اِک خواب ہے اور مستقل ہے
2006ء میں قادیان دار الامان کے ایک سفر پر جذبات کا اظہار
عبید اللہ علیم ؔصاحب مرحوم کا ایک شعر ہے کہ
اک خواب ہے اور مستقل ہے
وہ شخص نہیں وہ میرا دل ہے
قادیاں جانا میرا خواب تھا جو لمحۂ تعبیر کا متقاضی تھا۔ وہ لمحہ مستقبل میں مقفل تھا ، اور مستقبل کب کسی کے ہاتھ میں ہوا ہے ، کل جانے کیا ہو زندگی کیا روپ بدلے ، کیا جانے وہ لمحہ مقفل ہی رہ جائے اور لمحۂ خواب ہی رہے، لیکن اپنے خداکے نثار اور اس کے انعامات کا شکر گزار ہوں کہ اس نے وہ لمحۂ خواب اصل کر کے دکھا دیااور تمام مراحل قانونی سے گزر کر وہ لمحۂ خواب 21؍دسمبر کی صبح سے تعبیر میں بدلنا شروع ہوا۔ میں جو زندگی کے کئی سال اس بستی کے خواب میں گزار رہا تھا اب اس کی طرف رواں دواں تھا۔ عربی زبان میں ہم سفروں کے لیے ایک محاورہ روزمرہ مستعمل ہے جسے اردو میں ادا کرنا مشکل امر ہے اور وہ ہے رُفَقَاء مُتَوَاصِلِیْنَ ایسے ساتھی جو آپ کے ہم و غم اور مشکل اور آسانی میں آپ کے کام آنے والے ہوں ۔ایسے ہی چند رفقاء مجھے مل گئے۔اور ان کی ہم راہی میں یہ سفر اور بھی خوبصورت ہو گیا۔
ربوہ سے لاہور اور پھر واہگہ اور پھر وہاں سے پاکستانی اور ہندوستانی کسٹم اور امیگریشن کے مراحل سے گزر کر ہندوستان کی سرزمین کے ایک حصے پر قدم رکھا۔یہاں سے سفر کے دوسرے حصے کا آغاز ہوا۔جماعت احمدیہ ہندوستان کی جانب سے استقبال کا انتظام تھا، بعض خدام کی رہ نمائی میں ہم سرحد سے نکل کر وہاں تک پہنچے جہاں سے قادیان کے لیے بسوں کی روانگی کا انتظام تھا۔وہاں پہنچے تو دیکھا ایک جگہ شامیانہ لگا ہوا ہے جہاں چند کرسیاں لگی ہوئی ہیں اور نیچے سبز رنگ کا Carpet بچھا ہوا ہے۔ وہاں کچھ دیر رک کر انتظار کیا تاآنکہ میرے ساتھی بھی آن ملے اور پھر ہم ایک بس میں بیٹھ کر امرتسر اور بٹالہ کے راستے عازم قادیان ہوئے۔
میرے راہوار فکر نے مجھے زمان و مکان کی قیود سے آزاد کرکے ان لمحوں میں لے جا کر کھڑا کر دیا جہاں میں ان ہستیوں کی جستجو اور خیال میں کھو گیا جن کی خاطر میں نے زندگی کے بظاہر کئی برس گزارے لیکن اگر میں فکر اور سوچ کے نگر میں رہوں تو ان میں سے ہر برس کا ایک ایک پل صدیوں پر محیط تھا ایسی صدیاں جو ، جویا رہیں صداقتوں اور محبتوں کی۔ وہ صدیاں جنہوں نے انسان کو انسان کا خون بہاتے دیکھا۔
میری آنکھوں کے گوشوں میں رکے آنسو نجانے کب اپنی جگہ چھوڑ کر میرے گالوں پر بہنے لگے اور بس کی کھڑکی سے آنے والی ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں کے لمس نے مجھے بے اختیار ان کو پونچھنے پر مجبور کر دیا۔
