متفرق مضامین

نیا عہد نامہ حضر ت مسیح ناصریؑ کی کتاب مقد س نہیں (قسط 2)

(سیّد میر محمود احمد ناصر)

اس مضمون کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:

جیسا کہ مضمون ‘‘کیا حضرت مسیح ناصریؑ کی کتاب مقدس نیا عہدنامہ ہے یا تورات اور کتب انبیاء سے ماخوذ عبارات کا مجموعہ؟’’ کے شروع میں بیان کیا جاچکا ہے کہ نیا عہد نامہ حضرت مسیح ناصریؑ نے نہ لکھا، نہ پڑھا، نہ دیکھا، بلکہ یہ بقول چرچ کے حضرت مسیح ناصری کے آسمان پر جانے کے سالوں بعد لکھا گیا۔

(1) اس کے لیے لوقا کی انجیل کا یہ حوالہ پڑھیےلکھاہے:

‘‘ چونکہ بہتوں نے اس پر کمر باندھی ہے کہ جو باتیں ہمارے درمیان واقع ہوئیں ان کو ترتیب وار بیان کریں۔ جیسا کہ انہوں نے جو شروع سے خود دیکھنے والے اور کلام کے خادم تھے ان کو ہم تک پہنچایا۔ اس لیے اے معزّز تِھیُفِلُس میں نے بھی مناسب جانا کہ سب باتوں کا سلسلہ شروع سے ٹھیک ٹھیک دریافت کرکے ان کو تیرے لیے ترتیب سے لکھوں۔’’

(لوقا باب 1آیت 1تا 3)

(2) لوقا کے باب ایک میں حضرت مریم کی ایک عبارت لکھی ہے۔

وہ حنّہ کے گیت پر مبنی ہے جو ایک سموئیل باب 2میں درج ہے۔

(3) لوقا باب1 میں زکریا ہ کا گیت ہے ۔

جو زبور پر مبنی ہے

(4) لوقا باب 2میں لکھا ہے کہ یسوع کی پیدائش کے بعد خروج باب 13کے مطابق عمل کیاگیا۔

(5) لوقا باب 2میں لکھا ہے۔

کہ شمعون بزرگ نے یسوع بچہ کو لے کر خداتعالیٰ کی حمد کی جو یسعیاہ باب 42پر مبنی ہے۔

(6) لوقا باب 2میں لکھا ہے۔

یسوع کی پیدائش کے بعد (یوسف اور مریم )و ہ سب کچھ کرچکے جوخداوند کی شریعت کے مطابق ہے تو واپس ناصرہ چلے گئے۔(لوقاباب 2آیت 39)

گویا یسوع پیدائش سے ہی شریعت موسوی کے تابع تھے اور توریت ہی ان کی کتاب مقدس تھی۔

(7) لوقا باب 3میں یوحنّا کے بپتسمہ دینے کا ذکر ہے۔اور اس بپتسمہ کے متعلق لکھا ہےکہ وہ یسعیاہ نبی کے کلام کے مطابق تھا اور آیت 5-6-7میں یسعیاہ کی طرف ایک عبارت منسوب کی گئی ہے۔اس بپتسمہ کے متعلق لکھا ہے کہ یسوع ناصری نے بھی یہ بپتسمہ لیا اور جیسا کہ لوقا میں لکھا ہے یہ بپتسمہ یسعیاہ نبی کے کلام کے مطابق تھا ۔اس سے بھی ظاہر ہے کہ یسوع کے لیے واجب العمل مقدس کتاب وہی تھی جس کو بعد میں پرانا عہد نامہ کہ دیا گیاہے۔

(8) لوقا باب 4میں لکھاہے

‘‘اور ابلیس نے اس سے کہا کہ اگر تو خدا کا بیٹا ہے تو اس پتھر سے کہہ کہ روٹی بن جائے۔ یسوع نے اس کو جواب دیا لکھا ہے کہ آدمی صرف روٹی ہی سے جیتا نہ رہے گا۔’’

(لوقا باب4 آیت 3-4)

یسوع نے ابلیس کو جو جواب دیا وہ استثناسے ہے معلوم ہوا کہ وہ استثنا کو واجب العمل کتاب مقدس سمجھتے تھے مگر ابلیس تو اس پر ایمان نہیں رکھتا تھا کہ اس کو استثنا کے حوالے سے لاجواب کیا جائے۔

