سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم (قسط نمبر 13)
ذکر الٰہی کی تڑپ
(گذشتہ سے پیوستہ)اس حدیث سے اگر چہ اور بہت سے سبق ملتے ہیں لیکن اس جگہ مجھے صرف ایک ا مر کی طرف متوجہ کر نا ہے او روہ یہ کہ آنحضرت ؐ کی تمام عمر کی کو شش یہی تھی کہ جس جس طرح سے ہوسکے لوگوں کی زبان پر خدا کا نام جاری کیا جائے۔خود تو جس طرح آپ ؐ ذکر میں مشغول رہتے اس کا حال میں بیان کر چکا ہوں مگر اس حدیث سے یہ معلوم ہو تا ہے کہ آپؐ ہر ایک کی زبان پر یہی لفظ دیکھنا چاہتے تھے۔
آپؐ کی آمد کی اطلاع دینے کے لیے اگر صحابہ ؓ نے تا لیاں بجا ئیں تو یہ ان کا ایک رواج تھا اور ہر ایک ملک میں اطلاع عام کے لیے یا متوجہ کر نے کے لیے لوگ تا لیاں بجاتے ہیں آج کل بھی جلسوں میں ایسا ہی ہو تا ہے کہ جب کسی لیکچرار کی کو ئی بات پسند آئے تو اس پر تا لیاں پیٹتے ہیں تا کہ لوگوں کو تو جہ پیدا ہو کہ یہ حصۂ لیکچر خاص توجہ کے قابل ہے پس تا لیاں بجانا اس کام کے لیے رائج ہے لیکن رسول کریمؐ کی یاد الٰہی سے محبت دیکھو کہ آپؐ نے دیکھا کہ بعض دفعہ ضرورت تو ہو تی ہے کہ لوگوں کو کسی کام کی طرف متوجہ کیا جائے پھر کیوں نہ اس ضرورت کے موقع پر بجائے اس بے معنی حرکت کے لوگوں کو اس طرف لگا دیا جائے کہ وہ اپنے خیالات او ر جوشوں کے اظہار کے لیے بجائے تالیاں بجانے کے سبحان اللہ کہہ دیا کریں۔کم سے کم ایسے موقع پر ہی خدا کا ذکر ان کی زبان پر جاری ہو گا۔
یہ وہ حکمت و فلسفہ ہے جسے دنیا کےکسی رہنما اور ہادی نے نہیں سمجھا اور کو ئی مذہب نہیں جو اس حکم کی نظیر پیش کر سکے کہ اس نے بھی بجا ئے لغو یات کے لوگوں کو ایسی تعلیم کی طرف متوجہ کیا ہو کہ جو ان کے لیے مفید ہو سکے تالیاں بجانا بے شک جذبات انسانی کا ترجمان تو ہو سکتا ہے لیکن وہ ایسا ہی ترجمان ہے کہ جیسے ایک گونگے کے خیالات کا ترجمہ اس کے اشارات ہو جا تے ہیں کیونکہ تالیاں بجانے سے صرف اسی قدر معلوم ہو سکتا ہے کہ اس کے دل میں کو ئی جوش ہے اور یہ اس کی طرف لوگوں کو متوجہ کر نا چاہتا ہے یا یہ کہ کسی کو غلطی پر دیکھ کر اسے اس کی غلطی پر متنبہ کر نا چاہتاہے لیکن اس سے زیا دہ اور کو ئی نتیجہ نہیں نکلتا لیکن رسول کریمﷺ صرف اسی پر اکتفا نہ کر سکتے تھے آپؐ ایک طرف توکُل لغویات کو مٹانا چاہتے تھے دوسری طرف آپؐ کےدل میں یہ جوش موجزن رہتا کہ خدا تعالیٰ کے نام کی کثرت ہو اور ہر ایک مجلس او ر مقام میں اسی کا ذکر کیا جائے اس لیے آپ نے بجائے ان بے معنی اشارات کے جن سے گواشارۃً حصول مطلب ہو جا تا تھا ایسے الفاظ مقرر کیے کہ جن سے نہ صرف حصول مطلب ہو تا ہے بلکہ انسان کی رو حانیت میں ازدیاد کا باعث ہے اور عین موقع کے مناسب ہیں اور پھر خدا تعالیٰ کا ذکر بھی ہو جا تا ہے۔