میری آنکھوں کے سامنے وہ تمام مناظر مجسم ہو کر ایک فلم کی طرح گزر رہے تھے اور میں ان مناظر میں اپنی روح کی آنکھوں سے کھویا کھویا دیکھ رہا تھا۔انسانی ذہن اپنے عجائبات کی نیرنگیاں دکھانے میں یکتا ہے۔
کسی نے مجھے ٹہوکا دیا کہ ہم امرتسر سے گزر رہے ہیں لیکن مجھے علم نہیں کہ میری روح کے تار کس جگہ الجھے ہوئے تھے کہ مجھے احساس نہیں ہوا کہ کب بٹالہ آیا اور کب ہم قادیان کے قرب میں ہونے لگے ایک دُور سے آتی آواز نے میری سماعت سے گزر کر میرے ذہن کے دریچوں کو زمان و مکان میں حاضر کر دیا اور میری نظر نے اس سفید مینار کو پا لیا جہاں روح عصر نے اتر کر بنی نوع انسان کے درد کا درماں کیا تھا۔
مینار جو علامت ہے دل کا، مینار جو علامت ہے اعلان کا، سفید مینار جو علامت ہے امن کا اخوت کامحبت کا وہ مینار ابیض جس کا ذکر دمشق کے شر ق میں کیا گیا ہے آج میں اس مینار کو دیدۂ دل سے نہیں بلکہ دیدۂ بینا سے دیکھتا ہوا اور زیر لب دعا کرتا ہوا اس کے قریب ہوتا چلا جا رہا تھا اور پھر وہ لمحہ جانفزا بھی آگیا کہ روح سرشاری اور سر مستی کی ایک ایسی کیفیت میں چلی گئی کہ جس کی لذت مجھے اس لمحے میں بھی محسوس ہورہی ہے۔ ایک ایسا لطف جس کی لذت کو سمجھنا اور محسوس کرنا بہت ہی مشکل ہے۔
مجھ جیسے کم ترکو جسے الفاظ کے برتنے اور حرفوں کو سمجھنے کا خیال تھا وہاں جا کر تمام الفاظ ہو ا ہو گئے اور حرف عنقا ۔ میرے اندر جیسے ایک برق سی جاگ اٹھی اور میں اپنے وجود میں ایک فخر کا ، ایک عجزکا عجیب دورنگااحساس محسوس کر نے لگا ۔ فخر تو یہ حاصل ہوا کہ میں بھی اس زمین کی مٹی پر اپنے قدم رکھنے والا تھا جسے کبھی ایک مسیحا کے قدموں نے برکت بخشی تھی اور عجز یہ کہ کہاں یہ گنگو تیلی جس کا وجود ایک ناکارۂ محض ہے ان وجودوں کے قدموں کی خاک سے لپٹنے والا ہے ۔اپنے اندر کی کیفیت میں دل کو ہاتھ میں تھامے میں بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ سرائے طاہر میں جا پہنچا جس کی بلند و بالا او ر خوبصورت عمارت یقینا ًاس وجود کی خوبصورتی کا ایک عکس اپنے اندر لیے ہوئے ہے جس کے نام سے یہ منسوب ہے ۔
سرائے طاہر سے اپنے ایک دوست اور محب باجوہ صاحب کی تگ و دو کے نتیجے میں ہم دارالضیافت میں چلے آئے جو دارالمسیح کے بالکل سامنے واقع ہے ۔ تاریخ احمدیت سے واقفیت رکھنے والے لنگر خانہ مسیح موعود علیہ السلام کی تاریخ سے خوب واقف ہیں ۔مسیح پاک کے گھر سے شروع ہونے والا یہ دسترخوان اب لاکھوں گھروں کے دسترخوان میں بدل چکا ہے ۔اس لنگرخانے کی روایت اور تقدس اور اس کی عظمت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ یہ مسیح محمدی کی صداقت کا ایک زندہ اور پائندہ نشان بن چکا ہے۔کہاں وہ وجود جس سے اس کے اہل خانہ بھی باخبر نہیں تھے اورا س کو روٹی دینا بھی بھول جاتے تھے اور اب لاکھوں لوگوں کے لیے اس کا دسترخوان وسیع ہو چکا تھا۔
