اصحاب الصفہ …آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے دیوانے ہیں کہ آپؐ کا دَر چھوڑنا نہیں چاہتے۔
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
فرمودہ 30؍ اگست 2019ء بمطابق 30؍ ظہور 1398 ہجری شمسی
بمقام مسجد بیت الفتوح مورڈن، سرے۔(برطانیہ)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
بدری صحابہ کے ذکر مَیں آج میں جن صحابی کا پہلے ذکر کروں گا ان کا نام ہے حضرت عُتْبہ بن مسعود ھُذَلِّیؓ۔ حضرت عُتْبہ بن مسعود ھُذَلِّی ؓکی کنیت ابوعبداللہ تھی۔ آپؓ قبیلہ بنو ھُذیل سے تھے۔
(اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ المجلد الثالث صفحہ563 ‘‘عُتْبہ بن مسعود’’ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2008ء)
حضرت عُتْبہ بن مسعودؓ قبیلہ بنو زُھْرَہ کے حلیف تھے۔ آپؓ کے والد کا نام مسعود بن غافل تھا اور آپؓ کی والدہ کا نام اُمِّ عَبْد بنت عَبدِ وُدّ تھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ آپؓ کے حقیقی بھائی تھے۔ آپؓ مکے میں ابتدائی اسلام لانے والوں میں سے تھے۔ حبشہ کی طرف دوسری مرتبہ ہجرت کرنے و الوں میں آپؓ شامل تھے۔
(الطبقات الکبریٰ جلد 4 صفحہ381 ’’عُتْبہ بن مسعود‘‘ وَمِنْ حُلَفَاءِ بنی زھرة بن کلاب۔داراحیا ء التراث العربی بیروت لبنان 1996ء)
حضرت عُتْبہ بن مسعودؓ اصحابِ صُفّہ میں سے تھے۔
(المستدرک علی الصحیحین للحاکم جلد 5 صفحہ 1615 کتاب الھجرة، حدیث نمبر4294مکتبہ نزار مصطفٰی الباز مکۃ مکرمۃ الریاض2000ء)
صفہ کے بارے میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے مختلف تواریخ سے تفصیل لے کر لکھا ہے۔لکھتے ہیں کہ مسجد کے ایک گوشے میں ایک چھت دارچبوترہ بنایاگیاتھاجسے صُفّہ کہتے تھے۔ یہ ان غریب مہاجرین کے لیے تھا جو بے گھر بار تھے۔ ان کا کوئی گھر نہیں تھا۔یہ لوگ یہیں رہتے تھے اور ‘اصحاب الصفہ’ کہلاتے تھے۔ ان کا کام گویا دن رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہنا، عبادت کرنا اور قرآن شریف کی تلاوت کرنا تھا۔ ان لوگوں کا کوئی مستقل ذریعۂ معاش نہ تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود ان کی خبرگیری فرماتے تھے اورجب کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی ھدیہ وغیرہ آتا تھا یا گھر میں کچھ ہوتا تھا توان کا حصہ ضرور نکالتے تھے۔ بلکہ بعض اوقات آپؐ خود فاقہ کرتے تھے اورجو کچھ گھر میں ہوتا تھاوہ اصحاب الصفہ کو بھجوادیتے تھے۔ انصار بھی ان کی مہمانی میں حتی المقدور مصروف رہتے تھے اوران کے لیے کھجوروں کے خوشے لالا کر مسجد میں لٹکا دیا کرتے تھے لیکن اس کے باوجود ان کی حالت تنگ رہتی تھی اور بسا اوقات فاقے تک نوبت پہنچ جاتی تھی اوریہ حالت کئی سال تک جاری رہی حتٰی کہ کچھ تومدینے کی آبادی کی وسعت کے نتیجے میں ان لوگوں کے لیے کام نکل آیا اور کچھ نہ کچھ مزدوری مل جاتی تھی اورکچھ قومی بیت المال سے ان کی امداد کی صورت پیدا ہوگئی۔
(ماخوذ از سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ270)
بہرحال ان لوگوں کے بارے میں دوسری جگہ مزید تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ یہ لوگ دن کو بارگاہِ نبوت میں حاضر رہتے اور حدیثیں سنتے۔ رات کو ایک چبوترے پر پڑے رہتے۔ عربی زبان میں چبوترے کو صُفہ کہتے ہیں اور اسی بنا پر ان بزرگوں کو اصحابِ صفہ کہا جاتا ہے۔ ان میں سے کسی کے پاس چادر اور تہ بند دونوں چیزیں کبھی ایک ساتھ جمع نہ ہو سکیں۔ چادر کو گلے سے اس طرح باندھ لیتے تھے کہ رانوں تک لٹک آتی تھی، کپڑے پورے نہیں ہوتے تھے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ انہی بزرگوں میں سے تھے۔ ان کا بیان ہے کہ میں نے اہل ِصفہ میں سے ستر اشخاص کو دیکھا کہ ان کے کپڑے ان کی رانوں تک بھی نہیں پہنچتے تھے، جسم پہ کپڑا لپیٹتے تھے تو وہ گھٹنوں سے اوپر مشکل سے پہنچتا تھا۔ پھر کہتے ہیں کہ معاش کا طریقہ یہ تھا کہ ان میں ایک ٹولی دن کو جنگل سے لکڑیاں چن کر لاتی اور بیچ کر اپنے بھائیوں کے لیے کچھ کھانا مہیا کرتی۔ اکثر انصار کھجور کی شاخیں توڑ کر لاتے اور مسجد کی چھت میں لٹکا دیتے۔ باہر کے لوگ آتے اور ان کو دیکھتے تو سمجھتے کہ یہ دیوانے ہیں۔ بے وقوف لوگ ہیں۔ بلاوجہ یہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔ یا یہ بھی سمجھتے ہوں گے کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے دیوانے ہیں کہ آپؐ کا دَر چھوڑنا نہیں چاہتے۔ بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کہیں سے صدقہ آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس بھیج دیتے اور جب دعوت کا کھانا آتا تو ان کو بلا لیتے اور ان کے ساتھ بیٹھ کر کھاتے۔ اکثر ایسا ہوتا کہ راتوںکو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کو مہاجرین و انصار پر تقسیم کر دیتے یعنی اپنے مقدور کے موافق ہر شخص ایک ایک دو دو اپنے ساتھ لے جائے اور رات کو ان کو کھانا کھلائے۔ بعض دفعہ ایسے موقعے بھی ہوتے تھے کہ کسی کو بعض مہاجرین کے سپرد کر دیا۔ کسی کو انصار کے سپرد کر دیا کہ رات کا کھانا ان کو دینا ہے۔ حضرت سعد بن عبادہؓ ایک صحابی تھے جو نہایت فیاض اور دولت مند تھے وہ کبھی کبھی اسّی اسّی مہمانوں کو اپنے ساتھ لے جایا کرتے تھے۔ اسّی مہمانوں تک ساتھ لے جاتے۔ رات کو ان کو کھانا کھلاتے تھے۔ ان کی کشائش تھی۔ مختلف روایتوں کے مطابق یا بعض روایتوں کے مطابق اہل صفہ کی تعداد مختلف وقتوں میں مختلف رہی تھی۔ کم سے کم بارہ افراد اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ یہاں تک کہ تین سو افراد ایک وقت مقام صفہ میں مقیم رہے تھے بلکہ ایک روایت میں ان کی کل تعداد چھ سو صحابہ کرام بتائی گئی ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے ساتھ نہایت اُنس تھا۔ ان کے ساتھ مسجد میں بیٹھتے۔ ان کے ساتھ کھانا کھاتے اور لوگوں کو ان کی تعظیم و تکریم پر آمادہ کرتے۔ یعنی یہ نہیں کہ یہ بیٹھے ہوئے ہیں، فارغ ہیں تو ان کی عزت نہ کی جائے، ان کا احترام نہ کیا جائے بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ یہ لوگ ہیں جو میرے لیے، میری باتیں سننے کے لیے بیٹھتے ہیں اس لیے ہر ایک کو ان کی صحیح طرح تعظیم بھی کرنی چاہیے، عزت بھی کرنی چاہیے۔ ایک بار اہلِ صفہ کی ایک جماعت نے بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں شکایت کی کہ کھجوروں نے ہمارے پیٹ کو جلا دیا ہے۔ صرف کھجوریں ہی کھانے کو ملتی ہیں اَور تو کچھ ملتا نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی شکایت سنی تو ان کی دل دہی کے لیے ایک تقریر کی جس میں فرمایا: یہ کیا ہے کہ تم لوگ کہتے ہو کہ ہمارے پیٹوں کو کھجوروں نے جلا دیا ہے۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ کھجور ہی اہلِ مدینہ کی غذا ہے لیکن لوگ اسی کے ذریعہ سے ہماری مدد بھی کرتے ہیں اور ہم بھی انہی کے ذریعہ سے تمہاری مدد کرتے ہیں۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ خدا کی قسم! ایک یا دو مہینے سے اللہ کے رسول کے گھر میں دھواں نہیں اٹھا ۔ یعنی میں نے بھی اور میرے گھر والوں نے بھی صرف پانی اور کھجور پر بسراوقات کی ہے۔ بہرحال یہ اصحابِ صفہ عجیب فدائی لوگ تھے ۔کھجور کے کھانے کا ذکر تو کیا، شکوہ تو کیا کہ اس نے پیٹ کو جلا دیا ہے لیکن جگہ نہیں چھوڑی۔ وہ کامل وفا کے ساتھ وہیں بیٹھے رہتے تھے اور اسی چیز، فاقوں پر یا پھر کھجوروں پر یا جو بھی مل جاتا تھا اس پر گزارا کرتے تھے۔ پھر لکھا ہے کہ ان بزرگوں کا مشغلہ یہ تھا کہ راتوں کو عموماً عبادت کرتے تھے اور قرآن مجید پڑھتے رہتے۔ ان کے لیے ایک معلم مقرر تھا جس کے پاس رات کو جا کر یہ پڑھتے تھے۔ جن کو پڑھنا نہیں آتا تھا یا قرآنِ کریم صحیح طرح پڑھ نہیں سکتے تھے یا یاد کرنا چاہتے ہوں گے تو معلم ان کو رات کو پڑھاتا تھا۔ اس بنا پر ان میں سے اکثر قاری کہلاتے تھے اور اشاعتِ اسلام کے لیے کہیں بھیجنا ہوتا تو یہی لوگ بھیجے جاتے تھے۔ جب یہ پڑھ لکھ گئے تو پھر یہ قاری بھی کہلانے لگ گئے اور پھر دوسروں کو تعلیم دینے کے لیے بھی ان کو بھیجا جاتا تھا۔ بعد میں انہی اصحاب میں سے بہت سے بڑے بڑے عہدوں پر بھی فائز ہوئے یعنی اصحابِ صفہ جو تھے یہ نہیں کہ بعد میں وہیں بیٹھے رہے بلکہ عہدوں پر، بڑے بڑے عہدوں پر فائر ہوئے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ حضرت عمر ؓکے دور ِخلافت میں بحرین کے گورنر رہے تھے۔ پھر حضرت معاویہؓ کے دور میں مدینہ کے گورنر رہے۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ بصرہ کے گورنر رہے اور کوفہ شہر کی بنیاد آپ نے ڈالی۔ حضرت سلمان فارسیؓ مدائن کے گورنر رہے۔ حضرت عمار بن یاسرؓ کوفہ کے گورنر رہے۔ یہ سب اصحاب صفہ میں شامل تھے۔ حضرت عُبادہ بن جراحؓ فلسطین کے گورنر رہے۔ حضرت انس بن مالکؓ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے دور میں مدینے کے گورنر رہے۔ انہی میں سے ایک سپہ سالار بھی تھے جنہوں نے فتوحاتِ اسلامیہ میں ایک نمایاں کردار ادا کیا۔ حضرت زید بن ثابتؓ نہ صرف سپہ سالار تھے بلکہ حضرت عمرؓ کے دور میں قاضی القضاة کے عہدے پر بھی متعین رہے۔
(ماخوذ از سیر الصحابہ جلد پنجم صفحہ 548تا 550داراالاشاعت کراچی2004ء)(ماخوز ازجستجوئے مدینہ از عبدالحمید قادری صفحہ 672،681)
حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ مَیں غریب مہاجرین کی جماعت میں جا بیٹھا یعنی انہی اصحابِ صفہ کی جماعت میں جو نیم برہنگی کے باعث ایک دوسرے سے ستر چھپا رہے تھے یا تقریباً آدھا جسم ان کا ننگا تھا اور اس حد تک تھا کہ مشکل سے اپنی ستر چھپا رہے تھے۔ پھر کہتے ہیں کہ ہم میں سے ایک قاری قرآن کی تلاوت کر رہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے تو قاری خاموش ہو گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کیا اور دریافت فرمایا کہ تم کیا کر رہے ہو؟ ہم نے عرض کیا کہ یہ قاری ہمیں تلاوت سنا رہا تھا اور ہم کتاب اللہ کو سن رہے تھے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے میری امت میں ایسے لوگ بھی شامل فرمائے جن کے ساتھ صبر کرنے کا حکم مجھے بھی دیا گیا ہے کہ جس طرح یہ صبر کر رہے ہیں تمہیں بھی صبر کا حکم ہے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ذات اقدس کو ہم میں شمار کرنے کے لیے ہمارے درمیان بیٹھ گئے۔ آپؐ نے دستِ مبارک سے حلقہ بنا کر اشارہ کیا یعنی میں بھی تم میں سے ہی ہوں۔ ایک دائرہ بنایا اور بیچ میں بیٹھ گئے، چنانچہ سب کا رخ آپؐ کی طرف ہو گیا۔ راوی کا بیان ہے کہ میرے خیال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں میرے سوا کسی کو نہیں پہچانا۔ بیان کرنے والے نے کہا کہ اتنے زیادہ لوگ تھے کہ میرے سوا کسی کو نہیں پہچانا۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے تنگ دست مہاجرین کے گروہ تمہیں بشارت ہو۔ قیامت کے روز تم نورِ کامل کے ساتھ امیر لوگوں سے نصف دن پہلے جنت میں داخل ہو گے اور یہ نصف دن جو ہے وہ پانچ سو برس کا دن ہے۔