یادرکھنا چاہیے کہ انسان جب کبھی کسی شَے کی طرف تو جہ کر تا ہے اسے نا پسند کر نے کی وجہ سے یا پسند یدگی کے باعث۔تو ان دونوں صورتوں میں سبحان اللہ کے کلمہ کا استعمال نہایت باموقع اور با محل ہے۔اگر کسی انسان کے کسی فعل کو نا پسند کر تا ہے تو سبحا ن اللہ اس لیے کہتا ہے کہ آپ سے کو ئی سہو ہواہے۔ سہو سے تو صرف خداکی ہی ذات پاک ہے ورنہ ہر ایک انسان سے سہو ممکن ہے۔اس مفہوم کو سمجھ کر آدمی اپنی غلطی پر متنبہ ہو جا تا ہے اسی طرح اگر کو ئی شخص کو ئی عمدہ کام کرے تو اس میں بھی سبحان اللہ کہا جاتا ہے جس کی یہ غرض ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی تمام نقصوں سے پاک ہے اور جو کچھ اس نے پیدا کیا ہے اسے بھی پاک ہی پیدا کیا ہے یہ کام جو کسی سے سر زد ہواہے یا یہ قول جوکسی کی زبان پرجاری ہواہے اپنی خوبی اور حسن میں خد اتعالیٰ کی پا کیزگی اور طہارت یاد دلاتا ہے جو تمام خوبیوں کا پیدا کرنے و الا ہے۔
غرض کہ سبحان اللہ کا کلمہ اس ضرورت کو پورا کر تا ہے جس کے لیے تو جہ دلا ئی جا تی ہے اور افسوس اور خوشی دونوں کا اظہار اس سے ایسی عمدگی سے ہو تا ہے جو اور کسی کلمہ سے نہیں ہو سکتا۔پس اس کلمہ کے مقابلہ میں تا لیاں بجانا اور سیٹیاں مارنا بالکل لغو اور بے فائدہے اور ان لغو حرکات کے مقابلہ پر ایسا پاک کلمہ رکھ دینا رسول کریم ؐ کی ہی پاک طبیعت کا کام تھا ورنہ ہزاروں سال سے اس لغو حرکت کو روکنےکی کسی اور کے دل میں تحریک نہیں ہو ئی ہاں صرف رسول کریم ؐ ہی ہیں جو اس نکتہ تک پہنچے اور آپ نے ایسے موقع پر خدا تعالیٰ کا نام لینے کی تعلیم دے کر ثابت کر دیا ہے کہ آپ ؐ ہر ایک موقع پر خدا تعالیٰ کا ذکر کر نا پسند فرماتے اور اسی کا ذکر آپؐ کے لیے غذا تھا۔
اس واقعہ کے علاوہ بہت سے واقعات ہیں جن سے معلوم ہو تا ہے کہ آپؐ چاہتے تھے کہ خدا تعالیٰ کا ذکر زیادہ کیا جائے چنانچہ چھینک پر،کھانا شروع کرتے وقت،پھر ختم ہونے کے بعد،سوتے وقت ،جاگتے وقت،نمازوںکے بعد،کو ئی بڑا کام کر تے وقت، وضو کرتے وقت غرضیکہ اکثر اعمال میں آپ نے خدا تعالیٰ کے ذکر کی طرف لوگوں کو متوجہ کیا ہے جس سے ثابت ہو تا ہے کہ آپ نہ صرف خود ہی ذکر الہٰی میں زیادہ مشغول رہتے تھے بلکہ دوسروں سے بھی چاہتے تھے کہ وہ بھی یاد الہٰی میں مشغول رہیں جو کہ آپؐ کے کمال محبت پر دال ہے۔
میں نے بہت آدمی دیکھے ہیں کہ ذرا عبادت کی اور مغرور ہو گئے چند دن کی نمازوں یا عبادتوں کے بعد وہ اپنے آپ کو فرعون بے سامان یا فخرِاولیاء سمجھنے لگتے ہیں اور دنیا ومافیھاان کی نظروں میں حقیر ہو جا تی ہے بڑے سےبڑے آدمی کی حقیقت کچھ نہیں جانتے بلکہ انسان کا تو کیا کہنا ہے خدا تعالیٰ پر بھی اپنا احسان جتاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ جو عبادات ہم نے کی ہیں گو یا خدا تعالیٰ پر احسان کیا ہےاور وہ ہمارا ممنون ہے کہ ہم نےاس کی عبادت کی ورنہ اگر عبادت نہ کر تے تو وہ کیا کر لیتا جو لوگ اس طرز کے نہیں ہو تے ان میں سے بھی اکثر ایسے دیکھے گئے ہیں کہ عبادت کرکے کچھ تکبر ضرور آجاتا ہے اور بہت ہی کم ہیں کہ جو عبادت کےبعدبھی اپنی حالت پر قائم رہیں او ریہی نیکوں کا گروہ ہے پھر سمجھ سکتے ہو کہ نیکوں کے سردار اور نبیوں کے سر بر آور دہ حضرت رسول کریم ﷺ کا کیا حال ہو گا۔
