خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ15؍ فروری 2019ء
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ15؍ فروری 2019ء بمطابق15؍تبلیغ 1398 ہجری شمسی بمقام مسجدبیت الفتوح،مورڈن،لندن، یوکے
(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔
آج جن صحابہ کا ذکر ہے ان میں سے پہلا نام ہے حضرت خَالِد بن قَیْس کا۔ حضرت خالد کا تعلق قبیلہ خزرج کی شاخ بَنُو بَیَاضَہ سے تھا۔ آپ کے والد قیس بن مالک تھے اور والدہ کا نام سَلْمیٰ بنت حارثہ تھا۔ آپ کی اہلیہ اُمِّ رَبِیْع تھیں جن سے ایک بیٹے عبدالرحمٰن تھے۔ ابن اسحاق کے نزدیک آپ ستر انصار صحابہ کے ساتھ بیعت عقبہ میں شریک ہوئے۔ حضرت خالدؓ نے غزوۂ بدر اور احد میں شرکت کی تھی۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 449-450 خالد بن قیسؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
دوسرے صحابی ہیں حضرت حَارِثْ بن خَزَمَہ۔ یہ انصاری تھے۔ ان کی کنیت اَبُو بِشْر تھی۔ ان کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج سے تھا۔ بنوعبدالْاَشْھَل کے حلیف تھے۔ حضرت حَارِثْ بن خَزَمَہ غزوۂ بدر،احد، خندق اور دیگر تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہوئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حَارِث بن خَزَمَہ اور حضرت اِیَاس بن بُکَیر کے درمیان مؤاخات قائم فرمائی تھی۔ تاریخ میں یہ ذکر آتا ہے کہ غزوۂ تبوک کے موقع پر جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی گم ہو گئی تو منافقوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ اعتراض کیا کہ آپ کو اپنی اونٹنی کی تو خبر نہیں ہے تو آسمان کی خبریں کیسے جان سکتے ہیں۔ جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کی خبر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں وہی باتیں جانتا ہوں جن کے بارے میں خدا مجھے خبر دیتا ہے اور پھر فرمایا کہ اب خدا نے مجھے اونٹنی کے بارے میں خبر دی ہے کہ وہ وادی کی فلاں گھاٹی میں ہے۔ اس کا ذکر پہلے بھی ایک صحابی کے ذکر میں کچھ ہو چکا ہے تو جو صحابی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے مقام سے اونٹنی تلاش کر کے لائے وہ حضرت حَارِث بن خَزَمَہ تھے۔ ان کی وفات 40 ہجری میں حضرت علیؓ کے دورِ خلافت میں 67 سال کی عمر میں مدینہ میں ہوئی۔
(اسد الغابہ جلد 1صفحہ 602-603 الحارث بن خزمہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت2003ء)
(اصابہ جلد 1صفحہ 666 الحارث بن خزمہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء)
اگلے صحابی ہیں جن کا ذکر ہو گا حضرت خُنَیْس بِن حُذَافَہ ۔ان کی کنیت ابو حُذَافَہ تھی۔ حضرت خُنَیْس کی والدہ کا نام ضَعِیْفَہ بنتِ حِذْیَمْ تھا۔ ان کا تعلق بنی سَہْمِ بِن عَمْرو سے تھا۔ یہ ایک قبیلہ تھا۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دارِ ارقم میں جانے سے پہلے اسلام قبول کیا تھا۔ حضرت خُنَیْس حضرت عبداللہ بن حُذَافَہ کے بھائی تھے۔ حضرت خُنَیْس ان مسلمانوں میں شامل تھے جنہوں نے دوسری دفعہ حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ حضرت خُنَیْس کا شمار اولین مہاجرین میں ہوتا ہے۔ جب حضرت خُنَیْس نے مدینہ ہجرت کی تو حضرت رِفَاعَہ بن عبدِالمُنْذِر کے پاس رہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خُنَیْس اور ابو عَبْس بن جَبْر کے درمیان عقدِ مؤاخات قائم کیا۔ حضرت خُنَیْس غزوۂ بدر میں شامل ہوئے۔ اُمّ المومنین حضرت حفصہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل حضرت خُنَیْس کے عقد میں تھیں۔ ان کی شادی ہوئی تھی۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 300 خنیس بن حذافۃؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
(اسد الغابہ جلد 2صفحہ 188 خنیس بن حذافۃؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت2003ء)
سیرت خاتم النبیین میں اس کی تفصیل میں لکھا ہے کہ:
حضرت عمر بن خطابؓکی ایک صاحبزادی تھیں جن کا نام حفصہؓ تھا۔ وہ خُنَیْس بن حُذَافَہ کے عقد میں تھیں جو ایک مخلص صحابی تھے اور جنگ بدر میں شریک ہوئے تھے۔ بدر کے بعد مدینہ واپس آنے پر خُنَیْس بیمار ہو گئے اور اس بیماری سے جانبر نہ ہو سکے اور ان کی وفات ہو گئی۔ حضرت عمرؓکو حضرت حفصہؓ کے نکاح ثانی کی بڑی فکر تھی۔ اس وقت حضرت حفصہ ؓکی عمر بیس سال سے اوپر تھی۔ کچھ عرصہ بعد حضرت عمرؓ نے اپنی فطرتی سادگی میں خود عثمان بن عفانؓسے مل کر ذکر کیا کہ میری لڑکی حفصہ بیوہ ہے۔ آپ اگر پسند کریں تو اس کے ساتھ شادی کر لیں مگر حضرت عثمان نے ٹال دیا۔ اس کے بعد حضرت عمرؓنے حضرت ابوبکرؓسے شادی کا ذکر کیا کہ آپؓ اس سےشادی کر لیں لیکن حضرت ابوبکرؓنے بھی خاموشی اختیار کی۔ کوئی جواب نہیں دیا۔ اس پر حضرت عمرؓکو بہت ملال ہوا، رنج ہوا۔ انہوں نے اسی دکھ کی حالت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپؐ سے یہ ساری سرگزشت بیان کی، عرض کی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عمر! کچھ فکر نہ کرو۔ خدا کو منظور ہوا تو حفصہؓکو عثمانؓاور ابوبکرؓکی نسبت بہتر خاوند مل جائے گا اور عثمانؓکو حفصہ کی نسبت بہتر بیوی ملے گی۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لئے فرمایا کہ آپؐحفصہ کے ساتھ شادی کرلینے اور اپنی لڑکی ام کلثومؓکو حضرت عثمانؓکے ساتھ بیاہ کر دینے کا ارادہ کر چکے تھے جس سے حضرت ابوبکرؓاور حضرت عثمانؓدونوں کو اطلاع تھی۔ ان کو بتلا دیا تھا اور اسی لئے انہوں نے حضرت عمرؓکی تجویز کو ٹال دیا تھا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمانؓسے اپنی صاحبزادی ام کلثومؓکی شادی فرما دی جس کا ذکر گزر چکا ہے اور اس کے بعد آپؐنے خود اپنی طرف سے حضرت عمرؓکو حفصہؓ کے لئے پیغام بھیجا۔ حضرت عمرؓکو اس سے بڑھ کر اور کیا چاہیے تھا۔ انہوں نے نہایت خوشی سے اس رشتہ کو قبول کیا اور شعبان 3ہجری میں حضرت حفصہؓ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آ کر حرم نبویؐ میں داخل ہو گئیں۔