(9) لوقا باب 4میں لکھا ہےکہ

ابلیس نے یسوع کو کہا کہ مجھے سجدہ کرو تو میں دنیا کی سب سلطنتیں تمہیں دے دوں گا ۔

یسوع نے جواب اس کو استثناء باب 6 کے حوالے سے دیا ۔

ابلیس تو استثناء کو نہیں مانتا تھا لہٰذا ظاہر ہے کہ یسوع کےنزدیک استثناء واجب العمل کتاب مقدس تھی

(10)لوقا باب 4میں لکھا ہے کہ

ابلیس نے یسوع کو کہا کہ اگر توخداکا بیٹا ہے تو اپنےآپ کوہیکل کے کنگرے سے نیچے گرادے فرشتے تیری حفاظت کریں گے۔یسوع نے جواب میں کہا کہ تو خد ا ونداپنے خدا کی آزمائش نہ کر ۔

یہ جواب یسعیاہ باب 7پر مبنی ہے معلوم ہوا کہ یسوع یسعیاہ کو واجب العمل سمجھتے تھے ورنہ ابلیس کوجو یسعیاہ کو مانتا ہی نہ تھا یہ جواب دینے کے کوئی معنی نہیں ۔

(11)لوقا باب 4میں ذکر ہے کہ یسوع اپنے دستور کے مطابق سبت کے دن عبادت خانہ میں گیا اور وہاں جو اس نے وعظ کیا اس میں یسعیاہ کا حوالہ پڑھ کر اس کی تشریح کی۔

اگر یسوع کی کتاب مقدس نیاعہد نامہ تھا تو اس کا سبت کے دن دستور کے مطابق عبادت خانہ میں جانےاور پرانا عہد نامہ پڑھ کر اس کی تشریح کر ناکوئی مطلب نہیں رکھتا۔اسی طرح اسی باب میں لکھاہے کہ وہ کفر نحوم میں سبت کے دن عبادت خانہ میں گیا۔سبت کے دن کی عبادت تو موسو ی شریعت کوواجب العمل ماننے کی طرف اشارہ کر رہی ہے کیونکہ مسیحی چر چ تو اتوار کے دن عبادت کا حکم دیتاہے۔

(12)لوقا باب 5میں لکھاہے کہ

یسوع نے ایک کوڑھی کو ہاتھ سے چھوکر پاک صاف کر دیااور فوراًاس کا کوڑھ جاتا رہااس نے اسے تاکید کی جاکر اپنے تئیں کاہن کو دکھا اور جیسا موسیٰ نے مقررکیا ہے اپنے پاک صاف ہوجانے کی بابت نذر گزران ۔

یہ حکم احبار باب 14میں ہے۔

اس سے بھی معلوم ہواکہ یسوع موسیٰ کی توریت کوواجب العمل یقین کرتے تھے ۔دیکھیےآج بھی چرچ اس کو واجب العمل سمجھتا ہے یا نہیں ۔

(13)لوقا باب 5آیت 30میں اس اعتراض کے جواب میں کہ‘‘ تم کیوں محصول لینے والوں اور گناہ گاروں کے ساتھ کھاتے پیتے ہو ؟’’یسوع کا جواب پرانے عہد نامہ پر مبنی ہے۔

(14)لوقا باب 6میں لکھا ہے کہ یسوع کے شاگردوں پر سبت کی بے حرمتی کا اعتراض ہوا اس کا جواب بھی یسوع نے اس کتاب کے حوالے سے دیا جس کو چرچ نے اب پرانا عہد نامہ کہناشروع کردیاہے ۔

(15)لوقا باب7آیت 27میں یوحنا کو نبی قرار دینے کے لیے بھی یسوع پرانے عہد نامہ کا حوالہ پیش کرتاہے ۔
‘‘دیکھ میں اپنا پیغمبر تیرے آگے بھیجتا ہوں جو تیری راہ تیرے آگے تیار کر ےگا۔’’

یہ حوالہ ملاکی سے ماخوذہے۔

حیرت ہے کہ نیا عہد نامہ تو ہر بات کے لیے پرانے عہد نامہ کی تائید اورتصدیق درج کرتاہے اور مسیح چرچ اصل واجب العمل کتاب مقدس نیا عہد نامہ کو قرار دیتے ہیں۔

(16)لوقا باب 10میں لکھاہے

ایک عالم شرع نے یسوع سے پوچھا میں کیاکروں کہ ہمیشہ کی زندگی کاوارث ہوں۔

اس سوال کے جواب میں یسوع نے ہرگز کفارہ۔تثلیث۔ یسوع کی صلیبی موت پر ایمان لانے کا ذکر نہیں کیا بلکہ اس سے کہا :

تورات میں کیا لکھا ہے!

