نوعِ انسان پر شفقت اور اس سے ہمدردی بہت بڑی عبادت ہے
اللہ تعالیٰ بہت رحیم و کریم ہے۔ وہ ہر طرح انسان کی پرورش فرماتا اور اس پر رحم کرتا ہے اور اسی رحم کی وجہ سے وہ اپنے ماموروں اور مرسلوں کو بھیجتا ہے تا وہ اہل دنیا کو گناہ آلود زندگی سے نجات دیں۔ مگر تکبّر بہت خطرناک بیماری ہے۔ جس انسان میں یہ پیدا ہو جاوے اس کے لیے روحانی موت ہے۔ میں یقیناً جانتا ہوں کہ یہ بیماری قتل سے بھی بڑھ کر ہے۔ متکبر شیطان کا بھائی ہو جاتا ہے اس لیے کہ تکبّر ہی نے شیطان کو ذلیل و خوار کیا۔ اس لیے مومن کی یہ شرط ہے کہ اس میں تکبّر نہ ہو بلکہ انکسار، عاجزی، فروتنی اس میں پائی جائے اور یہ خدا تعالیٰ کے ماموروں کا خاصہ ہوتا ہے۔ ان میں حد درجہ کی فروتنی اور انکسار ہوتا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم میںیہ وصف تھا۔ آپ کے ایک خادم سے پوچھا گیا کہ تیرے ساتھ آپؐ کا کیا معاملہ ہے۔اس نے کہا کہ سچ تو یہ ہے کہ مجھ سے زیادہ وہ میری خدمت کرتے ہیں۔ (اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ وَ بَارِکْ وَسَلِّمْ)یہ ہے نمونہ اعلیٰ اخلاق اور فروتنی کا۔ اور یہ بات بھی سچ ہے کہ زیادہ تر عزیزوں میں خدام ہوتے ہیں جو ہر وقت گرد و پیش حاضر رہتے ہیں۔ اس لیے اگر کسی کے انکسار وفروتنی اور تحمل و برداشت کا نمونہ دیکھنا ہو تو ان سے معلوم ہو سکتا ہے۔ بعض مرد یا عورتیں ایسی ہوتی ہیں کہ خدمتگار سے ذرا کوئی کام بگڑا مثلاً چائے میں نقص ہوا تو جھٹ گالیاں دینی شروع کر دیں یا تازیانہ لے کر مارنا شروع کر دیا اور ذرا شوربے میں نمک زیادہ ہو گیا بس بیچارے خدمت گاروں پر آفت آئی۔
دوسرے غرباء کے ساتھ معاملہ تب پڑتا ہے کہ وہ فاقہ مست ہوتے ہیں اور خشک روٹی پر گذاراہ کر لیتے ہیں۔ مگر یہ باوجود علم ہونے کے بھی پروا نہیں کرتے۔ وہ ان کو امتحان میں ڈالتے ہیں جب بصورت سائل آتے ہیں۔ خدا تعالیٰ تو ذرہ ذرہ کا خالق ہے کوئی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ یہ غریبوں کے ساتھ ہی معاملہ کر کے سمجھا جاتا ہے کہ کس قدر ناخدا ترسی یا خدا ترسی سے حصہ لیتا ہے یا لے گا۔
ایک حدیث میں آیا ہے کہ قیامت میں اللہ تعالیٰ بعض بندوں سے فرمائے گا کہ تم بڑے بر گزیدہ ہو اور میں تم سے بہت خوش ہوں کیونکہ میں بہت بُھوکا تھا تم نے مجھے کھانا کھلایا۔ میں ننگا تھا تم نے کپڑا دیا۔ میں پیاسا تھا تم نے مجھے پانی پلایا۔ میں بیمار تھا تم نے میری عیادت کی۔ وہ کہیں گے کہ یا اللہ تُو تو ان باتوں سے پاک ہے تو کب ایسا تھا جو ہم نے تیرے ساتھ ایسا کیا؟ تب وہ فرمائے گا کہ میرے فلاں فلاں بندے ایسے تھے تم نے ان کی خبر گیری کی وہ ایسا معاملہ تھا کہ گویا تم نے میرے ساتھ ہی کیا۔ پھر ایک اَور گروہ پیش ہوگا۔ ان سے کہے گا کہ تم نے میرے ساتھ بُرا معاملہ کیا۔ میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا نہ دیا۔ پیاسا تھا پانی نہ دیا۔ ننگا تھا مجھے کپڑا نہ دیا۔ میں بیمار تھا میری عیادت نہ کی۔ تب وہ کہیں گے کہ یا اللہ تعالیٰ تُو تو ایسی باتوں سے پاک ہے۔ تو کب ایسا تھا جو ہم نے تیرے ساتھ ایسا کیا۔ اس پر فرمائے گا کہ میرا فلاں فلاں بندہ اس حالت میں تھا اور تم نے ان کے ساتھ کوئی ہمدردی اور سلوک نہ کیا وہ گویا میرے ہی ساتھ کرنا تھا۔
غرض نوع انسان پر شفقت اور اس سے ہمدردی کرنا بہت بڑی عبادت ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے یہ ایک زبردست ذریعہ ہے۔ مگر میں دیکھتا ہوں کہ اس پہلو میں بڑی کمزوری ظاہر کی جاتی ہے۔ دوسروں کو حقیر سمجھا جاتا ہے۔ ان پر ٹھٹھے کیے جاتے ہیں۔ ان کی خبر گیری کرنا اور کسی مصیبت اور مشکل میں مدد دینا تو بڑی بات ہے۔ جو لوگ غرباء کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش نہیں آتے بلکہ ان کو حقیر سمجھتے ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ وہ خود اس مصیبت میں مبتلا نہ ہو جاویں۔ اللہ تعالیٰ نے جن پر فضل کیا ہے اس کی شکر گذاری یہی ہے کہ اس کی مخلوق کے ساتھ احسان اور سلوک کریں۔ اور اس خدا داد فضل پر تکبّر نہ کریں اور وحشیوں کی طرح غرباء کو کُچل نہ ڈالیں۔
(ملفوظات جلد 8صفحہ 101تا102)