میں بھی اپنے دوستوں کے ساتھ اس دسترخوان میں شریک رہا ۔
جب دل کچھ سنبھلا اور روح کے تار وں کی جھنجھناہٹ کو سکون ملا تو میں اپنے قدموں پر آہستہ آہستہ چلتا ہوا اس چاردیواری تک آیا جہاں وہ سرمدی اور الوہی نغموں کاخالق مغنی محو استراحت ہے جس نے وہ نغمۂ سرمدی چھیڑا جس کی تانیں آج کائنات کی پنہائیوں کو چیرتی ہوئی لامکاں کی وسعتوں سے گزر کر ہر اس سماعت تک پہنچ رہی ہیں جو اس کو سننے کے لیے کان رکھتا ہے ۔
میں اس محو استراحت کے پھولوں اور سبزے سے گھرے سادہ مٹی سے بنے گھر کے کنارے کھڑا اپنے ہاتھ دعا کے لیے اٹھائے ہوئے یہ دعا کرتا رہا کہ ‘‘اے احمد علیہ السلام تجھ پر محمدﷺ کا سلام جس نے ہمیں تیرے دامن سے وابستہ ہونے کا حکم دے کر ہم پر ہماری نسلوں پر احسان کر دیا۔اگر آج میں اور میرےاہل تیرے دامن سے وابستہ نہ ہوتے تو ہم بھی اس جم غفیر کا حصہ ہوتے جن کی مثال بکریوں کے اس ریوڑ کی ہے جن کا کوئی چرواہا نہیں اور جن کو جب بھی چاہے کوئی بھیڑیا اچک لیتا ہے۔’’
میں بہشتی مقبرہ میں پھیلی قبروں کے بیچوں بیچ پھرتا رہا اور ہر قبر پر رک کر سوچتا رہا ، ہر قبر ہی ایک تاریخ ہے ایک واقعہ ہے ایک کتاب ہے ، ایک مہمیز ہے اس راہوار کے لیے جو سلو ک کی منزلوں کی طرف چلنا چاہتا ہے ۔
چلتے چلتے میں اس دفتر پہنچا جہاں اس بہشتی مقبرہ میں مدفون لوگوں کے ناموں کا رجسٹر رکھا ہے ۔ وہاں موجود ایک شخص سے پوچھا کہ مولوی نور احمد صاحب کی قبر کہاں ہے اس نے رجسٹر میرے آگے رکھ دیا اور پھر چند ہی لمحوں میں مَیں مولوی نور احمد صاحب آف لودھی ننگل کی قبر پر کھڑا تھا۔آپ میرے جد امجد ہیں یعنی میرے پڑ دادا۔
میں نے اس قبر پر دعا کر نے کی غرض سے ہاتھ اٹھائے اور میرا د ل اس وجود کے لیے شکر کے جذبات سے بھر گیا جس نے میرے خاندان کو احمدیت اور پھر خلافت کے ساتھ وابستہ کر دیا۔
آپ کے والد کا نام مولوی اللہ دتہ لودھی ننگل تھا۔ جو اصل میں تیجہ کلاں کے رہنے والے تھے ۔ اور مذہبا ًاہل حدیث تھے ۔مولوی اللہ دتہ صاحب کو سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے بچوں مرزا سلطان احمد اور مرزا فضل احمد کی تعلیم کے لیے بطور اتالیق رکھا تھا ۔ لیکن حیاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مسئلہ پرایک علمی اختلاف کی وجہ سے آپ جلد ہی قادیان چھوڑ کر چلے گئے۔ا ور لودھی ننگل جا کر ایک منظوم فارسی خط حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں لکھا جس کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا منظوم جواب دیا جو آپ کے ابتدائی فارسی کلام درمکنون میں چھپا ہوا موجود ہے۔ اس کا ذکر مکتوبات احمد جلد پنجم کے صفحہ 209سے 216تک ہے۔ آپ کے بیٹے حضرت مولوی نور احمد صاحبؓ بھی ابتدا میں مخالفت میں پیش پیش رہے اور ایک کتاب بھی ازالہ ٔاوہام کے جواب میں بعنوان تحقیق الکلام فی اثبات حیات مسیح علیہ السلام لکھی جس کے دو جز چھپ چکے تھے اور تیسرا چھپنے جا رہا تھا کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے انفاس قدسیہ کے طفیل آپ کے حلقۂ بیعت میں داخل ہو گئے۔آپ کی فطرت پا ک اور طبعاً سعادت مند تھی ۔جب مولوی محمد حسین بٹالوی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی پر آپ کے خلاف فتویٰ ٔکفر لکھا تو آپ کو بھی دستخط کرنے کو کہا جس پر آپ نے انکار کیا ور ایک خط مولوی محمد حسین بٹالوی کے نام لکھا جس میں اس انکار کی وجوہات لکھیں جو الحکم کی اولین اشاعت اکتوبر 1897ءکے پہلے پرچے میں ایڈیٹر الحکم کے اس نوٹ کے ساتھ شائع ہوا کہ مولوی صاحب نے یہ خط اس وقت لکھا جب آپ نے ابھی بیعت نہیں کی تھی۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ مولوی محمد حسین صاحب نے اشاعۃ السنۃ کی ایک اشاعت میں اس کتاب کی اشاعت کا ذکر کیا اور مولوی نور احمد کو اپنا اقراری شاگرد قرار دیا۔ یہ رسالہ مدت تک میں نے اپنے دادا حکیم برکت اللہ صاحب آف سانگلہ ہل کے پاس دیکھا اور یہ عبارت ان کے ہاتھ سے خط کشیدہ دیکھی تھی لیکن نہ معلوم وہ رسالہ کہاں چلا گیا۔
بہشتی مقبرہ میں دعا کرنا ایک عجیب روحانی تجربہ ہے جسے لفظوں میں بیان کرنا نا ممکن ہے جو محسوسات کی دنیا سے ماورا ایک اور دنیا کی طرف روح کو لے جاتا ہے ۔
قادیان کی مٹی پر پڑتے قدموں کے ساتھ اس بات کا احساس کہ یہ وہ زمین ہے جہاں قدم قدم پر اس مسیحا نفس وجود کے قدم پڑے ہوں گے بے اختیار آنکھیں نم ہو جاتی ہیں ۔دارالمسیح سے نکلنے والا ہر راستہ اور ہر گلی اس بات کا احساس دلاتی ہے کہ یہ وہ گلیاں اور دوارے ہیں جہاں ایک ایسا وجود اپنی زندگی بسر کرتا رہا ہے جس کا ہر تار نفس اپنے آقا ومولا کے عشق میں لپٹا ہوا تھا ، جس کے قلم سے وہ معجز نما تحریریں نکلیں جس نے اس وقت معلوم مذہبی دنیا میں ایک زلزلہ برپا کر دیا،اس کے نفس نفس میں اس آنے والے انقلاب کی نوید تھی جس نے بنی نوع انسان کو محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن سے وابستہ کرنا ہے۔قادیان ایک چھوٹی سی بستی جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک قصبے کا روپ دھار چکی ہے دسمبر کے آخری دنوں میں دنیا بھر سے آنے والے احمدیوں کے دل کی دھڑکن بن جاتی ہے۔ہر تشنہ روح وہاں جانے کے لیے بے قرار ہوتی ہے ۔
