شہسوارِ علم و حکمت اور وہ سلطان القلم
گھپ اندھیرا تھا جہالت کا ، دِیا جلنا ہی تھا
منزلِ مقصود پر جانا تھا تو چلنا ہی تھا
کفر اور تثلیث کے سورج کو بھی ڈھلنا ہی تھا
اور خدا نے اپنا وعدہ پورا تو کرنا ہی تھا
ربِ کعبہ کی طرف سے آیا وہ بن کر حَکم
شہسوارِ علم و حکمت اور وہ سلطان القلم
بستیٔ گمنام کا باسی وہ اک سادہ مزاج
ٹھیک کرتا تھا وہ روحانی مریضِ لاعلاج
یوں دفاعِ دیں کیا کہ رکھ لی دینِ حق کی لاج
سر پہ جو پگڑی تھی گویا وہ دلائل کا تھا تاج
اس طرح اسلامیانِ ہند کا رکھا بھرم
شہسوارِ علم و حکمت اور وہ سلطان القلم
تھی حرا کے چاندؐ سے اس کی محبت لازوال
عشق ایسا تھا کہ شاید ہی ملے اس کی مثال
اپنی عزت کا نہیں ، تھا اس کی عزت کا خیال
رشک آیا سب کو ایسا عشق میں پایا کمال
تھا اسی نسبت سے مولا کی نظر میں محترم
شہسوارِ علم و حکمت اور وہ سلطان القلم
اس قدر لکھا ہے اس نے دینِ حق کے واسطے
کوئی بھی اس نے رمق چھوڑی نہ شک کے واسطے
تھا قلم محبوب اس کا ہر ورق کے واسطے
اسکی ہر تحریر تھی رب فلک کے واسطے
مسکرا کر اس نے کھائے کفر کے تیرِِ ستم
شہسوارِ علم و حکمت اور وہ سلطان القلم
بعد اس کے قدرتِ ثانی کا دورِ پُر وقار
ہم خزاں زادوں کو بخشی حق تعالیٰ نے بہار
اس بہارِ جانفزا کی وسعتوں کا کیا شمار
ہم کو ہے اس سے محبت اور اس کو ہم سے پیار
اے خدا آباد رکھنا یہ وفاؤں کا ارم
شہسوارِ علم و حکمت اور وہ سلطان القلم