سیرت النبی ﷺ

صفاتِ باری کے مظہر اتم۔ مظہر اتم الوہیت ﷺ کی عظیم الشان روحانی تجلیات

(فضیل احمد عیاض۔ مربی سلسلہ ربوہ)

اس تحریر کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:

سید الانبیاء ،سید الاصفیا ء،ہمارے سید و مولیٰ حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ نے جو عظیم الشان روحانی مقام عطا فرمائے ان میں سے ایک مقام آپؐ کا صفات باری کا مظہر اتم ہونے کابھی ہے جو تمام روحانی مقامات کی معراج اور انتہاہے۔ یہ وہ عظیم الشان مقام ہے جس پر آپؐ کا فائز ہونا در حقیقت آپؐ کو روحانی اعتبار سے تمام بنی نوع انسان میں اعلیٰ ترین مقام پر فائز کرتا ہے۔اور یہی و ہ مقام محمود ہے جس پر آپؐ کو فائز کیا گیا ہے اوریہی و ہ مقام محمدیت ہے جو آپؐ کی روحانی زندگی اور قوت قدسیہ کے جاری و ساری ہونے کا مظہر ہے۔ اور تمام انبیاء ا سی مقام کے فیض سے مستفیض ہیں۔ قرآن کریم پر نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ کے وجود کے اندر خدا تعالیٰ اس عظیم الشان رنگ میں جلوہ افروز ہوا کہ آپؐ کا وجود اس کی تخت گاہ بن گیا اور آپؐ کا دل اس کے نور کا امین ٹھہرا۔ اور آپؐ کا سینہ اس طاقچے کی مانند ہو گیا جس سے خدا تعالیٰ کے نور کی تجلیات بنی نوع انسان پر ضو فشاں ہوئیں اور ان کو روشن کر دیا اور جو فرد بنی نوع بھی اس نور کے سامنے آیا وہ بھی روشن ہو گیا۔

اس سے پہلے کہ ہم حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس مقام کی عظمت کے بارے میں کوئی بات کریں ہم ایک لمحے کو رک کر اس زمانے کی حالت کا جائزہ لینا ضروری سمجھتے ہیں جس میں حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہوا۔

ہمارے پیارے آقا و مولیٰ، حبیب ربّ الوریٰ، سیّد الاصفیاء و الاحیاء حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم عرب کے وحشت خیز معاشرے میں پیدا ہوئے ۔ایک ایسے معاشرے میں جہاں انسانی قدریں ناپید اور اخلاق حسنہ معدوم تھے ۔جہاں انسان کی عزت کا معیار اس کا خاندان اور اس کی دولت تھی۔ جہاں مرد اور عورت میں بے حد تفاوت تھا۔ جہاں عورت ایک جنس کی طرح سمجھی جاتی تھی اور باپ کے مرنے کے بعد اس کی بیویاں اس کے ورثاء میں ترکے کی طرح بانٹی جاتی تھیں۔ جہاں غلامی عام تھی اور غلاموں کے ساتھ جانوروں سے بد تر سلوک کیا جاتا تھا۔بت پرستی ان کا مذہب اور توہم پرستی ان کے ایمان کا حصہ تھی۔ معمولی باتوں پر آمادۂ جنگ ہو جانا معمول کی بات تھی اور بے سوچے سمجھے حملہ کرنا ان کی فطرت تھی۔گویا پور ی کی پور ی قوم قعر مذلت میں گر کر حقیر گوبر کی طرح ہو چکی تھی ۔جو مذاہب گرد ا گرد موجود تھے وہ اپنے مذہبی جھگڑوں میں اس طرح الجھے تھے کہ انسان کی اخلاقی قدروں کو اجاگر کرنے کی بجائے وہ بھی اخلاقی گراوٹ کا شکار تھے اور مذہب ایک تسلسل کے ساتھ انحطاط کا شکار تھا۔ عیسائیت اور یہودیت موجود تو تھی لیکن اپنی ادنیٰ ترین شکل میں تھی چنانچہ James Bruceلکھتا ہے:

“Their lies, their legends, their saints and their miracles, but above all, the abandoned behaviour of their priesthood, had brought their characters in Arabia almost as low as that of detested Jew, and had they been considered in their true light, they had been still lower.
(An Interesting Narratives of The Travels of James Bruce into Abyssinia to Discover the Source Of The Nile . page 111 Printed by Samuel Etheridge for Alexander Thomas and George Meriam )

ترجمہ ان کے جھوٹ ، ان کے قصے،ان کے اولیاء ،دین اور معجزات لیکن سب سے بڑھ کر ان کے ائمہ دین کے شتر بے مہار ہونے کی وجہ سے ان کے کردار کی گراوٹ یہود کی شکست خوردہ ابتری کے قریب تھی بلکہ اگر ان لوگوں کے اصل کردار کو دیکھا جاتا تووہ ان یہود سے بھی زیادہ گرا ہوا تھا۔

اس دور کو قرآن کریم نے اس طرح بیان کیا ہے

ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُمْ بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ (الروم :42)

کہ خشکی اور تری دونوں ہی فساد کا شکار ہوچکے تھے گویا مذہبی اور دنیاوی قیادتیں دونوں ہی فساد کا مرکز بن چکی تھیںکیا یہودیت اور کیا عیسائیت دونوں غلط عقائد کا شکار ہو کر اپنے رب کو بھو ل کر شرک کی بھول بھلیوںمیں کھو رہے تھے۔

معروف عیسائی مؤرخ اور فلاسفرJ.H. Denison لکھتا ہے:

“In the fifth and sixth centuries the civilized world stood on the verge of a chaos. The old emotional cultures that had made civilization possible, since they had given to men a sense of unity and of reverence for their rulers, had broken down, and nothing had been found adequate to take their place

“It seemed then the great civilization which it had taken four thousand years to construct was on the verge of disintegration, and that mankind was likely to return to that condition of barbarism where every tribe and sect was against the next, and law and order was unknown… The old tribal sanctions had lost their power… The new sanctions created by Christianity were working division and destruction instead of unity and order. It was a time fraught with tragedy. Civilization, like a gigantic tree whose foliage had overarched the world and whose branches had borne the golden fruits of art and science and literature, stood tottering… rotted to the core. Was there any emotional culture that could be brought in to gather mankind once more into unity and to save civilization- It was among these people that the man (Muhammad) was born who was to unite the whole known world of the east and south.”

J. H. Denison: Emotion as the Basis of Civilization, London, 1928, pp. 265, 269

پانچویں اور چھٹی صدی عیسوی میں مہذب دنیا شکست و ریخت کے کنارے پر کھڑی تھی۔قدیم زمانہ کی باہمی عاطفت پر مبنی ثقافتیں جنہوں نے اس تمدن کو ممکن بنا رکھا تھا، اور انسان کو باہم اکٹھے رہنے کا احساس اور اپنے حکمرانوں کے احترام کا درس دیا ،انتشار کا شکار ہو چکی تھیں اور ان کی جگہ لینے کے لیے کوئی مناسب نظام میسر نہ تھا۔

یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ عظیم تہذیب جس کے پنپنے میں چار ہزار سال سے زائد عرصہ صَرف ہوا تھا اب شکست و ریخت سے دوچار ہونے کو تھی اورنوع انسانی بربریت کی اس حالت کو لوٹنے والی تھی جہاں ہر قبیلہ اور ہر گروہ دوسرےسے بر سرپیکار تھا اور قانون اور نظام عنقا تھا۔پرانا قبائلی نظام دم توڑ چکا تھا اور عیسائیت کی طرف سے بنائے گئے نئے اصول و ضوابط انسانوں کے درمیان اتحاد اور نظام کے قیام کی بجائے تقسیم او ر تباہی کا کام انجام دے رہے تھے ۔یہ ایک پر آشوب دَور تھا۔تہذیب انسانی کا وہ عظیم درخت کی مانند جس کے پتوں نے تمام دنیا پر سایہ کیا تھا او ر جس کی شاخوں پر سائنس ، فنون لطیفہ اور ادب کے سنہرے پھل لگےتھے سرتاپا سڑ چکا تھا اور گرنے کو تھا۔کیا کوئی پر عاطفت تہذیب ایسی موجود تھی جواس موقعے پر انسانیت کو متحد کرنے اور تمدن کو بچانے کے لیے دنیا میں لائی جا سکے؟! ہاں تھی اور یہ وہ لوگ تھے جن کے درمیان انسان کامل محمد عربیﷺ نے جنم لیا اور جنہوں نے دنیا کو ایک سرے سے دوسرے تک متحد کرنا تھا۔

جان ڈیون پورٹ نے اپنی کتاب اپالو جی فار محمد اینڈ قرآن میں لکھا کہ

A like moral and religious corruption was to be found among the Christians and the Jews who, for ages had established themselves in the Arabian Peninsula, and had there formed very powerful parties. The Jews had come to seek in that land of liberty an asylum from the persecution of the Romans ; the Christians also fled thither in order to escape the massacres occasioned by the Nestorian Eutychianism* and Arian discussions. It is not easy to conceive of anything more deplorable than the condition of Christianity at this time. The scattered branches of the Christian Church in Asia and Africa were at variance with each other, and had adopted the wildest heresies and superstitions. They were engaged in perpetual controversies and torn to pieces by the disputes of the Arians, Sabellians, Nestorians, and Eutychians, whilst the simony, the incontinence, the general barbarism and ignorance which were to be found amongst the clergy caused great scandal to the Christian religion, and introduced universal profligacy of manners among the people. In Arabia the deserts swarmed with ignorant and infatuated Cenobites, or recluses, wasting their lives in vain but fiery speculations, and then rushing, often armed, in mobs into the cities, preaching their fantasies in the churches, and enforcing assent to them by the sword. The grossest idolatry had usurped the place of the simple worship instituted by Jesus -that of an all-wise, almighty, and all-beneficent Being, without equal and without similitude; a new Olympus had been imagined, peopled with a crowd of martyrs, saints, and angels, in lieu of the ancient gods of paganism

(An apology for Mohammad and The Koran by John Davenport page-2-3 – Printed by Dryden Press J.Davy & Sons 137 Long Acre London 1882)

(محمد مصطفی ٰکی بعثت کے وقت) اسی طرح کی اخلاقی اور دینی گراوٹ ان یہود اور نصاریٰ میں پائی جاتی تھی جو لمبا عرصہ سے جزیرہ نما عرب میں رہائش پذیر تھے۔اور ایک طاقتور اور مضبوط گروہ کی حیثیت اختیار کر چکے تھے۔ یہود تو اس آزاد سر زمین میں رومی ایذاؤں سے پناہ حاصل کرنے آئے تھے جبکہ نصاریٰ ، اور نسطوری اور یوٹچین کے مباحث کی وجہ سے برپاہونے والے قتل عام سے بچنے کے لیے اس طرف بھاگ آئے تھے ۔ اس وقت عیسائیوں کی حالت کی ابتری سوچ سے باہر ہے۔افریقہ اور ایشیا کی مسیحی شاخیں باہر بر سرپیکار تھیں اور ان میں خطرنا ک توہمات اور ملحدانہ عقائد جنم لے چکے تھے۔ وہ ہمیشہ ہی کسی نہ کسی تنازعہ کا شکار رہتے۔ایرین ، نسطوری، سیبیلین اور یوٹیشین فرقوں کے باہمی تنازعات نے ان کا شیرازہ بکھیر دیا۔ پھر اس پر مستزاد یہ کہ ان کے راہبوں کی جہالت، بربریت، ریاکاری ، بے راہروی اور مناصب دین کی خرید و فروخت نے مسیحیت کی بہت بدنامی کروائی اور عوام میں عام فسق و فجور نے جنم لیا۔

عرب کے صحراء میں بے شمار صومعہ نشینوں اور گوشہ نشینوں نے جنم لیا جو اپنے جہالت اور بے راہ رو جذبات کی وجہ سے اپنی ساری زندگی انتشار پھیلانے کی قیاس آرائیوں میں ضائع کرتے اور پھر کئی مرتبہ مسلح جتھوں کی صورت میں بستیوں پر دھاوا بول دیتے ۔ وہاں کے کلیساؤں میں اپنے تخیلات اور وساوس کی پرچار کرتے اور پھر تلوار کے زور پر اپنے خیالات منواتے۔

یسوع مسیح نے ایک واحد یکتا اور تمام قوتوں کے مالک علیم و رحیم ہستی کی جس سادہ عبادت کو قائم کیا تھا اس کے مقام کو بے پناہ بت پرستی نے غصب کر لیا اور ایک رومی دیوتاؤں کے محل کی طرح کا خیال پھر سے عوام الناس میں عام تھا۔گو تخیل میں اس محل میں قدیم دیوتاؤں کی جگہ اس وقت شہداء ،اولیاء، اور فرشتوں نے لے لی تھی۔

ایسے میں ایک ایسے شخص کا ظہور جو بنی نوع انسان کو اس معاشرتی اخلاقی اور روحانی تنزل سے نکال کر انسانیت کی اس معراج پر لے جائے جہاں شرف انسانیت ہی معراج انسانیت ہو اور جہاں خدا سے تعلق اور اس کی خاطرجان دینے کا تصور سب سے بالا ہو جائے دراصل ایک خدائی کام تھا جوصرف ایک ایسی شخصیت سےہونا ممکن تھا جس کےا ندر خود خدا جلوہ گر ہو اور وہ اپنی تما م تر کیفیت خلق اور خلق میں اس کا ظہور خود خدا کا ظہور ہو، وہ صفات باری تعالیٰ کا مظہرکامل ہو اور بنی نوع انسان کو نہ صرف خداسے آشنا کرنے والا بلکہ ان کو خدا نما بنانے والا ہو ۔یہ کام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کر دکھایا اور اس طرح سے کیا کہ خدا تعالیٰ نے ان کے فعل کو اپنا فعل ان کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ اورا ن کے وجود کو اپنا وجوداور اپنی محبت ومعرفت کے حصول کو اس شخص کی محبت سے مشروط قرا ر دیا اور یہ محض بیان نہیں ہے قرآن کریم کی آیات اور اسلوب بیان اس پر شاہد ناطق ہے۔ جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم قرب الٰہی کے مقامات میں ترقی کرتے کرتے اس مقام عظیم پر فائز ہوئے جہاں آپ کے وجود میں صفات الہٰیہ کی کامل تجلی ہوئی اور آپ تجلیات الہٰیہ کے مظہر اتم بن گئے۔

جب ہم سیدنا حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک پر اس نکتۂ نظر سے غور کرتے ہیں تو ہم پاتے ہیں کہ آپؐ کے آنے سے بنی نوع انسان میں ایک عظیم الشان انقلاب پیدا ہوا اور مظہر اتم الوہیت کی اس روشن تر تجلی کے نتیجہ میں عرب کا وحشت خیز معاشرہ زندہ خدا کی زندہ تجلی اور اس کے نور کامظہر بن گیا۔ آپؐ کے بارے میں خدا تعالی نے فرمایا کہ

یٰأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيْكُمْ(الانفال:25)

اے وہ لوگو جو اىمان لائے ہو!اللہ اور رسول کى آواز پر لبىک کہا کرو جب وہ تمہىں بلائے تاکہ وہ تمہىں زندہ کرے۔

