خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ 15؍مارچ 2019
اطاعت اور اخلاص و وفا کے پیکر چند بدری اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِمبارکہ کا دلنشین تذکرہ
خلاصہ خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 15؍مارچ2019ءبمقام مسجدبیت الفتوح،مورڈن، یوکے
امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسجد بیت الفتوح مورڈن میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا ۔ خطبہ جمعہ میں حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےچند بدری اصحابؓ رسول ﷺ کی سیرتِمبارکہ کا تذکرہ فرمایا۔جمعہ کی اذان دینے کی سعادت مکرم حافظ طٰہٰ داؤد صاحب کے حصہ میں آئی۔
تشہد،تعوذ ،تسمیہ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانور نے حضرت سائب بن عثمان ؓ کی سیرتِ مبارکہ کا تذکرہ فرمایا۔ آپؓ حضرت عثمان بن مظعون ؓکے بیٹے تھےاور ابتدائے اسلام میں ہیمسلمان ہوئے تھے۔ آپؓ اپنے والد اور چچا حضرت قدامہؓ کے ہمراہ حبشہ کی طرف ہجرت ثانیہ میں شریک تھے۔ ان کا ذکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تیر انداز صحابہ میں کیاجاتا ہے۔ حضرت سائب بن عثمان غزوۂ بدر، غزوۂ احد، غزوۂ خندق اور دیگر غزوات میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہوئے۔ 2؍ ہجری میں ہونے والے غزوہ بُوَاط میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓ کو مدینہ کا امیر مقرر فرمایا تھا۔ آپؓ 12؍ ہجری میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کے عہدِ خلافت میں ہونے والی جنگ یمامہ میںشامل تھے جس میں ایک تیر لگا اور اس زخم کی وجہ سے بعد میں آپ کی وفات ہوئی۔ آپ نے 30 سال سے کچھ اوپر عمر پائی۔
حضرت ضمرہ بن عمرو جہنیؓ کے والد کا نام عمرو بن عدی تھا۔ آپؓ غزوہ بدر اور غزوہ احد میں شریک ہوئےاور غزوہ احد میںشہید ہوئے۔
حضرت سعد بن سہیلانصار میں سے تھے۔ بعض نے آپ کا نام سعید بن سہیل بیان کیا ہے۔ آپؓ غزوۂ بدر اور احد میں شریک ہوئے ۔آپؓ کی ایک بیٹی تھی جس کا نام ھزیلا تھا۔
حضرت سعد بن عبیدؓغزوہ ٔبدر، احد ،خندق سمیت تمام غزوات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہوئے۔ آپؓ کا نام سعید بھی بیانہوا ہے۔ آپؓ قاری کے لقب سے مشہور تھے ۔آپ کی کنیت ابوزید تھی۔ حضرت سعد بن عبید کا شمار ان چار اصحاب میں ہوتا ہے جنہوں نے انصار میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دَور میں قرآن جمع کیا تھا۔ ایک روایت کے مطابق حضرت سعد بن عبید آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور پھر حضرت ابو بکر صدیقؓ اور حضرت عمرؓ کے زمانے میں مسجد قبا میں امامت کرتے تھے ۔حضرت سعد بن عبید رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہجرت کے سولہویں سال جنگ قادسیہ میں شہید ہوئے۔ شہادت کے وقت آپ کی عمر 64 سال تھی۔ عبدالرحمٰن بن ابو لیلیٰ سے روایت ہے کہ 13 ہجری میں ایرانیوں کے ساتھ ہونے والی جنگِ جِسر میں مسلمانوں کو نقصان ہوا تھا اور انہیں مجبورًا پسپا ہو کر واپس آنا پڑا۔ حضرت سعدؓ اسی سرزمین میں کہ جہاں سے آپ ؓکو واپس لوٹنا پڑا شہادت حاصل کرنے کی خواہش لیے جنگِ قادسیہ کے لیے روانہ ہوئے اور پھر وہاں شہادت کا رُتبہ پایا ۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ جنگِ جِسر اس لیے ہوئی تھی کہ ایرانیوں کی طرف سے بار بار حملے ہو رہے تھے اور ان حملوں کو روکنے کے لیے یہ اجازت لی گئی تھی کہ جنگ کریں۔