آپؐ تو کُل خوبیوں کے جامع اور کل نیکیوں کے سر چشمہ تھے عبادت کسی تکبر یا بڑا ئی کے لیے کر نا تو الگ رہا جس قدر خدا تعالیٰ کی بندگی بجالاتے اتنی ہی ان کی آتش شوق تیز ہوتی اور آپؐ بجائے عبادت پر خدا تعالیٰ کو اپنا ممنون احسان بنانے کے خود شرمندہ احسان ہو تے کہ الہٰی اس قدر توفیق جو عبادت کی ملتی ہے تو تیرے ہی فضل سے ملتی ہے۔آپؐ کی عبادت ایک تسلسل کا رنگ رکھتی ہے کچھ حصہ وقت جب عبادت میں گذارتے تو خیال کرتے کہ اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ اس نے اس کام کی تو فیق دی اس احسان کا شکر بجالانا ضروری ہے اس جذبہ ادائیگی شکر سے بے اختیارہو کر کچھ اور عبادت کر تے اور پھر اسے بھی خدا تعالیٰ کا ایک احسان سمجھتے کہ شکر بجالانا بھی ہر ایک کا کام نہیں جب تک خدا تعالیٰ کا احسان نہ ہو ۔پھراوربھی زیا دہ شوق کی جلوہ نما ئی ہو تی او رپھر اپنے رب کی عبادت میں مشغول ہو جا تے او ریہ راز ونیاز کا سلسلہ ایسا وسیع ہو تا کہ بارہا عبادت کر تے کرتے آپؐ کے پاؤں سوج جا تے صحابہؓ عرض کر تے یا رسول اللہ اس قدر عبادت کی آپؐ کو کیا حاجت ہے آپؐ کے تو گناہ معاف ہو چکے ہیں اس کا جواب آپؐ یہی دیتے کہ پھر کیا میں شکر نہ کروں۔
حضرت مغیرہ بن شعبہؓ فرماتے ہیں اِنْ کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَیَقُوْمُ لِیُصَلِّی حتّٰی تَرِمَ قَدَمَاہُ اَوْسَاقَاہُ فَیُقَالُ لَہٗ فَیَقُوْلُ اَفَلَااکُوْنُ عَبْدًا شَکُوْرًا (بخاری کتاب الجمعہ باب قیام النبیﷺ اللیل)رسول کریمؐ نماز کے لیے کھڑے ہوا کرتے تھے تو اتنی دیر تک کھڑے رہتے کہ آپؐ کے قدم (یا کہا)پنڈلیاں سوج جا تیں۔لوگ آپؐ سے جب کہتے (کہ آپ ایسا کیوں کر تے ہیں) تو آپ جواب دیتے کہ کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں؟
اللہ اللہ! کیا عشق ہے کیا محبت کیا پیار ہے خدا تعالیٰ کی یاد میں کھڑے ہو تے ہیں اور اپنے تن بدن کا ہوش نہیں رہتا خون کا دوران نیچے کی طرف ہو جاتا ہے اور آپ کے پاؤں متورم ہو جا تے ہیں لیکن محبت اس طرف خیال ہی نہیں جا نے دیتی آس پاس کے لوگ دیکھ کر حیران ہو جا تے ہیں کہ یہ کرتے کیا ہیں اور آپؐ کے درد سے تکلیف محسوس کرکے آپ کو اس طرف متوجہ کر تے ہیں کہ آپ یہ کیا کر تے ہیں اور کیوں اپنے آپ کو اس تکلیف میں ڈالتے ہیں اور اس قدر دکھ اٹھا تے ہیں آخر کچھ تو اپنی صحت اور اپنے آرام کا بھی خیال کر نا چاہیے مگر وہ دکھ جو لوگوں کو بے چین کر دیتا ہے اور جس سے دیکھنے والے متاثر ہو جا تے ہیں۔آپ پر کچھ اثر نہیں کر تا اور عبادات میں کچھ سستی کر نے اور آئندہ اس قدر لمبا عرصہ اپنے رب کی یاد میں کھڑے رہنا ترک کرنے کی بجائے آپؐ ان کی اس بات کو ناپسند کر تے ہیں اور انہیں جواب دیتے ہیں کہ کیا میں خدا کا شکر گزار بندہ نہ بنوں وہ مجھ پر اس قدر احسان کر تا ہے اس قدر فضل کر تا ہے اس شفقت کے سا تھ مجھ سے پیش آتا ہے پھر کیااس کے اس حسن سلوک کے بدلہ میں اس کے نام کا ورد نہ کروں؟ اس کی بند گی میں کو تا ہی شروع کر دوں؟
