دشمن کے لیے دُعا کرنا بھی سُنّتِ نبوی ہے
کلام امام الزمان کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:
تمام انبیاء علیہم السلام کی بعثت کی غرض مشترک یہی ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ کی سچّی اور حقیقی محبت قائم کی جاوے۔ اور بنی نوع انسان اور اخوان کے حقوق اور محبت میں ایک خاص رنگ پیدا کیا جاوے۔ جبتک یہ باتیں نہ ہوں تمام امور صرف رسمی ہوں گے۔
خدا تعا لیٰ کی محبت کی با بت تو خدا ہی بہتر جا نتا ہے لیکن بعض اشیا ء بعض سے پہچا نی جا تی ہیں ۔مثلاً ایک درخت کے نیچے پھل ہوں تو کہہ سکتے ہیں کہ اس کے او پر بھی ہوں گے لیکن اگر نیچے کچھ بھی نہیں۔ تو اوپر کی بابت کب یقین ہو سکتا ہے ۔ اسی طرح پر بنی نوع انسان اور اپنے اِخوان کے ساتھ جو یگا نگت اور محبت کارنگ ہو اور وہ اس اعتدال پرہوجو خدا نے قائم کیا ہے تواس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ بھی محبت ہو۔پس بنی نوع کے حقوق کی نگہداشت اور اِخوان کے ساتھ تعلقات بشارت دیتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی محبت کارنگ بھی ضرور ہے۔
دیکھو دُنیا چند روزہ ہے۔ اور آگے پیچھے سب مرنے والے ہیں ۔قبریں مُنہ کھو لے ہو ئے آوازیں ما ر رہی ہیں اور ہر شخص اپنی اپنی نوبت پر جاداخل ہوتا ہے۔عمر ایسی بے اعتبار اور زندگی ایسی نا پا ئیدار ہے کہ چھ ماہ اورتین ما ہ تک زندہ رہنے کی امید کیسی ،اتنی بھی امید اور یقین نہیں کہ ایک قدم کے بعد دُوسرے قدم اٹھا نے تک زندہ رہیں گے یا نہیں ۔پھر جب یہ حال ہے کہ موت کی گھڑی کا علم نہیں اور یہ پکّی بات ہے کہ وہ یقینی ہے ،ٹلنے والی نہیں تو دانشمند انسان کا فرض ہے کہ ہر وقت اُس کے لیے تیار رہے۔اسی لیے قرآن شریف میں فر مایا گیا ہےلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ(البقرہ: 133)ہروقت جب تک انسان خدا تعالیٰ سے اپنا معا ملہ صاف نہ رکھے اور ان پردو حقوق کی پُوری تکمیل نہ کرے ، بات نہیں بنتی۔جیسا کہ مَیں نے کہا ہے کہ حقوق بھی دو قسم کے ہیں۔ ایک حقوق اللہ دُ وسرے حقوق العباد ۔
حقوق اللہ اور حقوق العباد
اور حقوق ِعباد بھی دوقسم کے ہیں ایک وُہ جو دینی بھا ئی ہو گئے ہیں ۔خواہ وُہ بھا ئی ہے یا باپ ہے ۔یا بیٹا ۔مگر ان سب میں ایک دینی اخوّت ہے۔ اور ایک عام بنی نوع انسان سے سچی ہمدردی ہے۔
اللہ تعالیٰ کے حقوق میں سب سے بڑا حق یہی ہے کہ اُس کی عبادت کی جا وے اور یہ عبا دت کسی غرض ذاتی پرمبنی نہ ہو ۔بلکہ اگر دوزخ اور بہشت نہ بھی ہو ں ۔تب بھی اس کی عبادت کی جا وے اور اس ذاتی محبت میں جو مخلوق کو اپنے خالق سے ہو نی چا ہئے کو ئی فرق نہ آوے ۔اس لیے ان حقوق میں دوزخ اور بہشت کا سوال نہیں ہونا چا ہیے ۔
بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی میں میرا یہ مذہب ہے کہ جب تک دُشمن کے لیے دعا نہ کی جا وے پُورے طور پر سینہ صاف نہیں ہو تا ہے ۔ اُدْعُوْ نِیٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ (المومن:61)میں اللہ تعا لیٰ نے کو ئی قید نہیں لگا ئی کہ دشمن کے لیے دُعا کرو توقبول نہیں کرو ں گا۔بلکہ میرا تو یہ مذہب ہے کہ دشمن کے لیے دُعا کرنا یہ بھی سُنّتِ نبوی ہے ۔حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی سے مسلمان ہو ئے ۔آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلّم آپ کے لیے اکثر دُعا کیا کرتے تھے۔اس لیے بُخل کے ساتھ ذاتی دشمنی نہیں کرنی چا ہئے ۔اور حقیقۃً مو ذی نہیں ہو نا چاہیے۔شکر کی بات ہے کہ ہمیں اپنا کوئی دشمن نظر نہیں آتا جس کے واسطے دوتین مرتبہ دُعا نہ کی ہو۔ایک بھی ایسا نہیں۔ اور یہی مَیں تمہیں کہتا ہوں اور سِکھاتا ہوں۔ خدا تعالیٰ اس سے کہ کسی کو حقیقی طورپر ایذا پہنچا ئی جا وے اور ناحق بخلکی راہ سے دشمنی کی جا وے،ایسا ہی بیزار ہے۔جیسے وہ نہیں چا ہتا کہ کو ئی اس کے ساتھ ملایاجا وے۔ایک جگہ وہ فصل نہیں چا ہتا اور ایک جگہ وصل نہیں چا ہتا۔یعنی بنی نوع انسان کا با ہمی فصل اور اپنا کسی غیر کے ساتھ وصل۔اور یہ وہی راہ ہے کہ منکروں کے واسطے بھی دُعا کی جا وے۔اس سے سینہ صاف اور انشراح پیدا ہوتا ہے اور ہمّت بلند ہو تی ہے۔ اس لیے جب تک ہما ری جماعت یہ رنگ اختیار نہیں کرتی اُ س میں اور اس کے غیر میں پھر کو ئی امتیاز نہیں ہے ۔ میرے نزدیک یہ ضروری امر ہے کہ جو شخص ایک کے ساتھ دین کی راہ سے دوستی کرتا ہے اور اس کے عزیزوں سے کوئی ادنیٰ درجہ کا ہے تواس کے ساتھ نہایت رِفق اورملا ئمت سے پیش آنا چا ہئے اور اُ ن سے محبت کر نی چاہیے ۔کیونکہ خدا کی یہ شان ہے ۔
بَداں را بہ نیکاں بہ بخشد کریم
پس تم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو تمہیں چا ہئے کہ تم ایسی قوم بنو جس کی نسبت آیا ہے فَاِ نَّہُمْ قَوْمٌ لَا یَشْقٰی جَلِیْسُہُمْ یعنی وہ ایسی قوم ہے کہ ان کا ہم جلیس بد بخت نہیں ہو تا۔یہ خلا صہ ہے ایسی تعلیم کا جو تَخَلَّقُوْابِاَخْلَاقِ اللّٰہ میں پیش کی گئی ہے ۔’’
(ملفوظات جلد سوم صفحہ 97-95۔ایڈیشن 1984ء)