انٹرنیشنل ریفریشر کورس بر موقع صد سالہ جوبلی دار القضاء سلسلہ عالیہ احمدیہ کے اختتامی اجلاس سے حضرت امیر المومنین کا خطاب فرمودہ (20جنوری2019ء بمقام طاہر ہال بیت الفتوح )
اللہ تعالیٰ نے خلافت کے کاموں میں سے ایک بہت بڑا اور اہم کام انصاف کو قائم کرنا بھی رکھا ہے
(اس خطاب کا متن ادارہ الفضل انٹرنیشنل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ-بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾ إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷﴾
اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ میں قضاء کے ادارے کو قائم ہوئے ایک سو سال ہو گئے ہیں اور آج آپ یہاں اس لیے جمع ہیں کہ سو سال پورے ہونے پر اللہ تعالیٰ کا اس بات پر شکر ادا کریں کہ اس نے ہمیں سو سال تک اس ادارے کو چلانے کی توفیق عطا فرمائی اور ہمیں اس کا حصہ بنایا یا ہمیں توفیق عطا فرمائی کہ اس میں خدمت کر سکیں، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بنائے ہوئے قوانین کے مطابق قضاء کے نظام کو چلانے کی اپنی تمام تر صلاحیتوں اور استعدادوں کے ساتھ کوشش کریں۔ میں امید رکھتا ہوں کہ مختلف ممالک میں جو بھی قضاء کے ممبران ہیں یا قاضی مقرر ہوئے ہوئے ہیں۔ اکثر نے اس کے مطابق کوشش کی ہو گی۔
پاکستان اور ہندوستان میں تو قضاء کا نظام جب سے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اس کو باقاعدہ قائم فرمایا، جاری ہے۔ خاص طور پر پاکستان میں تو ہجرت کے بعد اس کا تسلسل جاری رہا۔ خلیفۂ وقت کے پاکستان ہجرت کرنے کی وجہ سے وہاں تو پاکستان کے وجود کے ساتھ ہی نظام جماعت کے ہر ادارے کا وجود ہے یا وہ جاری ہو گیا۔ ہندوستان میں شاید کچھ عرصہ حالات کی وجہ سے اس میں تسلسل نہ رہا ہو، تعطل ہو گیا ہو لیکن بہرحال جماعتی ادارے تو خلافت سے وابستہ ہیں اس لیے اِن کی عمر اُن کے قیام سے ہے نہ کہ کسی ملک کے قیام یا مسائل کا شکار ہونے پر کسی وقفے یا تسلسل نہ رہنے سے۔
اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے بہت سے ممالک میں قضاء کا نظام قائم ہو چکا ہے جیسا کہ ابھی رپورٹ میں بھی پیش ہوا۔ کئی ممالک یہاں نمائندگی کر رہے ہیں۔ کہیں دو تین سال سے یہ نظام جاری ہے، کہیں دس پندرہ سال سے، بیس سال سے یا پچیس سال سے اور پھر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے پاکستان سے باہر ملکوں میں قضاء کے نظام کو جب قائم فرمایا تو اس وقت آخری بورڈ پاکستان میں ہی رکھا ،یا شاید اس سے بھی پہلے مقرر کر دیا ہو کیونکہ ان کا قضاء کے بارے میں جو پہلا ارشاد ہے 1982ء کا ہے اور اس وقت میرے خیال میں بعض ملکوں میں قضاء کا نظام جاری ہو چکا تھا۔ اور اسی طرح مرکزی قضاء کے دفتر سے تمام دنیا کی قضاء کے شعبہ کا رابطہ بھی ہے اور رہنمائی بھی ہے۔ مجھے پتہ لگا ہے کل صدر صاحب قضاء بورڈ ربوہ نے بڑی تفصیل سے رہنمائی فرمائی ہے اور لوگوں نے اسے پسند بھی کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ تمام قاضی اس رہنمائی کو اپنے اپنے ملکوں میں قضاء کی کارروائی کا حصہ بنانے والے بھی ہوں۔
سوائے اب بھارت کے شعبہ قضاء کے جہاں پہلے غالباً 89ءسے 2005ء تک پانچ رکنی قضاء بورڈ قائم نہیں رہا اور باقی ممالک والا اصول ہی تھا۔ 89ء سے لے کر 2005ء تک کا جو وقفہ رہا اس میں ان کے مقدمات بھی آخری پانچ رکنی بورڈ کے فیصلہ کے لیے قضاء پاکستان میںہی آتے تھے پھر قادیان کی قضاء کو میں نے 2005ء میں یہ اختیار دے دیا تھا کہ وہ اپنے فیصلے پانچ رکنی بورڈ تک لے جانے کے لیے قادیان میں ہی رکھیں۔
