متفرق مضامین

ربوہ بطور دینی و روحانی تربیت گاہ

(حافظ نعمان احمد خان ۔ استاد جامعہ احمدیہ ربوہ)

دنیا میں ہمیشہ سے آبادیاں بنتی رہی ہیں،شہر بستےرہے ہیں، گاؤں آباد ہوتے ،پھیلتےاو رترقی کرتے رہے ہیں۔ ربوہ، دارالہجرت دنیا بھر کے شہروں میں یوں ممتاز حیثیت رکھتا ہے کہ اسے مکّہ مکرمہ کی آباد کاری کے طریق پر دعاؤں، التجاؤں اور قربانیوں کے ساتھ بسائے جانےکاافتخارحاصل ہے۔ ربوہ جس کی بنیاد پسرِمسیح ؑسیّدنا حضرت مصلح موعودؓ نے رکھی۔جس کی بنیادوں کو امّ المومنین حضرت اماں جانؓ اور سینکڑوں صحابہ کِرام کی دعاؤں نے مضبوطی عطا کی۔جوخداتعالیٰ کے اطاعت گذاروں اور شریعتِ محمدیہؐ کے پابند غلاموں کی بستی بن کر نقشۂ عالَم پر ابھرا۔ یہ خوش نصیب شہر مکّہ مکرمہ کی غلامی میں کعبے کی بڑائی کا دعاگو بن کر ان شاء اللہ قائم و دائم رہے گا۔

بانیٔ مرکز ربوہ سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ رمضان المبارک، 1952ء کے درمیانی عشرے کی ایک رات کے متعلق فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ مجھ پر وہ مخصوص کیفیت طاری ہوئی جب ساری رات جاگتے اور سوتے دعاؤں میں گزر جاتی ہے۔ کامل ہوش میں تو اپنی مرضی کی دعائیں کی جاتی ہیں لیکن خواب یا نیم خواب کی حالت میں خدا تعالیٰ کی طرف سے زبان پر دعائیں جاری کی جاتی ہیں۔حضورؓ فرماتے ہیں کہ یہ اس قسم کی رات آئی تھی۔ ساری ساری رات خواب میں بھی اور جاگتے میں بھی قرآن کریم کی کچھ آیات زبان پر جاری رہیں جو جاگتے ہوئے مجھے حفظ نہیں ہیں ان کا ایک حصّہ یہ تھا کہ

رَبِّ اِنَّھُنَّ اَضْلَلْنَ کَثِیْرًامِّنَ النَّاسِ۔

فرمایا میرا خیال یہ تھا کہ شاید حضرت نوح ؑکی دعاؤں میں سے ہے مگرجب قرآن شریف کھول کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعاؤں میں سے ہے جو آبادی مکّہ کے وقت آپ نے مانگیں۔ اس وقت وہ اپنی اولاد کے لیے اور مکّہ کے رہنے والوں کے لیے دعائیں کرتے وقت ان کے ایمان کے لیے بھی دعا کرتے ہیں اور ان کے رزق کے لیے بھی دعا کرتے ہیں ایمان کی دعا میں وہ اللہ تعالیٰ سے درخواست کرتے ہیں کہ ان کو شرک سے بچایا جائےاور بتوں کے اثر سے محفوظ رکھا جائےاور اس تسلسل میں وہ فرماتے ہیں۔

رَبِّ اِنَّھُنَّ اَضْلَلْنَ کَثِیْراً مِّنَ النَّاسِخدایا ان بتوں نے بہت سے لوگوں کو گم راہ کیا ہےتُو ان کے اثر سے میری اولاد اور مکّہ کے رہنے والوں کو بچا۔

اس کے ساتھ رَبِّ لَا تَذَرْنِیْ فَرْداً وَّاَنْتَ خَیْرُالْوَارِثِیْنَ کی دعا بھی حضورؓ کی زبانِ مبارک پر جاری رہی۔
ان دونوں دعاؤں کی نسبت حضورؓ نے فرمایا:

‘‘یہ دونوں دعائیں جو خداتعالیٰ نے اپنے فضل سے میری زبان پر جاری کی ہیں نہایت مبارک ہیں۔ پہلی دعا میں جماعت کی حفاظت اور ربوہ کی حفاظت کاایک رنگ میں وعدہ کیا گیا ہےاور اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی نہ کسی رنگ میں اس مرکز کو توحید کےقیام کا ذریعہ بنائے گا اور دوسری دعا میں جماعت کی ترقی کی طرف اشارہ ہے اور دشمنوں کے ظلم سے بچانے کی طرف بھی اشارہ ہے۔’’

