شمائل مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام
آپؑ کے عشق الٰہی کا بیان
’’ایک سکھ زمیندارکابیان ہے کہ ایک دفعہ ایک بڑے افسر یارئیس نے حضرت اقدس ؑ کے والدصاحب سے پوچھاکہ سنتاہوں آپ کاایک چھوٹالڑکابھی ہے۔مگراسے ہم نے کبھی نہیں دیکھا۔انہوں نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ ہاں میراچھوٹالڑکا توہے مگرنئی نویلی دلہنوں کی طرح کم ہی نظرآتاہے۔اگراسے دیکھناہوتو مسجدکے کسی گوشے میں جاکردیکھ لیں ۔وہ تو مسیتڑ ہے۔اورفرماتے کہ ’’مسجد میں جاکرسقاوہ کی ٹوٹنی میں تلاش کرو۔اگروہاں نہ ملے تومایوس ہوکرواپس مت آنا۔مسجدکے اندرچلے جانااوروہاں کسی گوشے میں تلاش کرنا۔اگروہاں بھی نہ ملے توپھربھی ناامیدہوکرلوٹ مت آنا۔کسی صف میں دیکھنا کہ کوئی اسکولپیٹ کر کھڑا کر گیا ہوگا۔کیونکہ وہ توزندگی میں مراہواہے اور اگرکوئی اسے صف میں لپیٹ دے تو وہ آگے سے حرکت بھی نہیں کرے گا۔‘‘
(حضرت مسیح موعودؑ کے مختصرحالات از معراج الدین عمرصاحب ص 67)
حضرت اقدسؑ کی ایک یاد داشت میں یہ تحریرتھا:
اَلْمَسَاجِدُ مَکَانِی … وَخَلْقُ اللّٰہِ عَیَالِی
(سیرت حضرت مسیح موعودؑ از شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ صفحہ 419)
(ترجمہ:مسجدیں میرا مکان ہیں اوراللہ کی مخلوق میرا کنبہ ہے)
آنحضرت ﷺ نے ایسے ہی عاشقان الٰہی کی علامات میں سے ایک یہ بیان فرمائی۔
كَتَبَ سَلْمَانُ إِلٰى أَبِي الدَّرْدَاءِ: يَا أَخِي لِيَكُنْ بَيْتُكَ الْمَسَاجِدَ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: الْمَسْجِدُ بَيْتُ كُلِّ تَقِيٍّ وَقَدْ ضَمِنَ اللهُ لِمَنْ كَانَتِ الْمَسَاجِدُ بُيُوتَهُمْ بِالرَّوْحِ وَالرَّحْمَةِ وَالْجَوَازِ عَلَى الصِّرَاطِ إِلٰى رِضْوَانِ اللهِ تَعَالٰى…أَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ وَأَبُو هُرَيْرَةَ: قَالَ عَلَيْهِ السَّلَامُ: سبعة يظلهم اللهُ فِي ظِلِّهِ يَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ:۔۔۔، وَرَجُلٌ قَلْبُهُ مُعَلَّقٌ بِالْمَسْجِدِ إِذَا خَرَجَ مِنْهُ حَتّٰى يَعُودَ إِلَيْهِ
ترجمہ:حضرت سلمانؓ نے حضرت ابودرداءؓ کولکھاکہ اے میرے بھائی!چاہیے کہ مساجدہی تیرا گھرہوں ۔کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کوفرماتے ہوئے سنا کہ مسجدہرمتقی کاگھرہے اور اللہ تعالیٰ ہراس کوکہ مساجدجن کاگھرہیں راحت ورحمت کی ضمانت دیتاہے اور پل صراط سے با سلامت گزرجانے کی رضوان اللہ کی طرف،اورحضرت ابوہریرۃ ؓ اور ابوسعیدخدری ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا سات ہیں جن پراللہ اس دن اپنے سایہ میں جگہ دے گا جس دن اس کے سایہ کے سوااورکوئی سایہ نہ ہوگا۔
(تفسیرامام رازی زیرآیت وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَسَاجِدَ اللَّهِ …تفسیرسورۃ البقرۃ آیت115)
اپنے یارِ ازلی کی محبت ووفاپرآپ کوبھروسہ بھی اتناتھا کہ
کہ یہ جاں آگ میں پڑکرسلامت آنے والی ہے