کیا اخلاص سے بھرا اور کیسی شکر گزاری ظاہر کر نے والا یہ جواب ہے اور کس طرح آپؐ کے قلب مطہر کے جذبات کو کھول کر پیش کر دیتا ہے خدا کی یاد اور اس کے ذکر کی یہ تڑپ اور کسی کے دل میں ہے۔کیا کو ئی اور اس کا نمونہ پیش کر سکتا ہے۔کیا کسی اور قوم کا بزرگ آپ کے اس اخلاص کا مقابلہ کر سکتا ہے؟میں اس مضمون کے پڑھنے والے کو اس طرف بھی متوجہ کر نا چاہتا ہوں کہ اس عبادت کے مقابلہ میںاس بات کا خیال بھی رکھنا چاہیے کہ آپؐ کس طرح کا موں میں مشغول رہتے تھے اور یہی نہیںکہ رات کے وقت عبادت کے لیے اٹھ کر کھڑے ہو جا تے اور دن بھر سو ئے رہتے کیونکہ اگر ایسا ہو تا تو پھراس شوق اور تڑپ کا پتہ نہ لگتا جو اس صورت میں ہے کہ دن بھر بھی آپؐ خدا تعالیٰ کے نام کی اشاعت اور اطاعت و فرمانبرداری کا رواج دینے کی کو شش میں لگے رہتے تھے۔خود پانچ اوقات میں امام ہو کر نماز پڑھاتے تھے دور دور کے جو وفود اور سفراء آتےتھے ان کے سا تھ خود ہی ملاقات کرتے اور ان کے مطالبات کا جواب دیتے۔ جنگوں کی کمان بھی خود ہی کرتے۔صحابہؓ کو قرآن شریف کی تعلیم بھی دیتے۔ جج بھی خود تھے تمام دن جس قدر جھگڑے لوگوں میں ہو تے ان کا فیصلہ کرتے۔عمّال کا انتظام ، بیت المال کا انتظام،ملک کا انتظام،دین اسلام کا اجرا او رپھرجنگوں میں فوج کی کمان، بیویوں کے حقوق کا ایفا۔پھر گھر کے کام کاج میں شریک ہو نا یہ سب کام آپ دن کے وقت کر تے اور ان کے بجالانے کے بعد بجائے اس کے کہ چُور ہو کر بستر پر جا پڑیں اور سورج کے نکلنے تک اس سے سر نہ اٹھائیں بار بار اٹھ کر بیٹھ جا تے اور اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے تحمید کر تے اور نصف رات کے گزرنے پر اٹھ کر وضو کرتے اور تن تنہا جب چاروں طرف خاموشی اور سناٹا چھایا ہواہو تا اپنے رب کے حضور میں نہایت عجزو نیاز سے کھڑے ہو جاتے اور تلاوت قرآن شریف کرتے اور اتنی اتنی دیر تک کھڑے رہتے کہ آپ کے پاؤں متورم ہو جا تے حتّٰی کہ عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیںکہ ایک دفعہ میں بھی آپ کےساتھ نماز پڑھنے کھڑا ہو گیا تو اس قدر تکلیف ہو ئی کہ قریب تھا کہ میں نماز توڑ کر بھاگ جا تا کیونکہ میرے قدم اب زیادہ بوجھ برداشت نہیں کر سکتے تھےاو رمیری طاقت سے باہر تھا کہ زیادہ کھڑا رہ سکوں۔یہ بیان اس شخص کا ہے جو نوجوان اور رسول کریمﷺ سے عمر میں کہیں کم تھا جس سے سمجھ میںآسکتا ہے کہ آپؐ کی ہمت اور جذبہ محبت ایسا تیز تھا کہ باوجود پیری کے اور دن بھر کام میں مشغول رہنے کے آپؐ عبادت میں اتنی اتنی دیر کھڑے رہتے کہ جو ان اور پھر مضبوط جوان جن کے کام آپ کے کاموں کے مقابلہ میں پاسنگ بھی نہ تھے آپ کے سا تھ کھڑے نہ رہ سکے اور تھک کر رہ جا تے۔
