خطبہ جمعہ فرمودہ 24؍ مئی 2019ء
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 24؍ مئی2019ء بمطابق 24؍ہجرت1398 ہجری شمسی بمقام مسجدمبارک،اسلام آباد (ٹلفورڈ، سرے)، یوکے
(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ-بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾ إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷﴾
اِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذَا دُعُوْٓا اِلَى اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ اَنْ يَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا وَ اُولٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۔ وَ مَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ يَخْشَ اللّٰهَ وَ يَتَّقْهِ فَاُولٰئِكَ هُمُ الْفَائِزُوْنَ۔ وَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰهِ جَهْدَ اَيْمَانِهِمْ لَئِنْ اَمَرْتَهُمْ لَيَخْرُجُنَّ قُلْ لَّا تُقْسِمُوْا طَاعَةٌ مَّعْرُوْفَةٌ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ۔ قُلْ اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَيْهِ مَا حُمِّلَ وَ عَلَيْكُمْ مَّا حُمِّلْتُمْ وَ اِنْ تُطِيْعُوْهُ تَهْتَدُوْا وَ مَا عَلَى الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِيْنُ۔ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَهُمْ وَ لَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا يَعْبُدُوْنَنِيْ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَيْـًٔا وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰئِكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ۔ وَ اَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ اَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۔ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مُعْجِزِيْنَ فِي الْاَرْضِ وَ مَاْوٰىهُمُ النَّارُ وَ لَبِئْسَ الْمَصِيْرُ۔
(سورۃ النور: 52 تا58)
یہ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں سورۂ نور کی آیات ہیں اور ‘آیتِ استخلاف‘ یعنی وہ آیت جس میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں میں خلافت کا سلسلہ جاری رکھنے کا وعدہ فرمایا ہے، اس آیت سے پہلے کی بھی آیات ہیں اور بعد کی بھی آیات اور ان تمام آیات میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت اور حکموں پر عمل کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ۔ اگر یہ ہو گا تو پھر اللہ تعالیٰ خلافت کا انعام دینے کا وعدہ پورا فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ خوف کی حالت کو امن میں بدلے گا اور دشمنوں کو ان کے انجام تک پہنچائے گا۔ ان آیات کا ترجمہ یوں ہےکہ
مومنوں کاجواب جب وہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلائے جائیں کہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کریں یہ ہوا کرتا ہے کہ ہم نے سنا اور ہم نے مان لیا اور ہم نے اطاعت کی اور وہی لوگ کامیاب ہوا کرتے ہیں۔اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں اور اللہ سے ڈریں اور اس کا تقویٰ اختیار کریں وہ بامراد ہو جاتے ہیں۔اور وہ لوگ اللہ کی پکی قسمیں کھاتے ہیں کہ اگر تُو ان کو حکم دے تو وہ فوراً گھروں سے نکل کھڑے ہوں گے۔ کہو قسمیں نہ کھاؤ۔ ہمارا حکم تو تمہیں صرف ایسی اطاعت کا ہے جو معروف اطاعت ہے جو عرفِ عام میں اطاعت سمجھی جاتی ہے۔ اللہ اس سے جو تم کرتے ہو یقیناً خبردار ہے۔ تو کہہ اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو پس اگر وہ پھر جائیں تو اس (رسول) پر صرف اس کی ذمہ داری ہے جو اس کے ذمہ لگایا گیا ہے اور تم پر اس کی ذمہ داری ہے جو تمہارے ذمہ لگایا گیا ہے اور اگر تم اس کی اطاعت کرو تو ہدایت پا جاؤ گے اور رسول کے ذمہ تو صرف بات کو کھول کر پہنچا دینا ہے۔ اللہ نے تم میں سے ایمان لانے والوں اور مناسبِ حال عمل کرنے والوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ ان کو زمین میں خلیفہ بنا دے گا۔ جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنا دیا تھا اور جو دین اس نے ان کے لیے پسند کیا ہے وہ ان کے لیے اسے مضبوطی سے قائم کر دے گا اور ان کے خوف کی حالت کے بعد وہ ان کے لیے امن کی حالت تبدیل کر دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے (اور) کسی چیز کو میرا شریک نہیں بنائیں گے اور جو لوگ اس کے بعد بھی انکار کریں گے وہ نافرمانوں میں سے قرار دیے جائیں گے۔ اور تم سب نمازوں کو قائم کرو اور زکوٰتیں دو اور اس رسول کی اطاعت کرو تا کہ تم پر رحم کیا جائے۔اور (اے مخاطب) کبھی خیال نہ کر کہ کفار زمین میں ہمیں اپنی تدبیروں سے عاجز کر دیں گے اور ان کا ٹھکانا تو دوزخ ہے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے۔(ترجمہ از تفسیرِ صغیر)
