از مرکز

دنیا کی سائنسی اور علمی ترقی نیز قیامِ امن میں اسلام کا کردار اور یونیسکو کا چارٹر:حضرت خلیفۃ المسیح الخامس کا یونیسکو سے خطاب

(ادارہ الفضل انٹرنیشنل)

اس رپورٹ کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:

آج اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے جماعتِ احمدیہ مسلمہ یونیسکو کے چارٹر کو عملی جامہ پہنا رہی ہے

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا پیرس میں واقع یونیسکو بلڈنگ میں اسلامی تعلیمات اور معاشرے کی ترقی میں اسلام کے مثبت کردار کے بیان پر مشتمل تاریخی خطاب

(08؍ اکتوبر 2019ء، UNESCOبلڈنگ پیرس، فرانس، نمائندہ الفضل انٹرنیشنل) آج امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے UNESCO سے خطاب فرمایا۔ UNESCO جو United Nations Educational, Scientific and Cultural Organisationکا مخفف ہے دنیا میں قیامِ امن اور قانون کی بالا دستی، انسانی حقوق کے قیام نیز تعلیم کوعام کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔

حضورِ انور مقامی وقت کے مطابق ساڑھے تین بجے کے قریب مسجد مبارک Saint-Prix سے پیرس کے Pullman Hotel کے لیے روانہ ہوئے جہاں پونے پانچ بجے کے قریب رونق افروز ہوئے۔ یہ ہوٹل UNESCO بلڈنگ سے چند منٹ کی ڈرائیو پر واقع ہے جہاں پر آج کی تقریب کا انعقاد ہونا تھا۔ اس ہوٹل میں حضور پُر نور کے ساتھ چند معزّزین کی ملاقاتیں ہوئیں۔

ہوٹل میں ایک گھنٹے کے قریب قیام فرمانے کے بعد حضورِ انور چھے بجے کے قریب یونیسکو بلڈنگ کے لیے روانہ ہوئے۔

اس تقریب کے میزبان یونیسکو میں متعیّن مالی کے سفیر تھے۔ اس پروگرام میں مختلف ثقافتی اور سماجی پسِ منظر سے تعلق رکھنے والے ڈیڑھ سو کے قریب معزّزین نے شمولیت کی۔

UNESCO بلڈنگ میں تقریب اور حضورِ انور کا خطاب: حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز چھے بج کر 12 منٹ پرتقریب کے لیے مختص کیے گئے ہال میں تشریف لائے۔ اس پروگرام کے ماڈریٹر کے فرائض مکرم آصف عارف صاحب سیکرٹری امورخارجہ جماعت احمدیہ فرانس نےسرانجام دیے۔ موصوف نے حضورِ انور کے صدارتی خطاب سے قبل مختلف معزّزین کو خطاب کرنےکی دعوت دی۔

سب سےپہلے His Excellency OumarKeita, Delegate Ambassador to the UNESCO نے اپنےخیالات کا اظہارکیا۔

موصوف نے مالی میں ہونے والی دہشت گردی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ باہمی رواداری اور آزادی کے اصولوں کے خلاف ہے۔ موصوف نے کہاکہ مالی میں اسلام کی عزت کی جاتی ہے اور وہ مذہبی امورمیں مداخلت نہیں کرتے اورہر کوئی اپنےمذہب پر عمل کرنےمیں آزادہے۔ موصوف نے مالی میں جماعت احمدیہ کی دُکھی انسانیت کے لیے کی جانے والی خدمات کوسراہا اوراس خواہش کااظہارکیا کہ جماعت احمدیہ ان کاموں کو جاری رکھے گی کیونکہ یہ مالی کی ترقی میں ایک خاص کردار ادا کر رہے ہیں۔ آخر پر موصوف نے کہا کہ ہم حضورِ انور کی مالی میں تشریف آوری کے منتظر ہیں۔
بعدازاں مکرم سیکرٹری صاحب امورخارجہ نے جماعت احمدیہ کے حوالے سے ایک تعارفی تقریرکی جس میں موصوف نےبتایا کہ جماعتِ احمدیہ کےدوسرے خلیفہ حضرت مرزابشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ 1924ء میں فرانس تشریف لائے اور پیرس کی زیر تعمیر مسجد میں بھی تشریف لے گئے۔ بعد ازاں 1946ء میں جماعت احمدیہ کےپہلے مبلغ فرانس میں آئے۔ موصوف نےبتایا کہ اس وقت جماعت احمدیہ کی فرانس میں ایک مسجد پیرس میں ہے، ایک رقبہ تغی شاتو میں ہے جبکہ ایک مسجدکا عنقریب سٹراس برگ میں افتتاح ہوگا۔

