سخت ذہین و فہیم اور علومِ ظاہری و باطنی سے پُر حضرت مصلح موعودؓ کی معرکۃ الآراء تقاریر (فرمودہ1919ء)
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کوعطا ہونے والے مبشر وموعود بیٹے مرزا بشیر الدین محمود احمد کی صفات حسنہ سے زمانہ آگا ہ تھا حتیٰ کہ آپ علیہ السلام کے قریب بسنے والے مگرآپ کی پہچان سے محروم لوگ بھی اپنی بولی میں طنزًا کہا کرتے تھے، کہ جیسا باپ ویسا ہی بیٹا۔ اورایسا کیوں نہ ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے خود پیش خبری عطافرمائی تھی کہ وہ حسن و احسان میں تیرا نظیر ہوگا۔ اس قربت ومماثلت کے صرف ایک پہلو کا نمونہ پیش ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام اپنے قلمی جہاد کے بارہ اپنے منظوم کلام میں فرماتے ہیں :
صفِ دشمن کو کیا ہم نے بہ حجت پامال
سیف کا کام قلم سے ہی دکھایا ہم نے
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ نے اپنی زندگی کے ابتدائی انیس سال حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی قربت وسایہ عاطفت میں گزارے۔ ان سالوں کا جائزہ بتاتا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سلطان نصیر بن کر اپنے قلمی جہاد کا آغاز بہت چھوٹی عمر میں فرمایا۔ مضمون نگاری کے ساتھ ساتھ مجالس میں نکات معرفت ارشادفرمانے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ جو آپ رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں روز افزوں رہااور اس 52 سالہ دور کی تصنیفات و تالیفات، خطبات و مجالس ارشاد کا صرف اورصرف بلحاظ کمیت ملاحظہ ہی انسان کو حیرت و استعجاب میں مبتلا کردیتا ہے کہ کس طرح خارق عادت رنگ میں آپ رضی اللہ عنہ علم و معرفت بانٹتے تھے کہ گویا بنگالہ کی بارش کے قطرے گر رہے ہوں۔
خطبات جمعہ، عیدین و نکاح
سال 1919ء کااس بابت جائزہ بتاتا ہے کہ حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ نے اس سال میں ایسے 42 خطبات جمعہ ارشاد فرمائے، جن کا متن یا خلاصہ شائع ہوسکا، یہ مواد221 صفحات پر مطبوعہ ہےجبکہ اس سال آنے والی عیدالفطر اور عید الاضحیٰ کے خطبات کے علاوہ دوران سال حضرت فضل عمر کے ارشاد فرمودہ 3 خطبات نکاح کے بھی متن محفوظ ہیں۔
سال 1919ء کی دیگر تصنیفات کے حوالہ سے تاریخ احمدیت کے مختلف ماخذوں کا مطالعہ بتاتا ہے کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ماہ فروری میں لاہور کا سفر بغرض علاج اختیار فرمایا ، لیکن اس قیام کے دوران متعدد معرکۃ الآراء لیکچرز بھی ارشاد فرمائے۔
اصلاح اعمال کی تلقین
حضرت مصلح موعود نے 16 فروری 1919ء کو حضرت میاں چراغ دین صاحب کے مکان پر مندرجہ بالا عنوان سے تقریر فرمائی جس میں تزکیہ نفس اور روحانی اصلاح کی طرف توجہ دلائی۔ یہ علمی مضمون پُردرد نصائح سے بھرپور ایک ولولہ انگیز خطاب تھا، اسے اخبار الفضل قادیان نے اپنے 11؍مارچ 1919ء کے شمارہ میں طبع کیا اور اب انوار العلوم کی جلد چہارم کے صفحہ 225 سے 243 پر شائع شدہ ہے۔
اسلام اور تعلقات بین الاقوام
مورخہ23فروری کوایک لیکچر بریڈ لا ہال لاہور میں مذکورہ عنوان سے ارشاد فرمایا ، اس اجلاس کی صدارت حضرت چوہدری سر ظفراللہ خان صاحب نے کی۔ جنگ عظیم اول کے بعد عالمی حالات کے تناظر میں اس اہم تقریر کو ریویو آف ریلجنز اردو نے اپنے ستمبر اور اکتوبر 1919ء کے شماروں میں 30 صفحات پر خلاصۃً درج کیا۔ اس عالمی جنگ کے نتیجہ میں اتحادی افواج کے ہاتھوں مسلم سلطنت عثمانیہ کی حالت نازک ہوچکی تھی۔
اسلام میں اختلافات کا آغاز