وہ لوگ جنہوں نے اس النبی الامی رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے بلاوے پر لبیک کہا تو وہ لوگ جو مردہ تھےانہوں نے حیات جاودانی کا جام پی لیا ، صحرائے عرب کے امی چرواہے بنی نوع انسان کے معلّم بن گئے۔مکہ کی سرزمین سے وہ انقلاب پیدا ہوا جس نے قرنوں کے مُردوں کے اندر زندگی کی روح پھونک دی۔ اور خدا کی صفت حیّ کی ایک عظیم الشان تجلی آپؐ کے وجود سے ظاہر ہوئی۔ اسی صفت احیاء کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

‘‘وہ جو عرب کے بیابانی ملک میں ایک عجیب ماجرا گزرا کہ لاکھوں مُردے تھوڑے دنوں میں زندہ ہوگئے اور پشتوں کے بگڑے ہوئے الٰہی رنگ پکڑ گئے۔ او رآنکھوں کے اندھے بینا ہوئے۔ اور گونگوں کی زبان پر الٰہی معارف جاری ہوئے۔ اور دُنیا میں یکدفعہ ایک ایسا انقلاب پیدا ہؤا کہ نہ پہلے اس سے کسی آنکھ نے دیکھا ۔اور نہ کسی کان نے سُنا ۔ کچھ جانتے ہو کہ وہ کیاتھا؟ وہ ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دُعائیں ہی تھیںجنہوں نے دُنیا میں شور مچا دیا۔اور وہ عجائب باتیں دکھلائیں کہ جو اُس اُمی بیکس سے محالات کی طرح نظر آتی تھیں۔

اَللّٰھمّ صَلِ وسَلِّم وَ بَارِکْ عَلَیْہِ وَآلِہٖ بِعَدَدِ ھَمِّہٖ وَ غَمِّہٖ وَحُزْنِہٖ لِھٰذِہِ الْاُمَّۃِ وَ اَنْزِلْ عَلَیْہِ اَنْوَارَ رَحْمَتِکَ اِلَی الْاَبدِ۔

(برکات الدعا ،روحانی خزائن جلد 6صفحہ11)

کہتے ہیں یورپ کے ناداں یہ نبی کامل نہیں
وحشیوں میں دیں کو پھیلانا یہ کیا مشکل تھا کار
پربنانا آدمی وحشی کو ہے اک معجزہ
معنیٔ رازِ نبوّت ہے اِسی سے آشکار
نورلائےآسماں سے خود بھی وہ اک نور تھے
قومِ وحشی میں اگر پیدا ہوئے کیا جائے عار

یہ آپؐ کو عطا ہونے والے عظیم الشان مقام محمدیت کی تجلی تھی جس نے عرب کی روحانیت اور علم سے خالی او ر بنجر زمین کو گلہائے روحانیت سے لالہ زار کر دیا۔ آپؐ کے ہاتھوں سے انسانی تاریخ کا سب سے بڑا معجزہ ظاہر ہوا اور قرآن کریم اور اس کے نور سے استفادہ کرنے والوں نے علم وعمل کے وہ چراغ روشن کیے جس پر انسانی تاریخ آج بھی انگشت بدنداں ہے۔

آپؐ کےاس عظیم الشان مقام کا احاطہ کرنا الفاظ میں ممکن نہیں وہ وجود جس کی تعریف خو د رب کریم کررہا ہو اور اس کے بارے میں یہ اظہار کرے کہ یہ نبی جو ہم تم میں بھیج رہے ہیں وہ ایسا ہے کہ اس کائنات کا ذرّہ ذرّہ اور خو د خدا اس پر دُرود بھیجتا ہے اوراس کا آنا ربّ کا آنا ہے ۔چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

“اور کئی مقام قرآن شریف میں اشارات اور تصریحات سے بیان ہوا ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم مظہر اتم ّالوہیّت ہیں اور ان کا کلام خدا کا کلام اور ان کا ظہور خدا کا ظہور اور ان کا آنا خدا کا آنا ہے چنانچہ قرآن شریف میں اِس بارے میں ایک یہ آیت بھی ہے وَ قُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِل اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا ۔کہہ حق آیا اور باطل بھاگ گیا اور باطل نے بھاگنا ہی تھا۔ حق سے مراد اس جگہ اللہ جلّ شانہ ٗاور قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔اور باطل سے مراد شیطان اور شیطان کا گروہ اور شیطانی تعلیمیں ہیںسو دیکھو اپنے نام میں خدا ئے تعالیٰ نے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو کیونکر شامل کرلیا اور آنحضرت کا ظہور فرمانا خدا تعالیٰ کا ظہور فرمانا ہوا۔ ایسا جلالی ظہور جس سے شیطان مع اپنے تما م لشکروں کے بھاگ گیا اور اس کی تعلیمیں ذلیل اور حقیر ہوگئیں اور اس کے گروہ کو بڑی بھاری شکست آئی۔”

(سرمہ چشم آریہ۔روحانی خزائن جلد2صفحہ 277تا279حاشیہ )

دیکھیں حق کس شان سے آیا کہ تئیس برس کے قلیل عرصے میں عرب کی کایا پلٹ گئی اور وہ مقدس گھر جو بنی نوع انسان کی عبادت کے لیے اوّلین طور پر بنایا گیا تھا اور جسے عرب کے جاہل لوگوں نے خدا سے دُوری کے سبب تین سو ساٹھ بتوں سے سجا رکھا تھا اور خدائے واحد کے بجائے اس کے سامنے سجدہ ریز ہوتےتھے کس طرح پھر خدائے واحد کی توحید اتم کا مرکز بن گیااور آپ نے جَاءَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِل اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًاکہتے ہوئے اس گھر میں رکھے ہر بت کو خاک میں ملا دیا۔
اپنے رب کی محبت میں سرشار محمد عربی ﷺ مکہ کی گلیوں میں دیوانہ وار پھرتے ہیں لوگوں کو اس رب کا پیغام دیتے ہیں ان کو بتاتے ہیں کہ آؤآؤ !جس ربّ کی محبت میں مَیں سرشار ہوں جس کی محبوبیت نے مجھے اپنا گرویدہ کر لیا ہے تُم بھی اس کا عرفان حاصل کرو، اس کی محبت میں سرشار ہو جاؤ، لوگ اس پیغام کو دیوانے کی بڑ سمجھتے ہیں وہ کیسے اس خدا کو مان لیتے جس کو انہوں نے کبھی دیکھا ہی نہیں لیکن میرے آقا و مولیٰ نے نہ صرف یہ کہ ان کو اس خداکا پیغام دیا بلکہ اپنے وجود سے ان کو دکھا بھی دیا کہ دیکھوایک خدا ہے، اس کے نشانات تمہارے نفوس کے اندر ہیں ، اس کائنات میں بکھرے ہوئے ہیں، یہ آسمان جو ستاروں سے روشن ہے اس کے وجود کی دلیل ہے ، یہ سورج یہ چاند یہ زمین اس پر اُگنے والی روئیدگی، یہ ہوا کی سبک روی ، اس کا پہاڑوں جیسے جہازوں کو لے کرسمندر کی سطح پر چلنا، یہ اس کی عظیم الشان ہستی کی دلیل ہیں ۔وہ رحمان ہے ، اس نے تم کو پیدا کیا اور اس نے تمہارے لیے ہر وہ نعمت اتار دی جس کی تمہیں حاجت تھی اور بغیر تمہارے مطالبے اور استحقاق کے سب کچھ تمہیں عنایت کر دیا پس تم بھی اس کا ذکر اسی طرح کیا کرو جس طرح تم اپنے آبا ءکا ذکر کرتے ہو،اس کا نور میرے وجود میں در آیا ہے آؤ تم بھی اس کو دیکھو۔آؤ اور دیکھو کہ وہ خدا ایک ہے۔وہ کسی کا محتاج نہیں سب اس کے محتاج ،اس نے کسی کو نہیں جنا اور نہ وہ خود کسی وجود سے پیدا ہوا،اور اس کا تو کوئی ہم سر نہیں۔ یہ وہ پیغام تھا جو حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تمام تر وجود کے ساتھ بنی نوع انسان کو دیا ۔ آپؐ کا خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق ایک یار جانی کے ساتھ تعلق سے بڑھ کر تھا یہ تعلق تمام دنیاوی رشتوں اور تعلقات پر حاوی تھا۔ یہ پیار و محبت کے تمام دنیاوی معیاروں سے بالا تھا، یہ تعلق ایک محب و محبوب کا تعلق تھا ، یہ تعلق ایک ایسے گہرے دلی شوق پر منتج تھا جسے عشق کہتے ہیں ایک ایسا عشق جس کی گواہی کائنات کا ذرّہ ذرّہ دے رہا ہے، جس کی گواہی خود عرش کے خد ا نے یہ کہتے ہوئے دی کہ اگر تم میری محبت کو پانا چاہتے ہو تو میرے محبوب کی محبت کو پا لو،ایک ایسا عشق جس کی گواہی میں اہل مکہ کی زبان رطب اللّسان ہوئی ۔کیا سچ تھا یہ، محبت کا کیسا جادو تھا جو کفار کے بھی سر چڑھ کر بول رہا تھا، اور آپؐ کی مناجاتِ نیم شب میں حضرت داؤد کی یہ دعا شامل تھی

