اخلاص و وفا کے پیکر بدری صحابہ حضرت یزید بن ثابت، حضرت مُعَوِّذ بن عَمْرو بن جَمُوح اور حضرت بِشر بن بَراء رضی اللہ عنہم کی سیرت مبارکہ کا بیان
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 29؍نومبر2019ء بمطابق 29؍نبوّت1398 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح ،مورڈن (سرے) یو کے
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
حضرت یزید بن ثابتؓ ایک بدری صحابی تھے ان کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کے خاندان بنو مالک بن نَجَّار سے تھا۔ حضرت یزیدؓ کے والد کا نام ثابت بن ضَحَّاک اور والدہ کا نام نَوَاربنت مالک تھا۔ حضرت یزید حضرت زیدبن ثابتؓ کے بڑے بھائی تھے۔
(اسد الغابۃ فی معرفة الصحابۃ المجلد الثانی صفحہ 137 ‘‘زید بن ثابت’’دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2008ء)
(اسد الغابۃ فی معرفة الصحابۃ المجلد الرابع صفحہ 677 ‘‘یزید بن ثابت’’دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2008ء)
اور حضرت یزید بن ثابت نے دُبَیَّہْ بنت ثابت سے شادی کی تھی۔
(الطبقات الکبریٰ، جزء3 صفحہ 254 ، ‘‘ثابت بن خالد’’داراحیاء التراث العربی بیروت 1996ء)
اور یہ بھی ان کے بارے میں آتا ہے کہ حضرت یزید بن ثابتؓ غزوہ بدر اور احد دونوں میں شامل ہوئے تھے۔
حضرت یزید بن ثابتؓ کی شہادت 12 ہجری میں حضرت ابوبکرؓ کے دور ِخلافت میں جنگِ یمامہ کے روز ہوئی جبکہ ایک دوسرے قول کے مطابق جنگِ یمامہ کے روز انہیں ایک تیر لگا تھا اور واپسی پر راستے میں ان کی وفات ہوئی تھی۔
(الاستیعاب فی معرفة الاصحاب المجلد4 صفحہ 132 ‘‘یزید بن ثابت’’دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان2002ء)
(کتاب الثقات لابن حبان جلد1صفحہ468، دارالکتب العلمیۃ بیروت1998ء)
حضرت یزید بن ثابتؓ بیان کرتے ہیں کہ وہ لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک جنازہ ظاہر ہوا ۔اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے اور جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے وہ بھی کھڑے ہو گئے۔ وہ سب کھڑے رہے یہاں تک کہ وہ جنازہ گزر گیا۔
(سنن النسائی کتاب الجنائز بَابُ الْأَمْرِ بِالْقِيَامِ لِلْجَنَازَةِ حدیث1920)
یہی واقعہ ایک اور روایت میں تفصیل کے ساتھ اس طرح بیان ہوا ہے۔
حضرت یزید بن ثابتؓ سے روایت ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صحابہ کے ہم راہ بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک جنازہ ظاہر ہوا ۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھا تو آپ جلدی سے کھڑے ہوئے اور آپؐ کے صحابہ بھی تیزی سے کھڑے ہو گئے۔وہ تب تک کھڑے رہے جب تک جنازہ گزر نہ گیا۔ حضرت یزید ؓکہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! مَیں نہیں سمجھتا کہ آپؐ کسی تکلیف یا جگہ کی تنگی کی وجہ سے کھڑے ہوئے تھے اور میرا خیال ہے کہ وہ کسی یہودی مرد یا عورت کا جنازہ تھا اور ہم نے آپؐ سے آپؐ کے کھڑے ہونے کی وجہ بھی دریافت نہ کی۔
(المصنف لابن ابی شیبۃ مترجم جلد3 صفحہ732 کتاب الجنائز باب مَنْ قَالَ يُقَامُ لِلْجِنَازَةِ إِذَا مَرَّتْ حدیث12030، مکتبہ رحمانیہ لاہور )
پھر حضرت یزید بن ثابتؓ سے ایک اور روایت ہے کہ وہ لوگ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے۔ یہ سنن نسائی کی ہے ۔حضرت یزید بن ثابتؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے۔آپ نے ایک نئی قبر دیکھی (یہ ایک اَور واقعہ ہے۔ ایک دوسرا واقعہ بیان ہو رہا ہے) کہتے ہیں ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے ۔آپؐ نے ایک نئی قبر دیکھی تو فرمایا یہ کیا ہے؟ لوگوں نے کہا کہ یہ فلاں قبیلے کی لونڈی کی قبر ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پہچان لیا۔ صحابہؓ نے عرض کی کہ وہ دوپہر کے وقت فوت ہوئی تھی اور آپؐ اُس وقت قیلولہ فرما رہے تھے۔ ہم نے آپؐ کو اس وجہ سے اٹھانا پسند نہیں کیا کہ آپ آرام کر رہے ہیں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور اپنے پیچھے لوگوں کی صف بندی کی اور آپؐ نے اس پر چار تکبیریں کہیں یعنی اس قبر کے اوپر ہی آپؐ نے صفیں بنوا کے جنازہ پڑھا ۔پھر فرمایا کہ جب تک مَیں تمہارے درمیان ہوں جو بھی تم میں سے فوت ہو اس کی خبر مجھے ضرور دو کیونکہ میری دعا اس کے لیے رحمت ہے۔
(سنن النسائی کتاب الجنائز بَابُ الصَّلَاةُ عَلَى الْقَبْرِ حدیث2022)
اسی طرح یہ روایت مسلم اور سنن ابو داؤد اور ابن ماجہ میں بھی ہے۔ ابن ماجہ میں اس طرح تفصیلاً بیان ہوا ہے کہ حضرت یزید بن ثابتؓ نے بیان کیا اور وہ زید سے بڑے تھے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے۔ جب آپ جنت البقیع میں پہنچے تو وہاں ایک نئی قبر تھی۔ آپؐ نے اس کے متعلق دریافت فرمایا۔ انہوں نے عرض کیا کہ یہ فلاں عورت ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ آپ نے اس کو پہچان لیا اور فرمایا تم نے مجھے اس کے متعلق کیوں خبر نہ دی۔ انہوں نے عرض کیا کہ آپؐ دوپہر کو آرام فرما رہے تھے۔ آپ روزے سے بھی تھے۔ ہم نے پسند نہ کیا کہ آپ کو تکلیف دیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسا فعل نہ کرو جو مَیں نہیں جانتا۔ یعنی مَیں نے تو کبھی نہیں ایسا کہا ۔تم میں سے جو کوئی بھی فوت ہو جب تک مَیں تمہارے درمیان ہوں مجھے اس کے بارے میں ضرور اطلاع کیا کرو کیونکہ اس پر میری دعا اس کے لیے باعثِ رحمت ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی قبر پر تشریف لے گئے اور ہم نے آپؐ کے پیچھے صف بنائی اور آپؐ نے اس پر چار تکبیریں پڑھیں۔
