لئے جس طرح سانپ اور اژدھا کو مارنا ہے اللہ تعالیٰ کو ہی تلاش کرنا پڑے گا۔ پس اس پہلو کو ہمیں ہر وقت اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’پانچ وقت اپنی نمازوں میں دعا کرو۔ اپنی زبان میں بھی دعا کرنی منع نہیں ہے۔ نماز کا مزا نہیں آتا جب تک حضور نہ ہو۔‘‘ جب تک کہ پوری طرح توجہ نہ ہو۔ ’’اور حضور قلب نہیں ہوتا جب تک عاجزی نہ ہو۔‘‘ اپنے اندر عاجزی پیدا کرو تبھی دل کی پوری توجہ بھی پیدا ہو گی۔ ’’عاجزی جب پیدا ہوتی ہے جو یہ سمجھ آ جائے کہ کیا پڑھتا ہے اس لئے اپنی زبان میں اپنے مطالب پیش کرنے کے لئے جوش اور اضطراب پیدا ہو سکتا ہے۔‘‘ عاجزی تبھی پیدا ہو گی جب انسان الفاظ جو دہرا رہا ہے پتہ بھی تو ہو کہ مَیں کہہ کیا رہا ہوں۔ جب یہ پتہ ہو گا تبھی زبان کے الفاظ کے ساتھ دل کی کیفیات بھی بدلیں گی، دماغ بھی پوری طرح متوجہ ہو گا، اضطراب پیدا ہو گا۔ فرمایا ’’مگر اس سے یہ ہرگز نہیں سمجھنا چاہئے کہ نماز کو اپنی زبان ہی میں پڑھو۔‘‘ یہ بھی مطلب نہیں کہ نمازکی وہ ساری باتیں جو عربی کے الفاظ ہیں یا مسنون دعائیں ہیں ان کو بھی اپنے الفاظ میں پڑھو۔ ’’نہیں میرا یہ مطلب ہے کہ مسنون ادعیہ اور اذکار کے بعد اپنی زبان میں بھی دعا کیا کرو۔ ورنہ نماز کے ان الفاظ میں خدا نے ایک برکت رکھی ہوئی ہے۔ نماز دعا ہی کا نام ہے اس لئے اس میں دعا کرو کہ وہ تم کو دنیا اور آخرت کی آفتوں سے بچاوے اور خاتمہ بالخیر ہو۔ اپنے بیوی بچوں کے لئے بھی دعا کرو۔ نیک انسان بنو۔ اور ہرقسم کی بدی سے بچتے رہو۔‘‘
(ملفوظات جلد 6 صفحہ 146)
باجماعت عبادتوں کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ عبادتوں کے ساتھ اس مذہب کے ماننے والے مسلمان ایک امّت واحدہ بن جائیں اور باجماعت عبادتیں اور دعائیں جب اکٹھی ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور پہنچتی ہیں تو پھر ان کی قبولیت کا بھی ایک اور درجہ ہوتا ہے۔ اور پھر وہ انقلاب پیدا کرتی ہیں۔ اور اگر ہم نے انقلاب لانا ہے تو اس طرف ہمیں توجہ کرنی ہو گی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
’’اللہ تعالیٰ کا یہ منشا ہے کہ تمام انسانوں کو ایک نفس واحد کی طرح بنا دے۔ اس کا نام وحدت جمہوری ہے جس سے بہت سے انسان بحالت مجموعی ایک انسان کے حکم میں سمجھا جاتا ہے۔‘‘ وحدت جمہوری ہو گی، ایک قوم بنے گی تو بہت سے انسان اکٹھے ہو کر ایک انسان کے حکم میں آ جائیں گے، ایک روح سمجھی جائیگی، ایک جسم سمجھا جائے گا۔ فرمایا ’’مذہب سے بھی یہی منشا ہوتا ہے کہ تسبیح کے دانوں کی طرح وحدت جمہوری کے ایک دھاگہ میں سب پروئے جائیں۔ یہ نمازیں باجماعت جو کہ ادا کی جاتی ہیں وہ بھی اسی وحدت کے لئے ہیں تا کہ کُل نمازیوں کا ایک وجود شمار کیا جاوے۔ اور آپس میں مل کر کھڑے ہونے کا حکم اس لئے ہے کہ جس کے پاس زیادہ نور ہے وہ دوسرے کمزور میں سرایت کر کے اسے قوت دیوے حتیٰ کہ حج بھی اس لئے ہے۔ اس وحدت جمہوری کو پیدا کرنے اور قائم رکھنے کی ابتدا اس طرح سے اللہ تعالیٰ نے کی ہے کہ اوّل یہ حکم دیا کہ ہر ایک محلّہ والے پانچ وقت نمازوں کو باجماعت محلّہ کی مسجد میں ادا کریں تا کہ اخلاق کا تبادلہ آپس میں ہو۔ اور انوار مل ملا کر کمزوری کو دور کر دیں۔‘‘ مسجد میں جانا ہے، پانچ نمازیں پڑھنی ہیں تو وہ بھی اس لئے جانا چاہئے، اس نیت سے جانا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنی ہے اور ہم نے ایک بننے کی کوشش کرنی ہے۔ یہ نہیں کہ مسجدوں میں بھی جائیں اور دل بھی پھٹے ہوں اور لڑائیاں بھی ہو رہی ہوں۔ فرمایا کہ ’’…مل ملا کر کمزوری کو دور کر دیں اور آپس میں تعارف ہو کر انس پیدا ہوجاوے۔ تعارف بہت عمدہ شے ہے کیونکہ اس سے انس بڑھتا ہے جو کہ وحدت کی بنیاد ہے۔ حتیٰ کہ تعارف والا دشمن ایک ناآشنا دوست سے بہت اچھا ہوتا ہے کیونکہ جب غیر ملک میں ملاقات ہو تو تعارف کی وجہ سے دلوں میں انس پیدا ہوجاتا ہے۔ وجہ اس کی یہ ہوتی ہے کہ کینہ والی زمین سے الگ ہونے کے باعث بغض جو کہ عارضی شے ہوتا ہے وہ تو دور ہو جاتا ہے اور صرف تعارف باقی رہ جاتا ہے۔‘‘ دشمن بھی بعض دفعہ دوسرے ملکوں میں جا کر ایک ہو جاتے ہیں۔ آپس میں اگر کسی وجہ سے اختلافات بھی ہوں تو ایک ملک کے اگر دوسرے ملک میں جاتے ہیں، جب اپنے قوم کے لوگ نہیں ملتے تو پھر ایک دوسرے پر ہی انحصار کرنا ہوتا ہے اور اس میں پھر دوستی اور تعلق پیدا ہو جاتا ہے۔
فرمایا کہ ’’پھر دوسرا حکم یہ ہے کہ جمعہ کے دن جامع مسجد میں جمع ہوں کیونکہ ایک شہر کے لوگوں کا ہر روز جمع ہونا تو مشکل ہے اس لئے یہ تجویز کی کہ شہر کے سب لوگ ہفتہ میں ایک دفعہ مل کر تعارف اور وحدت پیدا کریں۔ آخر کبھی نہ کبھی تو سب ایک ہو جاویں گے۔ پھر سال کے بعد عیدَین میں یہ تجویز کی کہ دیہات اور شہر کے لوگ مل کر نماز ادا کریں تا کہ تعارف اور انس بڑھ کر وحدت جمہوری پیدا ہو۔ پھر اس طرح تمام دنیا کے اجتماع کے لئے ایک دن عمر بھر میں مقرر کر دیا کہ مکہ کے میدان میں سب جمع ہوں۔ غرضکہ اس طرح سے اللہ تعالیٰ نے چاہا ہے کہ آپس میں الفت اور انس ترقی پکڑے۔‘‘
(ملفوظات جلد 7 صفحہ 129-130)
اب اللہ تعالیٰ کی خاطر آپس کا یہ انس اور محبت جو اللہ تعالیٰ پیدا کرنا چاہتا ہے، امّت مسلمہ کو ایک واحد قوم بنانا چاہتا ہے، ایک حقیقی مومن میں پیدا کرنا چاہتا ہے اس کے لئے اس سوچ کے ساتھ انسان کو اپنی نمازوں کی طرف بھی توجہ دینی چاہئے، پانچ وقت نمازوں کے لئے بھی اور جمعہ کے لئے بھی اور عیدین کے لئے بھی مسجد میں آنا چاہئے۔
پھر ہمیں اس زمانے میں دینی مجالس منعقد کرنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے جلسوں اور اجتماعوں کے انعقاد کے بھی انتظام فرما دئیے ہوئے ہیں۔ یہاں ہم اکٹھے ہوتے ہیں اس لئے کہ دینی باتیں بھی سنیں، اکٹھے ہو کر نمازیں بھی پڑھیں، محبت اور انس پیدا ہو۔ تو یہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ سے ایک زائد چیز ہم میں پیدا فرما دی ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ کا ہمیں شکر گزار ہونا چاہئے۔ اور اس شکرگزاری کرنے کا حق یہ ہے، شکر گزاری کرنے کا حقیقی طریق یہی ہے کہ پھر اپنے دلوں میںایسی محبت پیدا کریں اور یہ عہد کریں کہ ہم اللہ تعالیٰ کا صحیح عبد بننے کی کوشش کریں گے۔ اللہ تعالیٰ کا بھی حق ادا کریں گے اور بندوں کے بھی حق ادا کریں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
