‘‘میں عافیت کا ہوں حصار’’
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ بعثت سے قبل عقل وروحانیت دونوں کے سرچشمے خشک ہو چکے تھے اور دنیا
ظَہَرَ الۡفَسَادُ فِی الۡبَرِّ وَ الۡبَحۡرِ (الروم :42)
کا نظارہ پیش کر رہی تھی۔لیکن مولائے کل فخررسل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی سے ایسا انقلاب رونما ہوا جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا اور پشتو ںکے بگڑے ہوئے جن کی حالت
یَاۡکُلُوۡنَ کَمَا تَاۡکُلُ الۡاَنۡعَامُ (محمد :13)
جیسی تھی ۔ایسا الہٰی رنگ پکڑ گئے کہ
وَ الَّذِیۡنَ یَبِیۡتُوۡنَ لِرَبِّہِمۡ سُجَّدًا وَّ قِیَامًا (الفرقان: 65)
کا نمونہ بن گئے ۔قرآن پاک کا ایک انقلاب یہ بھی ہے کہ اس نسخہ ٔکیمیا کے اعجاز سے زندگی کو یکتائی نصیب ہوئی اور عالمِ روحانی عالمِ جسمانی کے مشابہ قرار پایا اور تاریخ انسانی پہلی بار عقل کو جسے راہِ سلوک میں مقہور اور مردود سمجھاجاتاتھا شرف اور مرتبہ عطا ہوا۔
وَ قَالُوۡا لَوۡ کُنَّا نَسۡمَعُ اَوۡ نَعۡقِلُ مَا کُنَّا فِیۡۤ اَصۡحٰبِ السَّعِیۡرِ(الملک :11)
اسلام وہ پہلا دین ہے جس کا ظہور تاریخ کی روشنی میں ہوا چنانچہ
ظَہَرَ الۡفَسَادُ فِی الۡبَرِّ وَ الۡبَحۡرِ(الروم :42)
سے لے کر
وَ رَاَیۡتَ النَّاسَ یَدۡخُلُوۡنَ فِیۡ دِیۡنِ اللّٰہِ اَفۡوَاجًا
تک اس حیرت انگیز انقلاب کی تاریخ کا ہر ورق محفوظ ہے اور یہ ایک ایسی کتاب ہے جس کی نظیر تمام دنیا میں نہیں پائی جاتی
اِذَا جَآءَ نَصۡرُ اللّٰہِ وَ الۡفَتۡحُ (النصر :2)
کی سند آپؐ کو عطا ہوئی۔
اور اس کے ساتھ ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو
اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ (المائدہ:4)
کی بشارت بھی عطا ہوئی۔
نعمت کی تعریف قرآن پاک میں بیان ہوئی
وَ اِذۡ قَالَ مُوۡسٰی لِقَوۡمِہٖ یٰقَوۡمِ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَۃَ اللّٰہِ عَلَیۡکُمۡ اِذۡ جَعَلَ فِیۡکُمۡ اَنۡۢبِیَآءَ وَ جَعَلَکُمۡ مُّلُوۡکًا (المائدہ :21)
اس کا مطلب یہ ہوا کہ بادشاہت اور نبوت دونوں انعام ہیں ۔ ایک جسمانی اور دوسرا روحانی اور اگر بادشاہت مسلمانوں میں وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡکے بعد بھی جاری رہے گی تو پھر مسیح موعود بھی اسی امت میں سے ہوگا اور آپ کی غلامی میں نبی ہوگا اور ایمان کو ثریا سے زمین پر لائے گا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے عین مطابق خلافت راشدہ کے بعد کاٹنےوالی اور جابر بادشاہتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔ ان جابر بادشاہتوں کے زمانے میں اللہ تعالیٰ مجددین کو بھیجتا رہا جو کہ امت مسلمہ کی راہنمائی کرتے رہے۔اس کے ساتھ ساتھ متکلمین جو قرآن پاک کے علمی انقلاب سے متاثر ہوئے تھے۔انہوں نے یونانی فلسفے اور علوم کی اصلاح کرتے ہوئے سائنس کی بنیادوں کو تجربے اور مشاہدے پر استوار کیا ۔ جس سے علمی دنیا میں ایک حیرت انگیز انقلاب آیا جس نے یورپ کو متاثر کیا چنانچہ نئی ایجادات کا دور شروع ہوا اور دنیا کیا سے کیا ہو گئی لیکن اس طرف مسلم دنیا کی حالت دگرگوں ہوگئی اور ظالم و جابر بادشاہوں کا علمائے سوء کے ساتھ گٹھ جوڑ عمل میں آیا ۔چنانچہ پاک روحیں اور ربّانی علماء ان سے الگ ہوگئے۔حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کو جب عباسی حکمران منصور کے دور میں قضا کے عہدے کی پیشکش ہوئی تو آپ نے انکار کردیا ۔چنانچہ آپ کو ان کی خفگی کا نشانہ بننا پڑا۔ غرض آپ نے سختیاں برداشت کیں۔حکام کے ظلم سہے کوڑے کھائے ۔قیدوبند کے عذاب جھیلے ۔ کوفہ چھوڑ کر دارالامان مکہ کی طرف ہجرت کی لیکن حکومت وقت کا نہ کوئی عہدہ اختیار کیا اور نہ کوئی انعام یا نذر قبول کی۔
(تاریخی افکار اسلامی صفحہ 117، 118)
جابر بادشاہوں اور علماء کے درمیان گٹھ جوڑ کی وجہ سے امت مسلمہ نئے نئے علمی انکشافات سے محروم رہی ۔علماء جابر بادشاہوں کے سیاسی اقدار کو اپنی مہر تصدیق سے مذہبی جواز فراہم کرتے اور یہ بادشاہ ان علماء کے جائز اور ناجائز فتووں کی حمایت کرتے ۔جو کہ جدید علوم کی تحصیل و ترویج کی راہ میں حائل ہوئے ۔مثال کے طور پر ترکی میں گھڑیال 1554ءمیں پہنچ چکا تھا اس کے ساتھ ساتھ پریس ایجاد ہوچکا تھا لیکن یہ نئی ایجادات ترکی میں کیوں فروغ نہ پاسکیں۔بقول سفیر آسٹریا Ogier Ghiselin de Busbeeq
جو اپنے ایک خط میں لکھتا ہے
They hold that their scriptures, that is their sacred books, would no longer be scriptures, if they were printed; and if they established public clocks, they think the authority of their muezzins and their rites would suffer diminution.