حضر ت مصلح موعود نے اپنے قیام لاہور کے دوران دوسرا لیکچر 26 فروری کو مارٹن ہسٹاریکل سوسائٹی اسلامیہ کالج لاہور کے زیر انتظام حبیبیہ ہال میں ارشاد فرمایا۔ اس کا عنوان تھا:’’اسلام میں اختلافات کا آغاز‘‘۔ اس جلسہ کے صدر معروف علمی شخصیت جناب سید عبدالقادر صاحب ایم اے ، مؤرخ اسلام تھے۔ سید صاحب نے اپنی افتتاحی تقریر میں کہا کہ آج کے لیکچرار اس عزت ، اس شہرت اور اس پائے کے انسان ہیں کہ شائد ہی کوئی صاحب ناواقف ہوں۔ آپ اس عظیم الشان اور برگزیدہ انسان کے خلف ہیں جنہوں نے تمام مذہبی دنیا اور بالخصوص عیسائی عالم میں تہلکہ مچا دیا تھا۔
افتتاحی تقریر کے بعد حضرت مصلح موعودؓ نے حضرت عثمان غنی کے دور خلافت میں عبداللہ ابن سبا اور اس کے باغی او رمفسد ساتھیوں کی سازشوں اور فتنہ انگیزیوں پر اتنی تفصیلی روشنی ڈالی اور تاریخ اسلام کی گمشدہ کڑیوں کو اس طرح منکشف اور مربوط فرماکر سامنے رکھ دیا کہ بڑے بڑے صاحبان علم و فہم بھی حیران رہ گئے۔
خاتمہ تقریر پر صدر مجلس جناب سید عبدالقادر صاحب نے فرمایا :’’حضرات! میں نے تاریخی اوراق کی کچھ ورق گردانی کی ہے اور آج شام جب میں اس ہا ل میں آیاتو مجھے خیال تھا کہ اسلامی تاریخ کا بہت سا حصہ مجھے بھی معلوم ہے ۔ اور اس پر میں اچھی طرح رائے زنی کر سکتا ہوں لیکن اب جناب مرزا صاحب کی تقریر کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ میں ابھی طفل مکتب ہوں۔ پھر اپنی اور حضرت مصلح موعودؓ کی غیرمعمولی علمیت کی روشنی کا ایک تقابل کیا۔ پھر کہا کہ جس فصاحت اور جس علمیت سے جنا ب مرزا صاحب نے اسلامی تاریخ کے ایک نہایت مشکل باب پر روشنی ڈالی ہے وہ انہی کا حصہ ہے۔ ‘‘
اور جب اگلے سال 1920ء میں یہ لیکچر طبع ہوا تو جناب سید عبدالقادر صاحب نے اس کے آغاز میں ایک تمہیدی نوٹ بھی شامل کروایاجو حضرت مصلح موعودؓکے علوم ظاہری و باطنی سے پُر ہونے کا ایک واضح اظہار تھا۔ اسلامی تاریخ کی واقفیت کے اساسی اصول دینے والے اس لیکچر پر اہل پیغام کے آرگن پیغام صلح نے بھی توصیفی نوٹ شائع کیا۔اس لیکچر کوفضل عمر فاؤنڈیشن نے انوار العلوم کی جلد چہارم کے صفحہ 247 سے 335پر شائع کیا ہے۔
عرفان الٰہی
سال 1918 ءکا جلسہ سالانہ دسمبر 1918ء کی بجائے مارچ 1919ء میں منعقد ہوا، حضرت مصلح موعودؓنے جلسہ سالانہ کے پہلے دن (16مارچ)کی اپنی تقریر میں’’ عرفان الٰہی‘‘ جیسے دقیق مضمون کو نہایت شرح و بسط سے بیان فرمایا۔ اور عرفان الٰہی اور تزکیہ نفس کے ذرائع بتاتے ہوئے نکات معرفت کے دریا بہادیے۔ یہ تقریر عرفان الٰہی کے نام سے مطبوعہ ہے اور مجموعہ انوارالعلوم کی جلدچہارم میں صفحہ 339 سے صفحہ 391تک موجود ہے۔
خطاب جلسہ سالانہ 1918ء
سال 1919ء کی خاص بات ہے کہ اس سال کے دوران 2 جلسہ ہائے سالانہ منعقد ہوئے۔ مورخہ 17 مارچ 1919ء کو حضرت مصلح موعودنے ایک خطاب فرمایا جو 37 صفحات پر مشتمل انوار العلوم میں شائع شدہ ہے۔حضور رضی اللہ عنہ نے اپنےاس خطاب میں جماعت کے انتظامی شعبہ جات اور متفرق تربیتی امور کے حوالہ سے بات کی۔
ترکی کا مستقبل اور مسلمانوں کا فرض
جنگ عظیم اول میں اتحادی افواج نے مسلم سلطنت ترکی کی شان و شوکت خاک میں ملا دی تھی ۔ گو ابھی صلح کی شرائط طَے نہ ہوئی تھیں مگر صدیوں تک ایک وسیع وعریض حدود اربعہ پر حکمرانی کرنے والی عظیم الشان سلطنت کا مستقبل صاف صاف مخدوش نظر آرہا تھا۔ جس کی وجہ سے مسلمانان ہند میں شدید تشویش پائی جاتی تھی۔ دیگر مختلف کارروائیوں کے علاوہ ماہ ستمبر 1919ء کے اواخر میں لکھنؤ میں ایک آل انڈیا مسلم کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ جس میں حکومت کے خلاف منظم طریقہ سے صدائے احتجاج بلند کرنے کی تجویز زیر غور آئی۔ حضرت مصلح موعودؓکو بھی اس کانفرنس میں بطور خاص دعوت دی گئی تھی۔ گو حضور اپنی ناسازی طبع او ربعض دوسری وجوہات کی بنا پر تشریف نہ لے جاسکے۔ مگر آپ نے اپنے قلم سے مسئلہ ترکی کے متعلق ایک مفصل مضمون لکھ کر کانفرنس کے لئے بھجوایا جو ترکی کا مستقبل اور مسلمانوں کا فرض کے عنوان سے کتابی شکل میں چھپ گیا۔