(الفضل9؍جولائی1952ء،بحوالہ رؤیاوکشوف سیّدنا محمود1898ءتا1960ء، صفحہ 495-496)

دارالہجرت ربوہ، جسے حضرت ابراہیمؑ کی اُن ہی دعاؤں کے ساتھ آباد کیا گیا تھا جو مکّہ مکرمہ کی آبادی کے وقت آپؑ نے مانگی تھیں۔ اِس مقدس شہر کی نسبت اللہ تعالیٰ نے سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ کی زبانِ مبارک پر خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہی الفاظ جاری فرماکر، یہ اطلاع دی کہ یہ شہر ہمیشہ جماعت کی حفاظت اور توحید کے قیام کا مرکز بنا رہے گا۔

ربوہ کی یہ پُر نور وادی

قیامِ توحید کے عالمی مرکزکےطور پر روحانی اور دینی فضا کی نرسری ہے۔ ربوہ کا پاکیزہ ماحول ، ابتدائی ایّام سے ہی ارد گرد کے لوگوں کےلیے نیک نمونے اور اصلاحِ احوال کا باعث رہا ہے۔ محترم خان عبدالرزاق خان صاحب واقفِ زندگی کو ربوہ کی آباد کاری سے پیشتر اولین گروپ میں شامل ہوکر اس خطّۂ ارض پر آنے کی توفیق ملی۔ ابتدائی دنوں میں ربوہ کا ماحول مضافات میں آباد لوگوں پر کس طرح اثرانداز ہوا اس کا ذکر کرتےہوئے خان عبدالرزاق خان صاحب کہتے ہیں:

‘‘جب ان لوگوں کا کوئی شخص فوت ہوجاتاتھا تو یہ لوگ مہینہ بھر روتے رہتے اور سوگ مناتے مگر آج کل یہ لوگ توہمات سے دُور ہوتے جارہے ہیں۔ شلوار قمیص پہننے لگے ہیں۔ کالے کپڑے پہننے چھوڑ گئےہیں۔ ربوہ کی برکت کی وجہ سے ترقی کر رہے ہیں کچھ ان کو دین کا بھی پتا لگ گیا ہے۔ ’’

(تعمیرِ مرکز ربوہ کے ابتدائی حالات اور ایمان افروز واقعات، از خان عبدالرزاق خان واقفِ زندگی،صفحہ 49)

آغاز سےہی اہلِ ربوہ کو سیّدنا حضرت مصلح موعودؓکی زندگی بخش ہدایات اور پُر معارف نصائح کا لازوال خزانہ میسر رہا۔ حضورؓ نے ایک شفیق اور مہربان باپ کی طرح اِس نئے گھر کی آبادکاری اور یہاں کے مکینوں کی دینی و روحانی تربیت کا انتظام فرمایا۔ چنانچہ 23؍ مارچ 1951ء کے خطبہ جمعہ میں حضورؓ فرماتے ہیں:

‘‘ہمیں خداتعالیٰ سے دعا ئیں کرنی چاہئیں کہ وہ ہمارے اس عارضی مرکز کو برکت دے اور اسلام کی اشاعت کی تقدیر جو اس نے جاری کی ہے، وہ اسے وسیع کرنے کی ہمیں توفیق دے۔ موجودہ ضعف اور کم زوری کے دوروں سے جماعت کو جلد نکالےاور ہمارے نوجوانوں میں دینی روح پیداکرے تاکہ دین کی طرف انہیں رغبت پیدا ہو کیونکہ جب تک آئندہ دین سے رغبت رکھنےوالی نسل پیدا نہ ہو،وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی اور اس کا کام اس کے ساتھ ختم ہوجاتا ہےلیکن ہم نے اسلام کی اشاعت کے کام کو ختم نہیں کرنا بلکہ اسے زیادہ سے زیادہ وسیع کرنا ہے۔ پس ہمیں بہت زیادہ دعاؤں اور ذکرِ الٰہی سے کام لینا چاہیے تاکہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس مقصد میں کامیاب فرمائے جس کےلیے اس نے ہماری جماعت کو قائم فرمایا ہے’’

(الفضل3؍ جولائی 1951ء، بحوالہ تاریخ مجلس خدام الاحمدیہ جلد دوم صفحہ 144)

