خدا کی ہستی کا ثبوت
حضرت ڈا کٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب ؓ تحریر فرماتے ہیں’’اب تو اکثر شہروں میں بجلی لگ گئی ہے مگر پہلے عموماً اچھی روشنی کے لیے گول بتی کا لیمپ استعمال ہُوا کرتا تھا۔ میز پر پڑھنے کے لیے بھی اور چھت پر لٹکانے کے لیے بھی۔گول بتی ،گول شعلہ اور گول چمنی،ان لیمپوں کی خصوصیت ہُواکرتی تھی۔ ایک دن میں شفا خانہ میں بیٹھاہوا تھا کہ بارہ بجے کے قریب ایک لالہ جی اپنی دائیں آنکھ پر رومال رکھے ہوئے تشریف لائے ۔میں نے پوچھا ’’کیا ہوا ‘‘؟ کہنے لگے کہ ہمارے ہاں گول بتی اور گول چمنی کا چھت گیر لیمپ ہے۔رات بھر وہ جلتا ہے اور صبح بجھادیا جاتا ہے ۔آج بھی حسبِ معمول صبح کے وقت بجھا دیا گیا ۔میں اتفاقاًابھی آدھ گھنٹہ ہوا کمرہ میں اس کے نیچے کھڑا ہوا کہ چٹاخ سے کسی چیز کے ٹوٹنے کی آواز سنائی دی ۔میں نے چھت کی طرف دیکھا ہی تھا کہ اتنے میں چاندی کی دوّنی کے برابر ایک ٹکڑا اس لیمپ کی چمنی میں سے الگ ہو کر سیدھا میری دائیں آنکھ کے اندر لگا۔میں درد کے مارے بے قرار ہو گیا۔اور بھاگا ہوا ہسپتال آیا ہوں۔‘‘ میں نے اُن کو میز پر لٹا کر آنکھ میں کوکین لوشن ڈالاتو کیا دیکھتا ہوں کہ اس شیشہ کے ٹکڑے کے تیز کنارے سے ان کی آنکھ صاف آدھم آدھ کٹ گئی ہے ۔میں نے آہستہ سے وہ شیشے کا ٹکڑا جس سے مشیت ِ الٰہی نے لالہ جی کی آنکھ کی چاند ماری کی تھی ،زنبور سے پکڑ کر نکال دیا ۔پھر آنکھ پر پٹی باندھ دی ۔مجھے بظاہر کوئی امید نہ تھی کہ آنکھ بچ جائے گی ۔مگر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ چند دن زخم اس طرح اچھا ہو گیا گویا کبھی لگا ہی نہ تھا۔ لیکن ساتھ ہی آنکھ کی بینائی بھی جاتی رہی۔کیونکہ چوٹ کی وجہ سے ُاس آنکھ میں موتیا بند پیدا ہوگیا ۔دو ماہ کے مسلسل علاج کے بعد وہ موتیا بند بھی آہستہ آہستہ جذب ہو گیا اور مریض کو اچھا خاصا نظر آنے لگ گیا۔ وہ شخص اب بھی زندہ ہے ۔مگر خدائی تقدیر کا نشان دیکھو کہ دن کو لیمپ گُل ہونے کے کئی گھنٹے بعد وہ چمنی چٹخی تقدیراً وہ شخص اس کے نیچے کھڑا تھا۔ آواز سن کر اوپر کو دیکھنا تھا کہ شیشے کا ٹکڑا سیدھا آنکھ کے اندر گھس گیا۔ اور اسے دو حصوں میں کاٹ دیا ۔گویا اتفاقی بات نہ تھی بلکہ کسی صاحب ارادہ ہستی کا فعل تھا پھر یہ تماشادکھا کر اس ہستی نے مضروب پر رحم فرمایا اور اپنے کیے کو اَن کیاکر دیا ۔اور اتنا بڑا زخم اچھا ہوگیا ۔مگر آنکھ کی بینائی جاتی رہی کیونکہ ایسے زخموں کا یہی قدرتی نتیجہ ہوا کرتا ہے۔ اس کے بعد اس ہستی نے پھر دوبارہ اس شخص پر رحم فرمایا اور اس کا موتیا بند اندر ہی اندر ہفتوں میں تحلیل اور جذب ہو کر صاف ہوگیا اور مریض کو پھر دکھائی دینے لگ گیا ۔ قدرت کے ایسے افعال جن میں خدائی ارادہ،خدائی رحم اور خدائی شفا شامل حال ہوں میں نے بہت دیکھے اور ساری عمر دیکھتا رہا ہوں ۔اُس لیے میں اس ہستی پر یقین رکھتا ہوں جسے اللہ کہتے ہیں اور جس پر ایمان لائے بغیر انسان کبھی سکھ اور سچی خوشی حاصل نہیں کر سکتا ۔‘‘
(آپ بیتی مصنف حضرت ڈا کٹر میر محمد اسمٰعیل صفحہ نمبر104تا105)
(مرسلہ : وجیہہ قمر رانا ۔جرمنی)