اس کےبعد Mr.Clement Rouchouse from the Central Religion Advisory Board at the Home Officeنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ موصوف نے حضورِ انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا فرانس میں خیر مقدم کیا اور بتایا کہ فرانس کی بنیاد سیکولرازم پر ہے جس کی وجہ سے مذہبی آزادی یقینی ٹھہرتی ہے اور حکومت کو مذہبی امورمیں مداخلت کی اجازت نہیں۔ اسلام کےحوالے سے موصوف نے کہا کہ اسلام اس ملک میں بہت لمبے عرصے سے موجود ہے جس کا اظہار یہاں پرایک بڑی تعداد میں مقیم مسلمانوں سے ہوتاہے۔ موصوف نے بتایا کہ جماعت احمدیہ کا اس ملک کے ساتھ 1924ء سے تعلق رہا ہےاور فرانس میں اس کی موجودگی ان کےلیےنہایت خوش آئند ہے۔

اس کےبعد Mr. Jean Christophe Auge the Religious Advisor of the ForeignAffairs Ministryنے مختصر خطاب کیا۔ موصوف نے حضورِانورکا خیرمقدم کیا اوراس پروگرام کےمنتظمین کا شکریہ ادا کیا۔ موصوف نے بنیادی انسانی حقوق میں مذکور مختلف قسم کی آزادیوں کی اہمیت کا ذکر کیا اوراس بات پر زور دیا کہ یہ آزادی ہر شخص کے لیے مساوی طور پر ہے اوروہ اس آزادی کا اظہار عملی طور پر بھی کرسکتاہے۔

بعدازاںEaubonne شہر کے میئر نے تقریرکی۔ موصوف نےکہاکہ میرے لیے یہاں تقریر کرناایک بہت بڑے اعزاز کی بات ہے۔ موصوف نے کہا کہ ہم سب پُرامن اور انصاف پسند معاشرےمیں رہناچاہتےہیں لیکن ہم روز دیکھتے ہیں کہ معاشرے میں فسادپیدا کرنےوالے اپنا کام کیےجاتےہیں۔ اس لیے ہمیں ہوشیاررہنا ہو گا تاکہ ہم ان اقدارکی حفاظت کرسکیں جو ہمیں بڑی تگ و دو کےبعد حاصل ہوئی ہیں۔ اس کےلیے ہمیں نہ صرف انفرادی طور پر انتہا پسندی کوردّ کرنا ہوگا بلکہ اپنےارد گرد معاشرے میں بھی اس لحاظ سے نظر رکھنی ہوگی اور جاننا ہوگا کہ اس کا مقابلہ کس طرح کر نا ہے۔ موصوف نے جماعت احمدیہ کی فرانس میں خدمات کا اعتراف کیا اور خاص طورپر صفائی کےحوالے سے جو کام جماعت احمدیہ نے فرانس میں کیا ہے اسے سراہا۔
بعدازاں President of the NATO Memorial Mr Willy Bretonنےتقریرکی۔

موصوف نے NATO Memorialکےحوالے سےبتایاکہ وہ اس کے صدرہیں۔ یہ فروری 2012ء میں مکمل ہوا۔ اس کا مقصد ان سپاہیوں کی تکریم کرنا اور ان کی یاد کو تازہ رکھنا ہےجنہوں نے NATOکی خاطراپنی جانیں قربان کیں۔ اسی طرح موصوف نے اس ادارے کے تحت منعقدہونے والے مختلف پروگراموں کا ذکرکیا جس میں مختلف مذاہب کے لوگ جمع ہو کرقیامِ امن کے حوالے سے اپنے نیک جذبات کا اظہارکرتے ہیں۔