حضرت مصلح موعودؓ کو ہمیشہ اسلام اور محمد رسول اللہﷺ کے عشق میں نئی نسل کو رنگین کرنے کی فکر دامن گیر رہتی۔ اس سلسلے میں مسجد مبارک ربوہ میں منعقد ہونے والے جلسہ سیرت النبیﷺ سے خطاب کرتے ہوئے آپؓ نے فرمایا:

‘‘یہ جلسہ نہایت اہم ہے۔ یہ جلسہ اس عظیم الشان انسان کے حالات اور سوانح بیان کرنے کے لیے ہے جو نہ صرف خود ایک عظیم الشان انسان تھا بلکہ اس نے ہمیں بھی عظیم الشان بنادیا ہے۔ اس جلسے میں چھوٹے بچوں کو گھسیٹ کرلانا چاہیےتاکہ معلوم ہو کہ تمہیں رسول کریم ﷺ سے والہانہ محبت ہے۔ محض خیالی محبت نہیں۔’’

(الفضل25؍مارچ1952ء، بحوالہ تاریخ مجلس خدام الاحمدیہ جلد دوم صفحہ 172)

مورخہ 30؍جولائی 1959ءکو بعد نمازِ مغرب مسجد مبارک میں مجلس خدام الاحمدیہ ربوہ کا تربیتی پروگرام منعقد ہوا۔ اس موقعے پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نےایک قیمتی پیغام بھجوایا۔ تربیت کا پروگرام کیا ہونا چاہیے؟ اس سلسلے میں آپؓ نے فرمایا:

‘‘یہ سوال کہ تربیت کا پروگرام کیا ہونا چاہیے ایک لمبا سوال ہےجس کا دو حرفوں میں جواب نہیں دیا جاسکتا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا آنحضرتﷺ کے متعلق فرماتی ہیں کہ: کَانَ خُلُقُہٗ الْقُرْآنَیعنی آپ کے اخلاق کا نقشہ دیکھنا چاہوتو قرآن کو دیکھ لو۔’’

حضرت صاحبزادہ صاحبؓ نے سورۃ البقرہ کی آیت4 (الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلوٰۃَ وَمِمَّا رَزَقْنٰھُم یُنْفِقُوْنَ)کو خدام الاحمدیہ، ربوہ کے سامنے پیش فرمایا کہ یہ آیتِ کریمہ تربیتی پروگرام کے آغاز کی بنیادبن سکتی ہے۔اس آیتِ کریمہ میں مومنوں کے تین بڑے کام بتائے گئے ہیں۔

1۔ یہ کہ خدا اور اس کے رسولوں اور تمام غیب کی باتوں پر دل سے ایمان لانا۔ خدا کی ذات دین کا وہ مرکزی نقطہ ہے جس سے ہر نیکی کی نہر نکلتی ہے۔

2۔ اپنے خالق و مالک کی عبادت کرناہے جس میں نماز ستون نمبر1کا حکم رکھتی ہے۔ نماز کو معراج المومنین کا نام دیا گیا ہے۔ یعنی یہ وہ سیڑھی ہے جو بندے کو خد اتک پہنچاتی ہے۔

3۔ خدا کے راستے میں خرچ کرنا۔ کسی کے پاس مال ہے تو وہ خداکےراستے میں چندہ دے۔ دل ودماغ، جسمانی طاقتیں اور علم ان سب سے مخلوقِ خدا کو فائدہ پہنچائے۔

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے فرمایا:

‘‘یہ وہ تین بنیادی باتیں ہیں جنہیں خداتعالیٰ نے قرآن مجید کے شروع میں مسلمانوں کے تربیتی پروگرام کی بنیاد کے طور پر بیان کیا ہے۔ اور مَیں اس جگہ انہی کی طرف خدام الاحمدیہ ربوہ کو توجہ دلاتا ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ اگر وہ ان تین بنیادی باتوں کو پاک نیت اور دلی اخلاص کے ساتھ اپنے تربیتی پروگرام کا حصہ بنائیں گے اور ان پر مضبوطی سے قائم رہیں گے تو ان شاء اللہ ان کا ہر قدم ترقی کی طرف اٹھتا چلا جائے گا۔ اور ان کے لیے آسمان سے ایک نئے عالم کا دروازہ کھولا جائے گا’’

(الفضل 5؍اگست 1959ء)