(سنن ابو داوٗد کتاب العلم باب فی القصص حدیث نمبر3666)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کو بھی الہام ہوا تھا جس میں اصحابِ صفہ کا ذکر ہے۔ عربی الہام تھا کہ
‘‘اَصْحَابُ الصُّفَّۃِ وَمَا اَدْرَاکَ مَا اَصْحَابُ الصُّفَّۃِ تَرٰی اَعْیُنَھُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ۔ یُصَلُّوْنَ عَلَیْکَ۔ رَبَّنَا اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیْ لِلْاِیْمَانِ وَ دَاعِیًا اِلَی اللّٰہِ وَسِرَاجًا مُنِیْرًا۔ صفہ کے رہنے والے اور تُو کیا جانتا ہے کہ کیا ہیں صفہ کے رہنے والے۔ تُو دیکھے گا کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوں گے۔ وہ تیرے پر درود بھیجیں گے اور کہیں گے کہ اے ہمارے خدا ! ہم نے ایک منادی کرنے والے کی آواز سنی ہے جو ایمان کی طرف بلاتا ہے۔’’
( حقیقۃالوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 78)
یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنے بعض ساتھیوں کے بارے میں ہوا تھا کہ مجھے بھی ایسے ہی ملیں گے۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا ہے کہ یہ جو اصحابِ صفہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جو گزرے ہیں، بڑی شان والے لوگ تھے اور بڑے مضبوط ایمان والے لوگ تھے اور انہوں نے جو اخلاص و وفا کا نمونہ دکھایا ہے وہ ایک مثال ہے اور اللہ تعالیٰ نے مجھے بھی فرمایا ہے کہ تمہیں بھی مَیں بعض ایسے لوگ عطا کروں گا۔
صحیح بخاری میں حضرت عُتْبہ بن مسعودؓ کا ذکر ان صحابہ کرام کی فہرست میں کیا گیا ہے جو غزوۂ بدر میں شامل ہوئے تھے تاہم صحابہ کے حالات پر مشتمل جو بعض اَور کتب ہیں اُسُد الغابہ فی معرفة الصحابہ، الاصابہ فی تمییز الصحابہ اور الاستیعاب فی معرفة الاصحاب اور البقات الکبرٰی وغیرہ میں ان کے غزوۂ احد کے اور اس کے بعد والے غزوات میں شامل ہونے کا ذکر ملتا ہے۔
(صحیح بخاری کتاب المغازی باب تسمیة من سمّی من اھل بدر ……الخ)
(اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ جلد 3 صفحہ563 ’’عُتْبہ بن مسعود‘‘ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2008ء)
(الاصابہ فی تمییز الصحابۃ جزء 4 صفحہ 366، عتبۃ بن مسعود الھذلی، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 1995ء)
(الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جلد 3 صفحہ 1030، عتبۃ بن مسعود الھذلی، دارالجیل بیروت)
(الطبقات الکبرٰی جلد 4 صفحہ381 وَمِنْ حُلَفَاءِ بنی زھرة ،’’عُتْبہ بن مسعود‘‘داراحیا ء التراث العربی بیروت لبنان 1996ء)
لیکن غزوۂ بدر میں نہیں ۔لیکن بخاری نے حضرت عُتْبہ بن مسعودؓ کا ذکر بدری صحابہ میں کیا ہے۔
حضرت عُتْبہ بن مسعودؓ کی حضرت عمر بن خطابؓ کے دورِ خلافت میں 23 ہجری میں مدینے میں وفات ہوئی اور حضرت عمرؓ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔ قاسم بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطابؓ نے حضرت عُتْبہ بن مسعودؓ کی نماز جنازہ میں ان کی والدہ حضرت ام عبدؓ کا انتظار کیا کہ وہ بھی شامل ہو جائیں۔
(الطبقات الکبرٰی لابن سعد الجزء الرابع صفحہ238 ’’عُتْبہ بن مسعود‘‘ وَمِنْ حُلَفَاءِ بنی زھرة ۔داراحیا ء التراث العربی بیروت لبنان 1996ء)(البدایةوالنہایةلابن کثیر جلد4جزء7صفحہ138 ،ثم دخلت سنۃ ثلاث وعشرين،دارالکتب العلمیہ2001ء)
امام زہری سے منقول ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ صحبت اور ہجرت کے لحاظ سے اپنے بھائی حضرت عُتْبہؓ سے زیادہ قدیم نہ تھے۔ یعنی حضرت عُتْبہ بن مسعودؓ زیادہ پرانے صحابی تھے۔ عبداللہ بن عُتْبہ سے روایت ہے کہ جب حضرت عُتْبہ بن مسعودؓ کا انتقال ہوا تو آپؓ کے بھائی حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ بعض لوگوں نے آپؓ سے کہا کہ کیا آپؓ روتے ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ میرے بھائی تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں میرے ساتھی تھے اور حضرت عمر بن خطابؓ کے علاوہ سب لوگوں سے زیادہ مجھ کو محبوب تھے۔
(اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ المجلد الثالث صفحہ563 ’’عُتْبہ بن مسعود‘‘ دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2008ء)
ایک اور روایت میں ہے کہ جب حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے پاس ان کے بھائی حضرت عُتْبہ بن مسعودؓ کی وفات کی خبر پہنچی تو ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور انہوں نے کہا کہ إِنَّ هٰذِهِ رَحْمَةٌ جَعَلَهَا اللّٰهُ لَا يَمْلِكُهَا ابْنُ اٰدَمَ۔ کہ یقیناً یہ رحمت ہے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اور ابنِ آدم اس کو قابو کرنے پر قادر نہیں۔
(الطبقات الکبریٰ جلد4صفحہ381-382 ’’عُتْبہ بن مسعود‘‘ وَمِنْ حُلَفَاءِ بنی زھرة ۔داراحیاء التراث العربی بیروت لبنان 1996ء)