پس ہر بات اللہ تعالیٰ نے کھول کر بیان فرما دی کہ تم ہزار دعویٰ کرو کہ تم مومن ہو، ایمان لانے والے ہو لیکن جب تک ہر امتحان اور ہر آزمائش میں ثابت قدم رہتے ہوئے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکامات پر شرح صدر اور کامل یقین سے عمل نہیں کرو گے کامیابی نہیں مل سکتی۔ پس حقیقی کامیابی پانے کے لیے اور بامراد ہونے کے لیے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی کامل اطاعت ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے اس کا خوف دل میں رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنا ضروری ہے کہ کہیں وہ میرا پیارا محبوب خدا میرے کسی عمل سے مجھ سے ناراض نہ ہو جائے۔ اور اسی طرح تقویٰ پر قائم ہونا ضروری ہے کہ ہر نیکی اور اعلیٰ اخلاق کو اس لیے کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے۔ جب یہ ہو گا تو پھر کامیابیاں بھی ملیں گی اور اللہ تعالیٰ کی امان بھی حاصل رہے گی۔ اگر ہم جائزہ لیں تو اکثر موقع پر یہ نظر آئے گا کہ اطاعت کے وہ معیار حاصل نہیں کرتے جو ہونے چاہئیں۔ اگر کسی بات پر عمل کر بھی لیں تو بڑی بے دلی سے عمل ہوتا ہے جو مرضی کے خلاف باتیں ہوں۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے جو حکم ہیں، ان آیات میں اتنی بار جو اطاعت کا حکم آیا ہے یہ خلافت کے جاری رکھنے کے وعدے کے ساتھ ان آیات میں آیا ہے گویا اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ خلافت کا نظام بھی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکامات اور نظام کا ایک حصہ ہے۔ پس خلافت کی باتوں پر عمل کرنا بھی تمہارے لیے ضروری ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے حکموں میں سے ایک حکم ہے بلکہ ایک قومی اور روحانی زندگی کے جاری رکھنے کے لیے مومنین کے لیے یہ انتہائی ضروری چیز ہے کہ اپنی اطاعت کے معیار کو بڑھائیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ جس نے میرے قائم کردہ امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور میری اطاعت کرنے والے نے خدا تعالیٰ کی اطاعت کی اور اسی طرح میرے امیر کی نافرمانی میری نافرمانی ہے اور میری نافرمانی خدا تعالیٰ کی نافرمانی ہے۔
(صحیح البخاری کتاب الاحکام باب قول اللہ تعالیٰ اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول واولی الامر منکم حدیث 7137)
تو خلیفۂ وقت کی اطاعت تو عام امیر کی اطاعت سے بہت بڑھ کر ضروری ہے۔ دلی خوشی کے ساتھ کامل اطاعت کے نمونے ہمیں صحابہ کی زندگیوں میں کس طرح نظر آتے ہیں اس کی ایک مثال دیتا ہوں۔
ایک جنگ میں جنگ کی کمان حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سپرد کی گئی لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کسی وجہ سے ان کو بدل دیا اور عین جنگ کی حالت میں ان کو بدلا گیا۔ تو بہرحال اس حالت میں خلیفۂ وقت کا حکم آیا کہ اب کمان حضرت ابو عبیدہ کریں گے، ان کو دے دی جائے۔ تو حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس خیال سے کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بڑی عمدگی سے کمان کر رہے ہیں ان سے چارج نہیں لیا لیکن حضرت خالد بن ولیدؓ نے کہا کہ آپ فوری طور پر مجھ سے چارج لیں کیونکہ یہ خلیفۂ وقت کا حکم ہے اور میں بغیر کسی شکوے کے یا دل میں کسی قسم کا خیال لائے بغیر کامل اطاعت کے ساتھ آپ کے نیچے کام کروں گا جس طرح آپ کہیں گے۔
(ماخوذ از تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 356-357 سنہ 13ھ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 1987ء)
تو یہ اطاعت کا معیار ہے جو ایک مومن کا ہونا چاہیے نہ یہ کہ اگر کوئی فیصلہ خلاف ہو جائے تو شکوہ شروع کر دیں۔ کسی عہدے دارکو ہٹا کر دوسرے کو مقرر کر دیا جائے تو کام کرنا چھوڑ دیں۔ جو ایسا کرتا ہے نہ تو اس میں اطاعت ہے نہ اللہ تعالیٰ کا خوف ہے نہ تقویٰ ہے۔
اب مجھے پتا لگا ہے کہ بعض صدران ایسے ہیں جنہوں نے نئے قاعدے کے مطابق، جون میں اپنی ٹرم ختم ہونے سے پہلے اس لیے کام چھوڑ دیا ہے کہ اب ہم کیوں کام کریں۔ کیا یہ صرف اس لیے کام کر رہے تھے کہ ہم نے اب مستقل عہدے دار رہنا ہے؟ انہوں نے جو ذمہ داریاں مئی جون کے مہینے میں نبھانی ہوتی ہیں اس پر توجہ نہیں دے رہے۔ ایک تو ایسی سوچ اپنے دینی کام میں خیانت ہے۔ دوسرے یہ باغیانہ سوچ ہے اور اپنے آپ کو خلافت کی اطاعت کے دائرے سے باہر نکالنے والی بات ہے کیونکہ اب خلیفۂ وقت نے اس قاعدے کو منظور کر لیا ہے کہ صدر کی ٹرم چھ سال ہو گی اس لیے ہم بھی اب پوری طرح دل جمعی سے کام نہیں کریں گے۔ پس ایسے لوگوں کو تقویٰ سے کام لینا چاہیے اور خوفِ خدا کرنا چاہیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقعے پر بیعت اس نکتے پر لی تھی کہ سنیں گے اور اطاعت کریں گے خواہ ہمیں پسند ہو یا ناپسند۔
(صحیح البخاری کتاب الاحکام باب کیف یبایع الامام الناس؟ حدیث 7199)
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے اپنا ہاتھ کھینچا وہ اللہ تعالیٰ سے قیامت کے دن اس حالت میں ملے گا کہ نہ اس کے پاس کوئی دلیل ہو گی نہ کوئی عذر ہو گا اور جو شخص اس حال میں مرا کہ اس نے امامِ وقت کی بیعت نہیں کی تھی تو وہ جاہلیت اور گمراہی کی موت مرا۔
(صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب الامر بلزوم الجماعۃ …… حدیث (1851))
پس ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم نے امامِ وقت کی بیعت کی اور ان جاہلوں میں شامل نہیں ہوئے جو امام ِوقت کے انکاری ہیں ۔لیکن اگر ہمارے عمل اس قبول کرنے کے بعد بھی جہالت والے رہے تو اپنے آپ کو عملاً اس بیعت سے باہر نکالنے والی بات ہو گی اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت سے بھی باہر نکل رہے ہوں گے۔
