الفضل ڈائجسٹ
اس مضمون کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
حضرت شیخ احمد فرقانی شہیدعراق
ماہنامہ ‘‘خالد’’ ربوہ مئی 2011ء میں مکرم عمار احمد پراچہ صاحب کے قلم سے حضرت شیخ احمد فرقانی صاحب کا ذکرخیر (تاریخ احمدیت سے منقول) شامل اشاعت ہے۔
ایک عرب مخلص نوجوان الحاج عبداللہ صاحب نے حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی خدمت میں 16جنوری 1935ء کو بذریعہ خط اطلاع دی کہ عراق کے ایک نہایت مخلص احمدی حضرت شیخ احمد فرقانی صاحب کو شہید کردیا گیا ہے۔ آپ دس سال سے احمدیت کی خاطر مخالفین کے ظلم و ستم برداشت کرتے چلے آرہے تھے اور آپ کا بائیکاٹ بھی کیا گیا تھا۔ آپ بغداد سے قریباً دو سو میل دُور لواء کرکوک گاؤں میں رہتے تھے۔جب حضورؓ بغداد تشریف لے گئے تھے تو فرقانی صاحب کئی ہفتے آپؓ کے پاس آکر رہے تھے۔ حضورؓ نے شہید مرحوم کا ذکرخیر کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بے حد محبت اور اخلاص رکھتے تھے۔ حضورؑ کے فارسی و عربی اشعار سن کر وجد میں آجاتے اور زاروقطار رونے لگتے۔
شہید مرحوم نے ‘‘مَصَائبُ الْاَنْبِیاءِ وَالْاَبْرَارِ علیٰ اَیدِی السَّفلۃِ وَالْاَشْرَارِ’’کے نام سے ایک کتاب تصنیف کی تھی جو شائع نہیں ہوسکی۔
………٭………٭………٭………
ایک احمدی خاتون کا کردار
ماہنامہ ‘‘مصباح’’ مارچ 2011ء میں ایک تربیتی مضمون شامل اشاعت ہے جس میں ایک احمدی خاتون کے کردار کو پیش نظر رکھتے ہوئے حضرت امّاں جانؓ کی سیرت کے چند پہلو بیان کیے گئے ہیں۔
قرآن کریم میں عورت کے فرائض کے حوالے سے ارشاد ہوتا ہے: ‘‘نیک عورتیں فرمانبردار ہوتی ہیں اور غیب میں بھی اُن چیزوں کی حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں جن کی حفاظت کی اللہ نے تاکید کی ہے۔’’ (سورۃالنساء:35)
یہ بہت وسیع مضمون ہے۔ دراصل جن چیزوں کی حفاظت کی جاتی ہے اُن میں عزت، اولاد اور مال کے علاوہ وہ نصائح بھی شامل ہیں جو اُس کے والدین، بزرگ اور خاوند نے کی ہوتی ہیں اور جن سے گھر جنت بنتا ہے۔ وہ اپنے خاندان کے لیے بھی گھر کو جنت بناتی ہیں اور خود بھی جنت کی وارث ٹھہرتی ہیں۔ آنحضورﷺ نے فرمایا ہے کہ جو عورت اس حالت میں فوت ہوئی کہ اُس کا خاوند اُس سے خوش اور راضی ہے تو وہ جنت میں جائے گی۔ اسی طرح آنحضورﷺ نے عورتوں کو خاص طور پر غیبت اور احسان فراموشی پر انذار فرمایا ہے کیونکہ ان گناہوں کی وجہ سے جہنم میں عورتیں زیادہ ہوں گی۔