کایقین تھا۔یہی وجہ ہے کہ ایک بارکسی مخالف نے اعتراض کیا کہ آپ اپنے آپ کوابراہیم کہتے ہیں تو ان کوتوآگ میں ڈالاگیاتھااورآگ گلزاربن گئی تھی تواس کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ اس زمانہ میں ہم موجودہیں ہمیں کوئی مخالف دشمنی سے آگ کے اندر ڈال کردیکھ لے کہ خدااس کوٹھنڈاکردیتاہے کہ نہیں ۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد پنجم صفحہ 209-210)
اورایک بارآپؑ نے یہ بھی فرمایاکہ خدانے ہمیں مخاطب کرکے فرمایاہے :
’’آگ سے ہمیں مت ڈرا۔آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے۔‘‘
(تذکرہ صفحہ 324 ایڈیشن چہارم 2004ء)
خدائی نصرت اورتائیدپربھروسہ اور اس کی راہ میں ہرقربانی کے لیے تیاررہنے اوراس میں راحت وآرام جاننااس واقعہ سے مترشح ہوتاہے۔ کہ ایک بار جب سپرنٹنڈنٹ پولیس لیکھرام کے قتل کے شبہ میں اپنی گارڈکے ساتھ اچانک قادیان آیااور حضرت میرناصرنواب صاحب ؓکواس کی اطلاع ہوئی تووہ سخت گھبراہٹ کی حالت میں حضرت مسیح موعودؑ کے پاس گئے اور رندی ہوئی آوازمیں بمشکل عرض کیا کہ سپرنٹنڈنٹ پولیس S.P وارنٹ گرفتاری کے ساتھ ہتھکڑیاں لیے ہوئے آرہا ہے۔حضرت اقدسؑ اس وقت اپنی کتاب ’’نورالقرآن‘‘ تصنیف فرما رہے تھے۔سر اٹھا کر اطمینان سے مسکراتے ہوئے فرمایا :’’میرصاحب !لوگ خوشیوں میں چاندی سونے کے کنگن پہناہی کرتے ہیں ہم سمجھ لیں گے کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں لوہے کے کنگن پہن لیے۔‘‘
پھرذرا تأمل کے بعد فرمایا:
’’مگرایسانہ ہوگا۔کیونکہ وہ اپنے خلفاء کی ایسی رسوائی نہیں کرتا۔‘‘
(الحکم مؤرخہ 7جون 1936ء جلد39 نمبر14صفحہ 3 کالم 1 و تاریخ احمدیت جلد1 صفحہ599)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔اے بیان کرتے ہیں :۔
’’بیان کیا مجھ سے میاں عبد اللہ صاحب سنوری نے کہ حضرت صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ’’مرضیٴ مولا از ہمہ اولیٰ۔‘‘ ( یعنی خدا کی رضا سب سے مقدم ہونی چاہیے )‘‘
(سیرت المہدی جلد اوّل روایت نمبر 267)
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔اے بیان کرتے ہیں :۔
’’بیان کیا مجھ سے مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب نے کہ جن دنوں میں گورداسپور میں کرم دین کے ساتھ مقدمہ تھا اور مجسٹریٹ نے تاریخ ڈالی ہوئی تھی اور حضرت صاحب قادیان آئے ہوئے تھے حضور نے تاریخ سے دو روز پہلے مجھے گورداسپور بھیجا کہ میں جاکر وہاں بعض حوالے نکال کر تیار رکھوں کیونکہ اگلی پیشی میں حوالے پیش ہونے تھے۔میرے ساتھ شیخ حامد علی اور عبدالرحیم نائی باورچی کو بھی حضور نے گورداسپور بھیج دیا۔جب ہم گورداسپور مکان پر آئے تو نیچے سے ڈاکٹر محمد اسماعیل خان صاحب مرحوم کوآواز دی کہ وہ نیچے آویں اور دروازہ کھولیں۔ڈاکٹر صاحب موصوف اس وقت مکان میں اوپر ٹھہرے ہوئے تھے۔ہمارے آواز دینے پر ڈاکٹر صاحب نے بے تاب ہوکررونا اور چلّا ناشروع کر دیا۔ہم نے کئی آوازیں دیں مگر وہ اسی طرح روتے رہے آخر تھوڑی دیر کے بعد وہ آنسو پونچھتے ہوئے نیچے آئے۔ہم نے سبب پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میرے پاس محمد حسین منشی آیا تھا۔مولوی صاحب کہتے تھے کہ محمد حسین مذکور گورداسپور میں کسی کچہری میں محرریا پیش کار تھااور سلسلہ کا سخت مخالف تھا۔اور مولو ی محمد حسین بٹالوی کے ملنے والوں میں سے تھا۔