یہ عبادت کیوں تھی اور کس وجہ سے آپؐ یہ مشقت برداشت کر تے تھے۔صرف اسی لیے کہ آپ ایک شکر گزار بندے تھے اور آپ کا دل خدا تعالیٰ کے احسانات کو دیکھ کر ہر وقت اس کے ذکر کرنے کی طرف مائل رہتا چنانچہ جیسا کہ میں اوپر لکھ آیا ہوں جب آپ ؐ سے سوال کیا گیا کہ آپ اس قدر عبادت میں کیوں مشغول رہتے ہیں تو آپؐ نے یہی جواب دیا کہ کیا میں خدا تعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟
غرضیکہ جس محبت اور شوق سے آپ ذکر الہٰی میں مشغول رہتے تھے اور ان مشاغل کے باوجود جو آپ کو دن کے وقت در پیش رہتے تھے اس کی نظیر دنیا میں اور کسی ہادی کی زندگی میں نہیں مل سکتی اول تو میں دعویٰ کر تا ہوں کہ اگر دنیا کے دیگر ہادیان کے اشغال کا آپ کے اشغال سے مقابلہ کیا جائے تو ان کے اشغال ہی آپ کے مقابلہ میں بہت کم نکلیں گے لیکن اس فرق کو نظر انداز کرکے بھی ان کی زندگی میں ذکر الہٰی کی یہ کثرت نہ پا ئی جا ئے گی۔
بات یہ ہےکہ خدا تعالیٰ کے احسانات کا مطالعہ جس غور سے رسول کریم ﷺ نے فرما یاہے اور کسی انسان نے نہیں کیا۔اسی لیے جس محبت سے آپ اپنے پیارے کا نام لیتے تھے اور کسی انسان نے نہیں لیا۔ہم اس بات کا انکار نہیں کر تے کہ اللہ تعالیٰ کے مجیّن اور ذاکر ین میںبڑے بڑے لوگ ہو ئے ہیں لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ آپ جیسا ذاکر اور محّب اور کو ئی نہیں مل سکتا۔
موت کے وقت بھی (آپؐ کو )خدا ہی یاد تھا
سوائے شاذونادر کے عام طور پر دیکھاجاتا ہے کہ انسان اپنی زندگی پر حریص ہو تا ہے حتیٰ کہ ڈاکٹروں نے فیصلہ کر دیا ہے کہ جو شخص خود کشی کر تا ہے وہ ضرور پا گل ہو جا تا ہے یا خو دکشی کے وقت اسےجنون کا دورہ ہوتا ہے ورنہ عقل و خر د کی موجود گی میں انسان ایسا کام نہیں کر تا۔
جب موت قریب ہو تو اس وقت تو اکثر آدمی اپنے مشاغل کو یاد کرکے افسوس کر تے ہیں کہ اگر اور کچھ دن زندگی ہو تی تو فلاں کام بھی کر لیتے اور فلاں کام بھی کر لیتے جوانی میں اس قدر حرص نہیں ہو تی جس قدر پڑھاپے میںہو جا تی ہے اوریہی خیال دامنگیر ہو جا تا ہے کہ اب بچوں کے بچے دیکھیں اور پھر ان کی شادیاں دیکھیں اور جب موت قریب آتی ہے تو اوربھی توجہ ہو جا تی ہے اور بہت سے لوگوں کا بستر مرگ دیکھا گیا ہے کہ حسرت واندوہ کا مظہر اور رنج و غم کا مقام ہو تا ہے اور ‘اگر’اور ‘کاش’کا اعادہ اس کثرت سے کیا جا تا ہے کہ عمر بھر میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔مرنے والا پے در پے اپنی خواہشات کا ذکر کر تا ہے اور اپنے وقت کو وصیت میں صرف کر تا ہے میرے فلاں مال کو فلاں کے سپرد کرنااور میری بیوی سے یہ سلوک کرنا اور بیٹیوں سے یوں حسن سلوک سے پیش آنا فلاں سے میں نے اس قدر روپیہ لینا ہے اور فلاں کو اس قدر دینا ہے غرض اس قسم کی بہت سی باتیں ہیں جو روزانہ ہر گھر میں دوہرائی جا تی ہیں اور چونکہ موت کا سلسلہ ہر جگہ لگا ہوا ہے اور ہر فرد ِبشر کو اس دروازہ سے گزرنا پڑتا ہے اس لیے تمام لوگ ان کیفیات کو جانتے ہیں زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں۔