(سنن ابن ماجہ کتاب الجنائز بَابُ مَا جَاءَ فِي الصَّلَاةِ عَلَى الْقَبْرِ حدیث1528)
صحیح بخاری کی ایک روایت ہے جو حضرت ابوہریرہ ؓسے ہے کہ ایک سیاہ فام خاتون کے متعلق روایت مروی ہے ۔یہ قبر پہ جنازہ پڑھنے کے بارے میں ہے جس میں یہ بیان ہے کہ وہ مسجد نبوی میں جھاڑو دیا کرتی تھی۔ خاتون مسجد نبوی میں جھاڑو دیا کرتی تھی وہ فوت ہو گئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اسے چند روز نہ دیکھا تو آپؐ نے اس خاتون کے متعلق پوچھا۔ لوگوں نے بتایا کہ وہ فوت ہو گئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر کیا تم نے مجھے اس کی اطلاع نہیں دینی تھی۔ اس عورت کی قبر کا پتا بتاؤ۔
چنانچہ آپؐ اس عورت کی قبر پر تشریف لے گئے اور اس کا جنازہ پڑھا۔
(صحیح البخاری کتاب الصلوٰة باب کنس المسجد والتقاظ الخرق…حدیث458)
(صحیح البخاری کتاب الصلوٰة بابالخدم للمسجد حدیث460)
سنن ابن ماجہ کی شرح اِنْجَازُ الْحَاجَة کا مصنف لکھتا ہے کہ یہ ایک سیاہ فام خاتون تھی جس کا نام امام بیہقی نے اُمِّ مِحْجَنْ بیان کیا ہے اور ابنِ مَنْدَہ نے اس کا نام خَرْقَاءَبیان کیا ہے اور صحابیاتؓ میں سے اس کو شمار کیا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ خرقاء اس خاتون کا نام ہو اور اُمِّ مِحْجَنْ اس کی کنیت ہو۔ یعنی دونوں نام صحیح ہیں۔
(انجاز الحاجۃ شرح سنن ابن ماجۃ جلد4صفحہ 332،کتاب الجنائز،باب ماجاء فی الصلاة علی القبر حدیث 1527،دارالنور اسلام آباد 2011ء)
اگلے صحابی جن کا ذکر ہے ان کا نام ہے حضرت مُعَوِّذبن عَمْرو بن جَمُوحؓ۔ حضرت مُعَوِّذ کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کے خاندان بنو جُشَمْ سے تھا۔
(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ470، الانصار ومن معھم/ من بنی جشم، دار الکتب العلمیۃ بیروت2001ء)
حضرت مُعَوِّذ ؓکے والد کا نام عَمْرو بن جَمُوح اور ان کی والدہ کا نام ہند بنت عَمْرو تھا۔ حضرت مُعَوِّذبن عَمْرو بن جَمُوحؓ اپنے دو بھائیوں حضرت مُعاذؓ اور حضرت خَلّادؓ کے ساتھ غزوہ ٔبدر میں شامل ہوئے تھے اس کے علاوہ یہ غزوہ ٔاحد میں بھی شامل ہوئے تھے۔
(الطبقات الکبریٰ جلد ثالث صفحہ 426-427 و اخوہ مُعَوِّذ بن عَمْرو۔ دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان 2012ء)
حضرت مُعَوِّذبن عَمْروؓ کے والد وہی عَمْرو بن جَمُوح ہیں جن کو ان کے بیٹوں نے ان کی لنگڑاہٹ کی وجہ سے پاؤں کی تکلیف کی وجہ سے بدر میں شامل نہیں ہونے دیا تھا۔ اس کا ذکر مَیں پہلے بھی ایک دفعہ خطبے میں کر چکا ہوں ۔مختصراً بتا دوں کہ جب احد کا موقع آیا تو حضرت عمروبن جَمُوحؓ نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ بدر کے موقعے پر تم نے مجھے جنگ پہ جانے نہیں دیا تھا لیکن اب میں ضرور جاؤں گا ۔احد کی جنگ میں تم مجھے روک نہیں سکتے۔ ان کے بیٹوں نے بہتیرا کہا کہ آپ کی ٹانگ خراب ہے۔ آپ پہ تو جنگ ضروری بھی نہیں ہے۔ ایسے حالات میں فرض نہیں ہے لیکن حضرت عَمْروبن جَمُوحؓ نہیں مانے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ یا رسول اللہؐ !میرے بیٹے میرے پاؤں کی تکلیف کی وجہ سے جنگ میں مجھے شامل ہونے سے روک رہے ہیںلیکن میں آپؐ کے ساتھ جہاد میں شامل ہونا چاہتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی فرمایا کہ جہاں تک تمہارا تعلق ہے تمہیں اللہ تعالیٰ نے معذور قرار دیا ہے اور تم پر اس وجہ سے جہاد فرض نہیں ہے لیکن پھر آپؐ نے انہیں ان کا وہ جوش دیکھ کے، شوق دیکھ کے اجازت بھی دے دی۔ حضرت عمروبن جَمُوحؓ نے اپنا جنگ کا سازو سامان لیا اور یہ کہتے ہوئے چلے گئے کہ اے اللہ! مجھے شہادت عطا فرما اور مجھے ناکام و نامراد اپنے اہل و عیال کی طرف نہ لوٹانا اور پھر حقیقتاً ان کی یہ خواہش پوری ہوئی اور وہ میدان احد میں شہید ہوئے۔ ان کی شہادت کے بعد ان کی بیوی حضرت ہند نے انہیں اور اپنے بھائی عبداللہ بن عَمْرو کو بھی ایک سواری پر رکھا اور ان دونوں کو ایک ہی قبر میں دفن کیا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے کہ مَیں نے عَمْرو کو جنت میں اپنے لنگڑے پن کے ساتھ چلتے ہوئے دیکھا ہے۔
(اسدالغابة جلد4 صفحہ195-196 عَمْرو بن الجَمُوح،دارالکتب العلمیة بیروت2008ء)
پھر اگلے صحابی جن کا ذکر ہے ان کا نام حضرت بِشربن بَراء بن مَعْرُورؓ ہے۔ حضرت بِشر کا تعلق انصار کے قبیلہ خزرج کے خاندان بنو عبید بن عدی سے تھا اور دوسرے قول کے مطابق بنو سلمہ سے تھا۔
(السیرة النبویۃ لابن ہشام صفحہ471،باب الانصار ومن معہم، دارالکتب العلمیہ بیروت2001ء)
(اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ لابن اثیر جلد1صفحہ380،بشر بن البَراء ،دارالکتب العلمیہ بیروت2008ء)
دو مختلف روایتیں بیان کی جاتی ہیں ۔
حضرت بِشرؓ کے والد کا نام حضرت بَراء بن مَعْرُور اور والدہ کا نام خُلَیْدَہ بنتِ قَیس تھا۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ291، بِشر بن البَراءؓ،داراحیاء التراث العربی 1996ء)
