جلسہ سالانہ کے عظیم الشان اغراض و مقاصد
حضرت مہدی موعود علیہ السلام کے روح پرور کلام کی روشنی میں
بہار آئی ہے اس وقت خزاں میں
لگے ہیں پھول میرے بوستاں میں
الحمد للہ ایک سال کے جبری التوا کے بعد مرکز احمدیت میں شمع اسلام کے پروانے پھر جمع ہو رہے ہیں اور خزاں رسیدہ چمن میں موسم بہار کا آغاز ہو چکا ہے۔ اللہ جلّشانہ ملّتِ اسلامیہ کے اس بابرکت اور پُر کیف اور پُر انوار اور مثالی اجتماع کو ہر اعتبار سے مسلمانانِ عالم کے لیے عموماً اور فرزندان احمدیت کے لیے خصوصاً بہت مبارک کرے۔ آمین
حضرت مہدی موعود علیہ السلام نے 1893ء میں جلسہ سالانہ کی عظیم الشان اغراض پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرمایا کہ
‘‘ہماری جماعت کے لوگ کسی طرح بار بار کی ملاقاتوں سے ایک ایسی تبدیلی اپنے اندر حاصل کر لیں کہ ان کے دل آخرت کی طرف بکلّی جھک جائیں اور ان کے اندر خدا تعالیٰ کا خوف پیدا ہو اور وہ زہدوتقویٰ اور خدا ترسی اور پرہیزگاری اور نرم دلی اور باہم محبت اور مواخات میں دوسروں کے لیے ایک نمونہ بن جائیں اور انکساراور تواضع او راستبازی ان میں پیدا ہو اور دینی مہمات کے لیے سرگرمی اختیار کریں۔’’
(شہادت القرآن ص98طبع اول)
ان کلمات قدسیہ میں جن کے الفاظ تھوڑے اور معانی بہت ہیں جماعت احمدیہ کے مرکزی جلسہ کے مندرجہ ذیل چودہ(14)مقاصد بیان کیے گئے ہیں۔
(1)ملاقات (2) فکر معاد (3) خوفِ خدا (4) زہد (5) تقویٰ (6) خدا ترسی (7) پرہیزگاری (8) نرم دلی (9) باہم محبت (10) مواخات (11) انکسار (12) تواضع (13) راست بازی (14) دینی مہمات میں سرگرمی۔
ذیل میں ان مقاصد عالیہ کی تشریح و توضیح کلام مہدی معہود سے پیش کی جاتی ہے۔ ؎
اس ڈھب سے کوئی سمجھے بس مدعا یہی ہے
ملاقات
احباب سارے آئے تو نے یہ دن دکھائے
تیرے کرم نے پیارے یہ مہرباں بلائے
یہ دن چڑھا مبارک مقصود جس میں پائے
یہ روز کر مبارک سُبۡحَانَ مَنۡ یَّرانِیۡ
فکر معاد
اے دوستو پیارو عقبیٰ کو مت بسارو
کچھ زادِ راہ لے لو، کچھ کام میں گزارو
دنیا ہے جائے فانی دل سے اسے اتارو
یہ روز کر مبارک سُبۡحَانَ مَنۡ یَّرانِیۡ
خوف خدا
جو کچھ ہمیں ہے راحت سب اُس کی جُود و منت
اس سے ہے دل کو بیعت دل میں ہے اسکی عظمت
بہتر ہے اسکی طاعت ،طاعت میں ہے سعادت
یہ روز کر مبارک سُبۡحَانَ مَنۡ یَّرانِیۡ
زہد
تلخی کی زندگی کو کرو صدق سے قبول
تا تم پہ ہو ملائکہ عرش کا نزول
اسلام چیز کیا ہے؟ خدا کے لیے فنا
ترکِ رضائے خویش پیَ مرضئی خدا
تقویٰ
ہر اک نیکی کی جڑ یہ اتّقاء ہے
اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے
یہی اک فخرِ شانِ اولیاء ہے
بجز تقویٰ زیادت ان میں کیا ہے
خدا ترسی
جب تک خدائے زندہ کی تم کو خبر نہیں
بے قید اور دلیر ہو کچھ دل میں ڈر نہیں
سَو روگ کی دوا یہی وصلِ الٰہی ہے