خطاب حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

معزّزین کی مختصر تقاریر کے بعد امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مقامی وقت کے مطابق چھے بج کر41 منٹ پر منبر پر تشریف لائے۔ حضورِ انور نے بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم کے ساتھ اپنے خطاب کا آغاز فرمایا اور سب مہمانوں کو ‘السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ’ کا تحفہ پیش فرمایا۔ حضورِ انور نے یونیسکو کی انتظامیہ کا شکریہ ادا کیا کہ اس نے جماعت احمدیہ کو اس تقریب کے انعقاد کی اجازت دی نیز اس تقریب میں تشریف لانے والے مہمانوں کا بھی شکریہ ادا کیا۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ یونیسکو کے بنیادی مقاصد بہت عمدہ اور قابلِ ستائش ہیں جن میں دنیا میں قیامِ امن اور قانون کی بالا دستی نیزانسانی حقوق اورتعلیم کوعام کرنا شامل ہیں۔ مزید برآں یہ تنظیم آزادیٔ صحافت کی قائل ہے اور دنیا میں پائے جانے والے مختلف کلچرز کی حفاظت کی علم بردار بھی۔ نیز غربت کو ختم کرنا اوردنیا کی ترقی کے لیے کام اور اس بات کو یقینی بنانا کہ ہم لوگ آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک بہتر ماحول چھوڑ کر جائیں بھی اس کی ترجیحات میں شامل ہے۔