بہرحال یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ قاضی کی ذمہ داری بہت زیادہ ہے اور اسے سب فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر انصاف کے اعلیٰ معیار پر اپنی تمام تر صلاحیتوں اور استعدادوں اور عقل پر رکھ کر کرنے چاہئیں لیکن پانچ رکنی بورڈ کی بہت بڑی ذمہ داری ہے کیونکہ جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے پانچ رکنی بورڈ کی تشکیل دی یا اس کو آخری اپیل کا بورڈ بنایا تو یہ بھی فرمایا تھا کہ اس کے متفقہ فیصلے کو آخری سمجھا جائے گا اور اس کے متفقہ فیصلے کو اس قدر اہم قرار دیا تھا کہ پھر خلیفہ وقت کے پاس اپیل نہیں ہو گی۔ اس سے پہلے خلیفہ وقت کے پاس اپیل ہوسکتی تھی۔ پس اس سے قاضیوں کو جو خاص طور پر پانچ رکنی بورڈ کے ممبر ہیں اس اہمیت کا اندازہ ہو جانا چاہیے کہ خلیفہ وقت نے اپنے فیصلے کا اختیار پانچ رکنی بورڈ کو دیا ہے۔ پس اگر اس بات کو قاضی یا ممبران قضاء بورڈ اپنے سامنے رکھیں تو ان کے دل ہر وقت اللہ تعالیٰ کے خوف اور خشیت سے پُر رہیں۔ کسی بھی معاملے کو کبھی سرسری نہ دیکھیں۔ یہ میں اس لیے نہیں کہہ رہا کہ عموماً یہ ہوتا ہے لیکن بعض دفعہ بعض مقدمات میں یہ احساس ہوتا ہے کہ جس گہرائی سے معاملے کو دیکھا جانا چاہیے اور قرآن اور سنت اور حدیث اور زمانے کے حَکم اور عدل کے ارشادات کو جس طرح سامنے رکھا جانا چاہیے تھا، سامنے نہیں رکھا گیا۔ پس جب خلیفہ وقت نے اعتماد کر کے اپنے اختیار ایک بورڈ کو تفویض کیے ہیں تو بورڈ کے ہر ممبر کو اس کی اہمیت کا اندازہ ہونا چاہیے اور ہر سماعت کے وقت یہ بات سامنے ہونی چاہیے۔
اسی طرح فیصلے کو آخری شکل دیتے ہوئے بھی ممبران بورڈ کو یہ بات مدّنظر رکھنی چاہیے کہ جو فیصلہ لکھ رہے ہیں یہ صرف عام فیصلہ نہیں جو بورڈ نے لکھ دیا بلکہ بڑی گہرائی میں جا کر ہر چیز کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ لکھنا ہے اور پھر یہ بات صرف پانچ رکنی بورڈ پر ہی منحصر نہیں ہے، یہیں تک محدود نہیں ہے یا ان کا ہی کام نہیں ہے کہ انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے فیصلہ کرنا ہے۔ بلکہ یہ ہر قاضی کا کام ہے جسے خلیفہ وقت نے اس پر اعتماد کرکے فیصلہ کرنے کے لیے مقرر کیا ہے۔ ہر قاضی خلیفہ وقت کا نمائندہ ہے اور ہر عہدیدار نمائندہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خلافت کے کاموں میں سے ایک بہت بڑا اہم کام انصاف کو قائم کرنا بھی رکھا ہے جیسا کہ فرماتا ہے کہ فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَ لَا تَتَّبِعِ الْہَوٰی فَیُضِلَّکَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ (ص:27)پس تو لوگوں میں انصاف کے ساتھ فیصلے کر اور اپنی خواہشات کی پیروی مت کر۔ وہ تجھے اللہ کی راہ سے بھٹکا دے گی۔ پس خلیفۂ وقت کی نمائندگی میں ہر قاضی کا بھی اور ہر اس عہدیدار کا بھی یہ کام ہے جس کے ذمہ فیصلہ کے اختیارات ہیں۔ اگر یہ نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لیتے ہیں بلکہ دوہرے گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں کہ فرائض کی انصاف کے ساتھ بجا آوری نہیں کی اور دوسرے خلیفہ وقت کے اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچائی اور اس نے جو ایک اعتبار کیا تھا اس کو صحیح طرح انجام نہیں دیا اور اس کو بھی خدا تعالیٰ کے سامنے گناہگار ٹھہرانے کا باعث بن رہے ہیں۔ پس قاضیوں کی ذمہ داری کوئی معمولی ذمہ داری نہیں ہے۔
قضاء کے سو سال پورا ہونا بیشک اللہ تعالیٰ کا فضل ہے لیکن اس فضل کا حصہ ہر وہ شخص اس وقت بنے گا جب وہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق اس فرض کی انجام دہی کرے گا جو اس کے سپرد کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایک جگہ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَآءَ لِلہِ وَ لَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ اِنْ یَّکُنْ غَنِیًّا اَوْ فَقِیْرًا فَاللّٰہُ اَوْلٰی بِہِمَا ۔ فَلَا تَتَّبِعُوا الْہَوٰٓی اَنْ تَعْدِلُوْا۔ وَ اِنْ تَلْوٗٓا اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا۔ (النساء:136)اس آیت کا ترجمہ ہے کہ اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ کی خاطر گواہ بنتے ہوئے انصاف کو مضبوطی سے قائم کرنے والے بن جاؤ خواہ خود اپنے خلاف گواہی دینی پڑے یا والدین اور قریبی رشتہ داروں کے خلاف۔ خواہ کوئی امیر ہو یا غریب دونوں کا اللہ ہی بہترین نگہبان ہے۔ پس اپنی خواہشات کی پیروی نہ کرو مبادا عدل سے گریز کرو اور اگر تم نے گول مول بات کی یا پہلو تہی کر گئے تو یقیناً اللہ جو تم کرتے ہو اس سے بہت باخبر ہے۔
یہ آیت عمومی طور پر تو ہر ایک کے لیے ہے۔ ہمیں صرف یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ صرف گواہوں کے یا مسائل لانے والوں کے یا گواہی دینے والوں کے لیے ہی ہے۔ یہ صرف ان لوگوں کو محدود لائحہ عمل نہیں دیتی جن کی گواہیاں چاہئیں بلکہ مسائل اور معاملات حل کرنے والوں کے لیے اس میں لائحہ عمل ہے۔ پہلا حکم ہی اللہ تعالیٰ کی خاطر گواہ بنتے ہوئے انصاف پر مضبوطی سے قائم رہنے کا ہے یعنی تمہارا فیصلہ انصاف کے باریک در باریک پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے اور شریعت اور قانون کے تمام پہلو سامنے رکھتے ہوئے ہو۔ اور پھر اس کے معیار مقرر فرمائے ہیں کہ یہ تبھی ممکن ہے کہ جب تم اللہ تعالیٰ کی خاطر کام کر رہے ہو اور اللہ تعالیٰ کے خوف کو ہر وقت سامنے رکھتے ہوئے یہ بات ہو، یہ کام ہو اور پھر ساتھ یہ دعا بھی ہو کہ اللہ تعالیٰ فریقین کو سنتے ہوئے میرے دل و دماغ کی کیفیت کو بھی جانتا ہے اور اس کی مجھ پر نظر بھی ہے۔ یہ بات ہر وقت ذہن میں ہونی چاہیے۔ قاضی چاہے بورڈ میں ہو یا ویسے قاضی ہو جب بھی وہ کوئی معاملہ سن رہا ہے تو یہ بات سامنے ہونی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ میرے دماغ کی کیفیت کو بھی جانتا ہے اور اس کی مجھ پر نظر بھی ہے اور فیصلہ لکھتے ہوئے بھی یہ بات سامنے ہونی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ میری ہر کیفیت کو جانتا ہے، ہر حالت کو جانتا ہے اور اس کی مجھ پر نظر ہے۔
پھر یہ بھی ضروری ہے کہ قاضی اس معیار پر اپنے آپ کو پرکھیں کہ اگر وہ کسی مقدمے میں فریق ہوں یا یہ کہ فریق کی جگہ وہ خود ہوں تو اپنے خلاف گواہی دیں گے؟ یعنی سچائی کو قول سدید کی حد تک بیان کریں گے؟ اور یہ کرنے سے کس قدر نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔ یہ بات بھی ان کے اپنے سامنے ہو۔ میں نے دیکھا ہے کہ بعض لوگ دوسروں کے لیے تو بڑا عمدہ فیصلہ کرتے ہیں اور فریقین سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ سچائی پر قائم رہیں۔ انہیں نصیحت بھی کرتے ہیں لیکن جب اپنے پر بات آئے تو معیار بدل جاتے ہیں۔ قانونی حیلوں کی آڑ میں بعض عہدے دار یا بعض فیصلہ کرنے والے بھی حقیقت کو چھپاتے ہیں۔
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ والدین تمہیں بہت پیارے ہیں۔ کیا اگر تم ملزم کے کٹہرے میں کھڑے ہو تو اتنی جرأت ہے کہ والدین کے خلاف گواہی دے سکو؟ پھر بیوی بچے ہیں، بہت پیارے ہیں اور خاص طور پر بچے تو پھر کیا ہمارا یہ معیار ہے کہ بچوں کے خلاف گواہی دینی پڑے تو دیں؟ یہ تقویٰ کا معیار ہے جو ہر عہدیدار اور فیصلہ کرنے والے کا ہونا چاہیے۔ حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب جو حضرت مسیح موعود کے صحابی ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے ان کے بیٹے تھے۔ یہ شاہ صاحب تعلیم حاصل کرنے کے لیے شام میں بھی رہے ہیں۔ حدیث کے بڑے عالم تھے۔ جماعت میں بخاری کی جلدوں کا بھی انہوں نے ترجمہ کیا اور شرح لکھی ہے۔ قادیان میں ان کے ایک بیٹے کو کسی بات پر تعزیر ہوئی۔ نوجوانی میں قدم رکھ رہا تھا۔ بچوں سے غلطیاں ہوتی ہیں۔ اس کے لیے جب تعزیر ہوئی تو نظام جماعت نے بدنی سزا تجویز کی لیکن ماں کی مامتا نے اس کو بچانے کی کوشش کی اور شکایت کرنے والوں، سزا دینے والوں پر غصہ کا اظہار کیا اور کہا کہ میرے بیٹے نے ایسی حرکت نہیں کی۔ اس پر شاہ صاحب نے انہیں فرمایا کہ تم غلط کہتی ہو۔ اگر تم نے کسی قسم کی ایسی گواہی دینے کی کوشش کی تو پھر یاد رکھو کہ مَیں تمہارے خلاف بھی گواہی دوں گا اور بیٹے کے خلاف بھی گواہی دوں گا اور نظام کو بتاؤں گا کہ میرا بیٹا غلط تھا اور اسے ضرور سزا دی جائے۔ تو یہ تقویٰ پر چلنے والوں کے معیار ہیں۔