یعنی یہ موت برحق ہے اور نیک لوگوں کے لیے تو پھر رحمت بن جاتی ہے۔ ایک روایت کے مطابق حضرت عمر بن خطابؓ حضرت عُتْبہ بن مسعودؓ کو امیرمقامی بھی بنایا کرتے تھے۔
(الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد4صفحہ366 ‘‘عُتْبہ بن مسعود الھذلی’’دارالفکر بیروت 2001 )
اگلے جن صحابی کا ذکر ہے ان کا نام حضرت عُبادہ بن صَامِتؓ ہے۔ یہ انصاری تھے۔ حضرت عُبادہؓ کے والد کا نام صَامِت بن قیس اور والدہ کا نام قرة العین بنت عُبادہ تھا۔ بیعتِ عَقَبَہ اولیٰ اور ثانیہ میں یہ شریک تھے۔ انصار کے قبیلہ خزرج کے خاندان بنو عوف بن خزرج کے سردار تھے جو ‘قَوَاقِلْ’ کے نام سے مشہور تھے۔ قَوقَلْ نام کی جو وجہ ہے وہ یہ ہے کہ جب مدینے میں کسی سردار کے پاس کوئی شخص پناہ کا طلب گار ہوتا تو اس سے یہ کہا جاتا تھا کہ اس پہاڑ پر جیسے مرضی چڑھ۔ اب تُو امن میں ہے یعنی تجھے کوئی مشکل نہیں ۔جہاں جس طرح مرضی رہ یعنی تُو اس حالت میں لَوٹ جا کہ تُو فراخی محسوس کر اور اب کسی بھی چیز کا خوف نہ کھا۔ اور وہ لوگ جو پناہ دینے والے تھے وہ ‘قَوَاقِلَہ’ کے نام سے مشہور تھے۔ ابنِ ہشام کہتے ہیں کہ ایسے سردار جب کسی کو پناہ دیتے تو اسے ایک تِیر دے کر کہتے کہ اس تِیر کو لے کر اب جہاں مرضی جاؤ۔ حضرت نعمانؓ کے دادا ثَعْلَبہ بن دَعْدکو قَوقَل کہا جاتا تھا۔ اسی طرح خزرج کے سردار غَنْم بن عوف کو بھی قَوقَل کہا جاتا تھا۔ اسی طرح حضرت عُبادہ بن صَامِت بھی قوقَل کے لقب سے مشہور تھے۔ بنو سالِم، بنو غَنم اور بنو عوف بن خزرج کو بھی قَوَاقِلَہ کہا جاتا تھا۔ بنو عوف کے سردار حضرت عُبادہ بن صَامِتؓ تھے۔
(اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ لابن اثیر جلد3صفحہ158-159 عبادۃ بن الصَامِت، دارالکتب العلمیہ بیروت2008ء)(الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ414 النعمان بن مالک ، دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 2012ء)(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ309، العقبة الاولٰی ومصعب بن عمیر۔۔۔۔، دارالکتب العلمیة 2001ء)(تاج العروس زیر مادہ ’’ققل‘‘ جلد 15 صفحہ 627 باب اللام مطبوعہ دار الفکر بیروت 1994ء)
حضرت عبادہؓ کے ایک بیٹے کا نام ولید تھا جس کی والدہ کا نام جمیلہ بنت ابو صَعْصَعْہ تھا۔ دوسرے بیٹے کا نام محمد تھا جس کی والدہ کا نام حضرت اُمِّ حَرَام بنت مِلْحَان تھا۔ حضرت اَوس بن صَامِتؓ حضرت عُبادہ کے بھائی تھے۔ حضرت اوسؓ بھی بدری صحابی تھے۔
(الطبقات الکبرٰی الجزء الثالث صفحہ280-281، عُبادہ بن صَامِت، دار احیاء التراث العربی بیروت1996ء)
جب حضرت ابومَرثَد غَنَوِیؓ ہجرت کر کے مدینہ آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عُبادہ کے ساتھ ان کی مؤاخات قائم فرمائی۔ حضرت عُبادہ غزوۂ بدر، احد، خندق اور تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ شریک تھے۔ حضرت عبادہؓ 34؍ہجری میں رَمْلہ فلسطین میں فوت ہوئے۔ بعض کے مطابق بیت المقدس میں فوت ہوئے اور وہیں تدفین ہوئی اور ان کی قبر آج بھی معروف ہے۔ ایک روایت کے مطابق حضرت عبادہؓ کی وفات قُبرُس میں ہوئی جبکہ وہ حضرت عمرؓ کی طرف سے اس پر والی بنا کر بھیجے گئے تھے۔ وفات کے وقت ان کی عمر 72سال تھی۔ ان کا قد لمبا جسم فربہ اور بہت خوبصورت تھا۔ بعض کے مطابق ان کی وفات پینتالیس ہجری میں امیر معاویہ کے دور میں ہوئی مگر پہلا قول زیادہ صحیح ہے جس میں ان کی وفات جو ہے وہ 34؍ہجری میں فلسطین میں ہوئی نہ کہ 45ہجری۔
(اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ جلد3صفحہ55-56، دارالفکر بیروت 2003ء)
(الاستیعاب فی معرفة الاصحاب جلد2 صفحہ355، عُبادہ بن صَامِت، دارالکتب العلمیہ بیروت 2002ء)
(شرح مسند الشافعی از عبد الکریم بن محمد قزوینی جزء2 صفحہ165مطبوعہ ادارۃ الشؤون الاسلامیہ قطر2007ء از مکتبہ الشاملہ)
حضرت عُبادہ بن صَامِتؓ کی روایات کی تعداد ایک سو اکاسی (181)تک پہنچتی ہے۔ احادیث کی مختلف روایات ان سے ہیں جس کے روایت کرنے والے اکابر صحابہ اور تابعین ہیں۔ چنانچہ صحابہ کرام میں سے حضرت انس بن مالکؓ، حضرت جابر بن عبداللہؓ، حضرت مِقْدَامْ بن مَعْدِی کَرِبْؓ وغیرہ ہیں۔
(سیر الصحابہ جلد 3صفحہ405،دارالاشاعت اردو کراچی2004ء)
راوی کہتے ہیں کہ حضرت عُبادہؓ جنگِ بدر میں شامل ہوئے تھے اور عَقَبَہ کی رات یہ بھی سرداروں میں سے ایک سردار تھے کہ حضرت عُبادہ بن صَامِتؓ نے بیان کیا ہے۔ یہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کا ایک گروہ تھا فرمایا کہ مجھ سے اس بات پر بیعت کرو کہ تم کسی چیز کو بھی اللہ کا شریک نہیں ٹھہراؤ گے۔ نہ ہی چوری کرو گے اور نہ ہی اولاد کو قتل کرو گے اور تم دیدہ و دانستہ بہتان نہیں باندھو گے اور نہ معروف بات میں تم نافرمانی کرو گے۔ پس جس نے بھی تم میں سے یہ عہد پورا کیا اس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہو گا اور جس نے ان بدیوں میں سے کوئی بدی کی اور پھر دنیا میں اسے سزا مل گئی تو یہ سزا اس کے لیے کفارہ ہو گی اور جس نے ان بدیوں میں سے کوئی بدی کی اور پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی پردہ پوشی فرمائی تو اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ اللہ چاہے تو اس سے درگزر کرے اور چاہے تو اسے سزا دے۔ سو ہم نے ان باتوں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی۔ یہ بخاری کی روایت ہے۔
