الفضل،بیج سے ایک تناوَر درخت تک
الفضل،بیج سے ایک تناوَر درخت تک
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
اللہ کے فضل سے پچیس سال قبل خلافتِ احمدیہ کے بابرکت ہاتھوں سے لگائے گئے الفضل انٹر نیشنل کے پودے کا ترقی کا سفر بڑی تیزی کے ساتھ جاری ہے ۔ایک مدّت تک ہفت روزہ رہنے کے بعد یہ اخبار سہ روزہ ہو چکا ہے اور اس کی ویب سائیٹ کا بھی اجرا ہوگیا ہے۔ یہ ویب سائیٹ زمانے کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہے ۔ ترقی کے اس سفر نے چشم ِتصور میں وہ زمانہ یاد دلا دیا کہ جب بانیٔ الفضل سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے خلافت اولیٰ میںحضرت خلیفۃ المسیح کی اجازت سے اس کا اجرا فرمایا تھا ۔
یہ 1913ء تھا جو خلافتِ اولیٰ کا آخری سال تھا۔اس وقت بعض مخصوص حالات کی وجہ سے شدت کے ساتھ ایک ایسےنئے اخبار کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی جو حقیقی طور پر خلیفۃ المسیح کا سلطان نصیر بن کر حضرت مسیح موعود ؑکے مشن کو لےکر آگے چلے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں حضرت سیدنا مصلح موعود رضی اللہ عنہ نےنیا اخبار شروع کرنے کی اجازت حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ سے حاصل کی جو کہ حضورؓنے بخوشی عطا فرما ئی اور اس نئے اخبار کا نام اپنے ایک رؤیا کی روشنی میں “الفضل” تجویز فرمایا۔
(الفضل 19؍ نومبر 1914ء)
اخبار کا آغاز کرنے کے لیے ایک اہم مرحلہ اس کے لیے سرمائے کا انتطام تھا چنانچہ نئے اخبار کی ضرورت اور اس کے سرمایہ کی کم یابی کے متعلق حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
“میں بے مال و زر تھا ۔جان حاضر تھی مگر جو چیز میرے پاس نہ تھی وہ کہاں سے لاتا۔ اس وقت سلسلہ کو ایک اخبار کی ضرورت تھی جو احمدیوں کے دلوں کو گرمائے ۔ان کی سستی کو جھاڑے ان کی محبت کو ابھارے ان کی ہمتوں کو بلند کرے اور یہ اخبار ثریا کے پاس ایک بلند مقام پر بیٹھا تھا اس کی خواہش میرے لیے ایسی ہی تھی جیسے ثریا کی خواہش، نہ وہ ممکن تھی نہ یہ”
(یاد ایام۔انوار العلوم جلد 8 ص 369)
اللہ تعالیٰ نے آپ رضی اللہ عنہ کی بے تابی کو اس طرح دور فرمایا اور نئے اخبار کے لیے سرمایہ کا انتظام اس طرح سے کیا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی حرم اول حضرت ام ناصر صاحبہ کے دل میں آپ کی مدد کرنے کی تحریک کی۔ چنانچہ حضرت ام ناصر صاحبہ نے نئے اخبار کو شروع کرنے کے لیےحضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں اپنا اور اپنی پیاری صاحبزادی حضرت ناصرہ بیگم صاحبہ(والدہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز)کا زیور پیش کیا۔ چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ نےیہ زیورلاہور میں جا کر پونے پانچ سو کے عوض بیچا۔ یہی اس نئے ولولہ انگیز اخبار کا اولین سرمایہ تھا ۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے موجودہ امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنی والدہ حضرت سیدہ ناصرہ بیگم صاحبہ کی وفات پر اپنے خطبہ جمعہ میں ان کا ذکر خیر کرتے ہوئے قارئین الفضل کو ان کے لیےدعا کی تحریک کی تھی کہ