پس بیعت کے بعد اپنی سوچوں کو درست سمت میں رکھنا اور کامل اطاعت کے نمونے دکھانا انتہائی ضروری ہے۔ زمانے کے امام نے اپنی بیعت میں آنے والوں کے معیار کے بارے میں کیا فرمایا ہے۔ ایک موقعے پر آپؑ نے فرمایا کہ: ’’ہماری جماعت میں وہی داخل ہوتا ہے جو ہماری تعلیم کو اپنا دستور العمل قرار دیتا ہے اور اپنی ہمت اور کوشش کے موافق اس پر عمل کرتا ہے۔ لیکن جو محض نام رکھا کر تعلیم کے موافق عمل نہیں کرتا۔ وہ یاد رکھے کہ خدا تعالیٰ نے اس جماعت کو ایک خاص جماعت بنانے کا ارادہ کیا ہے اور کوئی آدمی جو دراصل جماعت میں نہیں ہے۔ محض نام لکھانے سے جماعت میں نہیں رہ سکتا۔‘‘ یعنی عملی حالت اگر اس تعلیم کے مطابق نہیں تو صرف نام لکھوا کر جماعت میں شامل ہونے والی بات ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں کہ اصل میں میری نظر میں تو وہ جماعت میں نہیں ہے۔ آپ فرماتے ہیں ’’……اس لیے جہاں تک ہو سکے اپنے اعمال کو اس تعلیم کے ماتحت کرو جو دی جاتی ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد 4 صفحہ 439)
اور وہ تعلیم یہ ہے۔ آپؑ نے فرمایا کہ ’’فتنہ کی بات نہ کرو۔ شر نہ کرو۔ گالی پر صبر کرو ۔کسی کا مقابلہ نہ کرو۔‘‘ یعنی لغو اور بیہودہ باتوں میں مقابلہ نہ کرو۔ ان باتوں میں مقابلہ نہ کرو کہ اب فلاں عہدے دار بن گیا تو مَیں نے اطاعت نہیں کرنی یا مجھے ہٹایا گیا تو میں نے اطاعت نہیں کرنی۔ فرمایا اور ’’جو مقابلہ کرے اس سے سلوک اور نیکی سے پیش آؤ۔‘‘ عام معاملات میں بھی، روزمرہ معاملات میں بھی، لڑائی جھگڑوں میں بھی، اگر فضولیات پہ، لغویات پہ کوئی مقابلہ ہوتا بھی ہے، تب بھی صَرف ِنظر کرو بلکہ نہ صرف صَرفِ نظر کرو بلکہ نیکی سے پیش آؤ۔ فرمایا کہ ’’شیریں بیانی کا عمدہ نمونہ دکھلاؤ۔‘‘ خوش اخلاقی سے بات کرو۔ نرم زبان استعمال کرو۔اس کا اچھا نمونہ دکھاؤ۔ ’’سچے دل سے ہر ایک حکم کی اطاعت کرو کہ خدا تعالیٰ راضی ہو اور دشمن بھی جان لے کہ اب بیعت کر کے یہ شخص وہ نہیں رہا جو کہ پہلے تھا۔ مقدمات میں سچی گواہی دو۔ اس سلسلہ میں داخل ہونے والے کو چاہیے کہ پورے دل، پوری ہمت اور ساری جان سے راستی کا پابند ہو جاوے۔‘‘
(ملفوظات جلد 6 صفحہ 413)
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ لوگ بڑی پکّی قسمیں کھاتے ہیں کہ اگر تُو حکم دے تو ہم یہ کر دیں گے اور وہ کر دیں گے۔ جب حکم دو تو اس پر پورے نہیں اترتے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم زیادہ قسمیں نہ کھاؤ۔ بڑے بڑے وعدے نہ کرو۔ اگر معروف اطاعت کر لو، ایسی اطاعت جو عرفِ عام میں اطاعت سمجھی جاتی ہے تو ہم سمجھیں گے کہ تم نے حکم مان لیا ورنہ صرف منہ کے دعوے ہیں اور اللہ تعالیٰ تمہارے عمل سے بھی باخبر ہے اور تمہارے دلوں کی حالت سے بھی باخبر ہے۔ پس عام اطاعت یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حق ادا کرو۔ اس کی عبادت بھی سنوار کر کرو۔ آج کل رمضان میں جو توجہ پیدا ہوئی ہے اس کو جاری رکھو اور قائم رکھو۔ اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرتے ہوئے اس کے بندوں کے حق بھی ادا کرو اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے جو میں نے ابھی بیان کیا ہے کہ ہر قسم کے فتنے سے بچو۔ ہر قسم کے شر اور لڑائی اور جھگڑے سے بچو۔ اپنے اخلاق عمدہ کرو۔ ایسے اعلیٰ اخلاق ہوں کہ احمدی اور غیر احمدی میں فرق صاف نظر آنے لگ جائے۔ سچائی پر ہمیشہ قائم رہو۔ غرض کہ تمام قسم کی نیکیاں کرنا ضروری ہے اور یہی معروف اطاعت ہے۔ اسی کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ اسی بات کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے بھی اسی خواہش کا اظہار کیا ہے اور اپنی جماعت کے افراد کے لیے حکم دیا ہے۔ اور خلافتِ احمدیہ بھی ان باتوں کے کرنے کی طرف ہی توجہ دلاتی رہتی ہے۔ گذشتہ 111 سال ہو گئے خلافت کی طرف سے انہی باتوں کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے اور اسی طرح یہ بھی ہے کہ انتظامی معاملات میں بھی کامل اطاعت کا نمونہ دکھاؤ۔ صرف دینی یا روحانی معاملات میں نہیں۔ جیسا کہ حضرت خالد بن ولیدؓ نے دکھایا تھا اور اس جھگڑے میں نہ پڑو کہ یہ بات معروف کے زمرے میں آتی ہے یا نہیں۔ ہاں اگر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکموں کے خلاف کوئی بات ہے تو وہ یقیناً غیر معروف ہے۔ پس یہ جو ہم عہد میں دوہراتے ہیں کہ خلیفہ وقت جو بھی معروف فیصلہ کریں گے اس کی پابندی کرنی ضروری سمجھوں گا اس سے ہر ایک اپنی خود ساختہ تشریح معروف فیصلہ کی نہ نکالنے لگ جائے کہ یہ فیصلہ معروف ہے اور یہ نہیں ہے۔ حضرت خالد بن ولیدؓ نے یہ نہیں کہا تھا کہ عین جنگ کے درمیان جب فوجیں آمنے سامنے ہیں اور حضرت خالد بن ولیدؓ کی حکمت عملی بھی بہت اچھی تھی اور مسلمانوں کو فائدہ بھی ہو رہا تھا اس وقت حضرت عمرؓ کا حکم جو آیا وہ غیر معروف تھا۔ نہیں بلکہ انہوں نے کامل اطاعت کے ساتھ ابو عبیدہؓ کے زیر ِکمان ایک عام کمانڈر کی حیثیت سے، فوجی کی حیثیت سے لڑنے کو ہی برکت سمجھا۔ جو لوگ معروف اور غیر معروف کے الجھاؤ اور چکروں میں پڑ جاتے ہیں ایسے ہی لوگوں کے بارے میں ایک موقع پر حضرت خلیفة المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تھا کہ