The Turkish letters of Ogier Ghiselin de Busbeeq, translated by E. S. Foster oxford:1972, pp 19- 21
چنانچہ سلطان محمد فاتح جو کہ سمندر پر لگی ہوئی زنجیر کے پار اپنے بحری جہازوں کو لے جانے میں کامیاب ہوگیا اور 1453ءمیں قسطنطنیہ فتح کیا لیکن 1560ء میں اس کے جانشین علماء کے فتوؤں کی زنجیر کو توڑ نہ سکے اور زمانہ چال قیامت کی چل گیا جب آنکھ کھلی تو بہت دیر ہوچکی تھی۔انیسویں صدی میں عالم اسلام مغرب کے حملوں کی زد میں تھا اور چشمِ مسلم ورطہ ٔحیرت میں گم تفسیر حرفِ ینسلون دیکھ رہی تھی ۔ علماء نئے حملوں کی تاب نہ لاکر اپنے اپنے حلقوں میں گوشہ نشین ہوگئے اور جدت پسند اہل مغرب کے حملوں سے مرعوب ہوکر بقول اقبال ؎
خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں
کا مصداق ہو گئے۔ امت مسلمہ کا اصل مسئلہ اخلاقی تھا لیکن علماء تلوار سے دلوں کے زنگ اتارنے کے امکانات کا جائزہ لے رہے تھے۔ایسے میں جب یہ ظاہر ہو رہا تھا کہ وقت اس امت کی تقدیر کا فیصلہ لکھ دے گا اور موجِ خوں سر سے گزر جائے گی لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی کے عین مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ظہور ہوا ۔ آپؑ نے ایک طرف علمی ہتھیاروں سے اسلام کی برتری کل ادیان پر ثابت کردی اور دوسری طرف اپنی قوت قدسی سے اسلام کی حقانیت اس طرح دلوں میں جاگزیں کر دی کہ پاک روحیں ہر چیز سے بے نیاز ہوکر بے خطر شہادت گہِ الفت میں اتر گئیں۔ اسلام کی نشأۃ ثانیہ کا آغاز ہوا اور آپؑ کے خلفاء کی قیادت میں اسلام کا حیات آفرین پیغام زمین کے کناروں تک پہنچ گیا ۔آج دنیا ایک نازک دور سے گزر رہی ہے ۔اہل مغرب جدید علوم کے نشہ میں سرشار خودپسندی کا شکار ہوگئے ہیں اور دوسری طرف امت مسلمہ اسلام کی حقیقی تعلیم سے محروم ہو کر اسلام دشمن قوتوں کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے۔
اہلِ مغرب نسلی برتری کا غرور اور امت مسلمہ کے قائدین کی بے روح تفسیریں اور جہاد کے غلط تصوّرات دنیا کو تباہی کے دھانہ پر لے آئے ہیں ۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اُس وقت سے ارباب بست و کشاد کو اس خطرے سے آگاہ کررہے ہیں جب کوئی اس امر کا اندازہ بھی نہیں کرسکتا تھا۔ بعد میں ان لیڈروں نے خود اس امر کی گواہی دی کہ جو حضور نے فرمایا وہی سچ تھا ۔
اس وقت بقول مشہور مؤرخ ٹائن بی (Toynbee)تہذیب کی کشتی تاریخ کے سمندر میں پانچ یا چھ ہزار سال کا فاصلہ طے کر آئی ہے اور اب چٹانوں کی طرف بڑھ رہی ہے جس سے چکر کھا کر نکل جانا کشتی چلانے والے کے بس میں نہیں۔ بقول ٹائن بی اس وقت دنیا کو بچانے کے لیے ایک مابعدالطبیعیاتی ایمان کی ضرورت ہے اور یہ ایمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق
لوکان الایمان معلقا بالثریا لنا لہ رجل اورجال من فارس (بخاری)
زمانہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعویٰ کی تصدیق کرتا نظر آتا ہے ؎
ہیں درندے ہر طرف مَیں عافیت کا ہوں حصار
٭…٭…٭