جب عالم شرع نے اس کو توریت کا حوالہ دیا تو یسوع نے کہا

تو نے ٹھیک جواب دیا ہے یہی کر تو تو جیے گا۔

گویا ہمیشہ کی زندگی کے لیے توریت کے کلمہ پر عمل کرنا ضروری ہے نہ کہ نئے عہد نامہ پر ۔

(17)لوقا باب 16میں لکھاہے یسوع نے کہا

آسمان اور زمین کا ٹل جانا شریعت کےایک نقطہ کے مٹ جانے سے آسان ہے۔

یسوع کی طرف منسوب کرنے والے بقول ان کے نئے عہد نامہ کی خاطر اس شریعت کو جس کے متعلق یسوع نے یہ فقرہ کہا مٹا ڈالا ہے ۔اور پولوس کے کہنے پر شریعت کو بے ضرورت بلکہ لعنت قرار دیا ہے۔

(18)لوقا باب 16میں لکھا ہے ۔

ابرام نے کہا :

ان کے پاس موسیٰ اور انبیاء توہیں ان کی سنیں …پھر لکھا ہے: جب وہ موسیٰ اور نبیوں ہی کی نہیں سنتے تو اگر مردوں میں سے کوئی جی اٹھے اس کی بھی نہ مانیں گے۔

یہ بعینہ چر چ کا نقشہ ہے جو موسی ٰ اورانبیاء کی نہیں سنتے سب کچھ نئے عہد نامہ کو سمجھتے ہیں جو یسوع کے رخصت ہونے کے بہت بعد لکھا گیا۔

(19)لوقا باب 17میں لکھا ہے کہ

دس کوڑھیوں کو جو یسوع کی توجہ سے ٹھیک ہونے والے تھے یسوع نے کہا جاؤ اور کاہنوں کو دکھاؤ ۔کاہنوں کے پاس جانا اور ان کو نذریں وغیرہ پیش کرنا پرانے عہد نامہ کی تعلیم ہے اور نیا عہد نامہ باربار اس تعلیم پر عمل کرنے کی ہدایت دیتاہے۔

(20)لوقا باب 18 میں لکھا ہے :

کہ کسی سردار نے یہ سوال کیا اے نیک استاد میں کیا کروں تاکہ ہمیشہ کی زندگی کا وارث بنوں اس کے جواب میں یسوع نے ہرگز یہ نہیں کہا کہ تثلیث ، کفارہ کو، یسوع کی صلیبی موت کو مانو اور massکی تقریب میں شامل ہو بلکہ ان احکام پر عمل کرنے پر حکم دیاجن کا حکم پرانے عہد نامہ میں دیا گیا ہے۔
(21)لوقا باب 19میں لکھا ہے

کیونکہ ابن آدم کھوئے ہوؤں کو ڈھونڈنے اور نجات دینے آیا ہے۔

یہ مضمون حزقیل باب 34آیت 11،16پر مبنی ہے۔

(22)لوقا باب 19آیت 40میں یسوع کا قول

حبقوق باب 2آیت 11پر مبنی ہے ۔

(23)لوقا باب 19یروشلم پر افسوس کا اظہار دانی ایل باب 19آیت 24پر مبنی ہے ۔

(24)لوقا باب20آیت17 کی آیت زبور 118آیت 22پر مبنی ہے ۔

(25)لوقا باب 2میں یسوع کا صدوقیوں کےاعتراض کا جواب خروج باب 3آیت 15،6پر مبنی ہے۔

(26)لوقا باب 21میں آنے والے مسیح کا داؤد کا بیٹا نہ ہونے کا بیان زبور پر مبنی ہے۔

(27)لوقا باب 21آیت 22میں لکھا ہے

یہ انتظام کے دن ہونگے جن میں سب باتیں جو لکھی ہیں پوری ہو جائیں گی۔

یہ یسعیا ہ باب 34آیت 8 پر مبنی ہے۔

(28)لوقا باب 21آیت 20تا 28کی پیشگویاں پرانے عہد نامہ پر مبنی ہیں ۔

(29)لوقا باب 22آیت 7،8میں لکھا ہے

عید فطیر کا دن آیا جس میں فسح ذبح کرنا فرض تھا اور یسوع نے پطرس اور یوحنا کو یہ کہہ کر بھیجا کہ جاکر ہمارے کھانے کے لیے فسح تیار کرو۔