“قارئین الفضل حضرت مصلح موعود کی اس پیاری بیٹی اور میری والدہ کو بھی الفضل پڑھتے ہوئے دعاؤں میں یاد رکھیں کہ الفضل کے اجراء میں گوبے شک شعور رکھتے ہوئے تو نہیں لیکن اپنے ماں باپ کے ساتھ آپ نے بھی حصہ لیا ،اور یہ الفضل جو ہے آج انٹر نیشنل الفضل کی صورت میں بھی جاری ہے ۔اللہ تعالیٰ اُن کے درجات بلند فرماتا چلا جائے اور ان کی دعائیں ہمیشہ ہمیں پہنچتی رہیں ’’
(الفضل 20 ستمبر 2011ء ص 7)
اسی طرح حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا اور حضرت نواب محمد علی خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اپنی کچھ زمین نئے اخبار کو شروع کرنے کے لیے دی اور یوں ایک نئے اخبار کا سرمایہ اکٹھا ہو گیا اور حکومت سے ڈیکلریشن کے حصول کے بعد الفضل حضرت سیدنا مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی زیر ادارت 18؍ جون 1913ءکو منصۂ شہود پر آگیا اور اپنے نام کی طرح ہی جماعت پر بطور فضل خداوندی ثابت ہوا۔
الفضل اپنے آغاز ہی سے خلافت کا سلطان نصیر بن کر دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرنے لگا اوربہت جلد خدا تعالیٰ نے الفضل کو ایسے جاں نثار انصار و اعوان عطا کیے جن کی بدولت الفضل ایک ادارے کی حیثیت اختیا رکر گیا اور بقول شاعر ؏
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
الفضل پر ایک اہم دور اس وقت آیا جب 1947ء میں تقسیم ہند کے بعد جماعت احمدیہ کو نہایت سخت حالات میں، بےسروسامانی کے عالم میں الٰہی پیشگوئیوں کے مطابق قادیان دارالامان سے اپنے پیارے امام سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے زیر قیادت پاکستان ہجرت کرنا پڑی۔پاکستان پہنچ کرامام جماعت احمدیہ سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کو جماعت کی از سر نَوتنظیم سازی کے حوالہ سے بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جیسا کے حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ ‘‘یہاں پہنچ کر میں نے پورے طور پر محسوس کیا کہ میرے سامنے ایک درخت کو اکھیڑ کر دوسری جگہ لگانا نہیں بلکہ ایک باغ کو اکھیڑ کر دوسری جگہ لگانا ہے۔’’
(الفضل31جولائی 1949)
چشمِ فلک نے یہ نظارہ دیکھا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ جیسے مدبّر وجود کی بدولت باغ احمد میں بہارِ نَو پیدا ہو گئی اورآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بوستان احمد کے پراگندہ اشجار کواس طور پر دوبارہ لگا دیا کہ سب اشجا ر نہایت قلیل عرصہ میں اپنا پھل دینے لگ گئے۔حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے لاہور ہجرت کے بعد صرف 15 روز کے قلیل عرصہ میں یعنی15 ستمبر 1947کو مالی وسائل کی شدید کمی کے باوجودپاکستان سے الفضل کا اجرا فرمایا ۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے سلطان نصیر کے طور پر جماعت کی از سرنو تنظیم سازی میں الفضل نے ایک کلیدی کردار اداکیا ۔احمدی مہاجرین اور پناہ گزینوں کا اپنے محبوب امام حضرت سیدنا مصلح موعود رضی اللہ عنہ سے راہنمائی اور مرکزی ہدایات کے حصول کا واحد ذریعہ الفضل ہی تھا۔ چنانچہ اُس وقت الفضل پر حضرت خلیفۃ المسیح کی طرف سے جماعت کے نام پیغامات، جماعت کے انتظامی اعلانات،جماعتی عہدے داران کی طرف سے اعلانات،مالی قربانی کی طرف توجہ کے اعلانات وغیرہ شائع ہوتے رہےجن کی بدولت جماعت نہایت قلیل عرصہ میں ازسرِنَو وحدت کے شیرازے میں پروئی گئی چنانچہ جہاں دوسرے لوگوں کا کوئی پرسان حال نہ تھا وہاں احمدیوں کا سہارا آستانہ ٴخلافت تھا اور الفضل کی حیثیت ایک پل کی سی تھی جس کے ذریعہ حضرت خلیفۃ المسیح اور جماعت کا آپس میں رابطہ قائم تھا۔
