اکنافِ عالم میں بسنے والے احمدی طلباء کے لیے حضرت مصلح مو عود رضی اللہ عنہ کی زریں نصائح
تعلیم الا سلام کالج کا پہلا جلسہ تقسیمِ اسناد
تعلیم الاسلام کالج کی پہلی کا نو کیشن2؍ اپریل1950ءکو حضرت خلیفہ لمسیح الثا نی ؓ کی زیرِ صدارت تعلیم الاسلام کا لج لا ہور کے ہال میں منعقد ہو ئی حضور نے فارغ التحصیل ہو نے والے طلباء کو درجِ ذیل زرّیں نصائع سے نوازا:
٭۔ ’’یہ نہ سمجھو کہ اب تعلیم مکمل ہو گئی ہے، بلکہ اپنے علم کو با قا عدہ مطا لعہ سے بڑھا تے رہو۔خدا تعا لیٰ کے قانون کے مطابق سکون حا صل کر نے کی بالکل کو شش نہ کرو، بلکہ ایک نہ ختم ہو نے والی جدو جہد کے لیے تیار ہو جا ؤ اور قر آنی منشا کے مطابق اپنا قدم آگے بڑ ھا نے کی کو شش کر تے رہو۔
٭۔ اللہ تعا لیٰ سے دعا ما نگتے رہو کہ وہ آپ کو صحیح کا م کرنے، اور صحیح وقت پر کا م کرنے اور صحیح ذرائع کو استعمال کر نے کی توفیق عطا فر ما ئے اور پھر اس کام کے صحیح اور اعلیٰ سے اعلیٰ نتائج پیدا کرے۔
٭۔یاد رکھو کہ تم پر صرف تمہا رے نفس ہی کی ذمہ داری نہیں۔ تم پر اس ادارے کی بھی ذمہ داری ہے جس نے تمہیں تعلیم دی ہے اور اُس خا ندان کی بھی ذمہ داری ہے جس نے تمہا ری تعلیم پر خرچ کیا۔خواہ بل وا سطہ یا بلا واسطہ ، اور اس ملک کی بھی ذمہ داری ہے کہ جس نے تمہاری تعلیم کا انتظام کیا۔اور پھر تمہارے مذہب کی بھی ذمہ داری ہے۔
٭۔ تمہارے تعلیمی ادارے کی جو تم پر ذمہ داری ہے وہ چا ہتی ہے کہ تم اپنے علم کو زیادہ سے زیادہ اور اچھے سے اچھے طور پر استعمال کرو۔ یو نیورسٹی کی تعلیم مقصود نہیں ہے وہ منزلِ مقصود کو طے کر نے کے لیے پہلا قدم ہے۔یو نی ورسٹی تم کو جو ڈگریاں دیتی ہے وہ اپنی ذات میں کو ئی قیمت نہیں رکھتیں بلکہ ان ڈگریوں کو تم اپنے آئندہ عمل سے قیمت بخشتے ر ہو۔
٭۔ ڈگری صرف تعلیم کا ایک تخمینی وزن ہے۔ایک تخمینی وزن ٹھیک بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی ہو سکتا ہے۔محض کسی یو نیورسٹی کے فرض کر لینے سے کہ تم کو علم کا ایک تخمینی وزن حا صل ہو گیا ہے تم کو علم کا وہ فر ضی درجہ نصیب نہیں ہو سکتا جس کے اظہار کی یو نیورسٹی ڈگری کے ساتھ کو شش ہو تی ہے۔ اگر ایک یو نیورسٹی سے نکلنے وا لے طا لب علم اپنی آ ئندہ زندگی میں یہ ثابت کریں کہ جو تخمینی وزن ان کی تعلیم کا یو نیورسٹی نے لگایا تھا ان کے پا س اس سے بھی زیادہ وزن کا علم مو جود ہے۔تو دنیا میں اس یو نیورسٹی کی عزت اور قدر قا ئم ہو جا ئے گی۔لیکن ڈگریاں حاصل کر نے والے طالب علم اپنی بعد کی زندگی میں یہ ثابت کر دیں کہ تعلیم کا جو تخمینی وزن ان کےدما غوںمیں فرض کیا گیا تھا ان میں اس سے بہت کم در جے کی تعلیم پا ئی جا تی ہے۔تو یقیناً لو گ نتیجہ نکا لیں گے کہ یو نیورسٹی نے علم کی پیمائش کر نے میں غلطی سے کام لیا ہے ۔
