متفرق مضامین

الرجی

بدلتی دنیا کے ساتھ جہاں سائنس اپنی ریسرچ سے ہر شعبہ میں ترقی کر رہی ہے دوسری طرف ماحول، حالات، غذا اور اردگرد کے اثرات سے آپ کے جسم میں بھی تبدیلیاں آ رہی ہیں جو زیادہ تر تو صحت مند زندگی اور لمبی عمر کی طرف لے جا رہی ہیں۔ مگر بیماریوں کی ایک نئی شاخ اس میں بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے جس پر پوری دنیا میں بڑے پیمانے پر ریسرچ ہونے کے باوجود انسان کسی بچاؤ اور علاج تک نہیں پہنچ سکا۔ اس بیماری کا نام الرجی ہے۔ انسانی زندگی میں الرجی کی علامات بہت لمبے عرصہ سے موجود تھیں مگر ان کو بیماری کا درجہ چند دہائیاں پہلے دیا گیا۔ الرجی ہمارے جسم کا ایک غیر ضروری عمل ہے جو ایک نارمل ، بے ضرر ذرے کے ساتھ جسم کا تعلق پیدا ہونے پر ظاہر ہوتا ہے۔ یا دوسرے لفظوں میں جسم کسی ایسی چیز سے تعلق میں آتا ہے جو نقصان پہنچانے والی نہیں اور بالکل بے ضرر ہے اور ہمارا جسم اس کو نقصان پہنچانے والی چیز گردانتا ہے اور اس کے خلاف کارروائی شروع کردیتا ہے۔ الغرض یہ جو عمل ہمارے جسم کو نقصان پہنچانے کا باعث بن جاتا ہے اور ہمارے جسم کا نقصان نہ پہنچانے والی چیزوں کے لیے اپنے آپ کو نقصان پہنچانے کے عمل کو الرجی کہتے ہیں۔

الرجی بہت طرح کی ہوتی ہے یعنی ہمارے جسم کے بہت سارے نظام اس کا شکار ہو سکتے ہیں۔ بعض دفعہ انفرادی طور پر یا کئی دفعہ کئی نظام اکٹھے اس کا شکار ہو جاتے ہیں جیسے ہماری جلد، سانس کا نظام، نظامِ ہضم، کان، ناک، گلے اور آنکھ کا نظام، گردوں کا نظام اور اعصابی نظام۔

اسی طرح الرجی بھی بہت مختلف طرح کی چیزوں سے ہو سکتی ہے جیسے کھانے کی چیزوں سے جن میں پھل جیسے سیب، مالٹے، کینو، ناشپاتی، خربوزہ، تربوز، کیوی ،اناناس اور آم تک شامل ہیں۔ سبزیاں جن میں زمین کے نیچے رہ کر اُگنے والی سبزیاں ادرک، لہسن، آلو، شکرقندی۔ اس کے علاوہ ٹماٹر، کھیرا، سلاد پتہ، لیس دار سبزیاں جیسے بھنڈی اوراروی وغیرہ بھی شامل ہیں اور اس کے علاوہ بھی کچھ سبزیاں اور پھل ہو سکتے ہیں۔ بعض دفعہ کچی سبزیاں اور پھل جیسے ٹماٹر ،سیب ،ناشپاتی وغیرہ الرجی کی علامات پیدا کرتے ہیں۔ مگر آپ ان کو پکالیں تو پروٹین جو علامات پیدا کرتی ہیں وہ اپنی ہیئت چھوڑ دیتی ہیں یاDenature ہو جاتی ہیں اور ان کی الرجی کی علامات پیدا کرنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے مگر یہ الرجی پیدا کرنے والی ہر چیز کے ساتھ نہیں ہوتا۔ مَیں نے اپنے کیریئر میں ایک 20سال کا نوجوان دیکھا جو کسی قسم کی سبزی یا پھل نہیں کھاسکتا تھا۔ وہ ایک طرح سے ابلا ہوا گوشت کھاتا تھا اور اس کے ساتھ مختلف طرح کے وٹامن وغیرہ جو صحت کےلیے ضروری ہیں گولیوں یا جب چھوٹا تھا تو شربت کی شکل میں لیتا تھا۔ وہ دودھ اور دودھ کی بنی ہوئی اشیاء لے سکتا تھا۔ وہ بہت پریشان تھا کہ وہ اتنی خوبصورت رنگوں کی اور اتنی مختلف طریقوں کے پھل ،سبزیوں کا ذائقہ نہیں جانتا،ا نہیں کھا نہیںسکتا ۔وہ ان کو ہر قیمت پر کھانا چاہتا تھا اور اس نے اپنے بچپن میں یہ کوشش بھی کی مگر ایسی علامات شروع ہوئیں کہ اس کو ایمرجنسی میں ہسپتال لے جانا پڑا۔ ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے جس میںمَیں بھی شامل تھی اس کے بہت سے ٹیسٹ کیے اور ان کی بنیاد پر مریض سے مشورہ کیا اور اُس نے کہا کہ وہ شملہ مرچ پکا کر کھانا چاہتا ہے۔ پھر اس کو ہسپتال کی میٹنگ میں الرجی کی دوائیاں دے کر بھاپ سے پکائی گئی شملہ مرچ کا ایک انچ کاٹکڑا دیا گیا اور پھر آہستہ آہستہ آدھی شملہ مرچ وقفے وقفے تک دی گئی ۔اور اسے کوئی بڑا مسئلہ نہ ہوا۔ اُس کے چہرے پر بے انتہا خوشی کے تأثرات اور اس کا بار بار ڈاکٹروں کا نرسوں کا شکریہ ادا کرنا بھلانا مشکل ہے۔