جب یہ رشتہ ہو گیا تو حضرت ابوبکرؓنے حضرت عمرؓسے کہا کہ شاید آپ کے دل میں میری طرف سے کوئی ملال ہوا ہو، دل میں میل پیدا ہوا ہو، رنج ہوا ہو۔ بات یہ ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارادے سے اطلاع تھی لیکن میں آپؐکی اجازت کے بغیر یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت کے بغیر آپؐ کے راز کو ظاہر نہیں کر سکتا تھا۔ ہاں آپؐ کا اگر یہ یعنی اس رشتہ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارادہ نہ ہوتا تو میں بڑی خوشی سے حفصہ سے شادی کر لیتا۔
حفصہؓ کے نکاح میں ایک تو یہ خاص مصلحت تھی کہ وہ حضرت عمرؓکی صاحبزادی تھیں جو گویا حضرت ابوبکرؓکے بعد تمام صحابہ میں افضل ترین سمجھے جاتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقربین خاص میں سے تھے۔ پس آپس کے تعلقات کو زیادہ مضبوط کرنے اور حضرت عمرؓاور حفصہؓکے اس صدمہ کی تلافی کرنے کے واسطے جو خُنَیْس بن حُذَافَہ کی بے وقت موت سے ان کو پہنچا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مناسب سمجھا کہ حفصہؓسے خود شادی فرما لیں۔
(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے صفحہ 477-478)
ایک روایت کے مطابق حضرت خُنَیْس بن حُذَافَہ کو غزوۂ اُحُد میں کچھ زخم آئے۔ بعد میں انہی زخموں کی وجہ سے آپؓکی مدینہ میں وفات ہوئی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓکی نماز جنازہ پڑھائی اور آپؓکو جنت البقیع میں حضرت عثمان بن مظعونؓ کے پہلو میں دفن کیا گیا۔
(استیعاب جلد 2صفحہ 452 خنیس بن حذافہؓ مطبوعہ دار الجیل بیروت 1992ء)
(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 300 خنیس بن حذافہؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
اگلے صحابی جن کا ذکر ہے ان کا نام حضرت حَارِثَہ بن نُعْمَان ہے۔ ان کی کنیت ابوعبداللہ تھی۔ حضرت حَارِثَہ بن نُعْمَان انصاری صحابی تھے۔ ان کا تعلق قبیلہ خزرج کی شاخ بنو نَجَّار سے تھا۔ آپؓغزوۂ بدر، احد، خندق اور دیگر تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل تھے۔ ان کا شمار بڑے جلیل القدر صحابہ میں ہوتا ہے۔ حضرت حَارِثَہ کی والدہ کا نام جَعْدَہ بِنْتِ عُبَیْد تھا۔ حضرت حَارِثَہ بن نُعْمَان کی اولاد میں عبداللہ، عبدالرحمٰن، سَوْدَہ، عُمْرَہ اور اُمِّ ہِشَام شامل ہیں۔ ان بچوں کی والدہ کا نام امّ خَالِد تھا ۔ آپ کی دیگر اولاد میں اُمِّ کلثوم جن کی والدہ بَنُو عَبْدِاللہ بن غَطَفَان میں سے تھی اور اَمَۃُ اللہ ان کی والدہ جُنْدُع میں سے تھیں۔
ایک دوسری روایت ہے اس میں آتا ہے کہ حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ یہ حضرت حَارِثَہ بن نُعْمَان آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرے۔ آپ کے پاس جبرئیلؑ بیٹھے تھے۔ ایک اَور روایت پہلے تھی وہ روایت مختصر سی یوں تھی کہ آپؓگزرے تو آپؓنے سلام کیا اور جبرئیلؑ نے ’وعلیکم السلام‘ کہا لیکن جو تفصیلی روایت ہے وہ یہ ہے کہ حضرت ابن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت حَارِثَہ بن نُعْمَان آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرے۔ آپؐ کے پاس حضرت جبرئیلؑ بیٹھے تھے اور آپؐ ان سے آہستہ آہستہ کچھ باتیں کر رہے تھے۔ حَارِثَہ نے آپؐ کو سلام نہیں کیا۔ جبرئیلؑ نے کہا کہ انہوں نے سلام کیوں نہیں کیا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعد میں حَارِثَہ سے دریافت فرمایا کہ جب تم گزر رہے تھے تو تم نے سلام کیوں نہیں کیا تھا؟ انہوں نے عرض کیا کہ میں نے آپؐ کے پاس ایک شخص کودیکھا تھا۔ آپؐ ان سے آہستہ آہستہ کچھ باتیں کر رہے تھے۔ میں نے ناپسند کیا کہ میں آپؐ کی بات کو قطع کروں یعنی سلام کر کے پھر آپؐ کی توجہ پھیروں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا تم نے اس شخص کو دیکھ لیا تھا جو میرے پاس بیٹھا تھا؟ انہوں نے کہا۔ جی ہاں۔ تو آپؐ نے فرمایا کہ وہ جبرئیلؑ تھے اور وہ کہتے تھے کہ اگر یہ شخص سلام کرتا تو میں اس شخص کو جواب دیتا۔ پھر اس کے بعد جبرئیل نے کہا کہ یہ اسّی لوگوں میںسے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے جبرئیلؑ سے پوچھا کہ اس کے کیا معنی ہیں؟ جس پر جبرئیلؑ نے کہا کہ یہ ان اسّی آدمیوں میں سے ہیں جو غزوۂ حنین میں آپ کے ساتھ ثابت قدم رہے تھے۔ ان کا رزق اور ان کی اولاد کا رزق جنت میں اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حارثہؓسے یہ سب کچھ بیان کیا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کا بڑا عزت اور احترام کرتے تھے اور ان کے بارے میں یہ بھی روایت میں ہے، حضرت عائشہؓنے کہا ہے کہ اپنی والدہ کے ساتھ بہترین سلوک کیا کرتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس طرح کی نیکی تم سب کو کرنی چاہیے۔
حضرت حَارِثَہ بن نُعْمَان آخری عمر میں نابینا ہو گئے تھے۔ نظر خراب ہوگئی۔ بند ہو گئی تھی۔ آپؓنے ایک رسی اپنی نماز کی جگہ سے اپنے کمرے کے دروازے تک باندھی تھی اور اپنے پاس ایک ٹوکری رکھا کرتے تھے جس میں کھجوریں ہوتی تھیں۔ جب کوئی مسکین آپ کے پاس آتا، کوئی سوالی آتا اور سلام کرتا یا ملنے والا آتا یا سمجھتے کہ یہ غریب آدمی ہے تو اس رسّی کو پکڑ کر اپنی نماز کی جگہ سے دروازے تک آتے اور ان کو کھجوریں دیتے۔ آپؓکے گھر والے کہتے تھے کہ ہم آپؓکی طرف سے یہ خدمت کر دیا کریں، ہم دے دیتے ہیں۔ آپؓکی نظر ٹھیک نہیں۔ کیوں تکلیف کرتے ہیں؟ مگر آپؓفرمایا کرتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ مسکین کی مدد کرنا بُری موت سے بچاتا ہے۔ روایت میں ہے کہ حضرت حَارِثَہ بن نُعْمَان کے مکانات مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مکانات کے قریب تھے، کافی مکان تھے، جائیداد تھی اور حسب ضرورت حضرت حارِثہؓاپنے مکان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا کرتے تھے۔(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 371-372 حَارِثَہ بن النعمانؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)(اسد الغابہ جلد 1صفحہ 655-656 حَارِثَہ بن النعمانؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت2003ء) یعنی مستقل یا شادیوں کی صورت میں یا اَور کسی ضرورت کے تحت، جب بھی رہائش کی ضرورت ہوتی تھی دے دیے بلکہ مستقل دیتے تھے۔