حضورِ انور نے فرمایاکہ آپ لوگ شاید یہ جان کر حیران ہوں کہ اسلام میں بھی ان مقاصد کو پورا کرنے کے لیے تعلیمات موجود ہیں۔ اسلام تمام انسانوں کو برابر سمجھتا ہے اس لیے بلا تفریق رنگ و نسل سب کی ترقی کے لیے اصول وضع فرماتا ہے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ قرآنِ کریم کی پہلی ہی سورت کہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام عالمین کا رب ہے۔ یہ نہیں کہ صرف مسلمانوں کا ربّ ہے بلکہ تمام انسانوں کا ربّ ہے۔ وہ رحمٰن ہے اور رحیم بھی ہے۔ اس لیے وہ رنگ نسل یا ذات پات کے فرق کے بغیر تمام انسانوں کی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ اسی لیے ہم اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ تمام انسان برابر ہیں اور وہ برابر ہی پیدا ہوتےہیں۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ قرآنِ کریم کے مطابق ایک مسلمان کو اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بننے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس لیے یہ پھر ایک مسلمان کا فرض بن جاتا ہے کہ وہ تمام انسانوں کے ساتھ منصفانہ اور برابری کا سلوک رکھے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ اسلام کے بارے میں بہت سے غلط تأثرات دنیا میں پائے جاتے ہیں۔ اسلام میں سزا کا تصوّر زیادہ تر آخرت کی زندگی کے ساتھ وابستہ ہے۔ جبکہ اس دنیا میں اللہ تعالیٰ اپنا رحم لوگوں پر نچھاور کرتا اور انہیں قدم قدم پر معاف کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ ایک مسلمان کو اپنے ساتھی انسانوں کے ساتھ محبت اور برابری کا سلوک رکھنا چاہیے چاہے وہ کسی رنگ یا نسل یا ذات پات سے تعلق رکھتے ہوں۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ بانیٔ اسلام حضرت محمد مصطفیٰﷺ تمام دنیا کے لیےسراپا رحم تھے۔ آپؐ اور آپؐ کے پیروکاروں کو اسلام کے آغاز کے بعد انتہائی سخت مظالم کا سامنا تھا۔ بالآخر کئی سال تکالیف سہنے کے بعد مسلمان مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے جہاں نبی اکرمﷺ نے مسلمان مہاجرین، یہود اور دیگر ممبرانِ معاشرہ کے درمیان ایک امن کا معاہدہ کیا جس کے مطابق سب کا فرض تھا کہ وہ امن کے ساتھ رہیں گے، ایک دوسرے کے حقوق ادا کریں گے اور باہمی ہم آہنگی اوربرداشت کے ساتھ رہنا یقینی بنائیں گے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ نبی اکرمﷺ اس ریاست کے سربراہ مقرر ہوئے۔ نبی اکرمﷺ کے زیرِ انتظام ریاستِ مدینہ ایک بے مثال ریاست بن گئی۔ آپؐ نے اس میں آزاد عدلیہ کا قیام فرمایا۔ آپؐ نے اس بات کو یقینی بنایا کہ چاہے کوئی امیرہو یا غریب، طاقت وَر ہو یا کمزور سب کے لیے ایک ہی قانون ہو۔ چنانچہ ایک مرتبہ کسی امیر خاندان کی عورت سے جرم سرزد ہو گیا تواکثر لوگوں کی رائے تھی کہ اسے معاف کر دیا جائے۔ نبی اکرمﷺ نے ان کی تجویز کو ردّ کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر محمدؐ کی بیٹی بھی جرم کرتی تو اسے بھی ریاستی قانون کے مطابق قابلِ مواخذہ ٹھہرایا جاتا۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ نبی اکرمﷺ نے بہترین معاشرے کے قیام کے لیے اس بات کو ضروری قرار دیا کہ لوگ علم سیکھیں۔ حضورؐ نے اس بات کی حوصلہ افزائی فرمائی کہ پڑھے لکھے لوگ دوسروں کو پڑھنا لکھنا سکھائیں۔ معاشرے کے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والوں کو چاہے وہ غریب ہوں یا یتیم تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جائے۔ ریاستِ مدینہ میں یہ اصول بھی کارفرما تھا کہ کمزوروں کو اپنے قدموں پر کھڑا کرنے کی کوشش کی جائے۔ ٹیکس کا سسٹم شروع کیا گیا جس میں امیروں سے ٹیکس لے کر غریبوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جاتا تھا۔ مزید برآں قرآنی احکام کی روشنی میں نبی اکرمﷺ نے کاروبار کے اصول بھی وضع کیے تا کہ ہر کوئی دیانت داری کے ساتھ کاروبار کرے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ اس دور میں جب غلامی اپنے زوروں پر تھی، نبی اکرمﷺ نے ایک انقلاب برپا کر دیا۔ حضورؐ نے لوگوں کو اپنے غلاموں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی ترغیب دی اور انہیں آزاد کرنے کی تلقین فرمائی۔ شہر کو صاف رکھنے کے لیے اقدامات کیے گئے۔ لوگوں کو صاف رہنے کی اہمیت بتائی گئی۔ سڑکیں بنائی گئیں، مردم شماری کروائی گئی تا کہ لوگوں کی ضروریات پوری کی جا سکیں۔ الغرض ساتویں صدی میں نبی اکرمﷺ کے زیرِ سرپرستی ایک شخص کی ذاتی اور قومی فلاح و بہبود اور ان کے حقوق کے قیام کو یقینی بنایا گیا۔ گویا کہ عرب میں پہلی مرتبہ ایک منظم بلکہ ایک ماڈل سوسائیٹی بنا دی گئی۔ اور اس دور میں انفراسٹرکچر، سروسز، باہمی اتحاد و یگانگت، اور ایک دوسرے کو خوش دلی کے ساتھ برداشت کرنے کی بنیاد رکھ کر ایک کامیاب اور مثالی ملٹی کلچرل سوسائیٹی کی بنیاد رکھی گئی۔ اس معاشرے میں بعض مسلمان مہاجر بھی تھے لیکن وہ مقامی معاشرے میں اس طرح شامل ہو گئے کہ انہوں نے اس کی ترقی کے لیے انتہائی مؤثر کردار ادا کیا۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ آج انتہائی افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ دنیا میں نبی اکرمﷺ کے کردار کو منفی رنگ میں پیش کیا جاتا ہے۔ آپؐ کو ایک جنگ جُو لیڈر کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ حقیقت میں یہ سچ نہیں۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ نبی اکرمﷺ اپنی عمر کے ہر حصے میں لوگوں کی بہتری اور انسانی حقوق کے قیام کے لیے اقدامات کرتے رہے۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا کہ ایک دوسرے کے جذبات اور عقائد کا پاس رکھو۔ ایک دفعہ ایک یہودی نے نبی اکرمﷺ کے ایک قریبی صحابی کی شکایت کی کہ اُس نے انہیں تھپڑ مارا ہے۔ نبی اکرمﷺ نے اپنے صحابی کو بلا بھیجا اور ان سے وضاحت طلب فرمائی۔ انہوں نے جواب دیا کہ یہودی کہتا تھا کہ ہمارے نبی حضرت موسیٰؑ کا رتبہ تمہارے نبی محمدﷺ سے بڑا ہے۔یہ بات مجھ سے برداشت نہیں ہوئی۔ ا س پر نبی اکرمﷺ اپنے قریبی صحابی سے ناراض ہوئے اور فرمایا کہ تمہیں اس یہودی کے ساتھ ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا بلکہ اس کے جذبات کا خیال رکھنا چاہیے تھا۔ حضورِ انور نے فرمایا یہ کتنی عظیم الشان تعلیم ہے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ ایک دوسرے کے جذبات کا پاس رکھنے کی یہ بہترین روایت کہ جس پر دنیا کے باہمی اتحاد کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے اور جو قوموں کی باہمی محبت کو فروغ دینے میں ایک بہت اچھا کردار ادا کرتی رہی آج کے دور میں آزادی اور تفریح کے نام پراسے پسِ پشت ڈالا جا رہا ہے۔ بانیانِ مذاہب کو بھی استہزاء کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اگرچہ ایسی حرکتوں کی وجہ سے ان کے پیروکاروں کے دل ہی کیوں نہ دکھتے ہوں۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ قرآن کریم تو یہ بھی تعلیم دیتا ہے کہ مسلمانوں کو بتوں کو بھی برا بھلا نہیں کہنا چاہیے تا کہ جواب میں بت پرست لوگ خدا تعالیٰ کو بُرا نہ کہیں اور اس سے معاشرے کے امن و امان میں خلل واقع ہو۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ نبی اکرمﷺ نے معاشرے کے کمزوروں اور ضرورت مند لوگوں کے حقوق کے قیام کے لیے بہت سے اقدامات فرمائے۔ یہ سب اس لیے کیا تا کہ ان کا معیارِ زندگی بلند ہو اور ان کی عزّتِ نفس کا خیال رکھا جا سکے۔ چنانچہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ایک امیر آدمی جو صرف اپنی ذات میں ہی محو رہتا ہے مقام میں اس غریب آدمی سے چھوٹا ہے جو دوسروں کی خدمت کرتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ معاشرے کے کم زور طبقے کو معاشرے کا صحت مند حصہ بنانے کے لیے نبی اکرمﷺ کس طرح چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھتے تھے۔ آپؐ نے تلقین فرمائی کہ دعوتوں میں مسلمانوں کو اپنے معاشی لحاظ سے کمزور بھائیوں کو بلانا چاہیے۔ نیز یہ کہ اگر کسی غریب کو انصاف کی ضرورت ہو تو معاشرے کو انصاف کے حصول میں اپنے بھائی کی مدد کرنی چاہیے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ نبی اکرمﷺ نے معاشرے سے غلامی کو ختم کرنے پر بہت زور دیا۔ آپؐ نے فرمایا کہ اگر مسلمان فوری طور پر اپنے غلاموں کو آزاد نہیں کر سکتے تو ان کو وہی کھلائیں جو وہ خود کھاتے ہیں اور وہی پہنائیں جو وہ خود پہنتےہیں۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ آج یہ کہا جاتا ہے کہ اسلام عورتوں کے حقوق غصب کرتا ہے۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ اس بات میں کوئی سچائی نہیں۔ اسلام تو وہ مذہب ہے جس نے پہلی مرتبہ عورتوں اور بچیوں کے حقوق کو تسلیم کیا۔ اسلام سے قبل عورتوں کے حقوق مارے جاتے تھے اور ان کو حقارت کی نظرسے دیکھا جاتا تھا۔ نبی اکرمﷺ نے نہ صرف صنفِ نازک کے وقارکو قائم فرمایا بلکہ ان کو وراثت میں حصہ دار بھی ٹھہرایا۔ آپؐ نے فرمایا کہ اگر کسی کی تین بیٹیاں ہوں اور وہ ان کی اچھی تعلیم و تربیت کرے تو وہ جنت کا وارث ٹھہر جائے گا۔ آج کا جہادی بھلے یہ کہے کہ کسی ‘کافر’ کو مار کر جنت حاصل کی جا سکتی ہے، نبی اکرمﷺ نے تو جنت کے حصول کا ایک ذریعہ بچیوں کی تعلیم و تربیت بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ پوری دنیا میں احمدی بچیاں اعلیٰ تعلیم کا حصول کرتی ہیں اور ڈاکٹرز، ٹیچرز، آرکیٹکٹ وغیرہ بن کر نہ صرف اعلیٰ تعلیم حاصل کرتی ہیں بلکہ انسانیت کی خدمت میں بھی پیش پیش ہیں۔ احمدی اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ اگر ایک طرف لڑکوں کو تعلیم دلوانی چاہیے تو دوسری جانب لڑکیوں کو پڑھانا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ حضورِ انو رنے فرمایا کہ اسی لیے احمدی بچیوں کی شرح خواندگی بہت زیادہ ہے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ اسلام نے عورت کو وراثت کے حقوق دیے، طلاق کے حقوق دیے اور بہت سے حقوق عورت کے لیے یقینی بنائے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ اسلام ہمسایوں کے حقوق پر بھی بہت زور دیتا ہے۔ اس بارے میں بانیٔ اسلامﷺ نے فرمایا کہ ایک مرتبہ جبرائیل نے ہمسایوں کے حقوق پر اتنا زور دیا کہ مجھے لگا کہ وہ اسے وراثت میں بھی حصہ دار ٹھہرا دے گا۔ حضورِ انور نے فرمایا یہاں ہمسائے سے مراد صرف مسلمان ہمسایہ نہیں بلکہ کسی بھی مذہب، رنگ یا نسل سے تعلق رکھنے والا انسان ہے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ بانیٔ اسلامﷺ نے حصولِ علم پر بہت زور دیا۔ چنانچہ کفارِ مکہ کے ساتھ ہونے والی پہلی جنگ کے بعد جو بے سرو سامانی کے باوجود مسلمان جیت گئے تھے جو جنگی قیدی مدینہ میں آئے ان کی آزادی کے فدیہ کے طور پر ایک شرط یہ بھی رکھی گئی کہ ایسے قیدی جو پڑھنا لکھنا جانتے ہیں اگر وہ مسلمانوں کو پڑھنا لکھنا سکھا دیں تو انہیں آزاد کر دیا جائے گا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اس طرح ریاستِ مدینہ کے سربراہ بانیٔ اسلامﷺ نے قیدیوں کو بھی معاشرے کا صحت مند حصہ بنانے کے اقدامات فرمائے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ اسلام پر یہ الزام بھی عائد کیا جاتا ہے کہ یہ مفسِد اور جنگ جُو مذہب ہے۔ مسلمانوں کو جنگ کرنے کی اجازت دی گئی لیکن اپنے دفاع کے لیے۔ اور سچ یہ ہے کہ اس دفاعی جنگ کی اجازت بھی اس لیے دی گئی کیونکہ اس سے مذہبی آزادی اور آزادیٔ ضمیر و اظہارِ رائے کا قیام عمل میں لانا مقصود تھا۔ اگر مسلمان کفار مکہ کی فوج کی طرف سے کیے جانے والے حملے کا دفاع نہ کرتے تو کوئی کلیسا، کوئی یہودی معبد اور کوئی عبادت گاہ محفوظ نہ رہتی کیونکہ مکہ والے مذہب کی تمام قسموں کو ختم کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ اسلامی دفاعی جنگوں کا بنیادی مقصد انسانیت کی حفاظت اور مذہب کے تقدّس کا قیام تھا۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ اگر آج کے مسلمان شدّت پسندی یا فساد پر مبنی کارروائیاں کرتے دکھائی دیتے ہیں تو یہ اس وجہ سے ہے کہ یا تو وہ اسلام کی تعلیمات کو پسِ پشت ڈال چکے ہیں اور یا پھر انہیں سرے سے اسلام کی حقیقی تعلیمات کا ادراک ہی نہیں۔ پھر ان جنگوں کا مقصد مذہبی نہیں بلکہ اپنے ملک، اپنی قوم یا اپنے ذاتی مفادات کی حفاظت یا مزید طاقت اور وسائل کا حصول ہے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ اسلام ہر قسم کی جارحیت کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ بانیٔ اسلام نبی اکرمﷺ اور خلفائے راشدین نے کبھی بھی جنگ کی خواہش نہیں کی۔ بلکہ انہوں نے ہمیشہ امن کے قیام کی ہر ممکنہ کوشش کی۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ بعض اَور ناقدین کہتے ہیں کہ اسلام ایک فرسودہ اور پرانا مذہب ہے جو کہ جدید دور کے تقاضوں کے مطابق علمی اور دانش ورانہ ترقی کا قائل نہیں۔ حضورِ انو رنے فرمایا کہ یہ ایک ‘پیشہ وارانہ’اور بے بنیاد اعتراض ہے۔ قرآن کریم از خود تعلیم کے حصول کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ چنانچہ مسلمانوں کو یہ دعا سکھاتا ہے کہ رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا (طٰہٰ:115)۔ کہ اے میرے ربّ! میرے علم میں اضافہ فرما۔ جہاں یہ دعا مسلمانوں کو حصولِ علم میں مدد دیتی ہے وہاں عمومی طور پر علم کے فروغ کو بھی اہمیت دیتی دکھائی دیتی ہے۔ اور لوگوں کی حصولِ علم کے لیے حوصلہ افزائی فرماتی ہے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ اگر ہم تاریخِ اسلام کی ورق گردانی کریں تو ہمیں بہت سے مسلمان دانش ور، موجِد، فلسفی، سائنسدان، ریاضی دان وغیرہ نظر آئیں گے۔ ان لوگوں نے ازمنۂ وسطیٰ میں سائنس اور دیگر علوم کی اس قدر خدمت کی کہ آج کی جدید ترقیات ان کے بغیر ممکن نہ تھیں۔