ربوہ کا یہ دل کش ماحول کس طرح بچوں اور نئی نسل کو متاثر کرتا ، اور کس طرح ان کی دینی اورروحانی تربیت میں ممدو معاون ہوتا ہےاس کا بڑا مسحورکُن نقشہ مکرم محمد داؤد طاہر صاحب نے کھینچا ہے۔ اُنہوں نے اپنا بچپن ربوہ کے پاکیزہ ماحول میں گذارا اور گریجوایشن تک اپنی تعلیم یہیں رہ کر مکمل کی۔ان کی کتاب ‘‘قریۂ جاوداں’’سے علم ہوتا ہے کہ ربوہ میں اُس دَور میں بھی ذیلی تنظیمیں بہت فعّال تھیں۔ بچوں کی تربیت کا موثر نظام قائم تھا۔ انہیں چھوٹی چھوٹی باتیں ذہن نشین کرائی جاتیں، جیسے راستے میں ملنے والے ہر شخص کو سلام کرنے میں پہل کی جائے۔ اجلاسوں، تربیتی اجتماعات اور کلاسز میں نماز باجماعت کی عادت ڈالنے کےلیے آیاتِ قرآنیہ، احادیث ، اور حضرت مسیح موعودؑ کے ارشادات دہرائے جاتے۔خدام و اطفال کی نمازوں پر حاضری لگائی جاتی۔

محترم محمد داؤدطاہر صاحب لکھتے ہیں:

‘‘ربوہ میں پنج وقتہ نمازوں کی باجماعت ادائیگی کو باقی ہر شے پر مقدم رکھاجاتاتھا۔ یوں تو اس قصبے کے ہر محلّے میں بیوت الذکرموجود تھیں جہاں ملحقہ آبادی کے فرزندانِ توحید دن میں پانچ بار خدائے واحد و یگانہ کے حضور سر بسجود ہوتے تاہم بیت مبارک کو ربوہ کی بیوت میں مرکزی حیثیت حاصل تھی لہٰذا یہاں نماز پڑھنے والوں کی تعداد باقی بیوت سے کہیں زیادہ ہوتی۔ اپنی صحت کے زمانے میں حضرت خلیفۃ المسیح الثّانی خود یہاں نمازوں کی اقتدا فرماتے تھے۔’’

( قریۂ جاوداں، از محمد داؤد طاہر صاحب، صفحہ 435)

رمضان المبارک میں ربوہ کے روز و شب یکسر بدل جاتے۔ عبادتوں اور دعاؤں سے فضا معطّر ہوجاتی۔ گلیوں اور بازاروں میں ایک عجیب پُرکیف ماحول ہوتا۔ جہاں تاجر حضرات فراغت کے لمحات میں تلاوت کرتےنظر آتے۔ خریدارجو خود بھی روزےدارہوتے اُن کے کانوں میں تلاوتِ قرآن کریم کی آوازرس گھولتی رہتی۔عام دنوں میں بالعموم اور رمضان المبارک میں بالخصوص نمازوں کے اوقات میں بازاروں میں سنّاٹا چھا جاتا۔ تراویح اور درسِ قرآن کے اوقات میں سب کا رُخ مساجد کی جانب ہوتا۔ رمضان المبارک کی ایک ایسی ہی بابرکت رات کا ذکر سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؓ نے اپنی ایک نظم میں فرمایا ہے:

ذکر سے بھر گئی ربوہ کی زمیں آج کی رات

اتر آیا ہے خداوند یہیں آج کی رات

شہرِ جنت کے ملا کرتے تھے جس کو طعنے

بن گیا واقعتاً خُلدِ بریں آج کی رات

مسجد مبارک، ربوہ میں ہونے والے درسِ قرآن میں شمولیت کےلیے اہل ِربوہ کے اشتیاق کا اندازہ درج ذیل اقتباس سے لگایا جاسکتا ہے:

‘‘ماہِ صیام کے دوران موسمِ گرما میں نمازِ عصر اور مغرب کے درمیان اور موسمِ سرما میں نمازِ ظہر اور عصر کے درمیان درسِ قرآن ربوہ کے ماحول کا خاصہ تھا۔ روزانہ ایک پارے کا درس ہوتا اور یوں رمضان کے مہینے میں ترجمہ و تفسیر کا کم از کم ایک دور مکمل کرلیا جاتا۔ درس دینے والے صاحبان قرآن کریم کے کچھ حصّہ کی تلاوت کے بعد اس کا اردو ترجمہ اور عام فہم تفسیربیان کرتے۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے اس درس کا اہتمام صرف بیت المبارک میں ہوتا تھا۔اس مقصدکےتحت قرآن کریم کو پانچ پانچ پاروں کے چھے حصوں میں تقسیم کردیا جاتا اور ہر حصے کا درس علیحدہ علیحدہ علما کے سپرد ہوتا۔ ان علما میں سے مجھے صاحبزادہ مرزارفیع احمد ،قاضی محمد نذیر لائل پوری ،مولانا جلال الدین شمس،مولانا ابوالعطاء جالندھری، مفتی سیف الرحمٰن، مولانا محمد احمد جلیل، مولانا ابوالمنیر نورالحق، مولانا دوست محمد شاہد اور حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمدکے اسمائے گرامی اب تک یاد ہیں۔ اہلِ ربوہ اس درس میں بہت ذوق و شوق سے شامل ہوتے۔ وہ قرآن پاک ہاتھوں میں لیے نمازِ عصر سے ذرا پہلے بیت مبارک میں پہنچ جاتے اور جب درس شروع ہوتا قرآن پاک کھول کر سامنے رکھ لیتے تاکہ اپنی قراءت کو بہتر بنا سکیں اور ترجمہ و تفسیر بسہولت سمجھ سکیں۔ عبدالسّلام اختر نے انہی پاک محافل کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے: ؎

لیے ہاتھوں میں قرآں صف بہ صف بیٹھے ہیں متوالے

جمالِ دیں کے پروانے،متاعِ دیں کے رکھوالے

یہ ہیں عشقِ نبی خونِ جگر میں پالنے والے

انہی ہاتھوں میں تقدیرِ جہاں معلوم ہوتی ہے

زمینِ ربوہ بزمِ آسماں معلوم ہوتی ہے

29؍رمضان المبارک کو دعا ہوتی ۔اس موقع پر بیت مبارک کھچا کھچ بھرجاتی حتیٰ کہ صحن میں بھی تل دھرنے کو جگہ نہ رہتی۔ بعض اوقات آخری چند سورتوں کا درس حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒخود آکر دیتے اور دعا بھی آپ ہی کراتے۔ اس دعا میں شامل ہونے والوں کی متضرعانہ دعائیں اپنے اندر ایک خاص رنگ رکھتی تھیں۔ ہوسکتا ہے اس موقع پر ہونے والی آہ و زاری سے ایک بار تو عرش بھی ہل جاتا ہو۔’’

( قریۂ جاوداں، از محمد داؤد طاہر صاحب، صفحہ444)

رمضان المبارک کےدوران ربوہ کےپاکیزہ،روحانی ماحول کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک موقعے پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ؓ نے اس بات پر خوشی کا اظہار فرمایا کہ مسجد مبارک ربوہ میں اعتکاف بیٹھنے والوں میں ایک کثیر تعداد اُن احباب کی ہے جو ربوہ کے باہر سے تشریف لاکر رمضان کا آخری عشرہ یہاں گذارنا چاہتے ہیں۔ دیگر احبابِ جماعت کوتوجہ دلاتے ہوئے آپؓ نے فرمایا:

‘‘کیا اچھا ہو کہ ربوہ کے قریبی اضلاع یعنی لاہور، سرگودھا، لائل پور، شیخو پورہ،گوجرانوالہ اور گجرات وغیرہ سے ہر سال کوئی نہ کوئی دوست ربوہ آکر رمضان کا مہینہ یا کم از کم رمضان کا آخری عشرہ گذارہ کریں اور رمضان کی برکات کا وہ روح پرور نظارہ دیکھیں جو اس وقت پاکستان میں ربوہ کے سوا کسی اور مقام کو حاصل نہیں’’

(حیاتِ بشیر از عبدالقادر سابق سوداگرمل صفحہ 159)