٭۔ تمہیں یا د رکھنا چا ہیے کہ یو نیورسٹیاں اتنا طالب علم کو نہیں بنا تیںجتناکہ طالب علم یو نی ورسٹیوں کو بنا تے ہیں۔دوسرے لفظوں میں یہ کہہ لو کہ ڈگری سے طالب علم کی عزت نہیں ہو تی ہے۔پس تمہیں اپنے پیمانۂ علم کو درست رکھنے بلکہ اس کو بڑ ھا نے کی کو شش کر تے رہنا چا ہیے اور اپنے کا لج کے زما نہ کی تعلیم کو اپنی عمر کا پھل نہیں سمجھنا چاہیے، بلکہ اپنے علم کوکھیتی کا بیج تصور کر نا چاہیے اور تمام ذرائع سے کا م لے کر اس بیج کو زیادہ سے زیادہ بار آور کر نے کی کو شش کر تے رہنا چاہیے تا کہ اس کو شش کے نتیجے میں اُن ڈگریوں کی عزت بڑھے جو تم آج حاصل کر رہے ہو……اور تمہاری قوم تم پر فخر کرنے کے قا بل ہو۔
٭۔تم ایک نئے ملک کے شہری ہو ۔دُنیا کی بڑی مملکتوں میں سے بظاہر ایک چھو ٹی سی مملکت کے شہری ہو ۔ تمہارا ملک مالدار ملک نہیں ہے ، ایک غریب ملک ہے۔ دیر تک ایک غیر حکومت کی حفا ظت میں امن اور سکون سے رہنے کے عادی ہو چکے ہو۔سو تمہیں اخلاق اور کردار بدلنے ہوں گے۔تمہیں اپنے ملک کی عزت اور سا کھ دنیا میں قا ئم کر نی ہو گی۔
٭۔ تمہیں اپنے ملک کو دُنیا میں رو شناس کرا نا ہو گا، ملکوں کی عزت کو قائم رکھنا بھی ایک بڑا دشوار کا م ہے۔ لیکن ان کی عزت کو بنانا اس سے بھی دشوار کام ہے اور یہی دشوار کام تمہارے ذمے ڈالا گیا ہے۔
٭۔تم ایک نئے ملک کی نئی پود ہو۔تمہاری ذمہ داریاں پُرانے ملکوں کی نئی نسلوں سے بہت زیا دہ ہیں۔ انہیں ایک بنی ہو ئی چیز ملتی ہے۔ انہیں آ باء و اجداد کی سنتیں یا روایتیں وراثت میں ملتی ہیں۔ مگر تمہارا یہ حال نہیں ہے۔تم نے ملک بھی بنانا ہے اور تم نے نئی روایتیں بھی قا ئم کر نی ہیں۔ایسی روائتیں جن پر عزّت اور کا میا بی کے ساتھ آنے والی بہت سی نسلیں کام کر تی چلی جا ئیں اور ان روا یتوں کی راہنمائی میں اپنے مستقبل کو شاندار بنا تی چلی جائیں۔
٭۔ دوسرے ملکوں کے لو گ ایک اولاد ہیں مگر تم اس کے مقابلے پر ایک باپ کی حیثّیت رکھتے ہو، وہ اپنے کا موں میں اپنے باپ دادوں کو دیکھتے ہیں۔ تم نے اپنے کا موں میں آئندہ نسلوں کو مدّ نظر رکھناہے۔
٭۔ بے شک یہ کام مشکل ہے لیکن اتنا شاندار بھی ہے۔اگر تم اپنے نفسوں کو قربان کر کے پاکستان کی عمارت کو مضبوط بنیادوں پر قا ئم کر دو گے تو تمہارا نام اس محبت اور عزت سے لیا جا ئے گا جس کی مثال آئندہ آنے والوں میں نہیں پا ئی جا ئے گی۔
٭۔ پس میں تم سے کہتا ہوں کہ اپنی نئی منزل پر عزم، استقلال اور علّو ِحوصلہ سے قدم مارو ۔ قدم مارتے چلے جا ؤ اور اس بات کو مدنظر رکھتے ہو ئے قدم بڑھاتے چلے جاؤ کی عا لی ہمت نو جوانوں کی منزِل اوّل بھی ہو تی ہے اور منزلِ دوم بھی ہوتی ہے، منزل ِسوم بھی ہو تی ہے لیکن آخری منزل کو ئی نہیں ہوا کرتی ……اُن کی منزل کا پہلا دور اسی وقت ختم ہو تا ہے جبکہ وہ کامیاب اور کا مران ہو کر اپنے پیدا کر نے والے کے سامنے حاضر ہو تے ہیں اور اپنی خدمت کی داد اس سے حاصل کر تے ہیں، جو ایک ہی ہستی ہے جو کسی کی خدمت کی صحیح داد دے سکتی ہے۔
٭۔ پس اے خدا ئے واحد کے منتخب کردہ نو جوانوں! اسلام کے بہادر سپا ہیو!ملک کی اُمید کے مر کزو ! قوم کے سپوتو! آ گے بڑ ھو کہ تمہارا خدا، تمہارا دین ، تمہارا ملک اور تمہاری قوم محبت اور امید کے مخلوط جذبات سے تمہارے مستقبل کو دیکھ رہے ہیں۔‘‘ (الفضل 3؍ اپریل 1950 )
(مرسلہ : پروفیسر محمد شریف خان، فلاڈلفیا ، امریکہ)