حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی جماعت احمدیہ برطانیہ کی سولھویں سالانہ امن کانفرنس میں بابرکت شمولیت
لندن 09؍مارچ 2019ء(نمائندہ الفضل انٹرنیشنل) امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے 09؍ مارچ 2019ء بروز ہفتہ مغربی یورپ کی سب سے بڑی مسجد ‘بیت الفتوح ’مورڈن میں جماعت احمدیہ برطانیہ کی سولھویں سالانہ امن کانفرنس (Peace Symposium)میں شرکت کی اور صدارتی خطاب فرمایا۔ اس تقریب میں تیس سے زائد ممالک سے تعلق رکھنے والے ایک ہزار سے زائد افراد نے شمولیت اختیار کی جن میں سات صدکے قریب غیر احمدی و غیر مسلم مہمان شامل تھے۔
اس موقع پرحضورِ انور نے محترم فریڈ میڈنِک (Fred Mednick)کواحمدیہ مسلم پرائز فار دی ایڈوانسمنٹ آف پیس (Ahmadiyya Muslim Prize for the Advancement of Peace) بھی عطا فرمایا۔ موصوف اساتذہ کی ایک عالمی تنظیم ‘ٹیچرز وِد آؤٹ بارڈرز ’(Teachers Without Borders)کے بانی ہیں۔ یہ تنظیم دنیا بھر کے مختلف پسماندہ علاقوں میں رضاکارانہ طور پر بلا تفریق رنگ و نسل لوگوں کو علم کے زیور سے آراستہ کرنے کا مشن سرانجام دے رہی ہے۔
9؍ مارچ کی شام جماعتِ احمدیہ کی طرف سے پیس کانفرنس کے انعقاد کے لیے کافی عرصہ پہلے سے جہاں انتظامات کی تیاریاں کی جانے لگی تھیں وہاں پریس اینڈ میڈیا کی ٹیمیں متحرک ہوکر اس عظیم الشان تقریب کی تشہیر میں مصروف ہو چکی تھیں۔ اس تقریب میںامام الزّمان حضرت اقدس مسیح موعود و مہدیٔ مسعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پانچویں خلیفہ حضرت مرزا مسرور احمد ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطاب فرمانا تھا۔
حضورِ انور کی تشریف آوری اور پریس کانفرنس
اس روز شام پونے چھ بجے کے قریب حضورِ انور مسجد بیت الفتوح میں رونق افروز ہوئے اور بیت الفتوح کے احاطہ میں موجود نمائش گاہ (exhibition hall)میں تشریف لے گئے جہاں پر مقامی اور بین الاقوامی میڈیا سے تعلق رکھنے والے متعدّد نمائندگان حضورِ انور کے منتظر تھے۔ان میں سکائی نیوز (Sky News)، ڈیلی ٹیلیگراف (Daily Telegraph)، میل آن لائن (Mail Online)، لندن ایونِنگ سٹینڈرڈ (London Evening Standard)، دی ٹائمز (The Times)، دی نیشن (The Nation)، نیو سٹیٹس مین (New Statesman)، سرے کومِٹ (Surrey Comet) و دیگر نیز متعدد ٹیلیویژن چینلز بشمول جیو ٹی وی، زی ٹی وی، آج ٹی وی وغیرہ کے نمائندگان شامل تھے۔
اس پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں نے حضورِ انور سےمختلف سوالات پوچھے جن میں ‘شمیمہ بیگم’ کے بارہ میں مختلف سوالات، دنیا میں امن کے قیام اور دیگر مسائل کے بارہ میں سوالات شامل تھے۔ حضورِ انور نے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ان سوالات کے انتہائی بصیرت افروز جوابات عطا فرمائے۔