اس کا انگریزی ایڈیشن The Future of Turkey کے نام سے طبع شدہ ہے۔
حضور رضی اللہ عنہ نے اپنے اس مضمون میں اس موقع کو نازک قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اسلام کی ظاہری شان و شوکت سخت خطرے میں ہے۔ اور پورا یقین دلایا کہ جماعت احمدیہ ترکوں کی سلطنت سے ہر طرح ہمدردی رکھتی ہے۔ کیونکہ باوجود اختلاف عقیدہ رکھنے کے ان کی ترقی سے اسلام کے نام کی عظمت ہے۔ اور پھر اسی پر اکتفا نہ کرکے ترکی کے مستقبل کو آئندہ خطرات سے محفوظ کرنے کے لئے نہایت مدبرانہ رنگ میں ایک متوازن، قابل عمل اور ٹھوس اور موثر سکیم تجویز فرمائی۔ اس سکیم میں آپ نے خاص طور پر اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ ترکوں کے مستقبل کے بارہ میں جن طاقتوں کو فیصلہ کرنا ہے ان میں صرف برطانیہ ہی ایک ایسی طاقت ہے جو اگرچہ مسلمان نہیں کہ مذہباً ترکوں کی ہمدرد ہو، لیکن وہ اپنی مسلمان رعایا کے جذبات و احساسات کی وجہ سے کسی حد تک مسلمانوں کی مدد کرنا چاہتی ہے۔ جیسا کہ حکومت حجاز کا نیم سرکاری اخبار ’’قبلہ‘‘ کئی دفعہ اقرار کر چکا ہے۔ پس ہمیں برطانیہ پر اور زیادہ زو ردینا چاہئے کہ ترکی کو اور دوسری حکومتوں کے سپرد نہ کیا جائے۔
آزمائش کے بعد ایمان کی حقیقت کھلتی ہے
مسٹر ساگر چند بیرسٹر ایٹ لاء نے ولایت سے واپسی پر 6 دسمبر 1919ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی سےدن بارہ بجے مسجد مبارک قادیان میں ملاقات کا شرف حاصل کیا۔ اس موقع پر حضور نے ان کو نصائح فرمائیں جواسسٹنٹ ایڈیٹر الفضل نے نقل کرکے اپنے 11 دسمبر 1919ء کے شمارہ میں شائع کیں۔ اوراب کتابی شکل میں انوارالعلوم جلد چہارم میں قریباً 20 صفحا ت پر طبع ہیں۔
خطاب جلسہ سالانہ 27 دسمبر 1919ء
سال 1919ء میں منعقد ہونے والے دوسرے جلسہ سالانہ میں حضرت مصلح موعودؓنے جو تین خطابات فرمائے ان میں سے صرف 27 اور 28 دسمبر کی دو تقاریرکا متن ہی 161 صفحات پر مشتمل ہے۔ جو حضور رضی اللہ عنہ کی صحت اور دیگر مصروفیات کو دیکھتے ہوئے بلاشبہ ایک اعجاز ہے۔
اس جلسہ کے موقع پر حضور ؓ کی 27 دسمبر کی تقریر مسجد نور قادیان میں ہوئی۔ جو قریباً 55 صفحات پر پھیلی ہوئی انوار العلوم کی جلد چہارم میں طبع شدہ ہے۔
تقدیر الٰہی
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے جلسہ سالانہ 1919ء کے موقع پر تین تقاریرفرمائیں۔ جن میں سے ایک تقریر ’’تقدیر الٰہی‘‘ کے اہم اور نازک موضوع پر تھی۔بعد میں حضور نے اس تقریر پر نظر ثانی اور اضافہ جات کے ساتھ خود مرتب کرکے کتابی شکل میں تیار کیا۔ حضور نے اپنی کتاب میں مسئلہ تقدیر پر ایمان کی ضرورت و حقیقت، تقدیر و تدبر،تقدیر عام اور تقدیر خاص کے پہلو ؤں پر سیر حاصل روشنی ڈالی۔ اور تقدیر سے متعلق شبہات کا پوری طرح ازالہ فرمایا۔ علم و معرفت سے لبریز یہ تقریرانوار العلوم کی جلد چہارم میں یک صد صفحات پر طبع شدہ ہے۔
یقینا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ایک سال کے دوران سینکڑوں صفحات پر مشتمل جو علوم و معرفت کے موتی عطا فرمائےوہ بلاشبہ آپ کے سخت ذہین و فہیم، علوم ظاہری و باطنی سے پر ہونے پردال اور رہتی دنیا تک شرق و غرب میں بسنے والی نسل انسانی کے لئے موجب رہنمائی ہیں۔