جب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حضرت فاطمہؓسے شادی ہوئی تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓسے فرمایا کہ اپنے لئے کوئی الگ گھر تلاش کر لو۔ حضرت علیؓنے گھر تلاش کیا اور وہیں حضرت فاطمہؓکو بیاہ کر لے گئے۔ پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہؓسے کہا کہ میں تمہیں اپنے پاس بلانا چاہتا ہوں یعنی میرے قریب آ جاؤ۔ گھر لے لو۔ حضرت فاطمہؓنے آپؐ کو مشورہ دیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ آپؐ حَارِثَہ بن نُعْمَان سے فرمائیں کہ وہ کہیں اَور منتقل ہو جائیں اور یہ جو گھر ان کا ہے وہ ہمیں دے دیں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حارثہؓہمارے لئے کئی دفعہ منتقل ہو چکے ہیں۔ اُن کے گھر قریب ہیں وہ جو بھی قریبی گھر ہوتا ہے وہ چھوڑ کے مجھے دے دیتے ہیں۔ اب مجھے شرم آتی ہے کہ اس سے دوبارہ منتقل ہونے کا کہوں۔ یہ خبر حضرت حارِثہؓکو پہنچی اور آپؓگھر خالی کر کے وہاں سے دوسری جگہ منتقل ہو گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کی کہ یا رسول اللہ! مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپؐ حضرت فاطمہؓکو اپنے پاس منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ میرے گھر ہیں اور یہ بنو نَجَّار کے گھروں میں آپؐ سے سب سے زیادہ قریب ہیں اور میں اور میرا مال اللہ اور اس کے رسول ہی کے لئے ہیں۔ یا رسول اللہ! آپؐ مجھ سے جو مال چاہیں لے لیں وہ مجھے اس مال سے بہت زیادہ پیارا ہو گا جسے آپؐ چھوڑ دیں گے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا تم نے سچ کہا۔ خدا تعالیٰ تم پر برکت نازل فرمائے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ کو حضرت حارثہؓ والے گھر میں بلا لیا۔ (الطبقات الکبریٰ جلد 8صفحہ 18-19 فاطمۃؓ بنت رسولﷺ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
اس کی کچھ تفصیل سیرت خاتم النبیینؐ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓنے بھی بیان فرمائی ہے اس طرح کہ آپؓلکھتے ہیں کہ حضرت علیؓاب تک غالباً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسجد کے کسی حجرے وغیرہ میں رہتے تھے مگر شادی کے بعد یہ ضروری تھا کہ کوئی الگ مکان ہو جس میں خاوند بیوی رہ سکیں۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓسے ارشاد فرمایا کہ اب تم کوئی مکان تلاش کرو جس میں تم دونوں رہ سکو۔ حضرت علیؓنے عارضی طور پر ایک مکان کا انتظام کیا اور اس میں حضرت فاطمہؓکا رخصتانہ ہو گیا۔ اسی دن رخصتانہ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے مکان پر تشریف لے گئے اور تھوڑا سا پانی منگا کر اس پر دعا کی۔ پھر وہ پانی حضرت فاطمہؓاور حضرت علیؓہر دو پر یہ الفاظ فرماتے ہوئے چھڑکا کہ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ فِیْہِمَا وَبَارِکْ عَلَیْھِمَا وَبَارِکْ لَھُمَا نَسْلَھُمَا۔ یعنی ’’اے میرے اللہ !تم ان دونوں کے باہمی تعلقات میں برکت دے اور ان کے ان تعلقات میں برکت دے جو دوسرے لوگوں کے ساتھ قائم ہوں اور ان کی نسل میں برکت دے۔‘‘ یعنی ذاتی تعلقات بھی اور رشتہ داروں کے تعلقات بھی، معاشرے کے تعلقات بھی۔ سب کی برکت کی دعا کی اور فرمایا کہ ان کی نسل میں برکت دے۔ پھر آپؐ اس نئے جوڑے کو اکیلا چھوڑ کر واپس تشریف لے آئے۔ اس کے بعد ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمہؓکے گھر تشریف لے گئے تو حضرت فاطمہؓنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ حَارِثَہ بن نُعْمَان اَنْصَاری کے پاس چند ایک مکانات ہیں۔ آپؐ اُن سے فرما دیں کہ وہ اپنا کوئی مکان خالی کر دیں۔ آپؐ نے فرمایا وہ ہماری خاطر اتنے مکانات پہلے ہی خالی کر چکے ہیں۔ اب مجھے تو انہیں کہتے ہوئے شرم آتی ہے ۔ حارثہؓکو کسی طرح اس کا علم ہوا تو وہ بھاگے آئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا۔ یا رسول اللہ! میرا جو کچھ ہے وہ حضورؐ کا ہے اور اللہ کی قسم! جو چیز آپؐ مجھ سے قبول فرما لیتے ہیں وہ مجھے زیادہ خوشی پہنچاتی ہے بہ نسبت اس چیز کے جو میرے پاس رہتی ہے۔ پھر اس مخلص صحابیؓنے باصرار اپنا ایک مکان خالی کروا کے پیش کر دیا۔ اور حضرت علیؓاور حضرت فاطمہؓنے وہاں آ کر رہائش اختیار کرلی۔
(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے صفحہ 456)
حضرت عائشہؓسے مروی ہے کہ حُنَین کے دن آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ تم میں سے کون رات کو پہرہ دے گا؟ اس پر حضرت حَارِثَہ بن نُعْمَان آہستہ آہستہ اطمینان سے اٹھے۔ حضرت حارثہؓاپنے کسی بھی کام میں جلدی نہیں کیا کرتے تھے۔ صحابہؓ نے ان کے اتنے آرام سے اٹھنے پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ حیا نے حارثہؓکو خراب کر دیا ہے۔ اس موقع پر جلدی اٹھنا چاہیے تھا۔ اس پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسا مت کہو کہ حیا نے حارثہؓکو خراب کیا۔ یہ نہ کہو کہ حارثہؓکو خراب کیا بلکہ اگر تم یہ کہو کہ حیا نے حارثہؓکو ٹھیک کر دیا ہے تو یہ سچ ہو گا۔
(المنتقی من کتاب مکارم الاخلاق للخرائطی صفحہ 68 باب فضیلۃ الحیاء و جسیم خطرہ حدیث 127 مطبوعہ دار الفکر دمشق 1988ء)
حضرت حَارِثَہ بن نُعْمَان کی وفات حضرت امیر معاویہ کے دور میںہوئی تھی۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 372 حَارِثَہ بن النعمانؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
اگلے صحابی حضرت بشیر بن سعد ہیں۔ ان کی کنیت ابونُعمان تھی۔ سَعْد بن ثَعْلَبَہ ان کے والد تھے۔ حضرت سِمَاک بن سَعْد کے بھائی تھے۔ قبیلہ خزرج سے ان کا تعلق تھا۔
