کلام امام الزّماں علیہ الصلوٰۃ و السلام
نماز کی ظاہری حرکات کی حکمت
‘‘دعا وہ اکسیر ہے جو ایک مشتِ خاک کو کیمیا کر دیتی ہے اور وہ ایک پانی ہے جو اندرونی غلاظتوں کو دھو دیتا ہے ۔ اُس دعا کے ساتھ روح پگھلتی ہے اور پانی کی طرح بہ کر آستانہ حضرتِ احدیّت پر گرتی ہے۔ وہ خدا کے حضور میں کھڑی بھی ہوتی ہے اور رکوع بھی کرتی ہے اور سجدہ بھی کرتی ہے ۔ اور اسی کی ظِل وہ نماز ہے جو اسلام نے سکھلائی ہے اوررُوح کا کھڑا ہونا یہ ہے کہ وہ خدا کے لیے ہر ایک مصیبت کی برداشت اور حکم ماننے کے بارے میں مستعدی ظاہر کرتی ہے اور اس کا رکوع یعنی جھکنا یہ ہے کہ وہ تمام محبتوں اور تعلّقوں کو چھوڑ کر خدا کی طرف جھک آتی ہے اور خدا کے لیے ہو جاتی ہے اور اُس کا سجدہ یہ ہے کہ وہ خدا کے آستانہ پر گِر کر اپنے تئیں بکلّی کھو دیتی ہے اور اپنے نقشِ وجود کو مٹا دیتی ہے۔یہی نماز ہے جو خدا کو ملاتی ہے اور شریعت اسلامی نے اس کی تصویر معمولی نماز میں کھینچ کر دکھلائی ہے تا وہ جسمانی نماز روحانی نماز کی طرف محرک ہو کیونکہ خدا تعالیٰ نے انسان کے وجود کی ایسی بناوٹ پیدا کی ہے کہ روح کا اثر جسم پر اور جسم کا اثر روح پر ضرور ہوتا ہے ۔ جب تمہاری روح غمگین ہو تو آنکھوں سے بھی آنسو جاری ہو جاتے ہیں اور جب روح میں خوشی پیدا ہو تو چہرہ پر بشاشت ظاہر ہو جاتی ہے ۔ یہاں تک کہ انسان بسا اوقات ہنسنے لگتا ہے ایسا ہی جب جسم کو کوئی تکلیف اور درد پہنچے تو اس درد میں روح بھی شریک ہوتی ہےاور جب جسم کُھلی ٹھنڈی ہوا سے خوش ہو تو روح بھی اس سے کچھ حصہ لتی ہے پس جسمانی عبادات کی غرض یہ ہے کہ روح اور جسم کے باہمی تعلقات کی وجہ سے روح میں حضرت ِ احدیت کی طرف حرکت پیدا ہو اور وہ روحانی قیام اور رکوع اور سجود میں مشغول ہو جائے کیونکہ انسان ترقیات کے لیے مجاہدات کا محتاج ہے اور یہ بھی ایک قسم مجاہدہ کی ہے۔’’
(لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد 20، صفحہ 223-224)