حضرت امّاں جانؓ کی مثال اس زمانہ میں ہمارے سامنے ہے۔ آپؓ کی بے شمار خوبیاں سیرت کے مختلف پہلوؤں میں پوشیدہ تھیں۔ حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب کی اہلیہ نے آپؓ کے بارہ میں لکھا کہ 1917ء کے جلسہ میں مَیں سیٹھ صاحب کے ہمراہ قادیان گئی۔ میری بچی گود میں تھی۔ حضرت امّاں جانؓ سے ملاقات ہوئی تو آپؓ نےنہایت شفقت سے اپنے گھر کا ایک کمرہ خالی کرادیا۔ وہاں قیام کے دوران میری بچی کی آیا بیمار ہوئی تو آپؓ نے معلوم ہوتے ہی دو لڑکیوں کو کام کے لئے بھجوا دیا۔ ہر طرح میرا خیال رکھا اور دل داری کرتی رہیں۔
حضرت سیٹھ عبداللہ صاحب کی بیٹی مکرمہ ہاجرہ بیگم صاحبہ لکھتی ہیں کہ 1924ء کے جلسہ سالانہ پر مَیں اپنے والدین کے ہمراہ قادیان گئی تو ہم امّاں جانؓ کے مہمان ہوئے۔ ہزارہا عورتیں آپؓ کی زیارت کے لئے آتیں۔ آپؓ کی طبیعت بھی ناساز تھی۔ مگر اس کے باوجود ہمارا پورا پورا خیال رکھتی تھیں۔ میری والدہ بیمار ہوگئیں تو اُن کے لئے دوا کا انتظام فرمایا، بار بار اُن کی صحت کا پوچھتیں اور کھانے کے وقت ہمیں بلا بھیجتیں۔ مجھے پیاری بٹیا کہہ کر بُلاتیں۔ اپنے ہاتھوں سے کھانا ڈال کر دیتیں۔ خود بہت ہی کم خوراک تناول فرماتیں۔ سفر میں ہمارا سامان دہلی کے سٹیشن پر رہ گیا تھا اس لیے ہم کو بڑی تکلیف تھی۔ کپڑے میلے ہوگئے تھے اور مَیں شرم سے ہر وقت بُرقع پہنے رہتی۔ آپؓ نے وجہ دریافت فرمائی اور حالات معلوم کرکے بہت رنج ہوا اور سامان ملنے کے لئے دعا کرنے لگیں۔ دو دن بعد سامان آگیا تو ہم نے کپڑے بدلے۔ آپؓ نے ہمیں مبارک باد دی اور کہا کہ مَیں اپنی پیاری بیٹی کے لیے اُٹھتی بیٹھتی دعا کرتی تھی۔ پھر جلسے کے دوسرے دن آپؓ کے سر میں درد تھا۔ ہم پاس بیٹھی تھیں کہ خادمہ نے اطلاع دی کہ صحن میں بہت سی عورتیں زیارت کے لیے آئی ہیں۔ آپؓ اُسی وقت باہر تشریف لے گئیں۔ ہر ایک کو شرفِ مصافحہ بخشا اور اُن کی حالت دریافت کی۔ ہماری واپسی کے وقت ہمارے لیے اپنے ہاتھ سے توشہ تیار کرکے دیا، ہمارے سامان کی گنتی فرمائی اور اپنی دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا۔
………٭………٭………٭………
عظیم یونانی فلاسفر افلاطون (Plato)
ماہنامہ ‘‘تشحیذالاذہان’’ ربوہ مارچ 2011ء میں دنیا کے عظیم فلاسفر اور مفکّر افلاطون کے بارے میں ایک مختصر معلوماتی مضمون شامل اشاعت ہے۔
افلاطون کی پیدائش 429 تا 423 قبل مسیح کے دوران یونان کے شہر ایتھنز (Athens) میں ہوئی۔ اس کے والد Ariston کا تعلق ایتھنز کے بادشاہ Codrus کی نسل سے تھااور اس کی والدہ Perictone ایتھنز کے مشہور قانون ساز Solon کی نسل سے تھی۔ افلاطون اپنے بچپن میں ہی والدہ کے سایہ سے محروم ہوگیا لیکن ایک معزز خاندان کے فرد کی طرح مروّجہ علوم ادبیات، موسیقی اور ریاضی کی تعلیم حاصل کی۔ وہ شاعر بھی تھا۔ بیس سال کی عمر میں اُس نے معروف مفکّر سقراط کی شاگردی اختیار کی اور قریباً آٹھ سال اُس کے زیرتعلیم رہا۔
حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے کتاب “Revelation, Rationality, Knowledge & Truth” میں فرمایا ہے کہ یہ ناممکن ہے کہ یونانی فلسفہ کی بات کرتے ہوئے افلاطون اور ارسطو کا ذکر نہ آئے۔ درحقیقت افلاطون اور ارسطو نے ایک لازوال طرزفکر کی بنیاد رکھی لیکن ان دونوں کی عظمت اپنے قابل احترام استاد سقراط کی مرہونِ منّت ہے۔
سقراط کی وفات کے بعد افلاطون نے مختلف مقامات (قبرص، مصر، اٹلی اور سسلی) کے سفر کیے۔ میگارا کے مقام پر حکیم اقلیدس کی شاگردی بھی اختیار کی۔ اس سفر کے دوران وہ ایک مرتبہ گرفتار بھی ہوا اور اُسے غلام بناکر بیچ ڈالا گیا لیکن بعد میں دوستوں نے پیسے ادا کرکے آزاد کروایا۔ قریباً چالیس سال کی عمر میں وہ واپس ایتھنز آگیا اور وہاں ‘‘اکیڈمی’’ کے نام سے ایک ادارہ جاری کیا جہاں اخلاقیات، سیاست اور مابعدالطبیعیات (Metaphysics) کی تعلیم دی جاتی تھی۔
اسّی سال کی عمر میں افلاطون اپنے کسی عزیز کی شادی کی تقریب میں شامل تھا کہ وہیں اُس کا انتقال ہوگیا۔
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: ‘‘ذکر کرتے ہیں کہ افلاطون کو علم فراست میں بہت دخل تھا اور اس نے دروازہ پر ایک دربان مقرر کیا ہوا تھا جسے حکم تھا کہ جب کوئی شخص ملاقات کو آوے تو اوّل اس کا حلیہ بیان کرو۔ اس حلیہ کے ذریعہ وہ اس کے اخلاق کا حال معلوم کرکے پھر اگر قابل ملاقات سمجھتا تو ملاقات کرتا ورنہ ردّ کردیتا۔ ایک دفعہ ایک شخص اس کی ملاقات کو آیا۔ دربان نے اطلاع دی۔ اس کے نقوش کا حال سن کر افلاطون نے ملاقات سے انکار کردیا۔ اس پر اس شخص نے کہلا بھیجا کہ افلاطون سے کہہ دو کہ جو کچھ تم نے سمجھا ہے بالکل درست ہے مگر مَیں نے قوّت مجاہدہ سے اپنے اخلاق کی اصلاح کرلی ہے۔ اس پر افلاطون نے ملاقات کی اجازت دے دی۔ پس خُلق ایسی شَے ہے جس میں تبدیلی ہوسکتی ہے۔ اگر تبدیلی نہ ہوسکتی تو یہ ظلم تھا۔ لیکن دعا اور عمل سے کام لوگے تب اس تبدیلی پر قادر ہوسکوگے۔’’
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ100)
………٭………٭………٭………
مملکت یونان اور جزیرہ سسلی (Sicily)
ماہنامہ ‘‘خالد’’ مارچ 2011ء میں جمہوریہ یونان کے بارے میں ایک معلوماتی مضمون شائع ہوا ہے۔
یونان کا سرکاری نام Hellenic Republic ہے۔ ملک کے کُل رقبہ کا قریباً 80 فیصد پہاڑوں پر مشتمل ہے۔ کچھ سمندر ہے جبکہ خشک حصہ کا 20 فیصد قریباً دو ہزار جزائر پر مشتمل ہے جن میں سے صرف 170 جزائر آباد ہیں۔