الفضل پر ایک اَور اہم دور اس وقت آیا جب اسے اُسی ملک کے اربابِ حل وعقد کی طرف سے مختلف قسم کی قدغنوں کا سامنا کرتے ہوئے جبر ی تعطل کا شکار رہنا پڑا جس ملک کے قیام کے لیے یہ ایک لمباعرصہ کوشاں رہا۔ تاریخ احمدیت گواہ ہے جب بھی ارضی دنیا نے جماعت کے لیے تنگی پیدا کرنا شروع کی تو آسمان پر جماعت کے لیے ایک لامتناہی وسعتوں کا نیا دور مقدر کر دیا گیا۔ چنانچہ خلافت رابعہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے الفضل نے اپنی نئی وسعتوں کا ایک نیا سنگ میل اس طرح سےطے کیا کہ جماعت کو درپیش چیلنجز کے حوالے سے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کی نظر جہاں نوشتہٴ دیوار پرتھی وہاں آپؒ کی دور اندیش نگاہیں آئندہ مستقبل میں پیدا ہونے والی صورتحال کو بھی بھانپ رہی تھیں۔ اس لیے آپؒ نے7جنوری 1994ء کو‘‘الفضل انٹرنیشنل”کی صورت میں لندن میں بھی اس کی ایک نئی شاخ قائم فرما دی اور الفضل بیک وقت ربوہ سے روزانہ وار اور لند ن سے ہفتہ وار شائع ہوتا رہا ۔
آج کل ربوہ سے روزنامہ الفضل کی اشاعت پرحکومت وقت کی طرف سےپابندی عائد ہےجبکہ لندن سے شائع ہونے والاالفضل انٹرنیشنل ہفت روزہ سے سہ روزہ تک کاسفر طے کرتا ہوا ایک تناور درخت کی حیثیت اختیار کر چکا ہے اور براہ راست حضرت خلیفۃ المسیح کے زیر سایہ پھل پھول رہا ہے اور جیسا کہ ذکر ہو چکا، اپنی ویب سائیٹ اور موبائل فون ایپلیکیشن کے ذریعہ چہار دانگ عالم میں حضرت مسیح موعودؑ کے فیض کو پہنچانے کی سعادت حاصل کر رہا ہے ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ الفضل کی اس جاری نہر کے لیے اپنے گھروں کے دروازے کھولے جائیں اور اپنے دامن کو اس کے فیض سے مالا مال کریں ۔ نیز ان بزرگان کی قربانیوں کو بھی یاد رکھیں اور ان کا ذکر اپنی دعاؤں میں بھی ہو جنہوں نے الفضل کو جاری رکھنے کی خاطر کئی قسم کی مشکلات برداشت کیں،کڑے وقت کو دیکھا اور اسی طرح بعض نے قیدو بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں ۔
الفضل کے آغاز کے وقت حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالیٰ کے حضور التجا پیش کی تھی کہ “اے میرے مولا! اس مشت خاک نے ایک کام شروع کیا ہے۔ اس میں برکت دے اور اسے کامیاب کر۔ میں اندھیروں میں ہوں تو آپ ہی رستہ دکھا۔لوگوں کے دلوں میں الہام کر کہ وہ الفضل سے فائدہ اٹھائیں اور اس کے فیض کو لاکھوں نہیں کروڑوں تک وسیع کر اور آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی اسے مفید بنا،اس کے سبب سے بہت سی جانوں کی ہدایت ہو”
(الفضل 18 جون 1913 ص 3)
دعا ہے کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی یہ رقت آمیز دعائیں اللہ تعالیٰ ہمارے حق میں بھی قبول فرمائے۔آمین