حضورِ انور نے مختلف مسلمان موجِدوں کی مثالیں دیتے ہوئے فرمایا کہ کیمرے کی ایجاد ابن الہیثم نے کی جسے یونیسکو کے ادارے نے Pioneer of Optics قرار دیا۔ (حضورِ انور نے فرمایا کہ کیمرے کا لفظ ہی عربی کے مادے کَمَرَسے مشتق ہے۔) حضورِ انور نے فرمایا کہ بارہویں صدی میں ایک مسلمان نے دنیا کا معیّن نقشہ بنایا جس سے صدیوں تک لوگ فائدہ اٹھاتے رہے۔ پھر طِب کے میدان کو لیں تو مسلمان اطباء نے بہت سی ایسی دریافتیں کیں جن سے دنیا آج بھی فائدہ اٹھا رہی ہے۔ سترہویں صدی میں ایک انگریز ڈاکٹر ولیم ہاروے نے دورانِ خون اور انسانی دل کے کاموں پر ایک انقلاب انگیز تحقیق پیش کی۔ لیکن پھر معلوم ہوا کہ اس عنوان پر چار سو سال قبل ابن نفیس جیسے مسلمان طبیب سیر حاصل بحث سپردِ قلم کر چکے ہیں۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ اسی طرح جابر بن حیان نے کیمسٹری کی فیلڈ میں ایسے طریقے ایجاد کیے جو آج بھی زیرِ استعمال ہیں۔ پھرالجبرا کے موجد بھی مسلمان ریاضی دان تھے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ آج کمپیوٹر کی بنیاد Algorithms پر ہے۔ اس پر بھی بنیادی کام مسلمان ریاضی دانوں نے ہی کیا۔