(صحیح البخاری کتاب الایمان باب علامۃ الایمان حب الانصار حدیث 18)
ہجرتِ مدینہ کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب قبا میں نماز ِجمعہ ادا فرمائی تو نماز ِجمعہ پڑھنے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کی طرف جانے کے لیے اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی لگام ڈھیلی چھوڑ دی اور اس کو کوئی حرکت نہ دی۔ اونٹنی دائیں اور بائیں اس طرح دیکھنے لگی کہ جیسے وہ چلنے کے لیے کسی سمت اور کسی رخ کا فیصلہ کر رہی ہے کہ مَیں کدھر جاؤں۔ یہ کھڑی تھی، دائیں بائیں دیکھ رہی تھی اورآگے نہیں چل رہی تھی۔ یہ دیکھ کر بنو سالم کے لوگوں نے یعنی جن کے محلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کی نماز پڑھی تھی انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا ۔ ان میں عِتْبَان بن مالِک اور نَوفَل بن عبداللہ بن مالک اور عُبادہ بن صَامِت بھی تھے۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسولَ اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم۔ ہمارے ہاں قیام فرمائیے۔ یہاں اس علاقے میں لوگوں کی تعداد بھی زیادہ ہے اور عزت و حفاظت بھی پوری ہو گی۔ ہم پوری طرح عزت بھی کریں گے، آپؐ کی حفاظت بھی کریں گے اور یہاں ہیں بھی ہم زیادہ مسلمان ۔ ایک روایت میں یہ لفظ بھی ہے کہ یہاں دولت اور ثروت بھی ہے۔ ہمارے لوگ بڑے کشائش والے ہیں۔ پیسے ہمارے پاس ہیں۔ ایک روایت میں یوں ہے کہ ہمارے قبیلے میں اتریے، ہم تعداد میں بھی زیادہ ہیں اور ہمارے پاس ہتھیار بھی ہیں۔ نیز ہمارے پاس باغات اور زندگی کی ضروریات بھی ہیں۔ یعنی کہ حفاظت بھی ہم کر سکتے ہیں۔ مالی لحاظ سے بھی ہم بہتر ہیں۔ پھر انہوں نے کہا کہ یا رسولَ اللہ! (صلی اللہ علیہ وسلم) جب کوئی خوف اور دہشت کا مارا ہوا عرب اس علاقے میں آ جاتا ہے تو وہ ہمارے ہاں ہی آ کر پناہ ڈھونڈتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی ساری باتیں سن لیں۔ ان کے لیے خیر کے کلمات عطا فرمائے اور فرمایا تمہاری باتیں، تمہاراسب کچھ ٹھیک ہے۔ اور فرمایا کہ اونٹنی کا راستہ چھوڑ دو کیونکہ آج یہ مامور ہے۔ اس نے جہاں بھی جانا ہے، رکنا ہے، بیٹھنا ہے اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہی جائے گی۔ ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ اونٹنی مامور ہے اس لیے اس کا رستہ چھوڑ دو۔ آپ مسکراتے ہوئے یہ فرما رہے تھے کہ جو بھی تم نے پیشکش کی ہے اللہ تم پر اپنی برکت نازل فرمائے۔ پھر اونٹنی وہاں سے چل پڑی۔
(السیرة الحلبیۃ الجزء الثانی صفحہ 83،باب الہجرة الی المدینۃ، دارالکتب العلمیہ بیروت2002ء)
فتح ِمصر کے متعلق ‘‘سیر الصحابہ ’’کا مصنف جو ہے لکھتا ہے کہ خلافتِ فاروقی میں مصر کے فتح ہونے میں دیر ہوئی تو حضرت عَمرو بن عاصؓ نے حضرت عمرؓ کو مزید مدد کے لیے خط لکھا۔ حضرت عمرؓ نے چار ہزار فوج روانہ کی جس میں سے ایک ہزار فوج کے افسر حضرت عبادہؓ تھے اور جواب میں لکھا کہ ان افسروں میں سے ہر شخص ایک ہزار آدمیوں کے برابر ہے۔ یہ مدد مصر پہنچی تو حضرت عَمرو بن عاصؓ نے تمام فوج کو یکجا کر کے ایک پُراثر تقریر کی اور حضرت عُبادہؓ کو بلا کر کہا کہ اپنا نیزہ مجھ کو دیجیے اور خود انہوں نے، عَمرو بن عاصؓ نے، اپنے سر سے اپنا عمامہ اتارا اور نیزے پر لگا کر ان کے حوالے کیا کہ یہ سپہ سالار کا عَلَم ہے، سپہ سالار کا جھنڈا ہے اور آج آپ سپہ سالار ہیں۔ خدا کی شان کہ اس کے بعد پہلے ہی حملے میں شہر فتح ہو گیا۔
(بحوالہ سیر الصحابہ از سعید انصاری جلد3حصہ 2 صفحہ402،دار الاشاعت کراچی 2004ء)
حضرت ابو عُبَیْدَہ بن جَرَّاحؓ فتح دمشق کے بعد حِمْص آئے اور یہاں کے باشندوں نے ان سے صلح کر لی اس کے بعد انہوں نے حضرت عُبادہ بن صَامِت انصاریؓ کو حِمْص پر نگران مقرر کیا اور خود حُمَا ۃکی طرف بڑھے۔ حضرت عُبادہ بن صَامِتؓ نے بعد میں لَاذِقِیَّہ کی طرف کُوچ کیا جو ملکِ شام میں ساحلِ سمندر پر واقع ایک شہر ہے۔ اس کے باشندوں نے مسلمانوں سے جنگ کی۔ وہاں ایک بہت بڑا دروازہ تھا جو لوگوں کی ایک بڑی جماعت کے بغیر نہیں کھلتا تھا۔ حضرت عبادہؓ لشکر کو شہر سے دور لے گئے اور اسے ایسے گڑھے کھودنے کا حکم دیا جس میں ایک آدمی اور اس کا گھوڑا اچھی طرح چھپ جائیں۔ لمبی خندق کھودیں۔ مسلمانوں نے گڑھے کھودنے میں بڑی کوشش کی اور جب اس کام سے فارغ ہو چکے تو دن کی روشنی میں حِمْص کی جانب واپس جانا ظاہر کیا اور جب رات چھا گئی تو یہ لوگ اپنی چھاؤنی اور اپنی خندقوں کی طرف واپس آ گئے جو کھودی تھیں۔ اہلِ لَاذِقِیَّہ دھوکے میں یہ سمجھتے رہے کہ وہ ان کو چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ جب دن چڑھا تو انہوں نے اپنا دروازہ کھولا اور اپنے مویشی لے کر نکلے۔ مسلمان دفعةً نمودار ہوئے جنہیں دیکھ کر وہ لوگ دہل گئے۔ مسلمانوں نے ان پر چڑھائی کر دی اور دروازے سے شہر میں داخل ہو گئے اور اس کو فتح کر لیا۔ حضرت عُبادہؓ قلعے میں داخل ہوئے۔ اس کی دیوار پر چڑھے اور اسی پر سے تکبیر کہی۔ لَاذِقِیَّہ کے نصارٰی میں سے ایک قوم یَسِیْد کی طرف بھاگ گئی۔ پھر ان لوگوں نے اس پر امان چاہی کہ انہیں ان کی زمین کی طرف واپس آنے دیا جائے۔ پہلے تو ڈر کے چلے گئے لیکن پھر انہوں نے کہا کہ ہمیں امان دیں اور ہم واپس آنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ خراج کی ادائیگی پر زمین ان کے حوالے کر دی گئی کہ ایک حصہ آمد کا تم دو گے اور ان کو ان کی زمین واپس کر دی اور ان کی معبد گاہ ان کے لیے چھوڑ دی گئی۔ جہاں وہ عبادت کرتے تھے وہ بھی ان کو واپس کر دی گئی کہ ٹھیک ہے تم جس طرح چاہتے ہو اپنی عبادت کرو۔ مسلمانوں نے لَاذِقِیَّہ میں حضرت عُبادہؓ کے حکم سے ایک مسجد بنائی جو بعد میں وسیع کی گئی۔ حضرت عُبادہؓ اور مسلمان سمندر کے کنارے پہنچے اور بَلْدَة نام کا ایک شہر فتح کیا جو جَبَلَہ قلعہ سے دو فرسخ یعنی چھ میل کے فاصلے پر تھا۔
حضرت عُبادہؓ اور ان کے ساتھی مسلمانوں نے پھر کافی فتوحات کی ہیں۔ ان کے ذریعہ سےاَنطَرطُوس فتح ہوا جو ملکِ شام میں سمندر کے کنارے واقع ایک شہر ہے۔ اسی طرح پھر ملک شام کے علاقے لَاذِقِیَّہ، جَبَلَہ،بَلْدَةاَنْطَرطُوسحضرت عُبادہ بن صَامِتؓ کے ہاتھوں فتح ہوئے۔
(فتوح البلدان صفحہ83تا85 امر حمص دار الکتب العلمیۃ بیروت2000ء)
(معجم البلدان جلد4 صفحہ169 ’’اللاذقیہ‘‘ جلد اول صفحہ 320’’انطرطوس‘‘ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)
ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عُبادہؓ کو بعض صدقات کا عامل بنایا اور انہیں نصیحت فرمائی کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن تم اونٹ کو اپنے اوپر لادے ہوئے ہو اور وہ بلبلاتا ہو یا گائے کو لادے ہوئے آؤ اور اس کی آواز نکل رہی ہو یا بکری کو لادے ہوئے آؤ اور وہ ممیاتی ہو یعنی کہیں خیانت نہ ہو جائے ۔ ایسا نہ ہو کہ صدقات کی صحیح طرح حفاظت نہ کر سکو اور اس زمانے میں جو صدقات آتے تھے ۔زکوٰة میں یا صدقات میں اونٹ گائے بکریاں وغیرہ جو چیزیں آرہی ہیں یہ نہ ہو کہ ان کی تقسیم کا اور ان کی حفاظت کا تم صحیح طرح حق نہ ادا کر سکو اور پھر قیامت کے دن وہی چیزیںتمہارے پہ بوجھ بن جائیں گی۔ حضرت عُبادہ بن صَامِتؓ نے یہ سن کے کہا کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں تو دو آدمیوں پر بھی عامل نہ بنوں گا۔
میری تو یہ حالت ہے کہ میں تو کسی کا کوئی بوجھ برداشت نہیں کر سکتا ۔اس لیے مجھے تو نہ ہی بنائیں تو ٹھیک ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں انصار میں سے پانچ آدمیوں نے قرآن کو جمع کیا تھا جن کے نام یہ ہیں۔
حضرت مُعاذ بن جبؓل، حضرت عُبادہ بن صَامِتؓ، حضرت اُبیَّ بن کعبؓ ، حضرت ابوایوب انصاریؓ اور حضرت ابو دَرْدَاءؓ۔
(اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ جلد3صفحہ55، دارالفکر بیروت 2003ء)
حضرت یزید بن سفیانؓ نے فتح شام کے بعد حضرت عمرؓ کو لکھا کہ اہل شام کو ایسے معلم کی ضرورت ہے جو انہیں قرآن سکھائے اور دین کی سمجھ بوجھ دے تو حضرت عمرؓ نے حضرت مُعاذؓ، حضرت عُبادہؓ اور حضرت ابودَرداءؓ کو بھیجا۔ حضرت عُبادہؓ نے جا کر فلسطین میں قیام کیا۔ جُنَادَہ سے مروی ہے کہ میں جب حضرت عُبادہؓ کے پاس حاضر ہوا تو میں نے انہیں اس حالت میں پایا کہ انہیں اللہ کے دین کی خوب سمجھ تھی۔ یعنی بڑے صاحب ِعلم تھے۔
(الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد3 صفحہ 507، عبادةبن صَامِت، دارالکتب العلمیہ بیروت،2005ء)
جب مسلمانوں نے ملکِ شام کو فتح کیا تو حضرت عمرؓ نے حضرت عُبادہؓ اور ان کے ساتھ حضرت مُعاذ بن جبلؓ اور حضرت ابودرداءؓ کو شام بھجوایا تا کہ وہاں لوگوں کو قرآن کریم کی تعلیم دیں اور ان کو دین سکھائیں۔ حضرت عُبادہؓ نے حِمْص میں قیام کیا اور حضرت ابودَرداءؓ نے دمشق میں قیام کیا اور حضرت مُعاذؓ فلسطین کی طرف چلے گئے پھر کچھ دیر بعد حضرت عُبادہؓ بھی فلسطین چلے گئے۔ وہاں امیر معاویہ نے ایک معاملہ میں یعنی دین کے معاملے میں مخالفت کی جس کو حضرت عبادہؓ ناپسند کرتے تھے ۔کسی دینی مسئلے میں اختلاف تھا۔ امیر معاویہ نے ان سے اس پر سخت کلامی کی تو حضرت عبادہؓ نے کہا کہ میں ہرگز آپ کے ساتھ ایک سرزمین میں نہ رہوں گا۔ پھر وہ مدینے چلے گئے تو حضرت عمرؓ نے پوچھا کہ تمہیں کیا چیز ادھر لے آئی ہے۔ حضرت عبادہؓ نے حضرت عمرؓ کو ساری بات بتائی کہ اس طرح اختلاف ہوا تھا اور پھر انہوں نے میرے ساتھ بڑی سخت کلامی کی ہے۔ بہرحال اختلاف کی وجہ سے وہ واپس آ گئے۔ اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ تم اپنی جگہ واپس چلے جاؤ اور اللہ ایسی زمین کو خراب کر دے گا جس میں تم یا تمہارے جیسا کوئی اَور نہ ہوا ۔یعنی صاحب ِعلم لوگ، دین کا علم رکھنے والے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پرانے صحابہ میں سے لوگ ضرور ہونے چاہییں۔ نہیں تو یہ اس زمین کی بدقسمتی ہے۔ اس لیے تمہارا واپس جانا ضروری ہے اور امیر معاویہ کو بھی یہ فرمان لکھ کر بھیجا کہ تمہیں ان یعنی حضرت عبادہؓ پر کوئی اختیار نہیں ہے۔(اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ جلد3صفحہ55،عبادۃ بن الصَامِت، دارالفکر بیروت 2003ء)بعض مسائل ہیں اگر یہ بیان کرتے ہیں یا بعض باتیں کہتے ہیں تو ان کے لیے سنا کرو اور یہ جو کہتے ہیں وہ ٹھیک کہتے ہیں۔ بہرحال حضرت عبادہؓ کی کافی اَور مزید باتیں بھی ہیں۔ ان کے حوالے سے ان کی اَور روایتیں ہیں جو ان شاء اللہ تعالیٰ آئندہ خطبے میں بیان ہوں گی کیونکہ وہ زیادہ لمبی تفصیلیں ہیں۔اس پہ وقت سے زائد لگے گا ۔