’’ایک اور غلطی ہے وہ اطاعت در معروف کے سمجھنے میں ہے کہ جن کاموں کو ہم معروف نہیں سمجھتے اس میں اطاعت نہ کریں گے۔‘‘ لوگ خود ہی فیصلہ کر لیتے ہیں کہ جو ہم معروف نہیں سمجھتے اس لیے اس میں اطاعت نہ کریں۔ آپؓ نے فرمایا کہ ’’یہ لفظ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی آیا ہے۔‘‘ جیسا کہ فرمایا۔ ’’وَلَا یَعْصِیْنَکَ فِیْ مَعْرُوْفٍ۔‘‘ اور نہ ہی معروف امور میں تیری نافرمانی کریں گے۔ حضرت خلیفہ اولؓ فرماتے ہیں کہ ’’اب کیا ایسے لوگوں نے حضرت محمدؐ رسول اللہ کے عیوب کی بھی کوئی فہرست بنا لی ہے۔‘‘ آپؐ کے عیبوں کی یا کمزوریوں کی نعوذ باللہ کوئی فہرست بنائی ہوئی ہے۔ یعنی کوئی ایسی فہرست بنائی ہوئی ہے جن سے یہ پتا چلے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ حکم معروف ہیں اور یہ نعوذ باللہ غیر معروف ہیں۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ ’’اسی طرح حضرت صاحب‘‘ یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام ’’نے بھی شرائطِ بیعت میں طاعت در معروف لکھا ہے۔ اس میں ایک سِرّ ہے۔‘‘
(حقائق الفرقان جلد 4 صفحہ 75-76)
اور وہ یہی راز ہے کہ نبی اور خلفاء اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے احکامات کے مطابق حکم دیتے ہیں اور جیسے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک موقعے پر اس لفظ کی اس طرح تشریح فرمائی ہے کہ یہ نبی ان باتوں کا حکم دیتا ہے جو خلاف ِعقل نہیں ہیں اور ان باتوں سے منع کرتا ہے جن سے عقل بھی منع کرتی ہے اور پاک چیزوں کو حلال کرتاہے اور ناپاک کو حرام ٹھہراتا ہے اور اس کی تفصیل اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن کریم میں بیان فرما دی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرما دی۔ تمام اوامرو نواہی، کرنے والی باتیں اور نہ کرنے والی باتیں کھول کر بیان فرما دیں اور جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کی پیروی کریں گے وہی نجات پائیں گے۔ جو ان باتوں پر عمل کریں گے وہی نجات پائیں گے۔پس ہمیشہ اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ خلافت کی طرف سے بھی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں شریعت اور سنت کے مطابق ہی احکام دیے جاتے ہیں اور دیے جاتے رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ اگر اطاعت کرو گے تو ہدایت پاؤ گے ورنہ اس سے ہٹ کر کوئی نجات کا راستہ نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ پھر فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے والوں اور نیک عمل کرنے والوں سے اللہ تعالیٰ کا خلافت جاری رہنے کا وعدہ ہے۔ نیک اعمال ان کے ہی نہیں ہیں جو صرف اپنی عبادتوں کی طرف توجہ دیتے ہیں اور اپنی عبادتیں اللہ تعالیٰ کے لیے خالص کرتے ہیںا ور ہر قسم کے شرک سے بچتے ہیں۔ صرف ظاہری شرک نہیں بلکہ دنیاوی خواہشات اور ان کے پیچھے پڑ کر دین کو ثانوی حیثیت دینے کی حالت بھی شرک کی حالت ہے۔ بے شک یہ بہت بڑی نیکیاں ہیں لیکن ساتھ ہی اطاعت جو ہے وہ بہت ضروری ہے۔
پس خلافت کا جو وعدہ ہے اگر اس کے فیض سے صحیح فائدہ اٹھانا ہے تو پھر نہ صرف اپنی عبادتوں کی حفاظت کرنی ضروری ہے۔ دنیاوی خواہشات کے شرک سے بچنے کی بھی ضرورت ہے۔ خلیفۂ وقت کی کامل اطاعت کرنی بھی ضروری ہے ورنہ پھر نافرمانوں میں شمار ہو گا اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے فرمایا ہے کہ اصل میں تو پھر بیعت سے باہر ہو جائیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومنوں کی جماعت، خلافت سے وابستہ رہنے والوں کی جماعت نمازوں کو قائم رکھنے والی جماعت ہے۔ نمازوں کے قیام کی طرف توجہ دینے والی ہے۔ مسجدوں کو آباد کرنے والی ہے اور زکوٰة دینے والی ہے۔ اپنے اموال کا تزکیہ کرنے والی ہے۔ خدا اور اس کے رسولؐ اور اس کے دین کی خاطر مالی قربانیاں دینے والی ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر حتی الوسع عمل کرنے والی ہے اور جب یہ حالت ہوتی ہے تو پھر اللہ تعالیٰ ایسے بندوں پر رحم فرماتا ہے۔
پس اللہ تعالیٰ کے رحم کو جذب کرنے کے لیے اپنی حالتوں کو سنوارنے کی ضرورت ہے اور جب اللہ تعالیٰ کا رحم ہمیں اپنی رحمانیت اور رحیمیت کی چادر میں لے لے گا تو پھر دشمن کا ہر مکر اس پر الٹا دیا جائے گا اور وہ اپنے بدترین انجام کو پہنچے گا۔ ان شاء اللہ۔ پس اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے کے لیے ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کس حد تک ہم میں اطاعت کا مادہ ہے۔ کس حد تک ہم اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کر رہے ہیں۔کس حد تک ہم اپنی عبادتوں کو سنوار رہے ہیں۔ کس حد تک سنت پر عمل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔کس حد تک ہماری اطاعت کے معیار ہیں۔ یہ جائزے خود ہمیں اپنے آپ سے لینے چاہئیں۔
