درّثمین اردوکی پانچویں نظم اوصافِ قرآن مجید
حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا ساراکلام نظم و نثر آفاقی ہے۔ ہر زمانے اور خطّے کےلیے آپؑ کےفرمودات زندگی بخش پیغام لیے ہوئے ہیں۔ حضورؑ کے اردومنظوم کلام کا یہ مطالعہ ،ان نظموں پر غور کرنے کی ایک کوشش ہے۔
درِّثمین میں شامل پانچویں نظم ‘‘اوصافِ قرآنِ مجید’’ سیّدناحضرت اقدس مسیح موعودؑکی تصنیفِ لطیف‘‘براہینِ احمدیہ’’حصّہ سوم، مطبوعہ 1882ءسے ماخوذ ہے۔نو اشعار کی یہ مختصر نظم بحر رمل مثمن سالم میں ہے:مخبون محذوف۔
حاشیہ در حاشیہ نمبر 2میں‘آؤ عیسائیو ادھر آؤ ’نظم کے بعد حضورؑ نےرسالہ ‘نور افشاں ’3 مارچ 1882ء میں شائع ہونے والے اعتراض کا مختصر جواب ارشاد فرمایا ہے۔حضورؑ براہینِ احمدیہ میں اس نوع کے اعتراضات کے تسلی بخش جوابات دے چکے تھے۔ لیکن اِن صاحب نے اپنے اعتراض میں آپؑ کو بھی مخاطب کیا تھا اس لیے اِن کے وہم کے ازالے کےلیے مختصر طور پرآپؑ نے اس بات کا دوبارہ جواب عطا فرمایا۔ اعتراض یہ تھا کہ کن امور کے بیان میں قرآن مجید انجیل پر فوقیت رکھتا ہے۔ یا انجیل کے بعد قرآن کی کیا ضرورت تھی۔ حضورؑ فرماتے ہیں:
‘‘جاننا چاہیے کہ انجیل کی تعلیم کو کامل خیال کرنا سراسر نقصانِ عقل اور کم فہمی ہے۔خود حضرت مسیح نے انجیل کی تعلیم کو مبرّا عن النقصان نہیں سمجھا جیسا کہ انہوں نےآپ فرمایاہےکہ میری اور بہت سی باتیں ہیں کہ میں تمہیں کہوں۔پرتماُن کی برداشت نہیں کرسکتے لیکن جب وہ یعنی روح الحق آویگا۔تو وہ تمہیںصداقت کا راستہ بتلاوےگا۔انجیل یوحنّاباب ۱۶۔آیت ۱۴،۱۳،۱۲۔اب فرمائیےکیا یہی انجیل ہےکہ جو تمام دینی صداقتوں پر حاوی ہےجس کے ہوتےہوئے قرآن شریف کی ضرورت نہیں۔’’
(براہینِ احمدیہ حصّہ سوم،روحانی خزائن جلد ۱،صفحہ 300)
حضورؑ نے فرمایا کہ یہ ممکن نہیں کہ آپ مسیح کے پیرو کہلا کر اس چیزکو کامل قرار دیں جسے وہ آپ سے اٹھارہ سو بیاسی برس پہلے ناقص قرار دے چکے۔ آپؑ نے معرفتِ الہٰی کے حصول کےلیے انجیل اور قرآن کریم کے مقابلےکا چیلنج دیا۔قرآن کریم کے فضائل میں سے اُن دو اُمور کے مقابلے کی دعوت دی جو آپؑ براہینِ احمدیہ میں رقم فرما چکے تھے۔ یعنی یہ کہ قرآن کریم تمام الہٰی صداقتوں کا جامع ہے۔کوئی بھی محقق ایسا لطیف نکتہ دریافت نہیں کرسکتا جو قرآن مجید میں موجود نہ ہو۔دوسرا امرجس میں آپؑ نے مقابلے کی دعوت دی وہ یہ ہے کہ قرآن کریم کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ صداقت کے طالب کامطلوبِ حقیقی سے نہ صرف تعلق قائم کروادیتا ہےبلکہ خداتعالیٰ کے قرب سے مشرف کرکےایسے الہامِ الہٰی کا وارث بناتا ہےکہ جس کی صداقت پیش گوئیوں کے پورا ہونے کے ذریعے ثابت ہوتی ہے۔ آپؑ نے فرمایا کہ یہی پیوند حیاتِ ابدی کی حقیقت ہے۔