خیر ڈاکٹر صاحب نے بیان کیا کہ محمد حسین منشی آیا اوراس نے مجھے کہا کہ آج کل یہاں آریوں کا جلسہ ہوا ہے۔بعض آریے اپنے دوستوں کو بھی جلسہ میں لے گئے تھے چنانچہ اسی طرح میں بھی وہاں چلا گیا۔جلسہ کی عام کارروائی کے بعد انہوں نے اعلان کیا کہ اب جلسہ کی کارروائی ہو چکی ہے اب لوگ چلے جاویں کچھ ہم نے پرائیویٹ باتیں کرنی ہیں چنانچہ سب غیر لوگ اُٹھ گئے میں بھی جانے لگا مگر میرے آریہ دوست نے کہا کہ اکٹھے چلیں گے آپ ایک طرف ہو کر بیٹھ جاویں یاباہر انتظار کریں چنانچہ میں وہاں ایک طرف ہو کر بیٹھ گیا پھر ان آریوں میں سے ایک شخص اُٹھااور مجسٹریٹ کومرزا صاحب کا نام لےکرکہنے لگا کہ یہ شخص ہمارا سخت دشمن اور ہمارے لیڈر لیکھرام کا قاتل ہے۔اب وہ آپ کے ہاتھ میں شکار ہے اور ساری قوم کی نظرآپ کی طرف ہے اگر آپ نے اس شکار کو ہاتھ سے جانے دیا تو آپ قوم کے دشمن ہوں گے اوراسی قسم کی جوش دلانے کی باتیں کیں ۔اس پر مجسٹریٹ نے جواب دیا کہ میرا تو پہلے سے خیال ہے کہ ہو سکے تو نہ صرف مرزا کو بلکہ اس مقدمہ میں جتنے بھی اس کے ساتھی اور گواہ ہیں سب کو جہنم میں پہنچا دوں مگر کیا کیا جاوے کہ مقدمہ ایسا ہوشیاری سے چلایا جارہاہے کہ کوئی ہاتھ ڈالنے کی جگہ نہیں ملتی لیکن اب میں عہد کرتا ہوں کہ خواہ کچھ ہوا س پہلی پیشی میں ہی عدالتی کارروائی عمل میں لے آؤں گا۔
مولوی صاحب کہتے تھے کہ ڈاکٹر صاحب بیان کرتے تھے کہ محمد حسین مجھ سے کہتا تھا کہ آپ یہ نہیں سمجھے ہوں گے کہ عدالتی کارروائی سے کیا مراد ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر مجسٹریٹ کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ شروع یا دوران مقدمہ میں جب چاہے ملزم کو بغیر ضمانت قبول کیے گرفتار کر کے حوالات میں دے دے۔محمد حسین نے کہا ڈاکٹر صاحب آپ جانتے ہیں کہ مَیں آپ کے سلسلہ کا سخت مخالف ہوں مگرمجھ میں یہ بات ہے کہ میں کسی معزز خاندان کو ذلیل و برباد ہوتے خصوصاً ہندوؤ ں کے ہاتھ سے ذلیل ہوتے نہیں دیکھ سکتا اور میں جانتا ہوں کہ مرزا صاحب کا خاندان ضلع میں سب سے زیادہ معزز ہے۔پس میں نے آپ کو یہ خبر پہنچادی ہے کہ آپ اس کا کوئی انتظام کر لیں ۔اور میرے خیال میں دو تجویزیں ہو سکتی ہیں ایک تو یہ ہے کہ چیف کورٹ لاہور میں یہاں سے مقدمہ تبدیل کرانے کی کوشش کی جاوے اور دوسرے یہ کہ خواہ کسی طرح ہو مگر مرزا صاحب اس آئندہ پیشی میں حاضر عدالت نہ ہوں اور ڈاکٹری سرٹیفیکیٹ پیش کردیں ۔
