یقیناً جانو کہ خدا تعالیٰ بغیر مؤاخذہ اسے ہر گز ہر گز نہ چھوڑے گا……
اس اقتباس کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:
میں دیکھتا ہوں کہ صدہا لوگ ایسے بھی ہماری جماعت میں داخل ہیں جن کے بدن پر مشکل سے لباس بھی ہوتا ہے۔ مشکل سے چادر یا پاجامہ بھی ان کو میسر آتا ہے۔ ان کی کوئی جائیداد نہیں مگر ان کے لا انتہاء اخلاص اور ارادت سے محبت اور وفا سے طبیعت میں ایک حیرانی اور تعجب پیدا ہوتا ہے جو اُن سے وقتاً فوقتاً صادر ہوتی رہتی ہے یا جس کے آثار اُن کے چہروں سے عیاں ہوتے ہیں وہ اپنے ایمان کے ایسے پکے اور یقین کے ایسے سچّے اور صدق و ثبات کے ایسے مخلص اور باوفا ہوتے ہیں کہ اگر ان مال و دولت کے بندوں، ان دنیوی لذّات کے دلدادوں کو اس لذّت کا علم ہو جائے تو اس کے بدلے میں یہ سب کچھ دینے کو تیار ہو جاویں۔ان میں سے مثال کے طور پر ایک شخص شاہزادہ مولوی عبد اللطیف صاحب مرحوم ہی کے حالات کو غور سے دیکھ لو کہ کیسا صدق کا پکّا اور وفا کا سچا تھا۔ جان تک سے دریغ نہیں کیا۔ جان دے دی مگر حق کو نہیں چھوڑا۔ ان کی جب مخبری کی گئی اور ان کو امیر کے روبرو پیش کیا گیا تو امیر نے ان سے یہی پوچھا کہ کیا تم نے ایسے شخص کی بیعت کی ہے؟ تو اُس نے چونکہ وہ ایک راستباز انسان تھا صاف کہا کہ ‘‘ہاں میں نے بیعت کی ہے مگر نہ تقلیداً اندھا دھند بلکہ علیٰ وجہ البصیرۃ اس کی اتباع اختیار کی ہے۔ میں نے دنیا بھر میں اس کی مانند کوئی شخص نہیں دیکھا۔ مجھے اس سے الگ ہونے سے اس کی راہ میں جان دے دینا بہتر ہے۔’’
غرض مرحوم اس بات کا ایک نمونہ چھوڑ گئے ہیں کہ ہمارے تعلق رکھنے والے کیسے صادق الایمان اور صادق الاعتقاد ہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ مشکلات صرف یہی ہیں کہ لوگوں کو امورِ دینی میں تدبر کرنا اور خدا سے ڈر کر کسی معاملہ میں غور کرنا اور حق و باطل میں امتیاز چاہنا اور یہ تڑپ رکھنا کہ آیا یہ سلسلہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے یا نہیں اس طرف توجہ ہی نہیں۔ مگر یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کا یہ فعل عبث نہیں بلکہ اُس نے حق و حکمت سے سلسلہ قائم کیا ہے اور ضرورت حقّہ کے وقت اس کو کھڑا کیا ہے۔ پس وہ منکروں سے ضرور مطالبہ کرے گا ما ارسل اللّٰہ رسولا الا اخزیٰ بہ قومًا لا یومنون۔
یاد رکھو کہ دنیا میں ایسا کوئی بھی نبی یا رسول نہیں گذرا جس کے منکروں کو خدا تعالیٰ نے ذلّت اور رسوائی کا عذاب نہ دیا ہو۔ یہ ضروری اور لازمی ہوتا ہے کہ رسول کی حجت پوری کر دینے کے بعد منکر قوم کو حق و باطل میں امتیاز پیدا کرنےکےواسطے عذاب دیا جاوے۔
خدا تعالیٰ کے نزدیک دو بڑے ہی سخت گناہ ہیں۔ اوّل افتراء اور تَقَوُّل علی اللّٰہ۔ یعنی یہ کہ کوئی شخص دعویٰ کرے کہ خدا تعالیٰ مجھ سے ہمکلام ہوتا ہے یا وحی یا الہام کرتا ہے حالانکہ اسے نہ کوئی وحی ہوتی ہے اور نہ الہام اور نہ خدا اس سے کبھی ہمکلام ہوا حتٰی کہ جھوٹی خواب کا بنا لینا بھی اسی میں داخل ہے۔ غرض ایک تو یہ امر کہ خدا پر افتراء کرنا حالانکہ خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ وہ کاذب ہے۔ دوسرے وہ شخص خدا تعالیٰ کے بڑے سخت غضب اور عقاب کا مورد ہو گا جو ایک صادق اور خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والے کا انکار کرتا ہے۔