‘‘اے اللہ ! مجھے اپنی محبت عطا کر اور اُس کی محبت جس کی محبت مجھے تیرے حضور فائدہ بخشے۔ اے اللہ!میری دل پسند چیزیں جو تو مجھے عطا کرے ان کو اپنی محبوب چیز وں کے حصول کے لیے قوت کا ذریعہ بنا دے ۔اور میری وہ پیاری چیزیں جو تو مجھ سے علیحدہ کر دے ان کے بدلے اپنی پسندیدہ چیزیں مجھے عطا فرما دے۔(ترمذی)

سیدنا حضرت محمد ﷺ نے اپنے رب کریم سے جو تعلق پیدا کیا اور اس تعلق میں اس قدرآگے بڑھے کہ آپؐ مظہر اتمّ الوہیت کی مسند پر سرفراز ہوئے۔ آپؐ کا وجود خدا تعالیٰ کی تجلیات کا مظہر بن گیا اور اس کی صفات کے رنگ میں جس طرح رنگین ہوئے اس نے آپؐ کے وجود میں اپنی ا ن صفات کی تجلی بدرجۂ اتم پیدا کر دی۔آپؐ نے صفاتِ باری تعالیٰ کوا س طرح اپنے اندر سمو لیا کہ خود عرش کے خدا نے گواہی دی کہ

لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ
(التوبة 128)

ىقىناً تمہارے پاس تمہى مىں سے اىک رسول آىا اسے بہت سخت شاق گزرتا ہے جو تم تکلىف اٹھاتے ہو (اور)وہ تم پر (بھلائى چاہتے ہوئے)حرىص (رہتا)ہے مومنوں کے لیے بے حد مہربان (اور)بار بار رحم کرنے والا ہے۔

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود خدا تعالیٰ کے وجود میں اس طرح سے فنا ہوا کہ آپؐ اس مقام قرب پر پہنچ گئے کہ آپؐ کا دل خداتعالیٰ کی تجلی گاہ بن گیا اور یہ قرب اس طرح سے وقوع پذیر ہوا کہ جس قدر آپؐ خدا کے عشق میں سرشار ہو کر اس کے قریب ہوئے اسی قدر خدا بھی آپؐ کی محبت اور پیار میں آپؐ سے قریب ہوا اور یہ قرب اس قدر بڑھا کہ خدانے آپؐ کو عظیم الشان مقام ،مقام شفاعت عطا فرمایا ۔ یہ مقام تب ہی متحقق ہو سکتا ہے جب وجود شفیع اپنے مشفع کے ساتھ کامل تعلق رکھتا ہو ایک ایسا تعلق جہاں دوئی کا کوئی تصور نہ ہو اور دوسری طرف وجود شفیع ان لوگوں کے لیے جن کے حق میں یہ شفاعت کی جارہی ہوایک ایسا تعلق رکھتا ہو جہاں اس کا دل مخلوق خدا کی محبت میں گداز ہو اور ان کی ہمدردی اور پیار میں اس قدر گداز ہو کہ ان کے لیے اپنے تئیں ہلاکت میں ڈالنے سے بھی گریز نہ کرے اور مخلوق خدا کی تکلیف اور دکھ ا س کے قلب صافی میں ان کے لیے خدا کے قرب کے حصول کے لیے ایک تموّج اور ارتعاش کی کیفیت پیدا کر دے اور وہ ان کی تکلیف کو دُور کرنے کے لیے خدا کے حضور خشوع سے جھک جائے اور اس کے سینہ میں ان کی دَرد او ر تکلیف کو دُور کرنے کے لیے جذبات محبت کا تلاطم پیدا ہو کر آنکھوں سے چھلکنے لگے۔ صفات باری کےمظہر اتم حضرت محمد فداہ ابی وامی و روحی و جنانی ﷺ کو مخلوق خدا سے تعلق کا یہی جذبہ عطا ہوا تھا ۔سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپؐ کے اس عظیم الشان مقام شفاعت کی بابت اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

‘‘شخص شفیع کے لیے جیسا کہ ابھی مَیں نے بیان کیا ہے کہ ضروری ہے کہ خدا سے اس کو ایک ایسا گہرا تعلّق ہو کہ گویا خدا اُس کے دل میں اُترا ہوا ہو اور اس کی تمام انسانیت مر کر بال بال میں لاہوتی تجلّی پیدا ہوگئی ہو۔ اور اس کی رُوح پانی کی طرح گداز ہوکر خدا کی طرف بہ نکلی اور اس طرح پر قرب کے انتہائی نقطہ پر جا پہنچی ہو۔ اور اسی طرح شفیع کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ جس کے لیے وہ شفاعت کرنا چاہتا ہے اُس کی ہمدردی میں اس کا دل ہاتھ سے نکلا جاتا ہو ایسا کہ عنقریب اس پر غشی طاری ہوگی۔ اور گویا شدّتِ قلق سے اس کے اعضاء اُس سے علیحدہ ہوتے جاتے ہیں اور اُس کے حواس منتشر ہیں۔ اور اُس کی ہمدردی نے اُس کو اس مقام تک پہنچایا ہو کہ جو باپ سے بڑھ کر اور ماں سے بڑھ کر اور ہر ایک غمخوار سے بڑھ کر ہے۔ پس جب یہ دونوں حالتیں اس میں پیدا ہوجائیں گی تو وہ ایسا ہوجائیگا کہ گویا وہ ایک طرف سے لاہوتؔ کے مقام سے جفت ہے اور دوسری طرف ناسوتؔ کے مقام سے جفت۔ تب دونوں پلّہ میزان کے اُس میں مساوی ہونگے۔ یعنی وہ مظہرؔلاہوت کامل بھی ہوگا اور مظہر ناسوتؔ کامل بھی اور بطور برزخ دونوں حالتوں میں واقع ہوگا۔ اس طرح پر