اب میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے بعض باتیں پیش کروں گا جو آپؓ نے مختلف وقتوں میں بیان فرمائیں کہ کس طرح جماعت کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام کی وفات کے بعد ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑا جو ہر ایک کو بے چین کر رہے تھے اور پھر خلافت نے سکون بخشا۔ وہ لوگ جو بعد میں خلافت کی بیعت سے ہٹ گئے اور پیغامی یا غیر مبائع کہلائے ان کا پہلے کیا رویّہ تھا اور پھر خلافتِ ثانیہ کے انتخاب کے بعد کیا رویّہ تھا؟ پہلے اور پھر بعد میں کس قسم کے ان کے خیالات تھے؟ پھر دشمن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی وفات کے بعد کس طرح خوش تھا لیکن حضرت خلیفہ اولؓ کے خلیفہ منتخب ہونے کے بعد کس طرح کھسیاہٹ کا اظہار کیا اور پھر حضرت خلیفة المسیح الاوّلؓ کی وفات کے بعد مخالفینِ احمدیت کو ایک اَور امید پیدا ہوئی کہ اب جماعت ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گی لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی جماعت کو کس طرح سنبھالا اور پھر کس طرح خوف کی حالت کو امن کی حالت میں بدلا؟ یہ چند تاریخی حوالے ہیں جو نوجوانوں اور کم علم والوں کی ایمان میں مضبوطی کے لیے بھی ضروری ہیں یہ آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں اور اس لیے بھی ضروری ہیں کہ ہر ایک کو کچھ نہ کچھ تاریخ سے بھی آگاہی ہونی چاہیے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے وقت مسلمانوں کی جو حالت تھی وہ بیان فرماتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی وفات کے وقت بھی، وصال کے وقت بھی ہمارا یہ حال تھا۔ آپ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے وقت بھی جماعت کی ذہنی کیفیت وہی تھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں صحابہؓ کی تھی۔ چنانچہ ہم سب یہی سمجھتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ابھی وفات نہیں پا سکتے۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ کبھی ایک منٹ کے لیے بھی ہمارے دل میں یہ خیال نہیں آیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام جب فوت ہو جائیں گے تو کیا ہو گا۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ میں اس وقت بچہ نہیں تھا بلکہ جوانی کی عمر کو پہنچا ہوا تھا۔ میں مضامین لکھا کرتا تھا۔ میں ایک رسالے کا ایڈیٹر بھی تھا مگر میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ کبھی ایک منٹ، بلکہ ایک سیکنڈ کے لیے بھی میرے دل میں یہ خیال نہیں آیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام وفات پا جائیں گے حالانکہ آخری سالوں میں متواتر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو ایسے الہامات ہوئے جن میں آپؑ کی وفات کی خبر ہوتی تھی۔ اورآخری ایام میں تو ان کی کثرت اَور بھی بڑھ گئی تھی مگر باوجود اس کے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایسے الہامات ہوتے رہے ہیں اور باوجود اس کے کہ بعض الہامات و کشوف میں آپؑ کی وفات کے سال اور تاریخ وغیرہ کی بھی تعیین تھی اور باوجود اس کے کہ ہم الوصیت میں پڑھتے تھے، ہم یہی سمجھتے تھے کہ یہ باتیں شاید آج سے دو صدیاں بعد پوری ہوں گی۔ اس لیے اس بات کا خیال بھی دل میں نہیں گزرتا تھا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام وفات پا جائیں گے تو کیا ہو گا۔ اور چونکہ ہماری حالت ایسی تھی کہ ہم سمجھتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام ہمارے سامنے فوت ہی نہیں ہو سکتے اس لیے جب واقعہ میں آپؑ کی وفات ہو گئی تو ہمارے لیے باور کرنا مشکل تھا کہ آپؑ فوت ہو چکے ہیں۔ چنانچہ آپؓ لکھتے ہیں کہ مجھے خوب یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی وفات کے بعد جب آپؑ کو غسل دے کر کفن پہنایا گیا تو چونکہ ایسے موقعے پر بعض دفعہ ہوا کے جھونکے سے کپڑا ہل جاتا ہے یا بعض دفعہ مونچھیں ہل جاتی ہیں، (بال ہل جاتے ہیں) اس لیے بعض دوست دوڑتے ہوئے آتے اور کہتے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو زندہ ہیں۔ ہم نے آپؑ کا کپڑا ہلتے دیکھا ہے، یا مونچھوں کے بالوں کو ہلتے دیکھا ہے اور بعض کہتے کہ ہم نے کفن کو ہلتے دیکھا ہے۔
اس کے بعد جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی نعش کو قادیان لایا گیا تو اسے باغ میں ایک مکان کے اندر رکھ دیا گیا۔ کوئی آٹھ نو بجے کا وقت ہو گا، (یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد کہ وفات کے بعد تو ہم سب کی یہ حالت تھی پھر کہتے ہیں جب نعش قادیان پہنچی ہے آٹھ نو بجے کا وقت ہو گا تو) خواجہ کمال الدین صاحب باغ میں پہنچے اور مجھے علیحدہ لے جا کر کہنے لگے کہ میاں !کچھ سوچا بھی ہے کہ اب حضرت صاحبؑ کی وفات کے بعد کیا ہو گا۔ میں نے کہا کچھ ہونا تو چاہیے مگر یہ کہ کیا ہو اس کے متعلق میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ وہ کہنے لگے کہ میرے نزدیک ہم سب کو حضرت مولوی صاحب، (حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی بیعت کر لینی چاہیے۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ اس وقت کچھ عمر کے لحاظ سے بھی اور کچھ اس وجہ سے بھی کہ میرا مطالعہ باوجود اس کے کہ مطالعہ کرتا تھا لیکن پھر بھی کم تھا مَیں نے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو یہ کہیں نہیں لکھا کہ آپؑ کے بعد کسی اَور کی بھی بیعت کر لیں اس لیے حضرت مولوی صاحبؓ کی ہم کیوں بیعت کریں؟ آپؓ لکھتے ہیں گو الوصیت میں اس کا ذکر تھا مگر اس وقت میرا ذہن اس طرف گیا ہی نہیں۔ پھر آپؓ فرماتے ہیں کہ انہوں نے اس پر میرے ساتھ بحث شروع کر دی اور کہا کہ اگر اس وقت ایک شخص کے ہاتھ پر بیعت نہ کی گئی تو ہماری جماعت تباہ ہو جائے گی۔ پھر انہوں نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی تو یہی ہوا تھا کہ قوم نے حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کر لی تھی۔ (یہ بڑی اہم بات ہے کہ اس وقت خواجہ صاحب یہ فرما رہے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قوم نے حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کر لی تھی اور آپؓ کو خلیفہ تسلیم کر لیا تھا۔ پھر خواجہ صاحب نے کہا کہ) اس لیے اب بھی ہمیں ایک شخص کے ہاتھ پر بیعت کر لینی چاہیے اور اس منصب کے لیے حضرت مولوی صاحبؓ سے بڑھ کر ہماری جماعت میں اور کوئی شخص نہیں۔ پھر خواجہ صاحب نے حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کو کہا کہ مولوی محمد علی صاحب کی بھی یہی رائے ہے اور وہ کہتے ہیں کہ تمام جماعت کو مولوی صاحب کی بیعت کرنی چاہیے۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ آخر جماعت نے متفقہ طور پر حضرت خلیفة المسیح الاوّل ؓکی خدمت میں درخواست کی کہ آپ لوگوں سے بیعت لیں۔ اس پر باغ میں تمام لوگوں کا اجتماع ہوا اور اس میں حضرت خلیفہ اولؓ نے ایک تقریر کی اور فرمایا کہ مجھے امامت کی کوئی خواہش نہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ کسی اَور کی بیعت کر لی جائے۔ چنانچہ آپؓ نے، حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ آپؓ نے اس سلسلے میں پہلے میرا نام لیا، پھر ہمارے نانا جان میر ناصر نواب صاحبؓ کا نام لیا، پھر ہمارے بہنوئی نواب محمد علی خان صاحبؓ کا نام لیا۔ اسی طرح بعض اَور دوستوں کے نام لیے لیکن ہم سب لوگوں نے متفقہ طور پر یہ عرض کیا کہ اس منصبِ خلافت کے اہل آپ ہی ہیں۔ چنانچہ سب لوگوں نے آپؓ کی بیعت کر لی۔‘‘
(ماخوذ از خلافتِ راشدہ۔ انوارالعلوم جلد نمبر15 صفحہ نمبر 489تا491)
بلکہ بعض روایات کے مطابق تو خواجہ صاحب نے یہ اشتہار بھی، اعلان بھی شائع کروایا تھا کہ رسالہ الوصیت کی رُو سے ہمیں اپنا ایک واجب الاطاعت خلیفہ منتخب کرنا چاہیے اور اس کے لیے حضرت خلیفة المسیح الاولؓ کا نام پیش کیا تھا۔ تو بہرحال یہ پہلے ان لوگوں کی ایک سوچ تھی۔ حالات کی وجہ سے اپنے مقاصد پورا کرنے کے لیے ہو سکتا ہے یہ سوچ ہو۔ ان لوگوں نے حضرت خلیفة المسیح الاولؓ کی بیعت تو کر لی لیکن دل میں جو اطاعتِ خلافت کی سچی روح ہونی چاہیے وہ نہیں تھی اور دل میں کچھ اَور تھا ۔ اس لیے اس تدبیر اور فکر میں بھی رہتے تھے کہ کس طرح خلافت پر انجمن کو بالا سمجھا جائے یا کیا جائے۔ اور پھر سب اختیار انجمن کے ذریعہ سے اپنے قبضے میں لے لیں۔ یہ بھی ان عمائدین کا خیال تھا۔ ان لوگوں کی اس نیت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیںکہ
ابھی آپؓ کی بیعت پر پندرہ بیس دن ہی گزرے تھے (یعنی خلیفہ اولؓ کی بیعت پر پندرہ بیس دن گزرے تھے )کہ ایک دن مولوی محمد علی صاحب مجھے ملے اور کہنے لگے کہ میاںصاحب !کبھی آپ نے اس بات پر غور بھی کیا ہے کہ ہمارے سلسلے کا نظام کیسے چلے گا؟ میں نے کہا اس پر اب اور غور کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ ہم نے حضرت مولوی صاحبؓ کی بیعت جو کر لی ہے۔ وہ کہنے لگے وہ تو ہوئی پیری مریدی۔ سوال یہ ہے کہ اس سلسلے کا نظام کس طرح چلے گا۔ میں نے کہا کہ میرے نزدیک تو اب یہ بات غور کرنے کے قابل ہی نہیں کیونکہ جب ہم نے ایک شخص کی بیعت کر لی ہے تو وہ اس امر کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہے کہ کس طرح سلسلے کا نظام قائم کرنا چاہیے۔ ہمیں اس میں دخل دینے کی کیا ضرورت ہے ۔ اس پر وہ خاموش تو ہو گئے مگر کہنے لگے کہ یہ بات غور کے قابل ہے۔
(ماخوذ از خلافت راشدہ صفحہ 48 تا 50۔ انوارالعلوم جلد نمبر15 صفحہ491)
تسلی نہیں ہوئی۔ تو اس بات سے ان لوگوں کے اندرونی حالات کا پتا چل جاتا ہے۔ اندرونی دلی حالت کا پتا چل جاتا ہے کہ حضرت خلیفة المسیح الاولؓ کی بیعت بھی کسی مقصد کے لیے کی گئی تھی، دل سے نہیں۔ اس لیے دلوں کے امن بھی قائم نہیں رہے، سکون بھی قائم نہیں رہا ۔اللہ تعالیٰ کا خلافت کی بیعت کے ساتھ امن کی حالت پیدا کرنے کا جو وعدہ ہے وہ ان میں پیدا نہیں ہو سکا۔ اطاعت جو تھی، کامل اطاعت اس کے اندر وہ رہنا نہیں چاہتے تھے اور اس روحانی نظا م کو بھی دنیاوی نظام کی طرح چلانا چاہتے تھے اور پھر نتیجہ بھی دیکھ لیا کہ اب نام کے یہ لوگ رہ گئے ہیں۔ چند ایک یا شاید کہیں چند سَو ہوں ۔ بلکہ حقیقت میں چند ایک ہی کہنا چاہیے جو ان کے بنائے ہوئے نظام کے مطابق ان کے ساتھ ہیں اور جو خلافت کے زیرِ سایہ جماعت ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب دنیا کے 212 ممالک میں قائم ہو چکی ہے۔