ہم لوگ ہر چیز پر اپنا حق سمجھتے ہیں اورکم ہی خدا کے شکرگزارہوتے ہیں ۔ہمارا خیال ہے کہ یہ سب ہمارے لیے ہے۔کبھی اس طرف بھی ہمیں دیکھنا چاہیے کہ‘‘تم خدا تعالی کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے’’۔

اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر آپ کو کہیں کھانے والی چیز سے الرجی ہے تو آپ الرجی نہ ہونے کی دوائیوں کے ساتھ اُس چیز کا استعمال شروع کردیں کیونکہ یہ بہت خطرناک ہوسکتا ہے۔ شدت کی الرجی کے مریضوں کو ایمرجنسی ڈاکٹرز کے نمبر دیے جاتے ہیں۔ انہیں باقاعدہ Dietitionکو دکھانا اور اس سے مشورہ کرنا پڑتا ہے۔ مستقل بنیادوں پر ان کو ہسپتال میں دیکھا جاتا ہے۔اگر آپ کسی بھی قسم کی الرجی کے مریض ہیں تو آپ اپنے آپ پر کسی قسم کا تجربہ نہ کریں۔ اور ڈاکٹر کی رائے کو ہمیشہ مقدم سمجھیں ۔خدا تعالیٰ کا ہر لمحہ شکر کریں کہ ہم اُس کی نعمتوں کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

اس کے علاوہ دوسری الرجی پیدا کرنے والی غذاؤں میں انڈے، دودھ، خشک میوے ،سمندری کھانے جس میں مچھلی کی مختلف قسمیں، جھینگے ، کیکڑے اور سیپیاں شامل ہیں۔گندم،سویا بین وغیرہ شامل ہیں ۔سانس سے جسم کے اندر جانے والے ذرات جو الرجی پیدا کر سکتے ہیں جیسے درختوں کے بیج، جن کو پولن بھی کہتے ہیں ۔گھاس کے پولن، پھولوں کے پولن، پھپھوندی یا فنگس ، کتا ،بلی، گھوڑے کے بال یاان کا لعاب، کاکروچ، خرگوش، ہاؤس ڈسٹ مائٹ House Dust Miteاور اس کی مختلف قسمیں یہ سب انسانوں میں الرجی پیدا کر سکتے ہیں۔ دوائیاں بھی الرجی پیدا کرنے کا ذریعہ ہو سکتی ہیں۔ جس کے لیے آپ کا ڈاکٹر مکمل تحقیق کرتا ہے ۔بعض دفعہ آپ کو ہسپتال میں سپیشلسٹ کے پاس بھی بھجوایا جاتا ہے ۔تاکہ مریض کو ہدایات دی جائیں اور دوائی کے بد اثرات سے بچایا جائے اور اُس دوائی کا استعمال مریض کے لیے ممنوع کیا جائے۔مثلاً ایسپرین الرجی ہے۔

(جاری ہے )

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button