مخصوص حالات کے باوجود ربوہ میں آج بھی دینی اور روحانی تربیت کا کامیاب نظام قائم ہے۔گلیوں اور عوامی مقامات پر آج بھی احباب ایک دوسرے کو السلام علیکم کہتے سنائی دیتے ہیں۔ذیلی تنظیموں کے تحت مرد و خواتین اور بچے بچیوں کے اجلاس ہوتے ہیں۔ ان اجلاسوں اور تربیتی پروگراموں کے ذریعے ہر عمر، صنف اور طبقے سے تعلق رکھنے والے افرادِ جماعت فیض یاب ہوتے ہیں۔ ربوہ نہ صرف مقامی احباب کےلیے بلکہ پورے پاکستان اور بعض لحاظ سے دنیا بھر کے احمدیوں کے لیے دینی تربیت کی نرسری کا فریضہ ادا کر رہا ہے۔ یہاں ہونے والے مرکزی پروگراموں ، علمی و ورزشی مقابلوں میں پاکستان بھر سے احمدی تشریف لاتے ہیں۔ ربوہ کے بازاروں میں آج بھی نمازوں کے اوقات میں ایک خاص ماحول ہوتا ہے۔ ہر بازار اور مارکیٹ میں قائم نظام ،نماز کا اہتمام کرتا ہے۔ نمازِ فجر سے پیشتر ربوہ کے گلی کوچوں سے آج بھی صلّ علٰی نبیّنا صلّ علٰی محمد کی پُر نور صدائیں گونجتی سنائی دیتی ہیں۔ جمعے کے روز وقارِ عمل کے ذریعے سب بوڑھے اور جوان اپنے محبوب شہر کو سنوارتے ہیں۔ خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماء اللہ کے زیرِ اہتمام ہونے والی سالانہ تربیتی کلاسوں میں پاکستان کی تمام مجالس سے نوجوان خدام اور لجنہ کی ممبرات شریک ہوکر اپنے دینی اور تربیتی معیار کو بلند کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ واقفینِ نو کا سالانہ سہ روزہ تربیتی پروگرام ،تعلیم القرآن کلاسز ،میٹنگز اور دیگر مختلف النوع پروگراموں میں شمولیت کے لیے افرادِ جماعت سال بھر ربوہ آتے رہتے ہیں۔ گذشتہ چند برسوں میں بیرونِ پاکستان قائم جامعات سے پاس ہونے والے شاہدین بھی پاکستان تشریف لارہے ہیں۔ اِن نوجوان مبلغین کی ربوہ آمد اور موجودگی کا سلسلہ سال بھر جاری رہتا ہے۔ اہلِ ربوہ ان مبلغین سے خاص محبت اور خندہ پیشانی سے ملتے ہیں۔جواب میں یہ معززمہمان بھی لطف و مہربانی اور اپنائیت سے پیش آتے ہیں۔ ربوہ کا ماحول رمضان المبارک میں تو خاص روحانی رنگ میں رنگا جاتا ہے۔ مساجد کی رونق معمول سے بڑھ جاتی ہے ۔ نمازِ فجر کے بعد بچوں کی کلاسز ہوتی ہیں۔ درس القرآن میں شرکت کے لیے ربوہ کے گوشے گوشے سے لوگ سائیکلوں ، کاروں، موٹر سائیکلوں اور رکشوں پر پہنچتے ہیں۔ غرض ربوہ، اپنے مکینوں اور ملک بھر کے احمدیوں کے لیے دینی اور روحانی تربیت گاہ کے طور پر خداتعالیٰ کی ایک غیر معمولی نعمت ہے۔

ہاں اس گلزارِ علم و فضل میں اگر کمی ہے تو صرف ایک کہ اس شہر کی فضا اپنی تمام تر رونق اور گہماگہمی کے باوجود فراقِ یار کی تکلیف دہ اداسی میں ڈوبی ہوئی ہے۔ عشّاقِ خلافت کی یہ مبارک بستی وادیٔ ایمن کے مصداق اپنے موسیٰ کی راہ تَک رہی ہے۔

آج تک بام و در سسکتے ہیں

ساعتِ ہجرتِ مکین کے بعد

یہ داستانِ مفارقت طویل و غم ناک سہی، لیکن ربوہ اور اہلِ ربوہ اپنے مولا کی رحمت سے آس لگائے ، اور اپنے آقا کی راہ میں آنکھیں بچھائے بیٹھے ہیں۔؎

مجبور سہی، لاچار سہی ہے کرب و بَلا کا دَور مگر!

پُر عزم بھی ہیں باحوصلہ بھی رہتے ہیں جو سارے ربوہ میں

تسکین سماعت پاتی ہے، ذہنوں کو جِلا بھی ملتی ہے

پر دِید کی پیاس کا کیا کیجے، بھڑکی ہے جو سارے ربوہ میں

کب ساقی بزم میں آئے گا، کب جام لُنڈھائے جائیں گے

دو قطروں سے کب ہوتے ہیں رِندوں کے گزارے ربوہ میں

(صاحبزادی امۃ القدوس بیگم صاحبہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button