حضرت سہل بن عتیکؓکا نام سہیل بھی بیان کیا جاتا ہے۔ ان کی والدہ کا نام جمیلہ بنت علقمہ تھا۔ آپؓ ستر انصار کے ساتھ بیعت عقبہ ثانیہ میں شامل ہوئے۔ آپؓ نے غزوہ ٔبدر اور احد میں شامل ہونے کی سعادت پائی۔
حضرت سہیل بن رافعؓ کا تعلق قبیلہ بنو نجار سے تھا۔ مسجد نبوی جس زمین پر تعمیر ہوئی وہ آپؓ اور آپؓ کے بھائی حضرت سہل کی ملکیت تھی۔ آپ کی والدہ کا نام زغیبہ بنت سہل تھا۔ حضرت سہیلؓ غزوہ ٔبدر ،احد اور خندق سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ شامل ہوئے اور حضرت عمر ؓکے دور ِخلافت میں آپؓ کی وفات ہوئی۔
حضورِ انور نے ہجرتِ مدینہ کے بعد نبی اکرمﷺ کے مدینہ میں قیام کا ذکر حضرت مصلح موعودؓ کے الفاظ میں بیان فرمایا۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ مدینہ پہنچنے کے بعد نبی اکرمﷺ کی اونٹنی اللہ تعالیٰ کے حکم سے مدینہ کے ایک سرے پر بنو نجار کے یتیموں کی ایک زمین کے پاس جا کر ٹھہر گئی۔ چنانچہ آپؐ نے اس کی قیمت ادا کر کے وہاں مسجد اور اپنے مکانات بنانے کا فیصلہ کیا۔
حضورِ انور نے سیرت خاتم النبیین سے بھی اس بارہ میں بعض تفصیلات بیان فرمائیں جن کے مطابق مدینہ کے قیام کا سب سے پہلا کام مسجد نبویؐ کی تعمیر تھا۔ آنحضرتﷺ نے خود دعا مانگتے ہوئے مسجد کا سنگ بنیاد رکھا اور صحابہؓ نے معماروں اور مزدوروں کا کام کیا جس میں کبھی کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی شرکت فرماتے تھے۔ بعض اوقات اینٹیں اٹھاتے ہوئے صحابہ حضرت عبداللہ بن رواحہ انصاری کا یہ شعر پڑھتے تھے کہ هَذَا الْحِمَالُ لا حِمَالَ خَيْبَر ، هَذَا أَبَرُّ رَبَّنَا وَأَطْهَر یعنی یہ بوجھ خیبر کے تجارتی مال کا بوجھ نہیں ہے جو جانوروں پر لد کر آیا کرتا ہے بلکہ اے ہمارے مولیٰ یہ بوجھ تقویٰ اور طہارت کا بوجھ ہے جو ہم تیری رضا کے لیے اٹھاتے ہیں ۔ اور کبھی کبھی صحابہ کام کرتے ہوئے عبداللہ بن رواحہ کا یہ شعر پڑھتے تھے کہ اَللّٰھُمَّ اِنَّ الْاَجْرَ اَجْرَ الاٰخِرَۃَ، فَارْحم الْاَنْصَارَ وَالْمُہَاجِرَۃَ یعنی اے ہمارے اللہ اصل اجر تو صرف آخرت کا اجر ہے پس تو اپنے فضل سے انصار اور مہاجرین پر اپنی رحمت نازل فرما۔ جب صحابہ یہ اشعار پڑھتے تھے تو بعض اوقات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کی آواز کے ساتھ آواز ملا دیتے تھے اور اس طرح ایک لمبے عرصہ کی محنت کے بعد یہ مسجد مکمل ہوئی۔
مسجد کی بلندی اس وقت دس فٹ ،طول ایک سو پانچ فٹ اور عرض 90 فٹ کے قریب تھا ۔ لیکن بعد میں اس کی توسیع کر دی گئی ۔ مسجد کے ایک گوشے میں ایک چھت دار چبوترہ بنایا گیا تھا جسے صُفَّہ کہتے تھے۔ یہ ان غریب مہاجرین کے لیے تھا جو بے گھر بار تھے ۔یہ لوگ یہیں رہتے تھے اور اصحاب الصفہ کہلاتے تھے۔ ان کا کام گویا دن رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہنا ،عبادت کرنا اور قرآن شریف کی تلاوت کرنا تھا۔ ان لوگوں کا کوئی مستقل ذریعہ معاش نہ تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود ان کی خبرگیری فرماتے تھے ۔