اسی طرح فلکیات کے علوم کی ترقی میں بھی مسلمان ماہرین کی خدمات سرِ فہرست ہیں۔ نیزEthics، ریاضی، فلسفہ اور دیگر علوم کے بہت سے ماہرین مسلمان تھے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ اسی طرح ازمنہ وسطیٰ میں سائنسی علوم سیکھنے کی زبان عربی تھی۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ ان سب باتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام ایک آدمی کے علم میں اضافے اور معاشرے میں تعلیم کے فروغ پر کس قدر زور دیتا ہے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ 1889ء میں قیامِ جماعت احمدیہ سے لے کر اب تک جماعت احمدیہ مسلمہ بھی علم کے فروغ کی کوشش کر رہی ہے۔ چنانچہ پہلے نوبیل انعام یافتہ مسلمان سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام، احمدی تھے جنہوں نے 1979ء میں فزکس کا نوبیل انعام وصول کیا۔ پروفیسر عبدالسلام نے ساری زندگی اس بات کی وکالت کی کہ اسلام اور قرآنِ کریم ان کی تمام سائنسی تحقیقات کا رہ نما ہے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ قرآن کریم میں ساڑھے سات سو آیات ایسی ہیں جو سائنس، قدرت اور کائنات کے رازوں سے پردہ اٹھاتی ہیں۔
پھر جماعتِ احمدیہ کے تیسرے خلیفہؒ نے تعلیم کے فروغ کے لیے تعلیمی میدانوں میں اعزاز حاصل کرنے والے احمدی طلبہ و طالبات کو جماعت کی طرف سے گولڈ میڈل دینے کا سلسلہ شروع فرمایا۔ چنانچہ ہر سال سینکڑوں احمدی طلباء و طالبات کو دنیا بھر میں ان کی تعلیمی کامیابیوں کے اعتراف میں گولڈ میڈلز دیے جاتے ہیں۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ نبی اکرمﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ یتیموں کی تعلیم کا خیال رکھا جائے اور اس کے لیے لوگوں کو خرچ کرنا چاہیے۔ نبی اکرمﷺ کے ان ارشادات کی روشنی میں ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ روحانی ترقی صرف عبادات اور دعا سے ممکن نہیں بلکہ اس کے حصول کے لیے انسانیت کی خدمت کرنا بھی ضروری ہے۔

