ملائکہ کا وجود
ماخوذ از تحریرات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام
دہریوں اور ان کے ہم خیالوں کا یہ نظریہ ہے کہ جب انسان کو کسی معلول کا پتہ نہیں چلتاتووہ اپنی قوتِ متخیلہ کی تسکین اور تسلی کے لیےایک فرضی وجود تراشتا ہے۔وجودِ ملائکہ کا تصور بھی اسی بنا پرہے۔دراصل ان کا یہ خیال ہستی باری تعالیٰ کے انکار کی ایک فرع ہے۔درحقیقت فکر عمیق کیا جائے توخدا تعالیٰ کی ہستی پر ہی ایمان وایقان فرشتوں پر ایمان لانے کا حقیقی ذریعہ ہے۔
جب یہ تسلیم کرلیا جائے کہ اس کائنات کا ایک خالق اور مالک ہے اور وہ مدبربالارادہ ہستی ہے تو ضرورت ملائکہ کا مسئلہ بھی حل ہوجاتا ہے اس لیے کہ پھر انسان اپنے زاویہ غوروفکر کو متحرک کرتا ہے اور اس جستجو میں رہتا ہے کہ وہ جان لے کہ اللہ تعالیٰ اس عالم ِناپیدار کی کل کو کس طرح چلا رہا اور حرکت دے رہا ہے۔
خدا تعالیٰ کی حکمتِ کاملہ نے چاہا کنت کنزا مخفیا فاحببت ان اعرف فخلقت آدم میں مخفی اور پوشیدہ خزانہ تھا میں نے چاہا کہ شناخت کیا جائوں سومیں نے آدم کو پیدا کیا۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ انسان عالم صغیر ہے اور اس کی خدمت گاری کے لیے خداوندقدوس نے اپنی حکمت بالغہ عالم کبیرکومسخر کیا ہے۔اپنی صفت رحمانیت کے سبب انسان کی زندگی کے قیام کے لیےتمام لوازمات ضروریہ مادی و روحانی پیدا کیے ہیں یعنی ہوا،پانی،شمس و قمر اور دیگر عناصر ارضی و سماوی وغیرہ ۔
مخلوق کی زندگی کی بقا فیضان الہی بالخصوص صفتِ قیومیت کی مرہونِ منت ہے۔اللہ تعالیٰ صفت تنزہ اور تقدس کے باعث مخلوق سے دوری اور بعد پر ہے اور مخلوق اپنی انانیت اورمخلوقیت کے خول میں خودکومقید اور محجوب کیے ہوئے ہے۔جس کی وجہ سے وہ فیضانِ الٰہی کے براہ راست افادہ سے قاصر اور محروم ہے۔خالق اورمخلوق کے درمیان واسطہ بننے والی مخلوق ملائکہ ہیں ۔
اللہ تعالیٰ نے اپنی محکم ترتیب و ترکیب سے اس عالم رنگ و بوکو علت اور معلول کے رشتہ اور تعلق سے جوڑ رکھا ہےاس حکمت کا تقاضا تھا کہ ارادتِ الٰہی کا مظراول بننے کے لیےایسی مخلوق ہو جو ذوجہتین ہو۔ ایک جہت سے تجرّد اور تنزہ اور منزہ عن الحجب ہو اور ظلی طور پر خدا تعالیٰ سےمشابہت تامہ رکھتی ہو اور دوسری طرف سے مخلوق ہونے کے ناطے مخلوق سے تعلق بھی رکھنے والی ہو۔ وہ فنا فی طاعت ہواور ذاتی ارادہ سے خالی ہو۔یہی نرالی مخلوق ملائکہ ہیں ۔ارادہ الہی انہی کے مرایا صافیہ میں منعکس ہوکر انہی کے توسط سے مخلوق میں پھیلتا ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اجرامِ علوی اور اجسام سفلی اور کائنات الجو میں تغیرات وتحولات کے ظہور کی دو علتیں ہیں۔جسمانی نظام علل اور معلولات اور موئثرات اور متاثرات سے منضبط ہے۔لیکن ملائکہ کی اندرونی طور پر تائید کے بغیر یہ سلسلہ کام نہیں کرتا۔نظم کائنات کے لیے خداتعالیٰ نے ان دو علتوں کو باہم مربوط کیا ہوا ہے۔
جیسے اللہ تعالیٰ نے جسمانی تربیت کے لیے مؤثرات پیدا کیے ہیں تاکہ وہ جسم پر انواع واقسام کے طریقوں سے اثر ڈالیں ایسے ہی روحانی تربیت کے واسطے فرشتے وسائط مقرر فرمائے ہیں تا نظام ظاہری اور باطنی اپنے تناسب اور یک رنگی میں ایک ہی حقیقی صانع واحد مدبربالارادہ پر دلالت کریں اور توحید کا مظہر بنیں۔