مولوی صاحب نے بیان کیا کہ ڈاکٹر صاحب نے یہ واقعہ بیان کیا تو ہم سب بھی سخت خوف زدہ ہوگئے اور فیصلہ کیا کہ اسی وقت قادیان کوئی آدمی روانہ کر دیا جاوے جو حضرت صاحب کو یہ واقعات سناوے۔را ت ہوچکی تھی ہم نے یکہ تلاش کیا اور گو کئی یکے موجود تھے مگر مخالفت کا اتنا جوش تھا کہ کوئی یکّہ نہ ملتا تھا ہم نے چارگنے کرایہ دینا کیا مگر کوئی یکہ والا راضی نہ ہوا آخر ہم نے شیخ حامد علی اور عبد الرحیم باورچی اور ایک تیسرےشخص کو قادیان پیدل روانہ کیا۔وہ صبح کی نماز کے وقت قادیان پہنچے اور حضرت صاحب سے مختصرًا عرض کیا حضور نے بے پروائی سے فرمایا خیر ہم بٹالہ چلتے ہیں خواجہ صاحب اور مولوی محمد علی صاحب لاہور سے واپس آتے ہوئے وہاں ہم کو ملیں گے ان سے ذکر کریں گے اور وہاں پتہ لگ جائے گا کہ تبدیل مقدمہ کی کوشش کا کیا نتیجہ ہوا۔
چنانچہ اسی دن حضور بٹالہ آگئے۔گاڑی میں مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ صاحب بھی مل گئے انہوں نے خبر دی کہ تبدیل مقدمہ کی کوشش کامیاب نہیں ہوئی۔پھر حضرت صاحب گورداسپور چلے آئے اور راستہ میں خواجہ صاحب اور مولوی صاحب کو اس واقعہ کی کوئی اطلاع نہیں دی۔جب آپ گورداسپور مکان پر پہنچے تو حسب عادت الگ کمرے میں چارپائی پر جالیٹے مگراس وقت ہمارے بدن کے رونگٹے کھڑے تھے کہ اب کیا ہوگا۔حضور نے تھوڑی دیر کے بعد مجھے بلایا۔میں گیا اس وقت حضرت صاحب نے اپنے دونوں ہاتھوں کے پنجے ملا کر اپنے سر کے نیچے دیے ہوئے تھے اور چت لیٹے ہوئے تھے۔میرے جانے پر ایک پہلو پر ہو کر کہنی کے بل اپنی ہتھیلی پر سر کا سہارا دے کر لیٹ گئے اور مجھ سے فرمایا میں نے آپ کو اس لیے بلایا ہے کہ وہ سارا واقعہ سنوں کہ کیاہے اس وقت کمرے میں کوئی اَور آدمی نہیں تھا۔صرف دروازے پر میاں شادی خان کھڑے تھے۔میں نے سارا قصہ سنایا کہ کس طرح ہم نے یہاں آکر ڈاکٹر اسماعیل خان صاحب کو روتے ہوئے پایا پھر کس طرح ڈاکٹر صاحب نے منشی محمد حسین کے آنے کا واقعہ سنایا اور پھر محمد حسین نے کیا واقعہ سنایا۔حضور خاموشی سے سنتے رہے جب میں شکار کے لفظ پر پہنچا تو یکلخت حضرت صاحب اُٹھ کر بیٹھ گئے اور آپ کی آنکھیں چمک اُٹھیں اور چہرہ سُرخ ہوگیا اور آپ نے فرمایا:
’’میں اس کا شکار ہوں ! میں شکار نہیں ہوں میں شیرہوں اور شیر بھی خدا کا شیر۔وہ بھلا خدا کے شیر پر ہاتھ ڈال سکتاہے ؟ ایسا کر کے تو دیکھے‘‘
یہ الفاظ کہتے ہوئے آپ کی آواز اتنی بلند ہوگئی کہ کمرے کے باہر کے بھی سب لوگ چونک اُٹھے اور حیرت کے ساتھ ادھر متوجہ ہوگئے مگر کمرے کے اندر کو ئی نہیں آیا۔حضور نے کئی دفعہ خدا کے شیر کے الفاظ دہرائے اور اس وقت آپ کی آنکھیں جو ہمیشہ جھکی ہوئی اور نیم بند رہتی تھیں واقعی شیر کی آنکھوں کی طرح کھل کر شعلہ کی طرح چمکتی تھیں اور چہرہ اتنا سرخ تھا کہ دیکھا نہیں جاتا تھا۔پھر آپ نے فرمایا میں کیا کروں میں نے تو خدا کے سامنے پیش کیا ہے کہ میں تیرے دین کی خاطر اپنے ہاتھ اور پاؤں میں لوہا پہننے کو تیار ہوں مگر وہ کہتا ہے کہ نہیں میں تجھے ذلت سے بچاؤں گا اور عزت کے ساتھ بری کروں گا۔پھر آپ محبت الٰہی پر تقریرفرمانے لگ گئے اور قریباً نصف گھنٹہ تک جوش کے ساتھ بولتے رہے لیکن پھر یکلخت بولتے بولتے آپ کو اُبکائی آئی اور ساتھ ہی قے ہوئی جو خالص خون کی تھی جس میں کچھ خون جما ہوا تھا اور کچھ بہنے والا تھا۔