اس قید میں ہر ایک گُنہ سے رہائی ہے
پرہیز گاری
کوئی اُس پاک سے جو دل لگاوے
کرے پاک آپ کو تب اس کو پاوے
جو مرتا ہے وہی زندوں میں جاوے
جو جلتا ہے وہی مردے جِلاوے
نرم دلی
اے مرے پیارو! شکیب و صبر کی عادت کرو
وہ اگر پھیلائیں بدبو تم بنو مشکِ تتار
نفس کو مارو کہ اس جیسا کوئی دشمن نہیں
چپکے چپکے کرتا ہے پیدا وہ سامانِ دِمار
جس نے نفسِ دُوں کو ہمت کے زیرِ پا کیا
چیز کیا ہیں اسکے آگے رستم و اسفندیار
باہم محبت
دیکھ لو میل و محبت میں عجب تاثیر ہے
ایک دل کرتا ہے جھک کر دوسرے دل کو شکار
کوئی رہ نزدیک تر راہِ محبت سے نہیں
طے کریں اس راہ سے سالک ہزاروں دشتِ خار
تیر تاثیرِ محبت کا خطا جاتا نہیں
تیر اندازو! نہ ہونا سست اس میں زینہار
مواخات
خیر خواہی میں جہاں کی خوں کیا ہم نے جگر
جنگ بھی تھی صلح کی نیت سے اور کیں سے فرار
انکسار
شوخی و کبر دیو لعیں کا شعار ہے
آدم کی نسل وہ ہے جو وہ خاکسار ہے
اے کرمِ خاک! چھوڑ دے کبر و غرور کو
زیبا ہے کِبر حضرتِ ربِّ غیوّر کو
تواضع
بدتر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں
شاید اسی سے دخل ہو دارالوصال میں
چھوڑو غرور و کبر کہ تقویٰ اسی میں ہے
ہو جاؤ خاک، مرضیٔ مولیٰ اسی میں ہے
جو خاک میں ملے اسے ملتا ہے آشنا
اے آزمانے والے! یہ نسخہ بھی آزما
راست بازی
چاہیے نفرت بدی سے اور نیکی سے پیار
ایک دن جانا ہے تجھ کو بھی خدا کے سامنے
راستی کے سامنے کب جھوٹ پھلتا ہے بھلا
قدر کیا پتھر کی لعلِ بے بہا کے سامنے
دینی مہمات میں سرگرمی
مجھ کو دے اک فوق عادت اے خدا جوش وتپش
جس سے ہوجاؤںمیںغم میںدیںکے اک دیوانہ وار
وہ لگادے آگ میرے دل میں ملّت کے لیے
شعلے پہنچیں جس کے ہر دم آسماں تک بیشمار
حضرت مہدی معہودؑ کی دعا
1893ء کی مندرجہ بالا مقدّس تحریر کے آخر میں حضور علیہ السلام نے حضرت احدیّت کے حضوراپنی جماعت کے لیے بڑے پیارے الفاظ میں ایک نہایت جامع دعا بھی کی ہے۔ فرماتے ہیں:
‘‘دعا کرتا ہوں اور جب تک مجھ میں دمِ زندگی ہے، کیے جائوں گا اور دعا یہی ہے کہ خدا تعالیٰ میری اس جماعت کے دلوں کو پاک کرے اور اپنی رحمت کا ہاتھ لمباکر کے ان کا دل اپنی طرف پھیر دے اور تمام شرارتیں اور کینےدلوں سے اٹھاوے اور باہمی سچی محبت عطا کردے اورمیں یقین رکھتا ہوں کہ یہ دعا کسی وقت قبول ہوگی اور خدا میری دعاؤں کو ضائع نہیں کرے گا۔’’
خدا کرے کہ سالانہ جلسہ میں شرکت کی سعادت حاصل کرنے والا ہر احمدی اس مقدس اجتماع کی اغراض و مقاصد کو پورا کر کے حضرت مہدی موعود کی دعائوں کے بھاری خزانے کا وارث بن جائے کہ اس دولت کے مقابل بادشاہت ہفت اقلیم بھی ہیچ ہے۔
وَمَا تَوۡفِیۡقُنَا اِلَّا بِاللّٰہِ الۡعَلِّیِ الۡعَظِیۡمِ۔
(روزنامہ الفضل ربوہ 23 فتح 1351ھش/دسمبر 1972ء صفحہ 3)
(مرسلہ :ڈاکٹر سلطان احمد مبشر)