حضرت بِشر کے والد حضرت بَراء بن مَعْرُورؓ اُن بارہ (12)نقیبوںمیں سے تھے جو مقرر کیے گئے تھے اور قبیلہ بنو سَلَمَہ کے نقیب تھے۔ حضرت بَراء ؓہجرت سے ایک ماہ قبل حالتِ سفر میں فوت ہو گئے تھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو آپؐ نے ان کی قبر پر تشریف لے جاکر چار تکبیرات ادا فرمائیں۔
(اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ لابن اثیر جلد1صفحہ365-366،البَراءؓبن معرور،دارالکتب العلمیہ بیروت2008ء)
حضرت بِشرؓ اپنے والد کے ساتھ بیعتِ عقبہ ثانیہ میں شامل ہوئے اور حضرت بِشر بن بَراء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماہر تیر اندازصحابہؓ میں سے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بِشؓر اور حضرت واقد بن عبداللہ ؓجنہوں نے مکے سے مدینےکی طرف ہجرت کی تھی، ان کے درمیان عقد ِمؤاخات قائم فرمایا۔ حضرت بِشر غزوہ بدر، اُحد ،خندق ،حدیبیہ اور خیبر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے۔
(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ الجزءالاول،صفحہ426، بِشر بن البَراءؓ،دارالکتب العلمیہ بیروت2005ء)
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ291، بِشر بن البَراءؓ،داراحیاء التراث العربی1996ء)
عبدالرحمٰن بن عبداللہ ؓروایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اےبَنُو نَضَلَہ! (بعض روایت میں بنو سلمہ لکھا ہے کہ )تمہارا سردار کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ جَدِّ بنِ قَیس۔ آپ نے فرمایا کہ اسے کس وجہ سے سردار مانتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا کہ وہ ہم سے زیادہ مال دار ہے۔ بڑا امیر آدمی ہے۔ بڑا آدمی ہے اس لیے ہم نے اس کو سردار بنا لیاہے لیکن ساتھ یہ بھی کہا کہ ہم محض بخل کی وجہ سے اسے معیوب سمجھتے ہیں ۔وہ بڑا بخیل ہے ،کنجوس ہے اور اس کی یہ بات ہمیں پسند نہیں ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بخل سے زیادہ بڑی بیماری کون سی ہے ؟یہ بخیل ہونا تو بہت بڑی بیماری ہے ۔وہ تمہارا سردار نہیں ہے اور اس وجہ سے وہ تمہارا سردار نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسولؐ اللہ! پھر ہمارا سردار کون ہے آپ ہی بتا دیں؟ آپ نے فرمایا کہ بِشربن بَراء بن مَعْرُورؓ تمہارا سردار ہے جن صحابیؓ کا ذکر ہو رہا ہے۔ ان کے بارے میں فرمایا کہ یہی تمہارا سردار ہے اور ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارا سردار سفید رنگ والا، گھنگھریالے بالوں والا بِشر بن بَراء بن مَعرور ہے۔
(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ الجزء الاول،صفحہ426-427، بِشر بن البَراءؓ،دارالکتب العلمیہ بیروت2005ء)
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ291، بِشر بن البَراءؓ،داراحیاء التراث العربی 1996ء)
حضرت بِشر بن بَراءؓ نے حضرت قُبَیْسَہ بنت ِصَیْفِی سے شادی کی جس سے ان کے ہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام عالیہ تھا۔ حضرت قُبَیْسَہ نے اسلام قبول کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت بھی کی۔
(الطبقات الکبریٰ الجزء 8 صفحہ435، قُبَیْسَة بنت صَیْفِیؓ، دارالکتب العلمیۃ بیروت1996ء)
حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ یہود اَوس اور خَزرج کے مقابلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبعوث ہونے سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے سے فتح کی دعا مانگا کرتے تھے۔ آپس میں لڑتے تھے تو یہ دعا مانگا کرتے تھے ۔یہ نبی جس کی پیش گوئی ہے مبعوث ہونے والا ہے اس کے نام پہ ہمیں فتح عطا کر۔ اللہ تعالیٰ سے مانگتے تھے لیکن جب اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو عرب میں سے مبعوث فرمایا تو انہی لوگوں نے آپ کا انکار کیا اور جو بات وہ کہا کرتے تھے اس سے انکاری ہو گئے۔ یہی طریقہ ہے ہمیشہ سے انکار کرنے والوں کا۔ حضرت معاذبن جبلؓ اور حضرت بِشربن بَراءؓ اور داؤدبن سلمہؓ نے ان سے ایک دن کہا کہ اے یہود کے گروہ !اللہ سے ڈرو اور اسلام قبول کر لو۔ پہلے تو تم ہم پر محمد نام کے نبی کے ظہور کے ذریعہ فتح مانگتے تھے ۔یہ کہا کرتے تھے کہ یہ نبی مبعوث ہو گا جس کا نام محمد ہو گا اور اس کی وجہ سے فتح کی دعا کیا کرتے تھے اور ہم شرک کرنے والے تھے۔ حضرت بِشربن بَراءؓ نے کہا کہ ہم تو ان لوگوں میں شامل تھے جو شرک کرتے تھے اور تم ہمیں یہ باتیں بتایا کرتے تھے اور تم ہمیں یہ بتاتے تھے کہ وہ نبی مبعوث ہونے والا ہے ۔اب وقت آ گیا ہے کہ وہ مبعوث ہو گا اور ہمیں اس کی علامات بتایا کرتے تھے کہ یہ یہ علامتیں ہوں گی۔ اب مبعوث ہو گیا ہے تو اب اس نبی پر ایمان کیوں نہیں لاتے۔ سَلَّام بن مِشْکَم یہودی نے جو قبیلہ بنو نضیر میں سے تھا (سلّام بن مِشْکَم یہود کے قبیلہ بنو نضیر کا سردار اور ان کے خزانے کا نگران بھی ہوتا تھا ۔یہ اس عورت زینب بنت حارث کا خاوند تھا جس نے غزوہ خیبر میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو زہر آلود گوشت دیا تھا۔ بہرحال) اس نے جواب دیا کہ وہ نبی ہمارے پاس وہ نہیں لے کر آیا جسے ہم پہچانتے ہیں اور نہ آپ وہ نبی ہیں جن کا ہم نے تم سے ذکر کیا تھا۔ ساری علامتیں پوری ہو گئیں جو یہ کہتے تھے ۔کہتے نہیں ہم پر وہ لے کر نہیں آیا جو ہم پہچانتے ہیں۔ ساری علامتیں پوری نہیں ہوئیں اس لیے ہم نہیںمانیں گے۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ
وَ لَمَّا جَآءَہُمۡ کِتٰبٌ مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَہُمۡ ۙ وَ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ یَسۡتَفۡتِحُوۡنَ عَلَی الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ۚۖ فَلَمَّا جَآءَہُمۡ مَّا عَرَفُوۡا کَفَرُوۡا بِہٖ ۫ فَلَعۡنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ۔ (البقرة:90)
یعنی اور جب اللہ کی طرف سے ان کے پاس ایک ایسی کتاب آئی جو اس (تعلیم )کی جو ان کے پاس تھی تصدیق کر رہی تھی جبکہ حال یہ تھا کہ اس سے پہلے وہ ان لوگوں کے خلاف جنہوں نے کفر کیا (اللہ سے) مدد مانگا کرتے تھے۔ پس جب وہ ان کے پاس آ گیا جسے انہوں نے پہچان لیا تو (پھر بھی) اُس کا انکار کر دیا ۔پس کافروں پر اللہ کی لعنت ہو۔
(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ381 ، ما نزل من البقرۃ فی المنافقین و یھود،دارالکتب العلمیۃ بیروت2001ء)
(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ512، غزوة سویق، صفحہ698 ،قصة الشاة المسمومة، دار الکتب العلمیۃ بیروت2001ء)
(الروض الانف فی شرح السیرة النبویۃ لابن ہشام جلد2صفحہ325باب کاھنہ قریش، مکتبہ ابن تیمیہ1990ء)
حضرت زبیر بن عوام ؓبیان کرتے ہیں کہ جب جنگ احد کا رخ پلٹا تو مَیں نے اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پایا۔ جب ہم سب بدحواس اور خوف زدہ تھے اور ہم پر نیند نازل کر دی گئی۔ ایسی حالت تھی کہ لگتا تھا کہ اونگھ کی حالت ہم پر طاری ہو گئی ہے۔ چنانچہ ہم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں تھا جس کی ٹھوڑی اس کے سینے پر نہ ہو ۔یعنی نیند اور غنودگی کی حالت میں سر نیچے ڈھلک گئے تھے۔ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم !مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے مُعَتِّبْ بن قُشَیر کی آواز خواب میں سنائی دے رہی ہے ۔وہ کہہ رہا تھا کہ اگر ہمیں فیصلے کا اختیار ہوتا تو ہم کبھی یہاں اس طرح قتل نہ کیے جاتے۔ مُعَتِّبْ بن قُشَیرانصاری صحابی تھے اور بیعتِ عقبہ ،غزوہ ٔبدر اور احد میں شامل ہوئے تھے۔ میں نے ان کے اس جملے کو یاد کر لیا جب اس طرح خواب کی حالت میں دیکھا تھا۔ اس موقع کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ
ثُمَّ اَنۡزَلَ عَلَیۡکُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ الۡغَمِّ اَمَنَۃً نُّعَاسًا یَّغۡشٰی طَآئِفَۃً مِّنۡکُمۡ ۙ وَ طَآئِفَۃٌ قَدۡ اَہَمَّتۡہُمۡ اَنۡفُسُہُمۡ یَظُنُّوۡنَ بِاللّٰہِ غَیۡرَ الۡحَقِّ ظَنَّ الۡجَاہِلِیَّۃِ ؕ یَقُوۡلُوۡنَ ہَلۡ لَّنَا مِنَ الۡاَمۡرِ مِنۡ شَیۡءٍ ؕ قُلۡ اِنَّ الۡاَمۡرَ کُلَّہٗ لِلّٰہِ(آل عمران :155)
کہ پھر اس نے تم پر غم کے بعد تسکین بخشنے کی خاطر اونگھ اُتاری جو تم میں سے ایک گروہ کو ڈھانپ رہی تھی ۔جبکہ ایک وہ گروہ تھا کہ جنہیں ان کی جانوں نے فکر مند کر رکھا تھا وہ اللہ کے بارے میں جاہلیت کے گمانوں کی طرح ناحق گمان کر رہے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ کیا اہم فیصلوں میں ہمارا بھی کوئی عمل دخل ہے ؟تُو کہہ دے کہ یقینا ًفیصلے کا اختیار کلیةً اللہ ہی کو ہے۔
حضرت کعب بن عَمْرو انصاریؓ نے بیان کیا ہے کہ غزوۂ احد کے دن ایک موقع پر میں اپنی قوم کے 14آدمیوں کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا اس پر ہم پر اونگھ طاری تھی۔ جو بطور امن کے تھی یعنی بڑی سکون والی اونگھ تھی۔ جنگی حالت تھی لیکن وہ ایسی اونگھ تھی جو ہمیں سکون دے رہی تھی ۔کوئی شخص ایسا نہیں تھا جس کے سینے سے دھونکنی کی طرح خراٹوں کی آواز نہ نکل رہی ہو۔ بعض دفعہ ایسی گہری حالت بھی ہو گئی تھی۔ کہتے ہیں مَیں نے دیکھا کہ بِشر بن بَراء بن معرورجن صحابی کا ذکر ہو رہا ہے کہ ان کے ہاتھ سے تلوار چھوٹ کر گر گئی اور انہیں تلوار کے گرنے کا احساس بھی نہ ہوا حالانکہ مشرکین ہم پر چڑھے آ رہے تھے۔
(السیرة الحلبیۃ جلد2صفحہ310،باب ذکر مغازیۃ،غزوہ اُحد،دارالکتب العلمیہ بیروت2002ء)
(اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ جلد4صفحہ432، معتب بن قشیرؓ،دارالفکر بیروت2003ء)
بہرحال ہو سکتا ہے کہ یہ ان کو محسوس ہوا ہو کہ گر گئی کیونکہ اس وقت ایسی حالت میں نیند تو تھی ۔لیکن ان کے ہاتھوں میں جو ہتھیار تھے مضبوطی سے قائم ہوتے تھے یا گرنے لگتے تھے تو جھٹکا لگتا تھا ۔بہرحال یہاں لفظ نعاس استعمال ہوا ہے اس کی جو وضاحت، تشریح، ہے وہ اپنے ایک درس میں حضرت خلیفة المسیح الرابع ؒنے بڑی تفصیل سے فرمائی تھی کہ
اَمَنَۃً نُّعَاسًا مختلف پہلوؤں سے اس کے جو تراجم ہیں ان کا خلاصةً یہ معنی بنے گا کہ غم کے بعد تم پر ایسا سکون نازل فرمایا جسے نیند کہہ سکتے ہیں یا ایسی اونگھ عطا کی جو امن کی حامل تھی یا وہ امن دیا جو نیند کا سا اثر رکھتا تھا یا نیند میں شامل تھا۔
