دین میں داخل کرنے کے لئے جبر جائز نہیں
اسلام نے کبھی جبر کا مسئلہ نہیں سکھایا ۔ اگر قرآن شریف اور تمام حدیث کی کتابوں اور تاریخ کی کتابوں کو غور سے دیکھا جائے۔ اور جہاں تک انسان کے لئے ممکن ہے تدبّر سے پڑھا یا سنا جائے تو اس قدر وسعت ِمعلومات کے بعد قطعی یقین کے ساتھ معلوم ہو گا کہ یہ اعتراض کہ گویا اسلا م نے دین کو جبراً پھیلانے کے لئے تلوار اٹھائی ہے نہایت بے بنیاد اور قابل شرم الزام ہے اور یہ ان لوگوں کا خیال ہے جنہوں نے تعصّب سے الگ ہو کر قرآن اور حدیث اور اسلام کی معتبر تاریخوں کو نہیں دیکھا بلکہ جھوٹ اور بہتان لگانے سے پورا پورا کام لیا ہے۔مگر مَیں جانتا ہوں کہ اب وہ زمانہ قریب آتا جاتا ہے کہ راستی کے بھوکے اور پیاسے ا ن بہتانوں کی حقیقت پر مطلع ہو جائیں گے۔ کیا اس مذہب کو ہم جبر کا مذہب کہہ سکتے ہیں جس کی کتاب قرآن میں صاف طور پر یہ ہدایت ہے کہ لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ (البقرہ:257)یعنی دین میں داخل کرنے کے لئے جبر جائز نہیں۔ کیا ہم اُس بزرگ نبی کو جبر کا الزام دے سکتے ہیں جس نے مکہ معظمہ کے تیرہ برس میں اپنے تمام دوستوں کو دن رات یہی نصیحت دی کہ شر کا مقابلہ مت کرو اور صبر کرتے رہو۔ہاں جب دشمنوں کی بدی حد سے گزر گئی اور دین اسلام کے مٹا دینے کے لئے تمام قوموں نے کوشش کی تو اس وقت غیرت الٰہی نے تقاضا کیا کہ جو لو گ تلوار اٹھاتے ہیں وہ تلوار ہی سے قتل کئے جائیں۔ ورنہ قرآن شریف نے ہر گز جبر کی تعلیم نہیں دی۔ اگر جبر کی تعلیم ہوتی تو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب جبر کی تعلیم کی وجہ سے اس لائق نہ ہوتےکہ امتحانوں کے موقع پر سچے ایمانداروں کی طرح صدق دکھلا سکتے۔ لیکن ہمارے سیّد و مولیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی وفا داری ایک ایسا امر ہے کہ اس کے اظہار کی ہمیں ضرورت نہیں۔یہ بات کسی پر پوشیدہ نہیں کہ ان کے صدق اور وفا داری کے نمونے اس درجہ پر ظہور میں آئے کہ دوسری قوموں میں ان کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ اس وفا دار قوم نے تلواروں کے نیچے بھی اپنی وفا داری اور صدق کو نہیں چھوڑا بلکہ اپنے بزرگ اور پاک نبی کی رفاقت میں وہ صدق دکھلایا کہ کبھی انسان میں وہ صدق نہیں آ سکتا جب تک ایمان سے اس کا دل اور سینہ منور نہ ہو۔غرض اسلام میں جبر کو دخل نہیں۔ اسلام کی لڑائیاں تین قسم سے باہر نہیں، (۱)دفاعی طور پر یعنی بہ طریق حفاظت خود مختیاری،(۲) بطور سزا یعنی خون کے عوض میں خون،(۳)بطور آزادی قائم کرنے کے یعنی بغرض مزاحموں کی قوت توڑنے کے جو مسلمان ہونے پر قتل کرتے تھے۔ پس جس حالت میں اسلام میں یہ ہدایت ہی نہیں کہ کسی شخص کو جبر اور قتل کی دھمکی سے دین میں داخل کیا جائے تو پھر کسی خونی مہدی یا خونی مسیح کی انتظار کرنا سراسر لغو اور بیہودہ ہے۔ کیونکہ ممکن نہیں کہ قرآنی تعلیم کے بر خلاف کوئی ایسا انسان بھی دنیا میں آوے جو تلوار کے ساتھ لوگوں کو مسلمان کرے۔
(مسیح ہندوستان میں، روحانی خزائن جلد 15صفحہ 11تا12)
ہمیں خدا تعالیٰ نے قرآن میں یہ بھی تعلیم دی ہے کہ دین اسلام میں اکراہ اور جبر نہیں جیسا کہ وہ فرماتا ہے:لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ اور جیسا کہ فرماتا ہے:اَفَاَنْتَ تُکْرِہُ النَّاس(یونس :100)
(مجموعہ اشتہارات، جلد دوم صفحہ 219)
٭…٭…٭