20سے 25منٹ تک جاری رہنے والی اس پریس کانفرنس کے بعد حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ‘آفتاب خان لائبریری’ تشریف لے گئے جہاں پروگرام کے مطابق اس پیس کانفرنس کے لیے تشریف لانے والے معزز مہمانوں سے حضورِ انور کا تعارف کروایا گیا۔ اور پھر حضور پُر نور وی آئی پی روم (VIP Room) میں تشریف لا ئے جہاں احمدیہ مسلم پرائز فار دی ایڈوانسمنٹ آف پیس کے حقدار قرار پانے والے محترم فریڈ میڈنِک اوریوکے میں متعیّن یوگنڈا کے ہائی کمشنرعزت مآب جناب جولیَس پیٹر موٹو (H.E. Julius Peter Moto)نے حضورِ انور سے ملاقات کی سعادت پائی۔
امن کانفرنس کی تقریب
ان تمام ملاقاتوں کے بعد پونے سات بجے کے قریب حضورِ انور نے مسجد کے مرکزی ہال میں نمازِ مغرب اور عشاء جمع کر کے پڑھائیں۔ نماز کی ادائیگی کے دوران مختلف رنگ و نسل اور قومیتوں سے تعلق رکھنے والے غیر مسلم اور غیر احمدی مہمانوں کی کچھ تعداد مسجد کے ہال کی پچھلی جانب اور اکثریت ہال کے عقب میں موجود اوپر والی منزل کی گیلری میں خاموشی سے کھڑے ہو کر اس روح پرور نظارہ کو دیکھتی رہی۔ بلا شبہ یہ لوگ اس روحانی اور پُر سرور نظارہ کو دیکھ کر ایک سحر میں مبتلا نظر آتے تھے۔
نماز کی ادائیگی کے بعد حضورِ انور سات بجکر بیس منٹ پر طاہر ہال میں تشریف لا کر کرسیٔ صدارت پر رونق افروز ہوئے۔اس پر مکرم فرید احمد صاحب (سیکرٹری امور خارجہ جماعت احمدیہ برطانیہ) نے جو اس تقریب کے ماڈریٹر کے فرائض سرانجام دے رہے تھے تمام مہمانوں کو خوش آمدید کہا اور تلاوت قرآن کریم کے لیے عزیزم دانیال تصور طالبعلم جامعہ احمدیہ یوکے کو دعوت دی۔تلاوت کی جانے والی سورت النّحل کی آیات 91 تا 93 کا انگریزی ترجمہ پیش کرنے کی سعادت عزیزم فرہاد احمد طالب علم جامعہ احمدیہ یو کے کو حاصل ہوئی۔ بعد ازاں مکرم رفیق احمد حیات صاحب(امیر جماعتہائے احمدیہ برطانیہ) نے استقبالیہ ایڈریس پیش کیا۔ آپ نے اپنے ایڈریس میں جماعت احمدیہ کا مختصر تعارف کروایا اور مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے بتایا کہ اس سال پیس کانفرنس کا موضوع ‘قیامِ امن کی اشد ضرورت’ (The Critical Need for Peace)رکھا گیا ہے۔
اس کے بعد تقریب میں تشریف لانے والے مہمان Most Rev. Kevin McDonald (علاقہ ساؤتھ وارک کے آرچ بشپ امریٹس ،رومن کیتھولک چرچ آف انگلینڈ اینڈ ویلز) نے اپنا ایڈریس پیش کیا۔ انہوں نے اپنی تقریر کا آغاز اس بات سے کیا کہ جماعت احمدیہ کا مختلف قوموں ، مذاہب اور طبقات کے لوگوں کو اکٹھا کر کے امن کے بارے میں بات کرنے کا موقع فراہم کرنے کا یہ اقدام نہایت غیر معمولی اور قابلِ ستائش ہے۔ انہوں نے کہا کہ بدامنی ایک عالمی مسئلہ ہے اور اس سال کا ‘‘پیس سمپوزیم ’’وقت کی مناسبت سے بہت اہم ہے۔ اگر ہم آج کل کے حالات کو دیکھیں تو وہ شدت سے عوام میں حیرانی اور تشویش پیدا کر رہے ہیں مثلاً برطانیہ میں BREXIT اور اس سے پیدا ہونے والی غصہ،نفرت،غیر یقینی اور بےچینی کی کیفیت اور باہر کے ممالک میں خصوصاً یمن اور شام کے عوام جس کرب اور اذیت کا شکار ہیں ان سب مسائل کی موجودگی میں ایک ایسی تقریب کا انعقاد جس کا موضوع ہی ‘‘امن’’ہو اور وہ امن کی اہمیت کو اجاگر کرے نہایت ضروری ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ جماعت احمدیہ امن پر خاص توجہ دیتی ہے اور یہ وقت کا تقاضا بھی ہے کے تمام مذاہب امن کے لیے کھڑے ہوں۔ امنِ عالم دنیا میں زبردستی قائم نہیں کیا جا سکتا، اس کے لیے اندرونی سکون و اطمینان بہت ضروری ہے کیونکہ لوگوں کے بدلنے سے ہی دنیاوی حالات تبدیل ہو سکتے ہیں۔ یہ بہت ضروری ہےکہ ہم خود کو محبت ، امن اور برداشت سکھائیں جو کہ ایک قدرتی امر نہیں ہے بلکہ انہیں سیکھنے کے لیے محنت اور کوشش ضروری ہے جسے ہم خدا کی مدد اور عبادات سے حاصل کر سکتے ہیں۔ اس لیے میں جماعت احمدیہ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے ہماری توجہ امن کی طرف مبذول کروائی اور مختلف مذاہب اوراقوام کے لوگوں کو اکٹھا کیا۔
بعد ازاں مکرم امیر صاحب یو کے نے سال 2018ء میں پیس پرائز کے حقدار قرار پانے والے محترم فریڈ میڈنِک اور ان کی تنظیم Teachers Without Borders کا تعارف کروایا اور حاضرین کو اس تنظیم کے بارے میں ایک مختصر ڈاکیومنٹری دکھائی گئی۔
اس کے بعد حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے محترم فریڈ میڈنِک کوقرآنِ کریم،کرسٹل سے تیار شدہ منارہ، ایک سرٹیفکیٹ، احمدیہ لٹریچر کی منتخب کتب اور دس ہزار پاؤنڈز کے چیک پر مشتمل پیس پرائز عطا فرمایا۔ بعد ازاں موصوف نے سٹیج پر تشریف لا کر اظہارِ خیال کیا۔
انہوں نے انتظامیہ اور حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ دنیا میں سب سے زیادہ اپنایا جانے والا پیشہ ‘تدریس’ہے۔ ایک استاد معاشرہ میں پائے جانے والے تقریبًا ہر مسئلہ کا علم رکھتا ہے۔ اساتذہ ایک فوج کی طرح ہیں۔ 20سال قبل ہماری تنظیم نے تعلیم اور ترقی کے باہمی تعلق کی اہمیت کو جانا اور اور اسی لیے ہم نے اپنی تنظیم کا آغاز کیا۔ لیکن جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ذہانت تمام دنیا میں یکساں پائی جاتی ہے مگر تعلیم ہر کسی کو میسر نہیں۔ ہماری تنظیم تمام دنیا کے اساتذہ کو یکجا کرنا چاہتی ہے اور تعلیم کو انسانیت کی ترقی اور فلاح کے لیے استعمال میں لانا چاہتی ہے۔ ابتدا سے ہی لوگوں نے انسانیت کی خدمت کے جذبہ کے تحت اس تنظیم کے ذریعہ سرحدوں کی پروا کیے بغیر بظاہر انجان لوگوں سے روابط قائم کیے اور ان کی حوصلہ افزائی کی۔ ان میں سے بہت سے اساتذہ نے اس مقصد کے لیے اپنی جان بھی خطرے میں ڈالی اور جنگ سے متاثرہ علاقوں میں جا کر نا صرف جنگجوؤں بلکہ قیدیوں اور پناہ گزینوں کے لیے بھی اسکول قائم کیے۔ آج کل کے دَور میں جب نفرت اور دشمنی کی آگ بھڑکائی جا رہی ہے اور ہمارے معاشروں کی اقدار کو بگاڑا جارہا ہے اور امنِ عالم کو تباہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تو اساتذہ ہی ہیں جو باہمی دوستی اور امن کی بات کر رہے ہیں اور ان کے لیے یہ کرنا باعث راحت ہے۔
حضورِ انور کا صدارتی خطاب