یہ اَمَنَۃً نُّعَاسًا کا یہ مطلب ہے۔ اونگھ وقتی طور پر یوں سر جھکا کر غوطہ کھا جانے کو بھی کہتے ہیں لیکن یہاں نعاس کا معنی اس قسم کی اونگھ نہیں ہے بلکہ وہ کیفیت ہے جو بیداری اور نیند کے درمیان کی کیفیت ہوتی ہے۔ سونے سے پہلے ایک بیچ کی ایسی منزل آتی ہے جہاں تمام اعصاب کو ایک سکون مل جاتا ہے اور وہی گہرا سکون ہے اگر وہ سکون اسی طرح جاری رہے تو پھر نیند میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ ایسی حالت میں انسان اگر چل رہا ہے تو گرے گا نہیں ۔گرنے سے پہلے اسے جھٹکا لگ جاتا ہے اور وہ جان لیتا ہے کہ مَیں کس کیفیت میں تھا ۔لیکن اگر نیند آ جائے تو پھر اپنے اعصاب پر، اپنے اعضا پر کوئی اختیار نہیں رہتا۔ بہرحال ہو سکتا ہے بِشربن بَراء ؓکو اس حالت میں اس طرح کی گہری نیند بھی آ گئی ہو ۔لیکن باوجود جنگ کی حالت کے وہ تھی سکون کی کیفیت اور انسان گر جاتا ہے اور اگر اِس کو صحیح بھی مانا جائےتو اسی وجہ سے ان کے ہاتھ ذرا ڈھیلے ہوئے تو تلوار گر گئی۔ بہرحال یہ حالت ایسی ہوتی ہے جس میں فوری احساس بھی ہو جاتا ہے کہ میں گہری نیند میں جا رہا ہوں اور پھر انسان جھٹکے سے جاگ جاتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے تمہیں ایک ایسی سکون کی حالت عطا کی جو نیند سے مشابہ تھی مگر نیند کی طرح اتنی گہری نہیں تھی کہ تمہیں اپنے اوپر اپنے اعضاء پر کوئی اختیار نہیں رہے۔ وہ سکینت تو بخش رہی تھی مگر تمہیں بے کار نہیں کر رہی تھی۔
حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں اور یہ بخاری کی حدیث میں ہے کہ اُحد کے دن عین جنگ میں ہم کو اونگھ نے آ دبایا اور یہ وہ اونگھ ہے جس کا ذکر پہلے گزر چکا ہے ۔ حضرت طلحہؓ کہتے ہیں کہ تلوار میرے ہاتھ سے گرنے کو ہوتی تھی۔ مَیں تھام لیتا تھا۔ پس یہ حدیث بتا رہی ہے کہ ایسی نیند کی کیفیت نہیں تھی کہ ہاتھوں سے چیزیں نیچے جا پڑیں یا چلتے چلتے ہم گر جائیں۔ تسکین تھی، سکینت تھی مگر پھر بھی ایک حد تک ہمیں اپنے اعضا پر اختیار حاصل تھا۔ پھر گرنے کو ہوتی تھی تو پھر تھام لیتے تھے۔ یعنی یہ اونگھ کا ایک حصہ کوئی اچانک یوں ہی نہیں آیا بلکہ یہ ایک کیفیت تھی جو ان لوگوں پر کچھ عرصہ چلتی رہی۔
ترمذی ابواب التفسیر میں حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ غزوہ ٔاحد کے دن مَیں سر اٹھا کر دیکھنے لگا تو ہر آدمی اونگھتے اونگھتے اپنی ڈھال کے نیچے جھک رہا تھا ۔جاگنے کی وجہ سے یا تھکاوٹ کی وجہ سے ان صحابہؓ کی بہت بری حالت ہو گئی تھی اور ایسی حالت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ سکون کی کیفیت مل رہی تھی۔ کہتے ہیں یعنی ایسا ہی نظارہ ہوا کہ جو عام تھا ۔کوئی اتفاقاً ایک تھکے ہوئے مجاہد کے اوپر اطلاق پانے والی کیفیت نہیں تھی۔ بلکہ حضرت خلیفہ رابعؒ نے لکھا ہے کہ تمام مجاہدین جو حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ میں دشمن کے خلاف بر سرِ پیکار تھے ان سب پر اچانک گویا آسمان سے ایک چیز اتری ہے اور اس حالت نے اس کو ڈھانپ لیا۔ اس وقت ان کو اس چیز کی سکون کی اپنے اعصاب کو ریفریش (Refresh)کرنے کی، ان کو تازہ دم کرنے کی شدید ضرورت تھی اور سونے کا وقت کوئی نہیں تھا اور جب ایسی حالت ہو جب ایسی تھکاوٹ کی حالت ہو تو ایسی حالت انسانوں پر طاری ہو جاتی ہے۔ بہرحال ساری قوم بیک وقت ایک ایسی نیند کی حالت میں چلی جائے جبکہ لڑائی ہو رہی ہو اور دشمن سے سخت خطرہ بھی درپیش ہو یہ اعجاز ہے۔ ایک معجزہ ہے ۔یہ کوئی اتفاقی حادثہ نہیں ہے ۔بعض لوگوں کے ساتھ ہو جاتا ہے یہ لیکن یہ کوئی اتفاقی حادثہ نہیں ایک معجزہ ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک خاص سکون کی کیفیت ان کو اس وقت عطا کی گئی تھی۔
(ماخوذ از درس القرآن بیان فرمودہ حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ 6؍رمضان المبارک، 17؍فروری 1994ء)
حضرت بِشرؓ نے غزوہ خیبر کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم راہ اس زہر آلود بکری کا گوشت کھایا جو ایک یہودی عورت نے تحفةً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کیا تھا۔ جب حضرت بِشر نے اپنا لقمہ نگلا تو اس جگہ سے ابھی ہٹے بھی نہ تھے کہ ان کا رنگ تبدیل ہو کرطَیْلَسَان ،یہ کپڑا ہے جس میں سیاہ رنگ زیادہ غالب ہوتا ہے ،اس کی طرح ہو گیا۔ درد سے ایک سال تک یہ حالت رہی کہ بغیر سہارے کے کروٹ تک نہ بدل سکتے تھے ۔پھر اسی حالت میں آپؓ کی وفات ہو گئی اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی جگہ سے ہٹے بھی نہیں تھے، زہر اتنا زیادہ تھا کہ وہیں کھانے کے تھوڑی دیر بعد ہی ان کی وفات ہو گئی۔
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد الجزء الثالث صفحہ 291، بِشر بن البَراءؓ،داراحیاء التراث العربی 1996ء)
حضرت بشربن بَراءؓ نے جب وفات پائی تو ان کی والدہ کو شدید دکھ ہوا۔ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! بِشر کی وفات بنو سلمہ کو ہلاک کر دے گی اور بنو سلمہ میں سے مرنے والے تو مرتے ہی رہیں گے۔ کیا مردے ایک دوسرے کو پہچان لیں گے۔ انہوں نے جو یہ حرکت کی ہے تو یہ حرکت کرنے والے تو ہلاک ہوں گے،لیکن کیا مردے ایک دوسرے کو پہچان لیں گے ؟کیا بِشر کی طرف سلام پہنچایا جا سکتا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں اے امّ بِشر! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جیسے پرندے درختوں پر ایک دوسرے کو پہچان لیتے ہیں ویسے ہی جنتی بھی ایک دوسرے کو پہچان لیں گے۔
(سبل الہدیٰ والرشاد جلد3صفحہ132،فی تنبیہات علیٰ بعض فوائد تتعلق بقصۃ المعراج، دارالکتب العلمیۃ بیروت1993ء)
مطلب یہ تھا کہ ان کو پہچان لیں گے تو جو فوت ہونے والے ہیں ان کے ہاتھوں مَیں سلام بھیج سکتی ہوں۔
ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ قبیلہ بنو سلمہ کا کوئی بھی شخص جب وفات پانے والا ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بات کو سننے کے بعد حضرت بِشرؓ کی والدہ اس کے پاس جا کر کہتیں کہ اے فلاں! تجھ پر سلام تو وہ جواب میں کہتا تجھ پر بھی۔ پھر وہ کہتیں کہ بِشر کو میرا سلام کہنا۔
(مرقاة المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح جلد4 صفحہ99 کتاب الجنائز باب ما یقال عند من حضرہ الموت، دارالکتب العلمیة بیروت 2001ء)
کوئی بھی بنو سلمہ کا فوت ہونے والا شخص ہوتا تو آپ ان کے پاس جا کر کہتیں، ان کو سلام پہنچانا۔ بنو سلمہ میں سے تھے۔ پہلے شاید میں نے دشمن کی بات کی ۔ دشمنوں والی بات نہیں ہے۔ وہ ان کا کہنے کا انداز ہے کہ بِشر کی وفات بنو سلمہ کو ہلاک کر دے گی۔ کیا مردے ایک دوسرے کو پہچان لیں گے۔ یعنی بہت صدمہ ہے ہمارے لیے ۔کیا بِشر کی طرف سلام پہنچایا جا سکتا ہے؟ اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں۔ پھر آپ ہر فوت ہونے والے کے ذریعہ یہ پیغام دیتیں کہ وہاں جنت میں جاؤ گے تو سلام پہنچانا۔
ایک روایت کے مطابق حضرت بِشر کی بہن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرض الموت میں آپؐ کے پاس آئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا تمہارے بھائی کے ساتھ میں نے خیبر میں جو لقمہ کھایا تھا اس کی وجہ سے میں اپنی رَگوں کو کٹتا محسوس کرتا ہوں۔
(السیرة الحلبیۃ جلد3صفحہ82،باب ذکر مغازیۃ،غزوة خیبر، دارالکتب العلمیۃ بیروت2002ء)
اس واقعےکا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود ؓنے تفصیل بیان فرمائی ہے فرماتے ہیں کہ
یہودی عورت نے صحابہؓ سے پوچھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جانور کے کس حصے کا گوشت زیادہ پسند ہے؟ صحابہؓ نے بتایا کہ آپؐ کو دستی کا گوشت زیادہ پسند ہے۔ اس پر اس نے بکرا ذبح کیا اور پتھروں پر اس کے کباب بنائے اور پھر اس گوشت میں زہر ملا دیا خصوصاً بازوؤں میں جس کے متعلق اسے بتایا گیا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کا گوشت زیادہ پسند کرتے ہیں اور پھر سورج ڈوبنے کے بعد جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شام کی نماز پڑھ کر اپنے ڈیرے کی طرف واپس آ رہے تھے تو آپؐ نے دیکھا کہ آپ کے خیمے کے پاس ایک عورت بیٹھی ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ بی بی تمہارا کیا کام ہے ؟اس نے کہا کہ اے ابوالقاسم !مَیں آپ کے لیے ایک تحفہ لائی ہوں ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ساتھی صحابی سے فرمایا کہ جو چیز یہ دیتی ہے اس سے لے لو ۔اس کے بعد آپؐ کھانے کے لیے بیٹھے تو کھانے پر وہ بھنا ہوا گوشت بھی رکھا گیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے ایک لقمہ کھایا اور آپ کے ایک صحابی بشیر بن بَراء بن معرور نے بھی ایک لقمہ کھایا۔ بہرحال تاریخ کی کتابوں میں حضرت بِشر بن بَراء کا نام بعض جگہ بشیر بن بَراء بھی لکھا ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے بشیر بن بَراء یہاں لکھا ہے مراد بِشر بن بَراء ہی ہیں۔ اتنے میں باقی صحابہؓ نے بھی گوشت کھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مت کھاؤ کیونکہ اس ہاتھ نے مجھے خبر دی ہے کہ گوشت میں زہر ملا ہوا ہے۔ یعنی اس کے معنی یہ نہیں کہ آپؐ کو الہام ہوا تھا بلکہ یہ عرب کا محاورہ ہے ۔معنی یہ ہیں کہ اس گوشت کو چکھ کر مجھے معلوم ہو گیا ہے کہ اس میں زہر ملا ہوا ہے۔ پس اس جگہ یہ مراد نہیں ہے۔ اس محاورے کے تحت ہی بیان کیا گیا ہے کہ آپؐ نے فرمایا آپ کا ہاتھ بولا تھا بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس کا گوشت چکھنے پر مجھے معلوم ہوا ہے۔ چنانچہ اگلا فقرہ ان معنوں کی وضاحت کر دیتا ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ ہی اس کی تفصیل میں فرماتے ہیں کہ قرآن کریم میں بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے کا واقعہ بیان کرتے ہوئے ایک دیوار کے متعلق آتا ہے کہ وہ گرنا چاہتی تھی جس کے محض یہ معنی ہیں کہ اس میں گرنے کے آثار پیدا ہو چکے تھے۔ پس اس جگہ بھی یہی مراد ہے۔ یہ محاورةً بولا گیا ہے۔ پھر آگے آپ فرماتے ہیں کہ اس پر بشیر نے کہا یعنی بِشر بن بَراء ؓنے کہ جس خدا نے آپ کو عزت دی ہے اس کی قسم کھا کر مَیں کہتا ہوں کہ مجھے بھی اس لقمے میں زہر معلوم ہوا ہے۔ میرا دل چاہتا تھا کہ میں اس کو پھینک دوں لیکن میں نے سمجھا کہ اگر میں نے ایسا کیا تو شاید آپ کی طبیعت پر گراں نہ گزرے اور آپؐ کا کھانا خراب نہ ہو جائے ۔تسلی مجھے نہیں تھی لیکن مجھے لگ رہا تھا کہ کچھ ہے اور جب آپؐ نے وہ لقمہ نگلا تو میں نے بھی آپؐ کی تتبع میں نگل لیا ۔گو میرا دل یہ کہہ رہا تھاکہ چونکہ مجھے شبہ ہے کہ اس میں زہر ہے اس لیے کاش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ لقمہ نہ نگلیں۔ اس کے تھوڑی دیر بعد بشیر کی طبیعت خراب ہو گئی اور بعض روایتوں میں تو یہ ہے کہ وہ وہیں خیبر میں فوت ہو گئے اور بعض میں یہ ہے کہ اس کے بعد کچھ عرصہ بیمار رہے اوراس کے بعد فوت ہو گئے۔ اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ گوشت اس کا ایک کتے کے آگے ڈلوایا جس کے کھانے سے وہ کتا مر گیا۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو بلایا اور فرمایا تم نے اس بکری میں زہر ملایا ہے۔ اس نے کہا کہ آپ کو یہ کس نے بتایا ہے۔ آپؐ کے ہاتھ میں اس وقت بکری کا دست تھا ۔