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے عدل کے تقاضے پورے کرنے کے لیے ہر قسم کے اثر و رسوخ سے بالا ہو کر فیصلہ کرنا ہے۔ کوئی صاحب اثر ہے یا معمولی آدمی ہے، اللہ تعالیٰ کی نظر میں سب ایک ہیں اور اللہ تعالیٰ نے کسی بھی قسم کے جھگڑے کے معاملے میں حق دار کو حق دلوانے کا کہا ہے۔ اگر امیر کا حق بنتا ہے تو اسے دلواؤ اور اگر غریب کا حق بنتا ہے تو اسے دلواؤ۔
پھر اللہ تعالیٰ نے گول مول بات کرنے اور کسی شہادت کو چھپانے کی سختی سے مناہی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ تو ہر معاملہ کی تہ کو جانتا ہے۔ پس انصاف کے تقاضے بھی تبھی پورے ہوں گے جب ہر قاضی اپنے معاملات میں بھی یہ معیار قائم کرے۔ یہ نہیں کہ اگر اپنا کوئی مقدمہ عدالت میں پیش ہو تو اس کے لیے وہ معیار قائم نہ کرے جو وہ اپنے سامنے پیش ہونے والے فریقین سے چاہتا ہے اور جس کی انہیں نصیحت کرتا ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ بعض دفعہ فیصلہ کرنے والے بھی اپنے آپ کو کسی نقصان سے بچانے کے لیے یا اپنے قریبیوں کو نقصان سے بچانے کے لیے ایچ پیچ یا اثر و رسوخ کا سہارا لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ چیز انتہائی غلط ہے اور ہمارے نظام میں اس کی مکمل طور پر بیخ کنی ہونی چاہیے، ختم ہونا چاہیے۔ بہرحال انصاف کی کرسی پر بیٹھنے والے کو انصاف کے ہر پہلو کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہمدردی کے جذبے کے تحت اگر کہیں قانون اور شریعت کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے نرمی دکھانی ہے تو پھر بھی یہ ضروری ہے کہ دونوں فریقین کے ساتھ ہمدردی کا جذبہ ہو۔ ظالم اور مظلوم کی مدد کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔
(صحیح البخاری کتاب المظالم باب اعن اخاک ظالماً او مظلوماً حدیث 2444)
پس یہ باتیں اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتیں جب تک تقویٰ کا اعلیٰ معیار نہ ہو۔ ہر فیصلے کے لیے خدا تعالیٰ سے مدد مانگنے کے لیے دعا نہ کی جائے اور ہر مقدمے کو گہرائی میں جاکر، ہر پہلو کو دیکھ کر سماعت نہ ہو اور مقدمے میں اپنے آپ کو بھی اس معیار کے مطابق پرکھا نہ جائے جس کی اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ہدایت فرمائی ہے۔ تب تک انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوں گے۔ اگر اس طرح ہو گا تبھی انصاف کے تقاضے پورے ہوسکیں گے۔ نظام کے وسیع ہونے سے پاکستان میں بھی نئے نئے قاضی شامل ہو رہے ہیں اور ہوں گے۔ دوسری دنیا میں بھی، ممالک میں شامل ہو رہے ہیں اور ہوں گے لیکن ہمارے قاضی کا معیار صرف قانون جاننا یا شریعت جاننا یا صائب الرائےہونا ضروری نہیں ہے کہ وہ اچھی رائے دینے والا ہے بلکہ تقویٰ بھی ایک بہت بڑی شرط ہے اور اس کے حصول کے لیے خدا تعالیٰ سے اپنا تعلق اور ہر فیصلہ سننے کے لیے بیٹھتے ہوئے اور ہر فیصلہ لکھتے ہوئے خاص طور پر دعا کی ضرورت ہے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دفعہ قاضیوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا۔ یہ ارشاد گو اسّی بیاسی سال پرانا ہے لیکن اس کی اہمیت آج بھی قائم ہے۔ اس لیے میں نے اس وقت یہ سنانے کے لیے، آپ کے سامنے پیش کرنے کے لیے رکھ لیا ۔ آپؓ نے فرمایا کہ:
’’قاضیوں کو بھی چاہیے کہ جب وہ قضاء کی کرسی پر بیٹھے ہوئے ہوں اس وقت وہ چھوٹوں اور بڑوں، افسروں اور ماتحتوں، مزدوروں اور سرمایہ داروں، غریبوں اور امیروں، کمزوروں اور طاقتوروں کے تمام امتیازات کو مٹا کر بیٹھیں جس طرح خدا تعالیٰ مالک یوم الدین ہے اور اس کی بادشاہت میں کسی کی حق تلفی نہیں ہو سکتی اسی طرح وہ بھی‘‘ (یعنی قاضی صاحبان) ’’جزاء و سزا کے مالک ہوتے ہیں۔ انہیں بھی چاہیے کہ وہ خدا تعالیٰ کی اس صفت کے انعکاس میں فیصلہ کرتے وقت کسی کی حق تلفی نہ ہونے دیں۔ وہ قضاء کے وقت خلیفۃ اللہ ہوتے ہیں اور اس وقت ان کے دل پر کسی قسم کا اثر نہیں ہونا چاہیے بلکہ ان کا دل ایسا ہی غیر کے اثرات سے منزّہ ہونا چاہیے جیسے خدا تعالیٰ کا عرش ہوتا ہے اور اگر وہ اس کو نبھا نہیں سکتے تو پھر قضاء کا ہر فیصلہ قیامت کے دن ان کے گلے میں لعنت کا طوق بن کر پڑے گا۔ قضاء کوئی کھیل نہیں، تماشا نہیں بلکہ بہت بڑی ذمہ داری کا کام ہے … قضاء کا عہدہ معمولی عہدہ نہیں۔ اگر کوئی شخص سچے دل سے قضاء کے فرائض سرانجام دیتا ہے تو وہ خدا تعالیٰ کے عظیم الشان فضلوں کا وارث ہو جاتا ہے کیونکہ دنیا میں انصاف قائم کرنا کوئی معمولی بات نہیں۔ جس شخص کو قضاء کا عہدہ ملتا ہے اس کے لیے فوراً دو کھڑکیاں کھل جاتی ہیں ایک جہنم کی طرف سے اور ایک جنت کی طرف سے اور اس کے یہ اپنے اختیار میں ہوتا ہے کہ چاہے تو وہ جہنم میں چلا جائے اور چاہے تو جنت کا وارث بن جائے۔‘‘ (اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے دو دروازے کھول دیے)۔ ’’اگر وہ انصاف سے کام نہیں لیتا، بڑوں کی رعایت کرتا ہے، جلدی جوش میں آ جاتا ہے۔‘‘(یہ بھی بہت ضروری ہے۔ بعض جگہ یہ بھی شکایتیں آتی ہیں۔ قضاء میں قاضی اول بھی اوربعض دفعہ دو رکنی بورڈکے تحت قاضی صاحبان بھی بعض باتیں سن کے غصے میں آ جاتے ہیں یا جب کوئی فریق مدّعی یا مدعا علیہ صحیح جواب نہیں دے رہے ہوتے یا کوئی غلط بات کرتے ہیں تو جوش میں آجاتے ہیں حالانکہ قاضی کا کام یہ ہے کہ تحمل سے بات سنے اور تحمل سے سمجھائے۔)’’اور حقیقت معلوم کرنے کی پوری کوشش نہیں کرتا۔‘‘بعض دفعہ پہلے ہی دماغ بنایا ہوتا ہے کہ یہ اس لائن پر چلنا چاہیے۔ اگر اس کے الٹ بات فریق نے کی تو جوش میں آگئے اور جب جوش میںآ گئے تو پھر حقیقت معلوم نہیں ہوتی۔ تو یہی آپؓ نے فرمایا کہ پوری حقیقت معلوم کر نے کی کوشش کرنی چاہیے۔)’’تو جہنم اس کے قریب ہو جاتی ہے۔ اور اگر وہ انصاف سے کام لیتا ہے، بڑوں کا لحاظ نہیں کرتا، چھوٹوں کی حق تلفی نہیں کرتا اور جلد بازی سے کام نہیں لیتا بلکہ پورا غور کرنے کے بعد فیصلہ کرتا ہے تو جنت اس کے قریب ہو جاتی ہے اور باوجود اَور ہزاروں قسم کی کمزوریوں کے وہ جنت کا مستحق سمجھا جاتا اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث ہو جاتا ہے۔‘‘ فرماتے ہیں ’’پس میں قاضیوں کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ وہ دلیر، منصف اور عادل بننے کی کوشش کریں اور کسی انسان سے نہ ڈریں بلکہ خدا تعالیٰ سے ڈریں۔ قاضی ہونے کی صورت میں ان کا تعلق براہِ راست خدا تعالیٰ سے ہو جاتا ہے اور کوئی علاقہ درمیان میں نہیں ہوتا۔ پس انہیں صرف خدا تعالیٰ کی ذات پر اپنی نگاہ رکھنی چاہیے اور اگر دنیا کے سارے افسر، دنیا کے سارے حکام اور دنیا کے سارے بادشاہ مل کر بھی ان کے مخالف ہو جائیں تو وہ وہی کریں جو انصاف ہو اور کسی کا ڈراپنے دل میں پیدا نہ ہونے دیں مگر یہ شرط ہے کہ وہ قانون کے اندر رہتے ہوئے انصاف کریں۔ اگر قانون میں کوئی نقص ہے تو اس کی ذمہ داری ان لوگوں پر ہے جنہوں نے قانون بنایا قاضیوں پر نہیں۔ پس انہیں اس بات کی اجازت نہیں کہ قانون توڑیں بلکہ قانون کے اندر رہتے ہوئے وہ انصاف کریں اور ہر حق دار کو اس کا حق دلانے کی کوشش کریں۔‘‘