لاہوت
مقام شفع
ناسوت

اس مقامِ شفاعت کی طرف قرآن شریف میں اشارہ فرما کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انسان کامل ہونے کی شان میں فرمایا ہے دَنَا فَتَدَلّٰی فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ ادْنٰی۔ یعنی یہ رسول خدا کی طرف چڑھا۔ اور جہاں تک امکان میں ہے خدا سے نزدیک ہوا۔ اور قرب کے تمام کمالات کو طے کیا اور لاہوؔتی مقام سے پورا حصہ لیا۔ اور پھر ناسوت کی طرف کامل رجوع کیا۔ یعنی عبودیت کے انتہائی نقطہ تک اپنے تئیں پہنچایا اور بشریت کے پاک لوازم یعنی بنی نوع کی ہمدردی اور محبت سے جو ناسوتی کمال کہلاتا ہے پورا حصہ لیا ۔ لہذا ایک طرف خدا کی محبت میں اور دوسری طرف بنی نوع کی محبت میں کمال تام تک پہنچا۔پس چونکہ وہ کامل طور پر خدا سے قریب ہوا اور پھر کامل طور پر بنی نوع سے قریب ہوا۔ اس لیے دونوں طرف کے مساوی قرب کی وجہ سے ایسا ہوگیا جیسا کہ دو قوسوں میں ایک خط ہوتا ہے۔ لہذا وہ شرط جو شفاعت کے لیے ضروری ہے اس میں پائی گئی اور خدا نے اپنے کلام میں اس کے لیے گواہی دی کہ وہ اپنے بنی نوع میں اور اپنے خدا میں ایسے طور سے درمیان ہے جیسا کہ وتر دو قوسوں کے درمیان ہوتا ہے۔

(ریویو آف ریلیجنزاردو جلد اوّل صفحہ178تا187)

گویا مظہر اتم الوہیت ہونے کا مقام تب ہی اپنے کمال تام کو پہنچتا ہے جب آپ کا وجود ایک طرف خدا کی محبت میں سرشار ہواورمحبت کی یہ سرشاری اور کیفیت آپ میں بدرجہ اتم موجود تھی جس کا اشارہ آیت وَ وَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰیمیں کیا گیا ہے کہ اس مقتدر اور مالک خدا نے تجھے خدا کی محبت میں دیوانہ وار سرگرداں پایا اور تجھے اپنے وجود کی طرف ہدایت سے نوازا۔ اور دوسری طرف مخلوق خدا کی ہمدردی بھی آپ کے دل میں پوری طرح سے جاگزیں ہو اور یہ امر بھی آپ کی ذات میں اپنی کامل کیفیات کے ساتھ موجود تھا بنی نوع انسا ن کی ہمدردی میں بھی آپ کا دل گداز تھا اور دوست اور دشمن سب آپ سے فیض پارہے تھے۔جس کی جانب لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ(کىا تو اپنى جان کو اس لیے ہلاک کر دے گا کہ وہ مومن نہىں ہوتے (الشعراء :4)میں اشارہ کیا گیا ہے ۔ مخلوق خدا سے ہمدردی کی آپ کی اس کیفیت کو نزول وحی کے وقت ہی آپ کی زوجہ مطہرہ حضر ت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے بھانپ لیا اور آپ کی نسبت جو گواہی دی اس میں آپ کی مخلوق خدا سے ہمدردی کا اظہار اور آپ کی اس دلی کیفیت کی گواہی ہے جو آپ کے دل میں بنی نوع انسان سے محبت پیار اور ان کے حقوق کی ادائیگی کی نسبت تھی بخاری کتاب بدء الوحی میں آیا ہے

فَرَجَعَ بِهَا رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْجُفُ فُؤَادُهُ، فَدَخَلَ عَلَى خَدِيجَةَ بِنْتِ خُوَيْلِدٍ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهَا، فَقَالَ: ‘‘زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي’’ فَزَمَّلُوهُ حَتّٰى ذَهَبَ عَنْهُ الرَّوْعُ، فَقَالَ لِخَدِيجَةَ وَأَخْبَرَهَا الخَبَرَ: ‘‘لَقَدْ خَشِيتُ عَلَى نَفْسِي’’ فَقَالَتْ خَدِيجَةُ: كَلَّا وَاللّٰهِ مَا يُخْزِيكَ اللّٰهُ أَبَدًا، إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الكَلَّ، وَتَكْسِبُ المَعْدُومَ، وَتَقْرِي الضَّيْفَ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الحَقِّ۔

نزول وحی کے بعد حضور اس پیغام کو لے کر گھر لوٹے آپؐ کا دل کانپ رہا تھا آپؐ حضرت خدیجہ کے پاس آئے اور ان سے فرمایا کہ مجھے چادر اوڑھا دو مجھے چادر اوڑھا دواہل خانہ نے آپؐ پر چادر ڈال دی یہاں تک کہ آپ کے دل سے گھبراہٹ جاتی رہی پھر آپؐ نے حضرت خدیجہ سے ساری بات (وحی کے آنے کی )بیان کی اور فرمایا کہ مجھے تو اپنے جان کے لالے پڑ گئے ہیں اس پر حضرت خدیجہ نے کہا کہ ہرگز نہیں خدا کی قسم! وہ اللہ آپؐ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا کیونکہ آپؐ صلہ رحمی کرتے ہیں، لوگوں کے بوجھ بانٹتے ہیں ، اخلاق گم گشتہ کو حاصل کرتے ہیں ، مہمان نوازی کرتےہیں اور لوگوں پر پڑنے والی حقیقی مصیبتوں میں ان کی مدد پر کمر بستہ ہوتے ہیں ۔
جب آ پؐ پر بار نبوت ڈالا گیا تو یہ کیفیات پہلے سے بڑھ کر نمایاں ہونے لگیں ۔ اگر اس پہلو سے آپؐ کی زندگی کا جائز ہ لیا جائے تو آپؐ کے اندر صفات باری رحمانیت ، رحیمیت ، ربوبیت اور مالکیت کا ظلی طور پر اظہار اس طرح کھل کر ہوا کہ بنی نوع انسان میں کسی وجود میں آج تک اس طرح سے خدا تعالیٰ کے صفات کا اس طرح مظہر بننے کا اظہار نہیں ہوا۔

خدا تعالیٰ رحمان ہے اور اس کی یہ صفت بنی نوع انسان بلکہ نباتا ت ،حیوانات ، جمادات ،غرضیکہ ہر چیز میں جو اس نے خلق کی ہے کسی نہ کسی رنگ میں جاری ہوتی ہے۔حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم خدائے عز و جل شانہٗ کی اس صفت کے مظہر اتم تھے ۔ آپ کی اس صفت کا فیضان بغیر کسی استحقاق کے بنی نوع انسان پر جاری ہے اسی لیے خدا تعالیٰ نے آپ کی ذات کی اس تجلی کا ذکر کرتے ہوئے آپ کو رحمۃ للعالمین قرار دیا ۔ اور یہ رحمت بنی نوع انسان کے ساتھ ساتھ ہر نوع کی اشیاء کے لیے عام ہے۔اور بلا استحقاق ہے۔ خداتعالیٰ کی بنیادی اور اہم ترین صفات میں یہ صفت بنی نوع انسان کے لیے و ہ فیض عام ہے جس کی بدولت اس کائنات کا نظام چل رہا ہے۔جب ہم اس صفت کی تجلی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وجو د میں دیکھتے ہیں تو ہم پاتے ہیں کہ آپؐ کا فیضان روحانی ہر ا س شخص کو بلا استحقاق فیضیاب کرتا ہے جو ان تعلیمات اور اصولوں کو اپنا حرز جان بنا لیتا ہے جو خدا تک جانے کی راہیں آسان کرتے ہیں ۔یہ فیضان جو رحمانیت کا پرتو ہے اوّل دن سے ہے آپ کے وجود سے پھوٹ رہا ہے۔ جس طرح آفتاب اس کائنات میں ہر فرد کو بلا استحقاق اپنی روشنی اور گرمی سے فیضیاب کر رہا ہے اسی طرح آفتاب روحانیت جسے قرآن کریم میں سِرَاجًا مُنِیْرً ا کے لقب سے ملقب کیا گیا ہے ان تمام روحوں کو اپنے فیض روحانی سے فیضیاب کرتا ہے جو اس کی روشنی میں آتی ہیں۔اور اس فیضان کی بدولت ہی ہم پر یہ کھلا کہ دنیا میں خد اتعالیٰ نے بنی نوع انسان پر روحانیت کے دروازوں کو کب کب اور کس طرح کھولا۔اور یہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مظہر رحمانیت ہونے کی ہی وجہ ہے کہ ہم آج ان وجودوں کے نام سے آشنا ہیں جنہیں خدا تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی ہدایت کے لیے وقتاً فوقتاً بھیجا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