آپؐ نے فرمایا اس ہاتھ نے مجھے بتایا ہے۔ اس پر اس عورت نے سمجھ لیا کہ آپ پر یہ راز کھل گیا ہے اور اس نے اقرار کیا کہ اس نے زہر ملایا ہے۔ اس پر آپؐ نے اس سے پوچھا کہ اس ناپسندیدہ فعل پر تم کو کس بات نے آمادہ کیا۔ اس نے جواب دیا کہ میری قوم سے آپ کی لڑائی ہوئی تھی اور میرے رشتے دار اس لڑائی میں مارے گئے تھے۔ میرے دل میں یہ خیال آیا کہ مَیں اُن کو زہر دے دوں۔ اگر ان کا کاروبار انسانی کاروبار ہو گا تو ہمیں ان سے نجات حاصل ہو جائے گی اور اگر یہ واقعی میں نبی ہوں گے تو خدا تعالیٰ ان کو خود بچا لے گا ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی یہ بات سن کر اسے معاف فرما دیا اور اس کی سزا جو یقینا ًقتل تھی اسے نہ دی ۔ یہ واقعہ بتاتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح اپنے مارنے والوں اور اپنے دوستوں کے مارنے والوں کو بخش دیا کرتے تھے اور درحقیقت اسی وقت آپؐ سزا دیا کرتے تھے جب کسی شخص کا زندہ رہنا آئندہ بہت سے فتنوں کا موجب ہو سکتا تھا۔
(ماخوذازدیباچہ تفسیرالقرآن،انوارالعلوم جلد20صفحہ327تا329)
بہرحال یہ ایک عام تاثر ہے ۔بعض دشمن یہ اعتراض کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اس زہر سے ہوئی تھی اور تاریخ و سیرت کی بعض کتب نے بھی یہ بحث اٹھائی ہے اور بعض سیرت نگار اس وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو شہادت کا مقام دینے کے لیے ان روایات کو قبول کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں جن میں یہ ذکر ہے کہ اس زہر کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تھی جبکہ حقیقت میں یہ بات درست نہیں ہے۔ اس پر ہمارے ریسرچ سیل نے بھی ایک نوٹ مجھے بھیجا تھا ۔وہ بھی ایسا ہے کہ میں یہاں سنا دیتا ہوں۔ اس کے مطابق وہ کہتے ہیں کہ تاریخ اور سیرت کی کتب ہوں یا حدیث کی، ایک بات مسلّم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہرگز اس زہر کی وجہ سے نہیں ہوئی تھی۔ جو کوئی ایسا کہتا ہے اول تو وہ ان تمام تر روایات کا علم نہیں رکھتا یا وہ غلطی خوردہ ہے۔ واضح رہے کہ زہر دیے جانے کا واقعہ غزوہ خیبر کے موقع پر ہوا جو کہ چھے ہجری کے آخری یا سات ہجری کے آخری یا سات ہجری کے اوائل کا واقعہ ہے۔ اور اس کے تقریباً چار سال بعد تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ رہے۔ بھرپور زندگی گزاری۔ اسی طرح جس طرح اس سے پہلے جنگوں میں بھی جاتے رہے۔ عبادات اور دیگر معمولات میں بھی رَتی بھر فرق نہیں آیا۔ تقریباً چار سال بعد بخار اور سردرد کی کیفیت طاری ہونا اور اس کے بعد وفات پا جانا اس کو کوئی عقل مند یہ نہیں کہہ سکتا کہ زہر کی وجہ سے چار سال بعد اثر ہوا ہے۔ اصل میں بخاری اور بعض دوسری کتب احادیث میں ایک حدیث ہے جس کے ترجمے کو درست نہ سمجھنے کی وجہ سے یہ مفہوم نکالا جاتا ہے کہ گویا اسی زہر کی وجہ سے وفات ہوئی تھی حالانکہ یہ درست نہیں ہے۔ بخاری کی وہ حدیث یہ ہے، اس کا ترجمہ بیان کر دیتا ہوں کہ حضرت عائشہ ؓفرماتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مرض الموت میں یوں فرماتے تھے کہ عائشہ! اس کھانے کی تکلیف جو مَیں نےخیبر میں کھایا تھا مجھے ہمیشہ محسوس ہوتی رہی اور اب بھی اس زہر سے میں اپنی رگیں کٹتی ہوئی محسوس کر رہا ہوں۔
(صحیح البخاری كِتَابُ المَغَازِي بَابُ مَرَضِ النَّبِيِّ ﷺ وَوَفَاتِهِ حدیث4428)
یہ وہ حدیث ہے جس سے یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ بعض مسلمان مفسرین بھی اور محدثین بھی یہی کہتے ہیں کہ گویا اسی تکلیف کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تھی۔ اور پھر اسی کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بھی تشریح کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وجہ سے شہید بھی قرار دیا جا سکتا ہے یا بعض کے نزدیک دیا جاتا ہے۔ جبکہ یہ روایت اس بات کی تائید نہیں کرتی۔ اس میں صرف ایک تکلیف کا اظہار ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت فرمایا اور ہر کوئی جانتا ہے کہ بعض اوقات کوئی جسمانی تکلیف یا زخم یا بیماری کبھی کبھی خاص خاص موقعوں پر کسی سبب سے باہر آ جاتی ہے۔ خیبر کے موقعے پر جو زہر اور گوشت آپؐ نے کھایا اس کے متعلق روایات کی تفصیل میں جائیں تو یہ بھی ملتا ہے کہ زہر ملا ہوا یہ گوشت آپؐ نے منہ میں ڈال لیا تھا لیکن نگلا نہیں تھا ۔لیکن اگر نگلا بھی تھا تو آپ کی بھرپور زندگی اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ وفات کی وجہ بہرحال یہ نہیں تھی۔ ہاں اس زہر کی وجہ سے معدے کو یا انتڑیوں کو جو نقصان پہنچا تھا وہ بیماری میں زیادہ ہو گیا اور یہ قدرتی بات ہے بعض دفعہ اس طرح ہوجاتا ہے اور منہ میں جانے کی وجہ سے آپ کے حلق یا کوّے پر زخم آ گیا تھا اور کبھی کبھی کھانے کے دوران اس میں تکلیف محسوس فرماتے تھے۔ احادیث میں یہ واقعہ پوری تفصیل کے ساتھ موجود ہے اور اس میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہو گیا تھا کہ اس میں زہر ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو کھانے سے روک دیا تھا اور زہر ملانے والی عورت کو بلا کر پوچھا تو اس نے بتایا کہ ہم نے اس لیے زہر ملایا تھا کہ اگر آپ خدا کی طرف سے سچے رسول ہیں تو آپ بچ جائیں گے ورنہ ہمیں آپ سے نجات مل جائے گی ۔ یہودی تو اس کو دیکھنے کے بعد آپؐ کے بچنے کا اعلان کر رہے ہیں اور اس عورت کا تویہ تھا کہ اتنا خطر ناک زہر تھا پھر بھی آپ بچ گئے تو آپؐ کے بچ جانے کی وجہ سےبعض روایات میں تو اس عورت کے اسلام قبول کرلینے کا بھی ذکر ملتا ہے۔ جو بھی ہو وہ یہودی تو اس زہر سے نہ مرنے کا اقرار کر رہے ہیں اور اس کو معجزہ قرار دے رہے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ اس زہر کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی یہ ہرگز درست نہیں ہے۔ باقی ذکر ان شاء اللہ آئندہ ہوں گے۔