(خطباتِ محمودؓ جلد 17صفحہ 140 تا 142 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 13 مارچ 1936ء)
پس یہ خوبصورت ارشاد اس بات کی مزید وضاحت کر دیتا ہے جو میں بتا آیا ہوں اور جو اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول نے ایک قاضی کے لیے شرط رکھی ہے۔ جب انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے فیصلہ کریں گے تو پھر وہ فیصلہ بھی قابل قبول ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نظر میں وہ قبول ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرمایا، یہ اصول جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے یہ خاص قوم اور خاص حالات کے لیے نہیں ہے بلکہ ایک اصولی ہدایت ہے کہ وَ اِنْ حَکَمْتَ فَاحْکُمْ بَیْنَہُمْ بِالْقِسْطِ۔ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ ۔ (المائدۃ:43) اگر تو فیصلہ کرے تو ان کے درمیان انصاف سے فیصلہ کر۔ اللہ یقیناً انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ پس انصاف کا معیار جو بیان ہو چکا ہے اس کے مطابق فیصلہ اللہ تعالیٰ کی محبت کو حاصل کرنے والا بناتا ہے اور جب ایک قاضی نیک نیتی سے ایک فیصلہ لکھ رہا ہو تو پھر اللہ تعالیٰ مددگار بھی ہوتا ہے۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ فیصلہ کرتے وقت بعض دفعہ اگر مدّعی یا مدعا علیہ میں سے کسی کو سمجھانا پڑے کہ نرمی کا سلوک کرے۔ گو اس کا حق بنتا ہو کہ وہ اپنا پورا حق لے تو اس کو سمجھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ قاضی بات کر سکتا ہے، سمجھایا جا سکتا ہے لیکن میں پہلے بھی کہہ آیا ہوں کہ کسی فریق کو یہ احساس نہیں ہونا چاہیے کہ قضاء نے، قاضی نے فلاں فریق کی طرفداری کی ہے۔ عموماً میں نے دیکھا ہے کہ بعض لوگ شکایت کر دیتے ہیں اور قاضی کا اس میں کوئی قصور نہیں ہوتا۔ وہ تو جھگڑے کو احسن رنگ میں نپٹانے کے لیے بعض سوال بھی فریقین سے کرتا ہے اور قاضی تجویز بھی دے دیتا ہے کہ اس کا حل یوں بھی ہو سکتا ہے اور یوں بھی اور ہماری قضاء تو ویسے بھی ایک ثالثی ادارہ ہے لیکن اس سوال جواب کا بعض دفعہ غلط تاثر قائم ہو جاتا ہے جسے قاضی صاحبان کو وضاحت کر کے زائل بھی کرنا چاہیے۔
اسی طرح قضاء میں زیادہ تر ہمارے عائلی معاملات ہی عموماً آتے ہیں اور وہاں بھی حقوق میں جب حق مہر کے اوپر سوالات آتے ہیں تو بڑے سوال اٹھتے ہیں اور حالات دیکھ کر شریعت اجازت دیتی ہے کہ اگر قاضی چاہیں تو ان کو سمجھا کے حق مہر کم بھی کروا سکتے ہیں۔ حالات کاجائزہ بھی لے سکتے ہیں اور پھر فیصلہ لکھیں۔ بہرحال یہ قاضی کی ذمہ داری ہے کہ فریقین کی تسلی کروانے کی حتی المقدور کوشش کریں۔ یہ تو یقیناً ہے کہ جس ایک فریق کے خلاف فیصلہ ہو اس کے دل میں کچھ رنجشیں پیدا ہوتی ہیں، اعتراض پیدا ہوتے ہیں کہ اِس طرح نہیں ہوا اُس طرح نہیں ہوا لیکن قاضی کی طرف سے شریعت اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے حتی الوسع اپنی تمام صلاحیتوں کے ساتھ انصاف کے فیصلے کرنے کی کوشش ہونی چاہیے۔
اللہ تعالیٰ کرے کہ کسی بھی ملک میں کسی بھی سطح پر ہمارے قضاء کے نظام میں یہ تاثر قائم نہ ہو اور کسی فریق کو یہ شکوہ کبھی نہ ہو کہ میری بات غور سے نہیں سنی گئی اور دوسرے کی سن لی گئی۔ جب نیک نیتی سے اور دعا کے ساتھ فیصلے ہوں گے تو عموماً یہ تاثر قائم نہیں ہو گا۔ یہ بالکل ٹھیک ہے کہ لوگ بھی تقویٰ سے کام نہیں لیتے اور تقویٰ کا وہ معیار نہیں ہے جو ہونا چاہیے اور اپنے حق کے لیے غلط بیانی بھی کر جاتے ہیں اور پھر جیسا کہ میں نے کہا شکوہ بھی ہوتا ہے کہ دوسرے کے حق میں فیصلہ کر کے صحیح نہیں کیا گیا۔ لیکن قاضی اگر سوچ سمجھ کر اور پوری تفصیل میں جا کر حسب ضرورت تنقیحات وضع کر کے اصل معاملے کو سامنے رکھ کر جب فیصلہ کرتا ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق اگر فیصلہ صحیح ہے تو اسے دو ثواب ملیں گے اور اگر باوجود کوشش کے اس سے فیصلہ غلط ہو گیا تو اسے ایک ثواب اپنی کوشش اور نیک نیتی کا بہرحال ملے گا۔ پس اب یہ ذمہ داری قاضی کی ہے کہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ کوشش کرے ورنہ ثواب کے مقابل پر گناہ بھی ہے۔ قرآن کریم نے واضح فرما دیا ہے کہ جہاں قرآن کریم کے واضح احکامات ہیں وہاں ان کے مطابق فیصلے کرو۔ جہاں یہ نہیں ملتے وہاں سنت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے مطابق فیصلہ ہو۔ ایک صحابی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تمہیں کسی فیصلہ کے لیے واضح حل قرآن سے بھی نہ ملے اور میری سنت سے بھی نہ ملے تو پھر کیا کرو گے توانہوں نے عرض کیا پھر اپنے اجتہاد سے کام لوں گا، غور کروں گا، سوچوں گا، دعا کروں گا اور جو حل تمام انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے سامنے آئے گا اسے لاگو کروں گا۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خوشنودی کا اظہار فرمایا۔
(سنن ابو داؤد کتاب القضاء باب اجتہاد الرائ فی القضاء حدیث 3592)
پس ہمارے سامنے ہر وقت انصاف کے تقاضے باریکی کے ساتھ پورے ہونے چاہئیں۔ یہ نہیں کہ وقت نہیں تھا یا طبیعت خراب تھی، اس وجہ سے جزئیات میں جائے بغیر جلدی میں فیصلہ دے دیا یا مجھے صدر صاحب قضاء بورڈ کی طرف سے حکم تھا کہ جلدی فیصلہ کرو اس لیے میں نے فیصلہ دے دیا۔ ایسے فیصلے گناہگار بناتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں لاتے ہیں۔
یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ فیصلے واضح ہوں۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ بعض دفعہ بعض فیصلوں میں خاص طور پر قاضی اول کا غیر واضح الفاظ میں فیصلہ ہوتا ہے۔ بعض اوقات مرافعہ اولیٰ اور ثانیہ اور بلکہ آخری بورڈ تک کے فیصلوں میں بعض دفعہ الفاظ کے چناؤ میں یا تحریر میں غلطی ہو جاتی ہے۔ لگتا ہے مبہم سا فیصلہ ہے تو فیصلے بڑے واضح ہونے چاہئیں۔ گذشتہ دنوں بھی میرے سامنے ایک فیصلہ آیا جس میں مجھے بھی یہ سمجھنے میں وقت لگا کہ قاضی کے فیصلہ میں اس نے جو بعض فقرے لکھےہوئے تھے یا اس میں ایک فقرہ تھا یہ فقرہ مدّعی کے حق میں جا رہا ہے یا مدعا علیہ کے حق میں جا رہا ہے۔ ایسے فیصلے جب فریقین کو ملتے ہیں تو پھر وہ اس سے اپنے مطلب کی بات نکالتے ہیں یا نکالنے کی کوشش کرتے ہیں اور بلاوجہ پھر معاملے کو طول دیا جاتا ہے۔ اس وجہ سے مقدمے میں پھر مزید اپیلیں ہوتی ہیں۔ پس قاضی کے فیصلوں کی ڈرافٹنگ (drafting) بھی اور فریزنگ (phrasing) بھی بہت اہم چیز ہے۔ جہاں نیا نظام قائم ہو رہا ہے ان ملکوں میں خاص طور پر قاضیوں کے ریفریشر کورس کرتے رہنے چاہئیں اور بنیادی باتوں اور فیصلوں کی تحریر کے بارے میں اچھی طرح ہر قاضی کی ٹریننگ بھی ہونی چاہیے اور اس کے علم میں لانا چاہیے۔
قضاء کے نظام کو قائم ہوئے جب پچیس سال ہوئے تھے اور اس وقت دینی علم رکھنے والے اور بڑے پڑھے لکھے قاضی موجود تھے تو اس وقت بھی بعض غلطیاں کر جاتے تھے، بعض قانونی سقم پیدا ہو جاتے تھے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے 1944ء میں، اس وقت تقریباً پچیس سال ہو گئے تھے، شوریٰ میں قاضیوں کی ایک غلطی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ
’’یہاں کے قاضی تو بعض اوقات مدعی اور مدعا علیہ میں بھی فرق نہیں کر سکتے۔ کبھی ایک فریق پر بارِ ثبوت ڈال دیتے ہیں اور کبھی دوسرے پر۔‘‘
(رپورٹ مجلس مشاورت 1944ء صفحہ 68)
پھر آپ نے ایک فیصلے میں مدعی اور مدعا علیہ کی تعیین کی طرف رہنمائی کرتے ہوئے فرمایا کہ