اب میں ایک مرحوم کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جن کا جنازہ بھی مَیں ابھی پڑھاؤںگا۔ جنازہ حاضر ہے۔ وہ ہیں مکرم طاہر عارف صاحب جو 26؍ اگست کو بڑی صبر آزما بیماری کے بعد یو۔کے میں بقضائے الٰہی وفات پا گئے تھے۔ انَّا للّٰہ وانَّا اِلَیہ راجعون۔ کینسر کی تکلیف تھی ان کو اور بڑے صبر سے انہوں نے اس تکلیف کو برداشت کیا۔ پہلے یہ سرکاری افسر تھے اور بڑی اونچی رینک کے افسر تھے۔ وہاں سے ریٹائرڈ ہوئے۔ اس کے بعد میں نے کچھ عرصہ پہلے، چند سال پہلے ان کو صدر فضل عمر فاؤنڈیشن بنایا تھا۔ تو اس لحاظ سے آج کل یہ صدر فضل عمر فاؤنڈیشن تھے اور دینی خدمت بجا لا رہے تھے۔
مکرم طاہر عارف صاحب 13؍فروری 1952ء کو پیدا ہوئے اور بنیادی طور پر تو ان کا خاندان سیالکوٹ سے تھا لیکن بہرحال پھر یہ سرگودھا آکر آباد ہو گئے تھے۔ مکرم طاہر عارف صاحب کے والد مکرم چوہدری محمد یار عارف صاحب مبلغِ سلسلہ تھے جن کو بطور مبلغ انگلستان خدمت کی توفیق ملی۔ نائب امام مسجد لندن بھی رہے۔ ان کے والد محمد یار عارف صاحب ربوہ میں نائب وکیل التبشیر تحریک جدید بھی رہے۔ اس طرح مولانا مکرم محمد یار عارف صاحب جو تھے وہ جماعت کے چوٹی کے مناظر اور جیّد علماء میں شمار ہوتے تھے۔ 23؍مارچ 1940ء کو جس جلسے میں قرار داد پاکستان منظور ہوئی تھی اس میں حضرت مولانا عبدالرحیم نیّر کے ہمراہ بطور نمائندہ جماعت احمدیہ مکرم محمد یار عارف صاحب بھی شامل ہوئے تھے یعنی طاہر عارف صاحب کے والد اور یہ بھی ان کو بہرحال ایک تاریخی سعادت حاصل ہوئی تھی۔ طاہر عارف صاحب کی والدہ محترمہ عنایت ثریا بیگم تھیں۔ اور ان کے دادا حضرت چوہدری غلام حسین بھٹی صاحبؓ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے۔ طاہر عارف صاحب بڑے علمی اور ذوق رکھنے والے آدمی تھے اور بڑے کہنہ مشق ادیب بھی تھے اور شاعر بھی تھے۔ کئی کتابیں بھی انہوں نے تصنیف کی ہیں۔ ان کے دو شعری مجموعے مشہور ہیں۔ ایک اردو کا اور ایک پنجابی کا۔ اس کے علاوہ دو اور کتابیں بھی ان کی کافی اچھی ہیں۔ ایک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر انگریزی میں کتاب لکھی انہوں نے ‘‘محمد صلی اللہ علیہ وسلم’’ اور ایک اَور کتاب ہے پاکستان کے بارے میں ‘‘پاکستان منزل بہ منزل’’ یہ ان کی دوسری کتاب ہے۔ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم۔اے اکنامکس کرنے کے بعد وہیں ایل۔ایل۔بی کی ڈگری بھی لی۔ پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان آ گئے۔ لنڈن سکول آف اکنامکس سے ایل ایل ایم (LLM)کی ڈگری حاصل کی اور اللہ کے فضل سے لنڈن یونیورسٹی سے مارک آف میرٹ کا اعزاز بھی ان کو حاصل ہوا۔ لندن سے تعلیم کے بعد پاکستان آ گئے اور یہاں سی ایس ایس (CSS)کا امتحان پاس کیا۔ سول سروسز پاکستان سے وابستہ ہو گئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترقی کرتے کرتے انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی) کے عہدے تک پہنچے اورہمارے خلاف قانون کے بعد پاکستان کے جو حالات تھے ان حالات میں اس پوزیشن میں پہنچنا یقیناً آپ کی غیرمعمولی صلاحیتوں پر دلالت کرتا ہے۔
پاکستان پولیس کے علاوہ ایف آئی اے اور امیگریشن انٹیلی جنس بیورو میں بھی متعین رہے ہیں۔ جب آپ تعلیم کے سلسلے میں انگلستان میں مقیم تھے تو حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد پر چوہدری رشید صاحب نے بچوں کی انگریزی میں جو کتابیں لکھی تھیں ان کتب کے لکھنے میں بھی ان کو معاونت کی توفیق ملی اور انہوں نے اس میں کافی خدمت کی۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی کتابوں کے مطالعہ کا بڑا شوق تھا اور کوئی نہ کوئی کتاب ہمیشہ ان کے زیرِ مطالعہ رہتی تھی۔ پھر یہ کہ صرف مطالعہ نہیں باقاعدہ کتب کے نوٹس لیتے تھے اور پھر اپنے دوستوں سے ان کے مضامین پر تبادلہ خیال بھی کیا کرتے تھے۔ بڑے باقاعدہ قرآن کریم کی تلاوت کرنے والے، اس پر غور کرنے والے تھے اور ان کے عزیزوں میں سے تو کسی نے نہیں لکھا لیکن مجھے پتا ہے کہ ایک دفعہ باتوں باتوں میں ذکر ہوا تو تب مجھے پتا چلا کہ بڑی باقاعدگی سے یہ تہجد کے وقت اٹھنے والے اور تہجد ادا کرنے والے تھے۔ دورانِ ملازمت پاکستان میں جہاں بھی مقیم رہے ہمیشہ جماعتی خدمات کے لیے حاضر رہے۔ اور بڑے نڈر انسان تھے۔ خدا کے فضل سے جیسا کہ میں نے کہا بڑا وسیع مطالعہ تھا اور ذہن بھی بڑا اچھا تھا اس لیے دینی مطالعہ بھی، دنیاوی مطالعہ بھی ،علم بھی بڑا تھا اس لحاظ سے یہ اپنے اس علم کو استعمال بھی کرتے تھے اور جماعتی طور پر بھی بعض معاملات میں بڑی اچھی رائے رکھتے تھے اور بڑے صائب الرائے وجود تھے۔ خلافتِ احمدیہ کے لیے بڑی غیرت رکھنے والے تھے۔ بڑے مخلص اور نڈر احمدی تھے۔ ساری زندگی اس کوشش میں رہے کہ خلافتِ احمدیہ کے سلطانِ نصیر بنے رہیں اور باوفا خادمِ سلسلہ کے طور پر زندگی گزاریں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں نے دیکھا ہے کہ اس کوشش میں اللہ تعالیٰ نے ان کو کامیاب بھی فرمایا۔ میرے کلاس فیلو تھے اور بچپن سے، کالج کے زمانے سے میں ان کو جانتا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس وقت سے ان کو علم حاصل کرنے کا بڑا شوق تھا۔ اچھے ڈیبیٹر (debater)بھی ہوا کرتے تھے۔ کالج کی ڈیبیٹوں میں حصہ لیا کرتے تھے۔ مقرر اچھے تھے اور اس وقت بھی ان کا دینی علم میں نے دیکھا ہے کافی تھا۔ یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ جماعت کے خدام اور واقفینِ زندگی کے لیے خاص احترام اور پیار کے جذبات رکھتے تھے اور اس کے علاوہ احمدی دوستوں کی جائز مدد کے لیے ہر وقت تیار رہتے تھے۔ بڑے اچھے عہدے پر فائز تھے۔ اس لحاظ سے انہوں نے اپنے احمدیوں کی جو جائز مدد تھی اس کو حتی المقدور کرنے کی کوشش کی۔