قادیاں جس کی احمدی آبادی 1947ء میں ہونے والی تقسیم ہند کے بعد سمٹ کر ایک محلے تک محدود ہو گئی تھی اب پھر ترقی کی منازل طے کرنے لگا ہے ۔خلافت خامسہ کے با برکت دَور میں ہونے والی توسیعات نے قادیان کو ایک نئے رنگ میں رنگ دیا ہے اس کے چہرے کو نکھار دیا ہے ۔
میں ان چیزوں کو دیکھتا ہوا اور سراہتا ہوا ادھر سے ادھر گھومتا رہا۔میری تمام تر گردش کا مرکز لنگر خانہ کی عمارت سے دارالمسیح، مسجد مبارک جس کا ذکر خدا نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام میں اس طرح بتایا ہے
‘‘مُبَارِکٌ وَّ مُبَارَکٌ وَّ کُلُّ اَمْرٍ مُبَارَکٍ یُّجْعَلُ فِیْہِ
یعنی یہ ……مسجد برکت دہندہ اور برکت یافتہ ہے اور ہر ایک امر مبارک اس میں کیا جائے گا،،
(براہین احمدیہ حصہ چہارم روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ667)
پھر آپ کو یہ بتایا گیا کہ اُس یعنی خدا نے تجھے بیت الفکر اور بیت الذکر عطا کیا اور بیت الذکر سے مراد یہی مسجد مبارک ہے جو دار المسیح سے متصل ہے اور اس کے بارے میں بتایاکہ جو شخص اس بیت الذکر میں باخلاص و قصد تعبد و صحت نیت و حسن ایمان سے داخل ہو گا وہ سوئے خاتمہ سے امن میں آجائے گا بیت الفکر سے مراد اس جگہ وہ چوبارہ ہے جس میں یہ عاجز کتاب کی تالیف میں مشغول رہا ہے اور رہتا ہے اور بیت الذکر سے مراد وہ مسجدہے کہ جو اس چوبارہ کے پہلو میں بنائی گئی ہے۔
آج جب میں قادیان کی مبارک اور برکتوں سے بھری زمین میں ایک کمرے میں اس بابرکت بیت الذکر کے پہلو میں موجود ہوں تو میرے دل کی دھڑکنیں لمحہ بہ لمحہ بڑھ جاتی ہیں اور کبھی کبھی یوں لگتاہے کہ وقت اس لمحے میں مقید ہو کر رہ گیا ہے۔
میرے محسوسات مجھے ان لمحوں میں لے جاتے ہیں جب ایک ہندو نوجوان نے اس قصبے کا سفر کیا تھا اور اپنی سعادت کی بدولت احمدیت کے دائرے میں داخل ہو کر عبدالرحمان کا نام پایا اور سلسلہ احمدیہ کی تاریخ میں آج تک بھائی عبدالرحمٰن قادیانی کے نام سے معروف ہے ۔اس نے اس وقت اس قصبے کی حالت زار کا بیان کیا تھا اور پھر آج کا قادیان جو بجلی کے قمقموں سے سجا ، صاف ستھرا اور خوبصورت ، یہاں پھرنے والا ہر وجود یوں لگتا تھا کہ وہ اخلاص اور محبت کی مٹی سے گوندھا گیا ہو۔
قادیاں ایک نام نہیں یہ ایک روایت ہے، یہ ایک پیغام ہے امن و امان کا ، یہ ایک سلسلہ ہے محبتوں اور پیار کا ، یہ قطبی تارہ ہے ان بھٹکی روحوں کے لیے جو نفسانی خواہشات کی تاریک راتوں میں بھٹک جاتےہیں۔ یہ ایک آدرش ہے ، یہ ایک منزل ہے یہ ایک کتھا ہے جو محبتوں اور پیار کے جذبوں سے گوندھی گئی ہے۔
٭…٭…٭