’’شریعت کی رو سے مالی مقدمات کی بناء مدعی اور مدعا علیہ کی تعین پر ہوتی ہے۔ اس لیے فریقین کا تعین ضروری ہے۔ اگر کسی مقدمہ میں دونوں فریق مختلف حیثیتوں سے مدعی بھی ہوں اور مدعا علیہ بھی۔ قاضی کو چاہیے کہ اصل مقدمہ کی سماعت سے پہلے تحریر کرے کہ فلاں جزو میں‘‘(یعنی اسی مقدمے کے فلاں جزو میں )’’فلاں مدعی اور فلاں مدعا علیہ ہے اور فلاں جزو میں‘‘ (جو اس مقدمے کا ایک حصہ ہے اس میں)’’فلاں مدعی اور فلاں مدعا علیہ ہے۔ اگر کسی وقت کسی مقدمہ میں ایک ہی دعویٰ کے متعلق دونوں مدعی اور دونوں مدعا علیہ قرار پا سکتے ہوں تو قضاء کو چاہیے کہ دونوں طرف سے بالمقابل دعوے لے لے۔‘‘
(حضرت المصلح الموعودؓ کے قضا ئی فیصلے و ارشادات، ارشاد نمبر 10 جلد 1 صفحہ 199 شائع کردہ دار القضاء ربوہ)
پس یہ ایسی باتیں ہیں کہ اگر ان کے بارے میں احتیاط نہ کی جائے، واضح نہ ہو تو فیصلے میں الجھنیں پیدا ہوں گی۔ قضاء کا بھی وقت ضائع ہو گا۔ فریقین کا بھی اعتبار قضاء سے اٹھ جائے گا۔ میرے پاس پھر اپیلیں کرتے ہیں تو یہاں میرا بھی وقت ضائع ہو گا۔ گو کہ پانچ رکنی قضاء بورڈ عموماً اپنے پاس اپیل آنے پر ایسے سقم دور کر دیتا ہے۔ اور اچھے فیصلے ہوتے ہیں لیکن ابتداء میں قاضی کی غلطی کی وجہ سے بعض معترضین بے چینی پیدا کر دیتے ہیں اور کم از کم ان کو بے چینی پیدا کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ پس ہر قاضی کو ہر سطح پر اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ فیصلے کرنے چاہئیں اور ہمیشہ خیال رکھنا چاہیے کہ پوری توجہ نہ دینے سے وہ نہ صرف فریقین کا اعتماد کھوتا ہے بلکہ نظام جماعت پر اعتراض کا موقع بھی پیدا ہوتا ہے اور پھر بعض دفعہ بعض منافقین کو، کمزور ایمان والوں کو بھڑکانے کا موقع بھی مل جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ آپ سب کو انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اپنے فرائض ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ یہاں اس سیمینار میں یا ریفریشر کورس میں جو کچھ سننے اور تبادلہ خیال کرنے کا موقع ملا ہے اللہ تعالیٰ آپ کو اسے استعمال کرنے کی بھی توفیق دے۔ صدر صاحب قضاء بورڈ پاکستان نے جیسا کہ میں نے کہا کہ بڑی تفصیلی باتیں بیان کی ہیں اور جس نے بھی مجھ سے بات کی ہے انہوں نے ان کی باتوں کی بڑی تعریف کی ہے۔ انہوں نے فائل بنانے کا، کیس کرنے کا بڑا واضح طریقہ کار بیان کیا ہے جو مقدمے کی ابتداء سے لے کر آخر تک ہونا چاہیے۔ مجھے امید ہے کہ جو بھی کارروائی یہاں ہوئی ہے قضاء اس کی اشاعت بھی کرے گی تا کہ تمام دنیا کے قاضیوں تک یہ باتیں پہنچ جائیں اور اسی طرح ناظم قضاء نے یا باقی لوگوں نے، مقررین نے اگر کوئی باتیں کی ہیں تو وہ بھی ایک مکمل رپورٹ شائع ہو جائے اور اس میں یہ سب باتیں آ جائیں۔ جو تبادلہ خیال آپ نے کیا ہے وہ باتیں بھی بیچ میں آ جائیں، اسے یکجا کر لیں اور پھر جیسا کہ مَیں نے کہا ہر ملک کی قضاء کے صدر کو بھیج دیا جائے تاکہ وہ اس سے استفادہ کریں۔
اسی طرح آپ کو ناظم صاحب قضاء پاکستان نے بتا دیا ہو گا کہ قضاء پاکستان نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ سے لے کر میرے تک تمام خلفاء کے قضائی فیصلوں پر جو ہدایات ہیں یا فیصلے ہیں ان کو کتابی صورت میں یکجا کیا ہے۔ مطلب یہ کتاب ہر ایک کی علیحدہ علیحدہ جلد (پر مشتمل) ہے۔ ان کی اشاعت بھی جب ہو جائے تو ہر ملک میں پہنچ جانی چاہیے اور ہر ملک کے قاضی کو اور امیر جماعت کو اسے پڑھنا چاہیے کیونکہ ان سے عمومی طور پر اکثر معاملات میں اصولی رہنمائی مل جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ سب کو اس سے استفادہ کرنے کی توفیق بھی عطا فرمائے اور سب سے بڑھ کر دعائیں کرنے کی اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق دے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ آپ سے انصاف کے مطابق فیصلے کروائے اور بشری کمزوریوں کی پردہ پوشی فرماتا رہے۔ اب دعا کر لیں۔ (دعا)
٭…٭…٭