(استیعاب جلد 1صفحہ 172 بشیر بن سعدؓ مطبوعہ دار الجیل بیروت 1992ء)
ان کی والدہ کا نام اُنَیْسَہ بنتِ خَلِیْفَہ تھا اور آپؓکی زوجہ کا نام عَمْرَہْ بنتِ رَوَاحَہ تھا۔ حضرت بَشِیر بن سعد زمانہ جاہلیت میں لکھنا جانتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب عرب میں بہت کم لوگ لکھنا جانتے تھے۔ آپ بیعتِ عَقَبہ ثانیہ میں ستر انصار کے ساتھ شامل ہوئے تھے۔ آپ غزوۂ بدر اور احد اور غزوۂ خندق اور باقی کے تمام غزوات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہوئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شعبان 7ہجری میں حضرت بشیر بن سعد کی نگرانی میں تیس آدمیوں پر مشتمل ایک سریہ فَدَک میں بَنِی مُرَّہ کی جانب بھیجا تھا۔ ان لوگوں میں شدید لڑائی بھی ہوئی۔ حضرت بشیرؓ نہایت جوانمردی سے لڑے اور لڑتے ہوئے آپؓکے ٹخنے پر تلوار لگی اور سمجھا گیا کہ آپؓشہید ہو گئے ہیں۔ دشمنوں نے ان کو چھوڑ دیا کہ شاید بیہوش ہوکے گرے ہوں گے یا شہید ہو گئے ہیں۔ چھوڑ کے آ گئے۔ لیکن جب شام کو آپؓکو ہوش آئی تو آپؓوہاں سے فدک آگئے۔ فدک میں آپؓنے ایک یہودی کے گھر چند روز قیام کیا اور پھر مدینہ واپس تشریف لے آئے۔ اسی طرح شوال 7ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓکو تین سو آدمیوں کے ہمراہ یُمْن اور جَبَارْکی طرف روانہ فرمایا جو کہ، فَدَک اور وَادِی الْقُریٰ کے درمیان واقع ہے۔ یہاں غطفان کے کچھ لوگ عُیَیْنَہ بن حِصْن اَلْفَزَارِی کے ساتھ اکٹھے ہو گئے تھے۔ یہ اسلام کے خلاف منصوبہ بندیاں کرتے تھے۔ حضرت بشیرؓ نے ان سے مقابلہ کر کے انہیں منتشر کر دیا۔ مسلمانوں نے بعض کو قتل بھی کیا اور بعض کو قیدی بنایا اور مال غنیمت کے ساتھ لَوٹے۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 402-403 بشیر بن سعدؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
یہ جنگ اور نقصان پہنچانے کے لئے جمع ہوا کرتے تھے۔ اس لئے ان کے خلاف مسلمانوں کے تحفظ کے لئے یہ کارروائی کی جاتی تھی۔ مال لوٹنا یا قتل کرنا مقصد نہیں تھا۔ جیسا کہ گزشتہ خطبہ میں بھی مَیں نے بیان کیا تھا کہ ایک غلط حملے پر جس کا کوئی جواز نہیں بنتا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے بڑی سخت ناراضگی کا اظہار کیا تھا کہ کیوں تم نے جنگ لڑی؟
بَشِیر بن سَعْد کے بارے میں ایک روایت ہے جو ان کے بیٹے حضرت نُعْمَان بن بشیرؓبیان کرتے ہیں۔ نُعْمَان بن بشیرؓ ان کا نام تھا کہ ان کے والد انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے اور عرض کی کہ میں نے اپنے اس بیٹے کو اپنا ایک غلام دیا ہے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے اپنے سارے بیٹوںکو اسی طرح دیا ہے؟ انہوں نے کہا نہیں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر اس سے واپس لے لو۔
(صحیح البخاری کتاب الھبۃ باب الھبۃ للولد حدیث 2586)
ایک روایت میں یہ ہے کہ حضرت نُعْمَان بن بشیرؓکہتے ہیں کہ میرے والد نے اپنا کچھ مال مجھے عطا کیا۔ (وہ بھی بخاری کی روایت ہے اور یہ بھی)۔ اس پر میری والدہ عَمْرَہ بنتِ رَوَاحَہ نے کہا مَیں راضی نہ ہوں گی جب تک تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ نہ ٹھہراؤ۔ میرے والد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے تا کہ وہ آپؐ کو میرے عطیہ پر گواہ بنائیں جو مجھے دیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے اپنے سب بچوں کے ساتھ ایسا ہی کیا ہے۔ ہر ایک کو اتنا ہی مال دیا ہے یا جو بھی وہ چیز تھی؟ انہوںنے کہا کہ نہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور اپنی اولاد سے عدل کا سلوک کرو۔ میرے والد واپس آئے اور وہ عطیہ واپس لے لیا۔
(صحیح البخاری کتاب الھبۃ باب الاشھاد فی الھبۃ حدیث 2587)
صحیح مسلم کی روایت میں یہ ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے گواہ نہ بناؤ کیونکہ میں ظلم پر گواہی نہیں دیتا۔
(صحیح مسلم کتاب الھبات باب کراھیۃ تفضیل بعض اولاد فی الھبۃ حدیث 4182)
اس مسئلے کی یا اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے، تشریح کرتے ہوئے یا اس طرح کے ہبہ کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے تفصیل سے بڑی عمدہ وضاحت فرمائی ہے جو بڑی اچھی رہنمائی ہے۔ آپؓفرماتے ہیں کہ مَیں سمجھتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد اہم اشیاء کے متعلق ہے۔ چھوٹی موٹی چیزوں کے متعلق نہیں ہے۔ مثلاً اگر ہم کیلا کھا رہے ہوں تو ہو سکتا ہے کہ بچہ جو سامنے موجود ہو اسے ہم دے دیں اور دوسرا محروم رہے۔ حدیثوں میں گھوڑے کی مثال آتی ہے یا مال کی مثال آتی ہے یا غلام کی ،کوئی ایسی قیمتی چیز ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے فرمایا کہ یا تو وہ اپنے سب بیٹوں کو ایک گھوڑا دے یا کسی کو بھی نہ دے مگر اس کی وجہ یہ تھی کہ عربوں میں گھوڑے کی قیمت بہت ہوتی تھی (یا غلام ہے تو غلام بھی ایک جائیداد سمجھا جاتا تھا یا کسی بھی قسم کا مال، جو قیمتی چیز ہے۔ تو اس لئے اس کے لئے منع کیا گیا ہے۔ اور گھوڑا بھی عربوں میں بڑی قیمتی چیز تھی) پس یہ حکم ان چیزوں کے متعلق ہے جس میں ایک دوسرے سے بغض پیدا ہونے کا امکان ہو۔ ایک بچے کو دے دیا دوسرے کو نہ دیا تو ایک دوسرے کے خلاف دل میں آپس میں رنجشیں پیدا ہو سکتی ہیں۔ آپؓلکھتے ہیں کہ معمولی چیزوں کے متعلق نہیں ہے مثلاً فرض کرو کہ بازار گئے ہیں ایک بچہ ہمارے ساتھ چلا جاتا ہے اور ہم اسے دوکان سے کوٹ کا کپڑا خرید دیتے ہیں تو یہ بالکل جائز ہو گا اور یہ نہیں کہا جائے گا کہ جب تک ساروں کے لئے ہم کوٹ خرید کر نہ لائیں ایک بچے کو بھی کوٹ کا کپڑا خرید کر نہیں دیا جا سکتا۔ آپؓلکھتے ہیں کہ ہمارے ہاں بعض دفعہ کوئی تحفہ آتا ہے تو ایک بچہ جو ہمارے سامنے ہوتا ہے وہ کہتا ہے یہ مجھے دے دیا جائے اور ہم وہ تحفہ اسے دے دیتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ ہم دوسرے کو محروم رکھتے ہیں بلکہ سمجھتے ہیں کہ جب کوئی اَور تحفہ آیا تو پھر دوسرے کی باری آ جائے گی۔ پس یہ حکم چھوٹی چھوٹی چیزوں کے متعلق نہیں ہے بلکہ بڑی بڑی چیزوں کے متعلق ہے جن میں امتیازی سلوک کرنے سے آپس میں بغض اور عناد پیدا ہونے کا امکان ہو سکتا ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ میرا تو طریق یہ ہے کہ جب میرا کوئی بچہ جوان ہوتا ہے تو میں اسے کچھ زمین دے دیتا ہوں تا کہ وہ اس میں سے وصیت کر سکے۔ (جائیداد ہو جائے گی۔ کوئی وصیت ہو گی اس کا اب چندہ ادا کرے۔) اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ میں دوسروں کو ان کے حق سے محروم رکھتا ہوں بلکہ میں کہتا ہوں کہ جب وہ بالغ ہوں گے تو انہیں بھی یہ حصہ مل جائے گا مگر بہرحال جائیداد ایسی ہونی چاہیے جو خاص اہمیت نہ رکھتی ہو اور اگر کوئی شخص ایسا ہبہ کرے جس سے دوسروں میں بغض پیدا ہونے کا امکان ہو تو قرآن کریم کا حکم ہے کہ وہ اسے واپس لے لے اور رشہ داروں کا بھی فرض ہے کہ اسے اس گناہ سے بچائیں۔
(ماخوذ از الفضل 16 اپریل 1960ء صفحہ 5)
پھر ایک موقع پر اسی طرح کے ہبہ کا ایک معاملہ پیش ہوا۔ مفتی صاحبؓنے پیش کیا تو حضرت مصلح موعودؓ نے اس پہ فرمایا کہ ہمیں اس کے متعلق قرآن کریم کا حکم دیکھنا پڑے گا جو اس نے جائیداد کی تقسیم کے متعلق دیا ہے۔ قرآن کریم نے اس قسم کے ہبہ کو بیان نہیں کیا بلکہ ورثہ کو بیان کیا ہے جس میں سب مستحقین کے حقوق کی تعیین کر دی گئی ہے۔ بعض دفعہ لوگ اپنی جائیدادوں کی تقسیم کرتے ہیں، ان چیزوں کا خیال نہیں رکھتے اور پھر مقدمے چلتے ہیں، رنجشیں پیدا ہوتی ہیں۔
اور پھرآپؓفرماتے ہیں کہ اب قرآن کریم کے مقرر کردہ حصص کو بدلا نہیں جا سکتا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان احکام کے مقرر کرنے میں کیا حکمت ہے۔ وراثت کی رو سے کیوں سب لڑکوں کو برابر ملنا چاہیے اور ایک لڑکے کی شکایت پر کیوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے باپ کو ارشاد فرمایا کہ یا تو تم اس کو بھی گھوڑا لے دو یا پھر دوسرے سے بھی لے لو۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ جس طرح اولاد پر والدین کی اطاعت فرض ہے اسی طرح والدین کے لئے بھی اولاد سے مساویانہ سلوک اور یکساں محبت کرنا فرض ہے لیکن اگر والدین اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جَنبہ داری سے کام لیتے ہیں، ایک طرف جھکاؤ ہو جاتا ہے تو ممکن ہے کہ اولاد شاید اپنے فرائض سے تو منہ نہ موڑے۔ اولاد تو شاید والدین کا حق ادا کرتی رہے گی لیکن ان فرائض کی ادائیگی یعنی والدین کی خدمت کرنے میں کوئی شادمانی اور مسرت محسوس نہیں کرے گی۔ بلکہ اولاد پھر اسے چَٹی سمجھ کر ادا کرے گی۔ ٹھیک ہے اللہ تعالیٰ نے کہا ہے خدمت کرو۔ ہم خدمت کر رہے ہیں۔ خوشی سے نہیں کر رہے ہوں گے۔
بعض لوگ لکھتے ہیں کہ بعض لوگوں کا اس قسم کا رویہ اولاد کے لئے مضر اور محبت کو تباہ کرنے والا ہوتا ہے جو اولاد اور ماں باپ میں ہوتی ہے۔ اس لئے اسلام نے اس سے منع کیا ہے لیکن وصیت اور ہبہ جو کہ اپنی اولاد کے لئے نہیں ہوتا بلکہ دین کے لئے ہوتا ہے جائز ہے۔ اولاد کے علاوہ، جائز وارث جو ہیں ان کے علاوہ آپ ہبہ اور وصیت کر سکتے ہیں کیونکہ وہ شخص اس سے خود بھی محروم رہتا ہے۔ صرف اولاد ہی کو نقصان نہیں پہنچاتا بلکہ اس کی ذات کو بھی پہنچتا ہے چونکہ خدا تعالیٰ کے رستہ میں خرچ ہوتا ہے۔ اس لئے اولاد بھی اس سے ملول خاطر نہیں ہوتی، اس کو غم نہیں ہوتا لیکن اگر ہبہ یا وصیت کسی خاص اولاد کے نام ہو تو پھر ناجائز ہو گا۔اس میں ایک بات سمجھنے والی یہ ہے کہ ایک وقتی ذمہ داری ہوتی ہے جسے ادا کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھ لیجیے کہ ایک شخص کے چار لڑکے ہیں اور اس نے سب سے بڑے لڑکے کو ایم۔اے کی تعلیم دلا دی اور دوسرے چھوٹی جماعتوں میں پڑھ رہے تھے کہ اس کی نوکری ہٹ گئی یا آمد کم ہو گئی اور چھوٹے بچوں کی تعلیم رک گئی۔ اب یہ اعتراض نہیں ہو سکتا کہ اس نے بڑے لڑکے سے امتیاز روا رکھا ہے بلکہ یہ تو اتفاقی بات ہے۔ اس کی تو کوشش تھی کہ میں پہلے بڑے لڑکے کو پڑھاتا ہوں پھر دوسروں کو باری باری ایم۔اے تک پڑھاؤں گا یا جہاں تک پڑھ سکتے ہیں پڑھاؤںگا یعنی وقتی ضروریات کے ماتحت اس نے ذمہ داری کو تقسیم کیا۔ (نیت نیک تھی) اس وقت یہ کام کر لیتا ہوں جب دوسرے کا وقت آئے گا تو وہ کر لوں گا مگر پھر حالات بدل گئے اور وہ اپنی خواہشات پوری نہ کر سکا۔ لیکن اس کے برعکس اگر ایک والد اپنے بڑے لڑکے کو جو عیال دار ہو گیا ہو دو ہزار روپیہ دے کر الگ کر دے کہ تم تجارت کرو مگر جب دوسرے لڑکے بھی صاحب اولادہو جائیں تو انہیں کچھ نہ دے تو یہ ناجائز ہے اور امتیازی سلوک ہو گا۔ بہرحال ہبہ کے بارے میں یا خاص جائیدادکے بارے میں یہ فقہی مسئلہ ہے جسے ہر ایک کو اپنے سامنے جائیداد کی تقسیم کے وقت یا ہبہ کرتے وقت، وصیت کرتے وقت رکھنا چاہیے۔
(ماخوذ از فرمودات مصلح موعودؓ از سید شمس الحق صاحب مربی سلسلہ صفحہ 316-317)
غزوۂ خندق کے موقع پر یہ روایت ہے کہ حضرت بشیر بن سعد (جن صحابی کا ذکر ہو رہا ہے ان) کی بیٹی بیان کرتی ہیں کہ میری ماں عَمْرَہ بنتِ رَوَاحَہ نے میرے کپڑوں میں تھوڑی سی کھجوریں دے کر کہا کہ بیٹی یہ اپنے باپ اور ماموں کو دے آؤ اور کہنا کہ یہ تمہارا صبح کا کھانا ہے۔ آپؓکی بیٹی کہتی ہیں میں ان کھجوروں کو لے کر چلی اور اپنے والد اور ماموں کو ڈھونڈھتی ہوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزری تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے لڑکی! یہ تیرے پاس کیا چیز ہے؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ کھجوریں ہیں۔ میری ماں نے میرے والد بشیر بن سعد اور میرے ماموں عبداللہ بن رَوَاحَہ کے لئے بھیجی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ لاؤ مجھے دے دو۔ میں نے وہ کھجوریں آپؐ کے دونوں ہاتھوں میں رکھ دیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کھجوروں کو ایک کپڑے پر ڈال دیا اور پھر ان کو ایک اور کپڑے سے ڈھانپ دیا اور ایک شخص سے فرمایا کہ لوگوں کو کھانے کے لئے بلا لو۔ چنانچہ تمام خندق کے کھودنے والے جمع ہو گئے اور ان کھجوروں کو کھانے لگے اور وہ کھجوریں زیادہ ہوتی گئیں یہاں تک کہ جب اہل خندق کھا چکے تو کھجوریں کپڑے کے کنارے پر سے نیچے گر رہی تھیں۔ ایسی برکت ان میں پڑی۔