گویا یسوع پرانے عہد نامہ کے ہر حکم کی تعمیل کرتے اور تعمیل کرنالازمی سمجھتے تھے ۔
(30)لوقا باب 22میں لکھا ہے

‘‘ اس نے ان سے کہا مگر اب جس کے پاس بٹوا ہو وہ اسے لے اور اسی طرح جھولی بھی اور جس کے پاس نہ ہو وہ اپنی پوشاک بیچ کر تلوار خریدے۔کیونکہ میں تم سے کہتا ہوں کہ یہ جو لکھا ہے کہ وہ بدکاروں میں گنا گیا اس کا میرے حق میں پورا ہونا ضرور ہے۔’’(لوقا باب 22آیت 36-37)

یہ تمام یسعیاہ 53باب پر مبنی ہے۔

(31)لوقا باب 24میں لکھاہے۔

واقعہ صلیب کے بعد یسوع ناصری کو ماننے والی خواتین نےسبت کے دن حکم کے مطابق آرام کیا۔
معلوم ہوا کہ ایسے نازک موقعہ پر بھی انہوں نے پرانے عہدنامہ کی شریعت کے حکم پر عمل کیا ۔مگر اب چرچ اس حکم پر عمل نہیں کرتا ۔

(32)لوقا باب 24آیت 27میں لکھاہے۔

یسوع نے اپنے دو ماننے والو ں کو امّاؤس کی سڑک پر ‘‘موسیٰ سے اور سب نبیوں سے شروع کر کے سب نوشتوں میں جتنی باتیں اس کے حق میں لکھی ہوئی ہیں ان کوسمجھا دیں۔’’

گویا ہر مرحلہ پر یسوع اور ان کے شاگرد پرانے عہد نامہ کو ہی کتا ب مقدس کی نظر سے دیکھتے تھے۔
(33)لوقا کے آخری باب 24میں لکھا ہے کہ

واقعہ صلیب کے بعد یسوع اپنے شاگردوں سے ملا ان کو کہا ‘‘ضرور ہے کہ جتنی باتیں موسی ٰ کی توریت اور نبیوں کے صحیفوں اور زبور میں میری بابت لکھی ہیں پور ی ہوں۔’’

(لوقا باب 24آیت44)

اس بیان سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یسوع اور ان کے شاگرد توریت اور صحف انبیاء کو ہی کتاب مقدس سمجھتے تھے۔ نہ کہ نئے عہد نامہ کو۔

(34)یوحنا کی انجیل باب 1 میں لکھاہے کہ

یوحنا بپتسمہ دینے والے نے کہا

میں جیسا یسعیاہ نبی نے کہا ہےبیابان میں ایک پکارنے والے کی آواز ہوں ’’(یوحنا باب1آیت 23)گویا یوحنا بپتسمہ دینے والا جس کے بلند مرتبہ کی یسوع نے تعریف کی تھی اور اس سے بپتسمہ بھی لیا تھا و ہ بھی اپنی تائید کے لیے پرانے عہد نامہ کا حوالہ دیتا ہے۔

(35)یوحنا باب 1آیت 45میں لکھاہے

‘‘فلپس نے نتن ایل سے مل کر اس سے کہا

کہ جس کا ذکر موسیٰ نے توریت میں اور نبیوں نے کیا ہے وہ ہم کو مل گیا ۔وہ یوسف کا بیٹا یسوع ناصری ہے۔’’

گویا یسوع کے حواری یسوع کی صداقت کے لیے بھی پرانے عہد نامہ کو ثبوت بناتے ہیں ۔

(36)یوحنا باب2 میں لکھا ہے کہ

یسوع نے جب خدا کے گھر کو دکانوں وغیرہ سے صاف کیا تو‘‘ اس کے شاگردوں کو یاد آیا کہ لکھا ہے کہ تیرے گھر کی غیرت مجھے کھا جائے گی۔’’(یوحنا باب2آیت17)

یہ زبور باب 69آیت9سے لیا گیا ہے۔ گویا یسوع کےبڑے پرانے نیک کاموں کی صداقت کا معیار بھی پرانا عہدنامہ قرارد یاگیاہے۔