اس وقت میں دو مرحومین کا ذکر کرتا ہوں جن کے جنازہ غائب ان شاء اللہ نمازوں کے بعد مَیں پڑھاؤں گا۔ پہلا ہے مکرم نصیر احمد صاحب جو مکرم علی محمد صاحب راجن پور کے بیٹے تھے۔ 21نومبر2019ء کو 63سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔مرحوم کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ آپ کے پڑدادا محمد دین صاحب کے ذریعہ سے ہوا تھا۔ آپ تحصیل زیرہ ضلع فیروز پور کے ایک گاؤں مَلْسَیَاں کے رہنے والے تھے۔ انہوں نے اپنے بھائی مکرم الٰہی بخش صاحب کے ساتھ 1907ء میں بذریعہ خط بیعت کی تھی اور پھر 1908ء کے جلسہ سالانہ قادیان پر حضرت خلیفة المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی توفیق پائی۔ یہ مرحوم نصیر صاحب جو ہیں ان کو راجن پور میں نائب امیر ضلع کے علاوہ نائب زعیم انصار اللہ اور صدر جماعت کے طور پر خدمت کی توفیق ملی۔ پانچ وقت نماز باجماعت کے پابند تھے۔ بڑا اہتمام کرتے تھے۔ اُن کا جوائنٹ فیملی سسٹم تھا اور گھر میں موجود تمام بھائیوں، بھتیجوں، بھتیجیوں کو نماز کے اوقات میں بار بار یاددہانی کرواتے تھے۔ فجر کے وقت پوری حویلی کا چکر لگاتے تھے۔ بہت بڑی حویلی تھی۔ اس میں یہ لوگ اکٹھے رہتے تھے۔ مختلف گھر تھے۔ سب کو نماز فجر کے لیے بیدار کرتے تھے۔ تلاوت قرآن کریم خود بھی کرتے تھے اور لوگوں سے بھی اپنے رشتہ داروں سے بھی، جو بھی بچے وغیرہ تھے سب سے پوچھتے تھے اور سُستی میں تلقین کرتے تھے کہ باقاعدہ کیا کرو۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ خود بھی کرنے والے تھے اور اپنے بچوں کو اور رشتے داروں کو جو بھائی بھتیجے تھے ان کو بھی تلقین کیا کرتے تھے اور اسی طرح ایم ٹی اے پر خطبہ باقاعدہ سنتے اور پھر اس بات کو یقینی بناتے تھے کہ سب نے، ان سب مکینوں نے جو ایک ہی حویلی میں رہتے ہیں خطبہ سن بھی لیا ہے کہ نہیں۔ شدید مخالفت کے باوجود تبلیغ کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے اور اگر گھر والے احتیاط کا کہتے کہ حالات ایسے ہیں، احتیاط کریں تو ان کا جواب ہوتا تھا کہ میں اللہ تعالیٰ کو کیا منہ دکھاؤں گا کہ اس کے بھیجے ہوئے کا پیغام لوگوں تک نہیں پہنچایا۔ مرحوم موصی تھے۔ پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ ایک بیٹی اور تین بیٹے شامل ہیں۔ آپ کے ایک بیٹے خالد احمد صاحب مربی سلسلہ ہیں جو آج کل مالی (مغربی افریقہ) میں خدمت کی توفیق پا رہے ہیں اور وہاں میدان ِعمل میں ہونے کی وجہ سے جنازے میں شامل نہیں ہو سکے تھے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے۔ مغفرت کا سلوک فرمائے۔ اور ان کی نسلوں کو بھی، اولاد کو بھی ان کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
دوسرا جنازہ مکرم عطاء الکریم مبشر صاحب ابن میاں اللہ دتہ صاحب کِرتو ضلع شیخو پورہ حال کینیڈا کا ہے۔ 13نومبر کو 75سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ مرحوم کے خاندان میں احمدیت آپ کے والد مکرم میاں اللہ دتہ صاحب کے ذریعہ آئی تھی جنہوں نے 1934ء میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی اور پھر احمدی ہونے کے بعد ساری زندگی وقف کی طرح گزاری ۔ہمیشہ تبلیغ کرتے رہے۔ بہت سے خاندان احمدی کیے اور ساری عمر وقف کی روح کے ساتھ جماعت کی خدمت کی۔جب تک آپ پاکستان میں تھےتو لاہور میںمختلف جماعتی خدمات کرتے رہے۔پھر2007ء میں آپ کینیڈا شفٹ ہو گئے۔ وہاں اپنی جماعت میں سیکرٹری اشاعت کے طور پر خدمت کی توفیق پائی۔ ان کو پھیپھڑوں کی بیماری کی وجہ سے مستقل طور پر آکسیجن لگی ہوئی تھی۔جب تک صحت نے اجازت دی اپنی وہیل چیئر پر باقاعدگی سے نماز ادا کرنے کے لیے جایا کرتے تھے۔ بیماری کا بڑی ہمت سے مقابلہ کیا ،کبھی کوئی شکوہ نہیں کیا۔ نظامِ جماعت اور خلافت سے اخلاص اور وفا کا تعلق تھا ۔بڑا محبت کا تعلق تھا ۔بہت ذہین تھے اور صائب الرائے تھے۔ صاف دل اور کھرے انسان تھے۔ ان کے خاندان کا ہر فرد یہ اظہار کرتا ہے کہ میرے ساتھ بہت گہرا تعلق تھا۔ ہر ایک سے مخلص اور نفع رساں وجود تھے کبھی کسی کا گلہ شکوہ نہیں کیا۔ ہر ایک کے ساتھ محبت کا دوستانہ تعلق تھا۔ مرحوم موصی تھے۔ پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ دو بیٹیاں اور دو بیٹے شامل ہیں۔ آپ کے ایک بیٹے عطاء المنان طاہر صاحب مربی سلسلہ ہیں جو آج کل صدر صدر انجمن احمدیہ کے دفتر میں نائب ناظر ہیں اور وہاں ان کو خدمت کی توفیق مل رہی ہے اور ایک پوتے جاذب احمد جامعہ احمدیہ کینیڈا میں زیرِ تعلیم ہیں۔ جماعت کے شاعر عبدالکریم قدسؔی صاحب جو ہیں آپ ان کے بڑے بھائی تھے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند کرے۔ ان کی اولاد کو،ان کی نسلوں کو ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
(الفضل انٹرنیشنل 20؍دسمبر 2019ء صفحہ 5تا9)