ظاہر پرستی گمراہی کا موجب ہے
ظاہر پرستی سے یہود گمراہ ہو گئے۔ ظاہر پر ستی سے یہودیوں پر یہ آفت آئی کہ وہ مسیح علیہ السلام کا انکار کرتے رہے اور نہ صرف یہی بلکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا بھی انکار کرتے رہے۔ ان کو یہ خیال تھا کہ مسیح آئے گا تو ایک بادشاہ ہو کر آئے گا۔ اور بڑی شان و شوکت سے تختِ داؤد پر جلوہ افروز ہو گا اور اس کے آنے سے پیشتر ایلیا آسمان سے اُترے گا، مگر جب مسیح آیا۔ تو اس نے ایلیا تو یوحنّا کو بتایا اور آپ بجائے بادشاہ ہونے کے ایسی عاجزی دکھائی کہ سر رکھنے کو بھی جگہ نہ ملی۔ اب ظاہر پرست یہودی کیونکر مان لیتے ۔ پس انہوں نے بڑے زور سے انکار کیا اور اب تک کر رہے ہیں۔ یہی مصیبت ہمارے زمانہ کے مولویوں اور ملّاؤں کو پیش آئی۔ وہ منتظر ہیں کہ مسیح اور مہدی آکر لڑائیاں کرے گا، مگر خدا تعالیٰ نے یہ امر ہی ملحوظ نہ رکھا تھا اور بخاری نے یضع الحرب کہہ کر اس کا قضیہ ہی چکا دیا تھا۔ یہ امن اور سلامتی کے خواستگار کو ماننا نہیں چاہتے۔
آخرت پر نظر رکھنے والے ہمیشہ مبارک ہیں
مَیں دیکھتا ہوں کہ باوجود مصائب پر مصائب آنے کے اور ہر طرف خطرہ ہی خطرہ دکھائی دینے کے لوگ ابھی تک سنگدلی اور عُجب و نخوت سے کام لے رہے ہیں۔ نادان کب تک اس بے فکری میں بسر کریں گے۔ تاوقتیکہ لوگ ضد نہیں چھوڑتے۔ اپنی بُری کرتوتوں سے باز نہیں آتے اور خدا تعالیٰ سے مصالحت نہیں کرتے، یہ بلائیں اور مصیبتیں دُور نہیں ہونے کی۔ مَیں نے دیکھا ہے اور خوب غور کیا ہے کہ قحط کے دنوں میں لوگوں نے ذرا بھی قحط کی مصیبت کو محسوس نہیں کیا۔ شراب خانے اسی طرح آباد تھے اور بدکاریوں اور بدمعاشیوں کے بازار برابر گرم تھے۔ ابتدا میں جب کبھی کوئی برائے نام فتویٰ مکّہ مدینہ کے نام سے آجایا کرتا تھا، تو لوگ ڈرجایا کرتے تھے اور مسجدیں آباد ہو جاتی تھیں، مگر اس وقت شوخی اور بیباکی حدّ سے بڑھ چلی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی فضل کرے۔
عقلمند وہ ہے جو عذاب آنے سے پیشتر اس کی فکرتا ہے اور دُور اندیش وہ ہے جو مصیبت سے پہلے اُس سے بچنے کی فکر کرے۔
انسان کو یہی لازم ہے کہ آخرت پر نظر رکھ کر بُرے کاموں سے توبہ کرے، کیونکہ حقیقی خوشی ساور سچّی راحت اسی میں ہے۔ یہ ایک یقینی امر ہے کہ کوئی بدکاری اور گناہ کا کام ایک لحظہ کے لیے بھی سچّی خوشی نہیں دے سکتا۔ بدکار، بدمعاش کو تو ہر دم اظہارِ راز کا خطرہ لگا ہوا ہے۔ پھر وہ اپنی بد عملیوں میں راحت کا سامان کہاں دیکھے گا۔ آخرت پر نظر رکھنے والے ہمیشہ مبارک ہیں۔ ؎
مَردِ آخر بیں مبارک بندہ ایست
دیکھو ان قوموں کا حال جن پر وقتاً فوقتاً عذاب آئے۔ہر ایک کو یہی لازم ہے کہ اگر دل سخت بھی ہو تو اسے ملامت کر کے خشوع خضوع کا سبق دے۔رونا اگر نہیں آتاتو رونی صورت بنا وے پھر خود بخود آنسو بھی نکل آئیں گے۔
اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کریں
ہماری جماعت کے لیے سب سے زیادہ ضروری ہے کہ وہ اپنے اندر پاک تبدیلی کریں،کیونکہ ان کو تو تازہ معرفت ملتی ہے اور اگر معرفت کا دعویٰ کر کے کوئی اس پر نہ چلے تو یہ نری لاف گزاف ہی ہے۔پس ہماری جماعت کو دوسروں کی سُستی غافل نہ کر دے اور اس کو کاہلی کی جرأت نہ دلاوے۔ وہ ان کی محبت سرد دیکھ کر خود بھی دل سخت نہ کر لے۔
انسان بہت آرزوئیںوتمنائیں رکھتا ہے مگر غیب کی قضاء وقدر کی کس کو خبر ہے۔زندگی آرزؤں کے موافق نہیں چلتی۔ تمناؤں کا سلسلہ اور ہے۔قضاءو قدر کا سلسلہ اور ہے۔اور وہی سچا سلسلہ ہے۔ خدا کے پاس انسان کے سوانح سچے ہیں۔اسے کیا معلوم ہے اس میں کیا لکھا ہے۔اس لیے دل کو جگا جگا کر غور کرنا چاہیے۔
(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 239۔241)
٭…٭…٭