بہر حال ہمارا مطلب یہ ہے کہ یہ بات ہمیشہ سے چلی آئی ہے اور اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے عملی طور پر ایک سلسلہ نبوت قائم کرکے دکھا دیا ہے۔ اس سے اس قدر فائدہ تو اُٹھانا چاہیے کہ جہاں اور اپنے دنیوی کاروبار کے واسطے اتنی سرگردانی اور محنت اور کوشش کرتے ہو اس بات کی بھی کچھ تحقیقات تو کرو کہ آیا جو اپنے کاروبار کو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرتا ہے اور اتنا بڑا دعویٰ پیش کرتا ہے اتنا تو معلوم کر لیں کہ یہ صادق ہے یا کاذب۔
پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو شخص میرے رسول کی نافرمانی کرے گا میں اس کو نہیں چھوڑوں گا جب تک اُس سے اس انکار کا مطالبہ نہ کر لوں۔ معمولی حکام اور گورنمنٹ بھی اپنے احکام کی تحقیر کرنے والوں اور باغیوں کو بغیر سزا نہیں چھوڑتی تو پھر وہ جو خدا ہے اور احکم الحاکمین ہے ذرّہ ذرّہ اسی کے قبضۂ قدرت میں ہے تو پھر اس کے مرسل کی نافرمانی اور اس کے احکام کی ہتک کرنے والا کس طرح امن میں رہ سکتا ہے۔
اگر میرے ساتھ خدا تعالیٰ کا کوئی نشان نہ ہوتا اور نہ اس کی تائید اور نصرت میرے شامل حال ہوتی اور میں نے قرآن سے الگ کوئی راہ نکالی ہوتی یا قرآنی احکام اور شریعت میں کچھ دخل و تصرف کیا ہوتا یا منسوخ کیا ہوتا یا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی کے باہر کوئی اور نئی راہ بتائی ہوتی تو البتہ حق تھا اور لوگوں کا عذر معقول اور قابل قبول ہوتا کہ واقعہ میں یہ شخص خدا اور خدا کے رسول کا دشمن اور قرآن شریف اور تعلیم قرآن کا منکر اور منسوخ کرنے والا ہے۔ فاسق ہے۔ فاجر ہے۔مرتد ہے۔ مگر جب میں نے نہ قرآن میں کوئی تغیر کیا اور نہ پہلی شریعت کا جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم لائے تھے ایک شوشہ اور نقطہ میں نے بدلا بلکہ میں قرآن اور احکام قرآنی کی خدمت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے پاک مذہب کی خدمت کے واسطے کمربستہ ہوں اور جان تک میں نے اپنی اسی راہ میں لگا دی ہے۔ اور میرا یقین کامل ہے کہ قرآن کے سوا جو کامل اکمل اور مکمل کتاب ہے اور اس کی پوری اطاعت اور بغیر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی کے نجات ممکن ہی نہیں اور قرآن میں کمی بیشی کرنے والے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت کا جؤا اپنی گردن سے اتارنے والے کو کافر اور مرتد یقین کرتا ہوں تو پھر اس صورت میں اور باوجود میری صداقت کے ہزار ہا نشان ظاہر ہو جانے کے جوکہ خدا تعالیٰ نے آج تک میری تائید میں آسمان اور زمین پر ظاہر کئے پھر مجھے جو شخص کاذب اور مفتری اور دجّال کے نام پکارتا ہے یا جو میری پروا نہیں کرتا اور میری آواز کی طرف کان نہیں دھرتا یقیناً جانو کہ خدا تعالیٰ بغیر مؤاخذہ اسے ہر گز ہر گز نہ چھوڑے گا۔
(ملفوظات جلد 10 صفحہ 306تا309۔ ایڈیشن 1984ء)
٭…٭…٭
جزاک اللہ تعالیٰ احسن الجزاء