ان امور کے بیان کے بعد آپؑ نے دوٹوک الفاظ میں واضح کردیا کہ انجیل ہو یاتوریت ، عیسائی ہوں یا یہودی کوئی بھی متذکرہ بالا امور میں قرآن کی تاثیرات کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ اس سے آگے فارسی نظم ‘از نورِ پاک قرآن صبح صفا دمیدہ’درج ہے۔ جس کے اختتام پر ‘دیگر’کی سرخی کے تحت یہ نظم ‘نورِ فرقاں ہے جو سب نوروں سے اجلیٰ نکلا’مرقوم ہے۔
یہ ایک مردّف نظم ہے۔ یہی ردیف (نکلا) غالبؔ کی غزل ‘شوق،ہر رنگ، رقیبِ سروساماں نکلا’میں بھی ہے۔ غالبؔ کی اسی غزل کا وہ خوبصورت شعر ہے:
بوئے گُل، نالہ دل ،دُودِ چراغِ محفل
جو تری بزم سے نکلا، سو پریشاں نکلا
اس نظم کا ہر شعر قرآن کریم کے اوصاف کے بیان میں لاجواب ہے۔ بالخصوص توحید باری تعالیٰ کےدنیا سے کُوچ کرجانے کے لیے پودے کے مرجھانے کی علامت بڑی دل سوز اور درد انگیز ہے۔ پانی، جو نباتات کے لیے بھی زندگی کا پیام ہے اس کی دست یابی پر ‘چشمہ اصفیٰ’ کے الفاظ فرحت کا ان مول احساس پیدا کرتے ہیں۔حضورؑ نے اِن اشعار سے پیشتر فرمایا تھا کہ ‘‘جس قدر سورہ اخلاص کی ایک سطر میں مضمون توحید بھرا ہواہے۔ وہ تمام توریت بلکہ ساری بائیبل میں نہیں پایا جاتا۔ ’’
قرآن کریم کے مقابلے میں توریت اور انجیل کی معذوری کے متعلق فرمایا:
پہلے سمجھے تھے کہ موسیٰ کا عصا ہے فرقاں
پھر جو سوچا تو ہراک لفظ مسیحا نکلا
قرآن کریم نے گذشتہ فرقوں کے تنازعات اور مروجہ فاسد خیالات اور بگاڑوں کو دور کرکے صداقت کو ظاہر کیا۔ کلامِ پاک کی تعلیم اعتدال ،توازن اور اصلاحِ احوال پر مبنی ہے۔ جیسے ایک معالج یا مسیحا مریض کی کیفیت کے مطابق علاج تجویز کرتا ہے،ویسے ہی قرآن کریم بھی موقعے کی مناسبت سے درشتی یا نرمی، انتقام یا عفو کی تعلیم دیتا ہے۔ حضورؑ فرماتے ہیں:
‘‘سو قرآنِ شریف بھی اسی طرزِ موزون و معتدل پر نازل ہوا کہ جامع ِشدت و رحمتو ہیبت و شفقت و نرمی و درشتی ہے۔ سو اِس جگہ اللہ تعالیٰ نے ظاہر فرمایا کہ چراغِ وحی فرقان اس شجرہ مبارکہ سے روشن کیا گیا ہے کہ نہ شرقی ہے نہ غربی۔ یعنی طینتِ معتدلہ محمدیہ کے موافق نازل ہوا ہے جس میں نہ مزاجِ موسوی کی طرح درشتی ہے۔ نہ مزاجِ عیسوی کی مانند نرمی۔ بلکہ درشتی اور نرمی اور قہر اور لُطف کا جامع ہے’’
(براہینِ احمدیہ حصہ سوم، روحانی خزائن جلد اوّل، بقیہ حاشیہ نمبر 11، صفحہ 193۔194)
چوتھے شعر میں لفظ ‘شیشہ’استعمال ہوا ہے۔ ‘مئے عرفاں’کی نسبت سے اس کے معنی ‘مینا ’یعنی شراب کی بوتل کے کیے جائیں گے۔ اردو لغت (تاریخی اصول پر) میں میر امن دہلوی کی ‘باغ وبہار’کا جملہ منقول ہے کہ ‘‘ شراب کے شیشے بھرے قرینے سے طاق میں دھرے’’
ساتویں شعر میں ‘نیّرِ بیضا’ کی ترکیب ہے۔ جس کے معنی روشن یا چمک دار سورج کے کیے جاسکتے ہیں۔ نیّرِ بیضا کی ترکیب اردو لغت (تاریخی اصول پر) نے دی ہے نہ رشید حسن خاں نے اپنی شہرہ آفاق ’کلاسکی ادب کی فرہنگ‘میں یہ ترکیب درج کی ہے۔ چنانچہ ‘صد نیّرِ بیضا’ کی یہ ترکیب حضورؑ کے اعجازی کلام کی وضع کردہ معلوم ہوتی ہے۔
٭…٭…٭