(سیرت ابن ہشام صفحہ 454-455 باب ما ظھر لرسول اللہﷺ من الآیات فی حفر الخندق مطبوعہ دار ابن حزم بیروت 2009ء)
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ خلافت میں 12ہجری میں حضرت بشیرؓحضرت خالد بن ولیدؓکے ساتھ معرکہ عَیْنُ التَّمْر میں شریک ہوئے اور آپؓکو شہادت نصیب ہوئی۔
(اصابہ جلد 1صفحہ 442 بشیر بن سعدؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1995ء)
عَیْنُ التَّمْر کوفہ کے قریب ایک جگہ ہے۔ مسلمانوں نے 12ہجری میں حضرت ابوبکرؓکے عہد خلافت میں اس علاقے کو فتح کیا تھا۔
(معجم البلدان جلد 4 صفحہ 199 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب عمرۂ قضاء کے لئے ذی القعدہ 7ہجری میں روانہ ہوئے تو آپؐ نے ہتھیار آگے بھیج دیے تھے اور ان پر حضرت بشیر بن سعد کو نگران مقرر فرمایا۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 3صفحہ 403 بشیر بن سعدؓ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1990ء)
عمرۂ قضاء کی تفصیل یہ ہے کہ حدیبیہ کے صلح نامہ کی وجہ سے وہاں عمرہ تو نہیں ہو سکا تھا اور اس میں ایک شق یہ بھی تھی کہ آئندہ سال آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم مکہ آ کر عمرہ ادا کریں گے اور تین دن مکہ میں ٹھہریں گے۔
(صحیح البخاری کتاب المغازی باب عمرۃ القضاء حدیث4252)
اس دفعہ کے مطابق، اس شِق کے مطابق ماہ ذوالقعدہ 7ہجری میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ ادا کرنے کے لئے مکہ روانہ ہونے کا عزم فرمایا اور اعلان کر دیا کہ جو لوگ گزشتہ سال حدیبیہ میں شریک تھے وہ سب میرے ساتھ چلیں گے۔ چنانچہ بجز ان لوگوں کے جو جنگ خیبر میں شہید یا وفات پا چکے تھے سب نے یہ سعادت حاصل کی اور کچھ کو ہتھیاروں کے ساتھ آگے بھیج دیا۔ اب یہ ہے کہ عمرہ پہ جانے کے لئے ہتھیاروں کی کیا ضرورت تھی؟ اس بارے میں جو تفصیل ملتی ہے وہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو چونکہ کفارِ مکہ پر بھروسہ نہیں تھا کہ وہ اپنے عہد کو پورا کریں گے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنگ کی پوری تیاری کے ساتھ، اپنے جو ہتھیار لے جا سکتے تھے وہ لے کر گئے اور بوقت روانگی ایک صحابی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو رھم غفاری کو مدینہ پر حاکم بنا دیا اور دو ہزار مسلمانوں کے ساتھ جن میں ایک سو گھوڑوں پر سوار تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے لئے روانہ ہوئے۔ساٹھ اونٹ قربانی کے لئے ساتھ تھے۔ جب کفار مکہ کو خبر ملی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہتھیاروں اور سامان جنگ کے ساتھ مکہ آ رہے ہیں تو وہ بہت گھبرائے اور انہوں نے چند آدمیوں کو صورتحال کی تحقیقات کے لئے مَرّالظَّھْرَان تک بھیجا۔ محمد بن مسلمہؓجو اسپ سواروں کے افسر تھے قریش کے قاصدوں نے ان سے ملاقات کی۔انہوں نے اطمینان دلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلح نامہ کی شرط کے مطابق بغیر ہتھیار کے مکہ میں داخل ہوں گے۔ یہ سن کر کفار جو تھے مطمئن ہو گئے۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب مقام یَأْجَجْ میں پہنچے جو مکہ سے آٹھ میل دور ہے تو تمام ہتھیاروں کو اس جگہ رکھ دیا اور بشیر بن سعد کی ماتحتی میں چند صحابہ کرامؓکو ان ہتھیاروں کی حفاظت کے لئے متعین فرما دیا اور اپنے ساتھ ایک تلوار کے سوا کوئی ہتھیار نہیں رکھا اور صحابہ کرامؓکے مجمع کے ساتھ لبیک پڑھتے ہوئے حرم کی طرف بڑھے۔ کہا جاتا ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاص حرم میں، کعبہ میں داخل ہوئے تو قریش کے کچھ کفار جو تھے مارے جلن کے اس منظر کو دیکھ نہ سکے اور پہاڑوں پہ چلے گئے کہ ہم نہیں دیکھ سکتے کہ مسلمان اس طرح طواف کر رہے ہوں۔ مگر کچھ کفار اپنے دارالندوۃ جو اُن کے مشورے کا ایک کمیٹی گھر تھا اس میں جمع ہو گئے، وہاں کھڑے ہو کے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کے توحید و رسالت کے نشے سے مست یہ جو مسلمان لوگ تھے وہ ان کے طواف کا نظارہ کرنے لگے اور آپس میں کہنے لگے کہ یہ مسلمان بھلا کیا طواف کریں گے۔ ان کو تو بھوک اور مدینہ کے بخار نے کچل کر رکھ دیا ہے۔ بہت کمزور قسم کے یہ لوگ ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد حرام میں پہنچ کر اضطباع کر لیا یعنی چادر کو اس طرح اوڑھ لیا کہ آپؐ کا داہنا شانہ اور بازو کھل گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خدا اس پر اپنی رحمت نازل فرمائے جو ان کفار کے سامنے اپنی قوت کا اظہار کرے۔ یعنی کفار تو یہ باتیں کر رہے ہیں انہوں نے جو کہا وہ باتیں آپؐ تک پہنچیں لیکن تم اپنی قوت کا اظہار کرو۔ اس طرح قوت کا اظہار کہ تمہارے یہ کمزور جسم نہ نظر آئیں بلکہ مضبوط جسم نظر آئیں یا چوڑے شانے نظر آئیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کے ساتھ شروع کے تین پھیروں میں شانوں کو ہلا ہلا کر خوب اکڑتے ہوئے چل کر طواف کیا۔ اس کو عربی زبان میں ’رمل‘ کہتے ہیں۔ چنانچہ یہ سنت آج تک باقی ہے اور قیامت تک باقی رہے گی کہ ہر طواف کعبہ کرنے والا شروع طواف کے تین پھیروں میں ’رمل‘ کرتا ہے۔ تو یہ ہے وجہ اس طرح پہلے چلنے کی۔
(شرح زرقانی علی مواھب اللدنیۃ جلد 3 صفحہ 314 تا 317،321تا323 باب عمرۃ القضاء مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1996ء) (سیرت ابن ہشام صفحہ 529 باب عمرۃ القضاء…الخ مطبوعہ دار ابن حزم بیروت 2009ء)