یونان کو مغربی تہذیب کی جائے پیدائش بھی کہا جاتا ہے۔ اگرچہ دنیا کے کسی بڑے حصے پر یونان کا عرصۂ حکومت کچھ زیادہ نہیں لیکن یہ ملک اپنے علم، سائنس اور فلسفے کی بھرپور تاریخ کی وجہ سے دنیابھر میں معروف ہے۔ یونان ہی نے سقراط، بقراط، ہومر، ارسطو، افلاطون، زینوفون، ایپی کیورس، فیثاغورث، اقلیدس، ڈیماستھنیز اور جالینوس جیسے علم دوست پیدا کیے۔
یونان کا سیاسی عروج پانچویں صدی میں ایتھنز کی ریاست سے شروع ہوا اور فلپ ثانی کے دَور میں آزاد ریاست کے طور پر یونان کے سنہری دَور کا آغاز ہوا۔ پھر اُس کے بیٹے سکندراعظم نے معلوم دنیا کا اکثر حصہ فتح کرکے یونان کی شہرت کو چار چاند لگادیے۔ سکندراعظم کا انتقال 323 قبل مسیح میں مصر میں ہوا۔ اُس کے بعد اُس کے جرنیلوں نے اپنی اپنی تین سلطنتیں بنالیں۔ لیکن جلد ہی یونان رومیوں کے زیراثر آگیا اور بعد میں عثمانی ترکوں نے اس پر قبضہ کرلیا۔ 1830ء میں یونان کو آزاد ملک کا درجہ دے دیا گیا۔
……………………………………………………
ماہنامہ ‘‘خالد’’ ربوہ مئی 2011ء میں بحیرۂ روم کے سب سے بڑے جزیرے ‘‘سسلی’’ کے بارہ میں معلومات (بقلم مکرم راشد احمد بلوچ صاحب) شامل اشاعت ہیں۔
جزیرہ سسلی کی تاریخ بہت قدیم ہے اور یہ حضرت مسیحؑ سے بھی صدیوں پہلے سے آباد ہے۔ مختلف ادوار میں یونانیوں، رومیوں اور بازنطینیوں نے یہاں حکومتیں کیں۔ قریباً دو سال عرب بھی حکمران رہے۔ چنانچہ یہاں کے باشندے یونانی، اطالوی اور عرب مخلوط نسل کے ہیں۔
سسلی کا دارالحکومت پلرمو (Palermo) ہے۔
………٭………٭………٭………
ماہنامہ ‘‘خالد’’ ربوہ جنوری 2011ء میں مکرم بابر عطا صاحب کی ایک غزل شامل اشاعت ہے۔ اس میں سے انتخاب پیش ہے:
کیسا خوف و ہراس ہے لوگو
شہر کیوں بدحواس ہے لوگو
یہ زمیں کب سے پی رہی ہے لہو
کیا عجب اس کی پیاس ہے لوگو
اک دلِ درد مند رکھتا ہوں
اور کیا میرے پاس ہے لوگو
سارے رشتے وہ پَل میں توڑ گیا
پھر بھی ملنے کی آس ہے لوگو
ماہنامہ ‘‘مصباح’’ ربوہ مارچ 2011ء میں شہدائے لاہور کے حوالے سے شائع ہونے والی ایک نظم میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے:
خون میں جو نہا کے آئے ہیں
کیسا درجہ کما کے آئے ہیں
معتبر ہے ہر ایک زخم کہ یہ
راہِ مولیٰ میں کھا کے آئے ہیں
یہ پرندے خدا کی جنت میں
آشیانہ بناکے آئے ہیں
ہم نے آنکھیں سنبھال لیں لیکن
اشک دل پہ گِرا کے آئے ہیں
اب تو مولیٰ کوئی کرو مرہم
درد حد سے بڑھا کے آئے ہیں
میرے جانباز باپ بھائی قدیرؔ
یہ زمانہ ہلا کے آئے ہیں