‘‘جب سے کہ آفتابِ صداقت ذاتِ بابرکت آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم دنیا میں آیا۔اُسی دم سے آج تک ہزار ہا نفوس جو استعداد اور قابلیت رکھتے تھے متابعت کلامِ الٰہی اور اتباعِ رسول مقبولؐ سے مدارجِ عالیہ مذکورہ بالا تک پہنچ چکے ہیں اور پہنچتے جاتے ہیں۔ اور خدا تعالیٰ اس قدر اُن پر پے درپے اور علی الاتصال تلطّفات و تفضلات وارد کرتا ہے اور اپنی حمأیتیں اور عنائتیں دکھلاتا ہے کہ صافی نگاہوں کی نظر میں ثابت ہوجاتا ہے کہ وہ لوگ منظورانِ نظرِ احدیت سے ہیں۔ جن پر لطفِ ربّانی ایک عظیم الشّان سایہ اور فضل ِ یزدانی کا ایک جلیل القدر پَیرایہ ہے اور دیکھنے والوں کوصریح دکھائی دیتا ہے کہ وہ انعاماتِ خارقِ عادت سے سرفراز ہیں اور کراماتِ عجیب و غریب سے ممتاز ہیں اور محبوبیت کے عطر سے معطّرہیں۔ اور مقبولیت کے فخروں سے مفتخر ہیں۔ اور قادرِ مطلق کا نور ان کی صحبت میں اُن کی توجہ میں اُن کی ہمت میں اُن کی دُعا میں اُن کی نظر میں اُن کے اخلاق میں اُن کی طرز معیشت میں اُن کی خوشنودی میں اُن کے غضب میں اُن کی رغبت میں۔ اُن کی نفرت میں اُن کی حرکت میں اُن کے سکون میں اُن کے نطق میں اُن کی خاموشی میں اُن کے ظاہر میں اُن کے باطن میں ایسا بھرا ہؤا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے ایک لطیف اور مصفّا شیشہ ایک نہایت عمدہ عطر سے بھرا ہؤا ہوتا ہے۔ اور اُن کے فیض صحبت اور ارتباط اور محبت سے وہ باتیں حاصل ہوجاتی ہیں کہ جو ریاضاتِ شاقہ سے حاصل نہیں ہوسکتیں اور اُن کی نسبت ارادت اور عقیدت پیدا کرنے سے ایمانی حالت ایک دوسرا رنگ پیدا کرلیتی ہے اور نیک اخلاق کے ظاہر کرنے میں ایک طاقت پیدا ہوجاتی ہے۔ اور شوریدگی اور امّارگی نفس کی روبکمی ہونے لگتی ہے اور اطمینان اور حلاوت پیدا ہوتی جاتی ہے۔ اور بقدر استعداد اور مناسبت ذوقِ ایمانی جوش مارتا ہے اور اُنس اور شوق ظاہر ہوتا ہے اور التذاذبذکر اللہ بڑھتا ہے۔ اور اُن کی صحبت طویلہ سے بضرورت یہ اقرار کرنا پڑتا ہے کہ وہ اپنی ایمانی قوتوں میں اور اخلاقی حالتوں میں اور انقطاع عن الدنیا میں توجہ الی اللہ میں اور محبتِ الٰہیہ میں اور شفقت علی العباد میں اور وفا اور رضا اور استقامت میں اس عالی مرتبے پر ہیں جس کی نظیر دنیا میں نہیں دیکھی گئی۔ اور عقلِ سلیم فی الفور معلوم کرلیتی ہے کہ وہ بند اور زنجیر اُن کے پائوں سے اتارے گئے ہیں جن میں دوسرے لوگوں کے سینے منقبض اور کوفتہ خاطر ہیں۔ ایسا ہی وہ لوگ تحدیث اور مکالماتِ حضرتِ احدیت سے بکثرت مشرف ہوتے ہیں اور متواتر اور دائمی خطابات کے قابل ٹھہر جاتے ہیں اور حقّ جلّ و علا اور اُس کے مستعد بندوں میں ارشاد اور ہدایت کے لیے واسطہ گردانے جاتے ہیں۔ اُن کی نورانیت دوسرے دلوں کو منور کردیتی ہے۔ اور جیسے موسم بہار کے آنے سے نباتی قوتیں جوش زن ہوجاتی ہیں ایسا ہی ان کے ظہور سے فطرتی نور طبائع سلیمہ میں جوش مارتے ہیں اور خود بخود ہر ایک سعید کا دل یہی چاہتا ہے کہ اپنی سعادت مندی کی استعدادوں کو بکوشش تمام منصّہ ظہور میں لاوے اور خواب غفلت کے پردوں سے خلاصی پاوے اور معصیت اور فسق و فجور کے داغوں سے اور جہالت اور بے خبری کی ظلمتوں سے نجات حاصل کرے۔ سو اُن کے مبارک عہد میں کچھ ایسی خاصیت ہوتی ہے اور کچھ اس قسم کا انتشار نورانیت ہوجاتا ہے کہ ہر ایک مومن اور طالب حق بقدر طاقتِ ایمانی اپنے نفس میں بغیر کسی ظاہری موجب کے انشراح اور شوق دینداری کا پاتا ہے اور ہمت کو زیارت اور قوت میں دیکھتا ہے۔ غرض اُن کے اس عطر لطیف سے جو اُن کو کامل متابعت کی برکت سے حاصل ہؤا ہے ہرایک مخلص کو بقدر اپنے اخلاص کے حظ پہنچتا ہے۔ ہاں جو لوگ شقی ازلی ہیں وہ اس سے کچھ حصّہ نہیں پاتے بلکہ اَور بھی عناد اور حسد اور شقاوت میں بڑھ کر ہاویہ جہنم میں گرتے ہیں۔ اِسی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ختم اللّٰہ علٰی قلوبھم۔’’

(روحانی خزائن جلد اول ،براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 529تا532حاشیہ در حاشیہ نمبر 3)

پھر فرماتے ہیں:

‘‘دنیا میں کروڑ ہا ایسے پاک فطرت گذرے ہیں اور آگے بھی ہونگے۔ لیکن ہم نے سب سے بہتر اور سب سے اعلیٰ اور سب سے خوب تر اس مرد خداکو پایا ہے جس کا نام ہے محمّد صلّی اللّٰہ علیہ وآلہٖ وسلم۔

اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلٰی النَّبِیِّ۔یٰٓآ اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(الاحزاب:57)