قرآنِ کریم مسلمانوں کو ترغیب دیتا ہے کہ وہ دنیا سے بھوک اور افلاس کو ختم کرنے کے لیے مؤثر کردار ادا کریں۔ غریب اور کمزور طلباء کی مدد سے معاشرے میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ جماعت احمدیہ بانیٔ اسلامﷺ کے بیان فرمودہ ان تمام رہ نما اصولوں پرعمل کرتی ہے۔ ہم یقین رکھتے ہیں کہ اسلام کی بنیاد محبت اوررحم دلی پر ہے۔ اس لیے ہم انسانیت کی ہر ممکنہ خدمت کرتے ہیں بغیر اس بات کو دیکھے کہ انسان کا مذہب کیا ہے۔ جماعتِ احمدیہ نے خالصتاً دکھی انسانیت کی خدمت کے لیے افریقہ میں سکولز اور ہسپتال کھولے ہیں۔ ہم افریقہ کے دور دراز علاقوں میں بسنے والے غریب لوگوں کو صاف ستھرا پانی مہیا کر رہے ہیں تا کہ وہاں رہنے والے بچے روزانہ کئی میل کا سفر کر کے اپنے گھروں میں پانی مہیا کرنے کی بجائے سکول جائیں اور زیورِ تعلیم سے آراستہ ہو کر معاشرے کا صحت مند حصہ بنیں۔ ہم افریقہ میں ماڈل ولیجز بنا رہے ہیں جس میں کمیونٹی ہال، شمسی توانائی سے حاصل کی جانے والی بجلی، پانی اور دیگر ضروریاتِ زندگی کی فراہمی یقینی بنائی گئی ہے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ ہم اپنی مذہبی تعلیمات کو پورا کرتے ہوئے ان مقامی غریب لوگوں کو بغیر کسی مذہبی تفریق کے ضروریاتِ زندگی مہیا کر رہے ہیں کیونکہ یہ کام غربت کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا میں قیامِ امن کے لیے بہت ضروری ہے۔ جب لوگوں کو خوراک،صاف پانی، شیلٹر، سکول، نظامِ صحت اور دیگر سہولیات مہیا ہوں گی تو وہ پھر امن کے ساتھ رہ سکیں گے اور شدید مایوسی اور انتقامی جذبات سے اپنے آپ کو بچا پائیں گے۔ اور یہی وہ چیزیں ہیں جو ایک انسان کو شدّت پسندی کی طرف مائل کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں۔ اور یہ تمام ان لوگوں کے بنیادی حقوق ہیں جنہیں پورا کرنے کی طرف ہم سب کو توجہ کرنی چاہیے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ آخر پر میں دل سے دعا کرتا ہوں کہ انسان وسائل اور طاقت کے حصول کے لالچ اور ذاتی مفادات کی دوڑ سے کنارہ کشی اختیار کر لے اور دنیا سے غربت اور تکلیف دور کرنے کے لیے دکھی انسانیت کی خدمت میں لگ جائے۔ ان الفاظ کے ساتھ میں آپ سب کا ایک مرتبہ پھریہاں تشریف لانے پر شکریہ ادا کرتا ہوں ۔