میرا آقا جہاں اَور ہزاروں باتوں میں دوسرے انسانوں سے اعلیٰ اور مختلف ہے وہاں اس بات میں بھی دوسروں سے بالاتر ہے۔اس میرے سردار کی موت کا واقعہ کو ئی معمولی سا واقعہ نہیں ۔ کس گمنامی کی حالت سے ترقی پا کر اس نے اس عظیم الشان حالت کو حاصل کیا تھا اور کس طرح خدا تعالیٰ نے اسے ہر دشمن پر فتح د ی تھی اور ہر میدان میں غالب کیا تھا۔ایک بہت بڑی حکومت کا مالک اور بادشاہ تھا اورہزاروں قسم کے انتظامات اس کے زیرِ نظر تھے لیکن اپنی وفات کے وقت اسے ان چیزوںمیں سے ایک کا بھی خیال نہیں۔نہ وہ آئندہ کی فکر کر تا ہے نہ تدابیر ملکی کے متعلق وصیت کر تا ہے نہ اپنے رشتہ داروں سے متعلق ہدایات لکھواتا ہے بلکہ اس کی زبان پر اگر کو ئی فقرہ جاری ہے تویہی کہ اَللّٰھُمَّ فِی الرَّفِیْقِ الْاَعْلٰی الَلّٰھُمَّ فِی الرَّفِیْقِ الْاَعْلٰی اے میرے اللہ ! مجھے رفیق اعلیٰ میں جگہ دے اے میرے اللہ ! مجھے رفیق اعلیٰ میں جگہ دے۔
اس فقرہ کو ذرا مضطربانہ حرکات سے مقابلہ کرکے دیکھو جو عام طور سے مرنے والوں سے سرزد ہو تی ہیں کیسا اطمینان ثابت ہو تا ہے۔کیسی محبت ہے۔ساری عمر آپؐ خدا تعالیٰ کو یاد کرتے رہے اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے۔خلوت و جلوت غرضیکہ ہر جگہ آپؐ کو خد اہی خدا یاد تھا اور اسی کا ذکر آپؐ کی زبان پر جا ری تھا اور اب جبکہ وفات کا وقت آیا تب بھی بجائے کسی اَو ردنیاوی غرض یامطلب کی طرف متوجہ ہونے کے خدا ہی کی یاد آپؐ کےسینہ میں تھی اور جن کو چھوڑچلے تھے ان کی فرقت کے صدمہ کی بجائے جن سے ملنا تھا ان کی ملا قات کی تڑپ تھی اور زبان پر اپنے رب کا نام جاری تھا۔
آہ! کیسا مبارک وہ وجود تھا۔کیا احسان ماننے والا وہ انسان تھا۔اس کی زندگی بہتر سے بہتر انسانوں کے لیے اسوہ حسنہ اور مہذب سے مہذب روحوں کے لیے ایک نمونہ تھی اس نے اپنے پیدا ہو نے سے مرنے تک کو ئی وقت اپنے رب کی یاد سے غافل نہیں گزارا۔وہ پاک وجود خدا تعالیٰ میں بالکل محو ہی ہو گیا تھا اور اس کی نظر میں سوائے اس وحدہٗ لا شریک خدا کے جو لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ ہے اور کو ئی وجود جچتا ہی نہ تھا۔پھر بھلا جو ذکر کہ تمام عمر اس کی زبان پر رہا وفات کے وقت وہ اسے کہاں بھلا سکتا تھاوہ کچھ انسان ساری عمر کہتا یا کر تا رہا وہی اسے وفات کے وقت بھی یاد آتا ہے۔پھر جس کی عمر کا مشغلہ ہی یاد الٰہی ہو اور زندگی بھر جس کی روحانی غذا ہی ذکرالٰہی ہو وہ وفات کے وقت اَور کسی چیز کو کب یاد کرسکتا تھا۔
مجھے میرا مولا پیارا ہے او رمجھے محمد رسول اللہ ﷺ بھی پیارا ہے کیونکہ وہ میرے مولا کا سب سے بڑا عاشق اور دلدادہ ہے اور جسےجس قدر میرے رب سے زیا دہ الفت ہے مجھے بھی وہ اسی قدر عزیز ہے۔
اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اَلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیدٌ مَّجِیْدٌ۔
٭…٭…٭