ان قوموں کے بزرگوں کا ذکر تو جانے دو جن کا حال قرآن شریف میں تفصیل سے بیان نہیں کیا گیا صرف ہم اُن نبیوں کی نسبت اپنی رائے ظاہر کرتے ہیں جن کا ذکر قرآن شریف میں ہے۔جیسے حضرت موسیٰ حضرت دائود حضرت عیسیٰ علیہم السلام اور دوسرے انبیاء سو ہم خدا کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں نہ آتے اور قرآن شریف نازل نہ ہوتا اور وہ برکات ہم بچشم خود نہ دیکھتے جو ہم نے دیکھ لیے تو ان تمام گذشتہ انبیاء کا صدق ہم پر مشتبہ رہ جاتاکیونکہ صرف قصّوں سے کوئی حقیقت حاصل نہیں ہوسکتی اور ممکن ہے کہ وہ قصّے صحیح نہ ہوں اور ممکن ہے کہ وہ تمام معجزات جو اُن کی طرف منسوب کیے گئے ہیں وہ سب مبالغات ہوں کیونکہ اب ان کا نام و نشان نہیں۔ بلکہ ان گذشتہ کتابوں سے تو خدا کا پتہ بھی نہیں لگتا اور یقینا ًسمجھ نہیں سکتے کہ خدا بھی انسان سے ہم کلام ہوتا ہے ۔ لیکن آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے یہ سب قصّے حقیقت کے رنگ میں آگئے۔ اب ہم نہ قال کے طور پر بلکہ حال کے طور پر اس بات کو خوب سمجھتے ہیں کہ مکالمہ الٰہیہ کیا چیز ہوتا ہے اور خدا کے نشان کس طرح ظاہر ہوتے ہیں اور کس طرح دُعائیں قبول ہو جاتی ہیں اوریہ سب کچھ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے پایا اور جو کچھ قصوں کے طور پر غیر قومیں بیان کرتی ہیں وہ سب کچھ ہم نے دیکھ لیا۔ پس ہم نے ایک ایسے نبی کا دامن پکڑا ہے جو خدا نما ہے۔ کسی نے یہ شعر بہت ہی اچھا کہا ہے ؎

محمدؐ عربی بادشا ہِ ہر دو سرا

کرے ہے رُوح قدس جس کے دَر کی دربانی

اسے خدا تو نہیں کہہ سکوں پہ کہتا ہوں

کہ اُس کی مرتبہ دانی میں ہے خدا دانی

ہم کس زبان سے خدا کا شکر کریں جس نے ایسے نبی کی پیروی ہمیں نصیب کی جو سعیدوںکی ارواح کے لیے آفتاب ہے جیسے اجسام کے لیے سورج۔ وہ اندھیرے کے وقت میں ظاہر ہوا اور دنیا کو اپنی روشنی سے روشن کردیا۔ وہ نہ تھکا نہ ماندہ ہوا جب تک کہ عرب کے تمام حصہ کو شرک سے پاک نہ کردیا۔ وہ اپنی سچائی کی آپ دلیل ہے کیونکہ اس کا نور ہر ایک زمانہ میں موجود ہے اور اس کی سچی پیروی انسان کو یوں پاک کرتی ہے کہ جیسا ایک صاف اور شفّاف دریا کا پانی میلے کپڑے کو۔ کون صدق ِدل سے ہمارے پاس آیا جس نے اس نور کا مشاہدہ نہ کیا اور کس نے صحت نیت سے اس دروازہ کو کھٹکھٹایا جو اس کے لیے کھولا نہ گیا۔ لیکن افسوس !کہ اکثر انسانوں کی یہی عادت ہے کہ وہ سفلی زندگی کو پسند کرلیتے ہیں اور نہیں چاہتے کہ نور اُن کے اندر داخل ہو۔

(چشمہ معرفت ،روحانی خزائن جلد23صفحہ301تا303)

آپ کی سیرت کے واقعات پر ایک نظر ڈالنے سے یہ امر کھل کر سامنے آجاتا ہے ۔ اپنے بچپن کے ان ایام سے لے کر جب ابھی بچپن کے دن ہوا نہیں ہوئے تھے آپ کے وجود سے خدا کی محبت کے آثار نمایاں ہونے لگے تھے۔ واقعہ شقِ صدر جس میں دو فرشتوں نے آپؐ کے دل کومحبت الٰہی سے ممتزج صافی پانی سے دھویا اور اسے تمام دنیاوی آلائشوں اور ملونیوں سے پاک کر دیا دراصل خدا کی آپ سے محبت اور پیار کا مظہر ہے۔ وہ وجود جس کو خدا نے اپنی صفات کا مظہر اتم بنانا تھا اس کے وجود کو ان تمام دنیاوی علائق سے پاک کر دیا جو اس کی محبت اور اس کے درمیان حائل ہو سکتے تھے۔ اور اس کی گواہی ہمیں قرآن کریم میں جابجا ملتی ہے چنانچہ آپ کی زبان فیض ترجمان پر خدا تعالیٰ کے اس کلام کا جاری ہونا کہ میری نماز اور قربانیاں اور مرنا اور میرا جینا خدا کی خاطر ہے جو تمام جہانوں کا پالنےوالا ہے اسی گواہی کا اظہار ہے۔

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں:

‘‘اور پھر ایک اور مقام میں آپ کے الٰہی قرب کی نسبت یوں فرمایا:۔

قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِی وَمَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہ رَبِّ العٰلَمِیْنَ۔

یعنی لوگوں کو اطلاع دیدے کہ میری یہ حالت ہے کہ مَیں اپنے وجود سے بالکل کھویا گیا ہوں۔ میری تمام عبادتیں خدا کے لیے ہوگئی ہیں…یہ آیت بتلا رہی ہے کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم اس قدر خدا میں گم اور محو ہوگئے تھے کہ آپ کی زندگی کے تمام انفاس اور آپ کی موت محض خدا تعالیٰ کے لیے ہوگئی تھی۔ اور آپ کے وجود میں نفس اور مخلوق اور اسباب کا کچھ حصہ باقی نہیں رہا تھا اور آپ کی رُوح خدا کے آستانے پر ایسے اخلاص سے گِری تھی کہ اس میں غیر کی ایک ذرّہ آمیزش نہیں رہی تھی…اور چونکہ خدا سے محبت کرنا اور اس کی محبت میں اعلیٰ مقامِ قرب تک پہنچنا ایک ایسا امر ہے جو کسی غیر کو اس پر اطلاع نہیں ہوسکتی اس لیے خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے ایسے افعال ظاہر کیے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے درحقیقت تمام چیزوں پر خدا کو اختیار کرلیا تھا اور آپ کے ذرّہ ذرّہ اور رگ و ریشہ میںخدا کی محبت اور خدا کی عظمت ایسی رچی ہوئی تھی کہ گویا آپ کا وجود خدا کی تجلیات کے پورے مشاہدہ کے لیے ایک آئینہ کی طرح تھا۔ خدا کی محبت کاملہ کے آثار جس قدر عقل سوچ سکتی ہے وہ تمام آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم میں موجود تھے۔

(ریویو آف ریلینجز اردو جلد اوّل صہ 175تا187)

آپ اپنے رب کے قرب میں اس قدر آگے بڑھے اور صفات میں ا س طرح رنگین ہوئے کہ آپ کے وجودسے وہ صفات ایک صافی آئینہ میں جھلکنے والے عکس کی طرح جھلکنے لگیں۔ مقام قرب کو پانے کی وجہ سے یہ صفات آپ میں کامل طور پر منعکس ہونے لگیں ۔ قرآن کریم میں آپ کے اس مقام عظیم کی طرف جابجا اشارہ کیا گیا ہے۔اور اسی لیے صحف الہٰیہ میں آپ کے مقام قرب کی وجہ سے آپ کے آنے کو روح حق کا آنا اور آپ کے وجود کو خدا کا کامل مظہر قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