حضورِ انور کا خطاب شام سات بج کر 19 منٹ پرختم ہوا۔ سامعین نے بڑی دیر تک تالیاں بجا کرخطاب پر اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا۔ اس کے بعد حضورِ انور کرسیٔ صدارت پر تشریف فرما ہوئے اور دعا کروا کر اس محفل کا اختتام فرمایا۔ محفل میں موجود تمام لوگوں نے اپنے اپنے طریق کے مطابق اس دعا میں شرکت کی۔

پروگرام کے بعداس تقریب میں تشریف لانے والے معزز مہمانوں کو حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ شرفِ ملاقات حاصل ہوا۔ اس دوران مختلف تصاویر بھی ہوئیں اورحضور انور نے مہمانوں کو World Crisis and the Pathway to Peaceکا فرنچ ترجمہ نیز رسالہ Review of Religions کا فرنچ ایڈیشن تحفۃً دیا۔ مقامی وقت کےمطابق شام پونے آٹھ بجے کے قریب حضور انور کاقافلہ مسجدمبارک (Saint-Prix)کی طرف واپس روانہ ہو گیا۔

(رپورٹ: عرفان احمد خان، نمائندہ الفضل انٹرنیشنل برائے دورۂ یورپ ستمبر، اکتوبر 2019ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button