’’اگر آپ زندگی چاہتے ہیں…‘‘
تنظیم سے مراد ایک ایسی جماعت ،ایسا گروہ ہوتا ہے جو ایک طریق سے، ایک نظام کے تابع کسی کام کو سرانجام دے،کسی مشن پر ہو ۔ ہر تنظیم کے قیام کے پس پردہ کچھ مقاصد کارفرما ہوتے ہیں۔ قدرتِ ثانیہ کے دوسرے مظہر،حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدّین محمود احمد المصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے احمدی نوجوانوں کی تنظیم ‘مجلس خدام الاحمدیہ’ کا آغاز1938ء میں فرمایا۔1949ء کے سالانہ اجتماع کے موقع پر اپنے افتتاحی خطاب میں حضورؓنے اس کے قیام کے مقاصد کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:
‘‘خدام الاحمدیہ کے قیام سے میرا مقصد دراصل یہ تھا کہ کسی نہ کسی طرح ہمارے نوجوانوں میں وہ روحانیت پیدا ہوجائے کہ وہ قوم کی آئندہ اپنے کندھوں پر پڑنے والی ذمہ داریوں کو اٹھا سکیں۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ ہماری جماعت کوئی سیاسی جماعت نہیں ہے اور نہ ہی مذہبی جماعتیں کبھی سیاست کے تابع چلا کرتی ہیں بلکہ سیاست خود ان کی غلامی میں پناہ ڈھونڈا کرتی ہے ۔ یہی وجہ تھی کہ ہم نے اپنے وطن کے گزشتہ سیاسی بحران میں بھی محض تعاون اور قوم کے نیک طبیعت اکابر کی اعانت ہی کو کافی سمجھا اور باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لینے سے ہمیشہ پہلوتہی اختیار کی۔……
ہماری جماعت ایک روحانی جماعت ہے اور ہر مذہبی تحریک کی بنیاد روحانیت ہی پر ہوا کرتی ہے یہی وجہ تھی کہ جب میں نے خدام الاحمدیہ قائم کی تو میرا مقصد محض یہ تھا کہ وہ کسی نہ کسی طرح صحیح معنوں میں دین کو دنیا پر مقدم کرنا سیکھ لے ۔’’
پھر ہر تنظیم کو چلانے کے لیے ایک مجلسِ عاملہ ہوتی ہے، عہدیداران ہوتے ہیں جو اس کے مقاصد کو پورا کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ اسی خطاب میں حضورؓ نے خدام الاحمدیہ کے ذمہ دار افراد یابالفاظ دیگر عہدیداران کے انتخاب کے لیے اصولی ہدایات دیں جن سے اس تنظیم کے مقاصد پر مزید روشنی پڑتی ہے۔ فرمایا:
‘‘عہدیداری کے لیے سب سے بڑی شرط دینداری ہوگی۔ ہرووٹر کو ووٹ دیتے ہوئے باقاعدہ شہادت دینی پڑا کرے گی کہ یہ شخص اُس کے علم میں کیا واقعی پانچ وقت کا نمازی ہے، راست باز ہے، غربا پرور ہے، جھوٹا نہیں اور پابندِ نظامِ سلسلہ ہے ۔’’
اور اپنے خطاب کے اختتام پر ایک احمدی نوجوان سے وابستہ اپنی توقعات کا مختصر مگر جامع الفاظ میں تذکرہ فرمایا، گویا اس تنظیم کے قیام کے تمام بنیادی مقاصد کو چند الفاظ میں سمیٹ دیا:
‘‘احمدی نوجوان کے معنی یہ ہیں کہ اسے اپنی زبان پر قابوہو، وہ محنتی ہو، وہ دین دار ہو، وہ پانچ وقت کا نمازی ہو ، وہ قربانی و ایثار کا مجسمہ ہو اور کلمہ ٔ حق کو زیادہ سے زیادہ پہنچانے میں نڈر ہو۔ بے شک یہ لیفٹ رائٹ بھی بُری چیز نہیں لیکن خواہ کوئی چیز کتنی ہی اچھی ہو پھر بھی ہر چیز اپنے مقام پر ہی زیب دیتی ہے۔’’
(الفضل یکم نومبر 1949ء)
حضرت مصلح موعودؓ نے ان خصوصیات میں دین دار ہونے اور نمازی ہونے کو ایک خاص اہمیت دی ہے۔ ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان کی طرف سے رسالہ خالد کے ‘‘سیّدنا طاہر نمبر’’ کی اشاعت کے موقع پر اپنے خصوصی پیغام میں باقاعدگی کے ساتھ نمازوں کی ادائیگی کی نصیحت کی اور فرمایا:
‘‘…نمازوں کے پابند ہو جائیں۔ ہر احمدی خادم اور طفل اس طرح پانچ وقت کا نمازی بن جائے کہ آپ کے ماحول کی ہر احمدی مسجد نمازیوں سے رونق پکڑنے لگے۔ نماز آپ کی روح کی غذا بن جائے۔ جس طرح مچھلی پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی اس طرح آپ کی حالت نماز کے بغیر ہو۔ یاد رکھیں کہ نماز کے بغیر آپ کی زندگی بے لطف اور بے حقیقت رہے گی۔’’
ہم سب جانتے ہیں کہ جماعتِ احمدیہ کے نظام کے قیام کا ایک بڑا مقصد ہر احمدی کو براہِ راست خلیفۂ وقت سے جوڑنا ہے۔ اس طرح جو نظامِ جماعت کا مقصد وہی ذیلی تنظیم کا مقصد۔ روحانی سلسلوں میں جب نبی یا اس کی نیابت میں اس کا خلیفہ اپنے پیروکاروں کو اپنی طرف بلاتا ہے، اپنے ساتھ جڑنے کی نصیحت کرتا ہے تو ازروئے قرآن اس کا مقصد انہیں زندگی عطا کرنا ہوتاہے۔ بلا مبالغہ اگر ہم خلفائے عظام کی مذکورہ بالا نصائح پر عمل کرنے لگیں تو روحانی اور جسمانی طور پر بھرپور زندگی گزارنے والے بن جائیں گے۔
اللہ کا یہ بھی عظیم احسان ہے کہ ان نصائح پر عمل کرنے، اس زندگی کو پانے کا طریقہ بھی ہمیں واضح الفاظ میں بتا یا جاتا ہے۔ اپنے مذکورہ بالا پیغام کے آخر پر ایک احمدی کو حقیقی زندگی حاصل کرنے کی کلید سے آگاہ کرتے ہوئے ہمارے پیارے امام فرماتے ہیں:
‘‘اگر آپ زندگی چاہتے ہیں تو خلافت احمدیہ کے ساتھ اخلاص و وفا کے ساتھ چمٹ جائیں۔ پوری طرح اس سے وابستہ ہو جائیں کہ آپ کی ہر ترقی کا راز خلافت سے وابستگی میں مضمر ہے۔ ایسے بن جائیں کہ خلیفۂ وقت کی رضا آپ کی رضا ہو جائے۔ خلیفۂ وقت کے قدموں پر آپ کا قدم ہو اور خلیفۂ وقت کی خوشنودی آپ کا مطمح نظرہو جائے۔’’
(ماہنامہ خالد، سیّدنا طاہر نمبر ۔ مارچ؍ اپریل 2004ء)
گویا نظامِ جماعت کے قیام کا مقصد، مجلس خدام الاحمدیہ کے قیام کا مقصد اور ہماری زندگی کا مقصد خلافت کے ساتھ اخلاص و وفا کے ساتھ چمٹنے سے پورا ہو جائے گا۔ وھذا ھوالمقصود
اللہ تعالیٰ احمدی نوجوانوں کو محض اپنے فضل سے اپنے پیارے اور محبوب خلفاء کی توقعات پر پورا اترنے کی توفیق عطا فرمائے تا کہ ‘‘وہ قوم کی آئندہ اپنے کندھوں پر پڑنے والی ذمہ داریوں کو اٹھا سکیں۔’’ آمین