(37)یوحنا باب2آیت 22میں پرانے عہد نامہ کو کتاب مقدس کہا گیا ہے۔

(38)یوحناباب5آیت39میںیسوع پرانے عہدنامہ کو کتاب مقدس کہتاہے اور اسے اپنی صداقت کے لیے پیش کرتاہے۔

(39)یوحنا باب5 آیت 46،47میں یسوع کہتا ہے:

‘‘اگر تم موسی ٰکا یقین کرتے تو میر ابھی یقین کرتے۔اس لیے کہ اس نے میرے حق میں لکھا ہے ۔لیکن جب تم اس کے نوشتوں کا یقین نہیں کرتے تو میری باتوں کا کیوں کر یقین کرو گے۔’’

کہاں ہے وہ چرچ جو موسیٰ کوہر بات میں گراتا ہے اور یسوع کو اور نئے عہد نامہ کو ہربات میں بڑھاتا ہے۔
(40)یوحنا باب 6میں لکھا ہے یسوع نے کہا

نبیوں کے صحیفوں میں لکھاہے کہ وہ سب خدا سے تعلیم یافتہ ہوں گے۔

یہ یسعیاہ باب54سے ماخوذہے۔

(41)یوحنا باب 7میں ہے کہ

یسوع نے یہود کو مخاطب ہو کر کہا :‘‘کیا موسیٰ نے تمہیں شریعت نہیں دی ؟تبھی تم میں سے کوئی شریعت پر عمل نہیں کرتا۔’’(یوحنا باب7آیت19)

یہ فقرہ یسوع نے اعتراض اور طنز کے طور پر کہاہے خود یسوع شریعت پر عمل کر تے تھے مگر چرچ کے متبعین اب یسوع کے اس قول کے باوجود شریعت پر عمل نہیں کرتے۔

(42)یوحنا باب 7آیت 21تا 24سے صاف واضح ہےکہ

یسوع موسوی شریعت پر عمل کرتے تھے ۔

(43)یوحنا باب 7آیت 38میں اپنے پر ایمان لانے والے کو کتاب مقدس میں بیان برکات حاصل کرنے والا بتاتے ہیں اور پرانے عہد نامہ کا ذکر کتاب مقدس کے طور پر کرتے ہیں ۔

(44)یوحنا باب7آیت 42میں لکھا ہے

‘‘کیا کتاب مقدس میں یہ نہیں آیا کہ مسیح داؤد کی نسل اور بیت لحم کے گاؤں سے آئے گا۔’’

نئے عہد نامہ میں پرانے عہد نامہ کو ہی کتاب مقد س کہا گیا ہے۔

(45)یوحنا باب 8آیت 17میں لکھاہے ۔

یسوع نے کہا

‘‘تمہاری توریت میں بھی لکھا ہے کہ دو آدمیوں کی گواہی مل کر سچی ہوتی ہے۔

یسوع نے اپنی صداقت کا ثبوت پرانے عہد نامہ سے دیا ہے (نہ کہ کسی مزعومہ نئے عہد نامہ سے)

(46)یوحنا باب 8 آیت 51میں لکھا ہے کہ یسوع نے کہا

‘‘میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ اگر کوئی شخص میرے کلا م پر عمل کرے گا تو ابد تک کبھی موت کو نہ دیکھے گا ۔’’

مگر چرچ کہتا ہے کہ عمل کرنے والے تو الگ رہے خود یسوع جوان الفاظ کا کہنے والا تھا یہودیوں کےبقول صلیب پر مر گیا۔ جو مجرموں کی موت سمجھی جاتی تھی۔

کیا نیا عہد نامہ اس تضاد کے ساتھ بھی قابل اعتماد ہے۔

(47)یوحنا باب17میں لکھا ہے کہ یسوع نےکہا

جتنے مجھ سے پہلے آئے چور اور ڈاکو ہیں ۔

مگر خو د یسوع نے موسیٰ اور انبیاء کوجن کی کتب پرانےعہد نامہ میں ہیں سچا کہا ہے۔معلوم ہوا کہ نیا عہد نامہ یسوع کے اقوال کو صحیح طرح بیان نہیں کرتا لہٰذا وہ یسوع کی کتاب مقدس نہیں ۔یسوع کی کتاب مقدس پرانا عہد نامہ ہی ہے جیسا کہ اس نے بار بار کہا ۔

(48)یوحنا باب 10میں لکھاہے کہ

یہودیوں نے یسوع سے کہا اگر تو مسیح ہے تو ہم سے صاف صاف کہہ دے یسوع نے جواب دیا میں نے تو تم سے کہ دیا مگر تم یقین نہیں کرتے۔