نماز خدا کا حق ہے اسے خوب ادا کرو اور خدا کے دشمن سے مداہنہ کی زندگی نہ برتو۔ وفا اور صدق کا خیال رکھو۔ اگر سارا گھر غارت ہوتا ہو تو ہونے دو مگر نماز کو ترک مت کرو۔ پھر آپ نماز کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ دین کو درست کرتی ہے، اخلاق کو درست کرتی ہے، دنیا کو درست کرتی ہے۔ نماز کا مزا دنیا کے ہر ایک مزے پر غالب ہے۔ لذّات جسمانی کے لئے تم لوگ ہزاروں روپیہ خرچ کرتے ہو پھر ان کا نتیجہ بیماریاں ہوتی ہیں اور اگر نمازیں پڑھنے والا ہو تو یہ مفت کا بہشت ہے جو انسان کو ملتا ہے۔ فرماتے ہیں قرآن شریف میں دو جنتوں کا ذکر ہے۔ ایک ان میںسے دنیا کی جنت ہے اور وہ دنیا کی جنت کیا ہے؟ فرمایا اور وہ نماز کی لذت ہے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 6 صفحہ 370-371) نماز میں لذت آئے گی تو سمجھو تمہیں دنیا کی جنت مل گئی۔ کس طرح نمازیں پڑھنے والوں میں یہ انقلاب پیدا ہوتا ہے۔ کس طرح ان کو یہ سرور حاصل ہوا اور دنیا کی جنت حاصل کرنے والے بنتے ہیں۔ جماعت میں بہت سارے ایسے لوگ ہیں بلکہ ان کو دیکھ کر ان کے بچوں کی بھی حالت بدل گئی ہے۔ وہ بھی اس دنیاوی جنت کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چنانچہ ایک مثال میں آپ کے سامنے پیش کر دیتا ہوں ۔
بینن کی ایک جماعت کے لوکل مشنری نے لکھا کہ ایک دوست ہیں لافیا عبدالمومن صاحب۔ انہوں نے بتایا کہ میں ایک پیدائشی مسلمان ہوں لیکن نماز وغیرہ کی طرف توجہ نہیں تھی اور اسی وجہ سے وہ کہتے ہیں کہ میرے بچے بھی خصوصاً میری چھوٹی بیٹی تو بالکل اسلام سے دور تھی۔ میرا اپنا ہی نمونہ ٹھیک نہیں تھا اس لئے میں جو بھی نصیحت کرتا وہ نصیحت اثر نہیں کرتی تھی۔ لیکن جب میں نے احمدیت قبول کی تو میرے اندر بھی تبدیلی آئی اور اب خدا کا شکر ہے کہ میری بیٹی نہ صرف اسلام سے محبت رکھتی ہے بلکہ باقاعدہ جماعتی پروگراموں میں شمولیت کرتی ہے اور ہم سب کی نمازوں کی طرف بھی پہلے سے بڑھ کر توجہ پیدا ہو گئی ہے بلکہ حقیقی توجہ پیدا ہو گئی ہے۔ تو دیکھیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے کے بعد نہ صرف اپنی اصلاح ہوئی بلکہ بچوں کی بھی اصلاح ہو گئی۔ پس ہم میں سے ہر ایک کا نمونہ جو ہے وہ اپنے گھر والوں کی اصلاح کے لئے ضروری ہے اور یہ نمونہ دکھانا انصار اللہ کا کام ہے اور یہی حقیقی انصار اللہ ہونے کا مقصد ہے۔
دعاؤں اور عبادتوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ
’’انسانوں میں سے بھی جو سب سے زیادہ قابل قدر ہے اسے اللہ تعالیٰ محفوظ رکھتا ہے اور یہ وہ لوگ ہوتے ہیں…‘‘ کون قابل قدر ہیں؟’’ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنا سچا تعلق رکھتے اور اپنے اندرونہ کو صاف رکھتے ہیں۔‘‘ اندر باہر ایک ہیں۔ اپنے اندرونے کو بھی صاف رکھتے ہیں۔ خدا تعالیٰ سے ایک حقیقی تعلق ہے۔ صرف منہ سے نہیں کہتے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ سے پیار اور محبت ہے، ہم اللہ تعالیٰ کے عبد ہیں بلکہ دل بھی ان کی اس بات کی گواہی دے رہے ہوتے ہیں اور ان کا ہر عمل اس بات کی گواہی دے رہا ہوتا ہے اور فرمایا ’’اور نوع انسان کے ساتھ خیر اور ہمدردی سے پیش آتے ہیں۔‘‘ ان کی ایک یہ بھی نشانی ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی اور خیر سے پیش آتے ہیں۔ ان کے لئے بھلائی دکھاتے ہیں ’’اور خدا کے سچے فرمانبردار ہیں۔ چنانچہ قرآن شریف سے بھی ایسا ہی معلوم ہوتا ہے قُلْ مَا یَعْبَؤُا بِکُمْ رَبِّیْ لَوْلَا دُعَآؤُکُمْ (الفرقان78:)‘‘ یعنی تُو کہہ دے کہ اگر تمہاری دعا نہ ہوتی تو میرا رب تمہاری کوئی پرواہ نہ کرتا۔ فرمایا کہ ’’اس کے مفہوم مخالف سے صاف پتہ لگتا ہے کہ وہ دوسروں کی پرواہ کرتا ہے اور وہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو سعادتمند ہوتے ہیں۔‘‘ یعنی کہ فرمایا اس کا مطلب یہی ہے کہ جب تم دعا کرو گے تو میں تمہاری پرواہ کروں گا اور جب اللہ تعالیٰ پرواہ کرتا ہے تو ان کو ایک خاص مقام مل جاتا ہے۔ اور فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کرنے والے اور اس کے آگے جھکنے والے اور دعاؤں کا حق ادا کرنے والے لوگ ہیں جو حقیقی سعادتمند لوگ ہیں۔’’وہ تمام کسریں ان کے اندر سے نکل جاتی ہیںجو خدا سے دور ڈال دیتی ہیں۔ اور جب انسان اپنی اصلاح کر لیتا ہے اور خدا سے صلح کر لیتا ہے تو خدا اس کے عذاب کو بھی ٹلا دیتا ہے۔ خدا کوکوئی ضد تو نہیں۔ چنانچہ اس کے متعلق بھی صاف طور پر فرمایا ہے۔مَایَفْعَلُ اللہُ بِعَذَابِکُمْ اِنْ شَکَرْتُمْ۔ (النساء148:) یعنی خدا نے تم کو عذاب دے کر کیا کرنا ہے اگر تم دیندار ہو جاؤ۔‘‘
(ملفوظات جلد 3 صفحہ 395)
پاک تبدیلیاں پیدا کرنے والوں میں جو انقلاب پیدا ہوا اس کی اَور ایک مثال دیتا ہوں میں۔ تنزانیہ مشرقی افریقہ کا ملک ہے وہاں کا ایک ریجن شیانگا ہے۔ اس کے معلّم لکھتے ہیں کہ ایک نئے گاؤں اگیمبیا (Igembya) میں جماعت کا قیام عمل میںآیا۔ اس گاؤں میں اکثریت لامذہب کی ہے جہاں جماعت کا قیام عمل میں آیا وہ لوگ مذہب کو مانتے ہی نہیں۔ ان میں سے اکثر لوگوں کا مشغلہ شراب نوشی ہے۔ ہر وقت شراب میں دھت ہیں، جؤا کھیلتے ہیں اور دوسری برائیاں بھی ان میں عام ہیں۔ کوئی برائی نہیں جو ان میں نہ ہو۔ کہتے ہیں وہاں جب تبلیغ کے لئے ہم گئے اور گاؤں کی حالت کا اندازہ لگایا تو ہمارا خیال تھا کہ شاید ہمیں کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ہو گی۔ یہ دنیا میں دھت لوگ ہیں۔ شراب میں، نشہ میں ڈوبے ہوئے جؤا کھیلنے والے سب برائیوں میں ملوث، اِنہوں نے ہماری دین کی اور مذہب کی اور خدا کی بات کیا سننی ہے۔ ہم نے سوچ لیا تھا کہ شاید کوئی کامیابی نہیں ہو گی بلکہ وہ ہماری بات سننا بھی گوارہ نہ کریں۔ کامیابی تو دور کی بات ہے شاید ہماری بات سننا بھی گوارہ نہ کریں۔ کہتے ہیں بہرحال جب ہم نے تبلیغ کی تو انہی میں سے لوگوں نے نہ صرف اسلام احمدیت کا پیغام سنا بلکہ کافی لوگوں نے اسی وقت بیعت کر کے اسلام اور احمدیت کو قبول کر لیا۔ پھر بیعت کرنے والوں میں ایسی تبدیلی رونما ہوئی کہ پہلے تو ان کا اَور کوئی شغل ہی نہ تھا دنیا داری میں پڑے ہوئے تھے، نشہ میں پڑے ہوئے، جؤا کھیلنے میں پڑے ہوئے تھے لیکن ان میںسے بعض لوگوں میں ایسا انقلاب پیدا ہوا کہ چار کلو میٹر دور ایک قریبی جماعت تھی کِڈانڈا (Kidanda) اس میں جمعہ ادا کرنے کے لئے مسجد میں پہنچتے تھے۔ کیونکہ نئی جماعت تھی وہاں ان کی اپنی جگہ مسجد نہیں تھی تو سفر کر کے ہر جمعہ کو جمعہ ادا کرنے پہنچتے تھے۔ اور ان کی اسلام کے اندر دلچسپی اور ان کے اندر تبدیلی دیکھ کر پھر وہاں ایک عارضی مسجد بھی بنائی گئی اور اب مسجد بننے کے بعد باقاعدہ وہاں نماز باجماعت کا آغاز ہو گیا ہے۔ وہی لوگ جو نشوں میں ڈوبے ہوئے تھے وہی لوگ جو شرابی تھے وہی لوگ جو جؤا کھیلنے میں ہر وقت مصروف رہتے تھے وہی لوگ جو دوسری برائیوں میں ملوث تھے اب وہ پانچ وقت مسجد میں نمازیں پڑھ رہے ہیں۔ تو یہ انقلاب ہے جو بیعت کرنے کے بعد ان لوگوں میں پیدا ہوا۔
اب دنیا میں نئی جماعتیں بن رہی ہیں اور نئی جماعتیں بن کر پھر مسجدیں بنا کر انہیں بھرنے کی کوشش کر رہی ہیں اور یہ ہمارے لئے ایک بڑا سوچنے کا مقام ہے۔ آپ کی اکثریت یہاں جو میرے سامنے بیٹھی ہے اس میں اکثر جو ہیں وہ اس وجہ سے یہاں ان مغربی ممالک میںآئے ہیں کہ ہماری عبادتوں پر پابندی تھی۔ ہمیں کھل کر عبادت کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ ہمیں کھل کر اپنے آپ کو مسلمان کہنے کی اجازت نہیں تھی۔ ہمیں اسلامی احکامات پر عمل کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ہمیں کھل کر اللہ تعالیٰ کا نام لینے کی اجازت نہیں ہے اور ان تنگیوں کی وجہ سے ہم یہاں آئے ہیں تو اس کے بعد تو کس قدر یہ حق بنتا ہے بلکہ فرض بنتا ہے ہمارا کہ ہم اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے والے ہوں اور اس کے حکموں کے مطابق چلنے والے ہوں، اپنی مسجدوں کو آباد کرنے والے ہوں۔ اگر ہم یہ نہیں کریں گے، عبادت کا حق ادا نہیں کریں گے، اللہ تعالیٰ کے حکموں پر نہیں چلیں گے اس کا صحیح عبد نہیں بنیں گے تو پھر اللہ تعالیٰ بھی بے نیاز ہے۔ یہ بات بھی ہمیں ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کی کوئی کسی سے رشتہ داری نہیں ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ :
’’ان کو کہہ دے کہ اگر تم نیک چلن انسان نہ بن جاؤ اور اس کی یاد میں مشغول نہ رہو تو میرا خدا تمہاری زندگی کی پروا کیا رکھتا ہے۔ اور سچ ہے کہ جب انسان غافلانہ زندگی بسر کرے اور اسکے دل پر خدا کی عظمت کا کوئی رعب نہ ہو اور بےقیدی اور دلیری کے ساتھ اس کے تمام اعمال ہوں تو ایسے انسان سے ایک بکری بہتر ہے جس کا دودھ پیا جاتا ہے اور گوشت کھایا جاتاہے اور کھال بھی بہت سے کاموں میں آ جاتی ہے۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 543)
پھر وہ جانور انسانوں سے زیادہ بہتر بن جاتا ہے جو حلال جانور ہے۔ پس بہت غور اور فکر کا مقام ہے۔ ہمیں ہر وقت اس بارے میں سوچنا چاہئے۔ صرف نعرے لگانے سے اسلام فتح نہیں ہوگا۔ صرف نعرے لگانے سے ہماری اصلاح نہیں ہو گی۔ صرف نعرے لگانے سے ہماری اگلی نسلوں میں احمدیت اور اسلام کا حقیقی پیغام جاری نہیں رہے گا بلکہ اس کے لئے کوشش کرنی ہو گی۔ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بننے کے لئے ہمیں محنت کرنی پڑے گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عبادتوں کا صحیح حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اس کی معرفت ہمیں پیدا ہو۔ نہ صرف اپنی اصلاح کرنے والے ہوں بلکہ اپنے بچوں کے لئے بھی نمونہ بن جائیں۔
آجکل دنیا جس تیزی سے خدا تعالیٰ کو بھلا رہی ہے اس کی اصلاح صرف اور صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت ہی کر سکتی ہے جن کو اس کام کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں بھیجا ہے۔ اگر پرانے احمدی اس اہمیت کو نہیں سمجھیں گے اور یہاںآ کر شکر گزاری کے بجائے دنیا میں ڈوب جائیں گے، اپنے بچوں کے لئے مثالیں قائم نہیںکریں گے تو اللہ تعالیٰ اَور مخلصین حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو عطا فرما دے گا اور دنیا میںہر جگہ عطا فرما رہا ہے۔ پھر وہی لوگ ہوں گے جو دین کا عَلم اور جھنڈا اٹھانے والے ہوں گے۔ حقیقی انصار اللہ ہوں گے۔
پس اس بات کو ہمیں ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے کہ اگر ان لوگوں میںشامل ہونا ہے اور اپنی نسلوں کو ان لوگوںمیں شامل کرنا ہے جن کی اللہ تعالیٰ پرواہ کرتا ہے تو پھر اپنی نمازوں کی، اپنی عبادتوں کی حفاظت کرنی ہو گی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ اب دعا کر لیں۔
………………………………
دعا کے بعد حضورِ انور نے فرمایا:
’’لجنہ اماء اللہ کی طرف سے مَیں ایک وضاحت بھی کرنا چاہتا ہوں صبح لجنہ اماء اللہ کے سیشن میں شامل ہوا تھا وہاں جو رپورٹ پڑھی تھی اس میں انہوں نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ 3500 حاضری ہے، اور ایک دن پہلے کی حاضری 3900 بتائی تھی۔ کچھ گھبراہٹ میں یا عاجزی میں صدر صاحبہ سے کچھ غلطی ہوگئی ان کی اصل حاضری اُس وقت جس سیشن میں مَیں شامل ہوا ہوں 5528 تھی جو گزشتہ سال سے بہت زیادہ ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ ان حاضریوں کو صرف حاضریوں تک ہی نہ رکھے بلکہ اللہ تعالیٰ کرے کہ حقیقی انقلاب ہم سب میں پیداہو۔ جزاک اللہ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