حضرت نے قے سے سر اُٹھا کر رومال سے اپنا منہ پونچھا اور آنکھیں بھی پونچھیں جو قے کی وجہ سے پانی لے آئی تھیں ۔مگر آپ کو یہ معلوم نہیں ہوا کہ قے میں کیا نکلا ہے کیونکہ آپ نے یکلخت جھک کر قے کی اور پھر سر اُٹھالیا۔مگر میں اس کے دیکھنے کے لیے جھکا تو حضور نے فرمایا کیا ہے ؟ میں نے عرض کیا حضورقے میں خون نکلا ہے۔تب حضور نے اس کی طرف دیکھا۔پھر خواجہ صاحب اور مولوی محمد علی صاحب اور دوسرے سب لوگ کمرے میں آگئے اورڈاکٹر کو بلوایا گیا۔ڈاکٹر انگریزتھا۔وہ آیا اور قے دیکھ کر خواجہ صاحب کے ساتھ انگریزی میں باتیں کرتا رہا جس کا مطلب یہ تھا کہ اس بڑھاپے کی عمر میں اس طر ح خون کی قے آنا خطر ناک ہے۔پھر اس نے کہا یہ آرام کیوں نہیں کرتے؟ خواجہ صاحب نے کہا آرام کس طرح کریں مجسٹریٹ صاحب قریب قریب کی پیشیاں ڈال کر تنگ کرتے ہیں حالانکہ معمولی مقدمہ ہے جو یونہی طے ہوسکتا ہے اس نے کہا کہ یہ اس وقت آرام ضروری ہے میں سرٹیفیکیٹ لکھ دیتا ہوں ۔کتنے عرصہ کے لیے سرٹیفیکیٹ چاہیے ؟ پھر خود ہی کہنے لگا میرے خیال میں دو مہینے آرام کرنا چاہیے۔خواجہ صاحب نے کہا کہ فی الحال ایک مہینہ کا فی ہوگا۔اس نے فوراً ایک مہینے کے لیے سرٹیفیکیٹ لکھ دیا اور لکھا کہ اس عرصہ میں مَیں ان کو کچہری میں پیش ہونے کے قابل نہیں سمجھتا۔
اس کے بعد حضرت صاحب نے واپسی کا حکم دیا۔مگر ہم سب ڈرتے تھے کہ اب کہیں کوئی نیا مقدمہ نہ شروع ہو جاوے۔کیونکہ دوسرے دن پیشی تھی اور حضورگورداسپور آکر بغیر عدالت کی اجازت کے واپس جارہے تھے مگر حضرت صاحب کے چہرہ پربالکل اطمینان تھاچنانچہ ہم سب قادیان چلے آئے۔بعد میں ہم نے سنا کہ مجسٹریٹ نے سرٹیفیکیٹ پر بڑی جرح کی اور بہت تلملایا اور ڈاکٹر کو شہادت کے لیے بلایا مگر اس انگریز ڈاکٹر نے کہا کہ میراسرٹیفیکیٹ بالکل درست ہے اور میں اپنے فن کا ماہر ہوں اس پر میرے فن کی روسے کوئی اعتراض نہیں کر سکتااور میرا سرٹیفیکیٹ تمام اعلیٰ عدالتوں تک چلتا ہے۔مجسٹریٹ بڑ بڑاتا رہا مگر کچھ پیش نہ گئی۔پھر اسی وقفہ میں اس کا گورداسپور سے تبادلہ ہوگیا۔اور نیز کسی ظاہراً نا معلوم وجہ سے اس کا تنزل بھی ہو گیایعنی وہ ای اے۔سی سے منصف کر دیا گیا۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ غالباً اس مجسٹریٹ کا نام چندولال تھا اور وہ تاریخ جس پر اس موقعہ پر حضرت صاحب نے پیش ہونا تھا غالباً 16فروری 1904ء تھی‘‘
(سیرت المہدی جلد اوّل روایت نمبر 107)
اپنے خدا کی اسی محبت وعشق کے نشہ میں مخمورہوکر اپنے خداسے ہم کلام ہوتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’دیکھ!میری روح نہایت توکل کے ساتھ تیری طرف ایسی پرواز کر رہی ہے جیساکہ پرندہ اپنے آشیانہ کی طرف آتاہے۔سومیں تیری قدرت کے نشان کاخواہش مندہوں لیکن نہ اپنے لیے اورنہ اپنی عزت کے لیے بلکہ اس لیے کہ لوگ تجھے پہچانیں اورتیری پاک راہوں کو اختیار کریں ‘‘
(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد15 صفحہ511)
(باقی آئندہ)