فضلِ عمر فاؤنڈیشن میں ان کی خدمات کا سلسلہ 2014ء سے شروع ہوتا ہے۔ اس وقت میں نے ان کو ڈائریکٹر فضل عمر فاؤنڈیشن مقرر کیا تھا ۔پھر 2017ء میں چوہدری حمید نصر اللہ خان صاحب کی وفات کے بعد جو اس وقت صدر فضل عمر فاؤنڈیشن تھے، مَیں نے ان کو صدر فضلِ عمر فاؤنڈیشن مقرر کیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جیسا کہ میں نے ذکر کیا ہے یہ تا وفات صدر فضلِ عمر فاؤنڈیشن رہے۔ وفات تک یعنی کہ یہاں انگلستان علاج کے لیے آنے تک، تین چار مہینے پہلے تک آپ بڑی محنت سے فضل عمر فاؤنڈیشن کے کام سرانجام دیا کرتے تھے۔ تمام اجلاسات میں باقاعدگی سے آتے، دلچسپی لیتے۔ ان کے وقت میں بھی کام میں کافی وسعت پیدا ہوئی ہے۔ ان کے پسماندگان میں ان کی اہلیہ انیسہ طاہر صاحبہ ہیں اور بیٹے اسفند یار عارف اور تین بیٹیاں طیبہ عارف اور عزیزہ اوج اور بنا طاہر عارف ہیں۔ دو بیٹیاں بیاہی ہوئی ہیں ایک بیٹا اور بیٹی ابھی ان کی شادی نہیں ہوئی۔ ان کی بیٹی طیبہ عارف طاہر صاحبہ لکھتی ہیں کہ ہمارے والد محترم طاہر عارف صاحب مرحوم کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ دنیوی ترقیات سے نوازا مگر آپ نے ہمیشہ احمدیت کے تشخص کو بڑی جرأت اور غیرت کے ساتھ برقرار رکھا ۔ نہایت دیانت دار قابل ِاعتبار افسر تھے۔ دین کو ترجیح دینے والے، اللہ پر توکل رکھنے والے ایک منکسر المزاج انسان تھے۔ شاعر تھے، ادیب تھے، اعلیٰ منتظم تھے، ٹیچر تھے، دینی علوم سے مرقع تھے، ایک ذمہ دار شوہر تھے، نہایت شفیق باپ تھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ خدا اور رسول (صلی اللہ علیہ وسلم )کے عشق میں بھی محو تھے۔ کہتی ہیں کہ ہماری امی کہتی ہیں کہ آپ کو ہمیشہ بہت انصاف پسند اور نرم مزاج پایا۔ بلا تفریق چھوٹے بڑے امیر غریب ہر کسی کے ساتھ عہدے سے مبر ّا ہو کر حسن ِسلوک سے پیش آتے۔ بعض رشتہ دار جذبات میں آ کے اور اپنے ذاتی تعلق کی وجہ سے لکھ دیتے ہیں لیکن ان کے بارے میں جو بھی لکھا جا رہا ہے کیونکہ میں ان کو ذاتی طور پر جانتا ہوں اس لیے سب کچھ حقیقت ہے۔ واقعی یہ ایسے تھے۔
مبارک صدیقی صاحب لکھتے ہیں کہ مرحوم طاہر عارف صاحب کی طبیعت میں عاجزی اور انکساری تھی اور خلیفۂ وقت سے انتہائی عقیدت اور اطاعت کا تعلق رکھنے والے تھے۔ بہت ہی اعلیٰ پائے کے شاعر اور ادیب تھے۔ کہتے ہیں میں نے ایک دفعہ ان سے کہا کوئی اپنا پسندیدہ شعر سنائیں۔ اس پر انہوں نے خلافت سے عقیدت کے متعلق اپنا یہ شعر سنایا کہ ؎
آقا تِرا غلام تِرے پاس ہو کبھی
قدموں میں لَوٹ جائے بدن گھاس ہو کبھی
کہتے ہیں کہ ایک روز ایک دوستانہ نشست میں مَیں نے کہا طاہر صاحب! اللہ تعالیٰ نے ہر احمدی کو کسی نہ کسی رنگ میں بہت اعزاز سے نوازا ہے۔ آپ کو پولیس کے محکمے میں بہت بڑے عہدے کا اعزاز ملا ہے۔ کہنے لگے اس سے کہیں بڑھ کر بڑا اعزاز یہ ہے کہ میں احمدی ہوں اور پھر انہوں نے میرے ساتھ پڑھنے کا بھی حوالہ دیا کہ مَیں خلیفۂ وقت کا کلاس فیلو بھی رہ چکا ہوں۔ یہ میرے لیے بہت بڑا اعزاز ہے۔ ان کے والد محترم مولانا محمد یار عارف صاحب نے تعلیم کی غرض سے انہیں ربوہ میں بھیجا تھا ۔کالج میں بھیجا اور اس وقت کیونکہ ہمارے کالج کچھ عرصے بعد ہی نیشنلائز ہو گئے تھے تو اس لیے پھر ان کے ہوسٹل میں قیام کے بجائے انہوں نے حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کو درخواست کی تھی اور حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ سے مولانا محمد یار عارف صاحب کا بڑا تعلق تھا تو انہوں نے پھر ان کا دارالضیافت میں انتظام کیا تھا ۔وہیں رہ کے انہوں نے اپنی پڑھائی مکمل کی۔ طالب ِعلمی کے زمانے میں بے تکلفی میں بہت سی باتیں بھی ہو جاتی ہیں، مذاق ہوتے ہیں لیکن جب حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ نے مجھے ناظرِ اعلیٰ مقرر کیا تو تب سے ہی انہوں نے میرے ساتھ بڑا عزت اور احترام کا سلوک کرنا شروع کیا اور پھر خلافت کے بعد تو یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سےاخلاص و وفا میں بہت بڑھ گئے تھے۔
اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ ان کے درجات بلند کرے اور ان کے بچوں کو بھی کامل وفا کے ساتھ جماعت اور خلافت سے وابستہ رکھے۔ ان کے دوستوں نے، عزیزوں نے، رشتہ داروں نے بھی یہی واقعات لکھے ہیں کہ بڑی عاجزی تھی، انکساری تھی او ر اللہ تعالیٰ کے فضل سےصاحبِ علم انسان تھے۔
ابھی نماز کے بعد مَیں ان کا جنازہ پڑھاؤں گا ۔جنازہ حاضر ہے یہاں تو نماز کے بعد ان شاء اللہ باہر جاکے مَیں جنازہ پڑھاؤں گا۔ احباب جنازے کے لیے یہیں اپنی صفیں درست کریں۔