شام سات بج کر 44؍ منٹ پر امام جماعت احمدیہ عالمگیر حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز منبر پر تشریف لائے اور آپ نے اس کانفرنس سے خطاب فرمایا۔ اس خطاب میں حضورِ انور نے دنیا کے موجودہ حالات کے پیشِ نظر ایٹمی جنگ کے خطرات اور اس کے ہولناک نتائج سے خبردار فرماتے ہوئے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں دنیا میں پائیدارامن کے قیام کا طریق بیان فرمایا۔ (حضورِ انور کے اس خطاب کا ترجمہ اسی شمارہ (صفحہ 24)کی زینت بن رہا ہے)۔
حضورِ انور کا یہ خطاب آٹھ بجکر تیس منٹ پر ختم ہوا جس کے بعد حضورِ انور نے اجتماعی دعا کے ساتھ اس پروگرام کا باقاعدہ اختتام فرمایا۔ اس تقریب کو ویب سٹریم کے ذریعے براہ راست پوری دنیا میں نشر کیا گیا اور اس کا رَواں ترجمہ عربی ، اردو، بنگلہ، جرمن اور فرانسیسی زبانوں میں کیا گیا۔
دعا کے بعد معزز مہمانوں کی خدمت میں ایک پر تکلّف عشائیہ پیش کیا گیا۔ کھانے کے بعد حضورِ انور اسٹیج سے نیچے تشریف لے آئے اور طاہر ہال میں ہی تقریب میں شامل ہونے والے مہمانوں نے باری باری حضورِ انور سے ملاقات کرنے کی سعادت پائی۔ حضورِ انور سے ملاقات کی خواہش رکھنے والے مہمان اپنے میزبان کے ہمراہ ایک لمبی قطار میں ہوتے ہوئے حضورِ انور کی خدمت میں حاضر ہوتے اور تعارف کروانے کے ساتھ بعض مہمان تصاویر بھی بنواتے۔ یہ سلسلہ قریبا آدھ گھنٹہ تک جاری رہا ۔ حضورِ انور سوا نَو بجے کے قریب طاہر ہال سے روانہ ہو گئے۔
اس تقریب میں تشریف لانے والے مہمانوں کو باقاعدہ دعوت نامہ جاری کیا گیا تھا۔ مسجد بیت الفتوح میں پہنچنے پر رجسٹریشن مارکی میں مہمانانِ کرام کو خوش آمدید کہا جاتا جہاں پر جماعتِ احمدیہ کے تعارف، جماعتِ احمدیہ کی خدمتِ انسانیت، دنیا میں قیامِ امن اور استحکام کی خاطر کی جانے والی خدمات نیز قرآنِ کریم اور دیگر لٹریچر پر مشتمل تعارفی نمائشیں لگائی گئی تھیں۔ میڈیا سے تعلق رکھنے والی بعض ٹیمیں یہاں مہمانوں سے انٹرویو بھی حاصل کرنے میں مصروف نظر آئیں۔ رجسٹریشن کے بعد مہمانانِ کرام کو مختلف گروپس کی صورت میں ایک میزبان کے ہمراہ روانہ کر دیاجاتا جو انہیں مسجد بیت الفتوح کا تعارفی دورہ کروانے کے بعد طاہر ہال میں لے آتا۔
اس تقریب کے لیے مغربی یورپ کی سب سے بڑی مسجد ‘بیت الفتوح’ میں موجود طاہر ہال کا انتخاب کیا گیا تھا جہاں ستر سے زائد میز لگائے گئے۔ ان پر مہمانوں کے ساتھ احمدی میزبان بھی موجود رہے۔ تقریب میں کھانا پیش کرنے کی سعادت طلباء جامعہ احمدیہ یو کے کو حاصل ہوئی۔ ایک مہمان نے اس تقریب کے انتظامات کو ‘فائیو سٹار’ قرار دیا۔ انہیں جب یہ بتایا گیا کہ اس تقریب کا تمام تر اہتمام و انتظام رضاکاران نے کیا ہے تو وہ انگشت بدندان رہ گئے۔ یقینًا مادیت سے بھرپور اس دنیا میں لوگوں کے دلوں کے اندر بے لوث خدمت کا جذبہ پیدا ہو جانا خلافتِ احمدیہ کی برکات میں سے ایک برکت ہے۔
اس ہال کے علاوہ لجنہ کے لیے ایک مارکی الگ سے بھی لگائی گئی تھی جہاں احمدی خواتین موجود تھیں۔ مہمان خواتین اپنی مرضی سے زنانہ مارکی میں بیٹھ کر خطاب سن سکتی تھیں۔ چنانچہ چند مہمانوں سمیت ڈیڑھ سو کے قریب خواتین نے زنانہ مارکی میں بیٹھ کر اس تقریب میں شمولیت اختیار کی۔