‘‘ہمارے سیّدو مولیٰ جناب مقدس خاتم الا نبیاء کی نسبت صرف حضرت مسیحؑ نے ہی بیان نہیں کیاکہ آنجناب کادنیا میں تشریف لانا درحقیقت خدا ئے تعالیٰ کا ظہور فرمانا ہے بلکہ اس طرز کا کلام دوسرے نبیوں نے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں اپنی اپنی پیشگوئیوں میں بیان کیا ہے اور استعارے کے طور پر آنجناب کے ظہور کو خدائے تعالیٰ کا ظہور قرار دیا ہے بلکہ بوجہ خدائی کے مظہر اتم ہونے کے آنجناب کو خدا ؔکر کے پکارا ہے۔ چنانچہ حضرت داؤد کے زبور میں لکھا ہے تُو حسن میں بنی آدم سے کہیں زیادہ ہے ۔ تیرے لبوں میں نعمت بنائی گئی ۔ اس لیے خدا نے تجھ کو ابد تک مبارک کیا (یعنی تُو خاتم الانبیاء ٹھہرا)اے پہلوان تُو جاہ وجلال سے اپنی تلوار حمائل کرکے اپنی ران پر لٹکا ۔امانت اور حلم اور عدالت پر اپنی بزرگواری اور اقبال مندی سے سوار ہو کر تیرا دہنا ہاتھ تجھے ہیبت ناک کام دکھائے گا۔ بادشاہ کے دشمنوں کے دلوں میں تیرے تیر تیزی کرتے ہیں۔ لوگ تیرے سامنے گڑ جاتے ہیں ۔ اے خدا تیرا تخت ابدالا ٓباد ہے ۔ تیری سلطنت کا عصا راستی کا عصا ہے ۔ تو نے صدق سے دوستی اور شر سے دشمنی کی ہے اسی لیے خدا نے جو تیرا خدا ہے خوشی کے روغن سے تیرے مصاحبوں سے زیادہ تجھے معطّر کیا ہے (دیکھو زبور 45)

اب جاننا چاہیے کہ زبور کا یہ فقرہ کہ اے خدا تیرا تخت ابدالآباد ہے ۔ تیری سلطنت کا عصا راستی کا عصا ہے یہ محض بطور استعارہ ہے ۔ جس سے غرض یہ ہے کہ جو روحانی طور پر شانِ محمدی ہے اُس کو ظاہر کر دیا جائے۔ پھر یسعیاہ نبی کی کتاب میں بھی ایسا ہی لکھا ہے چنانچہ اسکی عبارت یہ ہے ۔

‘‘دیکھو میرا بندہ جسے میں سنبھالوں گا ۔ میرا برگزیدہ جس سے میرا جی راضی ہے میں نے اپنی روح اُس پر رکھی ۔ وہ قوموں پر راستی ظاہر کرے گا وہ نہ چلاّئے گا اور اپنی صدابلند نہ کرے گا اور اپنی آواز بازاروں میں نہ سُنائے گا ۔ وہ مسلے ہوئے سینٹھے کو نہ توڑے گا اور سن کو جس سے دُھؤاں اُٹھتا ہے نہ بجھائے گا جب تک کہ راستی کو امن کے ساتھ ظاہر نہ کرے وہ نہ گھٹے گا نہ تھکے گا جب تک کہ راستی کو زمین پر قائم نہ کرے اور جزیرے اس کی شریعت کے منتظر ہوویں …خدا وند خدا ایک بہادر کی مانند نکلے گا وہ جنگی مرد کی مانند اپنی غیرت کو اُکسا ئے گا۔ الخ
[یسعیاہ :باب 42آیت 1تا 23]

اب جاننا چاہیے کہ یہ فقرہ کہ خدا وند خدا ایک بہادر کی مانند نکلے گا یہ بھی بطور استعارہ کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پُر ہیبت ظہور کا اظہار کر رہا ہے ۔ دیکھو یسعیاہ نبی کی کتاب باب 42اور ایسا ہی اور کئی نبیوں نے بھی اس استعارہ کو اپنی پیشگوئیوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں استعمال کیا ہے۔

(توضیح مرام ،روحانی خزائن جلد 3صفحہ 65تا67حاشیہ)

چنانچہ جیسا کہ پہلے ذکر گزر چکا ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر قرآن کریم میں مظہر شان الوہیت کے طور پربھی کیا گیا ہے اور آپ کی اس شان مظہر الوہیت کی وجہ سے ہی آپ کے ہاتھوں سے ایسے خارق عادت امور سرزد ہوئے جو بشریت کی طاقت سے بڑھ کر تھے اور اپنے اندر الٰہی طاقت کا رنگ رکھتے تھے اور یہ وہ امور ہیں جن کی نسبت قرآن کریم نے اشارہ کیا ہے۔چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

‘‘اِس درجہ لقاء میں بعض اوقات انسان سے ایسے امور صادر ہوتے ہیں جو بشریت کی طاقتوں سے بڑھے ہوئے معلوم ہوتے ہیں اور الٰہی طاقت کا رنگ اپنے اندر رکھتے ہیں جیسے ہمارے سیّد و مولیٰ سیّد الرسل حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ بدرمیں ایک سنگریزوں کی مٹھی کفار پر چلائی اور وہ مٹھی کسی دعا کے ذریعے سے نہیں بلکہ خود اپنی روحانی طاقت سے چلائی مگر اُس مٹھی نے خُدائی طاقت دکھلائی اور مخالف کی فوج پر ایسا خارق عادت اس کا اثر پڑا کہ کوئی اُن میں سے ایسا نہ رہا کہ جس کی آنکھ پر اس کا اثر نہ پہنچا ہو۔ اور وہ سب اندھوں کی طرح ہوگئے اور ایسی سراسیمگی اور پریشانی اُن میں پیدا ہوگئی کہ مدہوشوں کی طرح بھاگنا شروع کیا۔ اِسی معجزہ کی طرف اللہ جلّ شانہٗ اس آیت میں اشارہ فرماتا ہے۔ وَمَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمیٰ۔یعنی جب تُونے اُس مٹھی کو پھینکا وہ تو نے نہیں پھینکا بلکہ خدا تعالیٰ نے پھینکا۔ یعنی درپردہ الٰہی طاقت کام کر گئی۔ انسانی طاقت کا یہ کام نہ تھا۔

اور ایسا ہی دوسرا معجزہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جو شق القمر ہے اسی الٰہی طاقت سے ظہور میں آیا تھا ۔ کوئی دُعا اس کے ساتھ شامل نہ تھی کیونکہ وہ صرف انگلی کے اشارہ سے جو الٰہی طاقت سے بھری ہوئی تھی وقوع میں آگیا تھا۔ اور اس قسم کے اَور بھی بہت سے معجزات ہیں جو صرف ذاتی اقتدار کے طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھلائے جن کے ساتھ کوئی دعا نہ تھی کئی دفعہ تھوڑے سے پانی کو جو صرف ایک پیالہ میں تھا اپنی انگلیوں کو اُس پانی کے اندر داخل کرنے سے اس قدر زیادہ کردیا کہ تمام لشکر اور اونٹوں اور گھوڑوں نے وہ پانی پیا اور پھر بھی وہ پانی ویسا ہی اپنی مقدار پر موجود تھا۔ اور کئی دفعہ دو چار روٹیوں پر ہاتھ رکھنے سے ہزارہا بھوکو ں پیاسوں کا اُن سے شکم سیر کردیا۔ اور بعض اوقات تھوڑے دودھ کو اپنے لبوں سے برکت دے کر ایک جماعت کا پیٹ اس سے بھردیا۔ اور بعض اوقات شور آب کنوئیں میں اپنے مُنہ کا لعاب ڈال کر اُس کو نہایت شیریں کردیا۔ اور بعض اوقات سخت مجروحوں پر اپنا ہاتھ رکھ کر ان کو اچھا کردیا۔ اور بعض اوقات آنکھوں کو جن کے ڈیلے لڑائی کے کسی صدمہ سے باہر جا پڑے تھے اپنے ہاتھ کی برکت سے پھر درست کردیا۔ ایسا ہی اَو ربھی بہت سے کام اپنے ذاتی اقتدار سے کیے جن کے ساتھ ایک چھُپی ہوئی طاقت الٰہی مخلوط تھی۔

(آئینہ کمالات اسلام،روحانی خزائن جلد 5 صفحہ65تا66)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button