مسجد کے ساتھ ملحق طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے رہائشی مکان تیارکیا گیا تھا۔ مکان کیا تھا ایک دس پندرہ فٹ کا چھوٹا سا حجرہ تھا اور اس حجرے اور مسجد کے درمیان ایک دروازہ رکھا گیا تھا جس میں سے گزر کر آپؐ نماز وغیرہ کے لیے مسجد میں تشریف لاتے تھے۔ مسجدکے آس پاس بعض اور صحابہ کے مکانات بھی تیارہو گئے۔
یہ تھی مسجد نبویؐ جو مدینہ میں تیارہوئی ۔ اس زمانہ میں چونکہ اور کوئی پبلک عمارت ایسی نہیں تھی جہاں قومی کام سرانجام دیے جاتے اس لیے ایوان حکومت کا کام بھی یہی مسجد دیتی تھی، یہی دفتر تھا ،یہی حکومت کا پورا سیکرٹیریٹ تھا۔ یہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس لگتی تھی ۔یہیں تمام قسم کے مشورے ہوتے تھے ۔ یہیں مقدمات کا فیصلہکیا جاتا تھا ۔یہیں سے احکامات صادر ہوتے تھے ۔یہی قومی مہمان خانہ تھا ۔ ضرورت ہوتی تھی تو اسی سے جنگی قیدیوں کے حبس گاہ کا کام بھی لیا جاتا تھا اور بہت سارے قیدی ایسے بھی تھے جو مسلمانوں کے اعلیٰ اخلاق سے متأثر ہو کر پھر مسلمان بھی ہوئے۔ حضورِ انور نے مسجد نبویؐ کے بارہ میں مشہور مستشرق ولیم میور کا ایک حوالہ بیان فرمایا۔
حضرت سعد بن خیثمہ ؓکا تعلق قبیلہ اوس سے تھا۔ آپؓ کی والدہ کا نام ہند بنت اوس تھا۔ آپؓ کی کنیت ابو خیثمہ اور ابو عبداللہ بیان کی جاتی ہے۔ حضرت سعد ان بارہ نقباء میں سے تھے جنہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت عقبہ ثانیہ کے موقع پر مدینہ کے مسلمانوں کا نقیب مقرر فرمایا تھا۔ حضور انور نے ان بارہ نقباء کے تقرّر کے بارہ میں کسی قدر تفصیل سیرت خاتم النبیین کے حوالہ سے بیان فرمائی۔ جس کے مطابق تیرہ نبوی کے حج کے موقع پر نبی اکرمﷺ نے مدینہ سے آنے والے انصار کے ساتھ ایک گھاٹی میں نصف شب کے قریب ملاقات کا فیصلہ فرمایا۔ آنحضرتﷺ اس رات اپنے چچا حضرت عبّاسؓ کے ساتھ وہاں تشریف لے گئے۔ اور اوس اور خزرج قبیلہ سے تعلق رکھنے والے ستّر افراد سے ملاقات فرمائی۔ اس موقع پر حضرت عبّاسؓ نے انہیں نبی کریمﷺ کے مدینہ ہجرت کرنے کے ارادہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر تم انہیں اپنے پاس لے جانے کی خواہش رکھتے ہو تو تمہیں اس کی ہر طرح حفاظت کرنی ہو گی اور ہر دشمن کے سامنے سینہ سپر ہونا پڑے گا۔اس پر انصار کے قبیلے کے ایک معمر اور بااثر بزرگ براء بن معرور کی درخواست پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مختصر سی تقریر فرمائی جس میں اسلام کی تعلیم بیان فرمائی اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ میں اپنے لیے صرف اتنا چاہتا ہوں کہ جس طرح تم اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کی حفاظت کرتے ہو اسی طرح اگر ضرورت پیش آئے تو میرے ساتھ بھی معاملہ کرو۔اور انصار کے ایمان اور وفا کے بدلہ انہیں خدا کی جنت کا وعدہ دیا جو خدا کے سارے انعاموں میں سے بڑا انعام ہے۔ اس پر ان ستر جانثاروںکی جماعت نے نبی اکرمﷺ کی بیعت کی۔ اس بیعت کا نام بیعت عقبہ ثانیہ ہے ۔ اس بیعت کے بعد نبی اکرم ﷺ نے انصار کے قبائل کے لیے بارہ نقیب مقرر فرمائے جن کے نام یہ ہیں:
اسعد بن زرارۃ۔ اسید بن حضیر۔ ابوالہیثم مالک بن تیہان۔ سعد بن عبادہ۔ براء بن معرور۔ عبداللہ بن رواحہ۔ عبادہ بن صامت۔ سعد بن ربیع۔ رافع بن مالک ۔ عبداللہ بن عمرو اور سعدبن خیثمہ جن کا ذکر چل رہا ہے اور منذر بن عمرو۔
ہجرت مدینہ کے وقت قبا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت کلثوم بن الہدم کے گھر قیام فرمایا اس ضمن میںیہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن خیثمہ کے گھر قیام فرمایا اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قیام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت کلثوم بن الہدم کے گھر ہی تھا لیکن جب آپ ان کے گھر سے نکل کر لوگوں میں بیٹھتےتو وہ سعد بن خیثمہ کے گھر تشریف فرما ہوا کرتے تھے۔ بیعت عقبہ کے بعد مدینہ میں جو پہلا جمعہ ادا کیاگیا وہ حضرت سعد بن خیثمہ کے گھر ادا کیا گیا۔
حضرت سعد بن خیثمہ کا قبا میں ایک کنواںتھا جسے الغرس کہا جاتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کنویں کے بارے میںفرمایا کہ یہ جنت کے چشموں میں سے ہے اور اس کا پانی بہترین ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپؐ کی وصیت کے مطابق آپؐ کو اسی کنویںکے پانی سے غسل دیا گیا۔ ابو جعفر محمد بن علی روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پانی اور بیری کے پتوں سے قمیض میں ہی تین مرتبہغسل دیا گیا۔
قریش کے مظالم سے تنگ آ کر مدینہ ہجرت کرنے والے بہت سارے مسلمانوں کی پہلی منزل عموماً حضرت سعد بن خیثمہ کا گھر ہوا کرتی تھی ان میں حضرت حمزہؓ ،حضرت زید بن حارثہ،حضرت ابوکبشہ مولیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،حضرت عبداللہ بن مسعود وغیرہ بھی شامل تھے۔
سلیمان بن ابان روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بدر کے لیے نکلے تو حضرت سعد بن خیثمہ اور آپؓ کے والد دونوں نے آپ کے ساتھ جانے کا ارادہ کیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ بات عرض کی گئی کہ دونوں باپ بیٹا گھر سے نکل رہے ہیں ۔اس پر آپؐ نے ہدایت فرمائی کہ ان دونوں میں سے صرف ایک جا سکتا ہے ۔اس پر ان دونوں نے قرعہ اندازی کی تو قرعہ حضرت سعدؓ کے نام نکلا ۔آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بدر کے لیے نکلے اور جنگ بدر میں شہید ہو گئے۔ آپ کو عمرو بن عبد ودّ نے شہیدکیا۔
ایک روایت کے مطابق جنگ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دو گھوڑے تھے ۔ جنگ بدر میں مسلمانوں کے پاس کتنے گھوڑے تھے اس کے متعلق مختلف روایات ملتی ہیں۔ بہرحال جو بھی سازو سامان اور گھوڑوں اور اونٹوں کی تعداد تھی کافروں کے سازو سامان کے ساتھ اور گھوڑوں کی تعداد سے کوئی نسبت ہی نہیں تھی لیکن جب مسلمانوں پر جنگ ٹھونسی گئی اور کافر اپنے زعم میں اس لیے آئے کہ اب اسلام کو ختم کر دیں گے تو پھر ان مومنین نے اپنے سامان کی طرف نہیں دیکھا ،گھوڑوں کی طرف نہیں دیکھا بلکہ خدا تعالیٰ کی خاطر ایک قربانی کرنے کی تڑپ تھی جسے اللہ تعالیٰ نے قبول فرمایا اور پھر فتح بھی عطا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ ہر آن ان صحابہ کے درجات بلند فرماتا رہے۔
٭…٭…٭