(لغات الحدیث جلد 2 صفحہ 163 مطبوعہ نعمانی کتب خانہ لاہور 2005ء)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے عمرے کیے؟ اس کے بارے میں جو بخاری کی حدیث ہے، راوی بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے عمرے کیے تھے تو انہوں نے کہا کہ چار۔ عمرہ حدیبیہ جو ذوالقعدہ میں کیا، گو یہ عمرہ تو نہیں ہوسکا تھا لیکن اس کو عمرہ اس لئے گنا جاتا ہے کہ وہاں قربانی وغیرہ کر لی تھی۔ سر مونڈھ لیے تھے اور اس لحاظ سے اس کو بعض لوگوں نے شمار کر لیا۔ پھر کہتے ہیں دوسرا جب مشرکوں نے آپؐ کو روکا تھا صلح حدیبیہ میں تو یہ ایک عمرہ ہو گیا۔ وہ عمرہ دوسرے سال ذی القعدہ میں ہوا یعنی جو دوسرا عمرہ تھا۔ پہلے سال تو حدیبیہ کا اصل میں نہیں ہو سکا سوائے قربانی وغیرہ کے اور دوسرا عمرہ ذی القعدہ میں دوسرے سال ہوا جب آپؐ نے ان سے صلح کی اور پھر آگے لکھا ہے کہ عمرہ جِعْرَانَہ جب آپ نے مال غنیمت تقسیم کیا۔ یہ کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ یہ جنگ حنین کی غنیمت تھی، اس وقت بھی عمرہ کیا تو میں نے کہا آپؐ نے کتنے حج کیے؟ راوی نے پوچھا۔ انہوں نے کہا حج ایک ہی کیا تھا اور حج کے موقع پر بھی عمرہ ادا کیا تھا اس طرح بعض لوگ چار عمرے گنتے ہیں۔ بعض دو گنتے ہیں۔
(صحیح البخاری کتاب العمرۃ باب کم اعتمر النبیؐ حدیث 1778-1779)
حضرت بشیر بن سعد انصار کے پہلے شخص تھے جنہوں نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ہاتھ پر سَقِیفہ بنوساعدہ کے دن بیعت کی تھی۔
(استیعاب جلد 1صفحہ 172-173 بشیر بن سعدؓ مطبوعہ دار الجیل بیروت 1992ء)
سقیفہ بنو ساعدہ کیا ہے؟ اس کے بارے میں لکھا ہے کہ مدینہ میں یہ بنو خزرج کے بیٹھنے کی جگہ ہوتی تھی۔ (معجم البلدان جلد3 صفحہ259 دار الکتب العلمیۃ بیروت)۔ بہرحال یہ کمرہ تھا یا اس زمانے کے لحاظ سے شیڈ (shade) ڈالا ہوا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد یہاں پر سَقِیفہ بنی ساعدہ میں بنو خزرج کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانشینی کے حوالے سے ایک اجلاس جاری تھا۔ اس اجلاس کی خبر حضرت عمرؓکو دی گئی اور ساتھ ہی یہ کہا گیا کہ ہو سکتا ہے کہ منافقین اور انصار کے باعث کوئی فتنہ نہ پھیل جائے۔ اس پر حضرت عمر فاروقؓ حضرت ابوبکر صدیقؓ کو لے کر سَقِیفہ بنی ساعِدہ چلے گئے۔ یہاں جا کر معلوم ہوا کہ بنو خزرج جانشینی کے دعویدار ہیں اور بنو اَوس اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔ آپس میں یہ مدینہ کے انصار کے د ونوں قبیلے تھے۔ ایسے موقع پر ایک انصاری صحابی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول یاد کرایا کہ حکمران تو قریش میں سے ہی ہوں گے جو اس وقت اس بحث کے دوران لوگوں کی اکثریت کے دلوں میں اتر گیا۔ انصار اپنے دعوے سے دستبردار ہو گئے اور سب نے فوراً ہی ابوبکر کی خلافت پر بیعت کر لی مگر اس کے باوجود حضرت ابوبکر صدیق ؓتین دن تک یہ اعلان کراتے رہے کہ آپؓسَقِیفہ بنی ساعدہ کی بیعت سے آزاد ہیں۔ اگر کسی کو اعتراض ہے تو بتا دے مگر کسی کو اعتراض نہیں ہوا یہ تو ایک ماخذ ہے۔ ڈاکٹر حمید اللہ کی کتاب سے ایک جگہ مختصر سا یہ ذکر کیا گیا ہے۔
(سیرت ابن ہشام صفحہ 668 امر سقیفۃ بنی ساعدۃ مطبوعہ دار ابن حزم بیروت 2009ء)۔ (ماخوذ از محمد رسول اللہ ﷺ کی حکمرانی وجانشینی از ڈاکٹر محمد حمید اللہ مترجمہ پروفیسر خالد پرویز صفحہ155-156 مطبوعہ المکتبۃ الرحمانیۃ لاہور 2006ء)
لیکن اس کی ایک مزید تفصیل جو ہے وہ اس طرح ہے کہ
جب یہ سارا کچھ واقعہ ہوا۔ آپس میں میٹنگیں ہو رہی تھیں۔ منافقین انصار کو اُبھارنے کی کوششیں کررہے تھے تو حضرت عمرؓ کے ساتھ حضرت ابوبکر صدیقؓ وہاں پہنچے پر انصار نے آپؓکے سامنے پھر اپنی رائے کا اظہار کیا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اپنی رائے ظاہر فرمائی۔ اس تمام کارروائی سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ انصار و مہاجرین سب اسلام کے مفاد میں ہی سوچتے تھے۔ منافقین تو سوچ رہے ہوں گے کہ ہم فتنہ پیدا کریں لیکن انصار میں سے بھی جو مومنین تھے وہ تو مفاد میں سوچ رہے تھے کہ خلافت کا یا امامت کا قیام ضروری ہے خواہ وہ انصار میں سے ہو یا مہاجرین میں سے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت کو چاہتے تھے اور اسی کی ان کو خواہش تھی اور وہ ایک دن بھی بغیر جماعت اور امیر کے نہیں گزارنا چاہتے تھے۔ چنانچہ ایک رائے یہ تھی کہ انصار میں سے امیر ہو۔ دوسری رائے یہ تھی کہ مہاجرین میں سے امیر ہو کیونکہ ان کے بغیر عرب کسی کی سربراہی قبول نہیں کرے گا۔ اس کے علاوہ تیسری رائے یہ بھی تھی کہ دو امیر ہوں۔ ایک انصارمیں سے اور ایک قریش میں سے۔ یہاں مہاجرین نے انصار کو یہ بھی بتایا کہ اس وقت قریش میں سے ہی امیر ہونا ضروری ہے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے موقف کی تائید میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قریش میں امامت کے قیام سے متعلق آپ کی یہ پیشگوئی بھی پیش کی جس کا پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ اَلْاَئِمَّۃُ مِنْ قُرَیْش۔کہ امام قریش میں سے ہوں گے۔
(السیرۃ الحلبیۃ جلد3 صفحہ504-506 باب یذکر فیہ مدۃ مرضہ…الخ دار الکتب العلمیۃ بیروت2002ء)
حضرت اَبُوعُبَیدہ بن جَرَاح نے انصار کو مخاطب کر کے کہا کہ اے انصارِ مدینہ! تم وہ ہو جنہوں نے سب سے بڑھ کر خود کو اس دین کی خدمت کے لئے پیش کیا تھا اور اب اس وقت تم سب سے پہلے اسے بدلنے اور بگاڑنے والے نہ بنو۔ یہ نہ کہو کہ انصار میں سے امیر ہو یا دونوں میں سے امیر ہو۔ اس حقیقت سے بھرے ہوئے پیغام سے انصار نے اثر لیا اور ان میں سے حضرت بشیر بن سعد اٹھے جن صحابی کا ذکر ہو رہا ہے اور انصار سے یوں مخاطب ہوئے کہ اے انصار! اللہ کی قَسم!! گوہمیں مشرکوں سے جہاد کرنے میں دین میں سبقت کے لحاظ سے مہاجرین پر فضیلت ہے۔ یہ ہم نے محض رضائے الٰہی، اطاعتِ رسول اور اپنے نفسوں کی اصلاح کے لئے کیا تھا۔ ہمیں یہ زیب نہیں دیتا کہ ہم اب فخر و مباح سے کام لیں اور دینی خدمات کے بدلے میں ایسے اجر کے طالب ہوں جس میں دنیا طلبی کی بو آتی ہو۔ ہماری جزا اللہ تعالیٰ کے پاس ہے اور وہی ہمارے لیے کافی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قریش میں سے تھے اور وہی لوگ اس خلافت کے حقدار ہیں۔ اللہ نہ کرے کہ ہم ان سے جھگڑے میں مبتلا ہوں۔ اے انصار! اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو اور مہاجرین سے اختلاف نہ کرو۔ ان سب باتوں کے بعد پھر حضرت حباب بن منذر نے انصار کی اہمیت کا ذکر کرنا شروع کر دیا لیکن حضرت عمرؓنے پھر صورتحال کو سنبھالا۔ مَیں مختصر قصہ بیان کر رہا ہوں اور حضرت ابوبکرؓکا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا کہ ہماری بیعت لیں اور ساتھ ہی حضرت عمرؓنے حضرت ابوبکرؓکی بیعت کر لی اور عرض کی کہ اے ابوبکرؓ! آپؓکو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا کہ آپؓنماز پڑھایا کریں۔ پس آپ ہی خلیفۃ اللہ ہیں۔ ہم آپ کی بیعت اس لئے کرتے ہیں کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ حضرت عمرؓکے بعد حضرت ابو عبیدہ بن جراحؓ نے بیعت کی اور پھر انصار میں سے حضرت بشیر بن سعد نے فوراً بیعت کر لی۔ اس کے بعد حضرت زید بن ثابت انصاریؓ نے بیعت کی اور حضرت ابوبکرؓکا ہاتھ تھام کر انصار سے مخاطب ہوئے اور انہیں بھی حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کرنے کی ترغیب دی۔ چنانچہ انصار نے بھی حضرت ابوبکرؓکی بیعت کی۔
(الکامل فی التاریخ جلد2 صفحہ193 حدیث السقیفۃ و خلافۃ ابی بکر ؓ وأرضاہ مطبوعہ دارلکتب العلمیۃ بیروت2006ء)
(السیرۃ الحلبیۃ جلد3 صفحہ506 باب یذکر فیہ مدۃ مرضہ…الخ دار الکتب العلمیۃ بیروت2002ء)
یہ بیعت اسلامی لٹریچر میں بیعت سقیفہ اور بیعت خاصہ کے نام سے بھی مشہور ہے۔
(تاریخ الخلفاء الراشدین از محمد سہیل طقوش صفحہ22،367 مطبوعہ دار النفائس بیروت 2011ء )
حضرت ابومسعود انصاریؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم سعد بن عبادۃؓکی مجلس میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے۔ حضرت بشیر بن سعد نے آپؐ کی خدمت میں عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم آپؐ پر درود بھیجیں تو ہم کس طرح آپؐ پر درود بھیجیں۔ راوی کہتے ہیںا س سوال پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ لمبا عرصہ خاموش رہے۔ یہاں تک کہ ہم نے خواہش کی کہ کاش وہ آپ سے سوال نہ کرتا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ کہا کرو کہ
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ وَبَارِکْ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَعَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ فِی الْعَالَمِیْنَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔ اور سلام اس طرح جیسا کہ تم جانتے ہو کس طرح سلام کرنا ہے۔
(صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب الصلاۃ علی النبیﷺ بعد التشھد حدیث907)
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ وَّبَارِکْ وَسَلِّمْ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔
اب آج کے ان صحابہ کا یہ ذکر ختم ہوتا ہے۔ ایک دعا کے لئے میں کہنا چاہتا ہوں گزشتہ دنوں بنگلہ دیش میں جلسہ کے انتظامات ہو رہے تھے لیکن وہاں نئی جگہ جلسہ کرنا تھا۔ احمد نگر ان کا ایک شہر ہے، علماء نے (نام نہاد علماء کہنا چاہیے) اور مخالفین نے بہت زیادہ شور مچایا۔ حکومت سے پہلے مطالبہ کرتے رہے جلسہ روکیں اور جب حکومت نے نہیں مانا تو پھر بلوائیوں نے احمدیوں کے گھروں اور دُکانوں وغیرہ پر حملہ کیا، کچھ گھر جلائے، کچھ دکانیں لُوٹیں، جلائیں، کچھ احمدی زخمی بھی ہوئے ہیں۔ دعا کریں اللہ تعالیٰ وہاں حالات بہتر کرے اور جو زخمی ہیں اللہ تعالیٰ ان کو جلد صحت بھی عطا فرمائے۔ کامل شفا یابی عطا فرمائے۔ ان کے نقصانات بھی پورے فرمائے اور آئندہ جب بھی جلسہ کی تاریخ مقرر ہو وہ لوگ امن سے وہاں جلسہ کر سکیں۔
نمازوں کے بعد میں ایک جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا جو مکرمہ صدیقہ بیگم صاحبہ دنیا پور پاکستان کا ہے۔ یہ لئیق احمد مشتاق صاحب مبلغ انچارج سرینام جنوبی امریکہ کی والدہ تھیں اور شیخ مظفر احمد صاحب کی اہلیہ تھیں۔ یکم فروری کو 74 سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
ان کے خاندان میں احمدیت ان کے دادا محترم شیخ محمد سلطان صاحب کے ذریعہ آئی تھی جنہوں نے 1897ء میں 24 سال کی عمر میں بیعت کی توفیق پائی تھی۔ مرحومہ کی شادی 29؍اگست 64ء میں ہوئی۔ ساری زندگی ایک مثالی بیوی کی حیثیت سے گزاری۔ محدود آمدنی میں سفید پوشی کا بھرم رکھتے ہوئے نہ صرف اپنے بڑے کنبے کی پرورش کی بلکہ اپنے دیوروں اور نندوں کی شادیاں بھی کروائیں۔ ہمیشہ اپنے آرام پر دوسروں کے آرام کو ترجیح دیتی تھیں۔ صوم و صلوٰۃ کی پابند تھیں۔ دعا گو تھیں۔ منکسر المزاج تھیں۔ ملنسار تھیں۔ سادہ مزاج تھیں۔ غریب پرور اور نیک اور مخلص خاتون تھیں۔ باقاعدگی سے قرآن کریم کی تلاوت کیا کرتی تھیں اور کئی احمدی اور غیر احمدی بچیوں کو قرآن کریم ناظرہ پڑھانے کی بھی توفیق پائی۔ قرآن کریم سے بڑی محبت تھی۔ اپنی ایک بیٹی اور دو بیٹوں کو بھی اپنے خرچ پر حافظ بلا کے قرآن کریم حفظ کروایا۔
دنیا پور میں صدر لجنہ کے علاوہ سیکرٹری مال اور اشاعت کے طور پر خدمت کی توفیق پائی۔ خلافت سے انتہائی عقیدت کا تعلق تھا۔ مرحومہ موصیہ تھیں۔ انہوں نے میاں اور دو بیٹیاں اور پانچ بیٹے یاد گار چھوڑے ہیں۔ ان کے دو بیٹے واقف زندگی ہیں جن میں سے ایک جیسا کہ میں نے ذکر کیا لئیق احمد مشتاق صاحب جنوبی امریکہ میں بطور مبلغ انچارج سورینام (Suriname)خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔ والدہ کی وفات کے وقت یہ پاکستان بھی نہیں جا سکے تھے۔ ان کے دوسرے بیٹے محمد ولید احمد مربی سلسلہ ہیں وہ بھی پاکستان میں ہیں۔ وہاں خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔ ایک داماد مظفر احمد خالد صاحب مربی سلسلہ ہیں جو پاکستان میں ہی ربوہ میں اصلاح و ارشاد مرکزیہ میں خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے درجات بلند کرے۔ ان کے بچوں کو ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق دے۔ ان کے حق میں ان کی دعائیں قبول فرمائے۔