پھر اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ دشمن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی وفات پر جماعت کے مستقبل کے بارے میں کیا اظہار کیا کرتا تھا، حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فوت ہوئے تو عام طور پر خیال کیا جاتا تھا کہ اب یہ سلسلہ تباہ ہو جائے گا اور دشمن خوش تھا کہ چندہ آنا بند ہو جائے گا اور جماعت کی ترقی رک جائے گی کیونکہ حضرت مسیح موعودؑ کی خاطر لوگ چندہ دیتے تھے۔ مگر جب لوگوں نے ایک دو سال کے بعد دیکھا کہ جماعت افراد کی تعداد کے لحاظ سے بھی بڑھ گئی ہے قربانی کے لحاظ سے بھی بڑھ گئی ہے اور اشاعتِ دین کے لحاظ سے بھی بڑھ گئی ہے تو انہوں نے یہ نئی بات بنا لی کہ اصل میں مولوی نورالدین صاحب جماعت میں ایک بہت بڑے عالم ہیں اور سلسلے کی تمام ترقی کا انحصار انہی پر ہے اور مرزا صاحب کی زندگی میں بھی تمام کام مولوی صاحب ہی کرتے تھے گو ظاہر میں مرزا صاحب کا نام رہتا تھا۔ بلکہ آپؓ فرماتے ہیں کہ کئی مولوی طرز کے لوگ جو ظاہری امور کی قدر زیادہ کرتے ہیں وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے زمانے میں بھی کہا کرتے تھے کہ اس سلسلے کو مولوی نور الدینؓ چلا رہے ہیں۔ انہوں نے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد دیکھا کہ مولوی صاحبؓ کے زمانے میں سلسلہ پہلے سے زیادہ ترقی کر رہا ہے تو دوسرا گروہ جو مولویوں کا تھا انہوں نے اپنی بات کو بالکل پلٹا اور انہوں نے کہنا شروع کر دیا، خوش ہو کر یہی کہنا شروع کر دیا کہ ہم نہیں کہتے تھے کہ تمام کام مولوی نورالدین صاحبؓ کر رہے ہیں۔ اس لیے مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی وفات کے بعد بھی کوئی فرق نہیں پڑا اور مولوی صاحبؓ، حضرت مولانا نورالدین صاحبؓ کی وجہ سے ہی جماعت چل رہی ہے۔
(ماخوذ از خطباتِ محمودؓ جلد 21 صفحہ 413)
پھر ایک مولوی کا اس بارے میں ذکر کرتے ہوئے آپؓ فرماتے ہیں کہ گجرات کے دوستوں نے مجھے سنایا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فوت ہوئے تو ایک اہلِ حدیث مولوی نے ہمیں کہا کہ اب تم لوگ قابو آئے ہو کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہر نبوت کے بعد خلافت ہوتی ہے۔ (تم جو کہتے ہو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نبی ہیں، چاہے غیر شرعی نبی ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں نبوت ملی ہے لیکن کہتے تو یہ ہو کہ نبوت ہے تو نبوت کے بعد تو خلافت ہوتی ہے) اور تم میں خلافت اب نہیںہو گی۔ تم لوگ انگریزی دان ہو اس لیے خلافت کی طرف تم نہیں جاؤ گے۔ وہ دوست بتاتے ہیں کہ دوسرے دن تار موصول ہوئی، (اس زمانے میں تاریں چلا کرتی تھیں، ڈاک خانے کے ذریعے تار جایا کرتی تھی۔ آج کل تو ایک سیکنڈ میں یہاں سے خبریں انٹرنیٹ کے ذریعے، فون کے ذریعے وائرل (viral)ہو جاتی ہیں، لیکن اس زمانے میںتار کا نظام تھا اور تار بھی دوسرے تیسرے دن بعض دفعہ پہنچتی تھی۔ تو بہرحال کہتے ہیں دوسرے دن تار موصول ہوئی )کہ جماعت نے حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کی بیعت کر لی ہے اور ان کو اپنا خلیفہ بنا لیا ہے۔ جب احمدیوں نے اس مولوی کو بتایا تو کہنے لگا کہ نورالدین تو بڑا پڑھا لکھا آدمی ہے۔ اس لیے اس نے جماعت میں خلافت قائم کر دی۔ اگر اس کے بعد خلافت رہی تو پھر دیکھیں گے۔ پھر آپؓ فرماتے ہیں کہ جب حضرت خلیفہ اولؓ فوت ہوئے تو کہنے لگا کہ اُس وقت اَور بات تھی۔ اب کوئی خلیفہ بنے گا تو دیکھیں گے۔ دوست بتاتے ہیں کہ اگلے دن تار پہنچ گئی کہ جماعت نے میرے ہاتھ پر بیعت کر لی ہے۔ اس پر کہنے لگا۔ یارو تم بڑے عجیب لوگ ہو تمہارا کوئی پتا نہیں لگتا۔
(ماخوذ از نبوت اور خلافت اپنے وقت پر ظہور پذیر ہو جاتی ہیں، انوار العلوم جلد 18 صفحہ 242)
مانا پھر بھی نہیں۔ تو اب بھی یہی کہتے ہیں اور اسی وجہ سے ان میں حسد کی آگ مستقل لگی ہوئی ہے جیسا کہ میں پہلے بھی بعض دفعہ بتا چکا ہوں کہ انتخابِ خلافتِ خامسہ کے وقت ایک مولوی صاحب کہنے لگے کہ سارا کچھ نظارہ میں نے دیکھا ہے۔ لگتا تو یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت تم لوگوں کے ساتھ ہے لیکن یہ نشان دیکھ کر بھی ماننے کے بجائے حسد اور مخالفت اور بغض میں بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ بہرحال اللہ تعالیٰ تو خلافت سے وابستہ جماعت کو ترقی دے رہا ہے۔ جماعتیں دنیا میں پھیل رہی ہیں اور دور دراز ملکوں میں بیٹھے ہوئے بھی خلافت سے وفا کا تعلق رکھے ہوئے ہیں اور اس میں بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ خلافت اور جماعت سے جڑنے والوں کی رہنمائی بھی فرماتا ہے اور ان کو خود اس خلافت کی طرف لے کر بھی آتا ہے۔ کس طرح لے کر آتا ہے؟ اس کی ایک دو مثالیں میں پیش کر دیتا ہوں۔ جیسا کہ مولوی صاحب نے کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت تمہارے ساتھ ہے تو اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت کے ساتھ ہونے کی ایک مثال یہ ہے اور یہ اس لیے ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی غلام ہم ہیں اور اللہ تعالیٰ کی حقیقی تعلیم ، اصل تعلیم کو ہم دنیا میں پھیلا رہے ہیں۔ گنی بساؤ ایک دور دراز ملک ہے۔ وہاں کی ایک معمر خاتون ہیں کہتی ہیں کہ ایک دن میں نے خواب میں دیکھا کہ ہمارے مشنری انہیں ایک کتاب دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تمہاری نجات اسی کتاب میں ہے۔ کہتی ہیں جب میں خواب میں کتاب کھولتی ہوں تو اس میں ایک تصویر بھی ہوتی ہے۔ میں مشنری سے پوچھتی ہوں کہ یہ کون ہیں تو وہ بتاتے ہیں کہ یہ خلیفة المسیح ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے اب چنا ہے۔ کہتے ہیں اگلے دن وہ خاتون ہمارے مشنری کے پاس آئیں تو مشنری نے انہیں بتایا کہ آپ کی خواب تو کسی تعبیر کی محتاج نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خود آپ کی رہنمائی کر دی ہے۔ اس پر وہ خاتون کہنے لگیں کہ خدا کی قسم! میں آج سے احمدی ہوں اور واقعی احمدیوں کا خلیفہ خدا تعالیٰ کا بنایا ہوا ہے۔ یہ خلافت جو جاری ہے یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ چنانچہ اسی وقت اس نے بیعت کر لی اور بیعت کرنے کے بعد تمام جماعتی پروگراموں میں وہ حصہ لیتی ہیں اور اپنی توفیق کے مطابق چندہ بھی دیتی ہیں اور بڑی بہادری کے ساتھ تبلیغ بھی کر رہی ہیں اور لوگوں کو بتاتی ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے خود ان کی رہنمائی کی۔
اسی طرح ایک مصری دوست ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں انتہائی برائیوں میں مبتلا تھا، جھگڑالو قسم کا تھا اور ایم۔ٹی۔اے پر آپ کے خطبے دیکھ کر مجھے دین کی طرف رغبت پیدا ہوئی اور پھر میں نے عہد کر لیا کہ میں احمدی ہو جاؤں گا کیونکہ یہی خلافت ہے جو ہماری صحیح رہ نمائی کر رہی ہے۔ اسی طرح بعض اور مثالیں ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ مختلف وقتوںمیں مختلف جگہوں پر، مختلف ملکوں میں لوگوں کی رہ نمائی کر رہا ہے۔
مشنری انچارج صاحب کہتے ہیں کہ کیمرون کے شہر مروہ میں لوگ ایم۔ٹی۔اے دیکھتے ہیں اور ایم۔ٹی۔اے افریقہ جب سے شروع کیا گیا ہے بہت کثرت سے لوگ دیکھ رہے ہیں اور وہاں خاص طور پر خطبات کو ضرور سنتے ہیں اور خطبات کو سننے کے بعد ان میں ایک تبدیلی پیدا ہو رہی ہے اور جماعت کی طرف رجحان بھی بڑھ رہا ہے۔ اور جو احمدی ہیں وہ مضبوط ایمان بھی ہو رہے ہیں اور زیادہ سے زیادہ ان کی کوشش ہے اپنے آپ کو خلافت سے وابستہ رکھیں، وابستہ کریں اور کامل اطاعت کے نمونے بھی دکھائیں۔ تو بہرحال یہ جو خلافت سے تعلق اور محبت ہے یہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ ہے اور جب تک خلافتِ احمدیہ سے یہ تعلق اور محبت رہے گی خوف کی حالت بھی امن میں بدلتی رہے گی اور اللہ تعالیٰ لوگوںکے تسلی کے سامان بھی پیدا فرماتا رہے گا۔ ان شاء اللہ۔
مختلف جگہوں پر جب میں دوروں پر بھی جاتا ہوں تو لوگ بتاتے ہیں، اس کے علاوہ بہت سارے خطوط بھی آتے ہیں کہ کس طرح ان کو احمدیت قبول کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے خلافت سے تعلق پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائی اور کس طرح ان کی ایسی حالتوں کو جہاں وہ انتہائی پریشانی کی حالت میں تھے امن بھی عطا فرمایا۔ پس جو خلافت سے وابستہ رہیں گے، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے حکموں پر عمل کرتے رہیں گے، اپنی نمازوں کی حفاظت کریں گے، تزکیہ نفس اور تزکیہ اموال کرتے رہیں گے، اطاعت میں اعلیٰ معیار قائم کرتے رہیں گے وہ ان شاء اللہ تعالیٰ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنتے رہیں گے۔ پس خلافتِ احمدیہ کے ذریعے ہی دنیا اب امّتِ واحدہ بننے کا نظارہ بھی دیکھ سکتی ہے اور اس کے بغیر نہیں۔ پس اس کے حصول کے لیے، اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو دائمی طور پر حاصل کرنے کے لیے افرادِ جماعت کو، ہم میں سے ہر ایک کو ہمیشہ دعائیں کرتے رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اس فیض کو ہم میں ہمیشہ جاری رکھے۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم تمام دنیا کو مسلمان بنانے والے ہوں، امتِ واحدہ بنانے والے ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لانے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
گذشتہ خطبے میں جو یہاں مسجد کا افتتاح کا خطبہ تھا ، مَیں ایک ذکر کرنا بھول گیا تھا کہ اس مسجد کی جب بنیاد رکھی گئی تھی تو میں کینیڈا کے سفر پہ تھا شاید۔ شاید نہیں بلکہ تھا یا جا رہا تھا اور جب انہوں نے تاریخ مقرر کی ہے اور جو تاریخ تھی وہ میرے سفر پر جانے کے بعد کی تھی تو بہرحال سفر کی وجہ سے اینٹ پے دعا کرواکے انہوں نے مجھ سے لے لی تھی اور پھر اس مسجد کی بنیاد 10؍ اکتوبر 2016ء کو دعاؤں کے ساتھ مکرم عثمان چینی صاحب مرحوم نے رکھی تھی اور اس مسجد کی بنیاد کے ساتھ ہی اس سارے پراجیکٹ کی بھی تعمیر شروع ہوئی تھی۔ تو بنیاد اس مسجد کی مکرم عثمان چینی صاحب نے رکھی تھی اور اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے چینی قوم کا بھی اس میں حصہ ہے اور اس لیے ہمیں دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ چین میں بھی اسلام کو جلد پھیلانے کی ہمیں توفیق عطا فرمائے۔ مکرم عثمان چینی صاحب کی بڑی خواہش تھی، ہر وقت اس فکر میں رہتے تھے کہ چین میں کسی طرح احمدیت اور اسلام کا حقیقی پیغام پہنچ جائے۔ ہمیں جہاں ان کے درجات کی بلندی کے لیے دعا کرنی چاہیے وہاں چین میں بھی اور دنیا کے ہر ملک میں بھی احمدیت اور حقیقی اسلام کے پھیلنے کے لیے بہت دعائیں کرنی چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ اس کی توفیق دے۔
٭…٭…٭