قرآن ِکریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ان کل نفس لما علیھا حافظ(طارق)یعنی ہرایک نفس پر ایک فرشتہ مقرر ہے۔ آیت کوکل کے لفظ سے مقید کرکے اللہ عزوجل نے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ ہریک چیز جس پر نفس کے نام کا اطلاق ہوتا ہے اس کی حفاظت فرشتے کرتے ہیں ۔اس سے یہ امر بھی عیاں ہوا کہ جیسے انسان کی ظاہری حفاظت کےلیے فرشتہ مقررہے اسی طرح اس کی باطنی نگہبانی کے لیے بھی فرشتہ مامور ہے جو باطن کوشیطان سے محفوظ رکھتا ہے اور گمراہی کی تاریکی اور ظلمت سے بچاتا ہے۔نفس کے اطلاق پانے کے سبب شمس و قمر اور جملہ تمام کواکب اور عناصر فرشتوں کی زیر حفاظت ہیں اور ان کے کاموں کو وہ احسن طور پرچلاتے ہیں۔
قرٓن مجید میں ملائکہ کومدبرات اور مقسمات امر کا نام بھی دیا گیا ہے جووہ باذن اللہ یفعلون ما یؤمرون کے تحت اپنے مقررہ امور سرانجام دیتے ہیں۔ اس پر اگر یہ سوال ہو کہ اگر ملائکہ مدبرات امراور مقسمات ہیں تو کیوں اکثر ہمارے امور ہماری مرضی کے مطابق طے پاتے ہیں مثلاعلاج سے بیماریوں کا ٹھیک ہونا اور محنت سے زراعت میں ترقی ہونا وغیرہ۔غور کیا جائے تو ہمارے معالجات اور تدبیرات بھی فرشتوں کے القا اور الہام سے خالی نہیں۔البتہ یہ القا بھی بہ رعایت فطرت ہوتا ہے۔مثلا انبیا اور دیگر کا فرق ہوتا ہے۔ملائکہ مدبرات امر بنکر بارش کم وکیف حد تک بست دیتے ہیں ۔
یہ سوال کہ کیا اللہ تعالیٰ محتاج ہے جو وہ فرشتوں سے کام لیتا ہے۔اللہ تعالیٰ محتاج نہیں بلکہ اس کی قدرت اور حکمت نے چاہا کہ وہ اسباب کے توسط اس کے کام ظاہر ہوں اور دوسرا یہ کہ انسانوں میں حکمت اور علم پھیلے۔اگر اسباب کا توسط نہ ہوتا تو دنیاوی علوم ترقی نہ کرتے۔اگر فرشتوں سے کام لینے پر اعتراض ہے تو پھر یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ وہ شمس و قمر اور دیگرکواکب اور عناصر جمادی ونباتی سے کیوں خدمت لے رہا ہے۔
یہ سوال کہ فرشتے نظر کیوں نہیں آتے۔فرشتے چونکہ لطیف وجود رکھتے ہیں اس لیے جسمانی آنکھ انکو دیکھنے سے قاصر اور عاری ہے۔وہ روحانی آنکھ سے نظر آتے ہیں۔اہل کشف اور عارف اس پر گواہ ہیں۔
پھر یہ اعتراض کہ فرشتوں کے کام کیوں نظر نہیں آتے۔ملائکہ کے کام روحانی ہیں۔مثلاً حادثہ رونما ہونے کے وقت سے قبل القا کرنا کہ یہاں سے نکل جائیں۔اسی طرح فرشتے شہاب ثاقب کے ذریعہ اپنے ملکی نور سے رجم شیاطین کرتے ہیں
وجود ملائکہ پر یہ بھی ایک دلیل قطعی ہے کہ جس طرح نفس ناطقہ اور بدن میں قوائے روحانیہ و حسیہ توسط کا درجہ رکھتے ہیں۔کیونکہ نفس ناطقہ تجرد اور لطافت رکھتا ہے اور جسم کثافت اور ظلمت۔قوائے روحانیہ و حسیہ ذوجہتین ہونے کے سبب نفس ناطقہ سے فیض قبول کرکے جسم کو متادب اور مہذب کرتے ہیں بعنیہ ملائکہ بھی اسی طرز پر کام کرتے ہیں۔عالم صغیر کے آئینہ میں عالم کبیر کی تصویر ابھرتی ہے کیونکہ دونوں متوازی درجہ رکھتے ہیں۔
(ماخوذ از روحانی خزائن،جلد،5)
٭…٭…٭