حالانکہ یسوع نے صاف صاف حکم دیا۔‘‘کسی کو نہ بتانا کہ میں مسیح ہوں’’(متی باب16آیت 20)
اس قسم کے تضادات سے ظاہر ہے کہ نیا عہد نامہ یسوع کی کتاب مقدس نہیں ہے۔

(49)یوحنا باب 12میں بادشاہ کی گدھے پر سواری کا ذکر ہے

یہ زکریا باب 9پر مبنی ہے۔

(50)یوحنا باب12معجزات کے باوجود یہود کے ایمان نہ لانے کا ذکر ہے۔

یہ یسعیاہ باب 53پر مبنی ہے۔

(51)یوحنا باب 12میں یسوع پر جو پیشگوئی چسپاں کی گئی ہے ۔

وہ یسعیاہ باب 6میں ہے۔

(52)یوحنا باب 13میں ہے۔

‘‘جو میری روٹی کھاتا ہے اس نے مجھ پر لات اٹھائی’’

( یوحنا باب 13آیت 18 )

یہ زبور باب41 سے ماخوذ ہے۔

(53) یوحنا باب 15میں لکھاہے ۔

‘‘وہ قول پورا ہو جو ان کی شریعت میں لکھا ہے کہ انہوں نے مجھ سے مفت عداوت رکھّی۔’’(یوحنا باب 15آیت 25)

یہ زبور 35پر مبنی ہے۔

(54)یوحنا باب 17آیت 12میں لکھاہے

تاکہ کتاب مقدس کا لکھا پوراہو۔

یہاں بھی کتا ب مقدس سے مراد پرانا عہد نامہ ہے اور حوالہ زبور 109پر مبنی ہے ۔

(55)یوحنا باب 19آیت 24میں کپڑوں کے بارہ میں حوالہ ہے۔

وہ زبور باب 22آیت 18 سے لیا گیا ہے۔

(56)یوحنا باب 19میں لکھا ہے

‘‘یسوع نے جان لیا کہ اب سب باتیں تمام ہوئیں تاکہ نوشتہ پورا ہوتو کہا کہ میں پیاسا ہوں۔وہاں سرکہ سے بھرا ہوا ایک برتن رکھاّ تھا۔’’(یوحنا باب 19آیت 28-29)

یہ زبورباب 69آیت 21سے ماخوذہے۔

(57)یوحنا باب 19لکھا ہے

‘‘یہ باتیں اس لیے ہوئیں کہ نوشتہ پورا ہوکہ اس کی کوئی ہڈی نہ توڑی جائے گی۔’’(یوحنا باب 19آیت 36)
یہ حوالہ خروج باب 12آیت 46پر مبنی خیال کیا جاتا ہے۔

(58)یوحنا باب 19میں لکھاہے۔

‘‘کہ جسے انہوں نے چھیدا اس پر نظر کریں گے’’

(یوحنا باب 19آیت 37)

یہ حوالہ زکریا ہ باب12آیت10 سے ماخوذہے۔

(59)یوحنا باب 20میں لکھاہے۔

‘‘کیونکہ وہ اب تک اس نوشتہ کو نہ جانتے تھے جس کے مطابق اُس کا مردوں میں سے جی اٹھنا ضرور تھا۔’’

(یوحنا باب 20آیت 9)

یہ حوالہ زبور باب 16آیت 10پر مبنی سمجھا جاتا ہے۔

جو شخص نئےعہد نامہ کے مضامین کے لیے اُس عہدنامہ کو پڑھےگا جس کو اب پرانے عہد نامہ کا نام دیا جاتا ہے تو اس پر خوب روشن ہو جائے گا کہ اصل کتاب مقدس پرانا عہد نامہ ہی ہے ۔اور یسوع اور ان کے شاگر د اس کو اپنی کتاب مقدس سمجھتے تھے اور نیا عہد نامہ یسوع ناصری کے اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد کی کتاب ہے جو نہ انہوں نے لکھی، نہ پڑھی اور نہ کبھی دیکھی اور نئے عہد نامہ کی کتب لکھنے والوں نے یہ سمجھا کہ وہ کوئی‘‘کتاب مقدس ’’تصنیف کر رہے ہیں ۔ بلکہ یہ کتب لمبے بحث ومباحثہ کے بعد اور اختلافات کے بعد چوتھی صدی میں جا کرکتاب مقدس قرار دی گئیں۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button