اس تقریب کے تقریباً تمام کام مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے خدام، انصار، اطفال اور ممبرات لجنہ اماء اللہ نے محض للہ رضاکارانہ طور پر سرانجام دیے۔فجزاھم اللہ احسن الجزاء
میڈیا کوریج
حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے معرکہ آراخطاب کی صورت میں اس تقریب کے ذریعہ اسلام کا خوبصورت اور وقت کی ضرورت پر مشتمل یہ پیغام دنیا بھر میں بسنے والے چالیس ملین سے زائد لوگوں تک پہنچا۔
متعدّد ٹی وی چینلز اور اخبارات و رسائل نے اس کی خبر کو شائع کیا جن میں Sky News، Mail Online, London Evening Standard, The Times, Surrey Comet و دیگرشامل ہیں۔
مہمانوں کا مختصر تعارف
آج کی اس تقریب کے معزّز مہمانوں میں درج ذیل لوگ شامل تھے:
1۔ Stephen Hammond MP, Minister of State for Health,2. Lord Tariq Ahmad of Wimbledon, Minister of State for the Commonwealth and the UN, 3. Siobhain McDonagh MP, MP for Mitcham and Morden, 4. Tom Brake MP, 5. Paul Scully MP, Lord Sheikh, member of House of Lords.
اس کے علاوہ سات کاؤنسلز کے میئرز، متعدد ڈپلومیٹس، نمائندگان سربراہان ممالک، ہائی کمشنرز و سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں افراد نے اس بابرکت تقریب میں شرکت کی۔مزید برآں عزت مآب جناب Marie-Louise Coleiro Precaصاحبہ صدر مملکت مالٹا کی طرف سے ویڈیو پیغام اور جناب Emanuela Del Re صاحبہ نائب وزیر برائے امورِ خارجہ اٹلی کی طرف سے تحریری پیغام موصول ہوئے۔
جیسا کہ اس سے قبل ذکر ہو چکا ہے کہ پیس کانفرنس میں شرکت کرنے کے لیے تیس سے زائد ممالک سے نمائندگان وفود کی صورت میں تشریف لائے تھے۔ چنانچہ کئی ممالک کے وفود نے اس ہفتہ کے دوران حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دفتر میں حضورِ انور سے ملاقات کی سعادت پائی۔ ان میں سپین، اٹلی، پرتگال، بیلجیم، فرانس، سوئٹزرلینڈ، ہالینڈ، سویڈن، ناروے، آئس لینڈ ،یونان، میسیڈونیا، بوسنیا، کروشیا، کوسوو اور لیتھوینیا سے آنے والے وفودشامل ہیں۔
پیس کانفرنس سے قبل ہونے والی پریس کانفرنس کے دوران حضور پُر نور سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ہم دنیا میں کبھی امن قائم کرنے میں کامیاب ہو سکیں گے؟ جس پر حضورِ انور نے فرمایا کہ امن کے قیام کے بارہ میں باتیں تو بہت کی جاتی ہیں لیکن اس کے حصول کے لیے کوئی بھی اپنی ذات اور اپنے مفادات کی قربانی دینے کے لیے تیار نہیں دکھائی دیتا۔ ہم اس وقت تک دنیا میں امن قائم نہیں کر سکتے جب تک اپنی ذات اور اپنے مفادات کی قربانی کےلیے تیار نہیں ہوں گے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ دنیا میں بسنے والے تمام انسانوں کو اس مردِ خدا کی آواز سننے ، اسے سمجھنے اور پھر اس پر عمل کرنے کی توفیق بخشے کہ یہی آج دنیا کی بقا اور اس کی فلاح کی واحد امید ہے۔
٭ …٭…٭