(دنیا میں قیامِ امن کے لیے) ہر قسم کی دشمنیوں اور بغضوں کو مصالحت اور باہمی گفت و شنید سے حل کرنا چاہیے
امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’آج دنیا کی اَلم ناک صورت حال یہ ہے کہ ایک طرف تو لوگ قیامِ امن کی بات کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف اپنی اَنا کا شکار ہو کر فخر اور تکبر کے لبادہ میں ملبوس ہیں اور اپنی برتری اور طاقت ثابت کرنے کے لیے ہر طاقت وَر حکومت ہر ممکن قدم اُٹھانے پر کمر بستہ ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد دنیا میں دیرپا قیامِ امن اور مستقبل میں ایسی جنگوں کی روک تھام کے لیے دنیا نے باہمی افہام و تفہیم سے ’’اقوامِ متحدہ‘‘ کی بنیاد رکھی تھی لیکن ایسا لگتا ہے جیسے لیگ آف نیشنز کی طرح اقوامِ متحدہ بھی اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام ہو کر اپنا مقام و مرتبہ کھو رہی ہے۔ اگر انصاف کے تقاضے پورے نہ کیے گئے تو پھر امن کے لیے خواہ جتنی چاہے تنظیمیں بنا لی جائیں ان کی کوششیں ناکام ثابت ہوں گی۔
مَیں نے ابھی لیگ آف نیشنز کا ذکر کیا ہے۔ یہ تنظیم پہلی جنگِ عظیم کے بعد قائم کی گئی تھی جس کا واحد مقصد دنیا میں امن کا قیام تھالیکن یہ دوسری جنگِ عظیم کو نہ روک سکی جس کے نتیجہ میں بہت زیادہ تباہی ہوئی۔ …بحیثیت مجموعی اُس جنگ میں معصوم عوام کی اموات فوجیوں سے کہیں زیادہ تھیں۔ ذرا سوچیں کہ مارے جانے والے ان عام معصوم لوگوں کا کیا قصور تھا جن میں لا تعداد خواتین اور بچے بھی شامل تھے؟
یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ جو اُن ممالک میں رہتے ہیں جو براہِ راست اس جنگ کی لپیٹ میں آئے تھے ان کے دلوں میں پیدائشی اور جبلّی طور پر جنگ سے نفرت کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ یقیناً وطن سے محبت کا تقاضا ہے کہ اس پر حملہ کی صورت میں ایک شہری اپنی ملک کا دفاع کرے اور اپنی قوم کی آزادی کی خاطر ہر قربانی کے لیے تیار رہے تاہم اگر تنازعہ کو دوستانہ اور پُر امن طریق پر باہمی بات چیت اور حکمتِ عملی سے حل کیا جا سکتا ہو تو پھرغیر ضروری قتل و غارت گری کو دعوت نہیں دینی چاہیے۔ پرانے زمانہ کی جنگوں میں زیادہ تر فوجی ہلاک ہوتے تھے اور عوام الناس کا جانی نقصان کم سے کم ہوتا تھا جبکہ آج کل کی جنگوں کے ذرائع میں فضا میں بم باری، زہریلی گیس اور کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال شامل ہو چکا ہے جیسا کہ میں نے ابھی ذکر کیا ہے کہ سب سے زیادہ تباہ کن ہتھیار نیوکلیائی بم کے استعمال کا امکان بھی موجود ہے۔ چنانچہ آج کل کی جنگیں پرانے زمانہ کی جنگوں سے کلیۃً مختلف ہیں کیونکہ یہ جنگیں انسانیت کو صفحہ ہستی سے کلیۃً مٹا دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ اس موقع پر قیامِ امن کے حوالہ سے مَیں قرآنِ کریم کی خوب صورت تعلیم آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔
ترجمہ: ’’نہ اچھائی برائی کے برابر ہو سکتی ہے اور نہ برائی اچھائی کے (برابر)۔ ایسی چیز سے دفاع کر کہ جو بہترین ہو۔ تب ایسا شخص جس کے اور تیرے درمیان دُشمنی تھی وہ گویا اچانک ایک جاں نثار دوست بن جائے گا۔ ‘‘
(سورہ حٰمٓ السجدہ: 35)
پس قرآن کریم کی یہ تعلیم ہے کہ جہاں تک ممکن ہو ہر قسم کی دشمنیوں اور بغضوں کو مصالحت اور باہمی گفت و شنید سے حل کرنا چاہیے۔ یقیناً کسی سے نرمی اور حکمت سے بات کرنے سے اس کے دل پر بہت مثبت اثر اور پیار بھرا اثر پیدا ہو گا اور اس سے نفرت اور کینہ ختم ہو جائے گا۔‘‘
(عالمی بحران اور امن کی راہ۔ نیوزی لینڈ کی پارلیمنٹ سے خطاب ، صفحہ139-140)ٌ