اقوام کے کرنے کو ہے تسخیر کا موسم
نہ تیر کا ہے اور نہ شمشیر کا موسم
ہے آج فقط خامہ و تحریر کا موسم
اللہ کا یہ فرمان ملا ’’وسّع مکانک‘‘
ہے اس کے مکانات کی تعمیر کا موسم
اب دیں کی فتوحات مقدر ہیں جہاں میں
ہر سمت ہے تائید کی تقدیر کا موسم
ہیں کام بہت کرنے کو اور وقت ہے محدود
یارو نہیں اب کام میں تاخیر کا موسم
وہ شمس جو چمکا تھا کبھی غارِ حرا سے
ہے آیا اسی شمس کی تنویر کا موسم
اس نور کی برسات میں ہر داغ کو دھولو
ہے روح، نظر، قلب کی تطہیر کا موسم
ہر سمت میں ہونے لگا توحید کا چرچا
ہے چاروں طرف نعرۂ تکبیر کا موسم
وہ جس کی نوشتوں میں ہے مرقوم بشارت
واللہ یہ ہے وہ ہی آخیر کا موسم
آنا تھا جسے آ کے وہ اب جا بھی چکا ہے
اس بات کے کرنے کی ہے تشہیر کا موسم
آباء نے ہمارے جو کبھی خواب بُنے تھے
ہم دیکھ رہے ہیں اُسی تعبیر کا موسم
وہ شخص جسے قوم نے تحقیر سے دیکھا
آیا ہے اب اس شخص کی توقیر کا موسم
ہے ایک نوشتہ سرِ دیوار حقیقت
ہر ملک میں دلدار کی تصویر کا موسم
اٹھو اے جوانانِ مسیحائے زمانہ
اقوام کے کرنے کو ہے تسخیر کا موسم
حیرت ہے کہ ہے شہر کا ہی شہر مسلماں
رہتا ہے وہاں فتویٰٔ تکفیر کا موسم
کب تک چلے گی شہر میں یہ ظلم کی آندھی
کب تک رہے گا نفرت و تحقیر کا موسم
وہ عرش معلی کا خدا دور نہیں ہے
مانگو کہ دعاؤں میں ہے تاثیر کا موسم
ہم نے تو صداقت کا علم تھام لیا ہے
ہم کو نہ ڈرائے گا یہ تعزیر کا موسم
اک زہر ہواؤں میں ہے اور ڈھونڈ رہا ہے
تریاق کا موسم کسی اکسیر کا موسم
خوشبو ہے صبا پھول شجر گاتے پرندے
یوکے میں بھی ہے وادیٔ کشمیر کا موسم
زنداں میں ہے ہلچل سی زمانے میں ہے گردش
اب قید کیا جائے گا زنجیر کا موسم
لکھیں گے حکایات نئی عشق و وفا کی
اب بیت چکا رانجھے کا اور ہیر کا موسم
ہم نے تو ظفؔر گیت وفا کے ہی لکھے ہیں
غالب کا ہو یا میر تقی میر کا موسم